’’اﷲ تعالیٰ نے مومنوں پر بڑا احسان کیا کہ جب ان میں انہیں میں سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھیج دیا جو ان کو قرآن کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور ان کا تزکیہ کرتا ہے۔ اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے ۔ اگرچہ اس سے پہلے وہ طاہر گمراہی میں مبتلا تھے۔‘‘

اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد جہاں تمام جہان والوں کے لئے رحمت تھی وہاں اﷲ کا بڑا احسان یہ ہے کہ وہ اپنے ساتھ ایسی نعمتیں بھی لائے جو میرے لئے آخرت میں کامیابیوں کا ذریعہ ہیں ۔ اور وہ چیزیں کیا تھیں جو ہمارے لئے لائے اور پھراپنے جانے کے بعد بھی ہمارے درمیان چھوڑ گئے۔

وہ کتاب و حکمت کی تعلیم تھی۔ امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک حکمت سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔وہ تحفہ جو ہمارے لئے لائے اور جو ورثہ ہمارے لئے چھوڑ گئے ہم اس ورثے کے ساتھ کیا سلوک کررہے ہیں ۔ یہ ہمارے لئے سوچنے کی بات ہے۔

اﷲ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن پڑھ کر سنایا آج کتنے لوگ ہیں جو اس قرآن کو اس طرح پڑھتے ہیں جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھ کر سنایا ۔ ہمارے پڑھنے کے انداز کتنے درست ہیں اور اس پر ہماری کتنی توجہ ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلمنے ہمارا تزکیہ کیا تو ہمارے تزکیہ نفس کا کیا حال ہے؟ ہماری سوچیں کس حد تک اس طریقے کے مطابق ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم لائے ۔ قرآن پاک کے ساتھ تو ہمارا تعلق کسی نہ کسی بہانے سے رہتا ہی ہے اور کچھ نہیں تو کوئی مر جائے یا کوئی خاص موقع آجائے تو ختم کا اہتمام کرلیتے ہیں ۔ لیکن وہ چیز جسے سنت رسولصلی اللہ علیہ وسلم یا حکمت کہا جاتا ہے اس کے ساتھ ہمارا کیا معاملہ ہے؟ ہم محبت کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن محبوب کی سیرت کو نہیں جانتے کہ انہوں نے دین کیلئے کیا کیا قربانیاں دیں ۔ ہمارا رسول معظم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک جذباتی تعلق تو ہے لیکن جیسے ایک قلبی تعلق ہونا چاہئے وہ نظر نہیں آتااور ہم جو مسلمانوں کو زوال کی طرف جاتا دیکھتے ہیں تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ ہم نے رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کو چھوڑ دیا ہے۔ دوسری طرف ہم ان صحابہ کرام کو دیکھتے ہیں جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتباع کی وہی صحرا میں رہنے والے جن کے پاس علم نہ تھا وہ دنیا کے پیشوا اور امام بن گئے۔ وہ کون سا علم تھا ؟ وہ کون سا فن تھا؟جس نے مسلمانوں کو اتنے عروج تک پہنچایا۔ وہ دراصل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیمات اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کا ہی نتیجہ تھا۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس بات کے زیادہ سے زیادہ حریص رہتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کرکے زیادہ سے زیادہ قرب حاصل کریں اس مقصد کے پیش نظر تین صحابی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر گئے انھوں نے پردے کے پیچھے سے ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے درخواست کی کہ رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم کی اندرون خانہ عبادت و عمل کے بارے میں بتائیے ان کی خواہش تھی کہ ہماری عبادت اور اس کا طریقہ ٹھیک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے عین مطابق ہوجائے۔ ہم بالکل اسی طرح عمل کریں جیسے اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے۔

ایمان کی نشانی یہ ہے کہ انسان اطاعت و اتباع کے ذریعے اس کا اظہار کرے ۔ اتباع کا امتحان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہی ہوگیا اور اتباع یہی ہے کہ چاہے حکم آئے یا نہ آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور طرز عمل کو دیکھ کرو ویسا ہی طریقہ اپناتے چلے جانا۔

مثلاً نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انگوٹھی پہنی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی پہن لی ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتاری تو صحابہ نے بھی اتار دی۔

اسی طرح جب مدینہ تشریف لے گئے تو ۱۶۔۱۷ ماہ تک بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے رہے۔پھر نماز کی حالت میں حکم آیا اپنا رخ بیت اﷲ کی طرف موڑ لیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جگہ چھوڑی اور سب سے پچھلی صف کی طرف آکر کھڑے ہوگئے اور دوسری طرف منہ کر لیا صحابہ کرام نے نہ تو نماز توڑی اور نہ ہی کچھ کہا بلکہ اپنا رخ نماز کی حالت میں ہی بیت اﷲ کی طرف موڑ لیا ۔ اسی کو اتباع کہتے ہیں اور ہمارے لئے یہ بات چھوڑ دی گئی کہ اگر تم اﷲ کی محبت کا دعویٰ کرتے ہو تو محبت کا دعویٰ اس وقت تک سچا نہیں ہوسکتا جب تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع نہ کرو۔

آئیے ایک نظر اُن صحابہ کرام پر بھی ڈالتے چلیں جن کے دل محمدعربی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے سرشار تھے۔ مدینہ منورہ میں جب اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے ہاں ٹھہرے، ان کا گھر دو منزلہ تھا انھوں نے نچلی منزل اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے خالی کردی اور خود بالاخانے میں تشریف ے گئے ۔ رات کو اچانک ابو ایوب انصاریرضی اللہ عنہ کو خیال آیا کہ اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نیچے ہیں اور ہم ان کے سر کے اوپر چلتے ہیں کہیں یہ بے ادبی نہ ہو۔ چنانچہ یہ خیال آتے ہی وہ اور انکے اہل خانہ نے ساری رات ایک کونے میں گزاردی صبح کے وقت ابو ایوب انصاریرضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ آپ اوپر تشریف لے آئیں کیونکہ مجھ میں اتنی ہمت نہیں کہ میں اس چھت کے اوپر چڑھوں جس کے نیچے آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہوں۔

٭       جب اﷲ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھانا تناول فرمالیتے تو باقی بچ جانے والے کھانے میں سے ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کھانا کھایا کرتے اور پوچھتے کہ اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کس جگہ سے کھانا کھایا ہے۔ تاکہ وہ بھی برتن کی خاص اسی جگہ سے کھانا کھائیں ۔

٭       صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جس طرح رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم کا ادب و احترام کرتے تھے اس کا اظہار کئی طریقوں سے ہوتا تھا ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سامنے بیٹھتے تو فرط ادب کی تصویر بن جاتے ۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس طرح بیٹھتے تھے گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوئے ہیں ۔ کیونکہ

ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں

اور آپصلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جب آپصلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک صحبتوں کی یاد آتی ہے تو صحابہ کرام کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہوجاتے ۔ ایک بار حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ اور حضرت عباسرضی اللہ عنہ انصار کی ایک مجلس میں گئے تو دیکھا کہ سب لوگ رورہے ہیں ۔سبب پوچھا تو بولے ’’ذَکرنا مَجلِس النبی مِنّا‘‘ ہم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس کی یاد آگئی تھی۔(بخاری)

سیدنا ابو بکر صدیقرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں کوئی ایسی چیز نہیں چھوڑ سکتا جس پر رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم عمل کیا کرتے تھے۔ کیونکہ مجھے ڈر ہے کہ اگر میں رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل میں سے کوئی چیز چھوڑ دونگا تو گمراہ ہو جاؤنگا۔(بخاری)

گویا صحابہ کرا م رضی اللہ عنہم رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و فرماںبرداری کو ہی اپنی متاع حیات سمجھتے تھے ۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خالی زبانی کلامی محبت کا دعویٰ نہیں کیا تھا بلکہ انہوں نے اپنے عمل اور سچی تابعداری سے ثابت کردیا تھا کہ جس کے ساتھ محبت ہوتی ہے اس کی اتباع کی جاتی ہے۔

صحابہ کرام کی محبتیں ہمارے لئے نمونہ ہیں ۔ لیکن آج کے دور میں ہماری محبتیں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے کیسی ہیں ؟ گانے بجانے کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے دم بھرے جارہے ہیں ۔ دنیا میں ہم دیکھتے ہیں جس شخص کو جس سے محبت ہوتی ہے اس کا اٹھنا بیٹھنا اس کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس کی چال ڈھال، رنگ ڈھنگ اس کا لباس اس کی ہر چیز ویسی ہی ہوجاتی ہے اور قوم جس قوم سے محبت کرتی ہے سات سمندر پار اس قوم جیسا لباس پہنتی ہے۔ مثلاً جیسے ہم انگریزوں سے محبت کرتے ہے۔ ان کی زبان سے ان کے لباس سے، ان کے اٹھنے بیٹھنے کے اسٹائل سے محبت کرتے ہیں ان کے ہر طریقے پر جانیں وارتے ہیں ، وہاں سے آئی ہوئی چیزوں کو ہم سینوں سے لگاتے ہیں ۔ کیوں ؟ کیوں کہ اسے محبت کہتے ہیں !

ہم اپنی شادی بیاہ کی رسموں کو دیکھ لیں ۔ اپنے مرنے جینے کی رسموں سے لیکر کھانا پینا ، اٹھنا بیٹھنا ، چال ڈھال یہ سب کچھ ھندوانہ کلچر کی نمائندگی ہے اور ہم تمام اس میں ملوث ہیں ۔ لہٰذا اﷲ نے ایک بڑا امتحان رکھ دیا ہے کہ اگر تمہیں مجھ سے محبت کا دعویٰ ہے تو جاؤ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو دیکھو ان کی تعلیمات پر غور کرو اور ان پر عمل کرو۔

اب سوچنے کی بات ہے کہ ناموس رسالت کے تحفظ کیلئے ایک عورت اپنا کیا کردار ادا کرسکتی ہے ۔ اور یہ ذمہ داری بطریق احسن انجام کیسے دے سکتی ہے۔ جبکہ اگر اس کا دائرہ کار صرف گھر کی چار دیواری ہو اور کہیں اس کی اولاد اس کے پائوں کی زنجیر بنتی ہو اور شوہر کی اطاعت بھی ضروری ہے۔

لیکن ابھی عورت کے لیے ایک وسیع میدان موجود ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ اپنی اولاد کی بہترین پرورش کرے انھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور سنت سے روشناس کروائے ۔ بچوں کو کہانیاں سننے کا بہت شوق ہوتا ہے۔ اس لیے انہیں سچی کہانیاں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے واقعات سنائیں تو ہم دیکھیں گے کہ خود بخود اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ان کے دل میں پیدا ہوگی۔

جب ایک بچہ بولنا سیکھتا ہے بات کو سمجھنا سیکھتا ہے تو اسے چھوٹی چھوٹی باتیں سکھانا شروع کردیں بھلا کیوں نہیں ہوگا کہ جب وہ سمجھ کی عمر کو پہنچے تو اس کا دماغ درست سوچ اور درست راستے پر لگ چکا ہو۔

اور پھر کیا بعید ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں میں سے ہمیں پھر سے سیدنا عمررضی اللہ عنہ جیسا عظیم حکمران عطا فرمائے جو اسلام کو پوری دنیا میں زندہ کرے اور اسلام کا پرچم پوری دنیا میں لہرائے۔ آمین ۔ مگر شاید ہم مائیں ہی مجرم ہیں جو اپنی اولاد کے ذہن کی صحیح پرورش ہی نہیں کر پاتیں اور نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے