7۔كفار كی مشابهت میں سے ایك بات یه بھی هے كه حدود وتعزیرات ، عدل وانصاف ، جزاوسزا اور قوانین كے نفاذ میں كمزور وطاقتور اور ادنیٰ واعلیٰ میں امتیاز روا ركھا جائے یه ناانصافی اور تفریق یهودیوں كا عمل هے

صحیحین میں سیدنا اسامه بن زید رضی الله عنه كی سفارش كا قصه مذكور هے جو انهوں نے ایك مخزومی عورت كو بچانے كے لیے كی جس نے چوری كی تھی

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

عَنْ عَائِشَةَ رضى الله عنها أَنَّ قُرَيْشًا أَهَمَّهُمْ شَأْنُ الْمَرْأَةِ الْمَخْزُومِيَّةِ الَّتِى سَرَقَتْ فَقَالُوا مَنْ يُكَلِّمُ فِيهَا تَعْنِى رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم-. قَالُوا وَمَنْ يَجْتَرِئُ إِلاَّ أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ حِبُّ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فَكَلَّمَهُ أُسَامَةُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « يَا أُسَامَةُ أَتَشْفَعُ فِى حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللَّهِ ». ثُمَّ قَامَ فَاخْتَطَبَ فَقَالَ « إِنَّمَا هَلَكَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ أَنَّهُمْ كَانُوا إِذَا سَرَقَ فِيهِمُ الشَّرِيفُ تَرَكُوهُ وَإِذَا سَرَقَ فِيهِمُ الضَّعِيفُ أَقَامُوا عَلَيْهِ الْحَدَّ وَايْمُ اللَّهِ لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَهَا » (صحیح البخاری ومسلم)

سیده عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ قریش کو ایک مخزومی عورت کا بہت خیال تھا جس نے چوری کی تھی، لوگوں نے کہا کہ کون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے گفتگو کرے گا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محبوب سیدنا اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوا کون جرأت کرسکتا تھا چنانچہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے گفتگو کی، آپ نے فرمایا کہ تم اللہ کی حدود میں سفارش کرتے ہو، پھر آپ کھڑے ہوئے اور خطبہ دیا اور فرمایا کہ اے لوگو، تم سے پہلے کئی قومیں ہلاک ہوئیں، جب کوئی شریف چوری کرتا تو وہ لوگ اسے چھوڑ دیتے تھے اور جب کوئی کمزور چوری کرتا تو وہ لوگ اس پر حد جاری کرتے اور قسم ہے اللہ کی اگر فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بنت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی چوری کرتی تو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے ہاتھ بھی کاٹ ڈالتے۔

8۔ نماز میں سدل بھی كفار كی مشابهت هے لهٰذا اس سے روكا گیا هے اسی طرح كوئی شخص نماز میںاپنا منه ڈھاٹا باندھ كر چھپائے تو یه بھی جائز نهیں كیونكه اس طرح یهودی كرتے هیں ۔

فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم هے :

أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- نَهَى عَنِ السَّدْلِ فِى الصَّلاَةِ وَأَنْ يُغَطِّىَ الرَّجُلُ فَاهُ.(ابوداؤد 643)

رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے سدل سے منع فرمایا اور یه كه آدمی اپنا منه ڈھانپے۔‘‘

بعض صحابه كرام رضی الله عنهم نے اس ممانعت كی وجه یهودیوں كا فعل هونا قرار دی هے (سدل نماز میں سدل یه هے كه كوئی كپڑا سر پر اس طرح ركھا جائے كه وه سر كے دونوں جانب لٹكتا رهے اور اس كے كونوں كو اپنے كندھوں پر ایك دوسرے كے اوپر نه ركھا جائے)

9۔ عریانی، بے پردگی اور عورتوں كا بلا ضرورت گھروں سے نكلنا ، یه سب چیزیں جاهلیت اور كفار كی مشابهت هی میں سے هیں۔

الله تعالیٰ فرماتے هیں :

وَقَرْنَ فِيْ بُيُوْتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَــبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْاُوْلٰى

(الاحزاب:33)

” اپنے گھروں میں ٹك كر رهو اور گزشته دور جاهلیت كی سج دھج نه دكھاتی پھرو۔‘‘

سیدنا ابن عباس رضی الله عنهما فرماتے هیں :

لا تبد العورة، ولا تستن بسنة المشركین
(اقتضاءالصراط المستقیم340/1)

’’ اپنا ستر ظاهر نه كرو اور مشركین كے طریقے مت اپناؤ۔‘‘

10۔ نماز میں اختصار ممنوع هے ، نماز میں اختصار كامطلب هے هاتھ پهلو پر ركھنا ، حالانكه نماز میں سنت یه هے كه نمازی اپنے هاتھ سینے پر باندھے، اس طرح سے كه دایاں هاتھ بائیں كے اوپر هو،اختصار اس لیے ممنوع هے كیونكه یه یهودیوں كے افعال میں سے هے اور یه ایك خلاف سنت عمل بھی هے ۔

سیده عائشه رضی الله عنها سے ثابت هے كه آپ اسے نماز میں ناپسند كرتیں ۔

لا تشبھوا بالیھود وقالت : إن الیھود تفعله

“”’’یهودی ایسا كرتے هیں تم یهودیوں سے مشابهت نه كرو۔‘‘

11۔ عید وتهوار اور جشن ومحافل وغیره ۔ شرعی طور په صرف دو عیدیں معروف هیں ۔ یعنی عید الفطر اور عید الاضحی ان كے علاوه كوئی عید شریعت كے مطابق نهیں۔ بلاشبه اهل كتاب، كفار، مشركین، مجوس اور اهل جاهلیت كے هاں هی عیدوں كی بھر مار اور كثرت نظر آتی هے۔جبكه نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو سے زیاده عیدیں منانے سے منع فرمایا ۔

الله تعالی عباد الرحمن كے اوصاف بیان كرتے هوئے فرماتے هیں :

وَالَّذِيْنَ لَا يَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَ (الفرقان :72)

’’(اور رحمن کے بندے وہ ہیں) جو جھُوٹ کے گواہ نہیں بنتے ۔‘‘

سلف صالحین میں سے اكثر مفسرین نے الزور (جھوٹ) كا مطلب مشركین وكفار كی عیدیں بتایا هے۔ عیدیں عبادت كی حیثیت سے شریعت كا حصه هیں اور یه توقیفی هیں ۔( ابن كثیر)

چونكه یه عبادات میں سے هیں اس لیے جس قدر رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم كی شریعت كے مطابق هیں ، اس كے علاوه ان میں كمی یا زیادتی هرگز جائز نهیں اور اگر كسی كے لیے یه جائز سمجھا جائے كه وه امت كے لیے ایك تیسری عید كا اضافه كرے اس كی مناسبت اگرچه كچھ بھی هوتو یه الله كی شریعت كے مقابلے میں ایك دوسری شریعت كے قیام كے مترادف هوگا۔ جس طرح زیادتی جائز نهیں اسی طرح كسی كو یه بھی حق نهیں كه الله تعالیٰ كی مشروع عیدوں میں سے كسی كو ختم كردے ‘ ایسا كرنا شریعت میں دخل اندازی هے جو صریحا كفر هے۔ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے اهل مدینه كو اپنے یادگار دن یا پرانے تهواروں كو زنده كرنے سے منع فرما دیا هے۔

رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینه منوره تشریف لائے تو ان كے هاں دو دن مقرر تھے جن میں وه كھیلتے یا جشن مناتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : یه دو دن كیسے هیں ؟ انهوں نے بتایا كه یه همارے جاهلیت كے دن هیں جن میں هم كھیلا كرتے تھے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَبْدَلَكُمْ بِهِمَا خَيْرًا مِنْهُمَا يَوْمَ الأَضْحَى وَيَوْمَ الْفِطْرِ »(ابوداؤد : 1134)

’’بلاشبه الله تعالیٰ نے ان كے بدلے میں تمهیں ان سے بهتر دو دن دے دیئے هیں یعنی عید الفطر اور عید الاضحی كے دن ۔‘‘

سیدنا عمر رضی الله عنه فرمایا كرتے تھے:

’’اجتنبوا أعداء الله فی أعیادھم ۔‘‘(البیهقی الكبری : 234/9)

ــ’’الله كے دشمنوں سے ان كی عیدوں میں اجتناب كرو۔‘‘

لهٰذا عید كا ماخذ اور مبدا جب شریعت هی هے تواس میں كسی قسم كی زیادتی یا كمی بالكل جائز نهیں ، اهل علم كے نزدیك یه معروف هے كه عید سے مراد هر وه موقع ومناسبت هے جو باربار آئے ۔ وه مهینه وار هو، سالانه هو یا هر سال، دوسال ، پانچ یا دس سال كے وقفه سے آئے، اس كے لیے ایك دن كا تعین كیاگیا هو یا پورا هفته اس كے لیے مخصوص هو۔ مختصر یه كه هر وه موقع اور مناسبت جس كا امت خاص تواتر سے اهتمام كرے ، مخصوص ومتعین چیزوںكو ملحوظ ركھتے هوئے خاص انداز سے اس كا استقبال هو وه عید كے زمرے میں آئے گا اگرچه وه معروف عیدوں میں سے نه هی هو۔

اس طرح قومی دن، جشن تاجپوشی یا تخت نشینی كی یاد اور دوسری مناسبات جیسے فتح وغیره كا جشن یا خاص موسم كی آمد كا جشن یه سب بھی ممنوعه عیدوں میں شامل هیں۔

اس قسم كی ایك صورت هفتوں كا منانا هے جیسے هفته مساجد اور هفته بهار اگر ان كا بھی وقت بدلتا نه رهے اور لوگوںمیں مقرره وقت هی میں اس كا خصوصی اهتمام والتزام هوتو یه چیز بھی عید هی كے ضمن میں آئے گی۔

اصل بات یه هے كه یه ایك بدعت كا بیج بونے كے مترادف هے اگرچه لوگ اسے شروع كرتے وقت شرعی قواعد وضوابط كا خیال ركھیں اور اس ضمن میں ممنوعه باتوں سے اجتناب بھی كریں مگر ان كے بعد آنے والے لوگ ان چیزوں كو سمجھ نه پائیں گے ، وه ان كاموں كے اس طرح وارث بنیں گے گویا كه یه امت كا لازمی حصه هیں جبكه هر وه بات جسے شریعت نے لازمی قرار نهیں دیا اگر اسے لازم سمجھ لیا جائے تو گویا اسے شریعت كا درجه دے دیا گیا لهٰذا هر ایسا كام جسے شریعت نے فرض نهیں كیا لوگ اسے اپنے آپ پر لازم كرلیں تو یه ایك نئی شریعت سازی هوگی۔ اب اس كا نام چاهے عید ركھ لیا جائے یا اسے كسی دن سے موسوم كیاجائے یا هفته مهینه سے یا پھر كسی جشن یا تهوار كے نام سے یاد كیاجائے ۔ بهر حال نام كوئی بھی ركھ لینے سے حقیقت تبدیل نهیں هوگی۔ اهل علم كے نزدیك یه تمام كام ممنوع هیں اور ممنوعه عیدوں كے زمرے میں آتے هیں ۔

12۔ سحری چھوڑنا: بغیر سحری كے روزه ركھنا بھی كفار سے مشابهت هے جیسے یهودی اور دوسرے اهل كتاب كرتے هیں كه وه سحری كا كھانا نهیں كھاتے ۔

آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

« فَصْلُ مَا بَيْنَ صِيَامِنَا وَصِيَامِ أَهْلِ الْكِتَابِ أَكْلَةُ السَّحَرِ » ( صحیح مسلم : 1096)

’’اهل كتاب اور همارے روزوں میں فرق سحری كے كھانے كا هے ۔‘‘

افسوسناك بات یه هے كه آج كل اكثر مسلمان اس نافرمانی كے مرتكب هو رهے هیں خاص طور په ایسے افراد جو رات دیر گئے سوتے هیں اور سونے سے پهلے كھانا كھا لیتے هیں یا بسا اوقات نهیں بھی كھاتے ۔ رات دیر تك جاگتے رهنے كی وجه سے جب سحری كا وقت قریب آتاهے تو نیند ان كو آگھیرتی هے لهٰذا سو جاتے هیں اور سحری كا وقت نكل جاتاهے ۔یه لوگ بلاشبه اپنے عمل سے جان بوجھ كر سحری چھوڑتے هیں اور یه جائز نهیں بلكه كفار ویهود كا طریقه هے اگر اس میں اور گناه نه بھی هو پھر بھی پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم كے حكم كی مخالفت هی ایك بهت بڑی غلطی هے ۔

الله تعالیٰ نے فرمایا :

فَلْيَحْذَرِ الَّذِيْنَ يُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِهٖٓ اَنْ تُصِيْبَهُمْ فِتْنَةٌ اَوْ يُصِيْبَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ

رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ڈرنا چاہیے کہ وہ کسی فتنے میں گرفتار نہ ہو جائیں یا ان پر درد ناک عذاب نہ آجائے۔ (النور:64)

13۔ افطار میں تاخیر كرنا : روزه دار كے لیے افطار میں جلدی كرنا سنت هے اس سے یهود ونصاری كی مخالفت هوتی هے ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

« لاَ يَزَالُ الدِّينُ ظَاهِرًا مَا عَجَّلَ النَّاسُ الْفِطْرَ لأَنَّ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى يُؤَخِّرُونَ »(ابوداؤد:2353 )

’’دین همیشه غالب رهے گا جب تك لوگ افطار میں جلدی كرتے رهیں گے كیونكه یهود ونصاریٰ اس میں تاخیر كرتے هیں ۔‘‘

افطاری میں تاخیر كی عادت بھی بعض لوگوں میں پائی جاتی هے ۔ خاص طور پر رافضی شیعه بكثرت ایسا كرتے هیں ۔ یه لوگ مغرب كی نماز دیر سے ادا كرتے هیں ۔اسی طرح افطار میں یهاں تك تاخیر كرتے هیں كه آسماں پر ستارے چمكنے لگتے هیں۔

كچھ لوگ بلاوجه غیر ضروری احتیاط اور دین میں شدت پسندی كی بناء پر بھی اس كیفیت كا شكار هوجاتے هیں۔یه لوگ بسا اوقات مؤذن پر بھی بھروسه نهیں كرتے ۔بلكه آنكھوں سے ڈوبتا هوا سورج دیكھ كر بھی تسلی نهیں هوتی۔ نتیجه كے طور پر افطار كا صحیح وقت گنوادیتے هیں اور افطار میں تاخیر كركے سمجھتے هیں كه انهوں نے بهت احتیاط سے كام لیا هے حالانكه یه سوائے شیطانی وسوسه كے اور كچھ بھی نهیں كیونکہ اس وجه سے ایك ممنوعه فعل سرزد هوا جبكه سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم تو یه هے كه سحری تاخیر سے كی جائے اور افطار میں جلدی كی جائے اور یه بھی سنت مطهره سے ثابت هے كه یهود كے هاں نماز مغرب اتنی تاخیر سے ادا كی جاتی هے كه آسمان پرستاروں كے جھرمٹ جگمگانے لگتے هیں ۔

رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم كا فرمان هے :

« لَا تَزَالُ أُمَّتِى بِخَيْرٍ – أَوْ قَالَ عَلَى الْفِطْرَةِ – مَا لَمْ يُؤَخِّرُوا الْمَغْرِبَ إِلٰٓى أَنْ تَشْتَبِكَ النُّجُومُ (ابوداؤد:418)

’’میری امت فطرت په قائم رهے گی جب تك وه مغرب كی نماز كو ستاروں كے چمكنے تك متاخر نهیں كریںگے۔‘‘

اس كی وضاحت دوسری احادیث میں یوں آئی هے كه یه یهودیوں اور عیسائیوں كی مشابهت هے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے