آج ہم اپنے معاشرے میں دیکھتے ہیں کہ ہر فرد کو دوسرے سے شکایت ہے۔ باپ کو بیٹے سے ، بیٹے کو باپ سے ، ماں کو بیٹی سے ، بیٹی کو ماں سے ، ساس کو بہو سے ، بہو کو ساس سے ، نند کو بھابی سے ، بھابی کو نند سے ، بھائی کو دوسرے بھائی سے غرضیکہ کوئی بھی فرد ایسا نظر نہیں آتا جسے کسی سے بھی شکایت نہ ہو اور وہ اپنے تمام عزیز واقارب سے خوش ہو ۔

آخر ایسا کیوں ہے؟ ہم ایک دوسرے سے متنفر کیوں ہیں؟

اس کی ایک بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ ہم صلہ رحمی کے حقیقی مفہوم سے ناآشنا ہیں ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ہم حقوق العباد اور رشتہ داروں کے حقوق میں کوتاہی کرتے ہیں اور اپنی ذمہ داریوں اور فرائض سے پہلوتہی برتتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم خود غرضی ، مفاد پرستی اور انا پرستی کا بھی شکار ہیں۔ ان سب وجوہات کے باوجود اگر ہم صلہ رحمی کو صحیح معنوں میں اپنا لیں تو ساری خرابیاں دور ہوسکتی ہیں۔ ہمارے خراب تعلقات بہتر ہوسکتے ہیں۔ آپس کے شکوے اور شکایات دور ہوسکتی ہیں۔ ہماری آپس کی نفرتیں محبتوں میں بدل سکتی ہیں۔

سب سے پہلے تو یہ دیکھتے ہیں کہ صلہ رحمی کہتے کسے ہیں؟

لفظ ’’صلہ‘‘ کا مطلب ہے ملانا ۔

لفظ ’’رحمی‘‘عربی لفظ ’’رحم‘‘ سے ہے جس کے معنی ہیں رشتہ داریاں جو رحمِ مادر کی بنیاد پر ہی قائم ہوتی ہیں۔ (احسن البیان ص/۹۹)

تو صلہ رحمی کا مطلب ہوا رشتے ناتوں کو ملانا یا جوڑنا۔

یادرہے کہ صلہ رحمی کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ جو رشتہ دار آپ سے اچھا سلوک کرے، آپ کو تحفے تحائف دے، آپ کے ساتھ تعاون کرے۔ آپ سے محبت کرے تو آپ صرف اسی سے صلہ رحمی کریں۔ یہ صلہ رحمی کے بجائے بدلہ اتارناہے۔

بلکہ صلہ رحمی تو یہ ہے کہ جو رشتہ دار آپ سے قطع تعلق کرلے آپ اس سے تعلق جوڑیں۔ جو آپ کو کبھی کوئی تحفہ نہ دے لیکن آپ اسے تحائف دیں ، جو آپ پر نفرتوں کے تیر برسائے تو آپ اس پر محبتوں کے پھول برسائیں۔ جو آپ سے دوربھاگے تو آپ اس کے قریب جائیں اور اپنے قریب لے آئیں ۔ یہ ہے حقیقی صلہ رحمی۔

صلہ رحمی کی تاکید اور فضیلت :

قرآن وحدیث کی رو سے قریبی رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنا بہت بڑا نیکی کا کام ہے اور قطع رحمی کرنا یا تعلقات کو بگاڑنا ، خراب کرنا یا توڑنا گناہِ کبیرہ ہے ۔ (تفسیر تیسیر القرآن ص/3441)

نبی کائنات سورۃ النساء کی پہلی آیت یا آیت کا آخری حصہ اپنے خطبات اور نکاح کے خطبہ میں پڑھا کرتے تھے۔

نکاح ایک ایسا معاملہ ہے جس میں دو خاندانوں کے درمیان رشتہ داری قائم کرتی ہے اور دو فریق ایک بندھن میں بندھ جاتے ہیں۔ اس آیت میں یہ الفاظ بھی ہیں۔

{وَاتَّقُوا اللَّہَ الَّذِی تَسَاء َلُونَ بِہِ وَالْأَرْحَامَ}(سورۃ النساء:۱)

’’اور اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور قریبی رشتہ داروں کے معاملہ میں بھی اللہ سے ڈرتے رہو۔‘‘

سورۃ الرعد کی آیات 21 اور 22 میں اللہ رب العزت نے اپنے عقلمند بندوں کی تعریف میں فرمایا:

{وَالَّذِینَ یَصِلُونَ مَا أَمَرَ اللَّہُ بِہِ أَنْ یُوصَلَ وَیَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ وَیَخَافُونَ سُوء َ الْحِسَابِ ٭ وَالَّذِینَ صَبَرُوا ابْتِغَاء َ وَجْہِ رَبِّھِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاۃَ وَأَنْفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاھُمْ سِرًّا وَعَلَانِیَۃً وَیَدْرَء ُونَ بِالْحَسَنَۃِ السَّیِّئَۃَ أُولَئِکَ لَھُمْ عُقْبَی الدَّارِ }

’’اور اللہ نے جن چیزوں کے جوڑنے کا حکم دیا ہے وہ اسے جوڑتے ہیں (یعنی صلہ رحمی کرتے ہیں) اور وہ اپنے پرودگار سے ڈرتے ہیں اور حساب کی سختی کا کھٹکا رکھتے ہیں اور وہ اپنے رب کی رضا مندی کی طلب کے لیے صبر کرتے ہیں اور نمازوں کو برابر قائم رکھتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے اسے پوشیدہ علانیہ خرچ کرتے ہیں اور برائی کو بھی بھلائی سے ٹالتے ہیں ان ہی کے لیے عاقبت کا گھر ہے۔‘‘

صلہ رحمی سنت مطہرہ کی نظر میں :

رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات میں بھی صلہ رحمی کی بہت تاکید اور فضیلت بیان ہوئی ہے۔

چند احادیث درج ذیل ہیں:

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’کہ رحم ’رحمن‘ سے نکلا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رحم سے کہا جو تجھے ملائے گا میں اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرے گا میں اسے قطع کروں گا۔ (بخاری، کتاب الأدب، باب من وصل وصلہ اللہ ، بحوالہ تیسیر القرآن ص:344)

اللہ کے رسول  کا فرمان گرامی ہے کہ ’بدلہ کے طور پررشتہ ملانے والا ، رشتہ ملانے والا (یا صلہ رحمی کرنے والا) نہیں ،بلکہ رشتہ ملانے والا تو وہ ہے کہ جب اس سے رشتہ توڑا جائے تو وہ اسے ملائے۔

‘‘(بخاری، کتاب الأدب، باب لیس الواصل بالمکافی ، بحوالہ تیسیر القرآن ، ص:345 (

صلہ رحمی ایک ایسا پسندیدہ عمل ہے کہ جس کی برکت سے اللہ تبارک وتعالیٰ انسان کا رزق کشادہ کردیتے ہیں اور اس کی عمر بھی بابرکت کردیتے ہیں۔

نبی کریم  کا فرمان ہے :’’ جوشخص چاہتا ہو کہ اس کے رزق میں فراخی ہو اور اس کی عمرمبارک ہو تو اسے صلہ رحمی کرنی چاہیے۔(بخاری ، کتاب الأدب، باب من بسط لہ فی الرزاق ، مسلم ، بحوالہ تیسیر القرآن ، ص:344)

آج ہم تنگی، رزق اور بے روزگاری کاشکار ہیں کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم میں صلہ رحمی مفقود ہو چکی ہے۔

اس کے علاوہ صلہ رحمی ایک ایسا عظیم عمل ہے اگر انسان اس عمل پر ثابت قدم رہے تو رب العالمین کی طرف سے فرشتے اس کی مدد کرتے ہیں۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا : میرے کچھ قریبی (رشتہ دار) ہیں میں ان سے رشتہ ملاتا ہوں اور وہ مجھ سے رشتہ توڑتے ہیں، میں ان سے اچھا سلوک کرتا ہوں اور وہ مجھ سے برا سلوک کرتے ہیں، میں ان سے حوصلہ سے پیش آتا ہوں اور وہ میرے ساتھ جاہلوں کا سا برتاؤ کرتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’اگر ایسی بات ہی ہے جو تم کہہ رہے ہو تو گویا تم ان کے منہ میں گرم راکھ ڈال رہے ہو اور جب تک تم اس حال پر قائم رہو گے۔ ان کے مقابلہ میں اللہ کی طرف سے تمہارے ساتھ ہمیشہ ایک مدد گار رہے گا۔‘‘(صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ ، باب صلۃ الرحم وتحریم وطیعتھا بحوالہ تیسیر القرآن ص/345)

صلہ رحمی ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعے انسان جنت میں جاسکتاہے۔

سیدنا ابو ایوب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ ﷺ سے پوچھا : یا رسول اللہ ﷺ مجھے ایسا عمل بتائیے ، جو مجھے جنت میں لے جائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کی عبادت کرو اور اس میں ذرا بھی شرک نہ کرنا، نماز قائم کرنا، زکوۃ ادا کرو اور صلہ رحمی کرو۔‘‘(بخاری، کتاب الأدب، باب فضل صلۃ الرحم۔ بحوالہ تیسیر القرآن 1/345)

صلہ رحمی کی اس قدر تاکید ہے کہ اگر آپ کے والدین یا کوئی اور رشتے دار کافر، فاجر، مشرک ، یہودی یا عیسائی بھی ہیں تو اللہ کے نبی ﷺ ان کے ساتھ بھی قطع تعلقی کا حکم نہیں دیتے۔

سیدنا اسماء رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جس زمانہ میں آپ ﷺ کی (قریش کی) صلح تھی۔ اس دوران میری ماں(میرے پاس) آئی اور وہ اسلام سے بے رغبت تھی۔ میں نے آپ ﷺ سے پوچھا: کیا میں اس سے صلہ رحمی کرسکتی ہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں۔ ‘‘ (بخاری ، کتاب الأدب، باب صلۃ المرأۃ أمھا ولہا زوج ، بحوالہ تیسیر القرآن 1/345)

قطع رحمی کی وعید :

رشتہ داروں سے تعلق توڑنا، عمر بھر کے لئے ناراض ہوجانا۔ رشتہ داروں کی حق تلفی کرنا ، برے سلوک سے پیش آنا یہ سب رویے قطع رحمی کے ہیں۔

قرآن وحدیث میں اس عمل پر شدید وعید بیان ہوئی ہے۔ قطع رحمی کرنے والے کیلئے کیا اتنا ہی کافی نہیں کہ وہ نقصان اٹھانے والا ہے۔ اسی پر لعنت ہے اور وہ جنت میں نہ جاسکے گا۔

اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے

{الَّذِینَ یَنْقُضُونَ عَھْدَ اللَّہِ مِنْ بَعْدِ مِیثَاقِہِ وَیَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّہُ بِہِ أَنْ یُوصَلَ وَیُفْسِدُونَ فِی الْأَرْضِ أُولَئِکَ ھُمُ الْخَاسِرُونَ }(سورۃ البقرۃ:27)

’’(فاسقین وہ لوگ ہیں) جو لوگ اللہ سے عہد کو پختہ کرنے کے بعد اسے توڑ دیتے ہیں اور جن چیزوں کو اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے انہیں قطع کرتے ہیں(یعنی رشتہ داریاں توڑتے ہیں) اور زمین میں فساد بپا کرتے ہیں ایسے ہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں۔‘‘

نیز فرمایا

{وَالَّذِینَ یَنْقُضُونَ عَھْدَ اللَّہِ مِنْ بَعْدِ مِیثَاقِہِ وَیَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّہُ بِہِ أَنْ یُوصَلَ وَیُفْسِدُونَ فِی الْأَرْضِ أُولَئِکَ لَھُمُ اللَّعْنَۃُ وَلَھُمْ سُوء ُ الدَّارِ}(سورۃ الرعد:25)

’’اور جو لوگ اللہ کے عہد کو اس کی مضبوطی کے بعد توڑدیتے ہیں اور جن چیزوں کے جوڑنے کا اللہ نے حکم یا ہے انہیں توڑتے ہیں اور ملک میں فساد پھیلاتے ہیں ان کے لئے لعنتیں ہیں اور ان کے لئے برا گھر ہے۔‘‘

اللہ کے رسول ﷺ کا فرمان ہے کہ ’ قطع رحمی کرنے والا جنت میںنہیں جائے گا۔‘‘ (بخاری ، کتاب الأدب، باب اسم القاطع ، مسلم، کتاب البروالصلۃ باب صلۃ الرحم وتحریم قطیعتھا۔ بحوالہ تیسیر القرآن 1/345)

قطع رحمی ایسا قبیح عمل ہے کہ جس کی سزا دنیا وآخرت دونوں میں ملتی ہے۔۔

نبی کائنات ﷺ کا فرمان ہے کہ ’’ کوئی گناہ بغاوت اور قطع رحمی سے زیادہ اس بات کا اہل نہیں کہ اللہ اسے دنیا میں بھی فوراً سزا دے اور ساتھ ہی ساتھ آخرت میں بھی اس کے لئے عذاب بطور ذخیرہ رکھے۔

(بخاری ، کتاب الأدب، باب فضل صلۃ الرحم ، بحوالہ تیسیر القرآن 1/345)

ایک اور فرمان رسول یہ ہے کہ ’ جب اللہ تعالیٰ مخلوق کی تخلیق سے فارغ ہوا تو رحم نے کہا (اے اللہ) قطع رحمی سے تیری پناہ طلب کرنے کا یہی موقع ہے ۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ہاں کیا تو اس بات سے راضی نہیں کہ میں اسے ہی ملاؤں جو تجھے ملائے اور اسے توڑوں جو تجھے توڑے ؟ رحم نے کہا ہاں ! اے میرے رب ! اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تیری یہ بات منظور ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر چاہو تو (دلیل کے طور پر ) یہ آیت پڑھ لو۔

{فَھَلْ عَسَیْتُمْ إِنْ تَوَلَّیْتُمْ أَنْ تُفْسِدُوا فِی الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَکُمْ }’

’اور تم سے یہ بھی بعید نہیں کہ اگر تم کو حکومت مل جائے تو تم زمین میں فساد برپا کردو اور رشتے ناتے توڑ ڈالو۔‘‘ (بخاری ومسلم بحوالہ تیسیر القرآن 1/345)

محترم قارئین ! اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ لوگ ہم سے محبت کریں، ہم سکون کی زندگی گزاریں۔ فرشتے ہماری مدد کو اتریں ، قرآن میں ہماری تعریف ہو آخرت میں اچھا گھر ملے۔ ہماری عمر مبارک ہو۔ ہمارے رزق میں کشادگی ہو اور ہم جنت میں چلے جائیں۔

اور اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم اللہ کی لعنت سے بچیں۔ قرآن کی رو سے ہمارا شمارفاسقین اور خاسرین میں نہ ہو، ہم جنت سے محروم نہ ہوں اور دنیا اور آخرت کی سزا سے بچ جائیں۔

تو پھر آج ہی ہم ان لوگوں سے معافی مانگ لیں جن کو ہم نے ناراض کیا ہے۔

اپنی انا کے بت کو پاش پاش کرکے صرف رب کی رضا کی خاطر ان عزیزوں کو گلے لگا لیں جو ہم سے روٹھے ہوئے ہیں کہیں دیر نہ ہو جائے۔

اخلاص سے بڑھ کر نہیں دنیا میں کوئی روشنی

پی گئے روشنی تو آئینہ ہو جاؤگے

گفتگو میٹھی کرو ہر شخص سے ادب سے ملو

دشمنوں کے واسطے بھی دلرُبا ہوجاؤ گے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے