یادش بخیر ۔ غالباً ۶۸۔۱۹۶۷ء؁ میں کسی جلسہ کے موقعہ پر ملتان میں والد گرامی حضرت مولانا عبد العزیز سعید ی رحمہ اللہ کی معیت میں ایک اللہ کے ولی اور ربانی عالم کی زیارت کا شرف حاصل ہوا۔ میانہ قد, سادہ لباس,بزرگی اور بڑھاپے کے اثرات اور چہرہ نورانی ۔راقم کو وہ منظر خوب یادہے۔ دونوں دوست بڑی الفت سے ملے , خیر وعافیت دریافت کی اور کچھ باتیں کرتے رہے۔ بعد میں ابا جان نے ان کے متعلق بتایا کہ یہ مولانا عبد القادر ہیں جو چک لوہاراں (بہاولپور) کے رہنے والے ہیں۔ ایک بار میں قرض کے سخت دباؤ میں آیا ہوا تھا ۔ اور اپنی مشکل میں بہت زیادہ دعائیں کرتا تھا اور آیت کریمہ

{ لاَ اِلٰہَ اِلاَّ أَنْتَ سُبْحَانَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْنَ}کا وظیفہ بھی کیا کرتا تھا۔(سورۃ الأنبیاء میں ہے {وَذَا النُّونِ اِذْ ذَھَبَ مُغَاضِباً فَظَنَّ أَنْ لَّنْ نَقْدِرَ عَلَیْہِ فَنَادَی فِی الظُّلُمَاتِ أَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلاَّ أَنْتَ سُبْحَانَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْنَ فَاسْتَجَبْنَا لَہ وَنَجَّیْنٰہُ مِنَ الْغَمِّ وَکَذٰلِکَ نُنْجِی الْمُؤْمِنِیْنَ }(سورۃ الأنبیاء:88-87)

’’مچھلی والے (یونس علیہ السلام ) کا ذکر کیجئے ، جب وہ غصہ میں بھرے ہوئے(بستی کو چھوڑ کر) چلے گئے، انہوں نے گمان کیا کہ ہم ان کی گرفت نہ کریں گے پھر انہوں نے اندھیروں میں پکارا

{ لاَ اِلٰہَ اِلاَّ أَنْتَ سُبْحَانَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْنَ}؎

تیرے علاوہ کوئی الٰہ نہیں تو پاک ہے ، میں ہی قصور وار ہوں۔ تب ہم نے ان کی دعا قبول کرلی اور انہیں غم سے نجات دی،اور ہم اسی طرح ایمان والوں کو نجات دیا کرتے ہیں۔‘‘

میں نے اپنی مشکل سے انہیں آگاہ کیا اور کوئی مجرب عمل یا وظیفہ دریافت کیا تو انہوں نے اس ورد کی توثیق فرمائی اور فرمایا کہ اس کا وقت بدل لیں ۔ ابا جی کہتے ہیں کہ میں یہ نماز فجر کے بعد پڑھا کرتا تھا ۔ مولانا عبد القادر رحمہ اللہ نے فرمایا کہ قبل از فجر یعنی نماز تہجد کے وقت پڑھا کریں۔ کہتے ہیں کہ میں نے اسی طرح کیا تو اللہ نے جلدی میرا وہ قرض اتاردیا۔

شیخ موصوف ایک ربانی عالم تھے۔ ہمارے شیخ مولانا سلطان محمودaصاحب محدث جلال پور پیروالا سے ان کے بڑے گہرے روابط تھے۔ فضیلۃ الاستاذ مولانا محمد رفیق صاحب الاثری d نے شیخ سلطان محمود صاحب a کی سوانح عمری(اثری ادارہ نشروتالیف جلال پور پیروالا ملتان کی طرف سے مطبوع ہے اور قابل مطالعہ کتاب ہے) میں مولانا عبد القادرa کا تذکرہ وتعارف کرایا ہے۔ جو ان کے شکریہ کے ساتھ ہدیہ ناظرین ہے(عنوانات اور قوسین میں اضافہ جات مقتبس کی طرف سے ہیں) اس میں میرے جیسے بہت سے احباب اور طلبہ کیلئے معتبر نمونہ ہے۔(ع۔ف۔س)

مولانا عبد القادر :

ریاست بہاولپور میں مبارک پور ایک قدیمی قصبہ ہے۔ اس کے قریب ایک ’’چک لوہاراں‘‘ ہے جو مولانا عبد القادرa کی جائے پیدائش ہے ، ریاست کے قدیمی نظام قضا سے متعلق ایک خاندان کے فرد قاضی غلام فرید کے پاس مولانا نے ابتدائی تربیت اور فقہ ومتعلقہ علوم میں دسترس حاصل کی۔ ان کے دوبھائی اور بھی تھے، چھوٹے بھائی کا نام مولوی عبد المالک تھا۔ حنفیت میں تینوں متشدد تھے اور ایک دوسرے کو منع کرتے کہ مولوی عبد الحق یعنی مولانا ابو محمد عبد الحق ہاشمی مھاجر مکی a (آنجناب اپنے نام کے ساتھ’’الحدیثی الآثاری‘‘ بھی لکھا کرتے تھے) غیر مقلد کے پاس نہیں جانا۔ اتفاقاً مولانا عبد القادر aکو کسی موقع پر اسی غیر مقلد کی باتیں سننے کا موقع مل گیا جو دل کی گہرائیوں سے نکلیں اور اثر انداز ہوئیں۔

مولانا نے فیصلہ کرلیا کہ علم حدیث اسی شخص کے پاس درساً پڑھنا ہے۔ کتب صحاح ستہ کا درس لیا اور پھر مسلک عمل بالحدیث کے داعی بن گئے۔ محدث جلالپوری رحمہ اللہ کے قریبی دوست تھے اور ہر سال ملاقات کے لئے جلالپور تشریف لاتے، یوں ہمیں بھی زیارت کا موقع ملتا تھا۔ محدث جلالپوری رحمہ اللہ ان کے کھانے کا انتظام اپنے گھر پر کرتے تھے ۔ وہ خود کھانا لاتے اور اپنے مخلص ساتھی کی خدمت میں پیش کرتے تھے۔

انگریز سے عداوت :

مزاج کی سادگی کے حامل تو تھے ہی لباس بھی سادہ زیب تن کرتے تھے۔ انگریزی مشینوں کا بنا ہوا کپڑا پہننا کبھی گوارہ نہ کیا۔ ہم نے انہیں ہمیشہ دستی کھڈیوں پر بنا ہوا کھدر کا موٹا کپڑا پہنے دیکھا۔ شلوار نصف پنڈلی تک ہوتی تھی، سر پر مختصر سی پگڑی اور جسم پر سرائیکی وضع کا چولا زیب تن ہوتا۔

علمی مشاغل :

سندورجال پر گہری نظر تھی۔ معجم صغیر کی تبویب بھی کی تھی اور مؤطا محمد کے رجال کی فہرست بھی ان کے ہاتھ کی مرتب شدہ راقم نے دیکھی ہے۔ بائیبل کا مطالعہ انہوں نے گہری نظر سے کیا تھا اور جہاں جہاں عہد نامہ قدیم وجدید میں اسماء وصفات وعبودیت میں اللہ سبحانہ وتعالی کی توحید کا ذکر ہے، اس پر مشتمل ایک کتاب بھی مرتب کی تھی ۔ انہوں نے مجھے بتایا:

’’یہ کتاب مجھ سے مولوی عبد القادر آزاد نے جو بہاولپور میں مقیم تھے نے لی اور ’’حاصل مطالعہ‘‘ کے نام سے طبع کرائی مگر اس پر مؤلف کی حیثیت سے انہوں نے اپنانام لکھ دیا۔‘‘ (علمی سرقات کی عجیب عجیب مثالیں تاریخ میں پائی گئی ہیں۔وعفا اللہ عنا وعنہم اجمعین]

راقم نے یہ مطبوعہ کتاب ان کے پاس دیکھی تھی جس پر واقعی مولانا عبد القادر آزادa نے اپنا نام درج کررکھا تھا اور دیباچے میں صرف یہ لکھا کہ اس کتاب کی ترتیب میں مولانا عبد القادر چک لوہاراں نے میرے ساتھ تعاون کیا ہے۔

راقم نے مولانا سے عرض کیا کہ آپ ان سے احتجاج کریں تو فرمایا : نہیں! اللہ کے ہاں تو میرا اجر محفوظ ہے، اس کو سب کا علم ہے۔ بہاولپور میں مقیم تھے تو مولانا کبھی کبھی اتوار کے روز عیسائیوں کے چرچ بھی جاتے تھے تاکہ ان کے انداز تبلیغ کا مطالعہ کریں۔ بعض مسلمان جو نافہمی میں عیسائیت کے قریب ہورہے تھے، مولانا کی مساعی سے راسخ مسلمان بن گئے۔ حق بات کہنے میں مولانا بے باک اور ’’لا یخافون لومۃ لائم‘‘ کی زندہ تفسیر تھے۔ (عیسائیوں کو وعظ وتبلیغ سے ہم لوگ بہت زیادہ غافل ہیں ضرورت ہے کہ اس طرف بھی توجہ کی جائے)۔

ھل فیکم عبد القادر؟

سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ کی خطابت سے کون واقف نہیں،دوران خطابت مرحوم نے ایک روایت کا ترجمہ اپنے مخصوص انداز میں کیا تو مولانا عبد القادر رحمہ اللہ نے اسی وقت توجہ دلائی کہ شاہ صاحب یہ روایت سنداً ضعیف ہے، یہ بات رسول اللہ ﷺ نے ارشاد نہیں فرمائی۔ مولانا عبد القادر رحمہ اللہ کے خلوص نے اثر دکھایا۔ شاہ صاحب بہت خوش ہوئے، اللہ کے حضور معذرت کی اور مولانا کا شکریہ ادا کیا کہ آپ نے میری راہنمائی کی۔ کئی مقامی احباب نے بتایا کہ مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری a جب بھی اس علاقے میں تشریف لاتے تو اپنے مخصوص لہجے میں بلند آواز سے فرماتے ’’ہل فیکم عبد القادر‘‘ کیا تم میں عبد القادر ہے؟ میں کوئی غلط بات نہ کہہ بیٹھوں۔

امر بالمعروف پر عمل :

احمد پور شرقیہ کی جماعت اہل حدیث کے ارکان غزنوی خاندان کے ایک عظیم فرزند مولانا محمد اسماعیل غزنوی رحمہ اللہ کے استقبال کے لئے اسٹیشن پر جمع تھے۔ ان میں مولانا عبد القادر بھی تھے۔ مولانا اسماعیل غزنویa تشریف لائے تو باری باری سب سے معانقہ ومصافحہ فرمایا۔ مولانا سے معانقہ ہواتو مولانا عبد القادرa نے چپکے سے ان کے کان میں حدیث ’’أُعْفُوْا اللُّحَی‘‘سنائی کیونکہ سید غزنوی رحمہ اللہ کی داڑھی اطراف سے ترشی ہوئی تھی۔ سید صاحب رحمہ اللہ بہت خوش ہوئے اور اصلاح کا وعدہ فرمایا۔

مولانا جلالپور تشریف لاتے تو کوئی بار ایسا ہوتا کہ ہمسایہ میں کوئی سالانہ جلسہ یا عرس ہورہا ہوتا، وہاں چلے جاتے۔ (مقابل کا نقطہ نظر جاننے کیلئے یہ عمل بہت ضروری ہے۔ محض سنے سنائے پر انحصار کافی نہیں ہوتا) اگر کسی عالم کی طرف سے غلط یا موضوع روایت بیان ہوجاتی تو اسی وقت مقرر کو اس کی غلطی سے آگاہ کرنا ضروری سمجھتے تھے۔ ان کا انداز تفہیم اس قدر مہذب اور سلجھا ہواہوتا تھا کہ بعض اوقات مقرر معذرت کا انداز اختیار کرلیتے اور بعض اوقات ایسا بھی ہوا کہ منتظمین مجلس سے اٹھا کر اس برگزیدہ عالم کو باہر چھوڑ گئے کہ یہ رنگ میں بھنگ ڈالتا ہے۔

جنوں کا نکاح پڑھایا:

ایک دفعہ مولانا نے ہمیں بتایا کہ ایک رات میں احمد پور شرقیہ کی مسجد اہل حدیث ٹاہلیاں والی میں کچھ ساتھیوں کے ہمراہ سویا ہوا تھا کہ دو آدمی آئے اور کہا ہماری بچی کی شادی ہے، نکاح پڑھانے کیلئے تشریف لے چلیں۔ میں ان کے ساتھ ہولیا۔ وہ مجھے مسجد سے مشرق کی طرف ایک جگہ لے گئے جہاں لوگ خوشیاں منارہے تھے۔ دولہا موجود تھا مجلس نکاح منعقد ہوئی مٹھائی تقسیم ہوئی پھر وہ لوگ مجھے واپس مسجد تک چھوڑ گئے۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو پورا منظر غائب تھا۔ ان کا بیان تھا کہ غالباً مسلمان جنات کی شادی کی رسم تھی۔ مولانا کے فرزند عبد اللہ نے بھی ہمارے سامنے اس کی تائید کی کہ ایسا ہوا تھا۔

اپنے گاؤں کی مسجد میں ان کا معمول تھا کہ صبح درس قرآن ارشاد فرماتے تو نماز عشاء کے بعد درس حدیث مبارک دیتے تھے۔ روزی کے انتظام کے لیے گھی کی تجارت کرتے تھے۔ بستیوں میں قابل اعتماد ساتھیوں سے گھی خریدتے ، اکٹھا کرتے اور شہروں میں جاکر فروخت کرآتے۔ شہر کے لوگ پورے اعتماد کے ساتھ ان سے خالص دیسی گھی خریدتے تھے۔ انہیں دیسی گھی کی پہچان میں بڑی مہارت تھی۔   خرید وفروخت کے اس سفر میں وہ تبلیغ دین اور اظہار کلمہ حق سے کبھی غافل نہ رہتے۔ 87 سال کی عمر میں 17 ستمبر1971ء کو فوت ہوئے۔ ہمیں ایک ہفتہ بعد اطلاع ہوئی تو شیخ محترم قاضی محمد عمر دین پوری اور راقم الحروف گھوڑیوں پر سفر کرکے ان کی بستی پہنچے، ان کے صاحبزادوں سے اظہار افسوس کیا۔ پوری بستی کے لوگ ان کی وفات سے غمگین تھے کہ ہم اللہ کے ایک ولی اور زاہد وسالک شخصیت سے محروم ہوگئے ہیں۔ پسماندگان میں پانچ بیٹے اور دو بیٹیاں چھوڑیں۔

لوگوں نے ہمیں بتایا کہ ان کا ایک فرزند کسی مقدمہ میں پھنس گیا، مقدمہ سچائی پر مبنی تھا، مخالف فریق نے عدالت میں کہا کہ اگر ان کا والد یہ کہہ دے کہ میرا بیٹا اس جرم میں ملوث نہیں ہے تو ہم مقدمہ واپس لے لیں گے۔ مولانا کی طلبی ہوئی۔ عدالت کے استفسار پر فرمایا: اس معاملے میں میرا بیٹا قصوروار ہے۔ اسے قانون کے مطابق سزا دی جائے۔ اس فدائے صداقت کی یہ گواہی سن کر عدالت کا جج سناٹے میں آگیا اور حاضرین دم بخود رہ گئے۔ انہیں یوں محسوس ہوا جیسے ماضی کا غبار چھٹ گیا ہے۔ اور ان کے سامنے قرن اول کی کوئی برگزیدہ ہستی جلوہ نما ہوگئی ہے۔ جسے سچائی کی عظمت کے آگے اپنے لخت جگر کی بھی پرواہ نہیں ہے۔ یکایک جج مولانا کے بیٹے سے مخاطب ہوا کہنے لگا: تم کتنے جلیل القدر باپ کے بیٹے ہو، تمہیں شرم آنی چاہیے اور پسر نوح بننے سے گریز کرنا چاہیے۔ اس تنبیہ کے بعد جج صاحب نے یہ مقدمہ قانون کے مطابق نمٹادیا۔

دار الحدیث محمدیہ جلالپور اور محدث جلالپوری رحمہ اللہ کے ساتھ خصوصی لگاؤ ہی کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے اپنی ساری کتابیں مدرسے کی لائبریری کے لئے وقف فرمادیں جو اس عظیم ادارے کے لیے باعث فخر ہیں۔ اللہ سبحانہ وتعالی اپنے اس ولی کی قبر کو منور فرمائے۔ آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے