اسلامی بینکوں کا نقطہ نظر:

اسلامی بینکوں کی طرف سے اس کے حق میں سب سے بڑی دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ حقیقی بیع تب ہوتی ہے جب بینک مطلوبہ سامان خرید لیتا ہے اس سے پہلے صرف بیع کا وعدہ ہوتا ہے۔ لہذا اسے اوپر بیان شدہ خرابیاں لازم نہیں آتیں۔ بیع اور وعدہ میں فرق ہے مثلا بینک کی طرف سے مطلوبہ چیز خریدنے کے بعد اور کلائنٹ کے حوالے کرنے سے پہلے اگر وہ ضائع ہو جائے تو بینک کا نقصان ہو گا سی طرح اگر بینک کی طرف سے خریداری کے بعد کلائنٹ انکار کر دے تو بینک اس کو کسی دوسرے شخص کو بیچ کر الگ لاگت سے جتنے پیسے کم ملیں گے وہ وعدہ کرنے والے سے وصول کرے گا۔ یہ اسی بات کی دلیل ہے کہ یہ باقاعدہ بیع نہیں ہے ورنہ تو بینک نقصان کا ضامن ہوتا اور نہ ہی اس کو دوسری جگہ بیچنے کا اختیار ہوتا لیکن اگر غور کیا جائے تو دو وجہ سے یہ دلیل انتہائی کمزور ہے۔

۱۔          ہم پیچھے بیان کر آئے ہیں کہ لازمی وعدہ بیع ہی کی شکل ہے یہی وجہ ہے کہ امام شفعی اور مالکی فقہاء نے ’’مرابحہ للامر بالشراء‘‘ کی جس شکل میں اختیار نہ ہو کو ناجائز قرار دیا جیسا کہ اوپر بیان ہوا ہے۔

فقہائے احناف کے سر خیل حضرت امام محمد نے اس خطرہ کے پیش نظر کہ ’’آرڈر دینے والا خریدنے سے انکار نہ کرے کے لیے یہ حیلہ تجویز کیا ہے کہ جس کو آرڈر دیا گیا ہے وہ اس شرط پر خریدے کہ مجھے تین دن بعد واپس کرنے کا اختیار ہے اگر آرڈر دینے والا اپنے وعدے کے مطابق خرید لے تو اس کے حوالے کر دے۔ اگر اس کو دلچسپی نہ ہو تو اس اختیار کی بناء پر واپس کر کے نقصان سے محفوظ رہے گا۔‘‘                             [کتاب الحیل امام محمد بھوالہ بحوث فقیھۃ فی قضایا اقتصادیۃ معاصرۃ: ج ۱ ص ۱۰۲،۱۰۳]

یہ اس بات کی صریح دلیل ہے کہ فقہاء احناف کے ہاں مرابحہ میں وعدہ پورا کرنا قانون ذمہ داری نہیں ورنہ اس حیلے کی ضرورت پیش نہ آتی۔

باقی رہ گیا وہ فرق جو اسلامی بینکوں کی جانب سے بیان کیا جاتا ہے تو اس سے معاملے کی حقیقت پر کوئی اثر نہیں پڑتا کیونکہ دونوں صورتوں میں نتیجہ ایک ہے وہ یہ کہ فریقین وعدے کے مطابق بیع کرنے کے پابند ہیں۔

۲۔         اس دلیل کی کمزوری کی دوسری وجہ یہ ہے کہ جن آئمہ نے ایفائے وعدہ کو فرض کہا ہے۔ وہ تبرعات کے بارہ میں ہے نہ کہ معاوضات میں۔ بعض دفعہ یہ بھی ہوتا ہے کہ اس میں درج رقم ادا کر کے اس پر نفع وصول کرے۔ اس کو مرابحہ کا نام دے دیا جاتا ہے حالانکہ اس کا مرابحہ سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ سراسر سودی حیلہ ہے۔

مذکورہ بالا تفصیل سے واضح ہوا کہ اسلامی بینکوں میں رائج مرابحہ شرعی اصول سے متصادم ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے۔ اس لیے بیع مرابحہ کی بنیاد پر اسلامی بینکاری کا نظریہ دم توڑ رہا ہے۔ چنانچہ ڈاکٹر رفیق یونس مصری لکھتے ہیں:

(وتجدد الاشارۃ الی ان نجم بیع المرابحہ للامر باالشراء عند الافراد والعلماء والھیئات والمجامع آخذ فی الاخمال بل ان بعض العلماء کالشیخ مصطفی الزرقاء قد غیر رایہ تغیراً جذریا کما اعلن ذلک یوم الخمیس)

’’یہاں اس بات کی طرف اشارہ بھی مناسب رہے گا کہ ماہرین علماء اور مختلف کونسلوں اور اکیڈمیوں کے نزدیک خریداری کا آرڈر دینے والے کیساتھ بیع مرابحہ کا معاملہ کرنے کا ستارہ ڈوب رہا ہے۔ بلکہ بعض علماء نے جیسا کہ شیخ محمد مصطفی رقاء میں کلیتاً اپنی رائے کو تبدیل کر لیا ہے جیسا کہ انہوں نے ۱۴۱۴۔ ۰۹۔۰۷ براز جمعرات برکہ سیمینار میں اعلان کیا ۔‘‘

اجارہ منتھیۃ بالتملیک:

یہ بھی اسلامی بینکوں میں فنانسنگ کا ایک بڑا ڈریعہ ہے۔ اجارہ کی یہ صورت اسلامی بینکاری کی ایجاد کردہ ہے۔ ہمارے واجب بالاحترام محدثین و فقہاء اس سے واقف نہ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی کتب میں اس کا ذکر نہیں ملتا۔ لہذا ہم بھی اس کے احکام جاننے کے لیے اسلامی بینکوں کی رہنمائی کے لیے مرتب کردہ شریعہ سٹینڈرڈز پر ہی اعتماد کریں گے۔ چنانچہ شریعہ سٹینڈرڈز کے سکالرز نے اس کی تعریف یوں کی ہے۔

(ھی اجارۃ یقترن بھا الوعد بتملیک العین المئوجرۃ الی المستاجر فی نھایۃ مدۃ الاجارۃ او فی اثنائھا)                         [المعابیر الشرعیۃ: ص ۱۵۳]

’’ایسا اجارہ جس میں یہ وعدہ شامل ہو کر مدت اجارہ کے آخر میں یا اس کے دوران ہی کرائے پر دی گئی چیزکی ملکیت کرایہ دار کی طرف منتقل کر دی جائے گی۔‘‘

ڈاکٹر وہبہ زحیلی لکھتے ہیں:

(ھی تملیک منفعۃ بعض الاعیان کالدورو المعدات مدۃ معینۃ من الزمن باجرۃ معلومۃ تزید عادۃ عن اجرۃ المثل وعلی ان یملک الموجر العین الموجرۃ للمستاجر بتاء علی وعد سابق بتملیکھا فی نھایۃ المدۃ او فی اثنائھا بعد سداد جمعی مستحقات الاجرۃ او اقساطھا و ذلک بعقد جدید)                      [المعاملات المالیۃ المعاصرہ: ص؟؟؟]

’’اجارہ منتھیۃ بالتملیک کا مطلب ہے کہ متعین وقت کے لیے طے شدہ کرائے جو عام طور پر اس طرح کی دوسری چیزوں کے کرائے سے زیادہ ہوتا ہے کہ بدلے کسی چیز جیسے گھر یا سامان کے فائدے کا دوسرے کو مالک بنا دینا اس شرط پر کہ کرایہ کی تمام قسطیںادا کرنے کے بعد مدت کرایہ کے اختتام پر یا اس کے دوران ہی مالک سابق وعدے کی بنیاد پر ایک نئے عقد کے ذریعے اس چیز کی ملکیت کرایہ دار کی طرف منتقل کر دے گا۔‘‘

شرعی اجارہ اس سے مختلف ہے۔ اسلامی بینکوں کے حامی بھی اس بات پر قائل ہیں کہ شریعت نے اجرہ کا جو تصور دیا ہے وہ اس سے مختلف ہے چنانچہ ڈاکٹر وہبہ زحیلی لکھتے ہیں: اجارہ ’’منتھیۃ بالتملیک‘‘ عام اجارہ سے دو لحاظ سے مختلف ہے:

۱۔          اجارہ ’’منتھیۃ بالتملیک‘‘ دو معاہدوں پر مشتمل ہوتا ہے۔

٭اجارہ کا معاہدہ جو طے شدہ مدت تک جاری رہتا ہے۔

٭مدت کے اختتام یا دوران مدت اس چیز کا مالک بنانے کا معاہدہ۔

۲۔         اجارہ ’’منتھیۃ بالتملیک‘‘ میں بینک کرائے پر دی جانے والی چیز کلائنٹ کی درخواست کے بعد خریدتا ہے اکثر اس کا کرایہ عام کرائے سے زیادہ ہوتا ہے جبکہ عام اجارہ میں وہ چیز پہلے سے موجر کے پاس موجود ہوتی ہے۔      [المعاملات المالیۃ المعاصرۃ وھبۃ زحیلی: ص ۳۹۵]

اسلامی بینکوں میں رائج اجارہ اور سودی بینکوں میں رائج ہائر پر چیز میں فرق:

اسلامی بینکوں کے نقطہ نظر کے مطابق دونوں میں فرق اس طرح ہے کہ ہائر پر چیز میں بیع اور اجارہ دونوں بیک وقت شروع ہوتے ہیں اور آخری قسط کی ادائیگی پر از سر نو معاہدہ کیے بغیر ہی چیز کی ملکیت مستاجر کی طرف منتقل ہو جاتی ہے جبکہ اجارہ منتھیۃ بالتملیک میں مدت اجارہ کے ختم ہونے تک اجارہ کے احکام نافذ ہوتے ہیں اسکے بعد ملکیت مستاجر کی طرف منتقل ہوتی ہے۔         [المعابیر الشرعیۃ: ؟؟؟]

اسی طرح اجارہ ’’منتھیۃ بالتملیک‘‘ اور بیع قسط میں بھی فرق ہے۔ بیع قسط میں چیز کی ملکیت فوری طور پر خریدار کی طرف منتقل ہو جاتی ہے صرف قیمت قسطوں میں ادا کی جاتی ہے جبکہ مذکورہ بالا اجارہ میں دو معاملے جمع ہوتے ہیں۔

۱۔          اجارہ کا معاہدہ

۲۔         مدت پوری ہونے پر بیع کا معاملہ۔

[المعاملات المالیۃ المعاصرۃ للدکتور وھبۃ الزحیلی:۳۹۵،۳۹۶]

ملکیت منتقل ہونے کے طریقے:

’’المعاییر الشرعیۃ‘‘ میں اس کی تین صورتیں بیان ہوئی ہیں۔

۱۔          رسمی یا حقیقی قیمت کے بدلے بیع کا وعدہ ہو یا مدت اجارہ کے دوران ہی باقی مدت کے کرائے کے بدلے یا مارکیٹ ریٹ کے مطابق بیع کا وعدہ ہو۔

۲۔         ہبہ کا وعدہ ہو۔

۳۔         ہبہ کا معاہدہ و تمام اقساط کی ادائیگی کے ساتھ مشروط ہو۔ [ص۱۴۱]

البتہ یہ فیصلہ کرنا شروع میں ضروری ہے کہ کون سا طریقہ اختیار کیا جائیگا۔

المعاییر الشرعیۃ میں یہ بھی صراحت ہے کہ یہ وعدہ موجر (بینک) کی طرف سے ہو گا۔ مزید لکھا ہے کہ یہ وعدہ یک طرفہ ہوگا اور مئوجر (بینک) پر اس کی پابندی لازم ہوگی۔ [ص ۱۴۲]

یہاں اس امر کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ بینک جس چیز پر اجارہ کرتا ہے وہ پہلے سے بینک کے پاس موجود نہیں ہوتی بلکہ وہ کلائنٹ کی درخواست پر خریدی جاتی ہے۔ اس میں یہ امکان بھی ہوتاہے کہ بینک جب وہ چیز خریدلے تو کلائنٹ لینے سے انکار کر دے۔ ظاہر ہے بینک اس کا متحمل نہیں ہو سکتا چنانچہ اسلامی بینکوں نے اس خطرے کایہ حل نکالا کہ کلائنٹ سے متعلقہ چیز کی قیمت کا دس فیصد پہلے وصول کر لیا جائے اس کو ’’ضمان جدیہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اگر کلائنٹ بینک کی خریداری کے بعد اپنی بات پر قائم نہ رہے تو بینک اس کا معاملہ کسی دوسرے کے ساتھ کرے گا اور جتنا نقصان ہو گا وہ ’’ضمان جدیہ‘‘سے پورا کرے گا۔ اگر ضمان جیدہ نقصان کی تلافی کے لے ناکافی ہو تو وہ کلائنٹ سے مزید مطالبہ بھی کر سکتا ہے کیونکہ بینک کو یہ نقصان اس کی وجہ سے ہوا ہے اگر ضمان جدیہ سے نقصان پورا کرنے کے بعدکچھ رقم بچ جائے (جو ممکن نہیں) تو وہ کلائنٹ کی ہوگی۔ شرعی اجارہ میں یہ نہیں ہوتا۔ شرعی اجارہ میں مالک نے چونکہ وہ چیز کسی درخواست کے بغیر خریدی ہوتی ہے اس لیے اس میں دونوں احتمال ہوتے ہیں کہ کوئی کرایہ پر لینے کے لیے آجائے یا نہ آئے۔ اس سے بھی ہمارے اس موقف کو تقویت ملتی ہے کہ اسلامی بینک نان رسک ادارہ ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے