اللہ تعالی کی ہی تعریفات ہیں جس نے اوقات وزمان کوپیدا فرمایا اوران اوقات میں سے ایک کو دوسرے پرفضیلت عطا فرمائي اورکچھ مہینوں اورایام کو خصوصی فضیلت اورامتیازی حیثيت بھی دی اورایسے فضائل سے نوازا جس میں اجروثواب بڑھ جاتا ہے۔

اوراللہ تعالی کی جانب سے اپنے بندوں پرفضل وکرم بڑھ جاتا ہے تاکہ انہیں اعمال صالحہ کرنے اوراطاعت وفرمانبرداری کرنے میں اس سے تعاون ومدد حاصل ہو ، اورنشاط وچستی کی تجدید ہو تا کہ مسلمان ثواب کا وافر حصہ حاصل کرسکے ، اوروہ موت کے آنے سے قبل ہی اس کی تیاری کرتے ہوئے روزقیامت کے لیے بھی زادرہ اکٹھا کرسکے۔

اطاعت وفرمانبرداری کے مواسم کے فوائد یہ ہیں کہ جوکچھ رہ گيا اورعمل نہيں کیا جاسکا اس کمی کوپورا کیا جائے اوراس کے عوض میں کچھ اعمال کرلیے جائيں ، اوران فضلیت والے موسموں سے ہرایک موسم میں کوئي نہ کوئي ایساکام پایا جاتا ہے جس پرعمل پیرا ہوکر بندے اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرتے ہیں۔

اوراس میں اللہ تعالی کی مہربانیوں کا فیضان ہوتا ہے جسے اللہ تعالی چاہے اس پراپنے فضل وکرم اوررحمت سے مہربانی کرتے ہیں ، لہٰذاوہ شخص بہت ہی خوش نصیب ہے جوان موسموں اورمہینوں اورایام واوقات میں اپنے پروردگار والہ کی اطاعت وفرمانبرداری کرکے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے کوغنیمت جانتا ہے لہٰذاہوسکتا ہے ایسے شخص کواس مہربانی کی خوشبو حاصل ہو اوروہ سعادت حاصل کرتے ہوئے جہنم کی آگ اوراس کے شعلوں سے محفوظ ہوجائے۔(اللطائف لابن رجب صفحہ نمبر 40 )

لہٰذامسلمان کواپنی عمرکی قدراورزندگي کی قیمت پہچانتے ہوئے اپنے رب کی عبادت کثرت سے کرنی چاہیے اورموت تک خیروبھلائي کے کاموں پرہمیشگی کرنی چاہیے

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى يَاْتِيَكَ الْيَقِيْنُ   ۝

{ اوریقین آنے تک اپنے رب کی عبادت کیجئے } (الحجر 99 )

مفسرین نے یقین کی تفسیر کرتےہوئے کہا ہے کہ اس سے مراد موت ہے۔

اطاعت فرمانبرداری کے عظیم موسموں میں ذوالحجہ کے پہلے دس دن بھی ہیں جسے اللہ تعالی نے باقی سارے سال کے ایام پرفضیلت دی ہے اس کی دلیل مندرجہ ذیل حدیث میں پائي جاتی ہے :

ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہيں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( ان دس دنوں میں کیے گئے اعمال صالحہ اللہ تعالی کوسب سے زيادہ محبوب ہیں ، صحابہ نے عرض کی اللہ تعالی کے راستے میں جہاد بھی نہيں !! تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اورجہاد فی سبیل اللہ بھی نہيں ، لیکن وہ شخص جواپنا مال اورجان لے کر نکلے اورکچھ بھی واپس نہ لائے) صحیح بخاری ( 2 / 457 )

اورابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما سے ہی مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

عشرہ ذی الحجہ میں کیے گئے عمل سے زیادہ پاکیزہ اورزيادہ اجروالا عمل کوئي نہيں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گيا کہ نہ ہی اللہ تعالی کے راستے میں جھاد کرنا ؟ تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اورنہ ہی اللہ تعالی کے راستے میں جہاد کرنا۔ (سنن دارمی 1 / 357 )

مندرجہ بالا اوراس کے علاوہ دوسری نصوص اس پر دلالت کرتی ہیں کہ ذوالحجہ کے پہلے دس دن باقی سال کے سب ایام سے بہتر اورافضل ہيں اوراس میں کسی بھی قسم کا کوئي استثناء نہيں حتی کہ رمضان المبارک کا آخری عشرہ بھی نہيں ، لیکن رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی دس راتیں ان ایام سے بہتر اورافضل ہیں کیونکہ ان میں لیلۃ القدر شامل ہے ، اورلیلۃ القدر ایک ہزار راتوں سے افضل ہے ، تواس طرح سب دلائل میں تطبیق ہوجاتی ہے۔تفسیر ابن کثیر ( 5 / 412 )

محترم قارئین! ان دس دنوں کی فضيلت بہت سے امور کی بنا پرواضح ہوتی ہے جن میں سے چند ایک ذيل میں ذکر کیے جاتے ہيں :

1اللہ سبحانہ وتعالی نے ان ایام کی قسم کھائي ہے اورکسی چيز کی قسم اٹھانا اس کی اہمیت وفضلیت اوراس کے عظیم نفع پردلالت کرتی ہے ، اللہ سبحانہ وتعالی نے اس کی قسم اٹھاتے ہوئے فرمایا :وَالْفَجْرِ   ۝ وَلَيَالٍ عَشْرٍ۝

{ قسم ہے فجر کی ، اوردس راتوں کی }

سیدنا ابن عباس اورابن زبیر رضي اللہ تعالی عنہم اورمجاھد ، اورکئي ایک سلف رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے کہ یہ عشرہ ذی الحجہ ہے ، اورابن کثیر رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں اوریہی صحیح ہے۔ دیکھیں : تفسیر ابن کثیر ( 8 / 413 )

2نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کی گواہی اورشہادت دی ہے کہ یہ دنیا کے ایام میں سب سے افضل ایام ہیں جیسا کہ حدیث بیان بھی کی جاچکی ہے۔

3نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ایام میں اعمال صالحہ کرنے پرابھارا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ باقی سارے ممالک میں بسنے والوں کوتوان ایام کے شرف کی بنا پراورحجاج کرام کے ساتھ خاص ہےاس جگہ کے شرف کی بنا ء پر جن میں وہ حج کرتے ہیں۔

4نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ایام میں زيادہ سے زيادہ حمدوثنا اورتکبیریں پڑھنے کا حکم دیا ہے ، جیسا کہ عبداللہ بن عمررضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( اللہ تعالی کے ہاں ان دس ایام سے عظیم ایام اورکوئي نہيں اورنہ ہی ان میں کیے گئے اعمال کے علاوہ کوئي اوراعمال اسے زيادہ محبوب ہيں ، لہٰذاان ایام میں لَآاِلٰہَ اِلَّااللہُ ، اور تکبریں بکثرت پڑھا کرو ، اوراللہ تعالی کی حمدوثنا کثرت سے کیا کرو (مسنداحمد : 7 / 224 )

5اس عشرہ میں یوم عرفہ بھی آتا ہے اوریہ ایسا دن ہے جسے یوم مشہود کہا جاتا ہے جس میں میں اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنے دین کومکمل کیا اوراس دن کا روزہ رکھنے سے دوبرس کےگناہ معاف ہوجاتے ہیں ، اوراسی عشرہ میں یوم النحر ( دس ذی الحجہ ) بھی ہے جوعلی الاطلاق سال بھر کے دنوں میں سب سے‏عظيم دن ہے اوریہی حج کا بڑا دن ہے جس میں ایسی عبادات اوراطاعات وفرمانبرداری اکٹھی ہوتی ہيں جوکسی اوردن میں جمع نہيں ہوتیں۔

6اسی عشرہ میں قربانی اورحج بھی آتا ہے:

عشرہ ذي الحجہ ( ذوالحجہ کے پہلے دس دن ) کے اعمال میں یہ بھی شامل ہے کہ : ان دس دنوں کا ادراک اللہ تعالی کی اپنے بندوں پر عظیم نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے ، لہٰذابندے کواس کی اس طرح قدر کرنی چاہیے جس طرح اس کا حق ہے اورجس طرح صالح اورنیک لوگوں نے اس کی قدر کی ، تومسلمان پرواجب اورضروری ہے کہ وہ اس نعمت کاشعور پیدا کرے اوراس فرصت کوغنیمت جانتے ہوئےان دس دنوں میں زيادہ سے زيادہ اعمال صالحہ کرے۔

اور اسے چاہیے کہ وہ اپنے نفس کواطاعت وفرمانبرداری کی طرف راغب کرے ، خیروبھلائي کے طریقے اورکئي طرح کی نیکیاں بھی اللہ تعالی کی طرف اپنے بندوں پر فضل وکرم اورعنایت ہے ، اوراس نے انہيں کئي ایک اقسام کی اطاعت وفرمانبرداری کے راستے دکھائے ہیں تاکہ وہ اپنے رب اورآقا کی عبادت میں لگے رہیں اوراعمال صالحہ کرنے سے اکتاہٹ محسوس نہ کریں ، بلکہ وہ اس میں چست اورنشیط ہوکر عبادت میں مگن رہیں۔

ذوالحجہ کے ان دس دنوں میں مسلمان کومندرجہ ذيل کام کرنے چاہئیں :

1 – روزے:

مسلمان شخص کےلیے نو ذوالحجہ کا روزہ رکھنا سنت ہے کیونکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دس ایام میں اعمال صالحہ کرنے پرابھارا ہے اور روزہ رکھنا اعمال صالحہ میں سے سب سے افضل اوراعلی کام ہے ، اوراللہ تعالی نے روزہ اپنے لیے چنا ہے جیسا کہ حدیث قدسی میں اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

ابن آدم کے سارے کے سارے اعمال اس کے اپنے لیے ہیں لیکن روزہ نہيں کیونکہ وہ میرے لیے ہے اورمیں ہی اس کا اجروثواب دونگا،(صحیح بخاری : 1805)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی نو ذوالحجہ کا روزہ رکھا کرتے تھے ، ھنیدہ بن خالد اپنی بیوی سے اوروہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی زوجہ محترمہ سے بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ نے بیان کیا : نبی صلی اللہ علیہ وسلم نو ذوالحجہ اوریوم عاشوراء اورہر ماہ تین روزے رکھا کرتے تھے ، مہینہ کے پہلے سوموار اوردو جمعراتوں کے۔سنن نسائي ( 4 / 205 )

2 – تکبیریں کہنا :

ان دس ایام میں مساجد ، راستوں اورگھروں اورہر جگہ جہاں اللہ تعالی کا ذکر کرنا جائز ہے وہیں اونچی آواز سے تکبیریں اورلَآاِلٰہَ اِلَّااللہُ ، اوراَلْحَمْدُلِلہِ کہنا چاہیے تا کہ اللہ تعالی کی عبادت کا اظہار اوراللہ تعالی کی تعظیم کا اعلان ہو۔ مرد تواونچي آواز سے کہيں گے لیکن عورتیں پست آواز میں ہی کہيں۔

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

اپنے فائدے حاصل کرنے کوآجائيں ، اوران مقرر دنوں میں ان چوپایوں پراللہ تعالی کانام یاد کریں جو پالتوہیں (الحج : 28 )

جمہورعلماء کرام کا کہنا ہے کہ معلوم دنوں سے مراد ذوالحجہ کے دس دن ہیں کیونکہ ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے کہ ایام معلومات سے مراد دس دن ہیں۔

اورتکبیر کے الفاظ یہ ہیں :

اَللهُ اَكْبَرُ ، اَللهُ اَكْبَرُلَا ٓاِلٰہَ اِالَّا اللهُ ، وَاللهُ اَكْبَرُوَلِلهِ الْحَمْدُ

اللہ بہت بڑاہے ، اللہ بہت بڑا ہے ، اللہ تعالی کےعلاوہ کوئي معبود برحق نہيں ، اوراللہ بہت بڑا ہے ، اوراللہ تعالی ہی کی تعریفات ہیں۔اس کےعلاوہ بھی تکبیریں ہیں۔

یہاں ایک بات کہنا چاہیں گے کہ موجود دورمیں تکبیریں کہنے کی سنت کوترک کیا جاچکا ہے اورخاص کران دس دنوں کی ابتداء میں توسننے میں نہیں آتی کسی نادر شخص سے سننے میں آئيں گی، اس لیے ضروری ہے کہ تکبیروں کواونچی آواز میں کہا جائے تاکہ سنت زندہ ہوسکے اورغافل لوگوں کوبھی اس سے یاد دھانی ہو۔

سیدنا ابن عمر اور سیدنا ابوہریرہ رضي اللہ تعالی عنہما کے بارہ میں ثابت ہے کہ وہ دونوں ان دس ایام میں بازاروں میں نکل کر اونچی آواز کے ساتھ تکبیریں کہا کرتے تھے اورلوگ بھی ان کی تکبیروں کی وجہ سے تکبیریں کہا کرتے تھے ، اس کا مقصد اورمراد یہ ہے کہ لوگوں کوتکبیریں کہنا یاد آئيں اورہرایک اپنی جگہ پراکیلے ہی تکبیریں کہنا شروع کردے ۔اورجس سنت کوچھوڑا جاچکا ہویا پھر وہ تقریبا چھوڑی جارہی ہو تواس پرعمل کرنا بہت ہی عظیم اجروثواب پایا جاتا ہے کیونکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بھی اس پردلالت کرتا ہے :

جس نے بھی میری متروک سنت کوزندہ کیا اسے اس پر عمل کرنے والے کے برابر ثواب دیا جائے گا اوران دونوں کے اجروثواب میں کچھ کمی نہيں ہوگي۔

اسے امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی نے روایت کیا ہے : دیکھیں سنن ترمذي ( 7 / 443 )

3 – حج وعمرہ کی ادائيگی:

ان دس دنوں میں جوسب سے افضل اوراعلی کام ہے وہ بیت اللہ کاحج وعمرہ کرنا ہے ، لہٰذاجسے بھی اللہ تعالی اسے اپنے گھرکا حج کرنے کی توفیق عطا فرمائے اوراس نے مطلوبہ طریقہ سے حج کے اعمال ادا کیے توان شاء اللہ اسے بھی اس کا حصہ ملے گا جونبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس فرمان میں بیان کیا ہے :

( حج مبرور کا جنت کے علاوہ کوئي اجروثواب نہيں )۔

4 – ان دس ایام میں عموما اعمال صالحہ کرنا :

کیونکہ اللہ تعالی کواعمال صالحہ محبوب ہیں ، اوراس وجہ سے یہ لازم ہے کہ اس کا اجروثواب بھی اللہ تعالی سے بہت زيادہ ملے گا ، لہٰذاجس کے لیے حج کرنا ممکن نہيں اسے چاہیےکہ وہ ان افضل ایام واوقات کواللہ تعالی کی اطاعت وفرمانبرداری میں گزارتے ہوئے نماز اور قرآت قرآن کریم اورذکر واذکار اوردعا وصدقہ وخیرات اور والدین سے حسن سلوک اور نیکی کاحکم اوربرائي سے روکنے اوراسی طرح دوسرے خیروبھلائي کے کاموں کا خاص اہتمام کرے ۔

5 – قربانی :

عشرہ ذی الحجہ کے اعمال صالحہ میں قربانی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنا بھی شامل ہے کہ قربانی کی جائے اوراللہ تعالی کےراستے میں جانور ذبح کیا جائے ۔

6 – سچی اورپکی توبہ جسے توبہ نصوحہ کہا جاتا ہے کی جائے :

ان دس دنوں میں جوچيززيادہ تاکید سے ہونی چاہیے وہ اللہ تعالی کے سامنے اپنے سابقہ گناہوں کی توبہ ہے کہ جوکچھ معاصی وگناہ اورنافرمانی ہوچکی اس پرمسلمان توبہ کرے۔

توبہ اللہ تعالی کی جانب رجوع اوراس کی طرف واپس آنےاورجوچيزاللہ تعالی کوناپسند ہے اسے ظاہری اور باطنی دونوں طرح ترک کرنے اورجوکچھ ہوچکا اس پرندامت ، فوری طور پراسے ترک اورآئندہ نہ کرنے کے عزم اور اللہ تعالی کے محبوب عمل کوکرتے ہوئے حق پر استقامت کوتوبہ کہتے ہیں۔

اورمسلمان پرواجب اورضروری ہے کہ جب وہ کسی معصیت ونافرمانی کا ارتکاب کربیٹھے تواس سے جتنی جلدی ہوسکے توبہ کرلے اوراسے مہلت نہيں دینی چاہیے کیونکہ :

اول : اسے اس کا علم نہيں کہ موت کب اورکسی وقت اورکس لحظہ میں آدبوچے۔

دوم : کیونکہ ایک برائي دیگربرائيوں کے ارتکاب کا باعث بنتی ہے۔اورپھرفضیلت کے اوقات میں توبہ کرنے کی شان ہی کچھ نرالی ہوتی ہے وہ اس لیے کہ اس وقت غالب طور پرنفس اللہ تعالی کی اطاعت وفرمانبرداری کی طرف راغب ہوتا ہے اورخیروبھلائي کرنے کی خواہش ہوتی ہے جس کی بنا پراعتراف گناہ اورندامت کا اظہاربہت جلد پیدا ہوتا ہے ، وگرنہ توبہ توہروقت اورہرزمانے میں واجب اورضروری ہے ، اورجب کسی مسلمان میں اعمال صالحہ اورسچی توبہ فضیلت والے اوقات اورموسم خيرمیں جمع ہوجائے توان شاء اللہ یہ کامیابی وکامرانی کاپیش خیمہ اور زينہ ہے۔اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

فَاَمَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَعَسٰٓي اَنْ يَّكُوْنَ مِنَ الْمُفْلِحِيْنَ     ؀

{ ہاں جوشخص توبہ کرلے اورایمان لے آئے اورنیک اعمال کرے یقین ہے کہ وہ نجات پانے والوں میں سےہوجائےگا } (القصص 67 )

لہٰذامسلمان شخص کوخیروبھلائي کے موسموں اوراوقات پرحریص ہونا چاہیے کیونکہ یہ بہت ہی جلد ختم ہوجاتے ہیں اور اسے چاہیے کہ وہ اپنے آپ کواعمال صالحہ کی طرف لائے تا کہ وہ اس کا اجروثواب حاصل کرسکے اس لیے کہ اسے اجروثواب کی اشد ترین ضرورت ہے۔

اوراجروثواب اورنیکیاں بہت کم ہیں ، لیکن موت اوراس دنیا فانی سے کوچ کا وقت انتہائي قریب ہے ، اورراستہ بھی پرخطر اور دشوار ہے اوردھوکہ غالب ہے اورعظیم خطرے کا خدشہ ہے اوراللہ سبحانہ وتعالی تہمیں دیکھ رہا ہے ، اوراسی کی طرف واپس جانا ہے اوراس کے علاوہ کوئی بھی ٹھکانہ دینے والا نہيں :

فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَهٗ   ۝ وَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَّرَهٗ   ۝

{ جوبھی ذرہ برابر خیروبھلائي اورنیکی کرے گا وہ اسے دیکھ لے گا اورجو بھی ذرہ برابر برائي اورشر کا ارتکاب کرے گا وہ بھی اسے دیکھ لے گا }(الزلزال7تا8)

اس فرصت کوغنیمت جانیں اوران عظيم ایام میں اعمال کریں ، اس کا کوئي عوض نہيں اوراس کی قدروقیمت کا اندازہ نہيں لگایا جاسکتا ، جتنی جلدی ہوسکے اعمال کرلو ، اورموت کے حملے سے قبل جلدی اورتیزي دکھا لو ، اوراس واپسی کے سوال سے قبل کچھ عمل کرلو جس کا جواب بھی نہيں دیا جائے اوراس کی بات تسلیم کرتے ہوئے اسے دنیا میں واپس نہيں بھیجا جائے گا۔امیدوں اورخواہشوں کے پورے ہونے میں حائل ہونے والی موت سے قبل اوراس سے قبل کہ وہ اپنے اس گڑھے میں اپنے اعمال کے ساتھ قید کردیا جائے کچھ اعمال صالحہ کرلو۔

اے وہ شخص جس کا دل رات کی سیاہی کی مانند سیاہ ہوچکا ہے ، کیا تیرا دل روشن اورنرم نہيں ہونا چاہتا اورکیا وہ نرم نہيں ہوسکتا ؟ کیوں نہيں ایسا ہوسکتا ہے آؤ اوراس عشرہ ذوالحجہ میں اپنے رب اورمولا کی رحمت وفضل کے خزانے سمیٹ لو کیونکہ یہ ایسے خزانے ہیں جسے یہ پہنچ جائيں وہ شخص سعادت مند ہوجاتا ہے اوریہ پہنچتے بھی اسے ہی ہیں جسے اللہ تعالی چاہتا اوروہ قیامت کے دن سعادت مند ہوگا ۔

اللھم جعلنا اللہ منہم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے