خلافت، کسی ایک مسلمان کو لوگوں پر اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے اس منہج کے مطابق حکومت کرنے کے لئے خلیفہ بنانے کو کہتے ہیں جسے اللہ اپنے مومن بندوں کیلئے پسند فرماتاہے۔

بلکہ یہ نظام زندگی کی استقامت کے لئے ایک نہایت ضروری امر ہے۔

صرف قوانین کا ایک مجموعہ معاشرے کی اصلاح کے لئے کافی نہیں بلکہ اس قانون شریعت کی سعادت واصلاح کو کارآمد بنانے کے لئے ایک تنفیذی قوت کی ضرورت ہوتی ہے اسی لئے اللہ رب العزت نے زمین پر قوانین کے مجموعے کے ساتھ ساتھ حکومت اور تنفیذی آلات بنائے ہیں۔

قائد اعظم ہمارے نبی معظم محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی اسلامی معاشرے کے ادارے میں تمام تنفیذی آلات کو ہینڈل کر رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ جو تبلیغ وبیان اور احکام وانظمہ کی جو ذمہ داریاں تھیں۔ اس کے علاوہ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ان احکام ونظم کی تنفیذ کا خاص اہتمام کیا حتی کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم ایک اسلامی ریاست وجود میں لے آئے۔ عین اسی وقت قائد اعظم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف الٰہی قوانین کی تشریع پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ آپ انہیں نافذ بھی کرتے تھے۔

چور کا ہاتھ کاٹتے اور زانی کو کوڑ ے اور رجم کی سزا دیتے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلیفہ کی ترجیحات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ کم نہ تھیں۔

اور خلیفہ کا تعین صرف احکام وقوانین کے بیان کے لئے نہیں تھا بلکہ ان کی تنفیذ بھی اسی کی ذمہ داری تھی۔ اس نے خلافت کی اہمیت وعظمت کو بڑھا دیا ہے۔ ایک خلیفہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مسئول سمجھتا ہے اس معاشرے کی ایک ایک چیز کے بارے میں اور یہ کہ جو بھی اس سے کوتاہی ہوگی اس کا اللہ سے احتساب ہوگا۔ قیامت کے دن اسی لئے اس کا یہ شدید خوف اسے ایک ایسا حاکم بنا دیتاہے کہ لوگوں کی خدمت میں دن رات ایک کر دیتاہے ہر گھڑی ان کے حالات پر نظر رکھتا ہے چاہے وہ بازار میں ہوں یا شہر کی آبادی سے باہر۔

منصب خلافت:

سب سے پہلے خلفاء راشدین کا منصب سمجھنے کے لئے قرآن کریم کی ایک آیت کریمہ پر غور کیجئے جو خاص طور پر اولی الأمر اور خلفاء کے بارے میں ان کی شان اقدس میں نازل ہوئی ۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے {اِنَّ   اللّٰہَ   یَاْمُرُکُمْ   اَنْ   تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَا   وَاِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ اِنَّ اللّٰہَ نِعِمَّا یَعِظُکُمْ بِہٖ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ سَمِیْعًا بَصِیْرًا } (النساء :۵۸)

’’بیشک اللہ تعالیٰ حکم دیتاہے کہ تم امانتوں کو ان کے مستحقین تک پہنچاؤ اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کرو۔ بے شک اللہ تعالیٰ تم کو اچھی طرح سے نصیحت کرتاہے ۔ بے شک اللہ تعالیٰ سننے والا دیکھنے والا ہے۔‘‘

خلافت اور اس کی خصوصیات :

۱) وہ شورائی حکومت تھی یعنی خلفائے راشدین کے انتظام اور قانون سازی کے معاملے میں قانون کے اہل ضرورت لوگوں سے حسبِ ضرورت واقتضاء مشورہ لیا کرتے تھے۔

۲) اس خلافت میں بیت المال کو اللہ اور خلق کی امانت سمجھا جاتا تھا۔ خلفائے راشدین بیت المال میں قانون کے خلاف کچھ آنے اور اس میں سے قانون کے خلاف کچھ خرچ ہونے کو جائز نہ سمجھتے تھے، نہ اپنی ذاتی اغراض ومفادات کے لئے قومی خزانے کے استعمال کو ہی وہ صحیح سمجھتے تھے۔

۳) خلافت راشدہ میں قانون کی بالا تری کا پورا اہتمام کیا گیاتھا۔ خلفاء نے اپنی ذات کو کبھی قانون سے بالاتر قرار نہیں دیا بلکہ قانون کی نگاہ میں اپنے آپ کو اور مملکت کے ایک عام شہری کو مساوی قرار دیا۔ عدالتوں کے وہ قاضی، جن کا تقرر خود خلفائے کرام کرتے ، خود خلفاء کے خلاف فیصلہ دینے میں ویسے ہی آزاد تھے جیسے کسی عام شہری کے معاملے میں انہیں حق حاصل تھا۔

۴) خلافت راشدہ میں اسلام کے اصول اور اس کی روح کے مطابق قبائلی ، نسلی اور وطنی عصبیتوں سے بالاتر ہوکر تمام لوگوں کے درمیان یکساں سلوک کیا گیا۔ تفویض مناصب میں بھی اہلیت واستحقاق کو ملحوظ رکھا گیا۔ محض کسی خاندان اور قبیلے کو ترجیح نہیں دی گئی۔

۵) خلافت راشدہ میں روح اسلام پوری طرح کارفرما تھی اس میں خلاف شریعت کاموںپر تنقید اوراظہار رائے کی پوری آزادی تھی۔ خلفائے کرام پوری خندہ پیشانی سے لوگوں کے اعتراضات سنتے اور ان کی جبینیں شکن آلود نہ ہوتیں۔ بلکہ وہ اس بات سے خوش ہوتے اور اس پر اللہ کا شکر بجا لاتے کہ ان کی غلطیوں پر ٹوکنے اور ان کی اصلاح کرنے والے لوگ موجود ہیں اور وہ ایسی اصلاحی تنقید کی حوصلہ افزائی کرتے۔

۶) خلافت راشدہ میں حکمرانوں کا تصور حکومت بھی یہی تھا کہ اقتدار اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک امتحان اور امانت ہے جس میں انسان صرف اس صورت میں سرخرو ہوسکتاہے کہ صاحب اقتدار اپنے آپ کو اللہ اور رسول کا پابند رکھے اور ان سے سرِمو انحراف نہ کرے ان کی حکومت اللہ و رسول کی تابع ہو نہ کہ آزاد اور مطلق العنان۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اہل دنیا کے معاملات کی تولیت اور حفاظت خلیفہ کے اہم فرائض میں داخل ہے اس لئے کہ مخلوق خدا بظاہر منفرد ہے لیکن احتیاجات ایک دوسرے کے ساتھ اس قدر وابستہ ہیں کہ زندگی اجتماعی گزارنا پڑتی ہے تاکہ اختلافات ونزاع کے پیدا شدہ مسائل اس کے پاس طے ہوجایا کریں۔

اس واسطے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تین آدمی بھی کسی سفر میں ہمراہ چل رہے ہوں تو ضروری ہے کہ اپنے میں سے کسی ایک کو امیر منتخب کرلیں۔ (ابوداؤد عن أبی سعید الخدری رضی اللہ عنہ)

اسی طرح مسند احمد کی روایت میں ہے کہ زمین کے کسی گوشے میں اگر صرف تین آدمی آباد ہوں تو اس اجتماع قلیل میں بھی لازم ہے کہ اپنے میں سے کسی کو اہل دیکھ کر اپنا سردار متعین کرلیں۔ (مسند احمد بروایت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہما) نظم مسائل کے انعقاد کیلئے خلافت انتہائی ضروری ہے۔

خلافت کا شورائی نظام :

خلیفہ کا انتخاب اور اسی طرح خلافت کا سارا نظام وامرھم شوری بینہم کے ماتحت ہے۔یعنی مسلمانوں کے تمام کام باہم مشورے سے طے پایا کریں گے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’اولو الأمر وخلیفہ وقت کے لئے مشورہ سے کام لینا لازم ہے۔ قرآن پاک میں خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے حکم ہے۔‘‘

{وَشَاوِرْھُمْ فِیْ الْأَمْرِ} ’’آپ معاملات میں اپنے لوگوں سے مشورہ کرلیا کریں۔‘‘

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشورہ کے متعلق بیان فرماتے ہیں : لم یکن أحد أکثر مشورۃ لاصحابہ من رسو ل اللہ ‘‘ یعنی رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح بکثرت اپنے اصحاب سے مشورہ لیا ہے اسی قدر کسی نے اپنے رفقاء سے مشورہ نہ لیا ہوگا۔ جب رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (جن پر خطا وصواب کے اظہار کے لئے آسمان سے وحی آسکتی تھی)مشورہ کے بعد اصحاب کی رائے کا پتہ لگایا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفاء کے لئے مشورہ سے کام کرنا اور بھی اشد ضروری ہے۔ الحمد للہ تمام خلفاء راشدین نے نظام خلافت میں تمام واقعات وپیش آمدہ حوادث میں کتاب اللہ وسنت رسول سے راہنمائی حاصل کرنے میں اور اپنے اصحابِ رفقاء کی رائے معلوم کرنے میں ہمیشہ سعی جمیل فرمائی ہے۔

سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا دورِ خلافت بھی اسی طرح گزرا۔ آپ شخصی جبرواستبداد سے ہرگز کوئی مسئلہ طے نہ فرماتے بلکہ اصحاب کو جمع کرکے فرماتے

’’أنا فی کذا وکذا فھل علمتم ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قضی فی ذلک بقضاء …‘‘الخ(اشہر مشاہیر الاسلام جلد ۱، ص:۵۷)

یعنی ایسا ایسا معاملہ درپیش ہے، اگر تم میں سے کسی کو معلوم ہے کہ اس طرح کے معاملے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی فیصلہ دیا ہو۔‘‘

سیدناابوبکرصدیقرضی اللہ عنہ کے اس عظیم جذبہ کو دیکھئے کہ جب آپ کا وصال ہونے لگا تو اپنی صاحبزادی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاسے مرض الموت میں فرمایا:

أما واللہ لقد کنت حریصاً علی ان اوفر فئی المسلمین‘‘

یعنی اللہ کی قسم! مجھے اس کی بڑی خواہش تھی کہ میں مسلمانوں کے بیت المال کو بھر پور کردوں اب اس سلسلہ میں میری وصیت ہے۔ کہ میرے پاس جو کچھ بچے وہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دینا اور میرا فلاں باغ بھی بیت المال میں دے دینا چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہانے سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد ان چیزوں کو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کسی دوست ودشمن کیلئے اعتراض ونکتہ چینی کا ذرا بھی رخنہ نہیں چھوڑا ہے۔ اللہ ان پر رحم کرے۔ آمین

ایک اور مقام پر سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حساب لگا کر مجھے بتاؤ کہ بیت المال سے آج تک مجھے کتنا وظیفہ ملا ہے تو معلوم ہوا کہ آٹھ ہزار درہم آپ کو بیت المال سے مل چکا ہے فرمایا اس رقم کو میرے بعد جو خلیفہ ہوں گے ان کے حوالے کردینا۔ (الامامۃ والسیاسۃ، جلد اول ص:۱۹، واحیاء العلوم جلد۲، ص:۱۳۶)

سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اسی انسانی فرض شناسی کے ساتھ اہل محلہ واہل قبیلہ کی اکثر خبر گیری فرماتے تھے ان کی ضروریات پوری کرتے رہے۔ کسی کا سودا سلف بازار سے لادیتے، کسی کے اونٹوں اور بکریوں کا دودھ دوھ دیتے۔ جب خلافت کے منصب پر فائز ہوئے تو محلے کی ایک لڑکی بولی، اب ہمارے گھروں میں آکر دودھ کون دوہے گا؟ بازار سے سودا کون لا کر دے گا؟ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ نے اس آواز کو سن لیا اور فوراً جواب دیا جیسے پہلے میں یہ کام انجام دیا کرتا تھا، اسی طرح (آج عہد خلافت سنبھالنے کے بعد بھی)انجام دیا کروں گا۔ میری طرف سے اس فریضہ کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی نہ ہوگی۔ (طبقات ابن سعد جلد ۳، ص:۱۳۷)

سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رعایا کے معاملات میں تصفیہ کے لئے سیدنا عمررضی اللہ عنہ کو قاضی مقرر فرمایا اور سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو شب گشتی پر مامور کیا۔

خلیفہ کی یہ ساری خصلتیں سیدنا ابو بکر صدیق کے اندر پائی جاتی تھیں اسی لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں ہی یہ خبر دی تھی کہ ان کے بعد ان کے جانشین(خلیفہ) قبیلہ قریش سے ہوں گے اور ساتھ ہی اس کی وجہ بھی بیان فرمادی اس سلسلہ میں بہت سی احادیث وارد ہیں۔

امام بخاری نے تو الامراء من قریش (کتاب الأحکام) کے عنوان سے ایک مستقل باب باندھا ہے۔

رسول مکرمصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مرض الموت میں جو آخری خطبہ دیا اس میںمہاجرین کو یہ وصیت فرمائی کہ انصار سے نیک سلوک کرنا ۔ آپ نے فرمایا

: اقبلوا عن محسنھم وتجاوزوا عن مسیئھم۔۔‘‘(بخاری کتاب المناقب)

انصار میں سے جو کوئی نیک ہو، اس کی قدر کرنا اور جو برا ہوا اس کے قصور کو درگزر کرنا۔

سیدنا ابوبکررضی اللہ عنہ جیسا محافظ و امین اور وفادار و غیور و جانشین نہیں ملا۔ آپرضی اللہ عنہ کس مرتبے کے انسان تھے، کن کمالات کے حامل تھے، نبی مکرمصلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے بارے میں کیا فرمایا، آپ کو کس درجے کی فضیلت حاصل ہوئی، آپ پر امت کو کتنا اتفاق ہے، یہ سب حدیث اور سیرت کی کتابوں میں دیکھا جاسکتا ہے۔ لیکن آپ کی سب سے بڑی اور غالب صفت جس کی پہلے مرحلے میں سب سے بڑھ کر ضرورت تھی، دین کے بارے میں حد سے بڑھی ہوئی غیرت، ذکاوتِ حس، اس کے ایک ایک نقطے کی حفاظت کا جذبہ اور منشائے رسولصلی اللہ علیہ وسلم کی تکمیل کا غیر متزلزل عزم و فیصلہ تھا۔ سیدنا ابوبکررضی اللہ عنہ کا اللہ کے ساتھ تعلق، راتوں کی گریہ و زاری، دعائیں، زہد و ایثار اور خلق خدا پر شفقت و عدل … وہ صفات و خصائص ہیں، جو اپنی جگہ پر نہایت قدروقیمت کے حامل ہیں، مگر حفاظت دین اور اس کے بارے میں شدید غیرت… ان کا وصفِ خاص اور ان کی سیرت کی کلیدی صفت ہے، جس کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ آج دین پر جو عمل ہورہا ہے، فرائض اور شرعی احکام زندہ ہیں، دین تحریف اور امت کلی طور پر ضلالت سے جو محفوظ ہے، یہ سیدنا ابوبکررضی اللہ عنہ کی اسی حفاظت دین کے جذبے کا نتیجہ اور ظہور ہے۔ اللہ کے فضل سے آج بھی خدائے واحد کے ماننے والے موجود ہیں۔ بنیادی عقائد پر ایمان رکھنے والے اور فرائض کے پابند ہیں، جن کے بغیر کسی مسلمان کا مسلمان رہنا مشکل ہے۔ یہ سب رہین منت ہے سیدنا ابوبکررضی اللہ عنہ کی خلافت اولیٰ کا۔ سیدنا ابوہریرہرضی اللہ عنہ جن سے زیادہ حدیث کے راویوں میں کسی سے روایات منقول نہیں، اور جن کی عدالت و صداقت پر امت کا اتفاق ہے، فرماتے ہیں

: {واللہ الذی لاالہ الا ھو لو لا ان ابابکر استخلف ماعبداللہ} ’

’اللہ کی قسم، جس کے سوا کوئی معبود نہیں، اگر سیدنا ابوبکررضی اللہ عنہ مسند خلافت پر متمکن نہ ہوتے تو دنیا میں رب واحد کی عبادت و اطاعت کا سلسلہ جاری نہ رہتا۔‘‘

آج کے صاحبانِ اقتدار کیلئے سیدنا ابوبکر صدیقرضی اللہ عنہ کا دور خلافت ایک کھلی کتاب ہے، جس سے راہنمائی حاصل کرنے میں ہمیں کوئی دشواری پیش نہیں آئے گی اور حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کا دور خلافت ان کا نظام حکومت نہ صرف راہنمائی ہے، بلکہ آج کے مسلم حکمرانوں کیلئے ایک سیسہ پلائی دیوار ہے جن سے ان کا اقتدار و منصب اور زیادہ مستحکم اور مضبوط ہوگا۔ انہیں عوام کی رائے کو ترجیح دینی چاہئے، عوام کے مسائل کو مدنظر رکھنا چاہئے، ان کے درمیان عدل و انصاف کرنا چاہئے۔ ان کیلئے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو پیش نظر رکھنا بہت ضروری ہے:

واذا حکمتم بین الناس ان تحکموا بالعدل (النساء۵۸)

’’اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو۔‘‘

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے