اللہ ربّ العزت نے دین اسلام میں عورتوں کی تربیت کا خصوصی اہتمام کیا ہے کیونکہ ایک عورت کی وجہ سے پوراگھرانہ راہ راست پر آسکتاہے۔ لیکن موجودہ دور میں عورت کی دین اسلام سے آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس لاعلمی کی وجہ سے عورتیں، بے حیائی ، بے پردگی اور فحاشی جیسے خطرناک گناہوں میں مردوں کی نسبت زیادہ ملوث ہیں۔ موجودہ معاشرے میں عورتوں میں بڑی برائی بے پردگی اور فحاشی ہے۔ عورتیں بغیرے پردے کے بازاروں ، دفتروں ، ہسپتالوں اور بینکوں میں موجود ہیں۔ آج عورتیں کرکٹ کے میدانوں اور میرج ہالوں میں بھی موجود ہیں اور ہندو عورتوں کی نقالی کر رہی ہیں۔

سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

’’ من تشبہ بقومٍ فہو منہم‘‘(سنن ابی داؤد، باب فی لبس الشھرۃ رقم الحدیث :4031)

’’جو کوئی دوسری قوموں کی مشابہت اختیار کرے گا وہ انہی میں سے ہوگا۔‘‘

شادی بیاہ کی رسومات ، مہندی،مایوں،ابٹن، جہیز، بری،بارات گانا بجانا، بسنت کا تہوار اور ویلنٹائن ڈے کیا یہ ہندؤں کی رسمیں نہیں ہیں؟ اور کیا یہ ہندؤں کی نقالی نہیں ہے؟ آج مسلمان عورتیں بے پردہ ہوکر ہوٹلوں اور بازاروں میں پھرتی ہیں ۔ بغیر کسی مجبوری کے شوقیہ ملازمت کرتی ہیں۔ کرکٹ کے میدانوں میں جاتی ہیں جہاں درمیانی نشستیں عورتوں کے لیے مخصوص کردی جاتی ہیں۔(تاکہ اردگرد والے بھی نظارہ کرسکیں)۔

ہمارے ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہندؤں کی تمام رسمیں دھرائی جاتی ہیں بلکہ ان سے بڑھ کر منائی جاتی ہیں۔ بسنت کا تہوار ہندؤں سے بڑھ کر مناتے ہیں۔ مردوزن، زرد لباس جوکہ ہندؤں کا مخصوص لباس ہے، پہنتے ہیں۔ ہندؤں کا لباس زیب تن کرنا، دعوت نامے بھیجنا، تحفے بھیجنا۔ کیا یہ ہندؤں کی نقالی نہیں ہے؟اگر کوئی منع کرے تو جواز پیش کرتی ہیں۔

حدیث نبیصلی اللہ علیہ وسلم ہے : ’’تحفے بھیجو، آپس میں محبت بڑھتی ہے۔‘‘

کیا یہ دین اسلام کے بارے میں لاعلمی او رکم عقلی نہیں ہے۔ کیا یہ دین اسلام سے ناآشنائی نہیں ہے کہ غیر مسلموں کے مذہبی تہوار کو عقیدت اور جوش وخروش سے منایا جائے۔

بسنت والے تو یہ بھی نہیں جانتے کہ بسنت کے بعد اخبارات خبروں سے بھرے ہوئے ہیں کہ پانچ بہنوں کا اکلوتا بھائی تیسری منزل سے پتنگ بازی کرتے ہوئے گر کر ہلاک ہوگیا ہے یا پتنگ اتارنے کیلئے لڑکے بجلی کی تاروں پر چڑھنے سے کرنٹ لگنے سے مرگئے۔ اللہ تبارک وتعالی انہیں اس دنیا میں اپنے کیے کی سزا دیتے ہیں لیکن ان میں اتنا شعور بھی نہیں ہوتا کہ وہ سمجھ سکیں کہ یہ اپنے کیے کی سزا ہے اور اللہ کی طرف سے پکڑ ہے۔ انہیں یہ یا دہی نہیں رہتا کہ یہ غیر مسلموں کی نقالی ہے جو اسلام میںمنع ہے۔

قرآن ہمیں پردے کا حکم دیتاہے ۔ نامحرم کے سامنے سجنے سنورنے اور بے پردہ ہونے سے منع کرتا ہے۔ جیسے کہ قرآن مجید میں سورۃ الاحزاب میں ارشاد ہوتاہے۔

{وقرن فی بیوتکن ولا تبرجن تبرج الجاھلیۃ الأولی فأقمن الصلاۃ وآتین الزکاۃ وأطعن اللہ ورسولہ}(سورۃ الاحزاب:۳۳)

’’اور اپنے گھروں میں ٹک کر رہو اور پہلی جاہلیت کی سج دھج نہ دکھاتی پھرو، نماز قائم کرو، زکوۃ ادا کرو اور اللہ اور اس کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو۔‘‘

ادھر قرآن یہ حکم دیتاہے کہ اپنے گھروں میں قرار پکڑو لیکن آج موجودہ معاشرے میں اسلامی ملک میں اس کے برعکس کام ہورہا ہے۔ہر طرف آزادی نسواں ، آزادی نسواں کے نعرے لگ رہے ہیں ۔

ارشاد ربانی ہے

{یاأیھا الذین آمنوا لا تتبعوا خطوات الشیطان ومن یتبع خطوات الشیطان فانہ یأمرکم بالفحشاء والمنکر}(النور۲۱)

’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، شیطان کے قدم بہ قدم مت چلو جو کوئی اس کی پیروی کرے گا وہ گمراہ ہوگا اس لیے کہ شیطان تو بے حیائی اور برائی کے کام کرنے کو کہے گا۔‘‘

اب اس موجودہ معاشرے میں عورت کی عقل ہی اس حقیقت سے پردہ اٹھائے کہ یہ آزادی نسواں ہے یا عذاب نسواں؟

اس راز کو عورت کی بصیرت ہی کرے فاش

مجبور ہیں معذور ہیں مردانِ خردمند

کیا چیز ہے آرائش و قیمت میں زیادہ

آزادیِ نسواں کہ زمرد کا گلوبند؟

اللہ نے عورت کوگھر کی ملکیت سونپی ہے۔ گھر کا حکمران بنایا ہے لیکن عورت شمع خانہ بننے کی بجائے شمع محفل بن گئی ہے۔ وہ عورت جو کل تک عزت وعصمت کا پیکر تھی وہ آج تباہی وبربادی کا محور ہے ، جو کل اسلامی تہذیب کا چلتا پھرتا نمونہ تھی وہ اسلام کی حدود کو توڑ چکی ہے ۔والی اللہ المشتکی

کل تک جنہیں نہ چھوسکتی تھی فرشتوں کی نظر

آج وہ رونق بازار نظر آتی ہے

کیا یہ شیطانی چال نہیں ہے کہ عورت حکومت کرے۔پھر کچھ عورتیں ، بینکوں، دفتروں میں سیکرٹری کی نشست سنبھال کر خو کو حکمران تصور کرتی ہیں۔ بازاروں میں گھومتی پھرتی ہیں۔ میرج ہالوںکی زینت بن گئی ہیں۔ دینی مدارس میں جانے کی بجائے سینما گھروں اور بیوٹی پارلروں میں جاتیں ہیں۔ جہاں انہیں پہلے تو عزت دی جاتی ہے پھر طرح طرح سے انہیں تنگ کیا جاتا۔ چاہے وہ دفتروں میںہوں یا کسی سفر میں فل میوزک، ہوٹنگ کے علاوہ فقرے کسے جاتے ہیں۔ اس میں سراسر قصور عورتوں کا ہے ، اس کی دو وجہ ہیں ’’بے پردہ ہو کر گھروں سے نکلنا اور میک اپ اور خوشبو میں ڈوبا ہونا۔‘‘

ارشاد باری تعالی ہے{یا أیہا النبی قل لازواجک وبناتک ونساء المؤمنین یدنین علیہن من جلابیبہن ذلک أدنی أن یعرفن فلا یؤذین }(سورۃ الاحزاب:۵۹)

’’ اے نبیصلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیجیے! اپنی بیویوں، بیٹیوں اور مومن عورتوں سے کہ وہ اوڑھنیوں سے اپنے چہرے کو ڈھانپ لیں۔ اس سے وہ جلد پہچان لی جایا کریں گی اور اس سے انہیں ستایا نہ جائے گا۔‘‘

حدیث نبویصلی اللہ علیہ وسلم ہے ’’جو عورت خوشبو لگا کر نامحرم مردوں کے پاس سے گزرے تاکہ وہ اس کی خوشبو پالیں، بدکار عورت ہے۔‘‘(کتب ستہ)

اور یادرکھنا یہ جو مغرب والے اپنی نقالی میں تمہیں دوستی، محبت ، آزادی نسواں اور روشن خیالی کا سبق دے رہے ہیں۔ یہ سب دھوکہ جھوٹ اور مکر وفریب ہے۔ سوچ لو

دے رہے ہیں جو لوگ تمہیں رفاقت کا فریب

ان کی تاریخ پڑھو گے تو دہل جاؤ گے

آخرمیں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں نیک کام کرنے کی ہمت اور توفیق عطا فرمائے اور گمراہیوں سے نکال لائے اور جو مسلمان بہنیں اس فتنہ پروری میں جہالت کے اندھے پن میں ہیں۔ جہالت کی گمراہیوں میں اور مغرب کی تقلید میں اندھی ہورہی ہیں۔

اللہ تعالی خاص طور پر انہیں اور باقی مسلمانوں کو بھی ہدایت عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے