اﷲ رب العزت نے قرآن مجید میں یہ حقیقت پوری طرح واضح فرمائی ہے کہ دنیا میں اس کے احکامات کی پاسداری کا نتیجہ ابدی سعادت ہے۔ اس کے برعکس، ہدایات الٰہی سے روگردانی انسان کی زندگی کو تلخ بنادیتی ہے ۔ اﷲ احکم الحاکمین نے قرآن مجید میں بارہا مقامات پر انسان کو خسارے کے اسباب اور نقصانات سے آگاہ فرمایا ہے پھر اس پرمستزادانسان کو اس خسارے سے محفوظ رہنے کے ذرائع کے بارے میں بھی مطلع کیا ہے۔ درج ذیل سطور میں اختصار کے ساتھ خسارے کے حقیقی اسباب، نتائج اور اس سے بچنے کے طریقے قلمبند کئے گئے ہیں ۔

خسارے کی حقیقت

          خسارہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مادہ خ،س،ر ہے جو کہ اپنے معنی کے اعتبار سے نقصان، گھاٹے وغیرہ پر منطبق ہوتا ہے۔حقیقت میں خسارہ دنیا میں انعامات سے محرومی نہیں بلکہ آخرت میں جنت الفردوس کے حصول میں ناکامی، دیدار الٰہی سے محرومی اصل خسارہ اور نقصان ہے۔فرمان ربانی ہے:

فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَ

’’جو (خوش قسمت) آگ سے بچایا گیا جنت میں داخل کردیا گیا حقیقت میں کامیاب وہی ہے۔‘‘ (آل عمران185)

خسارہ کے اسباب

شرک

اﷲ کی ذات ،صفات ، افعال میں کسی بھی چیز کو شریک کرنا شرک کہلاتا ہے اور شرک ہی انسان کیلئے دنیا و آخرت میں خسارے کا بنیادی سبب ہے جیسا کہ ارشاد رب العالمین ہے:

وَلَقَدْ أُوحِیَ إِلَیْْکَ وَإِلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکَ لَئِنْ أَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ وَلَتَکُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِیْنَO (زمر65)

’’اور بلا شبہ آپ کی طرف اور ان لوگوں کی طرف ، جو آپ سے پہلے ہوئے (یہ) وحی کی گئی کہ اگر آپ نے شرک کیا تو آپ کے اعمال ضرور ضائع ہو جائیں گے اور آپ ضرور خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔‘‘

امام ابن کثیررحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ (خسارہ)اس لئے ہے کہ شرک سے آدمی کے نیک عمل ختم ہوجاتے ہیں اور اس کی زندگی تلخ ہوجاتی ہے۔‘‘

لقائے الٰہی کا انکار

قیامت ایک اٹل حقیقت ہے۔ روز حشر رب تعالیٰ کے حضور پیشی کا یقین رکھنا لازمی امر ہے لیکن جو لوگ اﷲ سے ملاقات اور حشر کے قیام کے منکر ہیں وہ نقصان اور خسارہ پانے والے ہیں جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:

قَدْ خَسِرَ الَّذِیْنَ کَذَّبُواْ بِلِقَاء اللّہِ حَتَّی إِذَا جَاء تْہُمُ السَّاعَۃُ بَغْتَۃً قَالُواْ یَا حَسْرَتَنَا عَلَی مَا فَرَّطْنَا فِیْہَا وَہُمْ یَحْمِلُونَ أَوْزَارَہُمْ عَلَی ظُہُورِہِمْ أَلاَ سَاء مَا یَزِرُونَO

’’بیشک وہ لوگ خسارے میں رہے جنہوں نے اﷲ سے ملاقات کو جھٹلایا حتی کہ جب انکے پاس قیامت اچانک آجائیگی تو وہ کہیں گے ’’ ہائے افسوس !ہم سے اس معاملے میں کیسی کوتاہی ہوئی ! اور اپنے بوجھ اپنی پیٹھ پر اٹھائے ہوئے ہوں گے۔‘‘ (انعام31)

الشیخ عبد الرحمٰن بن ناصر السعدی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ جو شخص اﷲ کے ساتھ ملاقات کا انکاری ہے وہ خائب وخاسر اور ہر قسم کی بھلائی سے محروم ہے۔

یادرکھئے ! قیامت کی تکذیب آدمی کو محرمات کے ارتکاب پر اکساتی ہے اور ہلاکت کا موجب بنے والے اعمال کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔

کفر و ارتداد اور اسلام سے روگردانی

انسان اگر کفرو ارتداد کا راستہ اختیار اور اسلام سے اعراض اور پہلو تہی کرے تو یہ قبیح عمل بھی خسارے اور نقصان فی الدارین کا موجب ہے، جیسا کہ اس امر کی وضاحت اس آیت میں ہے :

الَّذِیْنَ آتَیْْنَاہُمُ الْکِتَابَ یَتْلُونَہُ حَقَّ تِلاَوَتِہِ أُوْلَـئِکَ یُؤْمِنُونَ بِہِ وَمن یَکْفُرْ بِہِ فَأُوْلَـئِکَ ہُمُ الْخَاسِرُونَO (البقرہ121)

’’جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی وہ اس کی تلاوت کرتے ہیں جس طرح اس کی تلاوت کا حق ہے وہی لوگ اس پر ایمان لاتے ہیں اور جو اس کو نہیں مانتے وہی (حقیقت میں )خسارہ پانے والے ہیں ۔‘‘

دوسرے مقام پر ارشاد رب العالمین ہے:

وَمَن یَکْفُرْ بِالإِیْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُہُ وَہُوَ فِیْ الآخِرَۃِ مِنَ الْخَاسِرِیْنَO

’’جو شخص ایمان کا انکار کرتا ہے اس کے اعمال ضائع ہوگئے (جبکہ) روز قیامت وہ خسارہ پانے والوں میں سے ہوگا۔‘‘ (المائدہ5)

الشیخ عبدالرحمن بن ناصر السعدی فرماتے ہیں کہ ان کا شمار ان لوگوں میں ہوگا جو قیامت کے روز اپنی جان، مال اور اپنے اہل وعیال کے بارے میں سخت خسارہ میں ہوںگے اور ابدی بدبختی ان کا نصیب، جبکہ جنت سے محرومی ان کا مقدر ہوگی۔

شیطان سے دوستی

شیطان انسان کا ازلی و ابدی دشمن ہے جس کی عداوت اظہر من الشمس ہے مگر افسوس کہ مسلمان زیادہ تر اسی شیطان کو ہی اپنا دوست بناتا ہے اس کے کہنے پر برے اعمال انجام دیتا ہے بالآخر یہی روش انسان کو خاسرین کی صف میں لے جاتی ہے ۔ رب العزت کا فرمان ذی شان ہے :

وَمَن یَتَّخِذِ الشَّیْْطَانَ وَلِیّاً مِّن دُونِ اللّہِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَاناً مُّبِیْناًO

’’اور جو شخص اﷲکو چھوڑ کر شیطان کو اپنا دوست بنالے تو وہ یقینا کھلے نقصان میں جاپڑا۔‘‘ (النساء119)

الشیخ السعدی فرماتے ہیں ’’جو بد بخت دین و دنیا کے خسارے میں پڑ جائے اور جسے اس کے گناہ ہلاک کرکے رکھ دیں اس سے زیادہ واضح اور بڑا خسارہ کیا ہوسکتا ہے وہ ہمیشہ رہنے والی جنت کی نعمتوں سے محروم ہوکر بدنصیبی میں مبتلاہوگئے۔ اس کی غماضی یہ آیت کرتی ہے:

اسْتَحْوَذَ عَلَیْْہِمُ الشَّیْْطَانُ فَأَنسَاہُمْ ذِکْرَ اللَّہِ أُوْلَئِکَ حِزْبُ الشَّیْْطَانِ أَلَا إِنَّ حِزْبَ الشَّیْْطَانِ ہُمُ الْخَاسِرُونَO

’’ان پر شیطان غالب آگیا ہے پھر اس نے انہیں اﷲ کے ذکر سے غافل کردیا یہ لوگ شیطان کے گروہ ہیں خبردار! یاد رکھئے کہ شیطانی گروہ ہی خسارہ پانے والا ہے۔‘‘ (المجادلہ19)

بدظنی اور بدعملی

اﷲ تعالیٰ کے وعدوں پر یقین نہ رکھنا اور بدظنی سے کام لینا بھی خسارے کا باعث اور نقصان فی الدارین کا موجب ہے اﷲرب العزت کا فرمان ہے :

وَذَلِکُمْ ظَنُّکُمُ الَّذِیْ ظَنَنتُم بِرَبِّکُمْ أَرْدَاکُمْ فَأَصْبَحْتُم مِّنْ الْخَاسِرِیْنَO

’’اور تمہارا یہی(برا) گمان جو تم نے اپنے رب کے بارے میں کیا ، اسی نے تمہیں ہلاک کیا چنانچہ تم خسارہ پانے والوں میں سے ہو گئے۔‘‘ (حم السجدہ23)

سیدنا حسنرحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ’’خبردار ! لوگ اﷲ پر اپنے گمان کے مطابق اعمال کرتے ہیں مومن وموحد آدمی کا اﷲ کے ساتھ گمان اچھا ہوتا ہے۔ اس لئے وہ اعمال صالحہ میں سبقت لے جاتا ہے اور کافر و منافق چونکہ رب اﷲ تعالی کے ساتھ بدظن ہوتے ہیں اس لئے بدعملی کے عادی ہیں ۔‘‘

وعدہ شکنی

اﷲ کے ساتھ کئے گئے وعدوں کی پاسداری نہ کرنا انسان کو عظیم خسارہ سے دوچار کردیتا ہے ۔ فرمان رب العزت ہے:

الَّذِیْنَ یَنقُضُونَ عَہْدَ اللَّہِ مِن بَعْدِ مِیْثَاقِہِ وَیَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّہُ بِہِ أَن یُوصَلَ وَیُفْسِدُونَ فِیْ الأَرْضِ أُولَـئِکَ ہُمُ الْخَاسِرُونَO

’’جو لوگ اﷲ کا عہد پکا کر لینے کے بعد اسے توڑتے ہیں اور جن (رشتوں ) کو اﷲ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے انہیں کاٹتے ہیں اورزمین پر فساد کرتے ہیں وہی لوگ خسارہ اٹھانے والے ہیں ۔‘‘ (البقرہ27)

تفسیر سعدی میں ہے کہ ’’اﷲ تعالیٰ نے فاسقوں کا وصف بیان کیا ہے کہ وہ اﷲ کے عہد کو پختہ کرنے کے بعد توڑ دیتے ہیں آیت میں عہد کا لفظ عام ہے اس سے مراد وہ عہد بھی ہے جو ان کے اور انکے رب کے درمیان ہے اور اسکا اطلاق اس عہد پر بھی ہوتا ہے جو کہ انسان ایک دوسرے کے ساتھ کرتے ہیں اﷲ رب العزت نے اپنا ایفائے عہد کی سخت تلقین فرمائی، مگر کافر لوگ ان وعدوں کی پرواہ نہیں کرتے ان کو توڑتے اور حکم الٰہی سے اعراض کرتے، گمراہی و معاصی کے مرتکب ہوتے ہیں اور آپس کے معاہدوں کا پاس نہیں رکھتے۔

تدبیر الٰہی سے بے خوفی

اﷲ تبارک و تعالیٰ نافرمان لوگوں کے ساتھ اپنی تدبیر سے انتقام لیتا ہے مگر کچھ بدبخت لوگ پھر بھی تدبیر الٰہی سے بے خوف رہتے ہیں اور رب تعالیٰ کے انتقام سے بچنے کا ذریعہ (احکامات الٰہی پر عمل کرنا) اختیار نہیں کرتے۔ باری تعالیٰ نے ایسے ظالم لوگوں کو نقصان اٹھانے والے قرار دیا ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد رب العزت ہے

: اَفَاَمِنُوْا مَکْرَ اللّٰہِج فَلاَ یَاْمَنُ مَکْرَ اللّٰہِ اِلَّا الْقَوْمُ الْخٰسِرُوْنَO

’’ کیا وہ پھر اﷲ کی تدبیر سے بے خوف ہوگئے ؟ اﷲ کی تدبیر سے بے خوف تو وہی لوگ ہوتے ہیں جو خسارہ پانے والے ہوں ۔‘‘ (الاعراف ۹۹)

دنیاوی امور میں حد سے زیادہ مشغولیت

دنیا ایک مسافر خانہ، مومن آدمی اس میں دل لگا کر اپنی اصل منزل ( آخرت ) کو بھولتا نہیں ہے ۔ مگر چند قابل ترس لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے دنیاوی معاملات (مال ودولت اور آل و اولاد) میں مشغول ہوکر اپنے حقیقی مقصد کو بھلا دیا ہے۔ یہی لوگ درحقیقت نقصان سے دوچار ہونگے۔ قرآن مجید نے اس حقیقت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:

یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لَا تُلْہِکُمْ أَمْوَالُکُمْ وَلَا أَوْلَادُکُمْ عَن ذِکْرِ اللَّہِ وَمَن یَفْعَلْ ذَلِکَ فَأُوْلَئِکَ ہُمُ الْخَاسِرُونَO

’’اے ایمان والو ! تمہارا مال اور تمہاتی اولادیں تمہیں اﷲ کے ذکر سے غافل نہ کردیں اور جو ایسا کریں گے تو وہی لوگ خسارہ پانے والے ہیں ۔‘‘ (المنافقون9)

اس آیت میں اﷲ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو کثرت سے اپنا ذکر کا حکم دیا ہے اور اس بات سے منع فرمایا ہے کہ مال و اولاد میں ہی مشغول ہو کر نہ رہ جائیں۔یاد رکھئے جو شخص دنیا کی زندگی اور زیب وزینت ہی کو اپنا مطمع نظر بنانے اور اپنے خالق کی اطاعت اور اسکے ذکر سے غافل ہوجائے تو ان کا شمار ان خسارہ پانے والوں میں ہوگا جو قیامت کے دن اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو بھی نقصان وخسارے میں مبتلا کر دیں گے۔

خسارہ کے اثرات

خاسر آدمی کے دنیا و آخرت میں نتائج و عواقب کیا ہیں ؟ قرآن پاک کی متعدد آیات میں اس سوال کا جواب دیا گیا ہے۔ جن میں سے چند ایک اہم نتائج و اثرات درج ذیل ہیں ۔

دنیا و آخرت میں نقصان

خاسر آدمی درحقیقت دنیا و آخرت کی بھلائیوں سے محروم رہتا ہے ۔سورۃ الحج میں رب العزت نے ارشاد فرمایا:

وَمِنَ النَّاسِ مَن یَعْبُدُ اللَّہَ عَلَی حَرْفٍ فَإِنْ أَصَابَہُ خَیْْرٌ اطْمَأَنَّ بِہِ وَإِنْ أَصَابَتْہُ فِتْنَۃٌ انقَلَبَ عَلَی وَجْہِہِ خَسِرَ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃَ ذَلِکَ ہُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُO

’’اور لوگوں میں سے کوئی اﷲ کی عبادت کنارے پر کرتا ہے پھر اگر اسے بھلائی مل جائے تو اس پر مطمئن ہوگیا اور اگر اسے کوئی آزمائش آپڑی تو اپنے چہرے کے بل پلٹ جاتا ہے اس نے دنیا و آخرت میں خسارہ اٹھایا ۔یہی تو صریح نقصان ہے۔‘‘ (الحج11)

ابن کثیررحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ خسر الدنیا و الآخرۃ (اس نے دنیا میں بھی نقصان اٹھایا اور آخرت میں بھی) سے مراد یہ ہے کہ اس نے دنیا میں بھی کچھ حاصل نہیں کیا اور آخرت میں باری تعالیٰ کے ساتھ کفر کرنے کی وجہ سے حد درجہ کی شقاوت اور رسوا کردینے والے عذاب سے دوچار ہوگااس لئے تو آیت کے آخر میں فرمایا کہ

’’یہی صریح نقصان یہ عظیم ترین خسارہ اور ناکام و نامراد سودا ہے۔‘‘

اعمال کی بے وزنی

روز قیامت اعمال کا وزن ہوگا نیکیوں کا پلڑا بھاری ہونے کی صورت میں آدمی جنت میں داخل ہوگا اور اگر برائیوں کا والا پلڑا جھک گیا تو دائمی جہنم کا عذاب ہوگا۔ خسارہ کا نتیجہ یہ بھی ہے کہ نیک اعمال کے وزن کا پلڑا ہلکا ہوگا جیسا کہ ارشاد رب العالمین ہے:

وَالْوَزْنُ یَوْمَئِذٍ الْحَقُّ فَمَن ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُہُ فَأُوْلَـئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَO وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُہُ فَأُوْلَـئِکَ الَّذِیْنَ خَسِرُواْ أَنفُسَہُم بِمَا کَانُواْ بِآیَاتِنَا یِظْلِمُونَO

’’ اور اس دن اعمال کا وزن کیا جانا برحق ہے پھر جس شخص کے( نیک اعمال کے) وزن بھاری ہوگئے تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں اور جس شخص (نیک اعمال کے) وزن ہلکے ہوگئے وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنی جانوں کو خسارہ میں ڈالا اس لئے کہ ہماری آیات کے ساتھ بے انصافی کرتے تھے۔‘‘ (الاعراف9-8)

نفس اور اہل وعیال کو نقصان

یاد رکھئے ! جو لوگ اپنے برے اعمال کے سبب خاسرین کی فہرست میں شامل ہوتے ہیں وہ صرف اپنا نقصان نہیں کرتے بلکہ وہ اپنے اعزاء و اقارب اور اہل و عیال کے کئے شدید نقصان کا باعث ہیں۔ سورہ زمر میں ارشاد ربانی ہے:

قُلْ اِنَّ الْخٰسِرِیْنَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَہُمْ وَاَھْلِیْھِمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِط اَ لَا ذٰلِکَ ھُوَالْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُO

’’ تو تم اس کے سو ا جس کی چاہو عبادت کرو ۔ کہہ دیجئے ! بلا شبہ خسارہ اٹھانے والے تو وہ لوگ ہیں جنہوں نے روز قیامت اپنے گھر والوں کو (بھی) خسارے میں ڈالا خبردار ! یہی صریح خسارہ ہے۔‘‘ ( زمر 15)

خسروا انفسھم ۔ اپنی جانوں کو خسارے میں ڈالا یعنی جہنم میں ہمیشہ داخلے کی بنیاد پر اپنے آپ کو خسارے میں ڈالا۔

’’اپنے گھر والوں کو بھی خسارے میں ڈالا ۔‘‘

یعنی اب وہ اپنے گھر والوں سے جدا ہوچکے ہیں اور ان کی کبھی بھی آپس میں ملاقات نہ ہو سکے گی خواہ یہ صورت ہو کہ وہ ان کے گھر والے جنت کے مکین بن گئے ہوں اور وہ جہنم کے یا وہ تمام جہنم رسید ہوگئے ہوں اب وہ کبھی بھی اکٹھے نہیں ہوسکتے اور ہی نہ راحت و سرور کا پاسکتے ہیں ۔

گمراہ خاسر آدمی ہدایت سے محروم رہتا ہے

باری تعالیٰ کا فرمان ہے:

مَن یَہْدِ اللّہُ فَہُوَ الْمُہْتَدِیْ وَمَن یُضْلِلْ فَأُوْلَـئِکَ ہُمُ الْخَاسِرُونَO (اعراف178)

’’جس کو اﷲ تعالیٰ ہدایت دے وہی ہدایت یافتہ ہے اور جس کو گمراہ کرے تو ایسے لوگ خسارے والے ہیں۔‘‘

اعمال کی بربادی

دنیاوی زندگی میں کوئی آدمی اپنی محبت کو رائیگاں جاتے ہوئے نہیںدیکھ سکتا۔ مگر خاسرکے (اعمال) آخرت میں برباد کر دئے جائیں گے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

کَالَّذِیْنَ مِن قَبْلِکُمْ کَانُواْ أَشَدَّ مِنکُمْ قُوَّۃً وَأَکْثَرَ أَمْوَالاً وَأَوْلاَداً فَاسْتَمْتَعُواْ بِخَلاقِہِمْ فَاسْتَمْتَعْتُم بِخَلاَقِکُمْ کَمَا اسْتَمْتَعَ الَّذِیْنَ مِن قَبْلِکُمْ بِخَلاَقِہِمْ وَخُضْتُمْ کَالَّذِیْ خَاضُواْ أُوْلَـئِکَ حَبِطَتْ أَعْمَالُہُمْ فِیْ الُّدنْیَا وَالآخِرَۃِ وَأُوْلَئِکَ ہُمُ الْخَاسِرُونَO (توبہ 69)

’’(تم منافق لوگ) ان لوگوں کی طرح (ہو) جو تم سے پہلے تھے، وہ قوت میں تم سے کہیں زیادہ زبردست اور مال ودولت میں کہیں زیادہ تھے ، چنانچہ وہ دنیا میں اپنے حصے سے بہرہ یاب ہوچکے۔ جس طرح وہ تم سے پہلے والے لوگ اپنے (دنیاوی) حصہ سے بہرہ یاب ہو چکے۔ اور تم بھی فضول باتوں میں الجھے رہے جس طرح وہ فضول باتوں میں الجھے رہے۔ یہی لوگ ہیں جن کے اعمال دنیا و آخرت میں برباد ہوگئے اور یہی لوگ خسارہ پانے والے ہیں۔‘‘

’’ ان کے اعمال برباد ہو گئے ‘‘ کا معنیٰ یہ ہے کہ ان کے اعمال ضائع ہوگئے اور ان کا کوئی ثواب نہیں ملے گا کیونکہ یہ فاسد ہیں۔ خسارہ اٹھانے والے یہی ہیں کیونکہ وہ اعمال کے باوجود ثواب سے محروم رہیں گے۔

رحمت الٰہی سے محرومی

ہر صاحب ایما ن شخص دنیا و آخرت میں باری تعالیٰ کی رحمت کا امیدوار ہے ، گناہوں کی معافی ہی ہر انسان کی خواہش ہے ۔ لاریب کہ باری تعالیٰ بہت زیادہ رحم کرنے والا اور اپنے گناہ گار بندوں کے گناہوں کو معاف کرنے والا ہے مگر جب سیدنا نوح علیہ السلام کی دعا پر غور کرتے ہیں تو ہمیں یہ علم ہوتا ہے کہ خاسر آدمی ان دونوں نعمتوں سے محروم ہے ۔ ارشاد ربانی ہے :

رَبِّ إِنِّیْ أَعُوذُ بِکَ أَنْ أَسْأَلَکَ مَا لَیْْسَ لِیْ بِہِ عِلْمٌ وَإِلاَّ تَغْفِرْ لِیْ وَتَرْحَمْنِیْ أَکُن مِّنَ الْخَاسِرِیْنَO (ھود 47)

’’نوح علیہ السلام نے کہا ! اے میرے رب بے شک میں تیری پناہ میں آتا ہوں اس سے کہ میں تجھ سے اس چیز کا سوال کروں جس کا مجھے کوئی علم نہیں ، اور اگر تو نے معاف نہ کیا اور مجھ پر رحم نہ کیا تو میں خسارہ پانے والوں میں ہو جاؤں گا ۔‘‘

جہنم کا داخلہ

قرآن نے واضع الفاظ میں انسان کی حقیقی کامیابی کو بیان کیا ہے کہ

کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ وَإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُورَکُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَمَن زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَ وَما الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا إِلاَّ مَتَاعُ الْغُرُورِO (آل عمران185)

’’ جو آگ سے بچالیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا (حقیقت میں )یہی آدمی بہت عظیم کامیابی کا حقدار ہے۔‘‘

مگر خاسر آدمی اس ابدی سعادت سے محروم ہے۔

ارشاد رب العالمین ہے:

لِیَمِیْزَ اللّہُ الْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ وَیَجْعَلَ الْخَبِیْثَ بَعْضَہُ عَلَیَ بَعْضٍ فَیَرْکُمَہُ جَمِیْعاً فَیَجْعَلَہُ فِیْ جَہَنَّمَ أُوْلَـئِکَ ہُمُ الْخَاسِرُونَO

’’ تا کہ اﷲ تعالیٰ پاک سے ناپاک کو الگ کردے اور ناپاک کو ایک دوسرے پر رکھ کر ایک ڈھیر بنا دے پھر پھر اس کو جہنم میں ڈال دے ۔ یہی لوگ خسارہ پانے والے ہیں۔‘‘ (الانفال 37)

خسارے سے بچاؤ …مگر کیسے؟

قرآن مجید نے انسانیت کی مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔ قرآن پاک نے جہاں خسارہ کے اسباب اور اس کے نتائج و عواقب ذکر کئے ہیں وہاں اس سے بچاؤ کے طریقے بھی بتلائے ہیں ۔

سورۃ العصر بظاہر تو چند آیات پر مشتمل ہے مگر اس میں پنہاں درس و عبرت اور ہدایت و تعلیمات کا بحر بے کراں ہے۔

سورۃ العصر میں باری تعالیٰ نے انتہائی اختصار مگر جامعیت کے ساتھ اس خسارہ سے بچنے کے اسباب و عوامل بیان کئے ہیں معروف مفسر فضیلۃ الشیخ عبدالرحمن السعدی، سورۃ العصر کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

’’اﷲ تعالیٰ نے خسارے کو ہر انسان کے لئے عام قرار دیا ہے سوائے اس شخص کے جس میں درج ذیل چار صفات پائی جائیں ۔

۱۔      ان امور پر ایمان لانا جن امور پر ایمان لانے کا اﷲ تعالیٰ نے حکم دیا ہے ۔ اور ایمان علم کے بغیر نہیں ہوتا ! اس لئے علم ایمان کی فرع ہے علم کے بغیر ایمان نامکمل ہے۔

۲۔      علم صالح۔یہ تمام تر ظاہری و باطنی بھلائی کے افعال کو شامل ہے جو اﷲ تعالیٰ اور بندوں کے حقوق واجبہ و مستحبہ سے متعلق ہوں۔

۳۔      ایک دوسرے کو حق کی وصیت کرنا یعنی اہل ایمان ایک دوسرے کو نیک اعمال کی وصیت کرتے ہیں ، ان پر ایک دوسرے کو آمادہ کرتے ہیں اور نیکی کے کاموں پر ایک دوسرے کو ترغیب دیتے ہیں۔

۴۔      اطاعت الٰہی پر کاربند رہے۔ احکامات الٰہیہ کی نافرمانی سے بچنے اور پیش آمدہ مصائب پر صبر کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔

یاد رکھئے ! پہلے دو امور کے ذریعے سے بندہ مؤمن اپنے آپ کی تکمیل کرتا ہے اور آخری دو امور کے ذریعے سے وہ دیگر اہل اسلام کی تکمیل کرتا ہے۔

ان چاروں امور یعنی

ایمان با ﷲ ، عمل صالح، تَوَاصَوْا بِالْحَقِّ اور تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ

پر عمل پیرا ہونے والا ہی خسارہ سے محفوظ رہتا ہے اور بہت زیادہ نفع حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔

باری تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں دنیا و آخرت کے خسارے سے محفوظ رکھے۔ آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے