كوئی چار هزار سال ادھر كی بات هے كه عراق كے شهر اُر میں آزر بت تراش كے گھر میں معمار كعبه نے جنم لیا آزری صنعت یعنی بت گری اور بت پرستی سے فطرت سلیمه میں نفور تھا لهٰذا بچپن هی سے توحید كی طرف مائل هوئے اور آخر اس دعوت توحید كے جرم میں پكڑ ے گئے پھر ایك بهت بڑا آگ كا الاؤ دھكایا گیا دنیا ایك عجیب منظر دیكھ رهی تھی وقت جیسے تھم گیا هو چرند پرند بھی سهم گئے الله كی نوری مخلوق بھی دم بخود تھی كه آخر هونے كیا جارهاهے ایك الله كا نام بلند كرنے والا یوں بے بسی سے جلا دیا جائے گا مگر جسے نمرودی طاقت جلانے چلی تھی وه تو مطمئن تھا اور اس كے دل میں كهیں بھی جھجھك اور بے یقینی كی كیفیت نهیں تھی آخر وه گھڑی آگئی كه

بے خطركو د پڑا آتش نمرود میں عشق                           عقل هے محو تماشا لب بام ابھی

عرش والے نے جسے اپنا خلیل بنانے كا فیصله كر لیا هو اسے كیونكر تنها چھوڑے ۔آگ كو حكم فرمایا: يَا نَارُ كُونِي بَرْدًا وَسَلَامًا (سورة الأنبياء:69) ’’اے آگ سلامتی والی ٹھنڈی هو جا۔‘‘ یوں قیامت تك آنے والوں كو بتا دیا كه جسے رب بچانا چاہے ساری دنیا مل كر اسے كوئی نقصان نهیں پهنچا سكتی طاقت كا گھمنڈ اور شاهی كا غرور همیشه حق كے اعتراف میں مانع رها هے مگر یه سنت الله هے كه جتنا بڑا غرور كرنے والا هوگا اس كا انجام اتنا هی حسرتناك هوگا نمرودی غرور كو خاك میں ملانے كے لیے الله نے ایك مچھر هی كو تو مسلط كیا تھا ، فرعون اپنے لاؤ لشكر سمیت اپنے علاقے كے دیكھے بھالے پانیوں میں ڈوب كر غرق هوا ابرهه هاتھیوں كے لشكر كے ساتھ چڑیوں جیسے پرندوں كا نشانه بنا دور كیوں جائیں حال كو دیكھ لیں تیونس كا آمر بھاگنے پر مجبور هوا ،مصر كا آزاد خیال تمام تر مكاریوں كے باوجود پس دیوار زنداں موت كا منتظر هے اور چالیس سال سے زیاده لیبیا پر زبردستی مسلط رهنے والا كرنل قذافی جس نے ظل الٰهی بننے كی كوشش میں دین بھی اپنا ایجاد كرلیا آج هر متكبر كے لیے نشان عبرت هے سو نمرود هلاك هوا اور ابراهیم علیه السلام رهتی دنیا تك كے امام ٹھهرے سب كچھ الله كے سپرد كركے حنیفیت كے مقام پر فائز هوئے ۔ ذی الحجه كا مهینه هر سال سیدنا ابراهیم خلیل الله علیه السلام كی یاد تازه كرتاهے جنهوں نے بیت الله كی بنا اٹھائی ‘ بیٹے اسماعیل ذبیح الله مزدور بنے گھر تعمیر هوا اس كی آبادی كی دعا بهت پهلے هوچكی جس كی عملی مثال سارا سال بالعموم اور حج كے مهینوں میں بالخصوص نظر آتی هے۔ابراهیم علیه السلام كی دعا مسلمانوں كے دلوں كو كھینچتی چلی جاتی هے ۔ فَاجْعَلْ اَفْىِٕدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِيْٓ اِلَيْهِمْ (سورة ابراهيم:37)  ’’لہٰذا تو لوگوں کے دلوں کو ان کا مشتاق بنا ‘‘ كچھ لوگ سامان باندھے عازم سفر هیں اپنے نصیب په شاداں وفرحاں زهے نصیب ، یه لمحے انهیں میسر آنے كو هیں اور پھر اس خوف سے لرزاں وترساں كے كهیں یه خوش نصیبی ان كے هاتھ سے نكل نه جائے كهیں دریائے رحمت كے كنارے پهنچ كر بھی پیاسے نه لوٹ آئیں اور كچھ ایسے بھی هیں جن كے دل تڑپتے هیں وه مكه ومدینه كے راہیوں كو الوداع كهتے هیں ان كے نصیب په رشك كرتے هیں ، اپنے وهاں پهنچنے كی دعاؤں كی درخواست كرتے هیں پھر كچھ ایسے بھی حرماں نصیب هیں جو اس دنیا میں یوںگم هیں كه اتنی بڑی نعمت كا انهیں شعور تك نهیں وه ساری دنیا گھومتے هیں مگر نهیں جاتے تو بلد امین نهیں جاتے ،دیار حبیب نهیں جاتے پهلی قسم ، یقیناً خوش نصیبوں كی هے كه جنهیں نبی رحمت تمام گناهوں سے پاك هونے كی بشارت سنارهے هیں ۔   مَ

نْ حَجَّ لِلهِ فَلَمْ يَرْفُثْ وَلَمْ يَفْسُقْ رَجَعَ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ۔(بخاری )

’’جس نے حج كیا اور شهوانی باتوں اور فسق فجور سے بچا وه گناهوں سے اس طرح پاك هوجاتاهے جیسے اس دن پاك تھا جب اسے اس كی ماں نے جنا تھا ۔‘‘

دوسری قسم كے وه لوگ هیں جو وسائل كی كمی عدم دستیابی كی وجه سے جانه سكے مگر دل كی كیفیت یه بنی هے كه اڑ كر پهنچ جائیں تو وه رحیم وكریم دلوں كو جانتاهے اور اعمال كو نیتوں پر پركھتاهے پھر ویسی هی جزا دیتاهے اسی لیے تو حج كی تیاری میں یه بھی اظهار هے كه : اللهم لبیك حجاً لاسمعة ولا ریاء ’’يا الله ميرے اس حج سے نه دكھاوا مقصود هے نه شهرت مطلوب هے ۔‘‘ سو الله رحیم وكریم كی بے پایاں رحمتوں سے امید باندھی جاسكتی هے كه زاد راه اور وسائل كی كمی كی وجه سے پیچھے ره جانے والے بھی حجاج كرام كے ساتھ ثواب میں شریك ٹھہریں اور پھر ظاهری طور پہ بھی الله تعالیٰ نےاپنے بندوں كو اپنی عطا وخیر سے نوازنے كا انتظام فرمادیا كه ذی الحجه كا چاند نظر آتے هی قربانی كرنے والے حضرات اپنے بال اور ناخن وغیره نه كاٹیں شاید یهاں حجاج كی مشابهت مقصود هے پھر یه دس راتیں یعنی عشرہ ذی الحجه تمام مسلمانوں كے لیے افضل ترین راتیں بنا دیں

وَالْفَجْرِوَلَيَالٍ عَشْرٍO(الفجر:1تا2)  ’’قسم ہے فجر کی ! اور دس (10)راتوں کی !‘‘

ان میں كیے هوئے عمل كا أجر جهاد سے بڑھ كر ٹھهرا یوم عرفه نو ذی الحجه كا روزه ایك سال گذشته اور ایك سال آنے والے گناهوں كا كفاره بنا دیا سو جو حج كرنے سے عاجز رها اسے رب تعالیٰ نے اپنی رحمت سے موقع عطا فرمایا كه گھر بیٹھے نیكی كرے اور جهاد سے بھی زیاده أجر پائے مگر وه مجاهد جو مال وجان لیكر نكلے اور سب الله كی راه میں قربان كردے ۔اس کا اجر سوا ہے۔

اب تیسری قسم كے لوگ هیں كه جن كے بارے میں كتب احادیث میں سخت تنبیهات ہیں

: وَعَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ لَقَدْ هَمَمْت أَنْ أَبْعَثَ رِجَالًا إلَى هَذِهِ الْأَمْصَارِ فَيَنْظُرُوا كُلَّ مَنْ لَهُ جَدَّةٌ وَلَمْ يَحُجَّ فَيَضْرِبُوا عَلَيْهِ الْجِزْيَةَ مَا هُمْ بِمُسْلِمِينَ مَا هُمْ بِمُسْلِمِينَ ــ

’’اور سیدنا عمر رضی الله عنه فرماتے هیں كه میرا اراده هے كه میں ان شهروں میں اپنے آدمی بھیجوں كه وه دیكھیں كون لوگ استطاعت كے باوجود حج نهیں كرتے میں ان په جزیه عائد كردوں وه مسلمان نهیں وه مسلمان نهیں ۔ (التلخیص الحبیر 223/2) حج اسلامی وحدت كا عظیم اظهار هے،وحدت لباس ،وحدت فكر، ایك هی منزل، ایك هی ندا، ایسے اجتماع كی مثال كوئی بھی دین اور كوئی بھی معاشره پیش كرنے سے قاصر هے۔ اسلام چونكه امن كا داعی هے سو ایسا تربیت كا مظهر هے كه مسلمان كیسے امن، صلح وآشتی كے ساتھ زندگی گزارے انسان تو كجا یهاں جانوروں كو بھی تكلیف پهنچانا، ان كا شكار كرنا حرام اور اسلحه اٹھانا جائز نهیں ۔بیت الله اصل میں مركز توحید هے اور حج بیت الله تو توحید كا عملی اظهار تلبیه بھی الله كی وحدانیت كا اعلان هے جیسا كه حدیث جابر رضی الله عنه میں ہے کہ فاھل بالتوحید لبیك اللھم لبیك پھر توحید كا آوازه بلند كیا ،پھر طواف كے بعد دو ركعتوں میں سورئه اخلاص اور الكافرون كی تلاوت اسی طرح صفا ومروه كی دعا پھر میدانِ عرفات كی دعا یه سب توحید كا اعلان واعتراف هے وه مناسك حج جن كی ابتداء ابراهيم عليه السلام نے فرمائي پھر اعلان حج كركے لوگوں كو اس كی دعوت دی انهی مناسك كی تكمیل دعائے خلیل اور نوید مسیحا سید الانبیاء محمد رسول الله ﷺ نے فرمائی اور اعلان فرمایا : خذوا عنی مناسككمم مجھ سے مناسك سیكھ لو۔ آپﷺ كا حج اور اس میں آپ كے ارشادات آپ كی اپنی امت كے لیے غم خواری اور انتهائی همدردی كی غمازی كرتے هیں۔

آپ كے خطبات حج سے چند نصائح كا خلاصه :

1سود حرام فرمایا اور سب سے پهلے اپنے هی چچا كا سود معاف فرمایا ۔

2جاهلیت كے قتل اور خون معاف كیے اور ابتداء اپنے خاندان كے شیر خوار ابن ربیعه كا خون معاف كركے فرمائی۔

3 مسلمانوں كو باهمی قتل وغارت سے روكنے كے لیے خون مسلم كی اهمیت بتائی اور فرمایا تمهارے خون اور مال كی حرمت ایسے هی هے جیسے آج كے دن (یوم عرفه) اور اس

     مهینه حج كی اور اس شهر مكه كی حرمت هے اور فرمایا لوگو سنو! هر مسلمان مسلمان كا بھائی هے ۔

4 اور اپنے ارشادات میں جو سب سے لمبی نصیحت فرمائی وه عورتوں كے حقوق سے متعلق تھی۔

5كتاب وسنت كو تھامے ركھنے كا ارشادفرمایا كیونکہ گمراهی سےیهی چیز بچا سكتی هے اور دنیا وآخرت كی نجات بھی اسی میں هے۔

پھر اسی حج میں الله تعالیٰ نے اسلام كی نعمت كا انعام فرمایا: اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا (المائدة:3)

’’آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے ۔‘‘

حجة الوداع كے خطبات امن عالم اور انسانیت كے لیے ایك دستور كی حیثیت ركھتے هیں جو اسلام كے منهج كو واضح كرتے هیں حج كے تمام اعمال اور سیدنا ابراهیم علیه السلام كی زندگی سے همیں ایك بهت اهم سبق ملتاهے اور وه هے اطاعت گزاری فرماں برداری جهاں حكم هوا چل پڑے جهاں حكم ملا رك گئے بیت الله میں ایك لاكھ نمازوں كا ثو اب چھوڑا منیٰ میں شب بسری كی عمر بھر جماعت سے نماز ادا كی مگر میدان عرفات میں عین مغرب كی نماز كے وقت بغیر نماز ادا كیے مزدلفه كا رخ كیا پھر جمرات كو كنكریاں ماری جارهی هیں هر چیز میں عقل هی سامنے ركھنے والوں كے لیےشاید اس میں كوئی دلچسپی كا سامان نه هو یه تو واردات قلبی هیں یهاں تو بات سرجھكانے په ٹھهري هے۔

اچھا هے كه دل كے ساتھ رهے یالبان عقل                  لیكن كبھی كبھی اسے تنها بھی چھوڑ دے

میں جب یه سطور لكھ رها هوں جامعه كے صحن میں النادی الادبی الاسلامی كا پروگرام هورها هے اساتذئه كرام موجود هیں جو كل كے خطیب وداعی تیار كر رهے هیں۔ موضوع هے فضائل عشره ذی الحجه مجھے ایك ایسا هی پروگرام یاد آرها هے كئی سال پهلے یهی دن تھے كه جامعه سلفیه (فیصل آباد) كی مسجد میں عید قربان كے موضوع په طلباء پر جوش تقریریں كررهے تھے كه ایك طالب علم نے یه شعر اٹھایا

عجب منظر دیكھا هے بروز عید قرباں                  وهی ذبح كرے هے وهی لے ثواب الٹا

یقینا یه الله كی مهربانی هے اسے خون اور گوشت كی قطعاً ضرورت نهیں وه همیں هی لوٹا دیتاهے اور پھر نیت كے حساب سے اجر وثواب سے بھی نوازتاهے یه قربانی هی مسلمان كی زندگی شعار اور مقصد هے ۔

قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ؀(سورة الأنعام :162) ’

’کہو، میری نماز، میرے تمام مراسم عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے ۔ ‘‘ قربانی هی بقا كا ذریعه هے اور یه بھی سراسر الله كے حكم كے سامنے سر تسلیم خم كركے ابراهیمی سنت كے احیاء كا ذریعه هے كه جنهوں نے الله كے حكم په اپنے فرزند اسماعیل علیه السلام كے گلے په چھری چلا دی الله نے اسماعیل علیه السلام كو بچا لیا ابراهیم علیه السلام كی زندگی كو اپنے پیارے حبیب مصطفیٰ ﷺ اور ان كی امت كے لیے بهترین اسوئه قراردیا هے۔اسي جذبه قرباني ميں قوموں كي حيات وبقا كا راز مضمر هے كيونكه’’ جسے مرنا نهيں آتا اسے جينا نهيں آتا۔‘‘

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے