یوں برطانوی زبان دانوں نے پندرہ جلدوں میں لغت کی ایک بہت بڑی کتاب مرتب کی جس کا نام گریٹر آکسفورڈ ڈکشنری (Greater oxford dictionary) ہے جسے سیکڑوں علما اور ادیبوں نے مل کر لکھا اور انگلستان کی پارلیمنٹ کے اندر انھوں نے اس کتاب کی پہلی جلد کو لہرایا اور کہا کہ برطانوی فتوحات صرف یہ نہیں ہیں کہ ہم نے مشرق و مغرب کی ۱۱۴ ریاستوں میں قبضہ قائم کر رکھا ہے۔ ہماری فتوحات میں یہ بھی شامل ہے کہ ہم نے ایسا عظیم لغت بھی تیار کیا ہے۔ جب میں نے اس واقعے کو پڑھا تو میں نے سوچا کاش! مسلمانوں میں کوئی ایسا باحمیت ہوتا تو اسی وقت کہتا کہ تمہارے پانچ سو آدمیوں نے مل کر پچاس برس کی محنت شاقہ کے بعد ایک ایسا لغت تیار کیا جس کے بارے میں ابھی بھی یہ احساس ہے کہ یہ نامکمل ہے اور ہمارے ہاں ایک ایک سکالر نے پندرہ پندرہ جلدوں کی لغت کا کام کیا اور تنہا یہی کام نہ کیا بلکہ اس کے علاوہ بھی بیسیوں نوعیت کے علمی کام اس کے ساتھ شامل ہیں لیکن علمی افتخار چھن جانے کے باعث ہمارے ہاں کوئی ایسا نہیں کہ جو یہ کہہ سکے کہ ابن منظور نے یہ بڑا کام کیا۔ ابو منصور محمد الازھری نے ’’تہذیب اللغۃ‘‘ میں اسماعیلی بن حماد الجوھری نے ’’الصحاح‘‘ میں اور مرتضی الزبیدی نے ’’تاج العروس‘‘ میں اس سے بڑھ کر کار نامہ انجام دیا۔ لغۃ الضداد اور لغۃ الاشتقاق پر یہ کچھ لکھا گیا۔ لغت کا ایک فن کے اعتبار سے، کہ علوم نبوت کو سیکھنے کے لیے یہ ناگزیر ہے، گہرا مطالعہ کرنا چاہیے، مگر بعض لوگوں نے تو خود لغت کو مقصود بنا لیا۔ عہد جدید میں اسی برصغیر میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوئے ہیں کہ جن کا نام نہیں لیتا آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ ان لوگوں کو ادب جاہلی سے تو قرآن سمجھ آگیا لیکن حدیث اور سنت سے انھیں قرآن سمجھ نہ آسکا۔ یعنی یہ لغت مقصود بالذات نہیں بلکہ ایک آلہ علم ہے۔ یہ مقصود علم نہیں بلکہ ذریعہ علم ہے۔ علوم نبوت کے یہ جو اساسی مراجع ہیں ان کے علاوہ باقی فنون اور علوم کی نوعیت معاون علوم اور آلات علم کی ہے اور وہ مقصود بالذات نہیں ہیں۔

اگر یہ علوم و فنون علم الوحی کی توضیح، تفسیر اور تشریح نیز حواشی اور تعلیقات میں معاون ہیں تو مبارک ہیں وگرنہ وہ بالکل مطلوب نہیں ہیں۔ ہمارے ہاں علم فی نفسہ پر ستش کے لائق نہیں بلکہ علم ایک ذریعہ ہے اپنے مقصود تک پہنچنے کا اور اپنے مقاصد کو صحیح طور پر جاننے کا۔ اس لحاظ سے مسلمانوں میں تمام فنون صرف ونحو، معانی و بیان، عروض اور لغت کے علوم و فنون کی جو اساس ہے، وہ کتاب و سنت کے ساتھ منسلک ہے۔

حال میں ہی میں کچھ کتابیں دیکھ رہا تھا، جن میں امثال القرآن اور امثال الحدیث پر چند کتابیں نظر سے گزریں کہ آج جدید ادبیات میں اس بات کو اہمیت دی جاتی ہے کہ تمثیل اور تشبیہ کے ساتھ کچھ باتوں کو بیان کیا جائے۔ میں محظوظ ہوا کہ دنیا کے اندر تمثیل سے یا تشبیہات سے اپنی بات کو بیان کرنے کا اسلوب سب سے زیادہ قرآن مجید میں بیان ہوا ہے، اور پھر حدیث میں پیش کیا گیا ہے۔ اگر کوئی صاحب علم کوشش کرے تو اس موضوع پر بڑا مفید کام ہو سکتا ہے کہ فہمِ قرآن، فہمِ حدیث اور فہمِ دین کے لیے مختلف امثال اور مختلف تمثیلات سے جو کام لیا گیا اس کی نوعیت کیا ہے؟ اور ہمارے جو مختلف داعی یعنی خطیب حضرات ہیں، اس اسلوب کو اختیار کر کے دعوت دین کا کس قدر مفید کام کر سکتے ہیں۔ رسول اللہ کے پیش نظریہ اسلوب مقصود بالذات نہیں تھا کہ وہ کسی ایک اسلوب اور فن کی بنیاد رکھیں۔ بلکہ مقصود یہ تھا کہ فہم دین کے لیے اس کو کیسے معاون بنایا جائے۔ آپ کے ذہن میں ہوگا کہ وضو کے بارے میں کتنی سادہ سی بات ہے کہ وضو کرنے کے فوائد یہ ہوتے ہیں۔ پوچھا جا رہاہے کہ اگر کوئی شخص بہتے ہوئے پانی کے کنارے پانچ دفعہ اس عمل کو دہرائے تو کیا کوئی کثافت یا غلاظت اس کے ساتھ وابستہ رہ سکتی ہے۔ یہ ایک تمثیلی اسلوب ہے جس سے یپش نظر حکم یا مسئلہ کو سمجھنے میں آسانی پیدا ہو جاتی ہے۔

علم نبوت کے طلبہ کا دائرہ عمل:

اول: علوم نبوت کے جتنے طالب علم ہیں وہ تین دائروں میں منقسم ہو جائیں گے۔ ایک دائرہ ان لوگوں کا ہے جو علمی اور تحقیق منہج اختیار کرلیں گے اور یہ دائرہ وہ ہوتاہے جیسے یہ عمارت ہے، اس عمارت کی ایک بنیاد ہے اور اس بنیاد کو نہ کوئی روغن کرتا ہے نہ کبھی اس کو کوئی پینٹ کرتا ہے۔ یہ بے چاری سارا وزن اٹھائے ہوئے ہے۔ یہ مظلوم بنیاد اس عمارت کا سارا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے۔ لیکن کوئی اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتا، میرے نزدیک اہل تصنیف اور محققوں کا مقام کسی تہذیب اور نظریے میں ان بنیادی اینٹوں کا سا ہے جو علم و تحقیق کا سارا وزن اٹھائے ہوئے ہیں۔

دوم:ـ اس کے مقابلے میں کچھ اور لوگ ہیں جن کا کام بہت بنیادی ہے، وہ اشاعت علم اور تدریس کا کام ہے اور وہ اس فریضے کو علوم کے احیا کے لیے انجام دیتے ہیں اور یہ بڑا بنیادی فریضہ ہے۔

سوم:ـ تیسرا دائرہ بہت اہم ہے اور اس کو بڑی مقبولیت حاصل ہے۔ موٹے تازے، اچھے لباس، گاڑی اور دوچار کلاشنکوفیں ساتھ رکھنے والے اس تیسرے دائرے کے لوگ آپ کو نظر آئیں گے جن کو ہم خطیب حضرات کہتے ہیں۔ ہمارے معاشرے کی سنگ دلی اور بے حسی یہ ہے ان کو ہی سب کچھ سمجھ رکھا ہے۔ مگر محققین اور مدرسین کی جانب زیادہ توجہ نہیں ہے۔

ہمیں اس حقیقت سے باخبر ہونا چاہیے کہ اعلی درجے کا کام وہی ہے جو تحقیق اور تصنیف کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ لیکن اس میں دل کڑا کر لیجئے کہ اس کا اجر آخرت میں موجود ہے۔ یہاں کسی بہانے سے کچھ مل جائے تو اس کی عطا ہے، الحمدللہ، وگرنہ صبر کیجئے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں تو رزق کے معنی نہیں آتے، رزق کہتے کسے ہیں؟ ہمارے رزق کے تصور کے غلط ہونے کی وجہ سے بعض چیزیں جو رزق نہیں بلکہ فتنہ ہیں، ہم اسے رزق تصور کر لیتے ہیں، وگرنہ اس کائنات میں جو رزق کی حقیقت اور اصلیت ہے وہ ہر ذی روح انسان تو کیا اس سے لاکھو ںگناہ بڑی دوسری مخلوقات ہیں، جن کے لئے اصلی رزق جو حیات کو قائم رکھنے والا ہے، وہ فطری طور پر خود فراہم کیا گیا ہے قرآن مجید نے اس فلسفے کو بھی بیان کیا ہے۔

ہمارے اسلاف نے معیشت کے باب میں بھی بڑی تابندہ مثالیں یادگار چھوڑی ہیں۔ امام بخاریرحمہ اللہ کے بارے میں ایک مستند اور صحیح روایت موجود ہے کہ امام صاحب کو مالی اعتبار سے بہت فراغت حاصل تھی، ان کے والد سے وراثت میں ملنے والے اموال خوب نفع کماتے تھے اور ان کے حلقہ درس کے اساتذہ اور طلبہ کی ساری ضرورتوں کا غالب حصہ ان کے اپنے اموال تجارت ہی کے ذریعے سے پورا ہوتا تھا۔

ایک زمانے میں وہ بیمار ہوئے اور رائج طریقہ کے مطابق ان کا قارورہ اطباء کے ایک بورڈ کے سامنے پیش کیا گیا تو انھوں نے قارورے کے تجزیئے کے بعد تعین کیا کہ امام اگر اپنی روٹی کے ساتھ سالن کا استعمال زیادہ کردیں تو شاید طبیعت کے اندر جو خشکی اور انقباض ہے وہ ختم ہو جائے گا اور طبیعت کا انشراح قائم ہو جائیگا اور تجویز کیا کہ حضرت ہماری درخواست یہ ہے کہ آپ اپنی چپاتی اور روٹی کے ساتھ سالن کا استعمال بڑھا دیں۔ تو انھوں نے فرمایا: پتہ نہیں بیس پچیس سال گزر چکے، میں نے تو شکل بھی نہیں دیکھی کہ سالن کیسا ہوتا ہے؟ دور جانے کی ضروت نہیں، قریب کی بات کرتا ہوں کہ یہ فقیر شیخ ابن باز علیہ الرحمہ کی مجلس میں بیٹھا تھا کہ فقیر نے دیکھا کہ ان کا لباس مجلس میں بیٹھے ہوئے ڈیڑھ سو لوگوں میں سب سے زیادہ سادہ تھا۔

علوم نبوت کے طلبہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی بودوباش کا ایک معیار قائم کریں جس میں سادگی اور قناعت ہو، پھر انہیں اس سادگی پر ناز ہو اور محض مجبوری کے طور پر اس کو اختیار نہ کر رکھا ہو۔ کبھی کبھی کتاب الزھد کے ابواب کا مطالعہ بھی کیا کریں، کمالات علمیہ کا تعلق مادی دنیا کے ساتھ نہیں بلکہ ان کا تعلق تقوی اور زھد کی روح کے ساتھ وابستہ ہے، انبیاء کرام درہم و دینار کی وراثت نہیں چھوڑتے، ان کی وراثت علم، تقوی اور خشیت الہی ہے، انبیاء اور صلحاء کی معیشت اور معاشرت کا عملی نمونہ اور ماڈل زہد اور قناعت کے سانچے میں ڈھل کر نظر آنا چاہیے۔

آپ لوگ بہت خوش قسمت ہیں کہ دینی درسگارہوں سے باقاعدہ فراغت کے بعد علوم اسلامیہ میں تخصص کے درجے میں شریک ہیں۔ علوم نبوت کی اولین درسگاہ میں بھی یہ تخصیص موجود تھی کہ کس فرد کو کس شعبہ علمی میں تخصص کی ضرورت ہے۔ صحابہ کرام y میں بھی طبقات المفسرین میں تفسیر قرآن میں تخصص کے حامل افراد ملتے ہیں۔ محمود شیت خطاب نے ایک کتاب ’’سفراء النبی‘‘ کے نام سے دو جلدوں میں لکھی ہے جو مئوسسہ الریان سے شائع ہوئی ہے اور اس میں رسول اللہ کے سفیروں کی مکمل معلومات درج ہیں، سفیر کن کو بنایا جاتا تھا؟ انہیں مختلف علاقوں کی زبانیں کیسے سکھائی جاتی تھیں؟ پھر وہ وہاں رہتے ہوئے اور واپس پلٹ کر کیا رپورٹنگ کرتے تھے؟ اس کی بنیاد پر اسلامی ریاست کی حکمت عملی کیسے تشکیل پاتی تھی؟ آپ نے اس طرح کے متخصصین علوم فنون ریاست کے دوسرے اداروں کے لیے بھی تیار کیے، جن کا بغور مطالعہ کیا جانا چاہیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے