Monthly Magazine of jamia Abi Bakar Al Islamia Karachi Pakistan جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی کا ماھنامہ مجلہ اسوہ حسنہ

چیف ایڈیٹر: ڈاکٹر مقبول احمد مکی حفظہ اللہ

  • صفحہ اول
  • شمارہ جات 2021
  • شمارہ جات 2020
  • شمارہ جات 2019
  • سابقہ شمارے
    • 2009
    • 2010
    • 2011
    • 2012
    • 2013
    • 2014
    • 2015
    • 2016
    • 2017
    • 2018
  • فہمِ قرآن کورس

جھوٹ کی اقسام اور اس کی قباحت

Written by محمد الطاف خیروا 10 Apr,2011
  • font size decrease font size decrease font size increase font size increase font size
  • Print
  • Email

جھوٹ ایک ایسی عادت رزیلہ ہے جو کہ خود بولنے والے کیلئے آخر کار شرمندگی کا باعث بنتی ہے۔ معاشرہ انسانوں سے تشکیل پاتا ہے اور انسان اپنے اعمال اور عادات واخلاق سے جانے جاتے ہیں اعمال واخلاق عقیدے کی بناء پر وجود میں آتے ہیں ،عقیدہ شریعت دیتی ہے جو جتنا شریعت کے قریب ہوگا اس کے اعمال واخلاق اتنے ہی بلند ہوں گے۔ اور جو اس سے جتنا دور ہوگا اس کے عادات واخلاق اتنے ہی رزیل اور تکلیف دہ ہونگے۔ ان تکلیف دہ اعمال میں ایک عمل جھوٹ ہے جوکہ خود بولنے والے کے لئے آخر کار شرمندگی کا باعث ہوتاہے اور جس پر بولا جائے اس کے لئے وقتی پریشانی کا سبب تو ضرور بنتا ہے مگر آخری فتح ہمیشہ سچ کی ہوتی ہے۔ کسی بھی معاشرہ کی ترقی اور سکون کے لئے ضروری ہے کہ وہاں کے رہنے والوں کو ایک دوسرے پر اعتماد ہو، وہ ایک دوسرے پر بھروسہ کرتے ہوں اورانہیں ایک دوسرے کی باتوں پر یقین ہو یہ سب کچھ تبھی ممکن ہے کہ جب وہاں جھوٹ نام کی کوئی چیز نہ ہو۔

جھوٹ ایک ایسی لعنت ہے کہ جو بھی اسے اختیار کرلے وہ ملعون اور لعنتی ہوگا ۔ ارشاد خداوندی ہے{لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ}

’’جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہے۔‘‘

جھوٹ کا زمانہ جاہلیت میں معیوب سمجھا جانا:

جھوٹ کی برائی اور قباحت کے دلائل میں سے ایک یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت کے لوگ بھی اسے معیوب سمجھتے تھے۔ ان میں سے کوئی معزز شخص اپنی طرف جھوٹ کی نسبت گوارا نہ کرتا تھا۔ یہ حقیقت اس قصہ میں نمایاں ہے کہ جس کو امام بخاری اور مسلم رحمہما اللہ نے سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے حوالے سے روایت کیا ہے۔ کہ سیدنا ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے انہیں بتلایا، کہ جب نبی کریم e کا مکتوب گرامی موصول ہونے پر شاہ روم نے ابو سفیان اور ان کے ساتھیوں کو اپنے ہاں طلب کیا، اور اپنے ترجمان کی وساطت سے ان سے دریافت کیا کہ ’’نبوت کا دعویٰ کرنے والے شخص کے ساتھ نسب سے قریبی رشتہ داری کس کی ہے؟ یہاں اس بات کا جاننا بہت ضروری ہے کہ جب ابو سفیان اور ان کے ساتھیوں کو شاہ روم نے طلب کیا تب ابو سفیان اور ان کے ساتھی مسلمان نہ تھے۔ ابو سفیان بیان کرتے ہیں :’’میں نے کہا :میں رشتہ داری میں اس کا سب سے قریبی ہوں‘‘ اس (شاہ روم) نے کہا : ’’ادنوہ منی وقربوا أصحابہ فاجعلوھم عند ظہرہ‘‘

’’اس کو میرے قریب کرو، اس کے ساتھیوں کو بھی قریب کرو، اور انہیں اس کے پس پشت بٹھا دو ‘‘

پھر اس نے اپنے ترجمان سے کہا ’’ ان سے کہو: انی سائل عن ہذا الرجل فان کذبنی فکذبوہ‘‘

’’میں اس شخص سے سوال کرنے لگا ہوں، اگر اس نے مجھ سے جھوٹ بولا ، تو تم اس کی تکذیب کردینا‘‘۔

ابو سفیان بیان کرتے ہیں: فواللہ ! لولا الحیاء من أن یأثروا علی کذبا لکذبت علیہ‘‘

اللہ کی قسم! اگر مجھے اس بات کی حیا نہ ہوتی ، کہ مجھ سے جھوٹ نقل کیا جائے گا ، تو میںضرور اس (نبی کریم e ) کے خلاف جھوٹ بولتا۔تو ان (نبی کریمe ) کے خلاف شدید بغض وعداوت رکھنے کے باوجود ابو سفیان آپ e کے متعلق کوئی جھوٹی بات نہ کہہ سکے۔ ایسا کرنے میں رکاوٹ صرف یہ تھی کہ انہیں یہ گوارا نہ تھا، کہ لوگ ان کے بارے میں کہیں کہ ابو سفیان نے معزز سردار ہونے کے باوجود جھوٹ بولا۔ یہ واقعہ زمانہ جاہلیت کے لوگوں کی نگاہوں میں بھی جھوٹ کی خرابی اور قباحت کو سمجھنے کے لئے بہت کافی ہے۔

علامہ عینی aنے تحریر کیا ہے کہ اس کا معنی یہ ہے کہ اگر مجھے اس بات کی حیانہ ہوتی کہ میرے ساتھی وطن پلٹنے پر میرے متعلق بتلائیں گے کہ میں نے جھوٹ بولا اور مجھے اس بناء پر نشانہ طعن بننا پڑے گا۔ تو میں جھوٹ بول دیتا۔ کیونکہ جھوٹ تو قبیح ہی ہے ، خواہ وہ دشمن کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔

۲۔جھوٹ کا ایمان کے منافی ہونا

جھوٹ کی خرابی کو آشکارا کرنے والی ایک بات یہ ہے کہ وہ ایمان کے منافی ہے۔ اس حقیقت پر دلالت کناں نصوص اور اقوال میں سے چند ایک درج ذیل ہیں :

۱۔ ارشاد رب العالمین ہے {اِنَّمَا یَفْتَرِی الْکَذِبَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَاُولٰیِکَ ھُمُ الْکٰذِبُوْنَ}(النحل:۱۰۵)

’’جھوت تو وہ ہی باندھتے ہیں جوکہ اللہ تعالیٰ کی آیات کے ساتھ ایمان نہیں لاتے اور یہی لوگ جھوٹے ہیں۔‘‘

علامہ قاسمی aاس آیت کی تفسیر میں تحریر کرتے ہیں :

’’ جھوٹ تو انہی کو زیبا ہے، جو ایمان نہیں لاتے، کیونکہ انہیں سزاکاڈر نہیں ہوتا، جو انہیں جھوٹ سے روک سکے۔‘‘

لیکن جو لوگ آیات پر ایمان لاتے ہیں اور ان میں بیان کردہ عذاب سے ڈرتے ہیں، ان سے جھوٹ نہیں بولا جاسکتا۔

شیخ ابو بکر الجزائری نے آیت کریمہ سے حاصل شدہ ہدایت کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے ’’’سچائی کے ثواب، اور جھوٹ کی سزا پر ایمان کے سبب اہل ایمان جھوٹ نہیں بولتے، لیکن کافر تو جھوٹ ہی بولتے ہیں کیونکہ اس سے روکنے کے لیے ، ان کے ہاں نہ تو ثواب کی امیدہوتی ہے اور نہ ہی سزا کا خوف۔

جھوٹ کی خرابی کو آشکارا کرنے کے لیے یہ آیت کریمہ بہت کافی ہے۔

۲۔ ائمہ حضرات امام وکیع ،سیدنا احمد اور ابن ابی الدنیا sنے سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے فرمایا:’’یاأیھا الناس ! ایاکم والکذب فان الکذب مجانب للایمان‘‘

’’اے لوگو! جھوٹ سے بچ جاؤ، کیونکہ بلاشبہ جھوٹ ایمان کے منافی ہے۔‘‘

۳۔ حضرات ائمہ امام ابن ابی شیبہ، امام ہناد، امام ابن ابی الدنیا اورامام طبرانی sنے سیدنا عبد اللہ t سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے فرمایا: علی کل یطوی المؤمن الا الخیانۃ والکذب فلا تجد المؤمن خائناً ولا کاذبا‘‘

’’خیانت اور جھوٹ کے سوا مومن کی تخلیق ہر خصلت پر کی جاتی ہے تم کسی مومن کو خائن یا جھوٹا نہ دیکھو گے۔‘‘

۴۔ امام عبد الرزاقa نے امام شعبیa سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا ’’ کل خلق یطوی علیہ المؤمن الا الخیانۃ والکذب‘‘

’مومن کی جبلت میں خیانت اور جھوٹ کے سوا ہر خصلت ہوتی ہے۔‘‘

خلاصہ گفتگو یہ ہے کہ جھوٹ ایمان کے منافی ہے اللہ کریم ہم سب کو اپنے فضل وکرم سے جھوٹ سے محفوظ رکھیں۔ آمین یا حی یا قیوم

جھوٹ اور شرک کا باہمی تعلق

جھوٹ کی قباحت پر دلالت کرنے والی باتوں میں ایک یہ ہے کہ بعض آیات اور احادیث میں جھوٹ اور شرک دونوں سے ایک ہی مقام پر منع کیا گیاہے، یا دونوں کی برائی کو ایک ہی جگہ واضح کیا گیاہے۔ ایسی تین نصوص ذیل میں ملاحظہ فرمائیے۔

۱۔ اللہ عزوجل نے فرمایا {فَاجْتَنِبُواالرِّجْسَ مِنَ الأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَولَ الزُّوْرِ}

’’بتوں کی گندگی سے بچو اور قول زور سے بچو۔‘‘

زور سے مراد: جیسا کہ علامہ قرطبی نے بیان کیا ہے باطل اور جھوٹ ہے اور اس کو (زور) اس لیے کہا جاتاہے کیونکہ وہ حق سے ہٹا ہوتاہے۔

اس آیت کی تفسیر میں علامہ شنقیطی aرقمطراز ہیں:

’’ اس آیت کریمہ میں (اللہ تعالیٰ نے) (قول زور) سے اجتناب کاحکم دیا ہے، اور وہ جھوٹ اور باطل ہے۔‘‘

اس آیت کریمہ میں یہ بات واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بتوں کی پرستش کی ممانعت کے ساتھ ہی جھوٹ سے منع فرمایا ہے۔

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے: ’’یہاں(من) جنس کے بیان کے لیے ہے ، یعنی نجاست سے اجتناب کرو اور وہ (نجاست) بت ہیں۔

سیدناابن مسعود t سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: جھوٹی گواہی’’اشراک باللہ‘‘ کے برابر ہوئی پھر انہوں نے اس آیت کو (بطور دلیل)پڑھا۔

۲۔امام بخاری اور امام مسلم ;نے سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہe نے ارشاد فرمایا : ’ألا أنبئکم بأکبر الکبائر؟‘‘ ’’کیا میں تمہیں کبیرہ گناہوں میں سے سب سے بڑے گناہ کی خبر نہ دوں؟‘‘

قلنا : بلی یا رسول اللہ ! ہم نے عرض کی کیوں نہیں یا رسول اللہe!

قال : الاشراک باللہ وعقوق الوالدین وکان متکئا فجلس فقال: ألا وقول الزور وشہادۃ الزور، ألا وقول الزور وشہادۃ الزور فما زال یقولہا : حتی قلت : لا یسکت‘‘

آپ e نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا اور والدین کی نافرمانی ، اس وقت آپ ٹیک لگائے ہوئے تھے، آپ eسیدھے بیٹھ گئے اور فرمایا : خبردار! اور جھوٹی بات اور جھوٹی گواہی خبردار! اور جھوٹی بات اور جھوٹی گواہی ۔

آپe اس کو دہراتے رہے، یہاں تک کہ میں نے (اپنے دل میں) کہا ’’آپ ﷺ خاموش نہ ہوں گے۔‘‘

امام مسلم aکی روایت میں ہے : کنا عند النبی ﷺ فقال : ألا أنبئکم بأکبر الکبائر ثلاثاً

ہم نبی ﷺ کے پاس تھے اور آپ (تین مرتبہ) نے فرمایا : کیا میں تمہیں کبیرہ گناہوں میں سے سب سے بڑے گناہ کی خبر نہ دوں۔

اس حدیث شریف میں جھوٹ سمیت مذکورہ گناہوں کی سنگینی کو اجاگر کرنے والی متعدد باتیں ہیں۔

ان میں سے چار درج ذیل ہیں:

۱۔ آپ e کا اپنے فرمان ’’کیا میں تمہیں کبیرہ گناہوں میں سے سب سے بڑے گناہ کی خبر نہ دوں‘‘ کو تین مرتبہ دہرانا۔ علامہ عینی نے تحریر کیا ہے : آپ e نے سامع کو اچھی طرح تنبیہ کرنے کی غرض سے اس کو تین مرتبہ دہرایا تاکہ وہ بتلائی جانے والی بات کے لیے اپنے قلب وفہم کو حاضر کرلے۔

۲۔ آپ e ’’خبردار… اور جھوٹی بات اور جھوٹی گواہی ‘‘ فرماتے وقت ٹیک چھوڑ کر سیدھے تشریف فرما ہوگئے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے : اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ e نے اس کا اس قدر اہتمام کیا کہ اس کو بیان کرتے وقت ٹیک چھوڑ کر بیٹھ گے۔ اوریہ (طرزعمل) اس (گناہ) کی شدید حرمت اور برائی کی سنگینی کو نمایاں کرتاہے۔

۳۔ آپ e کا (جھوٹی بات اور جھوٹی گواہی) کا ذکر فرماتے وقت ، لفظ(خبردار) استعمال فرمانا۔

علامہ عینی aکے بیان کے مطابق یہ لفظ کہی گئی بات کی طرف توجہ کرنے اور اس کو کما حقہ سمجھنے کی تنبیہ اور تاکید کے لئے استعمال کیا جاتاہے۔

۴۔آپ e کا (خبردار اور جھوٹی بات اور جھوٹی گواہی (کے الفاظ) کو اتنی مرتبہ دہرانا کہ راوی اپنے دل میں کہنے لگا(آپ e خاموش نہ ہوں گے)اس قدر تکرار کے پس منظر میں آپ e کا مقصود یہ تھا کہ جھوٹی بات اور جھوٹی گواہی کی سنگینی سامعین کے دلوں میں جاگزیں ہوجائے۔

۳۔ امام مسلم اور امام ترمذی نے سیدنا انس t کے حوالے سے نبی کریم e کا کبائر کے بارے میں ارشاد نقل کیا ہے کہ آپ e نے فرمایا :

’’الاشراک باللہ وعقوق الوالدین وقتل النفس وقول الزور۔‘‘

’’اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی، قتل نفس اور جھوٹی بات۔‘‘

اس حدیث شریف میں بھی آپ e نے جھوٹی بات کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے، والدین کی نافرمانی کرنے اور قتل نفس کے ساتھ ذکر فرمایا ہے۔

جھوٹ کا منافقوں کی خصلتوں میں سے ہونا:

جھوٹ کی شدید خرابی اور قباحت پر دلالت کرنے والی باتوں میں سے ایک یہ ہے کہ یہ منافقوں کی خصلتوں میں سے ایک خصلت ہے اور ان کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے۔ امام بخاری اور امام مسلمa نے سیدنا ابو ہریرہt سے روایت نقل کی ہے، نبی کریم e نے فرمایا : آیَۃُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ إِذَا حَدَّثَ کَذَبَ وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ ‘‘

(رواہ البخاری فی کتاب الایمان ، ومسلم أیضا فی کتاب الایمان )

منافق کی تین نشانیاں ہیں : جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے اور جب ( اس کے ہاں) امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔

امام مسلم a کی روایت میں ہے :

وَإِنْ صَامَ وَصَلَّی وَزَعَمَ أَنَّہُ مُسْلِمٌ

’’اگرچہ وہ روزہ رکھے اور نماز پڑھے اور دعویٰ کرے کہ وہ مسلمان ہے۔‘‘

ملا علی قاری نے شرح حدیث میں تحریر کیا ہے : ’’اذا حدّث کذب ‘‘ وہ (یعنی جھوٹ بولنا) تینوں میں سے بدترین (خصلت ) ہے۔

علامہ غزالی نے ان تین علامات کے ذکر کرنے کی حکمت بیان کرتے ہوئے تحریر کیا ہے صرف انہی تین علامتوں کے ذکر کرنے کی حکمت یہ ہے کہ یہ دیگر(بری خصلتوں) کی نشان دہی کرتی ہیں کیونکہ دین کی اساس تین چیزوں پر ہے : قول ،عمل اور نیت۔

آپe نے جھوٹ کے ذریعے قول کی خرابی، خیانت کے ذریعے عمل کی خرابی اور وعدہ کی خلاف ورزی کے ذریعے نیت کی خرابی کی نشاندہی فرمائی ہے۔

اسی بات کی ایک اور حکمت بیان کرتے ہوئے علامہ طیبی aرقمطراز ہیں:

’’آپ e نے صرف ان تینوں خصلتوں کا خصوصی طور پر ذکر اس لیے فرمایا ہے، کہ جس اختلاف پر نفاق کی بنیاد ہے ، یہ تینوں اس کو سموئے ہوئے ہیں: (اور وہ ہے )ظاہر وباطن کا اختلاف ، تو جھوٹ حقیقت کے خلاف خبر دینا ہے ، امانت کا حق یہ ہے کہ حق والوں کو ادا کی جائے ، لیکن خیانت اس کی الٹ ہے اور وعدہ خلافی کا معاملہ تو واضح ہے ۔

امام نووی a نے حدیث شریف کے معنی بیان کرتے ہوئے تحریر کیا ہے : اس کا صحیح معنی یہ ہے کہ یہ خصلتیں منافقوں کی خصلتیں ہیں اور ان کا حامل ان خصلتوں کے اعتبار سے منافقین کے ساتھ مشابہت رکھتاہے اور ان کے اخلاق کے ساتھ متصف ہے۔

کیونکہ نفاق باطن کے برعکس (ظاہر کرنا)ہے اور ان خصلتوں کے حامل شخص میں یہ معنی موجود ہے۔ علاوہ ازیں بعض علمائے امت نے بیان کیا ہے کہ نفاق کی اساس اور بنیاد جھوٹ ہے۔ سیدنا حسن a فرماتے ہیں : کہا جاتاتھا:’’ ظاہر وباطن ، قول وعمل اور داخلی اور خارجی صورت حال کا باہمی اختلاف نفاق سے ہے ، اور وہ اساس جس پر نفاق کی عمارت قائم ہے ،وہ جھوٹ ہے۔‘‘

جھوٹ کا باعث قلق واضطراب ہونا:

جھوٹ کی خرابی اور قباحت کو اجاگر کرنے والی باتوں میں سے ایک یہ ہے کہ جھوٹ بولنے والا قلق اور اضطراب میں مبتلا رہتاہے۔ حضرات ائمہ ابوداؤد الطیالسی ، احمد ، ترمذی ابو یعلی اور القضاعی sنے ابو الحوراء a سے روایت نقل کی ہے ، کہ انہوںنے بیان کیا کہ میں نے حسن بن علی t سے پوچھا: ’’ما حفظت من رسول اللہ e ‘‘

’’ آپ نے رسول اللہ e سے کونسی باتیں سیکھیں۔‘‘

انہوں نے فرمایا : حفظتُ منہ : الصدق طمانینۃ ، والکذب ریبۃ ‘‘

’’ میں نے آپ e سے (یہ بات) حاصل کی ’’سچ( دل کے لیے باعث) اطمینان اور جھوٹ (دل کے لیے سبب) قلق ہے۔‘‘

اس حدیث شریف میں نبی کریم e نے جھوٹ کو (ریبۃ) قرار دیاہے، اور اس سے مراد جیسا کہ ملا علی قاری نے بیان کیا ہے یہ ہے کہ وہ نفس کے لیے قلق اور بے چینی کا سبب ہے۔

روز مرہ زندگی میں جھوٹے شخص کا اضطراب اور بے چینی حدیث شریف میں بیان کردہ حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ بدنصیب اپنے ایک جھوٹ کی پردہ پوشی یا اصلاح کی خاطر کتنے جھوٹ بولتاہے۔ لیکن کیا تھوڑی مقدار میں گندگی سے پیدا ہونے والی بدبو کوزیادہ مقدار میں نجاست دور کرسکتی ہے؟

جھوٹ کا راہ ہدایت میںرکاوٹ ہونا:

کتاب وسنت میں راہ ہدایت کی رکاوٹوں کو بیان کیا گیا ہے۔انہی میں سے ایک رکاوٹ جھوٹ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : ان اللہ لا یھدی من ھو کاذب کفار‘‘

بلاشبہ اللہ تعالیٰ اس کو ہدایت نہیں دیتے، جو جھوٹا کافر ہو ۔

اس آیت شریفہ میں اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا ہے کہ جھوٹا کافر توفیق ہدایت سے محروم رہتاہے۔

اس آیت کی تفسیر میں بعض مفسرین نے اس حقیقت کو خوب اجاگر کیاہے۔

ذیل میں ان میں سے تین کے اقتباسات ملاحظہ فرمائیے۔

۱۔ قاضی بیضاویa نے تحریر کیا ہے : جھوٹے اور کافر کو اللہ تعالیٰ حق کی طرف ہدایت پانے کی توفیق نہیں دیتے کیونکہ ان دونوں میں بصیرت مفقود ہوتی ہے۔

۲۔ علامہ الوسی aرقم طراز ہیں : یعنی اللہ تعالیٰ توفیق ہدایت جو کہ مکروہ سے نجات پانے اور مقصود حاصل کرنے کی راہ ہے، جھوٹے کافر کو عطا نہیں فرماتے، کیونکہ وہ ہدایت پانے کے قابل ہی نہیں ہوتا اور اللہ تعالیٰ تو ہر ایک شخص کو اس کی صلاحیت اور قابلیت کے بقدر ہی عطا فرماتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے خود ارشاد فرمایا ہے :

{وَمَاظَلَمْنٰھُمْ وَلَکِنْ کَانُوْا أَنْفُسَھُمْ یَظْلِمُونَ}

’’اور ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ وہ تو خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے۔‘‘

۳۔ شیخ سعدی a لکھتے ہیں: جس کا وصف جھوٹ یا کفر ہو، اللہ تعالیٰ اس کو صراط مستقیم کی طرف ہدایت نہیں دیتے۔ مواعظ اور نشانیاں آنے کے باوجود اس کے (دونوں برے) اوصاف دور نہیں ہوتے۔

اللہ تعالیٰ اس کو نشانیاں دکھائیں، اور وہ ان کا انکار کرے اوران کے ساتھ کفر کرے، تو ایسے شخص کو ہدایت کیوں کر نصیب ہوسکتی ہے؟ اس نے تو خود اپنے لیے ہدایت کا دروازہ بند کر رکھا ہے۔

اس کے بدلے میں اس کو یہ سزادی گئی کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے دل پر مہر ثبت فرمادی، سو وہ ایمان نہیں لاتا۔

اللہ تعالیٰ ہمیں جھوٹ اور کفر سے محفوظ رکھے اور صراط مستقیم کی طرف ہدایت فرمائے۔ انہ سمیع مجیب

جھوٹ کا تاجروں کا فاجر بنانے والی چیزوں میں سے ہونا۔

جھوٹ کی قباحت اس حقیقت سے بھی واضح ہوتی ہے کہ وہ تاجر حضرات کو فاجر لوگوں میں شامل کرنے کے اسباب وعوامل میں سے ایک ہے۔

امام احمد اور امام حاکم ; نے سیدنا عبد الرحمن بن شبل انصاری t سے روایت نقل کی ہے ، کہ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ e نے ارشاد فرمایا : ان التجار ھم الفجار‘‘

’’بلاشبہ تاجر ہی تو فاجر ہیں۔‘‘

قال رجلٌ : یا رسول اللہ e ألم یحل اللہ البیعَ؟

’’ایک شخص نے عرض کیا : یا رسول اللہ e! کیا اللہ تعالیٰ نے تجارت کو حلال نہیں فرمایا ؟ آپ eنے فرمایا : ’’فانھم یقولون فیکذبون و ویحلقون ویاثمون‘‘

’’در حقیقت وہ بات کرتے ہیں، تو جھوٹ بولتے ہیں، قسمیں کھاتے ہیں اور گناہ گار ہوتے ہیں۔‘‘

اس حدیث شریف میں آپ e نے اس حقیقت کو واضح فرمایا ہے ، کہ گفتگو میں جھوٹ تاجر حضرات کو فاجر لوگوں میں شامل کردیتا ہے۔

علاوہ ازیں نبی کریم e نے امت کو اس بات سے بھی آگاہ فرمایا ہے کہ سچ تاجر حضرات کو فاجر لوگوں کے گروہ سے نکال دیتاہے۔

حضرات ائمہ امام عبد الرزاق،امام ترمذی، امام ابن ماجہ ،امام دارمی، امام ابن حبان اورامام حاکم s نے سیدنا رفاعہ t سے روایت نقل کی ہے کہ وہ رسول اللہ e کے ساتھ بقیع کی جانب روانہ ہوئے (راستے میں) لوگ خرید وفروخت کررہے تھے، توآپ e نے آواز دی: ’’یا معشر التجار!اے تاجروں کی جماعت ! وہ آپ e کی جانب متوجہ ہوئے اور اپنی نگاہوں کو آپ کی جانب اٹھایا تو آپ eنے فرمایا : ’’ان التجار یبعثون یوم القیامۃ فجّاراً الا من اتقی وبرّ وصدق‘‘

’’بلاشبہ تاجر روز قیامت فاجر(کی حیثیت سے) اٹھائے جائیں گے، مگر(ان میں سے) تقوی کی راہ اختیار کرنے والے، نیکی کرنے والے اور سچ بولنے والے۔‘‘

شرح حدیث میں علامہ طیبی a نے لکھا ہے : ’’جس نے اپنی تجارت میں محنت اور کوشش سے سچ اور امانت کو اختیار کیا، وہ انبیاء اور صدیقوں کے نیکو کار گروہ میں ہوگا، اور جس نے ان کے برعکس روش پسند کی ، وہ فاسقوں اور نافرمانوں کی صحبت میں ہوگا۔‘‘

اے اللہ ! ہمیں جھوٹ سے بچانا اور اپنی رحمت بے پایاں سے نیک لوگوں میں شامل فرمانا، فاجروں میں داخل نہ فرمانا۔آمین یا ذا الجلال والاکرام

نوٹ:(اس مضمون کی تیاری میں۔پروفیسر ڈاکٹر فضل الٰہی صاحب کی کتاب ’’جھوٹ کی سنگینی اور اقسام سے استفادہ کیا گیا ہے)

Read 4678 times
Rate this item
  • 1
  • 2
  • 3
  • 4
  • 5
(0 votes)
Tweet
  • Social sharing:
  • Add to Facebook
  • Add to Delicious
  • Digg this
  • Add to StumbleUpon
  • Add to Technorati
  • Add to Reddit
  • Add to MySpace
  • Like this? Tweet it to your followers!
Published in اپریل

Related items

  • کامیابی کے نئے متلاشیوں کے نام
    in دسمبر
  • نرمی ایک پسندیدہ صفت !
    in دسمبر
  • موبائل فون کا غلط استعمال ہمارے نوجوانوں پر اس کے اثرات
    in نومبر
  • مثبت سوچ میں زندگی کا حسن ہے !
    in نومبر
  • حقیقی کامیابی کیسے ممکن ہے...؟
    in نومبر
More in this category: « تصحیح المفاھیم فی الجہاد(الحلقۃ الأخیرۃ) باہمی تعلقات کی اساس »
back to top

مضمون نگار

  • ڈاکٹر مقبول احمد مکی ڈاکٹر مقبول احمد مکی
  • الشیخ  محمد طاہر آصف الشیخ محمد طاہر آصف
  • عبدالرشید عراقی عبدالرشید عراقی
  • بنت محمد رضوان بنت محمد رضوان
  • الشیخ ابو نعمان بشیر احمد الشیخ ابو نعمان بشیر احمد
  • الشیخ شاہ فیض الابرار صدیقی الشیخ شاہ فیض الابرار صدیقی
  • حبیب الرحمٰن یزدانی حبیب الرحمٰن یزدانی
  • خالد ظہیر خالد ظہیر
  • راحیل گوہر ایم اے راحیل گوہر ایم اے
  • عطاء محمد جنجوعہ عطاء محمد جنجوعہ
  • ڈاکٹر عبدالحی المدنی ڈاکٹر عبدالحی المدنی
  • مدثر بن ارشد لودھی مدثر بن ارشد لودھی
  • محمد شعیب مغل محمد شعیب مغل
  • الشیخ محمد شریف بن علی الشیخ محمد شریف بن علی
  • حافظ محمد یونس اثری حافظ محمد یونس اثری
  • الشیخ محمد یونس ربانی الشیخ محمد یونس ربانی

About Usvah e Hasanah

اسوہ حسنہ، جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کا ماہنامہ تحقیقی، اصلاحی و دعوتی ماھنامہ مجلہ جس میں حالاتِ حاضرہ، کی مناسبت سے قرآن سنت کی روشنی میں مضامین اور تحقیقی مقالات شائع کئے جاتے ہیں

Contact us

ماھنامہ اسوہ حسنہ، جامعہ ابی بکر الاسلامیہ، گلشن اقبال بلاک 5،پوسٹ بکس نمبر11106، پوسٹ کوڈ نمبر75300 کراچی پاکستان

Phone: +92 0213 480 0471
Fax: +92 0213 4980877
Email: This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

facebook

good hits

 

  • About us
  • privacy policy
  • sitemap
  • contact us
  • Disclaimer
  • Term of Condition
Copyright © جملہ حقوق بحق ماھنامہ اسوہ حسنہ محفوظ ہیں 2023 All rights reserved. Custom Design by Youjoomla.com
2011