وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّہِ النَّاسَ بَعْضَہُم بِبَعْضٍ لَّہُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ یُذْکَرُ فِیْہَا اسْمُ اللَّہِ کَثِیْراً وَلَیَنصُرَنَّ اللَّہُ مَن یَنصُرُہُ إِنَّ اللَّہَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌO(الحج40)

’’اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دور نہ کرتا رہے تو خانقاہیں اور گرجے اور معبد اور مسجدیں جن میں اللہ کا ذکر کثرت سے کیا جاتا ہے، مسمار کر دی جاتیں۔ اللہ ضرور ان لوگوں کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کریں گے۔ بے شک اللہ بڑا طاقتور اور غالب ہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ کی یہ سنت جاریہ رہی ہے کہ وہ کسی ایک گروہ کے نام اقتدار لکھ کر نہیں دیتا۔ اگر ایسا ہوجائے تو پوری دنیا فساد سے بھر جائے۔ حتی کہ وہ جگہیں بھی جو امن و سلامتی کا نشان سمجھی جاتی ہیں، مسمار کر ڈالی جائیں۔ اللہ تعالیٰ اس دنیا کی بقاء کیلئے طاقت کے توازن کو برقرار رکھتے ہیں۔ جہاں کوئی قوم طاقت کے نشے میں بدمست ہوکر اقوام عالم کیلئے خطرہ بنی، وہیں سے اس کا زوال شروع ہوا۔ اقوام عالم کے عروج و زوال کی المناک داستان کے متعلق قرآن پاک نے جگہ جگہ کہیں مختصراً اور کہیں کچھ مفصل اشارے دیئے ہیں۔

عادو ثمود ہوں یا فرعون و ہامان جب تکبر و نخوت ان کے دماغ کو اس قدر بدبودار کر دیتے ہیں کہ وہ کہنا شروع کر دیں:

ہم چوما دیگرے نیست

ہمارے جیسا کوئی پیدا ہی نہیں ہوا

اورانا ربکم الاعلیٰکا خدائی دعویٰ زبان فرعون سے الاپتے ہیں تو پھر رب کبریا ان سے عیون و کنوز چھین کر مقام کریم کی جگہ ذلت و رسوائی اس طرح مسلط فرماتا ہے کہ ربوبیت کا مدعی غوطے کھاتا ہوا غرق ہوتا ہے۔ جتنے بلند و بانگ دعوے، اسی قدر حقارت و پستی کی موت۔ ہاتھیوں کے لشکر کیلئے کوئی بڑا انتظام نہیں بلکہ چڑیوں جیسے پرندے بھیج کرفجعلھم کعصف مأکولکی قرآنی تاریخ رقم کر دی۔

کبھی قیصر و کسریٰ کا طوطی بولتا تھا، پھر مسلمانوں کو عدل و انصاف کی بدولت وہ غلبہ ملا کہ جدھر گئے، فتح و نصرت ہمرکاب ہوئی۔ پھر جب جادہ و منزل سے دور ہٹے تو تاتاری عذاب بن کر ٹوٹے، پھر انسانی کھوپڑیوں کے مینار بنانے والے بھی قصہ پارینہ ہوگئے۔ کل تک تاج برطانیہ کو یہ غرور تھا کہ اس کی حکومت میں سورج نہیں ڈوبتا تو اب یہ عالم ہے کہ انہیں کبھی کبھار ہی سورج دیکھنے کو ملتا ہے۔ برطانیہ عظمیٰ جو کبھی بھی عظمیٰ نہیں تھی، اب امریکا کا بغل بچہ بنے رہنے میں عافیت محسوس کرتی ہے۔ ظلم کا ایک تسلسل ہے جو جاری ہے مگر تاریخ شاہد ہے کہ ظالم آخرکار ذلیل ہوتا ہے۔ اللہ کی کبریائی ماننے والوں کے جسم میں کیلیں ٹھونکنا متکبرین کا شیوہ رہا ہے۔ عصر حاضر کا طاغوت اس تسلسل کا حصہ ہے۔ گوانتاناموبے اس کی بدترین مثال اور مشق ستم بننے والوں میں آسیہ علیہا السلام کی جانشین عافیہ صدیقی ایک زندہ کردار ہے۔ تہذیب و ثقافت کا دعویٰ کرنے والے وحشت و بربریت کی علامت بنے ہوئے ہیں۔ انسانی اقدار تک کو ماننے کیلئے تیار نہیں۔ جس کا قانون اس بھیڑیئے کا قانون ہے جو ندی کنارے بھیڑ کے بچے کو پانی پیتے دیکھ کر غرایا اور بولا’’ تم نے میرا پانی گدلا کر دیا ہے۔‘‘ بھیڑ کے بچے نے ادب سے عرض کی ’’سرکار، پانی تو آپ کی طرف سے آرہا ہے۔‘‘

بھیڑیا پھر غرایا اور دوسرا الزام عائد کرتے ہوئے بولا ’’تم نے مجھے چھ ماہ پہلے گالی دی تھی۔‘‘

بھیڑ کا بچہ پھر ادب سے عرض گزار ہوا ’’جناب میری تو عمر ہی چار ماہ ہے۔‘‘ مگر بھیڑیا کہاں لاجواب ہونے والا تھا کیونکہ وہ طاقتور تھا، لہٰذا بھیڑیئے نے غراتے ہوئے کہا ’’تب وہ تمہارا ہی کوئی بھائی ہوگا، لہٰذا میں تمہیں ضرور کھائوں گا۔‘‘ اور حملہ کر دیا۔ بھیڑ کے بچے کا ممیانہ کچھ کام نہ آیا۔

’’ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات‘‘

پاکستان بھیڑ کا بچہ بنا ہوا ممیا رہا ہے۔ ’’جناب، ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ آپ کی جنگ ہم لڑ رہے ہیں۔ اس جنگ میں آپ کے مل ملا کر نیٹو فوجی پانچ ہزار کام آئے ہیں۔ جبکہ ہم چھ ہزار سے زائد سیکورٹی اہل کار قربان کرچکے ہیں۔ 35ہزار شہری اس بے فائدہ جنگ کی نذر ہوچکے ہیں۔ بھائی جان آپ کی بندوق کیلئے ہم نے اپنے کندھے دیئے ہیں۔ آپ کے جہازوں کیلئے اپنے ایئربیس دیئے ہیں۔ اب ہمیں بھی کچھ قوم کو منہ دکھانا ہے۔ یہ ڈرون حملے بند کردو۔ اپنی کارروائیوں میں ہماری شراکت قبول کرلو۔ خدارا کچھ تو انصاف کی بات کرو۔‘‘ مگر جواب یہ ہے کہ ریمنڈ ڈیوس دن دیہاڑے پاکستانیوں کا خون بہا کر باعزت بری ہوکر افغانستان متعین ہوجاتا ہے۔ اس رہائی کے بدلے میں بطور تحفہ اگلے دن ڈرون حملے میں 80لاشیں دی جاتی ہیں۔ یہ ایک ٹیسٹ کیس تھا جسے پاکستانی قوم نے ہضم کرلیا۔ ہم ماں کی گالی بھی سہہ گئے کہ حکمرانوں کے ہاتھ کچھ ڈالر آگئے تھے۔ پھر پاکستانی حدود پائمال ہوئیں۔ اسامہ بن لادن کو شہید کیا گیا اور اب مزید کارروائیوں کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔ افواج پاکستان سلامتیِٔ وطن کی ضمانت سمجھی جاتی ہیں۔ سیاستدانوں کی سیاہ کاریوں اور لوٹ مار سے مایوس عوام، افواج پاکستان کو روشنی کی ایک کرن سمجھتے ہیں کہ حالات کتنے بھی دگرگوں ہوں، ان شاء اللہ یہ لوگ سنبھال لیں گے۔ یہ 1965ء کی جنگ میں سرخ رو ہوچکے ہیں۔ زلزلہ ہو یا سیلاب، یہ قوم کو بحرانوں سے نکالتے ہیں۔ قوم سب کچھ برداشت کرسکتی ہے مگر ان اداروں کا ممیانہ برداشت نہیں کرسکتی۔ مگر کیا کیا جائے۔ مہران بیس میں دہشت گرد داخل ہوکر کارروائی کرکے فرار ہوجاتے ہیں۔ حقائق کیا ہیں؟ خدارا قوم کو آگاہ کیا جائے۔ 28؍مئی یوم تکبیر ہے۔ آج سے تیرہ سال پہلے پاکستان اسلامی دنیا کا پہلا ایٹمی ملک اور پوری دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت بن کر ابھرا۔ جب سے دنیا کے غنڈے اسے مفلوج کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور حکمران طبقہ آلہ کار ہے۔ وہ اسے لوٹ کر کھا جانا چاہتے ہیں۔ مَلک صاحب، مُلک کا تیل نکال دینا چاہتے ہیں۔ ممیانے سے کچھ نہیں ہوگا بلکہ کبھی کبھار وہ بلی جس کی جان پر بن آئے تو مخالف کی آنکھیں نوچ لیتی ہے۔ اب اسے شیر نہیں تو بلی کی طرح آنکھیں نوچنے کیلئے تیار ہونا پڑے گا۔ مگر یہ تب ہوگا جب اعلائے کلمۃ اللہ نصب العین ہو۔ مگر جہاں مال، ریال اور ڈالر مطمح نظر بنے اور عہدوں کی تمدیر ملے، ملکی حدود کے محافظ اپنی حدود پائمال ہونے اور مہنگے ترین اورین جہاز تباہ کروا کر، دس بارہ بندے شہید کروا کر بھی یہیں کہیں کہ ’’کوئی سیکورٹی نقص نہیں۔‘‘

فوج کی سابقہ روایات کو دیکھنے والے لوگ ظاہری کہانی پر کسی طور یقین کرنے کیلئے تیار نہیں۔

4؍مئی ٹیپو سلطان شیر میسور کی شہادت کا دن ہے اور 6مئی سیدین شہیدین سید اسماعیل شہید اور سید احمد شہید کا یوم شہادت ہے۔ یہ سب یہی سبق دے کر گئے ہیں کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ مدد کرے گا۔ ضرور مگر مذکورہ آیت کا آخری حصہ (ولینصرن اللہ من ینصرہ) (اللہ اس کی مدد کرتا ہے جو اس کی مدد کرتا ہے) پر غور کرنا بہت ضروری ہے۔

محسنوں سے دور کرنے کیلئے پاکستان کے قریبی و بہترین دوست اور محسن سعودی عرب کی قونصلیٹ پر گرنیڈ سے حملہ ہوا مگر حکومت اپنے مہمانوں کو سیکورٹی فراہم نہ کرسکی اور نتیجتاً پھر سعودی سفارتکار کو قتل کر دیا گیا جو پاکستانی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے۔ جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ مجرم پکڑے جاتے مگر لگتا یہ ہے کہ کراچی میں قتل ہونے والے دیگر افراد کی طرح یہ قتل بھی فائلوں کا حصہ بن جائے گا۔ مگر خیال رہے کہ یہ اس ملک کا شہری تھا جہاں خون کا بدلہ خون ہے اور وہ آپ کا مہمان بھی تھا۔ جس کا سفیر پاکستان کو اپنا دوسرا گھر کہتا ہے۔ آپ اسے القاعدہ پر ڈال کر بری الذمہ نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ اس کا خون پکار پکار کر کہہ رہا ہے

مجھے راہزنوں سے غرض نہیں، تیری رہبری کا سوال ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے