سیرت سیدنا ابراہیم عليه السلام کی اہمیت

اﷲ تعالیٰ نے انسانوں کی رشد وہدایت کے لئے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاءعلیہ السلام کو مبعوث کیا ، ان میں تین سو پندرہ رسول ہیں ( مسند احمد ) ان 315 رسولوں میں پانچ رسول ایسے ہیں جنہیں اولو العزم من الرسل کہا جاتا ہے، یعنی نہایت ہی عزم وہمت والے رسول اور وہ یہ ہیں :

۱) ا بو البشر ثانی سیدنا نوح علیہ السلام

۲)ابو الانبیاءسیدنا ابراہیم علیہ السلام

۳) سیدنا موسیٰ علیہ السلام

۴)سیدنا عیسیٰ علیہ السلام

۵) سیدا الاولین والآخرین ، ساقیٔ حوض کوثر ، شافع روز محشر سیدنا محمد رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم ۔

اور ان پانچ اولو العزم پیغمبروں میں بھی دو پیغمبر ایسے ہیں جن کی زندگی کو اﷲ تعالیٰ نے تمام بنی نوع انسانیت کے لئے اسوہ ، نمونہ اور آئیڈیل قرار دیا، پہلی شخصیت ہمارے رسول حضرت محمد رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے ، جن کی زندگی کے متعلق اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللّٰهَ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَكَرَ اللّٰهَ كَثِيْرًا   ۝

” تم مسلمانوں کے لئے رسول اﷲ کا قول وعمل بہتر ین نمونہ ہے ہر اُس شخص کے لئے جو اللہ اور روزِ قیامت کا یقین رکھتا ہو اور وہ اللہ کا کثرت سے ذکر کرتا ہو‘‘۔(الاحزاب :21)

دوسری خلیل اﷲسیدنا ابراہیم علیہ السلامکی ذات مقدسہ ومبارکہ ہے جن کے متعلق رب العالمین کا فرمان ہے :

قَدْ كَانَتْ لَكُمْ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِيْٓ اِبْرٰهِيْمَ وَالَّذِيْنَ مَعَهٗ ۚ اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِهِمْ اِنَّا بُرَءٰۗؤُا مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ۡ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاۗءُ اَبَدًا حَتّٰى تُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَحْدَهٗٓ

” مسلمانو! تمہارے لئے ابراہیم علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں میں بہترین نمونہ ہے جب انہوں نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ ہم تم سے اور ان معبودوں سے جن کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو بے تعلق ہیں ،ہم تمہارے دین کا انکار کرتے ہیںاور جب تک تم اللہ واحد پر ایمان نہ لاؤ ہم میںاور تم میں ہمیشہ کےلئے کھلم کھلی عداوت اور دشمنی رہے گی‘‘ ( ممتحنہ :۵)

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہر پہلو مسلمانوں کےلئے دین وایمان ہے، جس کا اعتراف مسلمانوں کے ہر طبقہ کوہے ۔اب آئیے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی زندگی کے کچھ گوشوں پر نظر ڈالی جائے، جن کی اﷲ رب العالمین نے طرح طرح سے آزمائش کی اور وہ ہر آزمائش میں کھرے اترے ، تو اﷲ تعالیٰ نے آپکوتمام بنی نوع انسانیت کا امام بنادیا

جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

وَاِذِ ابْتَلٰٓى اِبْرٰهٖمَ رَبُّهٗ بِكَلِمٰتٍ فَاَتَـمَّهُنَّ ۭ قَالَ اِنِّىْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا ۭ قَالَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِىْ ۭ قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظّٰلِمِيْنَ   ؀

” اور جب اللہ نے چند باتوں میں ابراہیم(علیہ السلام ) کی آزمائش کی تو وہ ان میں پورے اترے تو اللہ تعالیٰ نے کہا کہ میں تمہیں لوگوں کا پیشوا بنا ؤں گا۔ انہوں نے کہا کہ (اے اللہ) میری اولاد میں سے بھی (پیشوا بنائیو، تو اللہ تعالیٰ نے) فرمایا کہ ہمارا اقرار ظالموں کےلئے نہیں ہوا کرتا‘‘۔(البقرة :۱۲۴)

ملت ابراہیمی کی اہمیت :

قرآن مجید میں مختلف مقامات پر اﷲ تعالیٰ نے ملت ابراہیمی کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے ، اور یہ اعلان فرمادیا کہ دنیا میں ہدایت اور آخرت میں جنت اسی شخص کو ملے گی جو ملت ابراہیمی کا پابند ہوگا، فرمان الٰہی ہے :

وَقَالُوْا كُوْنُوْا ھُوْدًا اَوْ نَصٰرٰى تَهْتَدُوْا ۭ قُلْ بَلْ مِلَّةَ اِبْرٰھٖمَ حَنِيْفًا ۭ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ ؁

” اور انہوں نے کہا : یہودی یا نصرانی بن جاؤ تاکہ راہ راست پر آجاؤ ، (اے میرے نبی ) آپ کہہ دیجئے کہ ہم نے ابراہیم کی ملت کو اپنا لیا ہے ، جنہوں نے تمام ادیان باطلہ کو چھوڑ کر دین توحید کو قبول کرلیا تھا ، اور جو مشرک نہیں تھے ‘‘۔ (البقرة :۱۳۵)

ملت ابراہیمی سے بے نیازاحمق شخص ہی ہوسکتا ہے :

” ملت ابراہیمی سے ،سوائے اس آدمی کے جس نے اپنے آپ کو احمق بنایا ، کون اعراض کرسکتا ہے ؟اور ہم نے دنیا میں اسے چن لیا تھا ، اور آخرت میں وہ نیک لوگوں میں سے ہوگا ‘‘ ۔(البقرة :۱۳۰)

رسول کونین ، ساقیٔ حوض کوثر ، شافع روز محشر محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی ملت کی اتباع کا حکم دیا گیا ہے ، فرمان باری ہے :

” بے شک ابراہیم راہبر اور اﷲ کے فرمانبردار تھے ،سب سے کٹ کر اﷲ کے ہوگئے تھے اور مشرکوں میں سے نہ تھے، وہ اﷲ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے والے تھے ، اﷲ نے انہیں چن لیا تھا اور راہ راست پر ڈال دیا تھا ، ہم نے انہیں دنیا میں اچھائی دی تھی اور بلا شبہ آخرت میں وہ نیک لوگوں میں ہوں گے ، پھر ہم نے آپ پر وحی نازل کی کہ آپ ملت ابراہیم کی پیروی کیجئے ، جو سب سے کٹ کر اﷲ کے ہوگئے تھے اور وہ مشرکوں میں سے نہیں تھے ‘‘۔ ( النحل : ۱۲۳)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صبح کے وقت یہ دعا پڑھا کرتے تھے :

أَصْبَحْنَا عَلَى الْفِطْرَةِ وَالإِخْلاَصِ ، وَدِيْنِ نَبِيِّنَا مُحَمَّدٍ ، وَمِلَّةِ أَبِيْنَا إِبْرَاهِيْمَ حَنِيْفًا مُسْلِمًا ، وَمَآ أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ

” ہم نے فطرت اسلام ، کلمہ اخلاص ، اور اپنے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین اور اپنے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ملت پر صبح کی ، وہ (ابراہیم علیہ السلام) شرک سے اعراض کرنے والے تھے ، مسلمان تھے ، اور مشرکوں میں سے نہ تھے “ ( احمد )

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ” ملت ابراہیمی ‘‘کیا چیز ہے ؟جواب یہ ہے کہ ملت ابراہیمی توحید ہے ، اﷲ تعالیٰ نے اپنی توحید کو ہی ” ملت ابراہیمی ‘‘قرار دیا ہے ، جو بھی مو حد ہے وہ ” ملت ابراہیمی ‘‘ پر ہے اور جو شرک میں گرفتار ہوگیا اس کا ” ملت ابراہیمی ‘‘ سے کوئی تعلق نہیں ۔

ولادت باسعادت :

آج سے تقریبا چار ہزار سال پہلے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی ولادت عراق کی سرزمین میں ، شہر بابل کے قریب ” اُر‘‘ نامی قصبے میں ہوئی ، جو شہر کوفہ سے مشرق کی جانب تقریبا ستر کلو میٹر کے فاصلے پر ہے ، جو آج کل صرف کھنڈرات پر مشتمل ہے ۔یہ زمانہ کلدانی قوم کے عروج کا زمانہ تھا ، جب کہ یہ قوم اپنی صنعت وحرفت ، تجارت وزراعت میں بام عروج پر پہنچی ہوئی تھی ۔ ان تمام مادی ترقیوں کے باوجود ان کی روح محتاج هدایت تھی ، انہوں نے اﷲ تعالیٰ کے سوا سورج ، چاند ،ستاروں ، سیاروں ، غرضیکہ ہر کنکر کو اپنا شنکر مان رکھا تھا ، وہ ان تمام چیزوں کے ساتھ ساتھ بادشاہ وقت کو بھی اپنا خدا ماننے تھے اور اس کی پرستش کرتے تھے ۔ ایسے وقت اور ایسے زمانے میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام پیدا ہوئے اور لطف کی بات یہ کہ خود آپ کا باپ آذر بابل کے سب سے بڑے مندر کا مہنت،ساری قوم کا روحانی پیشوا تھا ،اس کااحترام کرنا عوام کے مذہبی فرائض میں شامل تھا ۔ ایسے ماحول میں جب کہ ہدایت کے حصول کا کوئی ذریعہ اور راستہ نہ تھا ،اﷲ تعالیٰ نے سیدنا ابراہیم علیہ السلامکو خصوصی طور پر راہ ہدایت دکھلائی ۔ جیسا کہ ارشاد ربّانی ہے :

”اور ہم نے ابراہیم کو اس سے پہلے اچھی سمجھ دی تھی اور ہم اُنہیں خوب جانتے تھے ‘‘۔( الا نبیاء:۵۱)

جب جوان ہوئے تو اﷲ تعالیٰ نے آپکو کائنات کے عجائبات دکھائے ، آپ نے نظام کائنات پر غور کرنے کے بعد رب کی توحید کا اعلان کردیا:

” اور ہم اسی طرح ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کے عجائبات دکھانے لگے تاکہ وہ خوب یقین کرنے والوں میں ہو جائیں ۔ جب رات آگئی تو انہوں نے ایک ستارہ دیکھا، کہنے لگے کہ یہ میرا رب ہے۔ جب وہ ڈوب گیا تو کہنے لگے کہ میں ڈوب جانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ جب چاند کو نکلا ہوا دیکھا توکہنے لگے کہ یہ میرا رب ہے۔ لیکن جب وہ بھی ڈوب گیا تو بول اٹھے کہ اگر میرے رب نے میری رہنمائی نہیں کی تو میںگمراہ لوگوں میں ہو جاؤں گا ۔ پھر جب سورج کو دیکھا کہ جگمگا رہا ہے تو کہنے لگے کہ یہ میرا رب ہے، یہ سب سے بڑا ہے۔ مگر جب وہ بھی غروب ہو گیا تو کہنے لگے کہ لوگو! جن چیزوں کو تم (اللہ کا) شریک بناتے ہو میں اُن سے بیزار ہوں ۔ میں نے سب سے منہ موڑ کر اپنا رُخ اُس ذات کی طرف کر لیا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں‘‘۔ (الا نعام :75-78)

باپ کی ہدایت کے لئے تڑپ :

اس اعلان کے ساتھ ہی آپ پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ، باپ نے کہا کہ میں تمہیں عاق کردوں گا ، گھر سے نکال دوں گا اور سنگسار کردوں گا ، لیکن سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے باپ کو کمال ادب واحترام اور محبت سے سمجھاتے ہوئے کہا :

”اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو بیشک وہ نہایت سچے پیغمبر تھے ۔ جب انہوں نے اپنے باپ سے کہا کہ ابّا جان ! آپ ایسے (بت ) کی کیوں پرستش کرتے ہیں جو نہ سنتا ہے اور نہ دیکھتا ہے اور نہ آپ کے کسی کام آ سکتا ہے۔ اباجان ! مجھے ایسا علم ملا ہے جو آپ کو نہیں ملا ،آپ میری پیروی کیجئے میں آپ کی سیدھی راہ کی طرف رہنمائی کروں گا ۔ ابّا جان ! آپ شیطان کی پرستش نہ کیجئے بیشک شیطان اللہ کا بڑا نافرمان ہے ۔ ابّا جان ! مجھے ڈر ہے کہ آپکو اللہ کا عذاب اپنی گرفت میں لے لے ، پھر آپ شیطان کے ساتھی بن جائیں ۔ باپ نے کہا کہ: اے ابراہیم !کیا تو میرے معبودوں سے برگشتہ ہے اگر تو باز نہ آئے گا تو میں تجھے سنگسار کر دوں گا اور تو ہمیشہ کےلئے مجھ سے دُور ہو جا ۔ابراہیم نے کہا میں آپ کو سلام کہتا ہوں ، میں آپ کےلئے اپنے رب سے بخشش مانگوں گا بیشک وہ مجھ پر نہایت مہربان ہے ۔ اور میں آپ لوگوں سے اور جن کو آپ اللہ کے سوا پکارتے ہیں اُن تمام سے کنارہ کشی اختیارکرتا ہوں اور میں اپنے ہی رب کو پکاروں گا ،امید ہے کہ میں اپنے رب کو پکار کر محروم نہیں رہوں گا ۔( مریم :۴۲تا۴۸)

سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ کی خیر خواہی اور طلب مغفرت کےلئے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا ، جب تک قریب رہے حق وہدایت کا راستہ دکھا تے رہے ، لیکن جب باپ نے آپ کی ساری خیر خواہی کا جواب ،مزید کفر وعناد سے دیا تو آپ نے باپ سے براءت کا راستہ اختیار کیا ، فرمان باری ہے:

اور ابراہیم کااپنے باپ کےلئے بخشش مانگنا توصرف اس وعدے کو پورا کرنے کے لئے تھا جو وہ اُس سے کر چکے تھے لیکن جب اُنہیں معلوم ہو گیا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو اُس سے کنارہ کش ہو گئے، بے شک کہ ابراہیم بڑے نرم دل اوربرد بار تھے ‘‘۔(توبہ :۱۱۴)

حدیث میں آیا ہے : ” قیامت کے دن سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے آپ کا باپ آذر اس حال میں ملے گا کہ اس کے چہرے پر ذلت ورسوائی اور غبار چھایا ہوگا ، سیدنا ابراہیم علیہ السلام فرمائیں گے : ابّا جان ! کیا میں نے دنیا میں آپ سے یہ نہیں کہا تھا کہ آپ میری نافرمانی نہ کریں ؟ وہ کہے گا : آج میں تمہاری کوئی نافرمانی ہرگز نہیں کروں گا ۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام اﷲ تعالیٰ سے التجا کریں گے : میرے رب ! تو نے مجھ سے یہ وعدہ کیا تھا کہ روز قیامت مجھے رسوا نہیں کرے گا ‘ اس سے بھی زیادہ رسوائی اور کیا ہوسکتی ہے کہ میراباپ ہدایت سے دور هوكر دوزخ میں جائے۔ اﷲ تعالیٰ جواب دے گا : اے ابراہیم ! یہ تو آپ کو معلوم ہی ہے کہ میں نے جنت کافروں کے لئے حرام کر دی ہے ۔ پھر آپ سے کہا جائے گا : آپ اپنے قدموں کے پاس دیکھیں تو وہاں بِجّو کی شکل کا ایک جانور پڑا ہوگا جس کا گلا کٹا ہوگا اور وہ خون میں لت پت ہوگا ، پھر اس کے چاروں پیروں کو پکڑ کر دوذخ میں ڈال دیا جائے گا‘‘ ۔ ( بخاری )

یعنی سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو باپ کے دوزخی ہونے کی کوفت سے بچانے کےلئے اﷲ تعالیٰ آذر کی شکل وصورت بدل کر اسے جہنم میں ڈالنے کا حکم دیں گے ۔

نمرود سے مناظرہ :

کلدانیوں کے بادشاہ نمرود کا شمار دنیا کے ان خود سر اور متکبر بادشاہوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی خدائی کا اعلان کیا تھا ۔سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے دور کا یہ فرعون وقت تھا ، جب اس شخص کو یہ پتہ چلا کہ ایک شخص ایسا بھی ہے جو مجھے خدا نہیں تسلیم کرتا ہے ، آپ کو بیڑیوں میں جکڑ کر نمرود کے سامنے پیش کیا گیا ، سیدنا ابراہیم علیہ السلام تمام شاہی آداب کو بالائے طاق رکھ کر اس سرکش بادشاہ کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہوگئے ۔ نمرود نے پوچھا کہ تمہارے رب کی کونسی ایسی خصوصیت ہے جو مجھ میں نہیں ہے ؟سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے جواب دیا :” میرا رب بے جان اشیاءمیں جان ڈالتا ہے ، انہیں زندگی عطا کرتا ہے اور پھر وقت مقررہ پر ان کی جان واپس لے لیتا ہے‘‘۔ نمرود نے اپنے درباریوں کو دھوکہ میں مبتلا رکھنے کے لئے کہا : یہ کام تو میں بھی کرسکتا ہوں ۔ اس نے دو قیدیوں کو حاضر کرنے کا حکم دیا ، ایک بے گناہ کو قتل کردیا اور مجرم کو چھوڑ دیا ، پھر شیخی بگھارتے ہوئے کہنے لگا کہ یہ کام تو میںنے بھی کیا ہے ۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے جب دیکھا کہ یہ متکبر، عقل سے بھی پیدل ہے تو آپ نے اس کے سامنے یہ موٹی بات پیش کی کہ میرا رب سورج کو روزانہ مشرق سے نکالتا ہے ، اگر تو خدائی کا دعویدار ہے تو ایک دن مغرب سے نکال کر دکھادے ۔ نمرود یہ سن کر ہکّا بکّا اور بھونچکا رہ گیا ۔ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے : ”کیا آپ نے اُس شخص کے حال پرغور نہیںکیا جس نے ابراہیم سے ان کے رب کے بارے میں جھگڑا کیا،اس سبب سے کہ اللہ نے اُسکو سلطنت بخشی تھی ۔ جب ابراہیم نے کہا کہ میرا رب تو وہ ہے جو زندگی اور موت دیتا ہے۔ وہ بولا کہ میں بھی جِلا اور مار سکتا ہوں۔ ابراہیم نے کہا کہ اللہ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے، تو اُسے مغرب سے نکال کر دکھا، توکافر لاجواب ہو گیا اور اللہ بے انصافوں کو ہدایت نہیں دیتا‘‘ (بقرہ : ۲۵۸)

قوم کو دعوت توحید :

بادشاہ وقت پر دلائل سے توحید الٰہی کی حجت قائم کرنے کے بعد آپ نے قوم کی طرف توجہ مبذول فرمائی ، انہیں دعوت توحید دینے سے پہلے ان کے معبودان باطلہ کی ضعف وکمزوری ، بے مائیگی اور لاچاری کو روز روشن کی طرح عیاں کردیا ،اس کے لئے آپ نے ایک حکمت عملی اپنائی ، وہ یہ کہ لوگ سال میں ایک مرتبہ اپنے ایک مذہبی تہوارپر جشن منانے کے لئے گاؤ ں سے باہر چلے جاتے تھے اور جاتے ہوئے اپنے بتوں کو نہلا دھلا کر ان کو خوشبوسےمعطر کرکے انکے سامنے نذر ونیازاور چڑھاوے چڑھا کر باہر جاتے اور اس مذہبی جشن میں شرکت کے بعد سب سے پہلے بت خانے میں آتے اور بتوں کی پرستش کرکے اپنے گھروں کو لوٹتے تھے ۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے انکے بتوں کو پاش پاش کرنے کی ٹھان لی ، مقصد صرف بت شکنی نہیں ، بلکہ ان عقائد کا بطلان تھا کہ جویہ لوگ ان بتوں کے متعلق رکھے ہوئے ہیں کہ وہ اپنے ماننے والوں کی حاجت روائی کریں گے ، مشکل کشائی کریں گے اوران کی مصیبتیں دور کریں گے، اور جو ان کی شان میں ادنیٰ سی گستاخی کا مرتکب ہوگا اسے بھسم کردیں گے ۔سیدنا ابراہیم علیہ السلام قوم کے جانے کے بعدبتکدے میں داخل ہوئے اور چڑھاو ں کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ:” ان چیزوں کو تم کیوں نہیں کھاتے ، جب ان سے کوئی جواب نہیں آیا تو فرمایا : تمہیں کونسا روگ لگ گیا ہے کہ بولتے بھی نہیں ہو ؟اس کے بعد کلہاڑا لے کر سوائے بڑے بت کے آپ نے تمام کے ٹکڑے ٹکڑے کردئے۔ اسکے بعد کیا ہوا خود قرآن عظیم کی زبانی سنئے :

”اور ہم نے ابراہیم کو اس سے پہلے اچھی سمجھ دی تھی اور ہم اُنہیں خوب جانتے تھے ۔جب انہوں نے اپنے باپ اور اپنی قوم کے لوگوں سے یہ کہا کہ یہ کیا مُورتیں ہیں جن کی تم پرستش کرتے ہو؟ ۔ وہ کہنے لگے کہ ہم نے اپنے باپ دادوںکو اُن کی عبادت کرتے پایا ہے۔ ابراہیم نے کہا کہ تم بھی گمراہ ہو اور تمہارے باپ دادا بھی کھلی گمراہی میں مبتلاہیں۔ وہ بولے کیا تم ہمارے پاس واقعی دین حق لائے ہو یا یونہی مذاق کررہے ہو؟ ابراہیم نے کہا ،بلکہ تمہارا رب آسمانوں اور زمین کا رب ہے جس نے ان کو پیدا کیا ہے اور میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں۔ اور اللہ کی قسم جب تم پیٹھ پھیر کر چلے جاؤ گے تو میں تمہارے بتوں کے خلاف کاروائی کروں گا ۔ پھرسوائے ان کے بڑے بت کے سب کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا تاکہ وہ اس بت کے پاس واپس جائیں ۔ انہوں نے کہاجس نے ہمارے معبودوں کی یہ درگت بنائی وہ واقعی ظالم آدمی ہے۔ لوگوں نے کہا کہ ہم نے ایک جوان کو ان کا ذکر کرتے ہوئے سنا ہے اس کو ابراہیم کہتے ہیں۔ وہ بولے کہ اسے لوگوں کے سامنے لا ؤتاکہ وہ اسے دیکھیں ۔ (جب ابراہیم علیہ السلام آئے تو) لوگوں نے پوچھا: اے ابراہیم کیا تم نے ہی ہمارے معبودوں کا یہ حال بنایاہے؟ ابراہیم نے کہا : یہ ساری کارستانی توتمہارے اس بڑے بت کی معلوم ہوتی ہے ، اگر یہ بت بولتے ہوں تو خود ہی ان سے پوچھ لو ۔ پھرانہوں نے اپنے دل میں اس حقیقت پر غور کیا تو پھرآپس میں کہنے لگے کہ در حقیقت تم ہی ظالم ہو ۔ پھر فورا اعتراف حقیقت سے مُکر گئے اور کہنے لگے کہ تم توجانتے ہی ہو کہ یہ بولتے نہیں۔ ابراہیم نے کہا کہ پھر تم اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیزوں کو کیوں پوجتے ہو جو تمہیں نہ کچھ فائدہ دے سکتے ہیں اور نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں ۔ تُف ہے تم پر اورتمہارے ان معبودوں پر جن کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو، کیا تم اتنی بھی عقل نہیں رکھتے؟ لوگوں نے کہا: تم لوگ اسے جلا دو اوراگر اپنے معبودوں کی مدد کرسکتے ہو تو یہ کام ضرور کرگذرو ۔ (الا نبیاء:۱۵۔۹۶)

آگ کرسکتی ہے انداز ِ گلستاں پیدا

دلائل کی اس چومکھی جنگ میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے بادشاہ نمرود ، اپنے والد آذر اور اپنی قوم کو چاروں شانے چت کردیا ، جب وہ دلائل سے ہار گئے تو انہوں نے ظلم وستم کا وہی ہتھکنڈہ استعمال کیا جو کہ دنیا کا ہر ظالم وجابر طاقت وقوت سے مسلح اور عقل سے پیدل شخص کرتا ہے ، یعنی یہ اعلان کیا کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو زندہ آگ میں جلادو اور اس مکروہ عمل سے اپنے معبودوں کی خوشنودی حاصل کرو ۔ مگر وہ پہاڑ سے زیادہ مضبوط دل رکھنے والا انسان جو کہ رب العالمین پر ایمان لا چکا تھا اسکی رضا کےلئے اس ہولناک سزا کو بھی بخوشی بھگتے کےلئے تیار ہوگیا ۔ کیونکہ :

جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی

حق تو یہ ہے، کہ حق ادا نہ ہوا

سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں جلانے کے لئے ایک بڑا الاؤ جلایا گیا ، اس آگ کی لپیٹیں اس قدر زیادہ تھیں کہ کوئی قریب نہیں جا سکتا تھا ، آپکو آگ میں ڈالنے کےلئے ایک منجنیق بنائی گئی اسے بنانے والا” ہزن‘‘ نامی ایک کردی شخص تھا جسے اﷲ نے فورا زمین میں دھنسادیا، منجنیق پر بٹھا کرآپکے کپڑے اتارے گئے ، شاید اسی وجہ سے قیامت کے دن سب سے پہلے آپکو کپڑے پہنائے جائیں گے کہ آپکے کپڑے دنیا میں اﷲ کےلئے اتارے گئے تھے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے

” تمام لوگ قیامت کے دن ننگے بدن ، ننگے پیر اور بے ختنہ اٹھائے جائیں گے ، تمام انسانوں میں سب سے پہلے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو کپڑے پہنائے جائیں گے ، ان کے بعد دیگر انبیاء علیہ السلام کو کپڑے پہنائے جائیں گے ‘‘۔ ( بخاری )

آگ میں گرائے جاتے وقت آپ کی زبان مبارکہ پر یہ الفاظ تھے :

حسبنا الله ونعم الوکیل ، اللہم ا نت فی السماءواحد وا نا فی الا رض واحد عبدک

ترجمہ : اے اﷲ تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، تیری ذات پاک ہے ، تمام تعریفیں اور ہر طرح کی بادشاہت تیرے ہی لئے ہے ، تیرا کوئی شریک نہیں ہے ، یا اﷲ ! آسمان میں تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے ر روئے زمیں پر میرے سوا تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں ہے۔(ابن كثير)

تفاسیر میں آتا ہے کہ آگ میں گرائے جانے سے پہلے فرشتوں نے اپنی اپنی مدد کی آپ کو پیش کش کی ، لیکن تمام کے لئے آپ کا جواب یہی تھا کہ کیا میرے رب کو اس کی خبر ہے کہ نہیں ؟ جب اسے علم ہے تو پھر مجھے آپ کی مدد کی کوئی ضرورت نہیں ۔ سچ ہے :

توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے

یہ بندہ دو عالم سے خفامیرے لئے تھا

اﷲ تعالیٰ نے آگ کو حکم دیا کہ :

قُلْنَا يٰنَارُكُـوْنِيْ بَرْدًا وَّسَلٰمًا عَلٰٓي اِبْرٰهِيْمَ ؀ وَاَرَادُوْا بِهٖ كَيْدًا فَجَعَلْنٰهُمُ الْاَخْسَرِيْنَ   ؀

”ہم نے کہا کہ: اے آگ! تو ابراہیم کے لئے ٹھنڈی اور سلامتی والی بن جا ۔ ان لوگوں نے اس کے خلاف سازش کرنی چاہی جس میں ہم نے انہی کو نقصان میں ڈال دیا ۔ (الا نبیاء:69تا70)

آگ سیدنا ابراہیم علیہ السلام پر گل وگلزار بن گئی ، اور سچ ہے کہ :

آج بھی ہو جو ابراہیم کا ایماں پیدا

آگ کرسکتی ہے انداز گلستاں پیدا

اس آگ میں آپ چالیس دن تک رہے ، اس آگ میں جو آرام اورجو راحت آپ کو ملی شاید زندگی میں کبھی نہیں ملی ۔

اس کے بعد جب قوم کی سرکشی انتہا کو پہنچ گئی اور آپکی امیدیں اپنی قوم کے قبولِ اسلام سے کٹ گئیں تو آپ نے انہیں چھوڑ دیا اور اپنی بیوی سیدہ سارہ علیہا السلام اور بھتیجے حضرت لوط علیہ السلام کے ساتھ اﷲکے لئے ہجرت کی ۔

وَقَالَ اِنِّىْ مُهَاجِرٌ اِلٰى رَبِّيْ ۭ اِنَّهٗ هُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ       ؀

”کہا:میں اپنے رب کی طرف ہجرت کررہا ہوں بے شک وہ زبردست‘ حکمت والا ہے ‘‘( العنکبوت: 26)

وطن سے نکل کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ملک شام کی طرف ہجرت کی ‘پھردعوت توحید دینے کے لئے کبھی مصر میں ظالم وجابر بادشاہ کے دربار میں ، کبھی کنعان کی بستیوں میں اور کبھی عرب کی چلچلاتی ہوئی دھوپ میں تبلیغ توحید میں مصروف نظر آتے ہیں ،اس ساری مدت میں اقوام عالم کے سامنے آپ کی ایک ہی دعوت تھی کہ تمام باطل خداو ں کی بساط لپیٹ دو اور ایک اﷲ کے بندے بن کر رہو ۔ اسی دعوت توحید میں آپکی ساری جوانی ختم ہوگئی اور کالے بال سفید بالوں میں تبدیل ہوکر رہ گئے۔

نیک اولاد کی طلب اور آزمائش :

جب آپ کی عمر (۹۰)نوے سال کی ہوئی تو یہ فکر دامن گیر ہوئی کہ میرے بعد اس دعوت توحید کا کیا ہوگا؟ چنانچہ اسی سلسلۂ دعوت توحید کو جاری رکھنے کے لئے آپ اﷲ تعالیٰ سے ایک نیک فرزند کے طلب گار تھے ، اسی نیک مقصد کے لئے آپ نے یہ دعا فرمائی :

رَبِّ هَبْ لِيْ مِنَ الصّٰلِحِيْنَ   ؁ (الصّافّات100)

اﷲ تعالیٰ نے دعا کو شرف قبولیت عطا فرماتے ہوئے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی خوشخبری عطا فرمائی جوکہ آپکی دوسری بیوی سیدہ ہاجرہ علیہا السلام کے بطن مبارک سے پیدا ہوئے ۔ بڑھاپے کی اولاد انسان کو جان سے زیادہ محبوب ہوتی ہے،حضرت اسماعیل علیہ السلام سے آپ کی محبت بالکل اسی طرح تھی جیسے ایک مشفق باپ کی ہوتی ہے ، اﷲ تعالیٰ نے آپ کو بچے کی دوری سے آزمانا چاہا کہ کیا آپ کو اپنے رب سے زیادہ محبت ہے یا اکلوتی اولاد سے ؟ لیکن وہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام جنہوں نے رب کی محبت میں گھر بار ، دولت وعزت ، خاندان و قبیلہ اور ملک ووطن غرضیکہ سب کچھ چھوڑ دیا ، آگ میں کود گئے ، انہوں نے اپنے عمل سے یہ ثابت کردیا کہ اﷲ کی محبت کے آگے ساری دنیا کی محبت ہیچ ہے ، حکم کی تعمیل کرتے ہوئے آپ اپنی بیوی حضرت ہاجرہ اور بیٹے اسماعیل علیہما السلام کے ساتھ مکّہ پہنچ گئے جو اس وقت غیر آ باد تھا بلکہ زندگی کے بنیادی وسائل حتی کہ پانی سے بھی خالی تھا ‘وہاں آپ نے اپنی بیوی بچے کو اﷲکے حکم سے چھوڑا ‘پانی کی ایک مشک اور ایک تھیلی میں کھجوریں پاس چھوڑدیں اور پھر ملک شام لوٹ گئے‘ پیچھے مڑ کر بھی نہیں دیکھا ،سیدہ ہاجرہ علیہا السلام آپ سے لپٹ گئیں ، کہنے لگیں کہ آپ ہمیں کس کے سہارے چھوڑے جارہے ہیں ، لیکن آپنے کوئی جواب نہیں دیا، پھر سیدہ ہاجرہ علیہا السلام نے پوچھا : کیا اﷲ تعالیٰ نے آپ کو اس بات کا حکم دیا ہے ؟ آپ نے اثبات میں گردن ہلائی تو فرمایا : جائیے ، پھر ہم کو اﷲ ضائع نہیں کرے گا۔ ( بخاری )

پھر سیدنا ابراہیم علیہ السلام جس وقت گھاٹی کے پاس پہنچے اس طرح کہ وہ حضرت ہاجرہ اور ا سماعیل علیہ السلام آپ کو دیکھ نہیں سکتے تھے ‘آپ نے بیت اﷲکی طرف اپنا چہرہ کیا ‘پھر ہاتھ اٹھا کر یہ دعا کی:

رَبَّنَآ اِنِّىْٓ اَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِيْ بِوَادٍ غَيْرِ ذِيْ زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ ۙ

” اے ہمارے رب !میں نے اپنی اولاد میں سے کچھ کو تیرے باعزّت گھر کے پاس بے سبزہ وادی میں لابسایا ہے ‘‘۔ (ابراہيم :37)

پھر وہ مقصد بھی ذکر کیا جس کے لئے آپ نے انہیں وہاں چھوڑا :

رَبَّنَا لِيُقِيْمُوا الصَّلٰوةَ فَاجْعَلْ اَفْىِٕدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِيْٓ اِلَيْهِمْ وَارْزُقْهُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُوْنَ

” اے ہمارے رب!غرض صرف یہی ہے کہ وہ نماز کریں ‘ تو لوگوں کے دل ان کی طرف مائل کردے ‘اور انہیں پھلوں سے روزی دے تاکہ وہ شکر ادا کریں‘‘۔(ابراہيم :37)

لخت جگر کی قربانی کا حکم :

سیدنا ابراہیم علیہ السلام واپس ملک شام چلے گئے کئی سال گذرنے کے بعد خواب میں دیکھا کہ آپ اپنے لخت جگر کو قربان کررہے ہیں ، صبح اٹھ کر آپ نے ایک سو اونٹوں کی قربانی کی ، پھر دوسری رات میں یہی خواب دوبارہ دیکھا ، صبح اٹھ کر پھر قربانی کی ، تیسری رات پھر یہی منظر دیکھا تو پھر قربانی کی ، پھر جب چوتھی رات بھی یہی خواب دیکھا تو سمجھ گئے کہ اﷲ تعالیٰ مجھ سے میری اکلوتی اولاد کی قربانی چاہتا ہے ، چونکہ انبیاءعلیہ السلام کے خوابوں میں شیطان ہرگز ہرگز نہیں آسکتا ، اور ان کے تمام خواب وحی الٰہی ہوتے ہیں تو آپ سیدھا مکہ مکرمہ تشریف لائے اور منٰی کے اس میدان میں جہاں دسویں ذی الحجہ کو لاکھوں حاجی قربانیاں کرتے ہیں ، اپنے لخت جگر کو لا کھڑا کیا اور رب العالمین کا حکم اپنے فرزند کو سنا کر ان سے ان کا ارادہ جاننے کے لئے سوال کیا :

”جب وہ انکے ساتھ دوڑلگانے کی عمر کو پہنچ گیا، تو انہوں نے کہا کہ بیٹا میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں تمہیں ذبح کر رہا ہوں تو تم سوچو کہ تمہاری کیا رائے ہے؟ انہوں نے کہا کہ ابا جان!جو آپ کو حکم ہوا ہے وہی کیجئے اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صبر میں پائے گا‘‘(الصافات :۹۹۔۱۱۱)

لخت جگر نے وہی جواب دیا جس سے باپ کے دل میں روحانی مسرت کی لہر دوڑ گئی :

یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی

سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی

بچے کی قربانی پر اگرچہ کہ آنکھیں اشک بار تھیں ، لیکن دل رب کی اطاعت وفرمانبرداری پرخوشی سے سرشار تھا، چشم فلک نے اطاعت وسرشاری کا اس سے بھی عظیم کوئی منظر نہیں دیکھا ہوگا کہ بیٹا اﷲ کے واسطے ذبح ہونے کےلئے خوشی بخوشی لیٹا ہوا ہے اور باپ حکم الٰہی کی تعمیل میں اپنے نورِ نظر کو قربان کرنے کےلئے چھری اس کے حلق پر رکھے ہوئے ہے۔ فرمان باری ہے :

” جب دونوں نے اﷲ کا حکم مان لیا اور انہوں نے بیٹے کو ذبح کرنے کے لئے پیشانی کے بل لٹا دیا ۔ تو ہم نے ان کو آواز دی کہ اے ابراہیم! آپ نے خواب کو سچا کر دکھایا ہم نیکوکاروں کو ایسا ہی اچھابدلہ دیا کرتے ہیں۔ بے شک یہ کھلی آزمائش تھی۔ اورہم نے اس لڑکے کے فدیہ کے طور پرایک بڑا جانور بھیج دیا۔ اور آنے والی نسلوں میں ان کا ذکرِ خیر باقی رکھا۔ ابراہیم پر سلام ہو۔ نیک لوگوں کو ہم ایسا ہی بدلا دیا کرتے ہیں۔ وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھے۔( الصافات :۱۰۲تا۱۱۱)

ناشکری ،قبول نہیں :

اس کے بعد آپ پھر آپ واپس ملک شام چلے گئے ، اور اسی دوران حضرت ہاجرہ بھی اﷲ کو پیاری ہوگئیں ،پھر حضرت اسماعیل علیہ السلام کی شادی کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے اہلِ خانہ کی خبر گیری کرنے کے لئے مکّہ مکرّمہ تشریف لائے ، تو انہوں نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو گھر میں نہ پایا ، ان کی بیوی سے ان کے بارے میں دریافت کیا …….. پھر ان کے گذران اور حالات کے متعلق پوچھا ۔ بہو نے کہا : ہمارے حالات خراب ہیں اور تنگی کی زندگی گذار رہے ہیں ، پھر اس نے ان کے سامنے اپنے بُرے حالات کا شکوہ کیا۔ آپ نے فرمایا : ” جب تمہارے شوہر آئیں تو انہیں میرا سلام کہنا اور یہ پیغام بھی دینا کہ وہ اپنے گھر کی دہلیز کو بدل دیں ‘‘۔ جب حضرت اسماعیل علیہ السلام تشریف لائے تو انہیں اپنے والد محترم کی خوشبو کا احساس ہوا تو انہوں نے اپنی بیوی سے دریافت کیا : ” کیا آپ کے ہاں کوئی آیا تھا ؟‘‘ اس نے جواب دیا : ” ہاں ! اس شکل وصورت کے بزرگ آئے تھے ، انہوں نے آپ کے متعلق مجھ سے دریافت کیاتو میں نے انہیں بتلادیا ۔ پھر انہوں نے ہمارے گذران کے متعلق دریافت کیا تو میں نے انہیں بتلایا کہ ہم مشکل حالات کا شکار ہیں ۔حضرت اسماعیل علیہ السلام نے پوچھا : ” انہوں نے تمہیں کسی بات کی تاکید کی ؟ ‘‘ ۔ اس نے کہا : ” جی ہاں ! انہوں نے آپ کو سلام پہنچانے کے لئے کہا اور آپ کے لئے یہ پیغام چھوڑا ہے کہ” دروازے کی دہلیز کو تبدیل کردیں ‘‘۔ انہوں نے کہا ” وہ تشریف لانے والے میرے والد محترم تھے اور انہوں نے مجھے تم کو جدا کردینے کا حکم دیا ہے ، اس لئے تم اپنے اہلِ خانہ کے پاس چلی جاؤ ‘‘ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اس عورت کو طلاق دے دی ، اور انہی اہلِ مکّہ میں سے ایک عورت سے شادی کرلی حضرت ابراہیم علیہ السلام کچھ عرصہ مشیّت الہٰی کے مطابق رُکے رہے ، پھر ان کے پاس تشریف لائے ، تو حضرت اسماعیل علیہ السلام کو نہ پایا ، ان کی بیوی کے پاس آئے اور ان کے متعلق دریافت کیا، پھر بہو سے ان کے گذران کے متعلق پوچھا ، اس نے کہا :” ہم خیریت اور خوشحالی میں ہیں ‘‘ اور اس نے اﷲ تعالی کا شکر ادا کیا ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سوال کیا ” تمہاری خوراک ہے ؟‘‘ بہو نے جواب دیا : ” گوشت ‘‘ ۔ انہوں نے پوچھا : ” کیا پیتے ہو ؟‘‘اس نے جواب دیا : ” پانی ‘‘ ۔ انہوں نے کہا : اے اﷲ ! ان کے لئے گوشت اور پانی میں برکت عطا فرما ‘‘ ۔ پھر فرمایا: ” جب تمہارے شوہر آجائیں تو انہیں میرا سلام کہنا اور میرا یہ حکم انہیں سنانا کہ وہ اپنے دروازے کی دہلیز کو برقرار رکھیں‘‘۔ جب حضرت اسماعیل علیہ السلام واپس گھر تشریف لائے تو انہوں نے دریافت کیا : ” کیا آپ کے ہاں کوئی آیا تھا ؟‘‘ بیوی نے جواب دیا : ” جی ہاں ! ایک خوبرو بزرگ تشریف لائے تھے ۔ اس عورت نے ان کی تعریف کی انہوں نے آپکے متعلق مجھ سے دریافت فرمایا تو میں نے انہیں بتلایا۔ پھر انہوں نے ہمارے گذران کے متعلق دریافت کیا تو میں نے انہیں بتلایا کہ ہم خیرت كے ساتھ ہیں ‘‘ انہوں نے کہا : ” انہوں نے آپ کو کسی بات کی وصیت فرمائی ؟ ‘‘ اس نے کہا : ” جی ہاں ،انہوں نے آپکو سلام کہا اور اپنے دروازے کی دہلیز کو برقرار رکھنے کا حکم دیا ‘‘ انہوں نے کہا : ” تمہارے پاس تشریف لانے والے میرے والد تھے اور دہلیز تم ہو ، انہوں نے مجھے تم کواپنے ساتھ رکھنے کا حکم دیاہے ‘‘ ۔(بخاری)

تعمیر خانۂ کعبہ :

تیسری مرتبہ جب آتے ہیں تو حضرت اسماعیل علیہ السلام آپ کو دیکھ کر کھڑے ہوجاتے ہیں،دونوں ایک دوسرے کے ساتھ احترام اور شفقت کا وہی برتاؤ کرتے ہیں جیسا کہ سعادت مند بیٹا باپ کے ساتھ اور مشفق باپ اپنے بیٹے کے ساتھ کرتا ہے ‘پھر آپ فرماتے ہیں : اے اسماعیل!اﷲتعالی نے مجھے ایک حکم دیا ہے ‘اسماعیل علیہ السلام پوچھتے ہیں :آپکو آپکے رب نے کیا حکم دیا ہے ؟آپ فرماتے ہیں :کیا تم اس معاملے میں میری مدد کروگے ؟حضرت اسماعیل علیہ السلام نے جواب دیا :ضرور کروں گا ‘آپ نے فرمایا:اﷲنے مجھے وہاں ایک گھر بنانے کا حکم دیا ہے ‘ساتھ ہی آپ ایک اُبھری ہوئی زمین کی طرف اشارہ کرتے ہیں ‘رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : اس کے بعد دونوں نے مل کر کعبہ کی بنیادوں کو اٹھایا ‘حضرت اسماعیل علیہ السلام پتھر لاتے اور اٹھا اٹھا کر دیتے جاتے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کعبة اﷲ بناتے جاتے اور دونوں یہ کہتے جارہے تھے :

رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ۭ اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ   ؁رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَآ اُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ ۠ وَاَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا ۚ اِنَّكَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ ؁ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيْهِمْ ۭ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ   ؁

”اے ہمارے پروردگار !تو ہماری اس خدمت کو قبول کر‘بے شک تو سننے والا جاننے والا ہے ۔ اے ہمارے رب !توہمیں اپنا فرمانبردار بناکر رکھ اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک گروہ کو اپنا مطیع بنائے رکھنا اور ہمیں ہمارے عبادت کے طریقے سکھادے اور ہمیں بخش دے، بیشک تو بخشنے والا مہربان ہے ۔ اے پرودگار!انہی لوگوں میں سے ان کی ہدایت کے لئے ایک پیغمبر مبعوث فرما،جو ان کو تیری آیتیں پڑھ کر سنائے اور انہیںکتاب اور سنت کی تعلیم دے اور اُن کو پاک کرے بیشک تو زبردست اور حکمت والا ہے ۔(بقرہ :۱۲۷تا۱۲۹)(بخاری)

ان تمام آزمائشوں کے بعد اﷲ تعالیٰ نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو تمام بنی نوع انسانیت کا امام توحید بنایا ، اور آپکے ذریعے مرکز توحید بنایا اور پھر حکم دیا کہ ساری دنیا کے لوگوں کو آپ اس گھر کے حج کی دعوت دیں :

” اور آپ لوگوں میںحج کا اعلان کر دیجئے تاکہ وہ آپکے پاس پیدل چل کراور دبلی اونٹنیوں پر سوار ہو کر ہر دور دراز علاقے سے آئیں‘‘ ۔( الحج :26)

ساتھ ہی خانہ کعبہ کی تعمیر کا مقصد بھی واضح کردیاکہ اس کا سب سے بڑا مقصد اﷲ تعالیٰ کی توحید کو روئے زمین پر قائم کرنا ہے :

”اور جب ہم نے ابراہیم کےلئے خانہ کعبہ کے مقام کی نشاندہی کردی (اور حکم دیا) کہ میرے ساتھ کسی چیز کوشریک نہ کرنا اور طواف کرنے والوں اور قیام کرنے والوں اور رکوع کرنے والوں (اور) سجدہ کرنے والوں کےلئے میرے گھر کو صاف رکھنا ۔( الحج :25)

“اور جب ہم نے خانہ کعبہ کو لوگوں کے جمع ہونے اور امن پانے کی جگہ مقرر کیا اور (حکم دیا کہ) جس مقام پر ابراہیم کھڑے ہوئے تھے اس کو نماز کی جگہ بنا لو اور ابراہیم اور اسماعیل کو کہا کہ طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع کرنے والوں اور سجدہ کرنے والوں کے لئے میرے گھر کو پاک صاف رکھا کرو۔( البقرة ۵۲۱)

چنانچہ اسی مقصد کے حصول کے لئے اور اسی مشن کی تکمیل کے لئے ہر روز اور ہر دن لاکھوں فرزندان توحیدعمرہ ادا کرنے کے لئے خانہ کعبہ کی طرف رخت سفر باندھتے ہیں ، اور بالخصوص موسم حج میںلاکھوں کی تعداد میں توحید کے پروانے صدائے ابراہیمی پر لبیک کہتے ہوئے ، زباں سے توحید کے ترانے گاتے ہوئے خانہ کعبہ کا حج ادا کرتے ہیں اور اٹھتے بیٹھتے ہر وقت ان کی زبانوں پر تلبیہ ، اور رب العالمین کی بندگی کا اقرار ہوتا ہے ۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ امت اسلامیہ جب تک توحید پر قائم ودائم رہے گی دنیا کی کوئی طاقت انہیں ہرگز نہیں مٹاسکتی :

توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے

آساں نہیں مٹانا ، نام ونشاں ہمارا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے