مسنون خطبہ کے بعد : اے لوگو! ایک بہت مشہور مقولہ زبان زد عام ہے۔ عہد پارینہ کے لوگ بھی اسے نسل در نسل نقل کرتے آئے ہیں ، مشرق ومغرب میں اس کی صدائیں سنی جاتی ہیں ۔ اخلاف کو اسلاف سے علمی ورثہ میں ملا ۔ یہاں تک کہ کسی تنازعہ میں اس مقولہ پر بحث اپنے عروج کو پہنچ جاتی ہے۔ اتنامحکم مقولہ ہے کہ جس نے کسی بھی جبر وزیادتی کے آگے حد بندی کردی ہے۔ اس نے شہوات وشبہات کو دیوار وں سے دے مارا ۔ ہر کج روی اختیار کرنے والے کیلئے وہ ضرب کاری ثابت ہوا۔ اور باحثین و محققین جو حق وعدل کے متلاشیان ہیں، توازن واعتدال کے قائلیں ہیں ان کے ایوانوں میں اس کی صدا گونج رہی ہے ۔

یہ کلمات بظاہر اپنی بناوٹ کے اعتبار سے مختصرمگرمعنی کے حساب سے بڑے دو ر رس ہیں ۔ یہ وہ کلمات ہیں جو ابن عباس رضی اللہ عنہ ، اور مجاہد ، اور امام مالک رحمہ اللہ سے منقول ہیں : کہ

لَيْسَ أحدٌ بعدَ النبيِّ إلا يُؤخَذُ من قولِه ويُترَك إلا النبيَّ

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہر ایک کی بات کو لیا بھی جاتاہے اور چھوڑا بھی جاسکتا ہے ۔ صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو کہ اسے لیا جاسکتا ہے چھوڑا نہیں جاسکتا ۔

اللہ کے بندو یہ کتنا بہترین میزان ہے ، کیا اعلی عدل اور عظیم فیصلہ ہے !

اے مسلمانو ! ہم آگ آلود زمانے میں بس رہے ہیں ۔ اس دور کی نمایاں علامات واثرات میں میڈیا کا ظاہری جوش اور ولولہ ہے ۔ جس نے دور والے کو قریب ،اور نا آشنا کو آشنا کردیا ۔ یہ میڈیااپنی اس اتنہا اورعروج کو پہنچ گیا ہے کہ جو فکری ، علمی ، سیاسی ، اقتصادی اور معاشرتی ودیگر آراء کا اکھاڑہ اور آئینہ وپیمانہ بن چکا ہے ۔

دور ر س نظر اور بیدار عقل کے مشاہدہ سے یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ اس میڈیائی جوش وخروش کا لوگوں کے احساسات کو متاثر کرنے ، ان کے افکار وخیالات پراثر انداز ہونےمیں کتنا کلیدی کردار ہے ،جو لوگوں پر کتنی جلد اثر انداز ہوتا ہے ۔ اس ( میڈیا ) کا انحصار واعتماد جذباتی تعبیرات وخیالات پر ہوتا ہے چاہے وہ خیالات وتعبیرات شرعی دلائل اور بنیادی عقلی اصولوں سے عاری ہی کیوں نہ ہو ں ۔نیز اس میڈیائی ولولے کا انحصار اکثر وبیشتر جھوٹے گمان، بے حقیقت دہشت انگیزی ، اور من مستی وخواہش پرستی پر ہے جو چند ارباب قلم ودانش اور میڈیائی گوریلا وار کی طرز ان کے دلوں پر سوار ہے۔ اس میدان میں ان کا راہنماصرف پیشکش میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانااور قارئین وناظرین وسامعین کی ہمدردی حاصل کرنا ،اورعامۃ الناس پر تلبیس کرنا،حقائق کو مسخ کرکے پیش کرنا ہے ۔ ایسے تمام کام یہ لوگ محض ایک ہی نقطہ نظر کی ترجمانی کی صورت میں کرتے ہیں۔ اور یہ ترجمانی اکثریت اور ارباب قوت واقتدار کے نقطہ نظر کی ترجمانی کی صورت میں ہوتی ہے ۔ حالانکہ یہ ایسی خواہش اور ایسا انتخاب ہے کہ جو کسی بھی منصفانہ قوت اور ممکنہ رکاوٹ کے تابع نہیں ہے ۔ یہی وہ بات ہے جو اصحاب عقل ودانش اور ارباب فطرت سلیمہ کو غم زدہ کر دیتی ہے ۔ ایسی ہی صورت حال کے بارے میں کسی نے کہا تھا کہ :

وَيْلٌ للشجِيِّ من الخلِيِّ( خاتون کے ) دوست کے ہاتھوں ( اس کے ) شوہر کی تباہی وہلاکت ہے ۔

اللہ کے بندو یہیں سے خواہشاتی آمریت کا آغاز ہوتا ہے۔ اور عدل وانصاف اور وسطیت کا شیرازہ بکھرتا ہے۔ جی ہاں ! وسطیت تو وہ ہے جو حق ہو ،چاہے جہاں بھی ہو۔ دو امور کے درمیاں کا راستہ وسطیت نہیں۔ جیسا کہ بعض کج فہم لوگ جو وسطیت کے معنی ومفہوم سے ناآشنا ہیں سمجھتے ہیں کہ طرفین کے درمیان کا راستہ وسطیت ہے ۔

جی ہاں اے مسلمانو! اس وقت عدل وانصاف کے دور میں اور حقیقت کی کھوج وتلاش میں انہیں خواہشات کا راج ہے۔ یہ کوئی تعجب خیز بات نہیں کہ اگر کوئی شخص کسی معاشرہ کے معیار اور منزلت کو پرکھنے کاخواہاں ہوتا ہے کہ یہ معاشرہ ثقافتی ، فکری ، اور علمی لحاظ سے کس مقام پر فائز ہے؟ تو وہ سب سے پہلے اس معاشرہ کے قلم نگار ، مفکرین اور ثقافتی لوگوں کے خواہشاتی معیار اور مقام ومنزلت کو قریب سے بھی اور دور سے بھی اور قول وفعل غرض ہر اعتبار سے دیکھتا اور جانچتا ہے ۔

اللہ کے بندو! جس خواہش اور اختیار کی بات ہم یہاں کر رہے ہیں یہ وہ خواہش واختیار ہے جس میں کم خطرے کے پہلو کو حقیقت کا لبادہ پہناتے ہوئے زیادہ پر خطر پہلو سے بڑھا چڑھا کر پیش کیاجاتاہے ۔

دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ : حقائق ومعاملات میں محض خواہش نفس کو سامنے رکھنا ۔ اور جو حقائق خواہش نفس کے ناموافق ہوں ان سے پہلو تہی اختیار کرنا اور نظر انداز کردیناہے۔اور بسا اوقات محض اپنی خواہش نفس کو اور ذاتی مفاد ومصلحت کو سامنے رکھنا ۔ چاہے شریعت ومنطق سلیم میں اس کی کوئی حیثیت اور وقعت نہ ہو ۔ یا پھر اپنی خواہش نفس اور ذاتی مفاد ومصلحت سے ٹکرانے والے حقائق کے بارے میں دہشت انگیزی اور پروپیگنڈا کرنا۔ چاہے وہ دلالت ومنطق میں کتنا ہی وزن کیوں نہ رکھتے ہوں ۔

اللہ کے بندو ! یہی وہ مکروہ عادت ہے کہ جو امتیں بھی اس میں ملوث ہوئیں وہ اللہ کے غضب کی مستحق ٹہریں ۔ جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے :

أَ فَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ

ترجمہ :تو کیا تم بعض کتاب پر ایمان لاتے ہوئے اور بعض کا کفر کرتے ہو۔(البقرة: 85)

اسی کے بارے میں سورہ مطففین میں فرمایا:

وَيْلٌ لِّلْمُطَفِّفِيْنَ الَّذِينَ إِذَا اكْتَالُوْا عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُوْنَ وَإِذَا كَالُوْهُمْ أَوْ وَّزَنُوْهُمْ يُخْسِرُوْنَ

ترجمہ : خرابی ہے گھٹانے والوں کی۔ وہ لوگ کہ جب ناپ کرلیں لوگوں سے تو پورا بھر لیں ۔ اور جب ناپ کردیں ان کو یا تول کر تو گھٹا کر دیں۔ [المطففين: 1-3]

جی ہاں ، یہ وہ خواہش ہے جو انتخاب اورجانبداری کو جہاں ذاتی مفاد ہوتا ہے اسی طرف لے جاتی ہے ۔ جبکہ حقیقت میں حق کی پیروی کرنا ضروری ہوتا ہے چاہے نفس وجان پر وہ کتنا ہی شاق اور مشکل کیوں نہ گذرے۔ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں رب تعالیٰ نے فرمایا:

وَمِنْهُمْ مَنْ يَلْمِزُكَ فِي الصَّدَقَاتِ فَإِنْ أُعْطُوْا مِنْهَا رَضُوا وَإِنْ لَّمْ يُعْطَوْا مِنْهَآ إِذَا هُمْ يَسْخَطُونَ

اور بعضے ان میں وہ ہیں کہ تجھ کو طعن دیتے ہیں خیرات بانٹنے میں سو اگر ان کو ملے اس میں سے تو راضی ہوں اور اگر نہ ملے تو پھر وہ ناخوش ہو جائیں ۔ [التوبة: 58]

ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ : اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ان لوگوں کی مذمت کی ہے جن کے پاس اگر حق بات ان ذرائع سے معلوم ہو جن سے انہیں بغض وعناد ہے تو اسے رد کر دیتے ہیں ۔ اور اگر اسے وہ لوگ پیش کریں جن سے انہیں محبت ہے تو قبول کر لیتے ہیں ۔ یہ تو اُس امت کا کردار وگفتار ہے جن پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہوا ہے ۔

اللہ کے بندو ! معاملہ یہاں سے خطرناک صورت اختیار کر جاتاہے جب اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے کہ اختلافی معاملہ میں وہاں سے فیصلہ کرایا جا سکے ، تو یہاں ان لوگوں کی مکروہ خواہش ابھر کر سامنے آجاتی ہے ۔ یہاں تو یہ لوگ حق ِشرعی کی ہیبت اور اس کی طرف رجوع کے حکم ِ ( شرعی ) کو بھی نظر انداز کرجاتے ہیں ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس طرح کے افراد کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا :

وَ اِذَا دُعُوْٓا اِلَى اللهِ وَرَسُوْلِهٖ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ اِذَا فَرِيْقٌ مِّنْهُمْ مُّعْرِضُوْنَ ؀ وَ اِنْ يَّكُنْ لَّهُمُ الْحَقُّ يَاْتُوْٓا اِلَيْهِ مُذْعِنِيْنَ ؀ اَفِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ اَمِ ارْتَابُوْٓا اَمْ يَخَافُوْنَ اَنْ يَّحِيْفَ اللهُ عَلَيْهِمْ وَرَسُوْلُهٗ ۭ بَلْ اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ ؀

ترجمہ : اور جب ان کو بلائے اللہ اور رسول کی طرف کہ ان میں قضیہ چکائےتو یہ ایک فرقہ کے لوگ ان میں منہ موڑتے ہیں ۔ اور اگر ان کو کچھ پہنچتا ہو تو چلے آئیں اس کی طرف قبول کرنے ۔ کیا ان کے دلوں میں روگ ہے یا دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں، یا ڈرتے ہیں کہ بے انصافی کرے گا ان پر اللہ اور اس کا رسول کچھ نہیں وہ ہی لوگ بے انصاف ہیں ۔ [النور: 48-50]

امام دارمی رحمہ اللہ نے جب بعض اہل بدعت اور خواہش پرستوں پر رد کیا جنہوں نے مومنین کی روز قیامت اللہ تعالیٰ کی زیارت کے اثبات والی نصوص کا انکار کیا ، پھر مجاہد رحمہ اللہ سے مروی ایک ضعیف اثر کو بنیاد بنانے لگ گئے ، جس میں انہوں نے رب تعالیٰ کے اس فرمان :

وُجُوهٌ یَّوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ   [القيامة: 22، 23]

کتنے منہ اس دن تازہ ہیں ۔ اپنے رب کی طرف دیکھنے والے۔

اس آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ لوگ اپنے رب کے ثواب کے منتظر ہوں گے ۔

اس پر امام دارمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ؛کیا تم لوگوں کا یہ دعوی نہیں کہ تم ان آثار کو قبول نہیں کرتے اور نہ انہیں حجت سمجھتے ہو ، تو پھر امام مجاہد سے مروی اس اثر کو حجت کیوں بناتے ہو ، محض اس وجہ سے کہ اس میں تمہیں اس میں اپنے باطل نظریئے کی تائید مل گئی ہے ۔ جبکہ تم نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار اور آپ کے اصحاب اور پھر تابعین کے آثار اگر تمہارے مذاھب کے مخالف آئیں تو ان کو محض شک کی بنا پر ان کو بھی ترک کر دیاہے یہ روش محض شذوذ ، انفرادیت اور خواہش پرستی کی امنگوں کے باعث تم سے ایسا عمل سرزد ہوتاہے ۔

اللہ کے بندو! خواہش پرستی یہی ہے کہ حق کو صرف اس وقت قبول کرنا جب اس میں شخصی مقصد اور فکری مصلحت نظر آئے ۔ اگر مقصد نہیں تو اسے نظر انداز کردیا جائے ۔ بلکہ اصلاح نفس کی ضرورت اور برائی کی بیماری میں مبتلا ہونے کے باوجود حق کو رد کیا جاتاہے ۔ جیسا کہ خواہش پرستی کی بیماری میں مبتلا بعض لوگ صرف یہی یاد رکھتے ہیں کہ اللہ غفور و رحیم ہے او ر یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ شدید العقاب بھی ہے ۔

ہم دیکھتے ہیں کہ خواہش نفس کی بیماری میں مبتلا لوگ اصلاح پسندی، حکمرانوں کے احتساب اور امر بالمعروف کی فرضیت کے دلائل تویاد رکھتے ہیں ،مگر نیکی کے کاموں میں حکمرانوں کی سمع وطاعت نیز جماعۃ المسلمین اور ان کے امام کو لازم پکڑنے کے دلائل سے صرف نظر کرجاتے ہیں ۔ یہ ایسا ہی ہے کہ وہ لوگ موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو تو پڑھتے ہیں ۔

وَإِنِّي لَأَظُنُّكَ يَا فِرْعَوْنُ مَثْبُورًا [الإسراء: 102]

( ترجمہ :اور میرے خیال میں فرعون تو غارت ہوا چاہتا ہے )

اور یہ بھول جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں یہ بھی فرمایا کہ :

فَقُولَا لَهُ قَـوْلًا لَيِّنًا     [طه: 44]

( سو کہو اس سے بات نرم شاید وہ سوچے یا ڈرے )

ہم دیکھیں کہ یہ لوگ ذہنی طور پر اتنے روبہ زوال ہیں اور ایسی فکری ونظریاتی پستی میں مبتلا ہیں ، کہ اگر کوئی مسجد میں چوری کرے تو مطالبہ کرتے ہیں کہ مسجد کو گرا دینا چاہئے ۔ اور اگر کوئی باپردہ عورت خیانت اور دھوکہ اور جعل سازی کی مرتکب ہو تو کہتے ہیں کہ اس کا پردہ اتار نا واجب ہے ۔ تو ان لوگوں نے نہ تو چور کا ہاتھ کاٹنے کا ، اور نہ اس خیانت کرنے اور دھوکہ دینے والی کو تعزیر اتی سزا دینے کا مطالبہ کیا بلکہ مسجد کو گرانے اور پردہ اور حجاب اتارنے کا مطالبہ کرنے لگے ۔ یہی وہ خواہشاتی ناسور ہے جو ان پراگندہ ذہنوں پر مسلط ہے ۔

اس لئے خواہش پرستوں کی یہ نشانی رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس نفس کو قتل کرنا حرام ٹھہرایا ہے اسے قتل کردیتے ہیں ۔ اورپھر پوچھتے ہیں کہ حرم میں مکھی مارنے کا کیا حکم ہے ؟! ۔ ایسے من پسند لوگوں کی لسان حال یہ صدا لگا رہی ہوتی ہے کہ ۔

أصُمُّ عن الأمر الذي لا أريده وأسمع خلقَ الله حين أشاء

جس امر سے مجھے کوئی غرض نہیں اس سے میں بہرہ ہوجاتا ہوں ۔ اور جب اپنی ضروت ہوتی ہے تو چا ہوں تو تمام خلق کی بات سننے کو تیار ہوتا ہوں ۔

انہی خواہش پرستوں کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ وہ آنکھ کی کنک پر نظر رکھتے ہیں ، اور بڑے سے بڑے ورم سے پہلو تہی اختیار کر جاتے ہیں ۔

ایسے لوگوں کا شیوہ دو رخی اختیار کرنا ، ذہنی پراگندگی اور اخلاقی بے ہودگی کا طرز عمل اختیار کرکے نفس وذات کو دھوکہ دیتے ہیں ، اور نفس اور معاشرے کو فکری ونظریاتی خوابِ غفلت میں مبتلا کرتے ہیں ۔ ، یہ سب محض خواہش نفس کی تسکین وتسلی کے لئے کیا جاتا ہے ۔ ایسے لوگوں کاہدف محض نفس ہوتا ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل اور نہ ہی اللہ تعالیٰ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے منع کردہ عمل سے بچاؤ ۔ فرمانِ الٰہی ہے

ترجمہ : ایمان والوں کی بات یہی تھی کہ جب بلائے ان کو اللہ اور رسول کی طرف فیصلہ کرنے کو ان میں تو کہیں ہم نے سن لیا اور حکم مان لیا اور وہ لوگ کہ انہی کا بھلا ہے ۔ اور جو کوئی حکم پر چلے اللہ کے اور اس کے رسول کے اور ڈرتا ہے اللہ سے اور بچ کر چلے اس سے سو وہ ہی لوگ ہیں مراد کو پہنچنے والے ۔

دوسرا خطبہ :

حمد و ثنا کےبعد : یہ اچھی طرح جان لو کہ خواہش پرستی ایک مذموم صفت اور بڑے عار وعیب کا مظہر ہے ۔

خواہش پرستی سے جب کوئی متصف ہوتا ہے تو وہ سچائی اور توازن کھو بیٹھتا ہے۔ گویا کہ ارباب ِعقل ودانش واصحاب فطرت سلیمہ کے سامنے اپنا مقام ومعیار کھو بیٹھتاہے ۔ الغرض ۔ نہ تو خواہش پرست والد ، نہ خواہش پرست دوست اور نہ ہی خواہش پرست معلّم کامیاب ہوسکتا ہے نہ اسے فلاح مل سکتی ہے ۔ اسی طرح طالب علم ، مفکر ، کاتب ، اور ناصح اور سیاست دان کا بھی یہی حال ہے

جو شخص خواہش پرستی کی بیماری میں مبتلا ہوتا ہے تو گردشِ زمانہ ایک نہ ایک روزاس کا پردہ فاش کردے گی ، کیونکہ جو اپنی خواہشات کی آگ کے پیچھے اڑان بھرتا ہے ۔تو کل اس کو اس سے مکمل برعکس صورت حال کا سامنا کرنا ہوگااور اس وقت کوئی چارہ جوئی کام نہیں آئی گے ۔ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو یہ وصیت کرتے ہوئے فرمایاکہ ((ولا تكلَّمْ بكلامٍ تعتذِر منه غدًا)) رواه أحمد وابن ماجه۔ ( ترجمہ :آج ایسی بات نہ کرو کہ جس سے کل تمہیں معذرت پیش کرنی پڑے ۔ )

اللہ کے بندو ! اگر ہم اپنے معاشرہ سے خواہش پرستی کی بیماری کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں چاہئے کہ دو باتوں کو ضرور سامنے رکھیں ۔

اول : واقعہ کا صحیح نقطہ نظر پیش کریں ۔

دوم : واقعے کے تمام پہلؤوں کی صحیح کوریج کریں ۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو امو ر کی عملی تطبیق ہمیں اس نوجوان کے واقعہ میں کر کے بتادی ۔ جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ :ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لایا اور زنا کرنے کی اجازت طلب کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا کہ ((أتُحبُّه لأمِّك؟))، کیا اپنی ماں کے لئے ایسا کرنا پسند کرتے ہو؟ ۔ کہنے لگا نہیں میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں اللہ کی قسم نہیں

! ((ولا الناسُ يُحبُّونه لأمَّهاتهم))

اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو لوگ بھی اپنی ماؤں کے ساتھ اس طرح کیا جانا پسند نہیں کرتے ۔ پھر آپ نے اس سے اس کی بیٹی ، بہن ، چچی ، خالہ کے بارے میں بھی یہی سوال دہرایا ۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس نوجوان کے ساتھ موقف ہمارے لئے معاملات میں فیصلہ کرنے ، اور انہیں ڈیل کرنے کے حوالے سےایک بنیادی اور رہنما اصول کی حیثیت رکھتا ہے ۔ کہ اس طرح کے معاملات میں دو بنیادی وضروری عناصر کا ہونا ہے ۔ان دو عناصر میں

ایک: عدل کا عنصر ۔

دوسرا : علم کا عنصر ہے ۔

کیونکہ ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے تمام شعبہ ہائے زندگی میں لوگوں کی ہدایت ورہنمائی کو اپنا ہدف بنائیں ،نہ کہ انہیں مشتعل کرنے اور ناراض کرنے اور گمراہ کرنے کی تگ ودو میں رہیں ۔ اور ہمیں چاہئے کہ رہنمائی وآگاہی کو اپنا شعار بنائیں نہ کہ لوگوں میں اضطراب واشتعال کی فضا پیدا کریں ۔نیز نصیحت کی کاوش کریں نہ کہ لوگوں کو شرمسار کرنے اور مذمت کرنے کے طرز کو اپنائیں۔ اور لوگوں کے سامنے حقیقت بیان کریں نہ کہ اپنے ذاتی خیالات واحساسات کی ترجمانی کریں ۔ ہمیں حق پر غیرت کرنی چاہئے نہ کہ اپنی ذات کی کامیابی کی جستجو میں لگے رہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نفع کا اثر مقصد ونیت کے اثر سے ظاہر ہوتا ہے ۔ جب نیت میں فطور اور قصد میں آمیزش ہوجائے تو پھرخواہش پرستی سے کسی طرح بھی خلاصی ممکن نہیں ہوتی ۔ امام وکیع بن جراح فرماتے ہیں : اہل علم ہر بات لکھتے ہیں چاہے وہ ان کے حق میں ہو یا ان کے خلاف ہو ، اور اہل اھواء وبدعت وہی بات لکھتے ہیں جو ان کی حمایت وتائید میں ہوتی ہے ۔

ابن جوزی رحمہ اللہ اپنے دور کے چند خواہش پرستوں اور من پسندوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

اگر کوئی ضعیف حدیث ان کے مذہب کے مخالف آجائے تو یہ لوگ اس حدیث کا سببِ ضعف بیان کرتے اور نقد کرتے ہیں ۔ اور اگر کوئی ضعیف حدیث ان کے مذہب کے موافق مل جائے تو اس پر خاموشی اختیار کرلیتے ہیں اور وجہ طعن بیان کرنے سے گریز کرتے ہیں ۔ یہ سب وہ دینی پیروی میں کمزوری اور خواہش نفس کے غلبہ کی وجہ سے کرتے ہیں ۔

اللہ کے بندو !جو اللہ اور اس کے بندوں میں اپنی مقبولیت چاہتا ہے ! اسے چاہئے کہ وضاحت وصداقت اور سچائی کو اپنا شعار بنائے اور ہلاک کرنے والی خواہش پرستی سے بچے ۔

امام بخاری رحمہ اللہ کی کیا ہی سچی صفت بیان کی گئی ہے کہ جب انہوں نے اپنی کتاب صحیح بخاری میں زکاۃ کا مسئلہ ذکر کیا تو۔ بخاری کے شارحین لکھتے ہیں کہ : اس مسئلہ میں امام بخاری نے احناف کی موافقت کی ہے جبکہ اکثر مسائل میں وہ ان کے مخالف ہیں ۔ لیکن اس مسئلہ میں دلیل حنفیہ کے موافق ہے اس لئے امام بخاری رحمہ اللہ نےان کے مذہب کی موافقت وتائید کی ۔

ترجمہ :اے ایمان والو قائم رہو انصاف پر گواہی دو اللہ کی طرف کی اگرچہ نقصان ہو تمہارا یا ماں باپ کا یا قرابت والوں کا اگر کوئی مالدار ہے یا محتاج ہے تو اللہ ان کا خیر خواہ تم سے زیادہ ہے سو تم پیروی نہ کرو دل کی خواہش کی انصاف کرنے میں اور اگر تم زبان ملو گے یا بچا جاؤ گے تو اللہ تمہارے سب کاموں سے واقف ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے