مروجہ مرابحہ کا شرعی حکم:
یہ صورت چونکہ شرعی مرابحہ سے بالکل مختلف ہے اس لیے اس کو شرعی مرابحہ کی بنیاد پر جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس کا جواز اس بات پر موقوف ہے کہ یہ پوری طرح شرعی اصول سے ہم آہنگ ہے یا نہیں؟
جیسا کہ گزشتہ سطور میں بیان ہوا کہ مرابحہ کی بنیاد پر بیچی جانے والی چیز نہ تو پہلے سے بینک کے پاس موجود ہوتی ہے اور نہ ہی بینک براہ راست خریدتا ہے بلکہ وہ کلائنٹ سے کہتا ہے کہ آپ میرے ایجنٹ کی حیثیت سے یہ چیز خود خرید لیں۔ لہذا مناسب ہوگا کہ مرابحہ کی مختلف صورتوں کا الگ الگ حکم بیان کرنے سے قبل کلائنٹ کو وکیل بنانے کی شرعی حیثیت واضح کردی جائے۔
کلائنٹ کے ذریعے خریداری کی شرعی حیثیت:
اس امر پر سب متفق ہیں کہ مرابحہ ایک جائز طریقہ تجارت تو ہے مگر یہ طریقہ تمویل نہیں ہے۔ لہذا اسے اس طرح انجام دینا کہ یہ عام بیع کی بجائے سودی لین دین کا معاملہ نظر آئے درست نہیں۔ کلائنٹ کو خریداری کا ایجنٹ بنانے میں سودی لین دین کے ساتھ مشابہت بالکل واضح ہے اس لیے موجودہ اسلامی بینکوں کے حامی بھی اس کی اجازت نہیں دیتے۔ چنانچہ ’’المعاییر الشرعیۃ‘‘ میں ہے۔ ’’الاصل ان تشتری المئوسسۃ السلعۃ بنفسھا مباشرۃ من البائع ویجوزلھا تنفیذ ذلک عن طریق وکیل غیر الآمر بالشراء ولا تجعل لتوکیل العمیل (الآمر بالشراء) الاعند الحاجۃ الملحۃ)[ص۱۱۲]
’’اصل یہ ہے کہ بینک فروخت کنندہ سے براہ راست خود سامان خریدے۔ اور بینک ایجنٹ کے ذریعے بھی خرید سکتا ہے مگر وہ ایجنٹ کلائنٹ کے علاوہ کوئی دوسرا ہونا چاہیے ناگزیر صورت کے علاوہ کلائنٹ کو ایجنٹ نہیں بنانا چاہیے۔‘‘
اسلامی بینکاری کے لیے سر گرم عمل مولانا تقی عثمانی dصاحب لکھتے ہیں:
’’کلائنٹ کو وکیل بنادینا تاکہ وہ تمویل کار کی طرف سے اس چیز کو خرید لے مرابحہ کو مشتبہ بنا دیتا ہے اس وجہ سے بعض شریعہ بورڈز نے اس تکنیک کو ممنوع قرار دے دیا ہے۔‘‘ [اسلامی بینکاری کی بنیادیں:ص 164]
طرفہ تماشا یہ ہے کہ تقریبا تمام اسلامی بینک اسی تکنیک کو اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اب ذیل میں شرعی اصول کی روشنی میں اس کی مختلف صورتوں کا الگ الگ حکم بیان کیا جاتا ہے۔
پہلی صورت:
اس معاملہ کی پہلی صورت یہ ہے کہ بینک کیساتھ کیے ہوئے وعدہ کی پابندی فریقین کے لیے لازم ہو کہ بینک ہرصورت سامان دینے اور کلائنٹ خریدنے کا پابند ہو۔ یہ صورت عملًا بیع ہی کی ہے جو شرعی اصول سے متصادم ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے۔
چنانچہ ڈاکٹر محمد سلیمان الاشقر لکھتے ہیں:
’’واذا تم ھذا فان الاتفاق فی الحقیقۃ ھو عقد لان مافیہ من اتفاق اراد تین علی انشاء حق فھو عقد بلاریب ولوسمی وعدا فھو عقد ایضا فاذا جری الاتفاق علی ھذہ الطریقۃ فھوعقد باطل و حرام لاسباب‘‘ [بحوث فقہیۃ فی قضاء اقتصادیۃ معاصرۃ: ج ۱ ص ۸۲]
’’جب یہ معاملہ پورا ہو جائے تو یقینا یہ ایگریمنٹ در حقیقت عقد ہے۔ کیونکہ دو ارادوں کا ایک حق کو وجود میں لانے پر اتفاق بلاشبہ عقد ہے اگرچہ اسے وعدے کا نام بھی دیا جائے پھر بھی یہ عقد ہے جب ایگریمنٹ اس طریقے کے مطابق پورا ہو تو وہ چند اسباب کی بناء پر باطل اور حرام ہے۔‘‘
وہ کون سے شرعی اسباب ہیں جن کی بنیاد پر یہ عقد حرام قرار پاتا ہے اس کی وضاحت میں شیخ اشقر فرماتے ہیں:
٭اس کے حرام ہونے کا پہلا سبب یہ ہے کہ بینک کلائنٹ کو ایک ایسی چیز بیچ رہا ہے جو ابھی تک اس کی ملکیت نہیں حالانکہ نبیﷺ نے اس چیز کی بیع کی ممانعت فرمائی ہے جو قبضے میں نہ ہو۔ اور آپﷺ نے اس بیع سے بھی منع فرمایا ہے کہ ایسی چیز آگے بیچی جائے جو انسان کے پاس موجود نہ ہو۔
٭بینک نے معلق (contingent) بیع کی ہے کیوں کہ کلائنٹ بینک سے یہ کہتا ہے کہ اگر تم اس کو خرید لو تو میں تم سے لے لوں گا جبکہ شرعی طور پر بیع معلق صحیح نہیں ہے۔
٭اس کی حرمت کا تیسرا سبب یہ ہے کہ یہ سود پر قرض دینے کا حیلہ ہے۔
٭اگر بیچی جانے والی چیز کا تعلق غذائی اشیاء سے ہو تو اس میں ممانعت کا چوتھا سبب بھی شامل ہو جاتا ہے۔ جس کی طرف امام ابن عبدالبر aنے اشارہ کیا ہے کہ نبیﷺ نے طعام کی بیع سے منع فرمایا حتی کہ تاجر اسے اٹھا کر اپنے ٹھکانوں پر لے جائیں۔ [بحوث فقیھۃ فی قضایا اقتصادیۃ معاصرۃ: ج۱]
علاوہ ازیں یہ آنحضرتﷺ کے اس ارشاد کے بھی مخالف ہے۔
(البیعان بالخیار مالم یتفرقا) [صحیح بخاری: کتاب البیوع، باب کم یجوز الخیار]
’’الگ ہونے تک بائع و مشتری دونوں کو (فسخ بیع) اختیار ہوتا ہے۔‘‘
لیکن بینک میں مروجہ مرابحہ میں یہ اختیار سلب کر لیا جاتا ہے۔
امام شافعیa فرماتے ہیں:
’’واذا أری الرجل الرجل السعلۃ فقال اشتر ھذہ واربحک فیھا کذا فاشتراھا الرجل فالشراء جائز والذی قال اربحک فیھا بالخیار ان شاء أحدث فیھا بیعا وان شاء ترکہ وھکذا ان قال اشترلی متاعا ووصفہ لہ او متاعا ای متاع شئت وانا اربحک فیہ فکل ھذا سواء یجوز البیع الاول ویکون ھذا فیما اعطی من نفسہ بالخیار) [کتاب الام:ج ۳ ص ۳۹]
‘‘جب ایک شخص دوسرے کو کوئی چیز دکھا کر یہ کہے کہ یہ خرید لیں میں آپ کو اتنا منافع دوں گا اس پر وہ شخص وہ چیز خرید لے تو پھر یہ خریداری جائز ہوگی۔ تاہم جس نے یہ کہا تھا کہ میں اتنا نفع دے دوں گا اس کو اختیار ہے اگر چاہے تو بیع کرے اور اگر چاہے تو چھوڑ دے۔ اور اسی طرح اگر یہ کہے کہ میرے لیے فلاں قسم کا سامان خرید لو یا یہ کہے کہ جو سامان تم چاہو وہ خرید لو میں آپ کو اس میں اتنا نفع دوں گا تو پہلی بیع جائز ہو گی اور آرڈر دینے والے کو اختیار ہوگا۔‘‘
مزید لکھتے ہیں: (وان تبایعابہ علی ان الزما انفسھما الامر الاول فھو مفسوخ من قبل شیئین احدھما انہ تبایعاہ قبل یملکہ البائع والثانی انہ علی مخاطرۃ اِن اشتریتہ علی ہذا اربحک فیہ کذا)
’’اگر دونوں اس چیز کی اس طرح بیع کریں کہ وہ دونوں پہلے آڈر کو لازم سمجھیں تو یہ دو وجہ سے فسخ ہو گی۔
۱) دونوں نے چیز ملکیت میں آنے سے پہلے بیع کی ہے۔
۲)اس میں غرر ہے کیونکہ اس نے کہا ہے کہ اگر آپ اتنے کی خرید لیں تو میں آپ کو اتنا نفع دوں گا۔‘‘ [حوالہ مذکورہ]
نیز یہ بیع الکالی بالکلالی کی قبیل سے ہے۔ کیونکہ بینک نے سامان بعد میں دینا ہے اور کلائنٹ نے قیمت بعد میں ادا کرنی ہے۔ شرعی طور پر یہ بھی ممنوع ہے۔
(ان النبیﷺ نھی عن بیع الکالیء بالکالیء ) [سنن دارقطنی: ۵۔۳۱]
’’بلاشبہ نبیﷺ نے ادھا ر کے بدل ادھار بیع سے منع فرمایا ہے۔‘‘
امام شوکانیa فرماتے ہیں یہ روایت تو ضعیف ہے لیکن اس مسئلہ پر اجماع ہے کہ ادھار کی ادھار کے بدلے بیع جائز نہیں۔ [نیل الاوطار: ج ۸، ص ۲۱۳]
مالکی فقہاء نے مکروہ بیع کی ایک صورت یہ بھی ذکر کی ہے کہ آدمی کسی دوسرے سے یہ کہے
’’کیا آپ کے پاس فلاں فلاں چیز ہے جو آپ مجھے ادھار بیچ دیں۔‘‘ [الموسوعۃ الفقیھۃ الکویتیۃ بحوالہ مواجب الجلیل للخطاب البیان والتحصیل لابن رشد]
اسلامی بینک کاری کے ماہر ڈاکٹر رفیق یونس مصری لکھتے ہیں:
(فاذا لم یکن ھنالک خیار فانھا لا تجوز لان المواعدۃ الملزمۃ فی بیع المرابحۃ تشبہ البیع نفسہ حیث یشترط عندئذ ان یکون البائع مالکا للمبیع حتی لا تکون ھنالک مخالفۃ لنھی النبی e ان یبیع الانسان مالیس عندہ فالمرابحۃ ظاھر ھا البیع وباطنھا التمویل فانھا لاتجوز) [المصارف الاسلامیۃ: ص ۳۳]
’’جب اختیار نہ ہو تو معاملہ جائز نہیں کیونکہ بیع مرابحہ میں لازمی وعدہ نفس بیع کے مشابہہ ہے۔ جب بیع میں یہ شرط ہے کہ فروخت کنندہ بیچی جانے والی چیز کا مالک ہو تو نبیe کے اس فرمان کہ ’’جو انسان کے پاس نہیں وہ بیچنا منع ہے۔‘‘ کا ظاہری مطلب بیع ہو اور حقیقت میں فنانسنگ ہوتو یہ جائز نہیں۔‘‘
شیخ بکر بن عبداللہ ابو زیدa فرماتے ہیں:
’’فکیف یجوز للمصرف ان یبیع مالم یملک اصلا و یصافق ویربح فیہ فملکہ تقدیری لا حقیقی استیلاء ہ علیہ تقدیری لا حقیقی فالمنع من ھذا یکون وصف باب الاولی‘‘[فقہ النوازل: ج۲، ص ۹۳]
’’بینک کے لیے یہ کیسے جائز ہے کہ وہ ایک ایسی چیز بیچے کہ جس کا وہ بالکل ہی مالک نہیں ہے وہ سودا حاصل کر کے نفع حاصل کرتا ہے حالانکہ وہ چیز اسکی تقدیری ملکیت میں ہے نہ کہ حقیقی۔ چنانچہ اس کی ممانعت بدرجہ اولی ہونی چاہیے۔‘‘
ڈاکٹر احمد ریان لکھتے ہیں:
’’ھذا العقد تکتفہ مجموعۃ من المحاذیر الفقھیۃ التی من اھمھا: ان الوعد من العمیل بالشراء، وموافقۃ المصرف علی ذلک؛ ھو عقد حتی وان کتب فی الاوراق انہ وعد، لان العبرۃ بالمعانی ولیست بالمبانی کما یقول الفقھاء، وبما انہ عقد فیشترط لہ توفر کافۃ شروط عقد البیع، واکثرھا غیر متوفرۃ فیہ‘‘
[فقۃ البیوع المنھی عنھا مع تطبیقاتھا الحدیثۃ فی المصارف الاسلامیۃ]
’’اس معاملہ کو متعدد فقہی خرابیوں نے گھیرا ہوا ہے ان میں سے سب سے اہم یہ ہے کہ کلائنٹ کی طرف سے خریداری کا وعدہ اور بینک کی اس پر موافقت معاہدہ اگرچہ کاغذات میں اس کو وعدہ لکھا جاتا ہے۔ کیونکہ فقہاء کے قول کے مطابق حقائق کا اعتبار کیا جاتا ہے نہ کہ الفاظ کا۔ اور جب یہ معاہدہ ہے تو اس میں معاہدہ بیع کی تمام شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے اور ان میں سے اکثر یہاں نہیں پائی جاتیں۔
یہان یہ بات بھی ذہن میں رکھیے کہ اس میں منافع کے لیے شرح سود کو معیار بنانے سے یہ معاملہ مزید مشکوک ہو جاتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اسلامی بینکاری کے حامی بھی اس کو پسندیدہ قرار نہیں دیتے چنانچہ مولانا تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں:
’’اس میں کوئی شک نہیں کہ حلال منافع کے تعین کے لیے سود کی شرح کا استعمال پسندیدہ نہیں اور اس سے یہ معاملہ کم از کم ظاہری طور پر سودی قرض کے مشابہ بن جاتا ہے اور سود کی شدید حرمت کے پیش نظر اس ظاہری مشابہت سے بھی جہاں تک ہو سکے بچنا چاہیے۔‘‘ [اسلامی بینکاری کی بنیادیں: ص ۱۲۴]
مزید لکھتے ہیں:
’’البتہ یہ بات درست ہے کہ اسلامی بینکوں اور مالیاتی اداروں کو جتنا جلدی ممکن ہو اس طریقہ کار سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہیے۔ اس طرح کہ اول تو اس میں شرح سود کو حلال کاروبار کے لیے مثالی اور معیاری سمجھ لیا جاتا ہے جو کہ پسندیدہ بات نہیں دوسرا اس لیے کہ اس سے اسلامی معیشت کے بنیادی فلسفے کو فروغ نہیں ملتا۔ اس لیے کہ اس سے تقسیم دولت کے نظام پر کوئی اثر مرتب نہیں ہوتا۔‘‘ [اسلامی بینکاری کی بنیادیں: ص:۱۲۵]
دوسری صورت:
اس معاملے کی دوسری صورت یہ ہے کہ وعدہ یک طرفہ ہو یعنی گاہک اپنے وعدے کا پابند ہو لیکن بینک آزاد ہو یہ صورت بھی درست نہیں کیونکہ نبیﷺ کے ارشاد ’’البیعان باالخیار‘‘ میں بیچنے والے خریدنے والے دونوں کو اختیار دیا گیا ہے ایک کو پابند اور دوسرے کو مستثنی رکھنا اس تفریق کی کوئی اصل نہیں چنانچہ ڈاکٹر رفیق یونس مصری لکھتے ہیں:(انی اری ضرورۃ الخیار لکلا المتواعدین اماالخیار لا حدھما فقط فھو تحکم)
[تعلیق المصارف الاسلامیۃ: ص ۳۲]
’’میری رائے میں دونوں کو اختیار ضروری ہے فقط ایک کو اختیار سینہ زوری ہے۔‘‘
تیسری صورت:
اس معاملے کی تیسری صورت یہ ہے کہ کلائنٹ اور بینک دونوں پابند نہ ہوں۔ بینک کے چیز خریدنے کے بعد کلائنٹ کو بیع کرنے اور نہ کرنے دونوں کا اختیار ہو۔ اس طرح بینک بھی اپنے فیصلے میں آزاد ہو تو یہ صورت جائز ہوگی بشرطیکہ بینک نے وہ چیز کلائنٹ کے ذریعے نہ خریدی ہو اور نفع کے لیے شرح سود کو معیار بھی نہ بنایا گیا ہو کیونکہ اس طرح یہ معاملہ سودی قرض کے مشابہ بن جاتا ہے۔
اس موقع پر ڈاکٹر سلیمان الأشقر کے فتوی کا ذکر بھی مفید رہے گا۔
’’ نظام البیع المرابحۃ کما تجریہ بعض البنوک الاسلامیۃ فی الوقت الرھن نظام غیر جائزوھو تحایل علی الربا او ھو بیع السلعۃ من البنک قبل امتلا کھا وکلا ھما ممنوع شرعا والسنۃ النبویۃ تمنع ھذا البیع وان المذاھب الاربعۃ کلھا تقول بانہ محرم و خاصۃ مذھب المالکیۃ الذی ینص نصا صریحا علی منعہ والذین قالوا فی مئوتمر البنک الاسلامی بدبی بجوازہ غلطوا علی الفقہ الاسلامی غلطا کبیرا وانہ لا مستند لھم فی ماقالوا‘‘۔ [بحوث فقیھۃ فی قضایا اقتصادیۃ معاصرۃ: ج ۱ ص ۱۱۳، ۱۱۵]
’’بیع مرابحہ کا نظم جس کو دور حاضر میں بعض اسلامی بینک جاری کیے ہوئے ہیں ناجائز ہے اور یہ سود کے حاصل کرنے کا حیلہ ہے یا یہ بینک کی طر ف سے ایسی چیز کی بیع ہے جو ابھی اس کی ملکیت میں نہیں آئی اور دونوں شرعا ممنوع ہیں اور سنت نبویe اس بیع کی اجازت نہیں دیتی بلاشبہ مذاہب اربعہ اس کو حرام قرار دیتے ہیں خاص طور پر مالکیوں کا مذہب جس نے اس ممانعت کی واضح طور پر صراحت کی ہے اور جنہوں نے دوبئی میں اسلامی بینک کی کانفرنس میں اس کو جائز قرار دیا۔ انہوں نے فقہ اسلامی کے ذمے بہت بڑی غلطی لگائی اور ان کے پاس اپنی تائید میں کوئی دلیل نہیں ہے۔‘‘(جاری ہے)