اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے کلام ، قرآن مجید وفرقان حمید کے ذریعہ سے خیر وشر، نیک وبد اور اچھائی اور برائی کے معیارات قائم کردئیے ہیں اور یہ معیارات حرف آخر اور تمام دنیا کے اہل علم و دانش میں ہمیشہ تسلیم کیے جائیں گے۔ دین اسلام کی تعلیمات ابدی اور دائمی ہیں۔ اسلام نے جن چیزوں کو برا کہہ دیا ہے، وہ بری ہیں اور دین اسلام نے جن اعمال وافعال کو اچھا کہہ دیا ہے وہ اچھے ہیں۔

ایک مسلمان کو راہ حق پر چلانے کیلئے قرآن ایک کتاب ہدایت موجود ہے، جو ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ ہم اپنی زندگی کا محاسبہ خود کریں اور اپنے اعمال کے صحیح اور غلط ہونے کا فیصلہ کریں۔ ہمارے اعمال ہمیں راہ حق اور صراط مستقیم پر چلا رہے ہیں یا ہم غلط راہوں پر چلتے ہوئے اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل عطا فرمائی ہے۔ اس عقل کو سب سے پہلے انسان کو خود اپنے محاسبے کیلئے استعمال کرناچاہیے۔ انسان کا نفس اور دل خواہشات کا مرکز ہے اور تمناؤں اور آرزؤں کی آماجگاہ۔ ان دلی خواہشات اور نفسانی آرزؤں پر فکر وعقل کو نظم اور ضبط قائم کرنا چاہیے۔ نیک وبد اور گناہ وثواب کے مابین عقل انسانی کو فرق کرنا چاہیے۔ اگر انسانی عقل یہ فریضہ انجام نہیں دیتی ہے تو پھر انسان اور حیوان کا فرق مٹ جاتاہے۔ یہ واضح ہے کہ حق وباطل میں تمیز کے لئے صرف عقل انسانی کافی نہیں بلکہ وہ عقل جو نقل کے تابع ہو۔

درحقیقت یہ انسانیت کی موت ہے ۔ آدمی کو انسان ہونامیسر اسی وقت ہوسکتاہے کہ وہ عقل کو سلامت روی کیلئے استعمال کرے۔ اگر سلامتی کی راہ سے انسان ہٹ کر، نفس کا غلام ہوکر برائیوں کی گرفت میں آگیا تو وہ انسان کیسے رہ سکتاہے۔ دراصل محاسبہ عمل اسی کا نام ہے کہ انسان جو کام کرے اس پر پہلے غور کرے اور جب کام کر چکے تو محاسبہ کرے کہ وہ صحیح تھا یا غلط۔ اگر دل یہ گواہی دے اور ضمیر یہ پکارے کہ ہمارا عمل غلط تھا، ہمارا اقدام صراط مستقیم سے ہٹا ہوا تھا تو توبہ کا دروازہ کھلا ہواہے۔ بروقت خود احتسابی اور اپنے اعمال کا خود محاسبہ کرنے ہی سے دراصل یوم حساب کی شرمندگی سے بچاجا سکتاہے۔

ایسا آج تک نہیں ہوا ہے اور نہ آئندہ ہوگا کہ انسان غلط کام کرے اور سرخروی ہوا۔ غلط کام بہر حال غلط ہے ، برائی ہمیشہ بری رہے گی اور برائی کرنے والا پریشان اور بدنام رہے گا۔ یہ قانون فطرت ہے اور قوانین فطرت تبدیل نہیں ہوا کرتے ۔

جب انسان اپنے فکر وعمل کا محاسبہ کرنا چھوڑ دیتاہے تو اس کی سوچ اور اس کی فکر بیمار ہوجایا کرتی ہے اور جب وہ آخرت سے بے پروا ہوجاتاہے دنیا ہی میں وہ پریشان حال ہوجاتاہے۔ ایسے ہی لوگوں کیلئے قرآن ندا دیتاہے۔

{اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ}(الحشر:۱۸)

’’اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو ہر شخص کو چاہیے کہ یہ دیکھتا رہے کہ اس نے آخرت کیلئے کیا عمل آگے بڑھایا ہے ۔ اللہ سے ڈرتے رہو ۔ اللہ سب کچھ جانتا ہے کہ تم کیا کر رہے ہو۔‘‘

آئیے ! ہم غور کریں اور آج سے یہ فیصلہ کرلیں کہ ہم اس دنیا میں مطیع وفرمانبردار بن کر رہیں گے اور اچھے عمل کریں گے اور اس دنیا کو گہوارہ امن بنائیں گے ہم اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی حکومت قائم کریں گے۔ ہم اس دنیا میں قرآن وسنت نافذ کریں گے۔٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے