ابھی جاگتے تھے ابھی سو گئے تم

زندگی اور موت باہم ایک دوسرے سے متوازن چل رہی ہیں جس کا مشاہدہ صدیوں سے فرد بشر کرتا آرہا ہے اسکا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ زندہ کو بالآخر موت آئے گی مگر اس موت کا شکار ہو نے والے زندہ انسانوں کے لئے جدا جدا اثرات رکھتے ہیں۔ کسی کی موت فرد واحد کی موت ہوتی ہے جیسے وہ خود ہی جانتا ہے اور کسی کی موت افراد خانہ خویش و اقرباکو متاثر کرتی ہے۔ اور بعض اموات قوم و قبیلہ و ملک سوگوار چھوڑ جاتی ہیں۔ اسکی واضح مثال افراد انسانی کی اموات سے لیکر انبیاء و رسل تک پیش کی جا سکتی ہے رحمت دو عالمصلی اللہ علیہ وسلم و دیگر انبیاء کی موت کا تذکرہ قرآن میں موجود ہے۔

انک میت وانھم میتون
وما محمد الارسول قد خلت من قبلہ الرسل افان مات او قتل انقلبتم علی اعقابکم۔ افان مت فھم الخلدون۔کل نفس ذائقۃ الموت۔ کل من علیہا فان۔ إذا جاء أجلھم لا یستاخرون ساعۃ ولا یستقدمون۔

اس دنیائے فانی کا فنا ہونا روزمرہ کی اموات سے دکھائی دیتا ہے عالم آخرت کی بقا پر یقین مومن کے لئے جزو ایمان ہے۔ پاکستان کے درو دیوار میں آئے دن حادثاتی اموات اور فساداتی اموات روزمرہ کا معمول بن چکی ہیں۔ حادثاتی اموات میں جناب چوہدری محمد ظفر اللہ رحمہ اللہ علیہصدر شعبہ اسلامیات قائد اعظم یونیورسٹی کراچی کی موت کا ذکر اخبارات میں شائع ہوا۔

راقم الحروف ان دنوں ایبٹ آباد سے اسلام آباد پہنچا تو مرحوم کی شہادتی موت کے ذکر نے دل گرفتہ کر دیا خبر سنتے ہی یقین نہ آیا مگر قضائے الہی کے فیصلے کو مانے بغیر چارہ بھی نظر نہ آیا جنازہ میں شمولیت کا وقت گزر چکا تھا واپس ساہیوال آتے ہی تعزیت کے لئے مرحوم کے بھائی چوہدری نور اللہ ، چودھری ہدایت اللہ سے بذریعہ فون تفصیلی گفتگو ہوئی تعزیتی کلمات ادا کیئے اور مرحوم کے لئے دعا اور انکی خدمات کو خراج عقیدت پیش کیا یہ گفتگو تادیر رہی۔ مگر قلبی سکون حاصل نہ ہو سکا۔ بالآخر بات انا للہ وانا الیہ راجعون پر ختم کرنا پڑی۔

راقم کو مرحوم سے جو شناسائی تھی۔ اسکا تذکرہ کچھ یوں ہے کہ غالبا 1958ء کو جامعہ تعلیم الاسلام ماموں کانجن کی پہلی عمارت اوڈانوالہ گائوں میں راقم تدریسی خدمات سر انجام دے رہا تھا امیر المجاہدین صوفی محمد عبداللہرحمہ اللہ علیہ کی خدمت میں ایک طالب علم ظفرا للہ داخلہ کے لئے حاضر ہوا انکے والد کی گائوں کے احباب سے انکی رشتہ داری تھی۔ بانی جامعہ سے خاصی عقیدت رکھتے تھے۔ اپنے اس بیٹے کو بابا جی کی خدمت میں پیش کر کے اس کی کامیابی کے لئے دعا کی درخواست کی اور عرض کیا کہ یہ نو خیز بچہ اب اللہ کے سپرد ہے۔ اور آپ کے زیر تربیت رہے گا اور اساتذہ کی شفقت سے نہ صرف ہونہار طالب علم بلکہ جید عالم دین دیکھنے کی تمنا رکھتا ہوں۔ بانی جامعہ نے اسی وقت حسب عادت دست دعا دراز کیئے اور ظفرا للہ کے لئے والد کی حسب تمنا دعا فرمائی۔

ادارے کا نظم داخلہ اور ابتدائی جماعت کی تدریسی خدمات راقم کے سپرد تھیں فورا مجھے بلا کر فرمایا یہ ایک طالب علم نیا آیا ہے اسکا باپ اسے جید عالم دیکھنا چاہتا ہے آپ اس پر پوری توجہ دیں اور شفقت و محبت سے پڑھائیں اسے کتابیں رہائش کی جگہ دے دی گئی کیونکہ اسکے تمام اسباق میرے ہی سپرد تھے اور سال نو کا آغاز تھا نئے نئے طلبہ جو گھر سے آئے ہوئے تھے اپنے اپنے انداز میں تعلیم میں دلچسپی لے رہے تھے۔ ظفراللہ کو میں نے پہلے ہی دن سے مکمل انہماک اور توجہ سے پڑھنے والا طالب علم محسوس کیا۔ استاد سے اسباق بغور سنتا وقفہ ملتے ہی سبق دھراتا مشکل الفاظ ذہن نشین کرنے کے لئے دوبارہ دریافت کرتا لڑکوں کو میں نے ہدایت کر رکھی تھی کہ مشکل الفاظ کے معانی کاپیوں پر لکھ لیا کریں۔ ظفرا للہ دن بدن محنتی طلبہ میں ممتاز ہونے لگا اور جیسے ہی امتحان کا مرحلہ آیا جماعت میں ممتاز پوزیشن حاصل کرتا رہا۔ جامعہ تعلیم الاسلام ماموں کانجن جو اس وقت جامعہ کے نام سے معروف نہ تھا بلکہ دارالعلوم اور مدرسہ کے نام سے موسوم تھا اس وقت نصاب تعلیم چھ سال پر محیط تھا۔ ظفر اللہرحمہ اللہ علیہ کی کلاس میں متعدد طلبہ ایک دوسرے سے بڑھ کر محنتی تھے اور فارغ اوقات میں اساتذہ سے اضافی وقت لیکر اضافی کتب بھی پڑھا کرتے۔ جبکہ آج عموما اکثر طلبہ کتب نصاب کی ورق گردانی یا سماعت پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ فطرتی بات ہے کہ استاد کو ذہین طالب علم سے خاص لگائوہوتا ہے ابتدائی تین جماعتوں میں امتیازی پوزیشن حاصل کرنے کی بنا پر ادارہ میں تمام اساتذہ کی نگاہ ظفر اللہرحمہ اللہ علیہ کی طرف متوجہ رہی۔ غالبا چوتھی جماعت میں پڑھتے ہوئے انکی جماعت نے تعلیم میں انقلابی اقدام کا فیصلہ کیا۔

السنہ شرقیہ کا امتحان:

اوڈانوالہ گائوں میں دارالعلوم کے نصاب کو درس نظامی پر مشتمل رکھا گیا تھا اور السنہ شرقیہ کے امتحانات پر کوئی خصوصی توجہ نہیں دی جاتی تھی۔ میری مراد یہ ہے کہ فاضل عربی اور اسکے ذیلی امتحانات، ادیب عربی، عالم عربی نصاب میں شامل نہ تھے۔ فاضل عربی امتحان دینے کے شائق طلبہ ادارے سے فارغ ہونے کے بعد یا آخری سال کی تعلیم کے دوران اپنی کوشش اور ذاتی کاوش سے کامیابی کی طرف قدم بڑھاتے ادیب عربی اور عالم عربی امتحان دینے کا شوق ظفراللہ کی جماعت میں سے محنتی طلبہ میں پیدا ہوا اور انہوں نے تینوں امتحان بالترتیب پاس کرنے کا فیصلہ کیا۔ غالبا چوتھی جماعت میں ادیب عربی پانچویں جماعت میں عالم عربی اور چھٹی جماعت میں فاضل عربی میں ان محنتی طلبہ نے کامیابی حاصل کی۔ کیونکہ یہ امتحانات سرکاری سطح پرلیے جاتے تھے۔ اور ان کی اکثر کتب ادارہ کے نصاب میں شامل نہ تھیں لہذا طلبہ کو یہ کتب اساتذہ سے فارغ وقت میں پڑھنا پڑیں۔ اور اساتذہ بھی مشفق تھے مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ کوئی استاد عصر کے بعد کوئی استاد مغرب کے بعد اور کوئی استاد فجر کی نماز و تلاوت کے بعد اضافی کتب پڑھاتے۔ اس اعتبار سے ظفراللہرحمہ اللہ علیہ اور ان کے ساتھیوں نے کلاسوں میں بھی راقم سے استفادہ کے لئے رابطہ بدستور رکھا نصابی ترتیب کے اعتبار سے راقم کے پاس ابتدائی جماعتوں کے اسباق ہوتے تھے جبکہ منتہی کلاسوں کے اسباق میرے اساتذہ کرام پڑھایا کرتے تھے مگر انکے اضافی امتحانات میں تعاون کے لئے مجھے بھی انہیں وقت دینا پڑتا تو میں بجا طور پر کہہ سکتا ہوں کہ ظفر اللہ نے راقم الحروف سے اپنے تعلیمی سالوں میں ہر سال مجھے سے بھی استفادہ کیا۔ کئی مشکل اور دقیق کتابیں بھی اپنے ذوق کی تسکین کے لئے وہ پڑھا کرتے تھے مجھے یاد ہے کہ انکے چند ساتھیوں نے مسئلہ وراثت پر معروف درسی کتاب ’’سراجی‘‘ کے علاوہ اسکی شرح شریفیہ اور ایک کتاب جو مصری قانون وراثت پر مشتمل تھی مجھ سے سبقاً پڑھی۔ ادارے میں ایک نہایت مشفق استاد اور میرے محسن استاد مومن عبدالصمد رئوف متعنا اللہ بطول حیاتہ عربی ادب کی کتب پڑھانے میں خاصی شہرت رکھتے تھے۔ اردو ادب پر بھی انہیں خاصی دسترس حاصل تھی میں نے اکثر دیکھا کہ الشیخ ظفراللہ رحمہ اللہ علیہ مولانا عبدالصمد رؤف جو اسم بامسمی تھے ان سے کسب فیض میں دن رات مگن رہتے۔ ان کے ہم سبق ساتھی امتحان میں انکی کامیابی پر مولانا مذکور کی شفقتوں کو دخیل قرار دیتے اور بعض مرتبہ پریشان بھی ہوتے کہ ہم اتنی محنت کیوں نہ کر سکے جتنی ظفراللہرحمہ اللہ علیہ کرتا ہے۔

بانی و جامعہ سے لگاؤ:

ادارہ تعلیم الاسلام کے بانی امیر المجاہدین صوفی محمد عبداللہرحمہ اللہ علیہطلبہ سے شفقت کرنے میں اپنی مثال آپ تھے۔ بچوں سے بھی زیادہ عزیز طلبہ کو جانتے مگر بعض طلبہ بانی جامعہ سے خاص لگائو رکھتے اور وہ بھی ان پر خصوصی توجہ فرماتے الشیخ ظفراللہرحمہ اللہ علیہ کے والد چونکہ امیرا لمجاہدین سے خاص عقیدت رکھتے تھے۔ اور ان کے ہاتھ پر انہوں نے جہاد کی بیعت بھی کر رکھی تھی اس بناء پر الشیخ ظفراللہرحمہ اللہ علیہ اکثر بانی جامعہ کے پاس بیٹھ کر انکی پند و نصائح سنا کرتے انکی زندگی میں پیش آمدہ مشکلات و مسائل سنتے انگریز حکومت کے خلاف انکی جہادی مساعی اور ظالم و جابر عیسائی حکمرانوں کے ظلم کی داستانیں سنتے سنتے ظفراللہ کے دل میں جذبہ جہاد، مظلوم کی حمایت، ظالم کے خلاف نفرت راسخ ہو گئی۔ بابا جیرحمہ اللہ علیہ باہر سے آنے والے احباب کو جب جہاد کادرس دیتے تو کئی طلبہ بھی اس درس سے استفادہ کے لئے بیٹھ جاتے اور جب وہ لوگ درس سے متاثر ہو کر بیعت جہاد کرتے تو یہ طلبہ بھی بیعت کرتے الشیخ ظفراللہرحمہ اللہ علیہ نے بھی بابا جیرحمہ اللہ علیہ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ یوں باپ بیٹا دونوں ہی جماعت المجاہدین میں باضابطہ شامل ہو گئے۔

اساتذہ کا ادب و احترام:

استاد اور شاگرد کا خاص روحانی رشتہ ہوتا ہے۔ خوش نصیب طلبہ استاد کے ادب و احترام میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے اور با ادب طالب علم ہی صحیح معنوں میں مئودب رہ کر تعلیمی منازل طے کرتے ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جو درجہ باپ کا ہے وہی درجہ استاد کا ہے۔ اگر شریعت نے ماں باپ کے سامنے کلمہ اف کہنا گستاخی قرار دیا ہے اور اس سے منع کیا ہے تو استاد کے سامنے اس سے بھی زیادہ مئودبانہ طریق کار اختیار کرنا چاہیے۔ دارالعلوم میں دوران تعلیم چھ سال میں مجھے کوئی دن ایسا یاد نہیں کہ جس میں الشیخ ظفراللہرحمہ اللہ علیہ نے کسی استاد سے کسی انداز پر بھی کوئی رنجش پیدا ہونے دی ہو۔ درج بالا سطور میں مولانا عبدالصمد رئوف زید مجدہ، کا ذکر آیا ہے، وہ طلبہ میں اس طرح گھل مل جاتے کہ استاد اور شاگرد میں کوئی امتیاز نمایاں نہ رہتا۔ اور ایسے وقت میں خوش طبعی کے انداز پر بھی کسی طالب علم سے کوئی لفظ نکلنا ممکن ہوتا ہے جسے گستاخی پر محمول کیا جا سکے۔ ظفراللہ صاحب کو ایسے موقع پر بھی مئودب ہی پایا۔ گائوں میں رہتے ہوئے طلبہ اور دیہاتیوں کا باہم ملنا اٹھنا بیٹھنا ہوتا ہے اگر کسی وقت کسی دیہاتی کے منہ سے کسی استاد کے خلاف تلخ لہجہ سنتا توشیخ ظفراللہرحمہ اللہ علیہ کو وہ برداشت نہ ہوتا۔ راقم کے پاس اس بارے میں کچھ واقعات ایسے بھی ہیں جس میں حمایت استاد کا عملی کردارالشیخ ظفراللہرحمہ اللہ علیہ کا خصوصی امتیاز ثابت ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنے والد کے خلاف کوئی بات سننا گوارا نہیں کرتا تو حق یہی ہے کہ کسی شاگرد کو اپنے استاد کے بارے میں بھی کوئی بات گوارا نہیں کرنا چاہیے۔ شریعت اسلامیہ میں پورے مسلم معاشرے کو غیبت سے محفوظ رہنے کی جو تلقین کی ہے اس میں ہر مسلمان بھائی کو اپنے مسلمان بھائی کے بارے میں نہ بات کرنی چاہیے نہ سننا چاہیے۔ ولا یغتب بعضکم بعضا ایحب احدکم ان یأکل لحم اخیہ میتا فکرھتموہ

جامعہ تعلیم الاسلام ماموں کانجن:

ادارہ تعلیم الاسلام جس کا باقاعدہ آغاز چک نمبر 493 گ ب اوڈانوالہ میں 1932ء سے ہوا تھا اور مدرسہ تعلیم الاسلام کے نام سے موسوم ہوا قریبا 30 سال کا عرصہ اسی گائوں میں یہ ادارہ پروان چڑھتا رہا۔ ایک استاد اور 2 طالب علموں سے جس کا تدریسی نظام شروع ہوا تھا اس میں آئے دن طلبہ کا اضافہ ہوتا رہا۔حسب ضرورت اساتذہ کی تقرری بھی عمل میں آتی رہی چھوٹے اساتذہ سے لیکر بڑے اساتذہ تک کی خدمات ادارے کو حاصل رہیں ابتدائی کلاسوں سے لیکر منتہی جماعت تک تعلیم جارہی رہی مگر سفری سہولتوں کے فقدان کی بنا پر بانی جامعہ کو بارہا خیال آتا کہ طلبہ کی اس تکلیف کا مداوا کیا جائے ایک بار تو عجب انداز میں بانی جامعہ نے دعا کی طلبہ عید الاضحی کی تعطیلات کے حصول کے لیے بابا جیرحمہ اللہ علیہ کے پاس درخواست لیکر گئے تو باباجیرحمہ اللہ علیہ نے درخواست قبول کر کے دعا اسطرح شروع کی پہلے سورۃ فاتحہ درود ابراہیمی اور ادعیہ ماثورہ پڑھتے رہے اور پھر اپنی مادری پنجابی زبان میں ایسے دعا کرنے لگے کہ اے اللہ طلبہ کو مدرسہ میں آنے جانے کی تکلیف ہے ایسے اسباب پیدا فرما کہ ریلوے لائن مدرسے کے درمیان میں سے گزرے طلبہ آمین بھی کہتے اور تعجب سے ایک دوسرے کی طرف بھی دیکھتے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ماموں کانجن یہاں سے 3 میل دور ہے وہاں سے ریلوے لائن اوڈانوالہ آئے اور مدرسہ کی عمارت کے درمیان میں سے گزرے ایں خیال است و محال است و جنوں مگر کون جانتا تھا کہ ولی کامل کی یہ دعا رب قدیر قبول کر کے حقیقت بنا کر دکھائیں گے ریلوے لائن ادارے کی عمارت کے درمیان سے گزرے گی اللہ مسبب الاسباب ہے اس نے اس دعا کی قبولیت میں ماموں کانجن میں تقریبا 32 کینال کا ایک پلاٹ قریبا سرکاری قیمت پر ہی قیمتا ادارے کو دلوا دیا اور وہاں آج پر شکوہ قابل دید عمارت موجود ہے اس عمارت کی بنیاد کے وقت الشیخ ظفراللہرحمہ اللہ علیہ منتہی کلاس کے طالب علم ہوتے ہوئے ایک مزدور کی طرح کام کرتے نظر آتے تھے۔ اس جگہ کے خریدنے اور تعمیرات کے سلسلے میں مستقل مشیر اور معاون بانی جامعہ کے مرید خاص مولانا عبدالقادر ندویرحمہ اللہ علیہ دن رات ایک کیئے ہوئے تھے اور اسکی کامیابی کے لئے تگ و دو کرتے رہے۔ ماموں کانجن کے غیر اہلحدیث بااثر سیاسی افراد اپنے سیاسی مقاصد کے لئے اسکی مخالفت کرتے رہے۔ نہ صرف مخالفت کرتے رہے بلکہ معاملہ مقدمہ بازی تک جا پہنچا۔ ستمبر 1963کو اس جگہ عمارت کا آغاز ہوا تھا اور اس وقت معماروں کے ساتھ طلبہ بھی کام کیا کرتے تھے اور طلبہ اسے اپنی سعادت سمجھ کرکرتے جبکہ الشیخ ظفراللہ رحمہ اللہ علیہصاحب طلبہ کو باری باری رات کو سامان کی حفاظت کے لئے اپنے ساتھ رکھتے اور دن کو کاریگروں کے ساتھ تعمیر میں معاونت کرتے اور وہ وقت دیدنی تھا جو اب بھی میرے سامنے ہے کہ بانی جامعہ نے بنیاد میں لگائی جانے والی اینٹوں میں ہر اینٹ پر دم اور دعا کر کے طلبہ کو پکڑائی اور وہ ان لفظوں سے دعا کرتے تھے۔

رب انی اسکنت من ذریتی بواد غیر ذی ذرع عند بیتک المحرم ربنا لیقیموا الصلوٰۃ فاجعل افئدۃ من الناس تھوی الیہم وارزقہم من الثمرات لعلہم یشکرون

جامعہ تعلیم الاسلام کی موجودہ عمارت کے منظر کو دیکھ کر جب ستمبر 1963 پر نظر جائے گی تو یہ ایک ویران پلاٹ قبرستان سے متصل بے کار قسم کی زمین دکھائی دے گی مگر ولی کامل کی دعا کی قبولیت کے منظر میں ظفراللہ اور اسکے ساتھیوں کی مسلسل محنت سے دیکھتے ہی دیکھتے یہاں عمارت میں آئے دن اضافہ ہوتا چلا گیا۔ جب تک یہ عمارت قائم رہے گی الشیخ ظفراللہرحمہ اللہ علیہ کے ذخیرہ آخرت میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم۔ آمین

ادارے سے فراغت کے بعد:

الشیخ ظفراللہ رحمہ اللہ علیہصاحب غالبا1964 کو ادارہ تعلیم الاسلام سے علوم دینی و دنیوی سے آراستہ ہو کر فراغت کے مرحلہ کو پہنچے۔ فراغت کے موقع پر تقسیم اسناد کی خصوصی محفل کا انعقاد کیا گیا۔ اس موقع پر دیگر اساتذہ کے ساتھ ساتھ راقم کو بھی الوداع ہونے والے طلبہ سے چند باتیں کرنے کا موقع ملا۔ اپنی اس تقریر میں راقم نے طلبہ کی توجہ خاص طور پر اس بات کی طرف مبذول کروائی کہ ادارہ سے فارغ ہونے کے معنی یہ نہیں کہ اب مزید تعلیم کے حصول سے ہاتھ کھینچ لیا جائے بلکہ اب تو آپ اس قابل ہوئے ہیں کہ خود کو کسی بلند مقصد کے لئے تیار کر سکیں۔ اپنی زندگی کا ایک مقصد بنا کر اسکے حصول کے لئے کمربستہ ہو جائیں اور اپنے بعد ایک مثال اور قابل تقلید نمونہ چھوڑ جائیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس موقعہ پر طلبہ پر ایک رقت آمیز کیفیت طاری تھی۔الشیخ ظفراللہرحمہ اللہ علیہ نے میری تقریر کے بعد اٹھکر تمام اساتذہ کا شکریہ ادا کیا اور دعا کی درخواست کی کہ اللہ مجھ سے بھی اپنے دین کا کام لے لے۔ بعد ازاں دیگر الوداع ہونے والے طلبہ نے بھی خطاب کیئے۔ تقریب کے اختتام پر حضرت صوفی عبداللہرحمہ اللہ علیہ نے بڑے پر سوز انداز میں دعا کی اورالشیخ ظفراللہ رحمہ اللہ علیہکا خاص نام لیکر دعا کی اس نوجوان نے جس عزم کا اظہار کیا ہے اللہ اسے پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

جامعہ سے فراغت کے بعد الشیخ ظفراللہرحمہ اللہ علیہ نے اپنے اساتذہ کی نصیحت کے مطابق خود کو طالب علم ہی سمجھا اور مزید عصری تعلیم کے حصول کے لئے کمر بستہ ہو گئے۔

کراچی یونیورسٹی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور پھر بیرون ملک چلے گئے اور ریاض یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی اور عرصہ سے کراچی یونیورسٹی میں بحیثیت پروفیسر اور اسلامیات کے شعبہ کے مدیر کی حیثیت سے فرائض سر انجام دے رہے تھے۔

جامعہ ابی بکر کا قیام:

پروفیسر ظفراللہرحمہ اللہ علیہ صاحب کی دینی و ملکی خدمات میں سے ایک بہت بڑا کارنامہ جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی کا قیام ہے جو کہ انکے لیے ایک عظیم صدقہ جاریہ ہے۔ کراچی جیسے آزاد ماحول میں ایک بین الاقوامی یونیورسٹی کا قائم کرنا اور پھر اسے نظم و نسق اور تعلیم کے لحاظ سے قابل رشک بنانا صرف الشیخ ظفراللہرحمہ اللہ علیہ کا ہی کارنامہ ہے۔ اس وقت اس ادارہ میں بیس سے زائد ممالک کے طلبا حصول تعلیم میں مصروف ہیں۔

ظفراللہ نے ادارے کی مالی معاونت کے لئے بیرون ملک ایک وسیع حلقہ احباب پیدا کر رکھا تھا۔ اور انکی جماعتی ہمدردی اور جذبہ ایثار کا یہ عالم تھا کہ ملک کے دیگر کئی اہلحدیث مدارس کا بیرون ملک تعارف کروایا اور ان کی مالی امداد کے اسباب بھی پیدا کیئے۔ مالی معاملات اور جامعہ کا حساب کتاب اس قدر صاف اور شفاف تھا کہ شاید ہی اس کی مثال مل سکے۔ ظفراللہ نے انتہائی دیانتدار اور قابل اعتماد و منتظم تھے۔ جامعہ ابی بکر کے ساتھ ساتھ انہوں نے ملک بھر میں مساجد کی تعمیر اور مدارس کے قیام کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اس وقت ملک بھر میں بے شمار مساجد و مدارس جامعہ ابی بکر کے زیر انتظام چل رہے ہیں۔

جماعت مجاہدین سے وابستگی:

ظفراللہ صاحب بنیادی طور پر ایک فعال اور متحرک ورکر تھے۔ ملکی اور تنظیمی کوششوں کے سلسلہ میں انکا بیشتر وقت سفر میں گزرتا۔ ملک کے کسی چھوٹے سے چھوٹے قصبہ میں بھی پروگرام پر بلایا جاتا فورا پہنچ جاتے۔ ہر وقت انکی جیب میں دو تین شہروں کے ہوائی سفر کے ٹکٹ موجود ہوتے۔ جماعت مجاہدین کا ماضی انتہائی روشن اور تابناک ہے مگر گزشتہ سالوں میں جماعت مجاہدین کی کارکردگی کافی محدود ہو گئی تھی۔ ظفراللہ صاحب نے جماعت کی ترقی کے لئے شب و روز محنت کی اور غازی عبدالکریم صاحب کی مجاہدانہ قیادت و امارت میں اسے ایک مضبوط جہادی تنظیم کے طور پر مستحکم کیا۔ جماعت مجاہدین کے زیر انتظام جہادی تربیت کے مراکز قائم کئے گئے۔ مہاجرین کی امداد کے لئے لاکھوں روپے کے فنڈز دیئے گئے، مدارس کے طلباء میں صحاح ستہ، الرحیق المختوم اور دیگر بے شمار کتب تقسیم کی گئیں ملک بھر میں جہادی پروگرام اور جہاد کے موضوعات پر تقریری مقابلوں اور مضمون نویسی کے مقابلہ کا انعقاد کیا گیا۔ ظفراللہ نے اپنی زندگی جہاد کے لئے وقف کر رکھی تھی اور انہیں موت بھی جہادی تربیت کے مرکز واقع مانسہرہ کے دورہ سے واپسی کے سفر کے دوران آئی۔

پروفیسر صاحب کو امیر المجاہدین صوفی عبداللہرحمہ اللہ علیہ سے انتہائی عقیدت تھی۔ راقم سے ان کی جب بھی ملاقات ہوئی صوفی صاحب کا تذکرہ خیر ضرور ہوتا اور مجھے ہمیشہ بااصرار صوفی صاحب کے حالات زندگی مرتب کرنے کو کہتے بلکہ وفات سے چند روز قبل فون پر ان سے تفصیلی گفتگو ہوئی۔ میں نے اپنے بیٹے حافظ عبدالرحمن عتیق کے پی ایچ ڈی میں داخلہ کے لئے ان سے مشورہ کیا تو کہنے لگے انہیں داخلے میں کراچی یونیورسٹی میں دیدیتا ہوں اور ہر طرح سے تعاون بھی کرونگا۔ ہم نے آ پ سے کسب فیض کیا ہے اور اگر آپ کا بیٹا میری کوششوں سے اعلی تعلیم حاصل کر لیتا ہے تو یہ میرے لئے سعادت ہے۔ لیکن ایک عرض ہے کہ پی ایچ ڈی کا مقالہ حضرت صوفی عبداللہرحمہ اللہ علیہ کی زندگی پر لکھا جائے کیونکہ صوفی صاحب کی سوانح عمری مرتب کرنا آپ پر قرض ہے۔ آپ لکھواتے جائیں برخوردار لکھتا جائے اسکی پی ایچ ڈی بھی ہو جائے گی اور آپکا قرض بھی اتر جائیگا۔

حسن اخلاق و حسن کردار:

ظفراللہ صاحب بین الاقوامی شہرت کے حامل تھے۔ ملک بھر اور عالم عرب کی نمایاں شخصیات سے انکے قریبی مراسم تھے، دنیا بھر کی عالمی کانفرنسوں اور میٹنگوں میں شرکت کے لئے جانا انکا روز مرہ کا معمول تھا۔ کراچی یونیورسٹی میںا پنے شعبہ کے ہیڈ تھے مگر بحمداللہ صورت و سیرت کے لحاظ سے متبع سنت تھے۔ اخلاق و کردار میں اعلی نمونہ کے مالک تھے۔ انتہائی درویشانہ اور متواضع زندگی بسر کی طبیعت میں سادگی انتہا درجے کی تھی۔ انتہائی خوش اخلاق اور ملنسار تھے۔ سفر و حضر میں ذکر الہی میں مشغول رہتے۔ تہجد گزار اور شب زندہ دار تھے۔ ملک بھر کی اہلحدیث تنظیموں اور بالخصوص جہادی تنظیموں کو متحد کرنے میں انہوں نے ایک فعال کردار ادا کیا۔ انتھک کوششیں کر کے کئی مشترکہ اجلاس بلوائے مگر افسوس انکی مخلصانہ کوششوں کا جواب اخلاص و سر گرمی اور قربانی کے جذبہ کے تحت نہ دیا گیا اور انکا اتحاد کا یہ خواب شرمندہ تعمیر نہ ہوسکا۔

پروفیسر ظفراللہرحمہ اللہ علیہ جیسے باکمال لوگ روز روز پیدا نہیں ہوتے۔انہوں نے اپنے عزم اور تڑپ کو حقیقت کا رنگ دیا اور دین کا وہ کام کیا ہے کہ بہت کم لوگ اپنی زندگی میںاس قدر کام کر پاتے ہیں۔ وہ دوران تعلیم و تربیت اور جہاد کی بیداری کے سلسلہ میں کچھ نہ کچھ کرنے کے لئے مضطرب و بے چین رہتے اللہ تعالی انکی محنتوں اور کوششوں کو قبول فرمائیں اور انکے شروع کردہ اور زیر غور منصوبوں کی تکمیل فرمائیں۔ آمین

٭…٭…٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے