روزے کی فضیلت:

روزے کی فضیلت واہمیت متعدد کتبِ احادیث میں موجود ہے ان میں وارد احادیث میں سے چند ایک صحیح احادیث بیان کی جاتی ہیں:

١۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :جنت میں ایک دروازہ ہے جسے’’ریان‘‘ کہا جاتا ہے، قیامت کے دن اس دروازے سے روزے دارداخل ہوں گے۔ ان کے علاوہ اس میں سے کوئی اندر نہیں جاسکے گا۔ پکارا جائے گا: روزے دار کہاں ہیں؟ وہ کھڑے ہوجائیں گے ان کے سوا کوئی اور اس دروازے سے داخل نہیں ہوگا۔ جب یہ داخل ہوجائیں گے تو دروازہ بند کردیا جائے گا پھر بعد میں کوئی بھی اس دروازے سے داخل نہ ہوگا۔(صحیح بخاری/١٨٩٦ وصحیح مسلم/١١٥٢)

٢۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو شخص اللہ عزوجل کے راستہ میں ایک دن کاروزہ رکھتا ہے،اس دن کے بدلے میں اللہ اس کا چہرہ جہنم سے ستر سال (کی مسافت تک)دور کردے گا۔(صحیح بخاری/٢٦٨٥ وصحیح مسلم/١١٥٣)

٣۔ ایک مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے اللہ کے راستہ میں ایک دن کا روزہ رکھا تو اللہ تعالیٰ اس کے اور دوزخ کے درمیان اتنی بڑی خندق (گڑھا) بنادے گا جتنا آسمان وزمین کے درمیان فاصلہ ہے۔(سنن ترمذی/٦٣٣٣، امام البانی نے حدیث کو حسن صحیح کہا ہے،السلسلة الصحیحة/٥٦٣)

٤۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: روزہ جہنم سے ڈھال ہے، جس طرح لڑائی سے بچانے والی تمہاری ڈھال ہوتی ہے۔(مسند احمد/٣٨٧٩)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرض روزوں کے علاوہ نوافل روزے بھی مختلف اوقات میں رکھے ہیں اور اپنی امت کونفل روزے رکھنے کی ترغیب دی ہے۔زیر نظر تحریر میں صرف شوال کے چھ روزوں اوران کے فضائل کا ذکر ہے ۔

شوال کے چھ روزے:

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَ تْبَعَہُ سِتًّا مِنْ شَوَّال، کَانَ کَصِیَامِ الدَّھَر

جس نے رمضان کے (پورے)روزے رکھے اس کے بعد شوال کے چھ (نفلی) روزے رکھے تو یہ پورےسال کے روزے رکھنے کے برابر ہے۔(صحیح مسلم/١١٦٤)

نیز فرمایا:   جَعَلَ اللہُ الْحَسَنَةَ بِعَشْرِ أَمْثَالِہَا، فَشَہْر بِعَشْرَةِ أَشْہُرٍ، وَصِیَامُ سِتَّةِ أَیَّامٍ بَعْدَ الْفِطْرِ تَمَامُ السَّنَةِ۔

(صحیح ابن خزیمہ،امام البانی نے حدیث کو صحیح قرار دیا ہے، ملاحظہ ہو صحیح الترغیب ح/٩٩٧)

اللہ تعالیٰ نیکی کو دس گنا بنادیتا ہے،پس ایک مہینہ روزہ رکھنا دس مہینے کے برابر ہوا، اور عید کے بعد چھ دن کے روزے سال کو پورا کردیتے ہیں۔

سوال: کیا شوال کے چھ روزوں کے لیے یہ لازمی ہے کہ مسلسل رکھے جائیں یا پورے مہینے میں الگ الگ رکھنے میں بھی کوئی حرج نہیں؟

جواب: شوال کے چھ روزے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ثابت ہیں، ان کو مسلسل اور متفرق دونوں طرح رکھنا جائز ہے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان روزوں کا مطلقاً ذکر فرمایا ہے اور اس بات کا کوئی ذکر نہیں کیا کہ انہیں مسلسل رکھا جائے یا الگ الگ۔ چنانچہ اس سلسلہ میں آپ کافرمان ہے:

مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَ تْبَعَہُ سِتًّا مِنْ شَوَّال، کَانَ کَصِیَامِ الدَّھَر۔(صحیح مسلم/١١٦٤)

جس نے رمضان کے روزے رکھے اور پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو وہ اس طرح ہے جیسے سال بھر کے روزے رکھے ہوں۔(شیخ ابن بازرحمہ اللہ، فتاویٰ اسلامیہ/٢٢٦)

سوال: جس شخص (مردہویاعورت)کے ذمہ رمضان کے کچھ روزے باقی ہوںاور وہ شوال کے چھ روزے بھی رکھنا چاہتا ہو تو کیا وہ رمضان کے روزوں کی قضا سے پہلے شوال کے روزے رکھ سکتا ہے؟

جواب: مشروع یہ ہے کہ شوال کے چھ روزوں سے پہلے رمضان کے روزوں کی قضا دی جائے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَ تْبَعَہُ سِتًّا مِنْ شَوَّال

جس نے رمضان کے روزے رکھے پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے۔(صحیح مسلم/١١٦٤)

اور اگر رمضان کے روزوں کی قضا سے پہلے شوال کے روزے رکھ لیے تو وہ رمضان کے بعد نہ ہوئے بلکہ رمضان کے بعد روزوں سے پہلے ہوئے اور پھر یہ کہ رمضان کے روزے تو فرض ہیں، لہذا انہیں پہلے مکمل کرنا افضل ہے۔(حوالہ سابقہ)

سوال: ایک آدمی کے ذمہ مسلسل دو ماہ کے روزوں کا کفارہ لازم ہے اور وہ شوال کے چھ روزے بھی رکھنا چاہتا ہے تو کیا اس کے لیے یہ روزے رکھنا جائز ہے؟

جواب: واجب یہ ہے کہ جلدی سے پہلے کفارہ کے روزے رکھے جائیں۔ کفارہ کے روزوں سے پہلے شوال کے چھ روزے رکھنا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ روزے نفل ہیں اور کفارہ کے روزے فرض ہیں اور انہیں فورا رکھنا فرض ہے۔ لہذا ضروری ہے کہ انہیں شوال کے چھ روزوں یا دیگر نفل روزوں سے پہلے رکھا جائے۔ (حوالہ سابقہ)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے