تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں۔ ہم اسی کی تعریف کرتے ہیں اور اسی سے مدد مانگتے ہیں اور اس سے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں اور ہم پناہ مانگتے ہیں اللہ کی اپنے نفسوں کے شر سے اور اپنے اعمال کی برائیوں سے۔ جس کو وہ گمراہ کر دے اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔

حمد و صلوٰۃ کے بعد:

جب ہم نے جانا کہ سب سے پہلے اسلام کے اندر جو جھگڑا پیدا ہوا وہ ملت اسلامیہ کے فاسق آدمی کے بارے میں ہوا جو کہ ایک عرصہ تک رہا۔(مجموع الفتاویٰ ابن تیمیہ رحمہ اللہ)۔ فسو کے عنوان پر لکھنے کی ضرورت اس وقت محسوس کی گئی جب تحقیق خوارجیوں نے ایک نئی بات نکالی وہ یہ کہ مؤحد لوگ اگر گناہ کریں گے تو کافر ہوجائیں گے اور آگ میں ہمیشہ رہیں گے۔

اور مرجئہ کا یہ گمان تھا کہ گناہ کرنے والا پکا مومن ہے (گناہ کرنے سے اس کے ایمان پر کوئی اثر نہیں پڑتا) اور معتزلہ نے کہا کہ گناہ کرنے والا دوسروں (مومن اور کافر) کے درمیان میں ہے۔ (نہ تو اس کو کافر کہا جا سکتا ہے اور نہ وہ دائرہ اسلام میں داخل ہے)۔ دنیا میں اور آخرت میں آگ میں ہمیشہ رہے گا۔

اور اللہ تعالیٰ نے اپنی مشیت سے رہنمائی کی سنت کے ماننے والوں کی، حق کی طرف، اس چیز میں جس میں وہ اختلاف کرتے تھے۔

انہوں نے کہا ان گنہگاروں کے بارے میں نیت میں تو یہ مومن لیکن ایمان ان کا ناقص ہے یا اپنے ایمان کی وجہ سے مومن ہے اور اپنے گناہوں کی وجہ سے فاسق ہیں اور یہ آخرت میں اللہ تعالیٰ کی مشیت کے منتظر ہوں گے اگر اللہ چاہے گا ان کو عذاب دے گا اپنے الفاظ کے ساتھ۔ اور اگر اللہ چاہے گا اپنی رحمت کے ساتھ ان کو بخش دے گا۔

جس طرح کہ گناہ کا تعلق ان وعیدوں میں سے ہے کہ جس پر انجام اور نتائج مرتب ہوتے ہیں جیسا کہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا:

جان لو کہ کفر اور فسق کے مسائل ان اسماء اور احکام کے مسائل میں سے ہیں کہ جن کا تعلق آخرت میں وعدہ اور وعید سے ہے۔ اور جن کے ساتھ ہمنوائی اور دشمنی کا تعلق ہے۔ (مجموعہ الفتاویٰ 468/12)

اور اسی بات پر مزید اضافہ یہ کہ اللہ کے نبی ﷺ نے کسی شخص پر فاسق ہونے کا حکم لگانے سے ڈڑایا ہے جب تک واضح نہ ہو جائے یا کوئی حجت قائم نہ ہو۔ جیسا کہ جناب ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اللہ کے نبی ﷺ سے سنا آپ نے فرمایا:

کوئی آدمی کسی آدمی پر فاسق ہونے کا فتویٰ نہ لگائے اور نہ کافر ہونے کا فتویٰ لگائے۔ اگر وہ آدمی کافر یا فاسق نہیں ہے تو وہ بات اس (فتویٰ لگانے والے) کے اوپر لوٹا دی جاتی ہے۔ (متفق علیہ)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس حدیث کی شرح میں:

اِلَّا اِرْتَدَتْ عَلَیْہِ کا معنی ہے کہ وہ فتویٰ اسی کے اپنے اوپر لوٹ آتا ہے اور یہ بات اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ اگر کوئی شخص کسی دوسرے سے کہے کہ تو فاسق ہے۔ اگر وہ آدمی فاسق نہیں ہے تو کہنے والا زیادہ مستحق ہے کہ اس کو فاسق کہا جائے۔ اور اگر وہ کسی کو فاسق کہے اور وہ آدمی فاسق ہو تو اس کا فسق اس کے اپنے اوپر نہیں آئے گا۔ یعنی اس کو فاسق نہیں کہا جائے گا۔ اس لئے کہ اس نے بات بالکل ٹھیک کہی ہے کہ فلاں آدمی فاسق ہے۔لیکن یہ بات بھی ضروری نہیں کہ اس کی وجہ سے وہ ہمیشہ ہی فاسق رہے یعنی وہ اس گناہ کو کرے ہی نہیں جس کی وجہ سے اس نے اس پر فاسق ہونے کا فتوی لگایا ہے۔ (فتح الباری 466/10)

بلکہ اس صورت میں تفصیل باختصار ہے کہ اگر آدمی کسی کو نصیحت کرنے کا ارادہ کرے یا پھر اس کی حالت بیان کر کے کسی دوسرے کو نصیحت کرے تو جائز ہے اور اگر وہ اس کو عار دلائے اور اس سے صرف اس کو تکلیف دینا مقصد ہو گی پھر ناجائز ہے۔ اس لئے کہ کسی کے عیب پر پردہ ڈالنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اور اس کو تعلیم دینا۔ اچھے انداز میں یا نصیحت کرنا۔ تو جتنا بھی ممکن ہو سکے اس کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرے اور اس میں سختی کرنا جائز نہیں اس لئے کہ یہ سختی کرنا اس کو برائی پر ابھارنے اور ہمیشہ کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ جیسا کہ بہت سے لوگوں کی طبیعت میں نفرت بھری ہوتی ہے اور یہ بات تو ضرور ہوتی ہے۔ اس وقت جب سمجھانے والا سامنے والے سے کم درجہ یا کم رتبہ ہو۔ (مجمع الفتاویٰ ابن تیمیہ 229/3۔ ابن وزیر الروض الباسم 112/2)

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: بیشک میں تمام لوگوں میں سب سے منع کرنے والا ہوں اس بات سے کہ کسی کی طرف کفر اور فسق اور نافرمانی ہونے کی نسبت کی جائے۔ ہاں مگر وہ شخص کہ جس کے بارے میں یہ جان لیا جائے کہ اس کے اوپر (کفر یا فسق یا نافرمان ہونے) کی دلیل اس رسالت سے قائم ہو جائے کہ جس کی مخالفت سے کبھی کوئی کافر ہو جاتا ہے اور کوئی دوسرا فاسق ہو جاتا ہے اور کوئی نافرمان ہو جاتا ہے (مجموع الفتاویٰ 229/3۔ اور دیکھئے الروض الباسم ابن الاثیر 112/2)

اور اس وجہ سے اسی موضوع پر لکھنے کی ضرورت اور بھی محسوس کی گئی کہ فسق یہ ایک عام نام ہے جو کہ کفر اور تمام کبیرہ گناہ اور بقیہ تمام نافرمانی کے کاموں پر استعمال کیا جاتا ہے جیسا کہ اس کا بیان آگے آئے گا (ان شاء اللہ) اور اسی وجہ سے (دین کے) علم نے فسق کی حد اور جس پر فسق کا اطلاق ہوتا ہے اس کا تعین کیا ہے اور یقینا آنے والے صفحات میں اس کے بارے میں جو کچھ تحقیق ہے وہ آئے گی۔ اور اللہ ہی ہمارے لئے کافی ہے اور وہ بہتر کارساز ہے۔

فسق کا معنی:

فسق کا لغوی معنی ہے کسی چیز سے نکلنا یا ارادہ کرنا اور وہ ہے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت سے نکلنا۔ اور فسق کا معنی ہے گناہ۔ اور جب کھجور اپنے چھلکے سے علیحدہ ہو جائے تو عرب لوگ کہتے ہیں: قد فسقت الرطبۃ من قترھا۔ کہ کھجور اپنے چھلکے سے علیحدہ ہو گئی۔

اور کہا جاتا ہے:

فسق فلان فی الدنیا فسقا۔

اور کہا جاتا ہے

: رجل فاسق۔ و فِسْق و فُسَق۔ ہمیشہ گناہ کرنے والا۔

اور کہا جاتا ہے: فُوَسْیقَہَ چوہیا اور یہ فاسقہ کی تصغیر ہے۔ اس لئے کہ اس کا اپنے بل سے نکلنا لوگوں کی طرف اور فساد برپا کرنا (اس کا کام ہے)۔ اور تفسیق کا معنی عدل و انصاف کے الٹ ہے۔

فسق کا اصطلاحی معنی:

1۔علماء نے اس کے بارے میں کئی اقوال بیان کئے ہیں۔ امام ابن عطیہ کہتے ہیں 155/1 فسق عام طور پر شریعت میں جس بارے میں استعمال کیا گیا ہے وہ ہے ’’اللہ رب العالمین کی اطاعت سے نکلنا (روگردانی کرنا) تحقیق فسق کا اطلاق اس پر ہوتا ہے جو کفراور نافرمانی کرکے نکلے۔

2۔اور اسی طرح امام قرطبی کا قول ہے(تفسیر قرطبی 245/1)

3۔امام بیضاوی نے کہا: فاسق آدمی کبیرہ گناہ کی وجہ سے اللہ کے دین سے نکل جانے والا ہوتا ہے۔ (تفسیر بیضاوی 41/1، تفسیر ابی سعود 131/1)

4۔آلوسی نے کہا شریعت میں فسق کا معنی ہے سمجھدار لوگوں کا (اللہ رب العالمین اور اس کے رسول کی) اطاعت سے نکلنا۔ پس اس کا اطلاق کفر اورجو اس سے کم یعنی گناہِ کبیرہ یا صغیرہ کے ارتکاب پر بھی ہوتا ہے۔

ان تمام بیچ میں گذرنے والی تعریفات سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ عام طور پر فسق کی اصطلاح یہ ہے کہ فسق کفر سے زیادہ عام ہے۔ (مفردات الراء ص 572، کلیات لکھنوی ص 693، نزھۃ العین النواطر ابن جوزی 72/2)

اس وجہ سے کہ فسق، کفر اور جو گناہ اس سے کمتر ہے سب کو شامل ہے لیکن اس کو خاص کیا ہے عرفِ عام میں گناہ کبیرہ کرنے والے کے ساتھ اسی وجہ سے امام راغب الاصفہانی کہتے ہیں:کم اور زیادہ گناہوں کی وجہ سے (آدمی پر) فسق واقع ہو جاتا ہے لیکن عرف عام میں زیادہ گناہ کرنے والے پر فسق کا فتویٰ لگایا جاتا ہے۔(المفردات 572)

فسق کی اقسام اور فاسق کس کس کو کہا جائے:

مختلف عبارات کی وجہ فسق کی کئی قسمیں شمار کی گئی ہیں۔ کچھ قسمیں فسق کی ایسی ہیں کہ جن کے کرنے (آدمی) اسلام سے نکل جاتا ہے۔ اور کچھ قسمیں ایسی ہیں کہ جن کے کرنے سے (آدمی) اسلام سے نہیں نکلتا۔

1۔جناب عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ہر وہ چیز کہ جس کی نسبت اللہ تعالیٰ کسی خاص نام کے ساتھ اہل اسلام کے علاوہ دوسروں کی طرف کی ہو جیسے خاسر (نقصان اٹھانے والا)، مسرف (فضول خرچی کرنے والا)۔ ظالم (ظلم کرنے والا)۔ فاسق (گناہ کرنے والا)۔ تو اس سے مراد کفر ہوتا ہے۔

اور جس کی نسبت اللہ تعالیٰ نے اہل اسلام کی طرف کی ہو تو اس سے مرادہ گناہ ہوتا ہے۔ (تفسیر ابن جریر 142/1۔ الدر المنثور للسیوطی 105/1)

اور تحقیق ابن عباس رضی اللہ عنہما، اور طاؤس اور عطاء اور کئی اہل علم سے منقول ہے کہ وہ کہتے ہیں: ایک کفر کسی دوسرے کفر سے کم ہے۔ اور کچھ گناہ دوسرے کچھ گناہوں سے کم ہے۔ (جامع الترمذی۔ کتاب الایمان)

اور امام محمد حضر المروزی رحمہ اللہ کہتے ہیں: فسق کی دو قسمیں ہیں۔ ایک فسق وہ جو دین اسلام سے منتقل کر دیتا ہے اور دوسرا فسق وہ ہے جو دین اسلام سے (کسی دوسرے دین کی طرف) منتقل نہیں کرتا۔ پس کافر کو فاسق بھی کہا جاتا ہے اور جو مسلمان فاسق ہیں وہ پہلے اپنے فسق کی وجہ سے ہے۔

اور یہاں پر ایک خاص معاملہ ہے جس کو ذکر کرنا بہت ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ بیشک ایمان کے کئی حصے ہیں جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے شعب الایمان کی صورت میں خبر دی۔ (ایمان کے ستر سے زائد حصے ہیں، ان میں سے سب سے بڑا حصہ ہے، اس بات کا اقرار کرنا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اور سب سے چھوٹا حصہ ہے کہ تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹانا۔ (بخاری کتاب الایمان ص 92، صحیح مسلم کتاب الایمان ج 35)

پس کفر کے بھی کئی درجات ہیں۔ ان میں سے ایک وہ ہے جو دین (اسلام) سے خارج کر دیتا ہے اور ان میں سے بعض کفر ایسے بھی ہوتے ہیں جو کفر دوسرے کفر سے کم تر ہیں۔

اور اسی طرح نفاق، شرک، فسق، ظالم بھی ہیں۔ اور یہی اصل بات ہے کہ جس کے ساتھ اہل سنت ممتاز رہے ہیں۔ ان لوگوں سے جو بدعتی ہیں کہ جن کو وعیدیں سنائی گئیں ہیں اور مرجئہ فرقے سے۔

وہ کفر جو فسق کے معنی میں استعمال ہوتا ہے:

اور کفر کا فسق کبھی اعتقادی ہوتا ہے اور کبھی عملی۔

اعتقادی کفر کی مثال:فسق کیا منافقوں نے اللہ کے رسول ﷺ کے زمانہ میں۔ اللہ کا ارشاد ہے :

قُل اَنْفِقُوْا طَوْعًا اَوْ کَرْھًا لَّنْ یُّتَقَبَّلَ مِنْکُمْ اِنَّکُمْ کُنْتُمْ قَوْمًا فٰسِقِیْنَ (التوبہ: 53)

اے نبی آپ کہہ دیجئے کہ تم جس اپنی خوشی یا نا خوشی سے خرچ کرو بھی تو اللہ تعالیٰ ہرگز تم سے قبول نہیں کرے گا اس لئے کہ تم فاسق قوم ہو۔

اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:کہ’’ بیشک تم فاسق قوم ہو‘‘ (یہ ان کے صدقات قبول نہ ہونے کی وجہ ہے) (فتح القدیر للشوکانی:369/2)

اور اللہ نے ارشاد فرمایا:

اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ

بیشک منافقین ہی فاسق لوگ ہیں۔ (التوبہ:67)

امام شوکانی نے (اس آیت کے بارے میں) ارشاد فرمایا: یہ ترکیب اس بات کا فائدہ دے رہی ہے کہ یہ (منافقین) فسق میں مکمل ہیں یعنی ’’مکمل فاسق ہیں۔‘‘(فتح القدیر 379/2)

اور فسق عملی کی مثال کہ جس سے انسان دین اسلام سے نکل جاتا ہے ابلیس نے کیا جیسا کہ اللہ عزو جل نے ارشاد فرمایا:

وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِيْسَ ۭ كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ اَمْرِ رَبِّهٖ ۭ اَفَتَتَّخِذُوْنَهٗ
وَ ذُرِّيَّتَهٗٓ اَوْلِيَاۗءَ مِنْ دُوْنِيْ وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ ۭ بِئْسَ لِلظّٰلِمِيْنَ بَدَلًا ؀

اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم علیہ السلام کو سجدہ کرو تو سب (فرشتوں) نے سجدہ کیا ، ابلیس کے علاوہ جو کہ جنوں میں سے تھا، اس نے اپنے رب کی نافرمانی کی۔ کیا پھر بھی تم اسے اور اس کی اولاد کو مجھے چھوڑ کر اپنا دوست بنا رہے ہو؟ حالانکہ وہ تم سب کا دشمن ہے۔ ایسے ظالموں کا کیا ہی بُرا بدل ہے۔ (الکہف:50)

ابلیس نے فسق کیا اور یہ فسق سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے ہوا اور اپنے رب کے حکم کی پیروی سے روگردانی کرنے کی وجہ سے واقع ہوا۔ اور سجدہ کو ترک کرنا فعلاً و عملاً شمار کیا جاتا ہے جیسا کہ ایسی باتوں کو اصول کی کتابوں میں ذکر کیا جاتا ہے۔ (روضہ الناظر ابن قدمہ ص54)

اور یہ کفر کا فسق (وہ کفر جو فسق کے معنی میں استعمال ہوتا ہے)قرآن کریم کی بیشمار آیات میں ذکر کیا گیا ہے۔ اور جس طرح ابن الوزیر نے کہا ’’تحقیق سننے میں (قرآن میں) ایسی آیات ہیں جو کہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ ک زمانہ میں اکثر طور پر فاسق کا اطلاق کافر پر ہوتا تھا۔ (شوکانی ص:52 القواعد الاصولیہ، ابن لحام ص 62)۔ تھذیب میں امام شوکانی نے اپنی تفسیر 156/2 میں کیا۔ فسق کے نام کا اطلاق اس آدمی پر ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے فرض کردہ احکامات کو چھوڑنے اور ایسا کرنے سے باز نہ آئے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے

وَلَقَد اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ اٰیٰتٍ بَیِّنٰتٍ وَمَا یَکْفُرُ بِھَآ اِلَّا الْفٰسِقُوْنَ

اور بیشک ہم آپ کی طرف واضح نشانیاں اتاریں جن کا انکار سوائے فاسقوں کے کوئی نہیں کرتا۔ (البقرۃ:99 )

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَاَمَّا الَّذِیْنَ فَسَقُوْا فَمَأوَاھم النَّارُ کلَّمَا اَرَادُوْآ اَنْ یَّخْرُجُوْا مِنْھَا اُعِیْدُوْا فِیْھَا وَ قِیْلَ لَھُمْ ذُوْقُوْا عَذَابَ النَّارَ الَّذِیْ کُنْتُمْ بِہٖ تُکَذِّبُوْنَ (السجدۃ:20)

اور جن لوگوں نے فسق (نافرمانی کی) ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے جب کبھی بھی اس (جہنم) سے باہر نکلنا چاہیں گے، اسی میں لوٹا دیئے جائیں گے اور ان سے کہہ دیا جائے گا کہ اپنے جھٹلانے کی وجہ سے عذاب چکھو۔

پس یہ آیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ پہلے عرف عام میں فاسق کا کافر پر اطلاق کیا گیا پھر وہ سبقت لے گیا۔ سمجھ بوجھ کے بعد۔ (العواصم والقواصم 161-16-/2 بااختصار۔ ایثار الحق علی الخلق ص 451۔ تفسیر المنار 238/1)

بعض وہ دلائل جن کو پہلے ذکر کیا جا چکا ہے، ہم ان میں مزید اضافہ کریں گے جیسا کہ کافر کو فاسق کہنے پر مثالیں دیں تھیں۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَقَوْمَ نُوْحٍ مِّنْ قَبْلُ اِنَّہُمْ کَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِیْنَ

اور نوح (علیہ السلام) کی قوم کا بھی اس سے پہلے (یہی حال ہو چکا تھا) وہ بھی بڑی فاسق قوم تھی۔ (الذّٰرِیٰت:46)

اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کی قوم کے بارے میں ارشاد فرمایا:

وَاَدْخِلْ یَدَکَ فِیْ جَیْبِکَ تَخْرُجْ بَیْضَآئَ مِنْ غَیْرِ سُوْئٍ فِیْ تِسْعِ اٰیٰتٍ اِلٰی فَرْعُوْنَ وَقَوْمِہٖ اِنَّھُمْ کَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِیْنَ۔

اور (اے موسیٰ علیہ السلام) اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈالئے وہ سفید چمکیلا ہو کر نکلے گا بغیر کسی عیب کے، آپ نو نشانیاں فرعون اور اس کی قوم کی طرف(لے کر جایئے) یقینا وہ نافرمانوں کا گروہ ہے۔ (النمل:12)

اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ کو ذکر کیا:

قَالَ رَبِّ اِنِّیْ لَآ اَمْلِکُ اِلَّا نَفْسِیْ وَاَخِیْ فَافْرُقْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ ۔ قَالَ فَاِنَّہَا مُحَرَّمَۃٌ عَلَیْہِمْ اَرْبَعِیْنَ سَنَۃً یَتِیْہُوْنَ فِی الْاَرْضِ فَلَا تَاْسَ عَلَی الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ ۔

موسیٰ علیہ السلام نے کہا اے میرے رب مجھے تو اپنے اور اپنے بھائی کے علاوہ کسی پر کوئی اختیار نہیں ہے، پس تو ہمارے اور نافرمانوں کے درمیان جدائی کر دے۔ ارشاد ہوا کہ اب زمین ان پر چالیس سال تک حرام کر دی گئی ہے۔ یہ (خانہ بدوش) ادھر ادھر سرگردان پھرتے رہیں گے، پس تم ان نافرمانوں کے بارے میں غمگین نہ ہو۔ (المائدہ:26-25)

اور اللہ تعالیٰ نے عیسائیوں کے بارے میں ارشاد فرمایا:

وَرَھْبَانِیَّۃَ ابْتَدَعُوْھَا مَا کَتَبْنٰھَا عَلَیْہِمْ اِلّا ابْتِغَآئَ رِضْوَانِ اﷲ فَمَا رَعَوْھَا حَقَّ رِعَایَتِھَا فَاٰتَیْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْھُمْ اَجْرَھُمْ وَکَثِیْرٌ مِّنْہُمْ فٰسِقُوْنَ

ہاں رہبانیت (ترک دنیا) تو ان لوگوں نے خود ایجاد کر لی تھی، ہم نے اسے اللہ ربّ العالمین کی خوشنودی حاصل کرنے کے علاوہ کسی اور مقصد کے لئے فرض نہیں کیا تھا۔ سو انہوں نے اس کا پوری طرح خیال نہیں رکھا پھر بھی ہم نے ان کو اجر و ثواب دیا جو ان میں سے ایمان لائے تھے۔ اور ان میں زیادہ تر لوگ نافرمان تھے۔(الحدید:27)

اور ایک حدیث اس آیت کی تفسیر کے بارے میں جناب عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً آئی ہے۔ (آپ نے فرمایا) مومن وہ لوگ ہیں جو میرے ساتھ ایمان لاتے ہیں اور میری تصدیق کر تے ہیں اور (نافرمان) فاسق وہ لوگ ہیں جو مجھے جھٹلاتے ہیں اور میرے بارے میں جھگڑا کرتے اور اللہ تعالیٰ نے مشرکین کا نام (فساق) ہمیشہ نافرمانی کرنے والے رکھا ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

کَیْفَ وَاِنْ یَّظْھَرُوْا عَلَیْکُمْ لَا یَرْقُبُوْا فِیْکُمْ اِلًّا وَّلَا ذِمَّۃً یُرْضُوْنَکُمْ بِاَفْوَاھِہِمْ وَتَاْبٰی قُلُوْبُہُمْ وَاَکْثَرُھُمْ فٰسِقُوْنَ ۔

ان (مشرکوں) کے وعدوں کا کیا اعتبار۔ اگر وہ غالب آجاتے تم پر تو نہ یہ قرابت داری کا خیال کرتے ہیں اور نہ ہی عہد و پیمان کا۔ وہ تم کو اپنی زبانوں سے تو خوش کرتے ہیں لیکن ان کے دل نہیں مانتے اور زیادہ تر تو ان میں نافرمان ہیں۔ (التوبہ:8)

اور قرآن میں ایسی دلیل بھی ہے کہ جس میں شرک کی قسموں میں سے بعض کو فسق قرار دیا گیا ہے۔

وَلَا تَاْکُلُوْا مِمَّا لَمْ یُذْکَرِ اسْمُ اﷲِ عَلَیْہِ وَاِنَّہٗ لَفِسْقٌ

اور ایسے (جانور یا چیزیں) مت کھاؤ کہ جن پر اللہ تعالیٰ کا نام نہ لیا گیا ہو۔ اور یہ کام نافرمانی کے ہیں۔(الانعام:121)

پس اس کو امام شافعی نے اس بات پر محمول کیا ہے کہ ہر وہ چیز جو اللہ کے علاوہ کسی اور کے نام پر ذبح کی جائے۔(تفسیر ابن کثیر 161/2)

اور اللہ عز و جل کا ارشاد ہے:

حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيْرِ وَمَآ اُهِلَّ لِغَيْرِ اللّٰهِ بِهٖ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوْذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيْحَةُ وَمَآ اَ كَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ   ۣ وَمَا ذُبِحَ عَلَي النُّصُبِ وَاَنْ تَسْـتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ ۭذٰلِكُمْ فِسْقٌ ۭ

تم پر حرام کیا گیا مردار اور خون اور خنزیر کا گوشت اور جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا گیا ہو اور جو گلا گھٹنے سے مرا ہو اور جو چوٹ کی وجہ سے مر گیا ہو اور جو اونچی جگہ سے گر کر مرا ہو اور جو کسی کے سینگ مارنے سے مرا ہو اور جسے درندے نے مار کھایا ہو۔ مگر جس کو تم ذبح کرو (اللہ کا نام لے کر وہ تمہارے لئے حلال ہے)۔ اور جو آستانوں پر ذبح کیا گیا ہو اور یہ تم قرعہ کے تیروں کے ذریعے فال گیری کرو۔ یہ سب بدترین گناہ ہیں۔ (المائدہ:3)

امام شوکانی اللہ تعالیٰ کے اس قول {ذٰلِکُمْ فِسْقٌ} ’’یہ بدترین گناہ ہیں‘‘ کے بارے میں فرماتے ہیں: یہ فسق کا اشارہ قرعہ کے تیروں سے بدفالی کرنے کی طرف ہے یا اس آیت میں مذکورہ تمام حرام کردہ چیزوں کی طرف ہے۔اور فسق وہ گناہ ہے کہ جس کے کرنے میں کوئی حد نہ ہو اور اس کے کرنے پر سخت وعیدیں ہوں اس لئے کہ فسق کفر سے بھی زیادہ سخت ہے نہ کہ فسق یہ ہے کہ جس کے بارے میں ایک جماعت نے اصطلاح قائم کی ہے کہ فسق ایمان اور کفر کے درمیان ایک درجہ ہے۔ (فتح القدیر:10/2)

اور جب ہم منتقل ہوئے اس فسق کی طرف کہ جو ملت (دین) سے خارج کر دیتا ہے تو پھر اب اس کی تقسیم ممکن ہے۔ اعتقادی فسق اور عملی فسق کی طرف۔ فسقِ اعتقادی کی مثال جس کو امام ابن قیم نے ذکر کیا ہے۔ فسق کیا بدعتیوں نے (بدعتی وہ لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں اور جس کو اللہ نے حرام قرار دیا اس کو حرام سمجھتے ہیں اور جس (حکم) کو اللہ نے ضروری قرار دیا ہے اس (کام) کو وہ ضروری سمجھتے ہیں لیکن بہت سی ایسی باتیں وہ وہ اس کا انکار کرتے ہیںکہ جس کو اللہ اور اس کے رسول نے ثابت کیا ہے، جہالت کی بنا پر اور تاویل کرتے ہوئے۔ اور اپنے استاد کی تقلید کی وجہ سے۔ اور وہ ایسی چیزوں کو ثابت کرتے ہیں کہ جس کو اللہ اور اس کے رسول نے ثابت نہیں کیا۔

٭   اور یہ لوگ بے دین خارجیوں کی طرح ہیں۔ اور بہت سے رافضیوں اور قدریوں اور معتزلہ اور بہت سے جہمی لوگ جو کہ جہمی عقیدہ بھی برحق نہیں ہے (یہ لوگ) ان کی طرح ہیں۔

٭ ہاں وہ لوگ جو بھی عقیدہ میں پختہ ہیں وہ رافضی عقیدے میں پختہ لوگوں کی طرح ہیں۔ ان دونوں گروہوں کے لئے اسلام میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ (مدراج السالیکن)

٭فسق عام ہے بدعت کے مقابلہ سے جب فسق کا اطلاق بدعت یا اس کے علاوہ کسی اور پر کیا جائے اور اسی وجہ سے حافظ ابن صلاح ے فرمایا کہ ہر بدعتی فاسق ہے اور ہر فاسق بدعتی نہیں۔ (فتاویٰ ابن صلاح صفحہ 28 مجموعہ رسائل منیریہ کے ضمن میں ج4)

اور دلالت کرتی ہے اس بات پر سعد بن ابی وقاص سے منقول روایت کہ جس میں خارجیوں کو فاسق کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ (بخاری کتاب التفسیر 4728)

٭اور اسی طرح امام شعبہ بن حجاج رحمہ اللہ ان (خارجیوں) کو فاسقوں کے نام سے تعبیر کرتے تھے۔(الاعتصام ، امام شافعی 84/1)

اس لئے کہ خارجی لوگ حق کے راستے سے نکل گئے تھے اور وہ دین سے علیحدہ ہو گئے۔ اللہ کے رسول کی گواہی دینے کی وجہ سے جس طرح وہ نکلے مسلمانوں کی رضامندی پر۔

اور عملی فسق کی مثالیں بہت زیادہ ہیں اور اس کا اطلاق کئی چیزوں پر ہوتا ہے جیسا کہ اس کے بارے میں شرعی دلائل موجود ہیں اور علماء کے بیانات اور جو اس کے بارے میں امام نووی رحمہ اللہ نے کہا ہے اس کو اس نے نہیں پکڑا (یاد کیا) کہ فسق کبیرہ گناہوں کے کرنے کی وجہ سے ہوتا ہے یا پھر صغیرہ گناہوں کو بار بار کرنے پر ہوتا ہے (فتاوی نووی ص261)۔یا جس نے کبیرہ گناہ کو سمجھا (یاد کیا) ہے تحقیق اس (کبیرہ گناہ) کے بارے میں علماء نے بہت اختلاف کیا ہے۔ (صحیح مسلم، امام نووی 87-86/2۔ مجموعہ فتاوی ابن تیمیہ 666-650/11، شرح طحاویہ 227-225/2، مدارج السالکین 327-320/1، الزواجر للھیثمی 10-5/1، الجواب الکافی ص 171-168، شرح رسالہ الصغائر والکبائر لابن نجیم و فتح الباری 412-409/10)

اور شاید اس (کبیرہ گناہ کسے کہتے ہیں اس کے) مسئلہ میں جتنے بھی اقوال ہیں ان میں سب سے زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ بیشک کبیرہ گناہ وہ ہے کہ جس کے کرنے میں دنیا میں حد لگائی جائے یا آخرت میں کوئی خاص وعید ہو۔ مانند آگ کی وعید، غصہ کی وعید اور لعنت کی وعید وغیرہ وغیرہ۔ اور بیشک صغیرہ گناہ وہ ہے کہ جس کے کرنے پر کوئی حد دنیا میں نہ ہو اور آخرت میں کوئی وعید بھی نہ ہو۔

اور یہ بات عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور ابن عینیہ اور امام احمد بن حنبل اور ابو عبیدا القاسم بن سلام سے منقول ہے۔ (مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ 650/11، شرح طحاویہ 526/2 ۔ اضواء البیان للشافعی 199/7)۔

اور امام ابن صلاح نے فرمایا: ہر وہ گناہ کہ جو گراں یا انتہائی بڑا ہو اور اس (گناہ) پر کبیرہ کے نام کا اطلاق کرنا صحیح ہو اور کوئی ایسی صفت ہو جو کہ بڑی ہو مطلق طور پر تو اس گناہ کو گناہ کبیرہ کہتے ہیں۔ پس یہ فرق ہے اس (کبیرہ گناہ) کا اس صغیرہ (گناہ) سے۔ اور اگر کبیرہ گناہ کی نسبت کی وجہ سے ہے اس گناہ کی طرف جو کہ اس سے کم درجہ کا ہے تو پھر یہ وہ کبیرہ گناہ نہیں ہو گا کہ جس پر گراں یا انتہائی بڑا ہونے کی صفت کا اطلاق ہو۔ پھر بیشک کبیرہ گناہ کے گراں اور اس کے انتہائی بڑا ہونے کے لئے کچھ علامات ہیں جو کہ اس کے کبیرہ ہونے کی پہچان کرا دیتی ہیں۔ اس میں 1۔ حد کا لگانا۔ 2۔ کتاب و سنت میں اس گناہ کو کرنے پر عذاب، آگ یا اس کے جیسی اور کسی چیز کی وعید ہونا۔ 3۔ جس گناہ کو کرنے والے کی صفت دلائل (قرآن و حدیث) سے فاسق بتائی گئی ہو۔ 4۔ جس گناہ کے کرنے کی وجہ سے اس گناہ کو کرنے والے پر لعنت ہو جیسا کہ اللہ کے نبی  صلی اللہ علیہ و سلم کا قول ہے

 (لَعَنَ اللہُ مَنْ غَیَّر مَنَازِلَ الْاَرْضِ)

اللہ تعالیٰ نے اس شخص پر لعنت کی ہے جو زمین کے نشانات مٹاتا ہے۔ (مسلم کتاب الاضاحی)۔ اور اس کے مشابہ اس کے لئے بہت سی دلیلیں کہ جن کو ہم شمار نہیں کر سکتے (فتاوی ابن صلاح ص 8۔ مجموع رسائل منیریہ ص ج 1)۔

اور امام عز بن عبدالسلام نے فرمایا: کہ جب تو صغیرہ اور کبیرہ گناہوں کے درمیان فرق معلوم کرنا چاہے تو گناہِ فاسدہ کو ان گناہِ کبیرہ کے ساتھ پرکھ کہ جن کا کبیرہ ہونے پر واضح دلائل موجود ہیں۔ اگر اس میں کوئی کبیرہ گناہوں میں جو سب سے کمتر ہے بھی کم پائے تو یہ گناہ صغیرہ ہے اور اگر اس گناہ کو تو کبیرہ گناہ کے سب سے کم درجہ والے گناہ کے برابر پائے یا اس سے زیادہ بڑا پائے تو یہ کبیرہ گناہ شمار ہو گا۔ (قواعد الاحکام 19/1)۔

اور امام عزبن عبدالسلام نے ایک دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا اور سب زیادہ بہتر بات یہ ہے کہ تو اس گناہ کو کبیرہ سمجھ لے کہ جس کو کرنے والا آسان ان گناہوں کے مانند کہ جو کہ کبیرہ گناہ

امام حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا :جب گناہِ کبیرہ کے متعلق سوچا جائے تو یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ کبیرہ گناہ کے ساتھ، شرم و حیا اور خوف اور اس گناہ کو انتہائی بڑا سمجھنا یہ سب باتیں بھی ذہن میں ہوتی ہیں، جبکہ صغائر کے ساتھ نہیں یہ کیفیت نہیں ہوتی۔ اور تحقیق صغیرہ گناہ کیا تو (تھوڑی سی حیاء اور بے پرواہی، خوف کا نہ ہونا اور اس گناہ کو بڑا نہ سمجھنا) ملی ہوتی ہیں جو کہ کبیرہ کے اندر نہیں ہوتیں بلکہ یہ خصلتیں صغیرہ گناہ کے اعلی درجہ کے گناہ تک لے جاتی ہیں۔

اور یہاں ایک ایسا معاملہ ہے کہ جس کی جانچ پڑتال کے لئے دل نجس میں ہوتا جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ صرف فعل کے اندر زیادتی کی کتنی مقدار ہوتی ہے۔(مدارج السالکین)

اور ہاں وہ آدمی جو کہ صغیرہ گناہ پر ہمیشگی کرتا ہے تو اس کے متعلق امام عز بن عبدالسلام فرماتے ہیں جب صغیرہ گناہوں کو یہ سمجھ کر کیا جائے کہ ان کے کرنے میں کوئی حرج نہیں تو گویا ان کو کبیرہ گناہ کے مانند سمجھا جائیگا۔ اور اسی طرح جب مختلف صغیرہ گناہ جمع ہو جائیں تو ان کو کبیرہ گناہوں میں سب سے کمتر سمجھا جائیگا۔ (قواعد الاحکام:23-22/1)

ان تمام جملوں کو (قرآن و حدیث کے) دلائل اور محدثین کے آثار سے ثابت کرنے کے بعد ہم ان چیزوں کو ذکر کرتے ہیں کہ جن برے کاموں پر فسق کا اطلاق ہوتا ہے مثلاً کسی پر تہمت (ایسا کام کسی آدمی کے اوپر ڈالے جو کہ اس نے نہ کیا ہو) لگانے والے کو قرآن مجید میں فاسق قرار دیا گیا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَاْتُوْا بِاَرْبَعَۃِ شُہَدَآءَ فَاجْلِدُوْھُمْ ثَمٰنِیْنَ جَلْدَۃً وَّلَا تَقْبَلُوْا لَھُمْ شَھَادَۃً اَبَدًا وَ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ

اور وہ لوگ جو کہ پاکدامن عورتوں پر (زنا کی) تہمت لگائیں پھر چار گواہ پیش نہ کر سکیں تو انہیں اسی کوڑے لگائے جائیں اور کبھی بھی ان کی گواہی قبول نہ کرو۔ یہ فاسق لوگ ہیں۔(النور:۴ )

اور اسی طرح جھوٹ بولنے والے پر بھی فاسق کا اطلاق کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

یاَیُّھَا الَّذِیْنَ اَمَنُوْآ اِنْ جَآءَ کُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْآ اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًا بِجَھَالَۃٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰی مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ

اے ایمان والو اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کر لو ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو تکلیف پہنچا دو پھر اپنے کئے پر خود ہی پشیمان ہو۔(الحجرات:6)

٭اور امام لالکائی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث ’’ مسلمان کو گالی دینا فسق ہے‘‘ (بخاری )کے بارے میں شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یقینا جب کوئی مسلمان کسی مسلمان کو گالی دیتا ہے اور اس پر تہمت لگاتا ہے تو گویا اس نے جھوٹ بولا اور جھوٹے لوگ فاسق ہوتے ہیں ان سے ایمان کا نام تک زائل ہو جاتا ہے۔

٭اوراسی طرح حالت احرام میں جن کاموں سے روکا گیا ہے ان کو بھی فسق کہا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

اَلْحَجُّ اَشْھُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ فَمَنْ فَرَضَ فِیْھِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَ لَا فُسُوْقَ وَلَا جِدَالَ فِی الْحَجْ (البقرۃ:197)

حج کے مہینے مقرر ہے اس لئے جو شخص ان میں حج کو لازم کرے وہ اپنی بیوی میل ملاپ نہ کرے، گناہ کرنے اور لڑائی جھگڑے کرنے سے بچتا رہے۔

یہاں فسوق سے مراد یہاں پر ہر وہ کام ہے کہ جس کے کرنے سے احرام کی حالت میں روکا گیا ہے جیسا کہ یہی تفسیر ابن جریر نے اور ان کے علاوہ دوسروں نے ذکر کی ہے۔ (تفسیر ابن جریر 152/2)

اور اسی طرح برے القاب کے ساتھ دوسروں کو پکارنے کو بھی فسق کے ساتھ قرآن میں تعبیر کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَلَا تَنَابَزُوْا بِاالْقَابِ بِئْسَ اِثْمُ الْفُسُوْقَ بَعْدَ الْاِیْمَانِ وَمَنْ لَّمْ یَتُبْ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ

اور تم آپس میں ایک دوسرے کو برے ناموں سے نہ پکارو۔ ایمان کے بعد فسق برا نام ہے۔ اور جو توبہ نہ کرے پس وہ ظالم لوگ ہیں۔(الحجرات:11)

اور امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ان گذشتہ سے پہلے ذکر کی گئی حدیث (مسلمان کو گالی دینا فسق ہے) کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

جب تم کسی مسلمان کو گالی دو اور اس سے مسخرہ بازی کرو اور اس کو تم (طرح طرح) کے عیب لگاؤ تو تم اس بات کے مستحق ہو کہ تم کو (ان کاموں کے کرنے کی وجہ سے) فاسق کہا جائے۔ (الدر المنثور 564/5)

اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے (اللہ کی) نعمتوں کا انکار کرنے والے کا نام فاسق رکھا ہے جیسا کہ حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے (بیشک فساق جہنم میں ہوں گے) آپ سے کہا گیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم فساق کون ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا (عورتیں) ایک آدمی نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کیا وہ ہماری مائیں اور ہماری بہنیں اور ہماری بیویاں نہیں ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہاں کیوں نہیں،ان کی حالت یہ ہے کہ جب ان کو کوئی چیز دی جاتی ہے تو وہ (اللہ کا) شکر ادا نہیں کرتی اور جب ان پر کوئی آزمائش آتی ہے تو وہ صبر نہیں کرتیں۔ (احمد 488-444/3، مجمع الزوائد۔ امام ہیثمی نے کہا اس حدیث کے راوی ثقہ ہیں 73۔ امام البانی نے اس کو صحیح قرار دیا ہے ص 260)

لہٰذا نعمتوں کے انکار کرنے والے کا نام بھی فاسق رکھنا جائز ہے جیسا کہ شارع علیہ السلام نے اسی بارے میں اطلاق کیا ہے۔ (کتاب الایمان 235)

٭اور اسی طرح چوری کرنے والے کو بھی شریعت میں فاسق کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ جناب حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا کہ کیا حال ہو گا ان لوگوں کا جو کہ کھوج لگاتے ہیں ہمارے گھروں کی اور ہمارے بہترین قسم کے اموال چرا کر لے جاتے ہیں تو آپ نے فرمایا یہی لوگ تو فاسق ہیں۔(بخاری ،کتاب التفسیر 4658) اور اسی طرح چھوٹے نفاق والے آدمی کو بھی فاسق میں شمار کیا جاتا ہے۔

(6) امام ابن حزم نے فصل میں (28-287/3) اس آدمی کا رد کیا ہے کہ جس نے کبیرہ گناہ کرنے والے کو منافق کہا ہے اور اسی طرح امام ابو یعلی نے بھی اس بات کی نفی اپنی کتاب مسائل الایمان ص 363-335میں کی ہے۔ اور دیکھئے اصول الالکائی 1025/6

٭امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ فاسق کا نام منافق بھی رکھا جاتا ہے لیکن چھوٹا منافق مراد ہوتا ہے نہ کہ بڑا منافق اور صرف لفظ نفاق کا اطلاق بڑے نفاق پر ہوتا ہے جو کہ کفر کے اندر چھپا ہوتا ہے۔ اور چھوٹے نفاق کا اطلاق اس پر ہوتا ہے کہ جس کا ظاہر باطن واجبات دینیہ کو ادا کرنے میں مختلف ہو۔ (مجموعہ الفتاویٰ 140/11)

حاشیہ میں امام حسن بصری رحمہ اللہ کہتے ہیں نفاق یہ ہے کہ زبان سے کچھ اور دل میںکچھ ظاہر میں کچھ اور باطن میں کچھ اور۔ (امام فریابی ،صفۃ المنافق ص 61) ۔ اور امام ابن تیمیہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ اگر ظاہری طور پر کوئی شخص سچ بولنے والا یا وعدے کو پورا کرنے والا یا امانت دار ہے اور باطنی طور پر وہ جھوٹ بولنے والا اور وعدہ خلافی کرنے والا اور امانت میں خیانت کرے والا ہو یا اس جیسی دوسری مثالیں تو یہ منافقت چھوٹی منافقت ہے کہ جس کا کرنے والا فاسق ہے۔ (مجموعہ الفتاوی 143/11 اور 524/7)

اسی بات پر بہت سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور محدثین عظام رحمہم اللہ کے اقوال دلالت کرتے ہیں۔

چند اقوال درج ذیل ہیں:

1۔   ھرم بن حیان رحمہ اللہ نے فرمایا : لوگو ! فاسق عالم سے بچو۔ یہ بات عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو پہنچی تو آپ نے ہرم بن حیان رحمہ اللہکی طرف خط بھیجا اور فکر مندی کا اظہار کرتے ہوئے اس خط میں یہ سوال لکھا کہ فاسق عالم سے کیا مراد ہے؟ تو ہرم بن حیان رحمہ اللہنے یہ جواب بھیجا:

اے امیر المؤمنین! اللہ کی قسم یہ کلمات میں نے صرف بھلائی کی خاطر کہے ہیں کیونکہ امام بات کرتا ہے علم کے ساتھ اور عمل فاسقوں والے کرتا ہے تو یہ چیز لوگوں کو شش و پنج میں ڈال دیتی ہے اور وہ گمراہ ہو جاتے ہیں۔(دارمی:90/1)

اور جناب عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فاسق کا نام منافق رکھا ہے۔ آپ نے فرمایا بیشک سب سے زیادہ خوف کہ جس سے میں تمہارے بارے میں ڈرتا ہوں وہ جان بوجھ کر منافقت کرنے کا ہے۔ صحابہ نے عرض کیا کیسے جان بوجھ کر منافقت کرنا کیسے ہوتا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ بات تو حکمت و دانائی کی کرے اور عمل ظالم والے کرے یا فرمایا عمل برائی والے کرے۔ ( محمد بن نصر ، کتاب تعظیم قدر الصلاۃ 633/2 )

٭اور جناب حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا کہ منافق کون ہیں؟ آپ نے فرمایا جو اسلام کا نام لیوا ہے لیکن اسلام کے مطابق عمل نہیں کرتا۔ اس کی تشریح آگے آئے گی۔ اور اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے رُوَیبضۃ فُوُیْسقاً کانام رکھا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا بیشک دجال کے سامنے کئی سال دھوکے ہوں گےجس میں سچ بولنے والا آدمی جھوٹا سمجھا جائیگا۔ اور ان میں جھوٹ بولنے والا سچا سمجھا جائے گا۔ اور امانت دار آدمی کو خیانت کرنے والا سمجھا جائے گا۔(معاملات میں) بات چیت کے لئے رُوَیْبضَہ کو مقدم کیا جائے گا۔ آپﷺ سے پوچھا گیا کہ رُوَیْبضَہ کیا ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا وہ فاسق آدمی جو عوام الناس کے معاملات میں بات کرے۔(مسند احمد) اور رُوَیْبضَہ، رابضہ کی تصغیر ہے، کی اور رابضہ وہ آدمی ہے جو حکومتی معاملات کو نمٹانے سے تنگ آ چکا ہو۔ اور بیٹھے بیٹھے دوسروں کو حکم کر کے ان معاملات کا نمٹاتا ہو۔ (النھایۃ فی غیر الحدیث) اور اسی طرح تحقیق کہا جاتا ہے کہ وہ گناہ جسکا نام فسق عملی رکھا جاتا ہے زیادہ بڑا ہے اس گناہ سے کہ جس کو فسق عملی نہیں کہا جاتا ہے۔

اور اسی طرح امام بیضاوی نے کہا اور فسق یہ ہے کہ جب گناہ میں سے کسی ایسی قسم پر عمل کیا جائے جو کہ اس کے بڑے ہونے پر دلالت کرتی ہوں گویا کہ وہ تجاوز کرنے والا ہو اس (گناہ) کی حد سے۔ (تفسیر بیضاوی 72/1)

اور الوسی نے کہا کہ فاسق وہ آدمی ہے جو کہ (اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی) نافرمانی کرنے والا، کسی بھی گناہ کو زیادہ کرنے والا ہو۔ (روح المعانی 335/1)

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا: فسق عملی کی دو قسمیں ہیں 1۔ فسق عملی جو نافرمانی کے ساتھ ہو۔ 2۔ فسق عملی جو نافرمانی کے ساتھ نہ ہو۔

1۔ فسق علی نافرمانی کے ساتھ: اس چیز کا مرتکب ہونا جس سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَلٰکِنِ اللّٰہَ حَبَّبَ اِلَیْکُمُ الْاِیْمَانَ وَ زِیَّنَہٗ فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَ کَرَّہَ اِلَیْکُمُ الْکُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْیَانَ اُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الرّٰشِدُوْنَ۔

اور لیکن اللہ تعالیٰ نے ایمان کو تمہارے لئے محبوب بنادیا ہے اور مزیّن کر دیا ہے اسکو تمہارے دلوں میں اور کفر اور فسق اور نافرمانی کو تمہاری نگاہوں میں ناپسندیدہ بنا دیا ہے یہی لوگ راہنمائی پانے والے ہیں۔(الحجرات :7)

اور اسی طرح اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے :

لَّا یَعِصُوْنَ اللّٰہَ مَآ اَمَرَہُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ۔

وہ (فرشتے) نہیں نافرمانی کرتے اسکی جس کا اللہ تعالیٰ انکو حکم کرتا ہے)۔(التحریم :6 )

اور موسیٰ علیہ السلام نے اپنی بھائی ھارون علیہ السلام سے کہا:

مَا مَنَعَکَ اِذْ رَاَیْتَہُمْ ضَلُّوْآ اَلَّا تَتَّبِعَنِ اَفَعَصَیْتَ اَمْرِیْ۔

انہیں گمراہ ہوتا ہوا دیکھتے ہوئے تجھے کس چیز نے روکا تھا کہ تو میرے پیچھے نہ آیا کیا تو بھی میرے حکم کا نافرمان بن بیٹھا۔(طٰہٰ :93-92)

فسق کا اطلاق اللہ تعالیٰ کی منع کردہ چیزوں کے مرتکب ہونے کیساتھ خاص ہے، اور اس کے لئے پہلے سے آگاہی ہوتی ہے۔جیسا کہ اللہ کا ارشاد ہے:

وَ اِنْ تَفْعَلُوْا فَاِنَّہٗ فُسُوْقٌ بِکُمْ۔

اور اگر تم لوگ ایسا کرو تو یہ تمہارے لئے گناہ کی بات ہے۔ (البقرۃ:282)

اور اللہ تعالیٰ کے کسی حکم کی مخالفت کرنا یہ نافرمانی کہلائے گی۔ اور کبھی کبھی فسق اور نافرمانی دونوں ایک دوسرے کے معنیٰ میں بھی آتا ہےجیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

اِلَّآ اِبْلِیْسَ کَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ اَمْرِ رَبِّہٖ۔

(پس سب نے سجدہ کیا )سوائے ابلیس کے یہ جنوں میں سے تھا اس نے اپنے پروردگار کے حکم کی نافرمانی کی)(الکہف:50)

اور اسی طرح (اللہ تعالیٰ کے ) حکم کی مخالفت کو بھی فسق کا نام دیا جاتا ہے ۔جیسا کہ اللہ کا ارشاد ہے :

وَ عَصٰٓی اٰدَمُ رَبَّہٗ فَغَوٰی

آدم (علیہ السلام ) نے اپنے رب کی نافرمانی کی پس وہ بہک گئے) (طٰہٰ:121)

پس (اللہ کی) منع کردہ چیزوں پر اسکا مرتکب ہونا اسکا نام نافرمانی بھی رکھا جاتا ہے، یہ (ایک کانام دوسرے نام پر اطلاق کرنا )علیحدہ علیحدہ ذکر ہونے کے وقت پر ہوگا اور جب یہ دونوں ملے ہوئے ذکر ہو تو ان میں سے ایک حکم کی مخالفت کیلئے ہوگا او ر دوسرا منع کردہ چیزوں کی مخالفت کیلئے ہوگا ۔(مدارج الساکین 1/362-361)

یاد رہے کہ اھل السنہ اور ان کے مخالفین کے درمیان فسق کامفہوم ملا جلا ہے ۔

پس کبیرہ گناہ کا مرتکب اھل السنہ والجماعۃ کے نزدیک فاسق ہے اپنے اس کبیرہ گناہ کرنے کی وجہ سے مگر وہ ایمان سے مکمل خارج نہیں ہوگا۔

ممکن ہے ایمان کا برقرار رہنا اس فسق اصغر کے ساتھ جیسا کہ یہ بات اھل السنہ کے نزدیک مسمّم ہے اور یہی وجہ ہے کہ ایمان والا اپنے ایمان کی وجہ مومن کہلائے گا، یہی ایمان والا جب کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کرے تو اپنے گناہوں کی و جہ سے فاسق کہلائے گا۔اور اسکا معاملہ اللہ کی طرف ہے اگر چاہے تو اپنی رحمتکے ساتھ اسکو بخش سے اور چاہے تو اپنے انصاف کے ساتھ اسکو عذاب دے اور اس (عذاب)کے بعد اس کو جنت کی طرف روانہ کر دے پس اھل السنہ والجماعۃ ا س بات پر متفق ہیں کہ بیشک ملّت (اسلامیہ )کے فاسق لوگ اگر وہ داخل کر دیئے گئے جہنم میں یا اسکے مستحق قرار دے دیئے گئے تو وہ ضرور بالضرور جنت میں (جہنم سے اپنے گناہوں کا عذاب پاکر)داخل کر دیئے جائینگے۔(مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ 4/ 486)

امام ابن تیمیہ اس مسئلہ کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ کہ اھل السنہ والجماعۃ کے اصولوں میں یہ بات (بھی موجود ) ہے کہ دین اور ایمان (نام ہے)اقرار و عمل کا اقرار دل اور زبان کے ساتھ اور عمل دل اور جسم کے اعضاء کے ساتھ اور بیشک ایمان زیادہ ہوتا ہے (اللہ اور اسکے رسول کی )اطاعت کے ساتھ اور کم ہوتا ہے (ان دونوں کی )نافرمانی کے ساتھ ۔اور اس کے ساتھ ساتھ اھل السنہ والجماعۃ والے انہیں کافر قرار دیتے ہیں ان لوگوں کو اھل القبلہ کو انکے مطلق نافرمانیوں اور کبیرہ گناہوں کی وجہ سے جیسا کہ خوارج (یہ وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ کبیرہ گناہوں کا مرتکب اور اسلام سے خارج ہے)ایسے نافرمانوں اور کبیرہ گناہوں کے مرتکب لوگوں کو کافر قرار دیتے ہیں بلکہ ایمانی بھائی چارگی برقرار رہتی ہے گناہ کے ساتھ بھی جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔

فَمَنْ عُفِیَ لَہٗ مِنْ اَخِیْہِ شَیْئٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوْفِ

پس جس کسی کو اپنے بھائی کی طرف سے کچھ معافی دے دی جائے تو اسے بھلائی کی اتباع کرنی چاہیئے۔(البقرہ:178)

اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

وَ اِنْ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بِیْنَہُمَا فَاِنْ بَغَتْ اِحْدٰھُمَا عَلَی الْاُخْرٰی فَقَاتِلُوْا الَّتِیْ تَبْغِیْ حَتّٰی تَفِیْ ئَ اِلٰٓی اَمْرِ اللّٰہِ فَاِنْ فَآئَ تْ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا بِالْعَدْلِ وَ اَقْسِطُوْا اِنِّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ ۔

(اور اگر مسلمانوں کی دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں میل میلاپ کرا دیا کرو پھر اگر اور دونوں میں سے ایک جماعت دوسری جماعت پر زیادتی کرے تو تم (سب) اس گروہ سے جو زیادتی کرتا ہے لڑویہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے اگر لوٹ آئے تو پھر انصاف کیساتھ صلح کرادو اور عدل کرو بیشک اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے یار رکھو سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں پس اپنے دو بھائیوں میں ملاپ کر دیا کرو)(الحجرات:9-10)

اھل السنہ والجماعۃ کے لوگ فاسق آدمی کانام ملت اسلامیہ سے مکمل طور پر نہیں نکالتے اور نہ ہی اس کو جہنم میں ہمیشہ رہنے والا قرار دیتے ہیں جیسا کہ معتزلہ کا عقیدہ ہے ۔ کبیرہ گناہ کرنے والا نہ تومؤمن ہے او رنہ ہی کافر بلکہ ان دونوں کے درمیان میں ہے۔ (وہ کہتے ہیں کہ اور وہ جہنم میں ہمیشہ رہے گا) بلکہ فاسق تو مطلق ایمان کے نام میں داخل رہتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

فَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ وَ اِنْ کَانَ مِنْ قَوْمٍ بَیْنَکُمْ وَ بَیْنَہُمْ مِّیْثَاقَ فَدِیَۃٌ مُّسَلَّمَۃٌ اِلٰیٓ اَھْلِہٖ وَ تَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ شَھْرَیْنِ مَتَتَابِعَیْنَ تَوْبَۃً مِّنْ اللّٰہِ وَ کَانَ اللّٰہُ عَلِیْمًا حَکِیْمًا۔

اس پر ایک مسلمان غلام کی گردن آزاد کرناہے ۔اور اگر مقتول ایسے لوگوں میں سے ہو جن میں اور تم میں صلح کا عہد ہوتو وارثانِ مقتول کو خون بہا دینا اور ایک مسلمان غلام آزاد کرنا چاہیئے اور جس کو یہ مسیر نہ ہو وہ متواتر دو مہینے کے روزے رکھے۔یہ (کفارہ ) اللہ کی طرف سے (قبول) توبہ کیلئے ہے اور اللہ (سب کچھ ) جانتا ہے۔ اور بڑی حکمت والا ہے ۔ـ(النساء :92)

اور کبھی بھی مطلق فاسق ایمان کے نام میں داخل نہیں ہوتا۔جیسا کہ اللہ کا ارشاد ہے ۔

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُہُمْ وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَیْہِمْ اٰیٰتُہٗ زَادَتْہُمْ اِیْمَانًا ۔

بس ایمان والے تو ایسے ہوتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کا ذکر اس سے کیا جاتا ہے تو انکے دل ڈر جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیتیں انکو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وہ انہیں انکے ایمان کو اور زیادہ کر دیتی ہیں ۔(الانفال:2)

او رنبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے :

لَا يَزْنِي الزَّانِي حِينَ يَزْنِي وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلَا يَشْرَبُ الخَمْرَ حِينَ يَشْرَبُهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلَا يَسْرِقُ السَّارِقُ حِينَ يَسْرِقُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ

(بخاری کتاب المظالم ح2475مسلم کتاب الایمان ح76)

کوئی بھی زانی زنا نہیںکرتا لیکن جس وقت وہ زنا کرتا ہے اور وہ مؤمن نہیں رہتا اور کوئی بھی چور چوری نہیں کرتا لیکن جس وقت وہ چوری کرتا ہے تو وہ مؤمن نہیں رہتا ا ور کوئی بھی شرابی شراب نہیں پیتا لیکن جس وقت وہ شراب پیتا ہے تووہ مؤمن نہیں رہتا اور نہیں لوٹتا کوئی بھی آدمی کسی ایسی چیز کو جو کہ بڑی قیمتی ہو لوگ اس لٹیرے کی طرف اپنی نگاہوں کو اٹھاتے ہیں جب وہ لوٹ رہا ہوتا ہے تو وہ (لٹیرا ) مؤمن نہیں رہتا ۔

اور ہم کہتے ہیں کہ وہ ناقص الایمان والا مؤمن ہے یا اپنے ایمان کی وجہ سے مؤمن ہے اور اپنے گناہ کی وجہ سے فاسق ہے اسے نہ مطلق مؤمن کانام دیا جائے گا اور نہ اس سے مطلق مؤمن کانام ختم کیاجائے گا۔(عقیدہ الواسطیہ شرح محمد خلیل ھراس ص156-152)

پس کبیرہ گناہ کے مرتکب ہونے کو صرف فسق میں شمار کرنا واجب ایمان کے مکمل ہونے کے منافی اور اس فسق کا ایمان کے ساتھ اکٹھا ہونا ممکن ہے اور اس فسق کو کرنے والا حقدار قرار دیاجائے گا وعید (جو کہ قرآن وحدیث سے ثابت ہے) کا میں اھل السنۃ والجماعۃ کے لوگ کہتے ہیں کہ (اس فاسق ) آدمی کے ساتھ آدمی کا بعض حصہ ہے نہ کہ مکمل ۔ اور اھل ایمان اور اس کے اجر وثواب کے حکم سے اس کے لئے اس کے اپنے نیک اعمال کی وجہ سے وہی ثواب کیا جائے گا جو کہ اھل ایمان کو ملتا ہے

جیسا کہ اس کے لئے اس کے برے اعمال کی وجہ سے عذاب ثابت کیا جاتا ہے(دیکھئے شرح الاصفہانیۃ :مخلوف:ص144)

اب جبکہ واضح ہوگیا فسق کا مفہوم اھل السنۃ والجماعۃ کے نزدیک اب ہم گوش گزار کرتے ہیں اہل السنۃ والجماعۃ کے مخالفین کے نزدیک فسق کا معنیٰ و مفہوم کیا ہے؟

1 ۔ بہت بڑے بڑے شعراء میں سے ایسے بھی ہیں جو کہ ملّت اسلامیہ کے فاسق آدمی کومطلق طور پر مؤمن قرار دیتے ہیں یعنی اسکو وہ (شعراء) سے پکا سچا مؤمن شمار کرتے ہیں ۔

جیسا کہ ان میں سے آمدی نام کے ایک شخص نے کہا اسی بات پر کبھی وہ شخص دل کے ساتھ تصدیق تو کرتا ہے اگرچہ ارکان اسلام میں سے کچھ کے ادا ء کرنے میں وہ انتہائی سستی کرتا ہے لیکن پھر بھی وہ پکا سچا مؤمن ہے اور اس پر کفر کی نفی کرنا واجب ہے اگرچہ اس پر اطاعت کے کاموں میں سستی کرکے اور (اللہ اور اس کے رسول کی ) منع کردہ چیزوں کا مرتکب ہوکر فاسق کانام لگانا صحیح بھی ہوں ۔

(غایۃ المرام فی علم الکلام ص 312۔المواقف فی علم کلام ص389)

اور ایجی نے کبیرہ گناہوں کے مرتکب آدمی کو مطلق طور پر مومن قرار دیا ہے اور تحقیق گذشتہ صفحات میںہم اس بات کو ذکر کر چکے ہیں کبیرہ گناہوں کو مرتکب آدمی کو (اھل السنۃ والجماعۃ کے نزدیک) مطلق مؤمن نہیں ٹھہرایا جائے گا۔

پس زانی یا شرابی کے بارے میں یہ نہیں کہاجائیگا کہ یہ مطلق مؤمن ہے لیکن ہم اسکے بارے میں قید لگاتے ہیں کہ وہ مؤمن ہے اپنے ایمان کے ساتھ اور فاسق ہے اپنے کبیرہ گناہ کے کرنے کی وجہ سے ۔ یا کم ایمان رکھنے والا مؤمن ہے(کیونکہ ایمان کم اور زیادہ ہوتا رہتا ہے) جو کہ آگے آنے والا ہے)

اور تحقیق عیب لگا دیا ہے ابراہیم نخعی رحمہ اللہ نے اس قول پر آپ نے فرمایا ۔میں ان مرجئۃ

(ما أعلم قوما أحمق فی رأیہم من ھذہ المرجئۃ لأنہم یقولون مؤمن ضالّ ومؤمن فاسق)

مرجئہ قوم سے زیادہ احمق اپنی رائے اختیار کرنے میں کسی اور قوم کو نہیں جانتا اس لئے کہ وہ کہتے ہیں مؤمن گمراہ ہے اور مؤمن فاسق ہے۔

اور اسی کم عقلی پر تمام شعراء کے اصول جدا جدا ہیں انکے جمہور (لوگوں ) کے قول سے اور وہ یہ ہے کہ بیشک ایمان نام ہے تصدیق کا (دل اور زبان سے )جبکہ وہ اعمال کو نکال دیتے ہیں ایمان کے نام سے ۔جبکہ معتزلہ (اسکا عقیدہ پیچھے بیان ہوچکا ہے) کے نزدیک فسق کا مفہوم پیچھے گزرنے والے تمام اقوال کے برعکس ہے وہ کہتے ہیں کہ فاسق نہ تو مؤمن ہے اور نہ ہی کافر بلکہ یہ دو منزلوں (مؤمن کافر) کے ایک منزل میں ہے اور معتزلہ میں سے سوائے امم کے کسی ایک نے بھی کبیرہ گناہ کے مرتکب کومؤمن نہیں کہا۔(مقالات الاسلامیین 1/333)

عبدالجبار ہمدانی المعتزلی کہتا ہے کہ کبیرہ گناہ کرنے والے کے لئے دو ناموں (مؤمن اور کافر) کے درمیان ایک (تیسرا) نام مقرر ہے اور اس کا حکم بھی دو حکموں (مؤمن کا حکم اور کافر کا حکم ) کے درمیان ایک (تیسرا) حکم ہے نہ تو اسکا نام کافر ہوگا اورنہ ہی مؤمن بلکہ اسکا نام فاسق رکھا جائے گا اور اس طرح اسکا حکم (جزا و سزا کے لحاظ سے) کافر کے حکم میں ہوگا اور نہ ہی مؤمن کے حکم میں ہوگا بلکہ اس کے لئے ایک علیحدہ ہی تیسرا حکم ہوگا اور وہ ایک درجہ ہے ان دونوں (مؤمن اور کافر) کے درجوں کے درمیان اور جب کبیرہ گناہوں کا مرتکب شخص ان کے نزدیک ہی فاسق مؤمن نہیں ہے تو اسی وجہ سے یہ (معتزلہ) اس شخص پر جہنم میں ہمیشہ داخل ہونے کا حکم لگاتے ہیں ۔ (شرح اصول الخمسۃ:ص679)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے