۱۲ ربیع الاول ۱۱ھجری بمطابق ۲۷ مئی ۶۳۲ء؁ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا۔ تو اسی دن سقیفہ بنی ساعدہ میں انصار مدینہ کا اجتماع منعقد ہوا۔جب اس کی اطلاع سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو ہوئی تو آپ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کے ہمراہ سقیفہ بنی ساعدہ میں تشریف لے گئے آپ نے وہاں دیکھا کہ ایک عجیب شوروغل برپا ہے۔ جب یہ تینوں جلیل القدر صحابہ بیٹھ گئے پھر انصار کا ایک خطیب کھڑا ہوا اور اس نے کہنا شروع کیا۔

’’ہم اللہ کے انصار اور اسلام کے لشکر ہیں اور اے مہاجرین تم ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی(رھط) ہو۔ لیکن اب تم ہم سے برگشتہ ہوگئے ہو اور جو ہمارا مقام ہے اس سے ہم کو الگ کرنا چاہتے ہو۔‘‘

انصاری خطیب کی اس تقریر کا جواب سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے دینا چاہا۔ تو سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے انہیں روک دیا اور خود کھڑے ہوکر ایک تقریر کی آپ نے حمد وصلاۃ کے بعد مہاجرین کے فضائل ومناقب پرروشنی ڈالی ۔ اس کے بعد فرمایا:

’’ اے انصار تم جو کچھ اپنے متعلق کہتے ہو بے شک تم اس کے اہل ہو، اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی تم کو بڑا گہرا تعلق تھا۔ آپ کی اکثر ازواج مطہرات تم ہی میں سے تھیں لیکن عرب اس معاملہ میں سوائے قبیلہ قریش کے اور کسی کی اطاعت قبول نہیں کریں گے۔‘‘

اس کے بعد سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمر فاروق اور سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہما کا ہاتھ پکڑا کر فرمایا کہ ان میں کسی ایک کے ہاتھ پر بیعت کرلو۔ اس پر شوروشغب بڑھنے لگا تو سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے پیش قدمی کرکے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہا :

’’ہم آپ کے ہاتھ پر بیعت کریں گے کیونکہ آپ ہم سے بہتر ہیں، ہمارے سردار ہیں اور رسول معظمصلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ آپ ہی سے محبت کرتے تھے۔‘‘

یہ کہہ کر سیدنا عمر فاروقرضی اللہ عنہ نے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا اور بیعت کی۔ سیدنا عمررضی اللہ عنہ کا بیعت کرنا تھا کہ مہاجرین اور انصار سب نے پنے ہاتھ بڑھا دئیے اور سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی بیعت کرنی شروع کردی۔

سقیفہ بنی ساعدہ کے واقعہ سے فارغ ہوکر کاشانہ اقدس پر حاضر ہوئے اور نبی مکرمصلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین میں شریک ہوئے۔

خلافت صدیقی پر اجماع :

ائمہ سلف کا اس پر اجماع ہے کہ نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت کے سب سے زیادہ حق دار سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ تھے۔ یہ استحقاق آپ کو آپ کی فضیلت، بزرگی اور نماز میں دوسرے صحابہ پر آپ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدم کرنے کی وجہ سے ملا ۔

بیعتِ عامہ :

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے دوسرے دن یعنی بروز شنبہ ۱۳ ربیع الاول ۱۱ ھجری بمطابق ۲۸ مئی ۶۳۲؁ء مسجد نبوی میں بیعت عامہ کا انتظام کیا گیا۔ اس وقت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کی تائید میں اہم کردار ادا کیاچنانچہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے منبر پر بیٹھ کر خطبہ دیا۔ اور فرمایا:

’’لوگو! میں نے کل ایک بات آپ لوگوں سے کہی تھی۔ وہ کتاب اللہ میں مجھے نہیں ملی اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا عہد مجھ کو دیا تھا لیکن میرا خیال تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے امور کی تدبیر کرتے رہیں گے اور ہم میں سب سے آخر میں رخصت ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے تمہارے اندر اپنی کتاب باقی رکھی ہے۔ جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت ملی اگر تم اس کو مضبوطی سے تھامے رہوگے۔ تو اللہ تمہیں بھی اس کی ہدایت دے گا جس کی ہدایت اللہ نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کو دی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایسے شخص پر جمع کردیا ہے جو تم میں سب سے افضل ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی، ثانی اثنین اوریار غار ہیں ۔ اٹھو ان سے بیعت کرلو ۔‘‘

پھر لوگوں نے سقیفہ کی بیعت کے بعد عام بیعت کی۔(صحیح بخاری)

خطبۂ خلافت:

سیدنا عمرفاروقرضی اللہ عنہ کی تقریر کے بعد سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ منبر پر چڑھے اور آپ نے پہلا خطبۂ خلافت ارشاد فرمایا:

’’اللہ تعالیٰ کی حمدوثناء اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پردرودوسلام کے بعد فرمایا :

لوگو! میں تمہارا امیر بنادیاگیا ہوںحالانکہ میں تم سے بہتر نہیں ہوں اگر میں اچھا کام کروں تو تم میری مدد کرو۔اگر برا کام کروں تو مجھ کو سیدھا کردو۔ سچائی ایک امانت ہے اور جھوٹ خیانت ہے تم میں جو کمزور ہے وہ میرے نزدیک قوی ہے چنانچہ میں اس کا شکوہ دور کردوںگا اور تم میں جو قوی ہے وہ میرے نزدیک کمزور ہے چنانچہ میں اس سے حق لوں گا۔ جو قوم جہاد کو چھوڑ دیتی ہے اللہ اس پر ذلت کو مسلط کردیتاہے اور جس قوم میں بری باتیں عام ہوجاتی ہیں اللہ ان پرمصیبت کو مستولی کردیتاہے۔ جب تک میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کروں تو میری اطاعت کرو۔ اور جب میں اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کروں تو تم پرمیری کوئی اطاعت فرض نہیں ہے۔ اچھا اب جاؤ، نماز پڑھو، اللہ تم پر رحم فرمائے۔ (البدایہ والنہایۃ ۵/۲۴۸)

یہ خطبہ اپنے اختصار وایجاز کے باوجود اہم ترین اسلامی خطبوں میں سے ہے۔ اس کے اندر سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے حاکم اور رعایا کے مابین تعامل کے سلسلہ میں عدل ورحمت کے قواعد مقرر کیے۔ اس بات پر ترکیز کی کہ اولی الأمر کی اطاعت اللہ اور رسول کی اطاعت پر مترتب ہوتی ہے۔ جہاد فی سبیل اللہ کی طرف توجہ دلائی کیونکہ امت کے عزوشان کے لیے یہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے اورفواحش سے اجتناب پر زور دیا کیونکہ معاشرہ کو گراوٹ وفساد سے بچانے کے لیے یہ انتہائی ضروری چیز ہے۔

خطبۂ صدیقی کی تشریح وتوضیح:

سیدنا ابو بکر صدیقرضی اللہ عنہ نے اپنے خطبہ میں جن امور کی طرف توجہ دلائی۔ مناسب معلوم ہوتاہے کہ ان امور کی مختصر تشریح وتوضیح کردی جائے۔

(۱) سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا :

اگر میں اچھا کروں تو تم میری مدد کرو اگر برا کروں تو مجھ کو سیدھا کردو۔‘‘

یہاں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اپنے اعمال کی نگرانی اور احتساب میں امت اور افراد امت کے حق کو ثابت کرتے ہیں کہ ہم منکر سے جس کا وہ ارتکاب کریں روکنے اور جسے وہ صحیح اور شریعت کے مطابق سمجھتے ہوں اس پر مجبور کرنے کا ان کو حق دیتے ہیں۔

امت پر واجب ہے کہ وہ حکام کی خیرخواہ ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’الدین النصیحۃ‘‘ (دین خیر خواہی کا نام ہے)

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: کس کے لئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ’’للہ، ولکتابہ ولرسولہ ولأئمۃ المسلمین وعامتھم‘‘

’’اللہ تعالیٰ کیلئے، اس کی کتاب کے لئے ، اس کے رسول کیلئے، مسلم حکاّم اورعام مسلمانوں کیلئے۔‘‘ (صحیح مسلم ، کتاب الایمان ، باب ان الدین النصیحۃ)

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ذہن میں یہ بات بس گئی تھی کہ امت کی استقامت حکام کی استقامت کی مرہون منت ہے اس لئے رعایا کے واجبات میں سے حکام کی خیرخواہی ونصیحت اور اصلاح بھی داخل ہے۔

(۲) سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

’’سچائی امانت ہے اور جھوٹ خیانت ہے۔‘‘

سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے امت کی قیادت کے لئے اپنے بنیادی اصول کا اعلان فرمایا کہ سچائی حاکم اور امت کے درمیان تعامل کی اساس ہے۔ اس حکیمانہ سیاسی اصول کا امت کی قوت میں بڑا اہم اثر ہوتاہے۔ اس سے حاکم وعوام کے مابین اعتماد مضبوط ہوتاہے۔ یہ سیاسی خصلت اسلام کی دعوت صدق سے پیدا ہوتی ہے۔

اللہ کا ارشاد ہے {یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ} (التوبۃ:۱۲۹)

’’اے ایمان والو! اللہ کا تقوی اختیار کرو، اور صادقین کے ساتھ رہو۔‘‘

اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے : تین طرح کے لوگوں سے اللہ تعالیٰ قیامت کے روز بات نہ کرے گا، نہ ان کو پاک کرے گا اور نہ ہی ان کی طرف نظررحمت اٹھائے گا بوڑھا زانی، جھوٹا بادشاہ، متکبر فقیر۔‘‘(صحیح مسلم)

(۳) سیدنا ابو بکر صدیقرضی اللہ عنہنے فرمایا:

’’ تم میں جو کمزور ہے وہ میرے نزدیک قوی ہے چنانچہ میں اس کا شکوہ دور کردوںگا اور تم میں جو قوی ہے وہ میرے نزدیک کمزور ہے چنانچہ میں اس سے حق لوں گا۔‘‘

اسلام نے حکام پر لازم کیا ہے کہ وہ لوگوں کے درمیان عدل قائم کریں۔ زبان، وطن، معاشرتی احوال کی بنیاد پر امتیاز نہ برتا جائے۔ حاکم کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کے درمیان عدل وحق کے ساتھ فیصلہ کرے اس کی پرواہ نہ کرے کہ محکوم دوست ہے یا دشمن، مالدار ہے یا فقیر، مزدورہے یا تاجر۔

چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے

:{یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدآئَ بِالْقِسْطِ وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ھُوَاَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی وَاتَّقُوا اللّٰہَ   اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌبِمَا تَعْمَلُوْنَ} (المائدۃ:۸)

’’اے ایمان والو! تم اللہ کی خاطر حق پر قائم ہوجاؤ، راستی اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جاؤ۔ کسی قوم کی عداوت تمہیں خلاف عدل پر آمادہ نہ کرے۔ عدل کیا کرو جو کہ پرہیزگاری کے زیادہ قریب ہے اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو یقین مانو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔‘‘

۴) سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

’’جو قوم جہاد کو چھوڑ دیتی ہے اللہ اس پر ذلت کو مسلط کردیتاہے ‘‘

سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے جہاد کی تربیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمسے براہ راست حاصل کی تھی۔ توحید وشرک، ایمان وکفر، ہدایت وضلالت ، خیر وشر کے درمیان معرکہ آرائی کے میدان میں تربیت حاصل کی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکا ارشاد ہے : ’’جب تم عینہ کے طریقے پر بیع وشراء کرنے لگو، گائے کی دم تھام لو، کھیتی باڑی میں مست ہوجاؤ اور جہاد کو چھوڑ بیٹھوتو اللہ تعالیٰ تم پر ذلت مسلط کر دے گا اور اس وقت اس کو دور نہ کرے گا جب تک اپنے دین کی طرف لوٹ نہ آؤ۔ (سنن ابی داؤد)

سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اس حدیث کو اچھی طرح سمجھا تھا کہ ’’ امت جب جہاد چھوڑ دے گی تو اس پر ذلت مسلط ہوکر رہے گی۔‘‘ اس لئے آپ نے اپنی حکومت کے بنیادی حقائق میں سے جہاد کو شمار کیا۔

(۵) سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

’’جس قوم میں بری باتیں عام ہوجاتی ہیں اللہ ان پرمصیبت کو مستولی کردیتاہے‘‘

یہاں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اپنی امت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکا یہ ارشاد یاد دلا رہے ہیں ۔

’’جب بھی کسی قوم میں بدکاری عام ہوجائے تو اس قوم میں طاعون اور دوسری ایسی بیماریاں پھوٹ پڑتی ہیں جو ان کے گزرے ہوئے لوگوں میں نہیں پائی گئی تھیں۔(سنن ابن ماجہ)

حکومتوں کے قیام اور تہذیب وتمدن کے ظہور سے اخلاق کا انتہائی گہرا تعلق ہے۔ اگر اخلاق میں بگاڑ آجائے تو ممالک تباہ اور امتیں ضائع ہوجاتی ہیں اور فتنہ وفساد برپا ہوتاہے، انار کی پھیلتی ہے ۔ گذشتہ اقوام وملل اور تہذیبوں کا بصیرت کی نگاہ سے جس نے مطالعہ کیا ہے اس پر یہ حقیقت آشکاراہے کہ کس طرح تہذیب وتمدن کا قیام دین صحیح اور اخلاق کریمہ پر ہواہے۔جب تک اخلاق کریمہ کو مدنظر رکھااور اس کی حفاظت کی تو کامیابی وکامرانی نے اس کا ساتھ دیا اور اب فواحش ومنکرات کے جراثیم ان میں سرایت کرگئے تو پھر ان کی حکومتیں ہلاکت وتباہی کا شکار ہوگئیں اور ان کی شان وشوکت ملیا میٹ ہوگئی اور ان کی تہذیب وتمدن کا جنازہ نکل گیا۔

(۶) سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

’’جب تک میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کروں تو میری اطاعت کرو۔ اور جب میں اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کروں تو تم پرمیری کوئی اطاعت فرض نہیں ہے ‘‘۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے

{اِنَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَآ اَرٰئکَ اللّٰہُ وَلَا تَکُنْ لِّلْخَآئِنِیْنَ خَصِیْمًا} (النساء:۱۰۵)

’’یقینا ہم نے تمہاری طرف حق کے ساتھ اپنی کتاب نازل فرمائی ہے تاکہ تم لوگوں میں اس چیز کے مطابق فیصلہ کرو جس سے اللہ نے تم کو شناسا کیاہے اور خیانت کرنے والوں کے حمایتی نہ ہو۔‘‘

رسول اکرمصلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے ’’معصیت میں کسی کی اطاعت جائز نہیں اطاعت تو بھلائی کے کاموں میں ہے۔‘‘ (بخاری ومسلم)

خلافت صدیقی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے معاشرے میں شریعت کو سب پر بالادستی حاصل تھی۔ حاکم ومحکوم سب اس کے تابع تھے۔ اس لئے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے امت سے جس اطاعت کا مطالبہ کیا اسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے مقید کیا۔

بلاتبصرہ:

سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی حکومت سے مسلمانوں نے کچھ ہی مدت استفادہ کیا۔ آپ نے اس خطبے کے ذریعے سے ماضی وحاضر میں پائے جانے والے نظام ہائے حکومت کے معیار پر اختیارات کی حد بندی کی۔ آپ کی حکومت شورائی حکومت تھی۔ ہر دور میں حریت وعدل کے متلاشی،اقوام وامم کی سیاست کے لئے اس سے بہتر حکومت نہیں پاسکتے۔ جس کی قیادت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غار کے ساتھی، نجابت وشرافت، ذکاوت وعلم اور ایمان کے عظیم پیکر سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے کی تھی۔

اللھم ارحم علیہ رحمۃ واسعۃ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے