ضمان جدیہ کی شرعی حیثیت:

’’المعاییر الشرعیۃ‘‘ کے نقطہ نظر کے مطابق یہ رقم یا تو بینک کے پاس حفاظت کی غرض سے رکھی گئی امانت تصور ہوگی بینک اس میں تصرف کا مجاز نہیں ہوگا یا اس کی حیثیت اس امانت کی ہوگی جو سرمایہ کاری کے لیے دی جاتی ہے یعنی کلائنٹ بینک کو اجازت دے گا کہ وہ اس رقم سے مضاربہ کی بنیاد پر سرمایہ کاری کرے اور یہ بھی جائز ہے کہ جب اجارہ کا باقاعدہ عقد ہو اس وقت یہ طے کر لیا جائے کہ یہ رقم اجرت کی قسطوں میں شمار ہوگی۔ [ص ۱۳۴]

ہماری ناقص رائے میں ’’ضمان جدیہ‘‘ کو امانت قرار دینا درست نہیں کیونکہ امانت تصرف میں نہیں لائی جا سکتی اور مالک جب چاہے اپنی امانت واپس لے سکتا ہے اس کے برعکس اسلامی بینک اس رقم کو استعمال بھی کرتے ہیں اور مالک کی حسب منشاء واپسی کی پابندی بھی قبول نہیں کرتے۔

اگر چیز تباہ ہو جائے یا قابل استعمال نہ رہے:

اس بارے میں شرعیہ سٹینڈرڈز کا موقف بڑا واضح ہے کہ اگر اس میں مستاجر کا عمل دخل نہ ہو تودونوں حالتوں میں اجر مثل (مارکیٹ کرایہ) کی طرف لوٹا جائے گا۔ اور عقد میں طے شدہ کرایہ کے مطابق بینک نے اجرت مثل سے جتنا زیادہ لیا ہوگا وہ مستاجر کو واپس کرنے کا پابند ہوگا۔ [ص ۱۴۲]

اجارہ ’’منتھیۃ بالتملیک‘‘ کا شرعی حکم:

ڈاکٹر احمد ریان اسلامی بینکوں میں رائج اجارہ کی مروجہ صورتوں میں پائی جانے والی خرابیوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیںـ:

٭اس میں بیع معلق (Contingent) ہوتی ہے یہ ایسی خرابی ہے جس کی ممانعت پر تمام فقہاء متفق ہیں۔

٭اس میں شرط پائی جا رہی ہے بعض فقہاء کے نزدیک یہ بھی ممنوع ہے۔

٭ایک Contract میں دو معاملے جمع ہو رہے ہیں یعنی ایک بیع میں دو بیعوں کی ممانعت داخل ہے۔        

   [فقہ البیوع المنھی عنھا مع تطبیقاتھا الحدیثۃ فی المصارف الاسلامیۃ]

علاوہ ازیں اس میں حسب ذیل خرابیاں بھی پائی جاتی ہیں:

٭جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ معاہدے کے شروع میں بینک یہ وعدہ کرتا ہے کہ مدت اجارہ ختم ہونے پر رسمی یا حقیقی قیمت کے عوض یا مدت اجارہ کے دوران ہی باقی قسطوں کے بدلے یا بازاری قیمت پر یہ چیز مستاجر کی ملکیت میں دے دے گا۔

ڈاکٹر محمد زحیلی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

(اما ان کان الوعد ملزما فید خل فی معاملات محرمۃ شرعا وھی بیع ما لا یملک والبیع قبل القبض بل قبل الشراء)[المصارف الاسلامیۃ ]

’’ اگر وعدہ لازمی ہو تو یہ شرعی طور پر حرام معاملات میں داخل ہو جائے گا۔ وہ ہے غیر ملکیتی چیز اور قبضہ سے پہلے بلکہ خریدنے سے پہلے ہی بیع کا معاملہ۔‘‘

یا یہ ہبہ کا وعدہ ہوتاہے۔ یا پھر ہبہ کا ایسا معاہدہ ہوتا ہے جو تمام اقساط کی ادائیگی کے ساتھ مشروط ہوتا ہے۔ جو صورت بھی ہو وہ غرر سے خالی نہیں۔ کیونکہ ایسا وعدہ بیع جس کی پابندی لازم ہو عموما بیع ہی ہے۔ اسلامی بینکنگ کے حامیوں کا یہ کہنا کہ یہ یکطرفہ وعدہ ہے جس میں ایک فریق کو اختیار ہے تو بقول ڈاکٹر رفیق یونس مصری کے صرف ایک کو اختیار دینا سینہ زوری ہے۔ جب یہ بیع ہی ہے تو بیع کا معاہدہ طے پاتے وقت قیمت مجہول ہوئی کیا علم پانچ سال بعد حقیقی قیمت کیا ہوگی یا رسمی قیمت کیا ہوگی۔

اور یہ بھی احتمال ہوتا ہے کہ مستاجر مکمل قسطیں ادا نہ کر سکنے کی وجہ سے اس کے ملکیتی حقوق حاصل نہ کر سکے۔

اس کو ہبہ کہنا بھی درست نہیں کیونکہ مستقبل کی شرط پر موقوف ہبہ درست نہیں ہوتا جیسا کہ شیخ صالح بن فوزان رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

(ولا تصح الھبۃ المعلقۃ علی شرط مستقبل کان یقول اذا حصل کذا فقد وھبتک کذا)              [الملخص الفقھی:۲ص، ۱۱۵]

’’مستقبل کی شرط پر موقوف ہبہ صحیح نہیں ہے جیسے یہ کہے کہ جب اس قسم کی چیز حاصل ہو گی تو میں فلاں چیز آپ کو ہبہ کر دوں گا۔‘‘

ایسے ہی اس کو ہبہ کا وعدہ کہنا بھی درست نہیں کیونکہ اس صورت میں یہ ایسا ہبہ ہوگا کہ مارکیٹ سے زیادہ کرایہ وصول کرنے کی صورت میں جس کا بدلہ لیا جانا ہے۔ اس قسم کا ہبہ بھی بیع ہی کے حکم میں ہوتاہے سوائے اس کے کہ اس میں معاوضہ اور اس کی مقدار طے نہیں ہوتی۔

٭ اس کی عملی تطبیق میں بھی گڑ بڑ ہوتی ہے وہ یوں کہ بینک کا اس مدت کا کرایہ بھی قسطوں میں ایڈجسٹ کرتا ہے جس میں گاڑی تو کلائنٹ کو نہیں ملی ہوتی لیکن بینک رقم جمع کرواچکا ہوتا ہے جیسا کہ ہم پیچھے اسلامی بینکاری کے اسکالر جناب محترم ایوب صاحب کے حوالے سے لکھ آئے ہیں۔

٭اس میں شریعہ سٹینڈرڈز کے احکام کی بھی خلاف ورزی پائی جاتی ہے۔

٭شریعہ سٹینڈرڈز کے مطابق بیع کا وعدہ بینک کی جانب سے ہونا چاہیے جبکہ اسلامی بینک کلائنٹ سے وعدہ لیتے ہیں۔

٭شریعہ سٹینڈرڈز کی رائے میں اجارہ پر دی ہوئی چیز اگر تباہ ہو جائے یا وہ باقی ماندہ مدت کے لیے قابل استعمال نہ رہے بشرطیکہ اس میں مستاجر کا عمل دخل نہ ہو تو بازاری قیمت سے زائد لیا ہو اکرایہ مستاجر کو واپس کیا جانا چاہیے لیکن اسلامی بینکوں میں اس پر عمل نہیں ہوتا بلکہ ان کا طریقہ یہ ہے کہ انشورنس یا تکافل کمپنی سے جو رقم ملتی ہے اس میں سے پہلے اپنی باقی ماندہ رقم پوری کرتے ہیں۔ اگر کچھ بچ جائے تو مستاجر کو دیتے ہیں ورنہ اللہ اللہ خیر سلا۔

اسلامی بینکوں کا یہ عمل سراسر غیر اسلامی اور انکے اپنے ہی شریعہ سٹینڈرڈز کے خلاف ہے۔

مشارکہ متناقصہ (Diminishing Musharakah)

اس کو شرکہ متناقصہ بھی کہتے ہیں اس کا معنی ہے تخفیف پذیر مشارکہ یعنی وہ مشارکہ جس میں ایک فریق اپنا حصے وقفے وقفے سے دوسرے فریق کو بیچتا جاتا ہے بالآخرر دوسرا فریق کلی طور پر اثاثے کا مالک بن جاتاہے۔ اسلامی بینکوں میں بھی اس پر بھی بکثرت عمل ہوتا ہے اس کو زیادہ تر ہائوس فنانسنگ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اجارہ ’’منتھیۃ بالتملیک‘‘ کی طرح یہ اصطلاح بھی اسلامی بینکاری نے ہی متعارف کروائی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کا سب سے پہلے استعمال مصر میں شروع ہوا۔ [المعاملات المالیۃ المعاصرۃ للدکتور محمد عثان شبیر: ص ۳۳۹]

ظاہر ہے جب ذخیرہ حدیث وفقہ میں اصطلاح کا ذکر ہی نہیں تو ہمیں اس کی حقیقت جاننے کے لیے اسلامی بینکنگ کے ماہرین کی طرف ہی رجوع کرنا پڑے گا۔ چنانچہ المعاییر الشرعیۃ میں اسکی تعریف یوں بیان ہوئی ہے۔

(المشارکۃ المتناقصۃ عبارۃ من شرکۃ یتعھد فیھا احد الشرکاء بشراء حصۃ الآخر تدریجا الی ان یتملک المشتری المشروع بکاملہ)

’’مشارکہ متنا قصہ ایسی شرکت سے عبارت ہے جس میں ایک شریک یہ عہد کرتا ہے کہ وہ آہستہ آہستہ دوسرے شریک کا حصہ خرید لے گا یہاں تک مشتری پورے منصوبے کا مالک ہو جائے۔‘‘

اسکی عملی تطبیق کیا ہوتی ہے؟ یہ سمجھنے کے لیے ہم جناب مولانا تقی عثمانی صاحب کی کتاب ’’اسلامی بینکاری کی بنیادیں‘‘ سے ایک اقتباس نقل کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

’’مشارکہ کی ایک اور شکل جسے ماضی قریب میں ترقی دی گئی ’’مشارکہ متناقصہ‘‘ ہے۔ اس تصور کے مطابق ایک تمویل کار اور اس کا عمیل کسی جائیداد سامان یا کاروباری ادارے کی مشترکہ ملکیت حاصل کرتے ہیں۔ تمویل کار کا حصہ کئی یونٹس میں تقسیم کر لیا جاتاہے اور یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ عمیل تمویل کار کے حصے کے کئی یونٹس ایک ایک کر کے کچھ وقفوں کے بعد خرید لے گا جسکے نتیجے میں اس کا حصہ کم ہوتا رہے گا۔ یہاں تک کہ اس کے تمام یونٹس عمیل خرید لے گا اور جائیداد یا کاروباری ادارے کا تنہا مالک بن جائے گا۔‘‘

شرکت متناقصہ کے اس تصور کو مختلف معاملوں میں مختلف طریقوں سے اختیار کیا جاتاہے۔ چند نمونے ذیل میں دیے جاتے ہیں۔

اسے عام طور پر ھائو س فنانسنگ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ عمیل ایک گھر خریدنا چاہتا ہے جس کے لیے اس کے پاس کافی رقم موجود نہیں ہے۔ یہ ایک تمویل کار کے پاس جاتا ہے جو اس کے ساتھ مل کر یااکیلے گھر خریدنے پر آمادہ ہوجا تا ہے۔ قیمت کا بیس فیصد عمیل ادا کرتا ہے اور اسی فیصد تمویل کار، لہذا گھر کے اسی فیصد حصے کا مالک تمویل کار ہے اور بیس فیصد کا عمیل، جائیداد کو مشترکہ خریدنے کے بعد عمیل گھر کو اپنی رہائشی ضرورتوں کے لیے استعمال کرتا ہے اور تمویل کار کو جائیداد میں اس کا حصہ استعمال کرنے کی وجہ سے کرایہ ادا کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تمویل کا رکے حصے کو آٹھ برابر یونٹس میں تقسیم کر لیا جاتاہے۔ ہر یونٹ گھر کے دس فیصد کا ملکیت کی نمائندگی کرتا ہے۔ (کیونکہ اس کی کل ملکیت اسی فیصد تھی) عمیل، تمویل کار سے یہ وعدہ کر تا ہے کہ ہر تین ماہ بعد ایک یونٹ خریدے گا۔ چنانچہ تین ماہ کی پہلی مدت پوری ہونے پر وہ گھر کی قیمت کا دس فیصد حصہ ادا کر کے ایک یونٹ خرید لیتا ہے۔ اس سے تمویل کار کا ایک حصہ اسی فیصد سے کم ہو کر ستر فیصد ہو جائے گا۔ تمویل کار کا ادا کیا جانے والا کرایہ بھی اس قدر کم ہو جائے گا۔ دوسری مدت کے پورا ہونے کے بعد ایک یونٹ خریدے گا جس سے جائیداد میں اس کا حصہ بڑھ کر چالیس فیصد ہو جائیگا اور تمویل کار کا کم ہو کر ساٹھ فیصد رہ جائے گا اور اسی تناسب سے کرایہ بھی کم ہو جائے گا۔ یہ ترتیب اسی طریقے سے چلتی رہے گی یہاں تک کہ دو سال کے اختتام پر عمیل تمویل کا سارا حصہ خریدلے گا جس سے اس کا حصہ ’’صفر‘‘ رہ جائے گا۔ اور عمیل کا حصہ سو فیصد ہو جائیگا۔

یہ طریقہ کار تمویل کار کو یہ اجازت دیتا ہے کہ جائیداد میں اپنی ملکیت کے تناسب سے کرایہ کا دعوی کرے اور اسی کے ساتھ اپنے حصے کے یونٹس کے بیع کے ذریعے سے اپنا اصل سرمایہ وقفے وقفے سے واپس حاصل کرے۔‘‘ [ایضاً۔ ص: ۸۵، ۸۶،۸۷]

یہ اقتباس ہے تو طویل مگر اس سے مشارکہ متناقصہ کی عملی صورت پوری طرح نکھر کر سامنے آجا تی ہے۔ اس اقتباس میں کوئی ایسی بات نہیں جو قابل تشریح ہو، اس حوالے سے یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ بینک اپنے حصے کا کرایہ مارکیٹ ریٹ کی بجائے شرح سود کے مطابق وصول کرتا ہے۔

مشارکہ متناقصہ شراکت کی کس قسم میں داخل ہے:

’’المعاییر الشرعیۃ‘‘ کے مطابق شرکت کی یہ جدید قسم ’’شرکۃ العنان‘‘ کی ذیلی شاخ ہے۔ لہذا اس پر وہ تمام احکام نافذ ہوں گے جو عام شرکت پر ہوتے ہیں۔ خصوصا شرکۃ العنان کے۔ علاوہ وہبہ زحیلی رحمہ اللہ نے بھی اس کو شرکۃ العنان ہی قرار دیا ہے۔ [المعاملات المالیۃ المعاصرۃ]

’’شرکۃ العنان‘‘ کیا ہے؟

شراکت کی بنیادیں قسمیں دو ہیں:

۱)          شرکۃ الاملاک۔
۲)         شرکۃ العقود۔

شرکہ املاک کسی چیز کے استحقاق میں شراکت کا نام ہے جیسے کسی اثاثے، کارخانے یا گاڑی وغیرہ کی ملکیت میں اشتراک۔ جبکہ تصرف میں اشتراک کو شرکۃ العقود کہا جا تاہے۔ جیسے خرید و فروخت میں اشتراک، یہ اشتراک یا تو مال و عمل دونوں میں ہوگا یا صرف عمل میں۔ اس کی پانچ قسمیں ہیں۔

’’اگر مال و عمل دونوں میں شراکت ہوتو اس کو شرکۃ العنان کہا جاتا ہے۔‘‘ [الملخص الفقھی: ۲ ص ۶۸]

چونکہ ہمارے زیر بحث یہی قسم ہے اس لیے ہم صرف اسی کے متعلق گفتگو کریں گے۔ علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ نے اسکی حقیقت ان الفاظ میں بیان کی ہے؟

(ان یشترک رجلان بما لیھما علی ان یعملا فیھما بابدانھما والربح بینھما)(المغنی)

’’دو شخص اپنے اپنے مال کے ساتھ اس شرط پر اشتراک کریں کہ دونوں جسمانی محنت کریں گے اور نفع ان دونوں میں تقسیم ہوگا۔

شیخ صالح فوزان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

(فحقیقۃ شرکۃ العنان ان یشرک شخصان فاکثر بمالیھما بحیث یصیر ان ما لا واحدا یعملان فیہ بیدیھما او یعمل فیہ احدھما ویکون لہ الربح اکثر من نصیب الاخر)[الملخص الفقھی]

’’شرکۃ العنان‘‘ کی حقیقت یہ ہے کہ دو یا دو سے زیادہ افراد اپنے مالوں کے ساتھ شراکت داری کریں اس طرح دونوں کا مال ایک ہی بن جائے۔ دونوں اس میں جسمانی محنت کریں یا ان میں سے صرف ایک کرے (دوسری صورت میں) کام کرنے والے کے نفع کا حصہ دوسرے سے زیادہ ہوگا۔‘‘

’’المعاییر الشرعیۃ‘‘ میں ہے:

’’شرکہ عنان اس چیز کا نام ہے کہ دو یا دو سے زیادہ متعین مال کے شراکت داری کریں اس طرح دونوں میں سے ہر ایک کو شراکت کے مال میں تصرف کا حق ہو اور نفع ان دونوں کے درمیان طے شدہ اصول کے مطابق تقسیم ہو گا اور خسارہ اپنے اپنے حصے کے مطابق برداشت کریں۔‘‘[ص ۱۹۵]

ان عبارتوں سے یہ بات واضح طور پر ثابت ہوتی ہے کہ شرکۃ العنان میں فریقین کا مقصد چیز کو فروخت کر کے نفع کمانا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شرکۃ العنان کی شرطوں میں ایک شرط یہ ہے کہ نفع میں فریقین میں سے ہر ایک کا حصہ طے ہو۔ ملاحظہ ہو:

[نیل المآرب بشرح دلیل الطالب: ص ۱۹۳(الملخص الفقھی)

لیکن جب ہم بینکوں میں رائج مشارکہ متناقصہ کو دیکھتے ہیں تو اس میں یہ چیز نظر نہیں آتی یہاں نہ تو نفع کا تناسب طے ہوتا ہے اور نہ ہی کلائنٹ کا مقصد اسکو فروخت کر کے نفع کمانا بلکہ وہ تو اپنی رہائش کے لیے یہ معاملہ کرتا ہے۔ لہذا ثابت ہوا کہ مشارکہ متناقصہ شرکہ عنان میں داخل نہیں ہے۔

مشارکہ متناقصہ میں بینک اپنے حصے کے یونٹ کس قیمت پر بیچے گا:

یہاں چار صورتیں ہی ممکن ہیں:

1بینک نے جتنی رقم لگائی ہے اس سے زیادہ کے بدلے بیچے۔

1اتنے ہی کا بیچے۔

1اس سے کم پر بیچے۔

1بازاری قیمت کے مطابق فروخت کرے۔

تیسری صورت ممکن نہیں کیونکہ اس میں بینک راضی نہیں ہوگا۔ باقی صورتیں شرعا جائز ہیں۔ پہلی صورت ا سلیے کہ اس میں گویا بینک نے ضمانت لی ہے کہ اس کا راس المال مع نفع اسے لوٹایا جائیگا۔ یہ شراکت کے اصولوں کے خلاف ہے۔ شرکت کی تو بنیاد ہی اس پر ہے کہ نفع اور نقصان میں دونوں شریک ہوں گے گویا یہ حصول سود کا ایک حیلہ ہے۔

دوسری صورت (یعنی اتنے ہی کا بیچے) کو خود اسلامی بینکنگ کے ماہرین ناجائز قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ المعاییر الشرعیۃ میں ہے:

(ولا یجوز اشتراط البیع بالقیمۃ الاسمیۃ)    ’’قیمت اسمیہ (Face Value) پر بیع کی شرط لگانا جائز نہیں۔‘‘

دوسری جگہ ہے:

(ولا یجوز الوعد باشراء بالقیمۃ الاسمیۃ)

[ص ۱۹۹]

’’قیمت اسمیہ (Face Value) پر خریدنے کا وعدہ کرنا ناجائز ہے۔‘‘

اس کی وجہ بھی یہ ہے کہ گویا بینک نے یہ گارنٹی حاصل کر لی ہے اس کا راس المال بہر صورت واپس کیا جائے گا۔ یہ شراکت کے اصول کے منافی ہے۔

آخری صورت اس لیے جائز نہیں کہ اس میں غر رپایا جاتا ہے کیونکہ کلائنٹ کی طرف سے خریدنے کا وعدہ لازمی ہوتا ہے جس سے وہ منحرف نہیں ہو سکتا۔ اس کے متعلق ہم اوپر بتا چکے ہیں کہ بیع میں لازمی وعدہ بیع ہی کی ایک شکل ہے۔ جب بیع اس شرط پر ہو کہ مستقبل میں جو بازاری قیمت ہوگی اس پر میں خرید لوں گا تو اس میں غرر واضح ہے۔

(۔۔۔جاری هے۔۔۔)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے