عہد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم  کے غزوات کا تعارف

دورِ حاضر اور ماضی کی جنگون کا موازنه

غزوة كے لغوی تعریف:

۱۔ ایك دفعه جنگ كرنا ، غَزَا ،   یَغزُو   ، غَزواً سے ماخوذ جس كا معنٰی طلب كرنا ، قصد كرنا۔ كهاجاتا هے : عرفتُ ما یغزی من هذا الكلام ۔ یعنی اس كلام كے مقصود كو میں نے جان لیا۔

۲۔ غَزَا العدوَّ غَزواً و غَزَواناً القومَ جس كا معنی هے كسی قوم سے جنگ كے لیے چلنا،جهاد كیلئے نكلنا اور غزوه كی جمع غزوات ۔

غزوۃ کی اصطلاحی تعریف:

وہ جہاد فی سبیل اللہ جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بنفس نفیس شرکت فرمائی ہو۔

غزوات كی ابتدا :

ماه ربیع الاول ۲ هجری كو مشركین مكه كا ایك آدمی كرز بن جابر الفهری مدینه منوره پهنچا اور مسلمانوں كے مویشی چوری كركے واپس مكه پهنچنے میں كامیاب هوگیا جس نے یه باور كرانے كی كوشش كی گی كه ۴۲۴ كلو میٹرکے فاصلے پر هونے كے باوجود بھی مسلمان هماری دسترس میں هیں۔

پھر ماه مقدس رمضان المبارك ۲ هجری كو ابو جهل نے مكه میں مشهور كر دیا كه تمهارا تجارتی قافله جو شام سے مال ومتاع لیكر واپس آرها هے مسلمان اسے لوٹ لیں گے اس لیے اس كی حفاظت كے لیے مدینه كی طرف نكلو ۔ یه اعلان سننے كے بعد وه سب لوگ جن كا مال اس قافلے میں تھا یا كوئی رشته دار اس قافلے میں شامل تھا وه سب مسلمان كے خلاف جنگ كے لیے مدینه كی طرف كوچ كرنے كے لیے تیار هوگئے اور دیكھتے هی دیكھتے ایك هزار كا فوجی لشكر تیار هوگیا مگر جس قافلے كی حفاظت كا ناٹك كركے عسكری اجتماع هوا تھا وه مكه میں با حفاظت پهنچ گیا تھا اس كے باوجود ابو جهل كا لشكر مدینه پر چڑھائی كے لیے آگے بڑهتا رها هے ۔ دوسری طرف صورت حال یه تھی كه مسلمانوں كو ابھی تك جنگ كی اجازت نه ملی تھی اور اسلام كا جنگ سے واسطه بھی كیا۔ كیونكه اسلام تو امن وسلامتی ، صلح وفروتنی كا مذهب، جومذهب كائنات كے لیے صلح كا پیغام لے كر آیا هو جس كا قائد ایمان والوں كو عاجزی وانكساری اور متواضع رهنے كا حكم دیں وه جنگ كیسے كرتے۔

یهی وجه تھی كه مسلمانوں نے بغیر كسی تردد كے گھر بار، مال ومتاع كو مكه میں چھوڑ دیا ۔ حبشه اور مدینه منوره كی طرف هجرت كرگے تھے مگر ایسی صورت حال بن چكی تھی كه جنگ كے علاوه كوئی چاره هی نه تھا اگر اب بھی مسلمان اپنا دفاع نه كرتے تو گاجر مولی كی طرح كاٹ دیئے جاتے اور سب سے بڑا نقصان یه هوتا كه توحید كی دعوت دینے والا كوئی نه رهتا۔

اسی طرح الله تعالیٰ نے بھی سورئه حج كی یه آیات نازل فرما كر مسلمانوں كو جهاد كی اجازت عطا فرما دی۔

ارشاد باری تعالیٰ هے :

اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّـهُمْ ظُلِمُوْا   ۭ وَاِنَّ اللهَ عَلٰي نَصْرِهِمْ لَقَدِيْرُۨ الَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ اِلَّآ اَنْ يَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللهُ ۭ وَلَوْلَا دَفْعُ اللهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَّصَلَوٰتٌ وَّمَسٰجِدُ يُذْكَرُ فِيْهَا اسْمُ اللهِ كَثِيْرًا ۭوَلَيَنْصُرَنَّ اللهُ مَنْ يَّنْصُرُهٗ ۭ اِنَّ اللهَ لَقَوِيٌّ عَزِيْزٌ(الحج:۳۹۔۴۰)

اجازت دے دی گئی ان لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جارہی ہے ، کیونکہ وہ مظلوم ہیں ، اور اللہ یقینا ان کی مدد پر قادر ہے ۔یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دیے گئے صرف اس قصور پر کہ وہ کہتے تھے ’’ ہمارا رب اللہ ہے ‘‘ اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہے تو خانقاہیں اور گرجا اور معبد اور مسجدیں ، جن میں اللہ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے ، سب مسمار کر ڈالی جائیں ۔ اللہ ضرور ان لوگوں کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کریں گے ۔ اللہ بڑا طاقتور اور زبردست ہے ۔

نیز فرمایا :

قَاتِلُوا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَلَا يُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللهُ وَرَسُوْلُهٗ وَلَا يَدِيْنُوْنَ دِيْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حَتّٰي يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَّدٍ وَّهُمْ صٰغِرُوْنَ   ؀(التوبة:۲۹)

جنگ کرو اہلِ کتاب میں سے ان لوگوں کے خلاف جو اللہ اور روز آخر پر ایمان نہیں لاتے اور جو کچھ اللہ اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے اسے حرام نہیں کرتے اور دینِ حق کو اپنا دین نہیں بناتے۔ (اُن سے لڑو ) یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں۔

ان تمام مذكوره بالا وجوهات كی بنا مسلمانوں نے اسلام كے دفاع كے لیے باوجود قلیل اور بے سروسامان هونے كے مشركین مكه كو جو كه مدینه منوره پر حمله آور هور رهے تھے ۔ مدینه سے باهر روكنے كی كوشش اور تلوار اٹھانے كا فیصله كیااس کے بعد جو غزوات پیش آئے، ان کے نام مندرجہ ذیل ہیں:

۱۔ غزوة الابواء (ودّان )

۲۔ غزوة بواط

۳۔ غزوة العشیرة

۴۔غزوة بدر الاولی

۵۔غزوة بدر الكبری

۶۔غزوة بنی سلیم

۷۔غزوة بنی قینقاع

۸۔غزوة السویق

۹۔ غزوة ذی أمر

۱۰۔ غزوة نجران

۱۱۔ غزوة احد

۱۲۔ غزوة حمر الاسد

۱۳۔ غزوة بنی النضیر

۱۴۔ غزوة ذات الرقاع

۱۵۔ غزوة بدر الآخرة

۱۶۔ غزوة دومة الجندل

۱۷۔ غزوة بنی المصطلق

۱۸۔ غزوة الخندق/ الاحزاب

۱۹۔ غزوة بنی قریظه

۲۰۔غزوة بنی لحیان

۲۱۔ غزوة ذی قرد

۲۲۔ غزوة الحدیبیة / صلح الحدیبیة

۲۳۔ غزوة خیبر

۲۴۔ غزوة عمرة القضاء

۲۵۔غزوة فتح مكه

۲۶۔ غزوة حنین

۲۷۔ غزوة الطائف

۲۸۔ غزوة تبوك

ان غزوات كی تفصیلات درج ذیل هیں:

۱۔ غزوة الابواء (ودّان )

اس مہم میں ستر مہاجرین کے ہمراہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بہ نفسِ نفیس تشریف لے گئے تھے اور مدینے میں سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کو اپنا قائم مقام مقرر فرما یا تھا۔ مہم کا مقصد قریش کے ایک قافلے کی راہ روکنا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم وَدَّان تک پہنچے لیکن کوئی معاملہ پیش نہ آیا۔

اسی غزوہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بنو ضمرہ کے سردارِ وقت عمرو بن مخشی الضمری سے حلیفانہ معائدہ کیا۔

یہ پہلی فوجی مہم تھی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بذات خود تشریف لے گئے تھے اور پندرہ دن مدینے سے باہر گزار کر واپس آئے۔ اس مہم کے پرچم کا رنگ سفید تھا اور سیدناحمزہ رضی اللہ عنہ علمبردار تھے۔

۲۔ غزوة بواط

اس مہم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم دو سو صحابہ رضی اللہ عنہم کو ہمراہ لے کر روانہ ہوئے۔ مقصود قریش کا ایک قافلہ تھا جس میں امیہ بن خلف سمیت قریش کے ایک سو آدمی اور ڈھائی ہزار اونٹ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم رضویٰ کے اطراف میں مقام بُواط تک تشریف لے گئے لیکن کوئی معاملہ پیش نہ آیا۔اس غزوہ کے دوران سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو مدینے کا امیر بنایا گیا تھا۔ پرچم سفید تھا اور علمبردار سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ تھے۔

۳۔ غزوة العشیرة

اس مہم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ ڈیڑھ یا دو سو مہاجرین تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی کو روانگی پر مجبور نہیں کیا تھا۔ سواری کے لیے صرف تیس اونٹ تھے۔ اس لیے لوگ باری باری سوار ہوتے تھے۔ مقصود قریش کا ایک قافلہ تھا جو ملک شام جا رہا تھا اور معلوم ہوا تھا کہ یہ مکے سے چل چکا ہے۔ اس قافلے میں قریش کا خاصا مال تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس کی طلب میں ذوالعشیرہ تک پہنچے لیکن آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پہنچنے سے کئی دن پہلے ہی قافلہ جا چکا تھا۔ یہ وہی قافلہ ہے جسے شام سے واپسی پر نبی اكرم صلی اللہ علیہ و سلم نے گرفتار کرنا چاہا تو یہ قافلہ تو بچ نکلا لیکن جنگِ بدر پیش آ گئی۔

اس غزوے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بنو مُد لِجْ اور ان کے حلیف بنو ضَمْرہ سے عدم جنگ کا معائدہ کیا۔

ایامِ سفر میں مدینہ کی سربراہی کا کام سیدناابو سلمہ بن عبدالاسد مخزومی رضی اللہ عنہ نے انجام دیا۔ اس دفعہ بھی پرچم سفید تھا اور علمبردار سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ تھے۔

۴۔غزوة بدر الاولی/سفوان:

اس غزوہ کی وجہ یہ تھی کہ کرزبن جابر فہری نے مشرکین کی ایک مختصر سی فوج کے ساتھ مدینے کی چراہ گاہ پر چھاپا مارا اور کچھ مویشی لوٹ لیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ستر صحابہ کے ہمراہ اس کا تعاقب کیا اور بدر کے اطراف میں واقع وادی سفوان تک تشریف لے گئے لیکن کرز اور اس کے ساتھیوں کو نہ پا سکے اور کسی ٹکراؤ کے بغیر واپس آگئے۔ اس غزوہ کو بعض مؤرخین غزوہ بدر اولیٰ بھی کہتے ہیں۔

اس غزوہ کے دوران مدینے کی امارت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو سونپی گئی تھی۔ علم سفید تھا اور علمبردار سیدناعلی رضی اللہ عنہ تھے۔

۵۔غزوة بدر الكبری:

تاریخ:17 رمضان 2ھ بمطابق 17 مارچ 624ء

مقام:      بدر، مدینہ سے 80 میل جنوب مغرب

نتیجہ:      مسلمانوں کی عظیم فتح

متحارب:   مسلمانانِ مدینہ   و مشركین مکہ

قوت:      مسلمان:   313مجاہدین۔

            كفار :       1000

نقصانات:  14 مسلمان شهید هوئے۔

            70 ہلاکتیں بشمول ابوجہل،اور70 قیدی

کفار مکہ اور مسلمانوں کے درمیان پہلا معرکہ، جس میں مسلمان تعداد اور اسباب میں کم ہونے کے باوجود فتح یاب ہوئے۔

غزوئه بد ر كی وجه :

رسول الله صلی اللہ علیہ و سلم نے مکہ کی سرزمین میں اعلان حق کیا تو معاشرے کے مخلص ترین افراد ایک ایک کرکے داعی اسلام کے ہاتھ پر بیعت کرنے لگے۔ وہ لوگ جن کے مفادات پرانے نظام سے وابستہ تھے تشدد پر اتر آئے نتیجہ ہجرت تھا۔ لیکن تصادم اس کے باوجود بھی ختم نہ ہوا۔ اسلام مدینہ میں تیزی سے ترقی کر رہا تھا اور یہ بات قریش مکہ کے لیے بہت تکلیف دہ تھی اور وہ مسلمانوں کو ختم کرنے کے منصوبے بناتے رہتے تھے اور مسلمان ہر وقت مدینہ پر حملے کا خدشہ رکھتے تھے۔ اس صورتحال کی نزاکت کا یہ عالم تھا کہ صحابہ ہتھیار لگا کر سوتے تھے اور خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی اسی طرح کی حفاظتی تدابیر اختیار کرتے تھے۔

قریش مکہ نے مدینہ کی اس اسلامی ریاست پر حملہ کرنے کا اس لیے بھی فیصلہ کیا کہ وہ شاہراہ جو مکہ سے شام کی طرف جاتی تھی مسلمانوں کی زد میں تھی۔ اس شاہراہ کی تجارت سے اہل مکہ كو لاکھوں اشرفیوں كی سالانه آمدنی حاصل هوتی تھی ۔

غزوہ بدر کی اہمیت:

غزوہ بدر اسلام اور کفر کا پہلا اور اہم ترین معرکہ تھا اس سے دنیا پر واضح ہو گیا کہ نصرت الہی کی بدولت مومنین اپنے سے کئی گناہ فوج کو شکست دے سکتے ہیں۔ اللہ تعالی نے قرآن پاک میں سو مومنوں کو ہزار کافروں پر فتح کی بشارت دی۔ غزوہ بدر میں شامل مسلمانوں نے جس قوت ایمانی کا مظاہرہ کیا اس کا اندازہ اس بات سے ہوسکتا ہے کہ باپ بیٹے کے خلاف اور بیٹا باپ کے خلاف۔ بھانجا ماموں کے خلاف اور چچا بھتیجے کے خلاف میدان میں آیا۔ سیدنا عمر نے اپنے ماموں کو اپنے ہاتھ سے قتل کیا۔ سیدنا ابوبکر کے صاحبزادے عبدالرحمن نے جو قریش کی طرف سے جنگ میں شریک ہوئے تھے۔ اسلام لانے کے بعد ایک دفعہ سیدنا ابوبکر کو بتایا کہ جنگ میں ایک مرتبہ آپ میری زد میں آگئے تھے لیکن میں نے آپ پر وار کرنا پسند نہ کیا۔ سیدنا ابوبکر نے فرمایا اللہ کی قسم اگر تم میری زد میں آجاتے تو کبھی لحاظ نہ کرتا۔ سیدنا حذیفہ کا باب عتبہ بن ربیعہ لشکر قریش کا سپہ سالار تھا اور سب سے پہلے قتل ہونے والوں میں شامل تھا۔ اس جنگ کاایک اور پہلو یہ تھا کہ مسلمانوں نے بہت نظم و ضبط سے دشمن کا مقابلہ کیا اور اپنی صفیں نہیں ٹوٹنے دیں۔ جنگ کے خاتمے پر اللہ اور رسول معظم  صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم کے تحت مال غنیمت کی تقسیم ہوئی۔ مال غنیمت کی اتنی پر امن اور دیانت دارانہ تقسیم کی مثال کم ہی ملتی تھی۔ القصہ مختصر مسلمانوں کے تقوی اور اطاعت رسول کی وجہ سے ان کی برتری روز روشن کی طرح ثابت ہو گئی اور کفار کے حوصلے پست ہوئے۔ جب کی مسلمانوں کا اللہ پر توکل بہت بڑھ گیا۔

۶۔غزوة بنی سلیم:

غزوۂ بدر کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو مصدقہ اطلاع ملی کہ قبیلۂ غطفان کی شاخ بنوسلیم کے لوگ مدینے پر چڑھائی کے لیے فوج جمع کر رہے ہیں۔ اس کے جواب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسو سواروں کے ساتھ ان پر خود ان کے اپنے علاقے میں اچانک دھاوابول دیا اور مقام کُدر (بنوسلیم کا ایک چشمہ)میں ان کی منازل تک جا پہنچے۔ بنو سلیم میں اس اچانک حملے سے بھگدڑ مچ گئ اور وہ افراتفری کے عالم میں وادی کے اندر پانچ سو اونٹ چھوڑ کر بھاگ گئے جس پرلشکر مدینہ نے قبضہ کرلیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا خمس نکال کر بقیہ مال غنیمت مجاہدین میں تقسیم کردیا ۔ ہر شخص کے حصے میں دو دو اونٹ آئے۔ اس غزوے میں یسارنامی ایک غلام ہاتھ آیا جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آزاد کردیااس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم دیار بنی سلیم میں تین روز قیام فرما کر مدینہ پلٹ آئے۔

۷۔غزوة بنی قینقاع:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ تشریف لانے کے بعد یہود کے ساتھ كچھ معاهدات فرمائے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی پوری کوشش اور خواہش تھی کہ اس معاہدے میں جوکچھ طے پاگیا ہے وہ نافذ رہے، چنانچہ مسلمانوں کی طرف سے کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا گیا جو اس معاہدے کی عبارت کے کسی ایک حرف کے بھی خلاف ہو۔ لیکن یہود جن کی تاریخ غدر وخیانت اور عہد شکنی سے پر ہے وہ بہت جلد اپنے قدیم مزاج کی طرف پلٹ گئے اور مسلمانوں کی صفوں کے اندر وسیسہ کا ری، سازش، لڑانے بھڑانے اور ہنگامے اور اضطراب بپا کرنے کی کوششیں شروع کردیں۔

ابن ہشام نے ابوعون سے روایت کی ہے کہ ایک عرب عورت بنوقینقاع کے بازار میں کچھ سامان لے کر آئی اور بیچ کر (کسی ضرورت کے لیے)ایک سنار کے پاس ، جو یہودی تھا، بیٹھ گئی۔ یہودیوں نے اس کا چہرہ کھلوانا چاہا مگر اس نے انکار کر دیا۔ اس پر اس سنار نے چپکے سے اس کے کپڑے کا نچلا کنارا پشت پر باندھ دیا اور اسے کچھ خبر نہ ہوئی۔ جب وہ اٹھی تو اس سے بے پردہ ہوگئی تو یہودیوں نے قہقہہ لگایا۔ اس پر اس عورت نے چیخ پکار مچائی جسے سن کر ایک مسلمان نے اس سنار پر حملہ کیا اور اسے مارڈالا۔ جوابا یہودیوں نے اس مسلمان پر حملہ کرکے اسے مارڈالا۔ اس کے بعد مقتول مسلمان کے گھروالوں نے شور مچایا اور یہود کے خلاف مسلمانوں سے فریاد کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان اور بنی قینقاع کے یہودیوں میں بلوہ ہوگیا۔

محاصرہ، سپردگی اور جلاوطنی:اس واقعے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے کا انتظام ابولبابہ بن عبد المنذر رضی اللہ عنہ کو سونپا اور خود، سیدنا حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں مسلمانوں کا پھریراوے کر اللہ کے لشکر کے ہمراہ بنوقینقاع کا رخ کیا۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو گڑھیوں میں قلعہ بند ہوگئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا سختی سے محاصرہ کر لیا۔ یہ جمعہ کا دن تھا اور شوال سنہ2ھ کی 15 تاریخ-پندرہ روز تک بھی یعنی ہلال ذی القعدہ کے نمودار ہونے تک بھی محاصرہ جاری رہا۔ پھر اللہ تعالی نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا جس کی سنت ہی یہ ہے کہ جب وہ کسی قوم کو شکست و ہزیمت سے دوچار کرنا چاہتا ہے تو ان کے دلوں میں رعب ڈال دیتا ہے، چنانچہ بنوقینقاع نے اس شرط پر ہتھیار ڈال دیئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی جان و مال، آل و اولاد اور عورتوں کے بارے میں جو فیصلہ کریں گے انہیں منظور ہوگا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ان سب کو باندھ لیا گیا۔

لیکن یہی موقع تھا جب عبد اللہ بن ابی نے اپنا منافقانہ کردار ادا کیا۔ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سخت اصرار والحاح کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے بارے میں معافی کا حکم صادر فرمائیں۔

اس نے کہا: ’’اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)!میرے معاہدین کے بارے میں احسان کیجئے‘‘–واضح رہے کہ بنوقینقاع خزرج کے حلیف تھےلیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تاخیر کی۔ اس پر اس نے اپنی بات پھر دہرائی۔ مگر اب کی بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے اپنا رخ پھیر لیا۔ لیکن اس شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گریبان میں اپنا ہاتھ ڈال دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مجھے چھوڑ دو! اور ایسے غضبناک ہوئے کہ لوگوں نے غصے کی پرچھائیاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر دیکھیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تجھ پر افسوس، مجھے چھوڑ۔ لیکن یہ منافق اپنے اصرار پر قائم رہا اور بولا:’’نہیں بخدا میں آپ کو نہیں چھوڑوں گا یہا ں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے معاہدین کے بارے میں احسان فرمادیں۔ چار سو کھلے جسم کے جوان اور تین سوزرہ پوش جنہوں نے مجھے سرخ وسیاہ سے بچایا تھا آپ انہیں ایک ہی صبح میں کاٹ کر رکھ دیں گے؟ واللہ! میں زمانے کی گردشوں کا خطرہ محسوس کررہا ہوں‘‘۔

بالآخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس منافق کے ساتھ (جس کے اظہار اسلام پر ابھی کوئی ایک ہی مہینہ گذرا تھا)رعایت کا معاملہ کیا اور اس کی خاطران سب کی جان بخشی کردی البتہ انہیں حکم دیا کہ وہ مدینے سے نکل جائیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پڑوس میں نہ رہیں، چنانچہ یہ سب یهود شام کی طرف چلے گئے اور تھوڑے ہی دنوں بعد وہاں اکثر کی موت واقع ہوگئی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اموال ضبط کرلیے۔ جن میں سے تین کمانیں، دوزرہیں،تین تلواریں اور تین نیزے اپنے لیے منتخب فرمائے اور مال غنیمت میں سے خمس بھی نکالا۔ غنائم جمع کرنے کا کام محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے انجام دیا۔

۸۔غزوة السویق:

ایک طرف صفوان بن امیہ، یہود اور منافقین اپنی اپنی سازشوں میں مصروف تھے تو دوسری طرف ابوسفیان بھی کوئی ایسی کاروائی انجام دینے کی تیاری میں تھا جس سے بارکم سے کم پڑے لیکن اثر نمایاں ہو۔ وہ ایسی کاروائی جلد ازجلد انجام دے کر اپنی قوم کی آبرو کی حفاظت اور ان کی قوت کا اظہار کرنا چاہتا تھا۔ اس نے نذر مان رکھی تھی کہ جنابت کے سبب اس کے سرکو پانی نہ چھوسکے گا یہاں تک کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم سے لڑائی کرلے۔ چنانچہ وہ اپنی قسم پوروی کرنے کے لیے دوسو سواروں کو لے کر روانہ ہوا۔ اور وادی قناۃ کے سرے پر واقع نیب نامی ایک پہاڑی کے دامن میں خیمہ زن ہوا مدینے سے اس کا فاصلہ کوئی بارہ میل ہے، لیکن چونکہ ابو سفیان کو مدینے پر کھلم کھلا حملے کی ہمت نہ ہوئی اس لیے اس نے ایک ایسی کاروائی انجام دی جسے ڈاکہ زنی سے ملتی جلتی کاروائی کہا جاسکتا ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ وہ رات کی تاریکی میں اطراف مدینہ کے اندر داخل ہوا اور حیی بن اخطب کے پاس جاکر اس کا دروازہ کھلوایا۔ حیی نے انجام کے خوف سے انکار کردیا۔ ابوسفیان پلٹ کر بنونضیر کے ایک دوسرے سردار سلام بن مشکم کے پاس پہنچا جو بنونضیر کا خزانچی بھی تھا۔ ابوسفیان نے اندر آنے کی اجازت چاہی۔ اس نے اجازت بھی دی اور مہمان نوازی بھی کی۔ خوراک کے علاوہ شراب بھی پلائی اور لوگوں کے پس پردہ حالات سے آگاہ بھی کیا۔ رات کے پچھلے پہر ابوسفیان وہاں سے نکل کر اپنے ساتھیوں میں پہنچا اور ان کا ایک دستہ بھیج کر مدینے کے اطراف میں عریض نامی ایک مقام پر حملہ کرادیا۔ اس دستے نے وہاں کھجور کے کچھ درخت کاٹے اور جلائے اور ایک انصاری اور اس کے حلیف کو ان کے کھیت میں پاکر قتل کردیا اور تیزی سے مکہ واپس بھاگ نکلا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واردات کی خبر ملتے ہی تیز رفتاری سے ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں کا تعاقب کیا لیکن وہ اس سے بھی زیادہ تیز رفتاری سے بھاگے، چنانچہ وہ لوگ تو دستیاب نہ ہوئے لیکن انہوں نے بوجھ ہلکا کرنے کے لیے ستو، توشے اور بہت ساسازوسامان پھینک دیا تھا جو مسلمانوں کے ہاتھ لگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کرکرۃ الکدر تک تعاقب کرکے واپسی کی راہ لی۔ مسلمان ستو وغیرہ لاد پھاندکر واپس ہوئے اور اس مہم کا نام غزوۂ سویق ركھ دیا یه غزوئه بدر كے صرف دو ماه بعد ذی الحجہ سنہ2ھ میں پیش آیا۔ اس غزوے کے دوران مدینے کا انتظام ابولبابہ بن عبد المنذر رضی اللہ عنہ کو سونپا گیا تھا۔

۹۔ غزوة ذی أمر:

معرکۂ بدر واحد کے درمیانی عرصے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر قیادت یہ سب سے بڑی فوجی مہم تھی جو محرم سنہ3ھ میں پیش آئی۔ اس کا سبب یہ تھا کہ مدینے کے ذرائع اطلاعات نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اطلاع فراہم کی کہ بنو ثعلبہ اور محارب کی بہت بڑی حمعیت مدینے پر چھاپہ مارنے کے لیے اکٹھی ہورہی ہے۔یہ اطلاع ملتے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو تیاری کا حکم دیا اور سوارو پیادہ پر مشتمل ساڑھے چارسو کی نفری کے ساتھ روانہ ہوئے اور سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو مدینے میں اپنا جانیشن مقرر فرمایا۔

راستے میں صحابہ رضی اللہ عنہم نے بنوثعلبہ کے جبارنامی ایک شخص کو گرفتار کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرکیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اسلام کی دعوت دی۔ اس نے اسلام قبول کر لیا۔اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کی رفاقت میں دے دیا اور اس نے راہ شناس کی حیثیت سے مسلمانوں کو دشمن کی سرزمین تک راستہ بتایا۔

ادھر دشمن کو جیش مدنیہ کی آمد کی خبر ہوئی تو وہ گردو پیش کی پہاڑیوں میں بکھر گئے لیکن نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش قدمی جاری رکھی اور لشکر کے ہمراہ اس مقام تک تشریف لے گئے جسے دشمن نے اپنی جمیعت کی فراہمی کے لیے منتخب کیا تھا۔ یہ درحقیقت ایک چشمہ تھا جو ’’ذی امر‘‘کے نام سے معروف تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں بدوؤں پر رعب و دبدبہ قائم کرنے اور انہیں مسلمانوں کی طاقت کا احساس دلانے کے لیے صفر(سنہ3ھ)کا تقریبا پورا مہینہ گذاردیا اور اس کے بعد مدینہ تشریف لائے۔

۱۰۔ غزوة نجران:

یہ ایک بڑی فوجی مہم تھی جس کی تعداد تین سو تھی ۔ اس فوج کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ماہ ربیع الآخر 3ھ میں نجران نامی ایک علاقے کی طرف تشریف لے گئے تھے ۔۔ یہ حجاز کے اندر فرع کے اطراف میں ایک معدنیاتی مقام ہے ۔۔ اور ربیع الآخر اور جمادی الاولٰی کے دو مہینے وہیں قیام فرما رہے ۔ اس کے بعد مدینہ واپس تشریف لائے ۔ کسی قسم کی لڑائی سے سابقہ پیش نہ آیا ۔

۱۱۔ غزوة احد

احد کا پہاڑ جس کے دامن میں غزوہ احد لڑی گئی

تاریخ:     7 شوال 3ھ (23 مارچ 625ء)

مقام:      احد

نتیجہ:      مسلمانوں كا پلڑا بھاری رها

متحارب:   مسلمانانِ مدینہ   و     مشركین مکہ

قوت:      مسلمانوں كی تعداد:1000 سے کم

            كفار مكه كی تعداد :3200

نقصانات:  مسلمانوں كی 75 شہادتیں

            اور كفار كی27 ہلاکتیں

جنگ احد ماہِ شوال 3ھ میں مسلمانوں اور مشرکینِ مکہ کے درمیان احد کے پہاڑ کے دامن میں ہوئی۔ مشرکین کے لشکر کی قیادت ابوسفیان کے پاس تھی اور اس نے 3000 سے زائد افراد کے ساتھ مسلمانوں پر حملہ کی ٹھانی تھی جس کی باقاعدہ تیاری کی گئی تھی۔ مسلمانوں کی قیادت رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کی۔ اس جنگ کے نتیجہ کو کسی کی فتح یا شکست نہیں کہا جا سکتا کیونکہ دونوں طرف شدید نقصان ہوا اور کبھی مسلمان غالب آئے اور کبھی مشرکین لیکن آخر میں مشرکین کا لشکر لڑائی ترک کر کے مکہ واپس چلا گیا۔جس سے کہا جاسکتا ہے کہ فتح مسلمانوں کی ہوئی تھی۔

۱۲۔ غزوة حمر الاسد

غزوہ حمراء الاسد(شوال۳ہجری)

اُحد میں دونوں فوجیں جب میدان جنگ سے الگ ہوئیں تو مسلمان زخموں سے چُور تھے تا ہم یہ خیال کر کے کہ ابو سفیان مسلمانوں کو مغلوب سمجھ کر دوبارہ حملہ آور نہ ہو،آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مسلمانوں سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ کون اُن کا تعاقب کرے گا،   فوراًستّر آدمیوں کی ایک جماعت اس مہم کے لئے تیار ہو گئی جن میں سیدنا ابو بکررضی اللہ عنہ و سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے۔(صحیح بخاری)

ابو سفیان اُحد سے روانہ ہو کر جب مقام روحا پہنچا تو یہ خیال آیا کہ کام نا تمام رہ گیا ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو پہلے ہی سے گمان تھا، چنانچہ اُحد کی لڑائی کے دوسرے دن ۸ شوال ۳ہجری کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدنا عبداللہ بن اُم مکتوم رضی اللہ عنہ کو اپنا نائب مقرر فرمایا اور مجاہدین کے ساتھ ابو سفیان کے تعاقب کے لئے روانہ ہوئے، عَلم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں تھا، مدینہ سے آٹھ میل دور مکہ جانے والی شاہراہ پر حمراء الا سد کے مقام پر خیمہ زن ہوئے، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے بنی اسلم کے تین آدمیوں کو قریش کی جانب بطور مخبر روانہ فرمایا تھا، وہ دوبارہ حملہ کی خبرسن کر لوٹ رہے تھے کہ ان میں سے دو پکڑے گئے اور شہید کر دئیے گئے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم ابھی حمراء الا سد میں مقیم تھے کہ قبیلہ خزاعہ کا سردار معبد بن ابی معبد خزاعی جو اس وقت تک ایمان نہیں لایا تھا، لیکن در پردہ اسلام کا طرفدار تھا شہدائے اُحد کی تعزیت کے لئے آیا اور واپس جا کر ابو سفیان سے ملااور کہا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم ایک بہت بڑے لشکر کے ساتھ تمہارے تعاقب کے لئے آرہے ہیں اس لئے ان کا مقابلہ نا ممکن ہے ، اس نے ابو سفیان کو اپنے ارادہ سے باز رہنے کے لئے مشورہ دیا، ابو سفیان کودوبارہ حملہ کرنے کی جرأت نہ ہوئی اور وہ واپس چلا گیا،   اس مہم میں قتال کی نوبت نہیں آئی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم حمراء الاسد میں تین روز قیام کے بعد ۱۳شوال کو مدینہ لوٹ آئے ،آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی مدینہ واپسی سے پہلے ابو عزّہ جمہی پکڑا گیا جس کو بدر میں گرفتاری کے بعد اس کے فقر اور زیادہ لڑکیاں ہونے کے سبب اس شرط پر چھوڑدیاگیاتھا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف کسی سے تعاون نہیں کرے گا،لیکن اسے نے وعدہ خلافی کی اور اپنے اشعار کے ذریعہ رسول معظم صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے خلاف لوگوں کو اکسایا اور پھر خود مسلمانوں سے لڑنے کے لئے احد میں آیا مگر گرفتار ہوا ،   اس نے اپنی بچیوں کی خاطررسول رحمت صلی اللہ علیہ و سلم سے درخواست کی کہ اسے رہا کردیں اور وعدہ کیا کہ دوبارہ وعدہ خلافی نہیں کرے گا، رسول اكرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تم مکہ جاکر اپنے رخسار پر ہاتھ پھیرو اور کہو کہ میں نے محمد( صلی اللہ علیہ و سلم ) کو دو مرتبہ دھوکا دیا، مومن ایک سوراخ سے دو مرتبہ نہیں ڈسا جاتا، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ یا حضرت عاصم رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ اس کو قتل کردیں۔

۱۳۔ غزوة بنی النضیر

   غزوۂ بنی نضیر کے متعلق اہل سیر کی رائے ہے کہ یہ ۴   ہجری کا واقعہ ہے،   بخاری شریف میں ہے کہ ابن اسحاق نے بیر معونہ اور اُحد کے بعد کا واقعہ قرار دیاہے ،   ارباب حدیث کی رائے یہ ہے کہ یہ غزوہ‘ غزوۂ اُحد سے پہلے اور غزوۂ بدر کے چھ ماہ بعد کا واقعہ ہے،   بخاری میں زہری کی روایت سیدہ اروہ رضی اللہ عنہا سے یہی ہے، اہل سیر نے غزوۂ بنی نضیر کا سبب یہ لکھا ہے کہ بیر معونہ کے واقعہ کے بعد سیدنا عمرو بن امیہ رضی اللہ عنہا نے قبیلہ عامر کے دو آدمی قتل کر دئے تھے اور جن کا خوں بہا واجب الادا تھا، اور جس کا ایک حصہ معاہدہ کی رُو سے بنو نضیر پر واجب الادا تھا، اس کے مطالبہ کے لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے بنو نضیرکے پاس تشریف لے گئے ، انھوں نے قبول کیا لیکن درپردہ یہ سازش کی کہ ایک شخص چپکے سے بالا خانہ پر چڑھ کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم پر پتھر گرا دے،   اتفاق سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس وقت بالا خانہ کی دیوار کے سایہ میں کھڑے تھے، عمرو بن حجاش ایک یہودی اس ارادہ سے کوٹھے پر چڑھا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اس کے ارادہ کا حال معلوم ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم فوراً مدینہ واپس چلے آئے، صحابہ رضی اللہ عنہم کے استفسار پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ یہود نے بدعہدی کا ارادہ کیاتھا اور اﷲ نے مجھے خبر دی اس لئے میں چلاآیا،بہت پہلے قریش نے بنو نضیر کو کہلا بھیجا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو قتل کر دو ورنہ ہم خود آکر تمہارا اسیتصال کر دیں گے، بنو نضیرپہلے سے اسلام کے دشمن تھے،   قریش کے پیغام نے ان کو اور زیادہ آمادہ کیا،

بنو نضیر نہایت مضبوط قلعوں میں پناہ گزیں تھے جن کا فتح کرنا آسان نہ تھا، اس کے علاوہ عبداللہ بن اُبی نے کہلا بھیجا کہ اطاعت نہ کرنا ‘بنو قریظہ تمہارا ساتھ دیں گے اور میں دو ہزار آدمی لے کر تمہاری اعانت کرو ں گالیکن بنو نضیرکے تمام خیالات غلط نکلے، بنو قریظہ نے ان کا ساتھ نہیں دیا اور منافق علانیہ اسلام کے مقابلہ میں نہیں آسکتے تھے، ان حالات میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے محمد بن مسلمہ رضی الله عنه کو طلب فرمایا اور حکم دیا کہ بنو نضیر کے پاس جاؤ اورکہو کہ تم نے معاہدہ توڑا ہے ‘ فریب اور غدّاری پر آمادہ ہو ، اس لئے یہاں سے نکلنے کے لئے تمہیں دس دن کی مہلت دی جاتی ہے، اس کے بعد جو شخص پایا جائے گا اس کی جان کی خیر نہیں ، بنو نضیر کے سردار حئی بن اخطب نے یہ سنا تو سنا ٹے میں آگیا اور عبداللہ بن ابی کی شہہ پا کر اپنے بھائی جدی بن اخطب سے جواب بھیجا کہ ہم کسی صورت میں اس مقام کو نہیں چھوڑیں گے ، جو جی میں آئے کرو ، اس کے بعد وہ لوگ قلعہ بند ہو گئے ، ان کے پاس خوراک کی کمی تھی نہ پانی کی ، ہتھیار بھی کافی مقدار میں تھے اس لئے ایک سال تک قلعہ بندرہ سکتے تھے ،

آپ کی دی ہوئی مہلت کی مدت ختم ہوئی تو آپ صحابہ کو ساتھ لے کران کی سر کوبی کے لئے نکلے ، مدینہ میں سیدنا عبداللہ بن اُم مکتوم رضی اللہ عنہ کو نائب مقرر فرمایا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو علم عطا فرمایا، آپ نے پندرہ روز تک ان کے قلعوں کا محاصرہ فرمایا، قلعہ کے گرداُن کے جو نخلستان تھے ان کے چند درخت کٹوا دئے، سہیلی نے روض الانف میں لکھا ہے کہ سب نخلستان نہیں کاٹے گئے بلکہ صرف لینتہ جو ایک خاص قسم کاکھجور ہے اور عرب کی عام خوراک ہے اس کے درخت کٹوادئے گئے، قرآن مجید میں اس کا ذکر ہے:

” (اے ایمان والو) کھجور کے جو درخت تم نے کاٹ ڈالے یا ان کو اپنی جڑوں پر کھڑا رہنے دیا تو وہ اﷲ کے حکم سے تھا تاکہ وہ کافروں کو ذلیل کرے “۔( سورۂ حشر : ۵)

ممکن ہے کہ درختوں کے جھنڈسے مکیں گاہ کا کام لیا جا تا ہو اس لئے وہ صاف کر ا دئے گئے کہ محاصرہ میں کوئی چیز حائل نہ ہو،   بالآخربنو نضیر اس شرط پر راضی ہوئے کہ جس قدر مال و اسباب اونٹوں پرلے جاسکیں لے جائیں اور مدینہ سے باہر نکل جائیں، چنانچہ سب گھروں کو چھوڑ کر نکل گئے۔ اس غزوہ کے بعد مدینہ کی سر زمین یہودی فتنہ گروں سے بڑی حد تک محفوظ ہو گئی،   مسلمان امن و امان کی فضا میں سانس لینے لگے، سودی کاروبار ختم ہو گیا؛چونکہ یہ یہودیوں کا ذریعہ معاش تھا، اس کی جگہ قرضۂ حسنہ کا طریقہ رائج ہوا۔

۱۴۔ غزوة ذات الرقاع:

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احزاب کے تین مضبوط بازوؤں میں سے دو مضبوط بازوؤں کو توڑ کر فارغ ہو گئے تو تیسرے بازو کی طرف توجہ کا بھر پور موقع مل گیا ۔ تیسرا بازو وہ بدو تھے جو نجد کے صحرا میں خیمہ زن تھے اور رہ رہ کر لوٹ مار کی کاروائیاں کرتے رہتے تھے ۔

چونکہ یہ بدو کسی آبادی یا شہر کے باشندے نہ تھے اور ان کا قیام مکانات اور قلعوں کے اندر نہ تھا اس لئے اہل مکہ اور باشندگان خیبر کی بہ نسبت ان پر پوری طرح قابو پالینااور ان کے شرو فساد کی آگ مکمل طور پر بجھا دینا سخت دشوار تھا۔ لہٰذا ان کے حق میں صرف خوف زدہ کرنے والی تادیبی کاروائیاں ہی مفید ہو سکتی تھیں ۔

چنانچہ ان بدوؤں پر رعب و دبدبہ قائم کرنے کی غرض سے۔ اور بقول دیگر مدینہ کے اطراف میں چھاپہ مارنے کے ارادے سے جمع ہونے والے بدوؤں کو پراگندہ کرنے کی غرض سے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک تادیبی حملہ فرمایا جو غزوہ ذات الرقاع کے نام سے معروف ہے ۔

اہل سیر نے اس غزوے کے متعلق جو کچھ ذکر کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ عیہ وسلم نے قبیلہ انمار یا بنوغطفان کی دو شاخوں بنی ثعلبہ اور بن محارب کے اجتماع کی خبر سن کر مدینہ کا انتظام سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ یا سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے حوالے کیا اور چار سو یا سات سو صحابہ کرام کی معیت میں بلاد نجد کا رخ کیا ۔ پھر مدینہ سے دودن کے فاصلے پر مقام نخل پہنچ کر بنو غطفان کی ایک جمعیت سے سامنا ہوا لیکن جنگ نہیں ہوئی ۔ البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر صلوٰۃ خوف (حالتِ جنگ والی نماز ) پڑھائی ۔

۱۵۔ غزوة بدر الآخرة:

مسلمانوں کی تعداد:     1500

کفارِ مکہ کی تعداد:        2000

اعراب کی شوکت توڑ دینے اور بدوؤں کے شر سے مطمئن ہو جانے کے بعد مسلمانوں نے اپنے بڑے دشمن (قریش ) سے جنگ کی تیاری شروع کر دی۔ کیونکہ سال تیزی سے ختم ہو رہا تھا اور احد کے موقع پر طے کیا ہوا وقت قریب آتا جا رہا تھا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا فرض تھا کہ میدان کارزار میں ابو سفیان اور اس کی قوم سے دو دو ہاتھ کرنے کے لیے نکلیں اور جنگ کی چکی اس حکمت کے ساتھ چلائیں کہ جو فریق زیادہ ہدایت یافتہ اور پائدار بقا کا مستحق ہو حالات کا رخ پوری طرح اس کے حق میں ہو جائے ۔

چنانچہ شعبان 4 ھ جنوری 626ء میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے کا انتظام سیدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کو سونپ کر اس طے شدہ جنگ کے لیے بدر کا رخ فرمایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ڈیڑھ ہزار کی جمعیت اور دس گھوڑے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوج کا علم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو دیا اور بدر پہنچ کر مشرکین کے انتظار میں خیمہ زن ہو گئے ۔

دوسری طرف ابو سفیان بھی پچاس سواروں سمیت دو ہزار مشرکین کی جمعیت لے کر روانہ ہوا اور مکے سے ایک مرحلہ دور وادی مرالظّہران پہنچ کر مجنہ نام کے مشہور چشمے پر خیمہ زن ہوا لیکن وہ مکہ ہی سے بوجھل اور بد دل تھا ۔ بار بار مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی جنگ کا انجام سوچتا تھا اور رعب و ہیبت سے لرز اٹھتا تھا ۔ مرالظّہران پہنچ کر اس کی ہمت جواب دے گئی اور وہ واپسی کے بہانے سوچنے لگا ۔ بالآخراپنے ساتھیوں سے کہا : ’’قریش کے لوگو ! جنگ اس وقت موزوں ہوتی ہے جب شادابی اور ہریالی ہو کہ جانور بھی چر سکیں اور تم بھی دودھ پی سکو ۔ اس وقت خشک سالی ہے ، لہٰذا میں واپس جا رہاہوں ، تم بھی واپس چلے چلو ‘‘۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سارے ہی لشکر کے اعصاب پر خوف و ہیبت سوار تھی ۔کیونکہ ابو سفیان کے اس مشورہ پر کسی قسم کی مخالفت کے بغیر سب نے واپسی کی راہ لی اور کسی نے بھی سفر جاری رکھنے اور مسلمانوں سے جنگ لڑنے کی رائے نہ دی ۔

۱۶۔ غزوة دومة الجندل:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بدر سے واپس ہوئے تو ہر طرف امن و امان قائم ہوچکا تھا اور پوری اسلامی ریاست میں اطمینان کی باد بہاری چل رہی تھی ۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم عرب کی آخری حدود تک توجہ فرمانے کے لئے فارغ ہو چکے تھے اور اس کی ضرورت بھی تھی تاکہ حالات پر مسلمانوں کاغلبہ اور کنٹرول رہے۔ اور دوست ودشمن سبھی اس کو محسوس اور تسلیم کریں

چنانچہ بدر الآخرہ کے بعد چھ ماہ تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اطمینان سے مدینے میں قیام فرمایا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاعات ملیں کہ شام کے قریب دُومۃ الجندل کے گرد آباد قبائل آنے جانے والے قافلوں پر ڈاکے ڈال رہے ہیں اور وہاں سے گزرنے والی اشیاء لوٹ لیتے ہیں ۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ انہوں نے مدینے پر حملہ کرنے کے لیے ایک بڑی فوج فراہم کرلی ہے ۔ ان اطلاعات کے پیش نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا سباع بن عرفطہ غفاری رضی اللہ عنہ کو مدینے میں اپنا جانشین مقرر فرما کر ایک ہزار مسلمانوں کی نفری کے ساتھ کوچ فرمایا ۔ یہ 25ربیع الاول کا واقعہ ہے۔ راستہ بتانے کے لیے بنو عذرہ کا ایک آدمی رکھ لیا گیا

اس غزوے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات میں سفر فرماتے اور دن میں چھپے رہتے تھے تاکہ دشمن پر بالکل اچانک اور بے خبری میں حملہ کریں۔ قریب پہنچے تو معلوم ہوا کہ وہ لوگ باہر نکل گئے ہیں ،لہٰذا ان کے مویشیوں اور چرواہوں پر ہلہ بول دیا کچھ ہاتھ آئے کچھ نکل بھاگے ۔

جہاں تک دُومۃ الجندل کے باشندوں کا تعلق ہے تو جس کا جدھر سینگ سمایا بھاگ نکلا ۔ جب مسلمان دُومۃ کے میدان میں اترے تو کوئی نہ ملا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند دن قیام فرماکر اِدھر اُدھر متعدد دستے روانہ کئے لیکن کوئی بھی ہاتھ نہ آیا ۔ بالآخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ پلٹ آئے۔ اس غزوے میں عُیَینہ بن حصن سے مصالحت بھی ہوئی ۔

۱۷۔ غزوة بنی المصطلق:

قبیلہ بنی مصطلق نے غزوہ احد میں قریش کے ساتھ سازشیں کی تھیں جس کے بعد انہوں نے مسلمانوں سے جنگ کی تیاری شروع کر دی۔ محمد الرسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مسلمانوں کو جنگ کے لیے تیار کیا اور شعبان 6ھ میں مریسع کے مقام پر قبیلہ بنی مصطلق کے ساتھ جنگ کی جس میں جب ان کے دس افراد ھلاک ہو گئے تو وہ فرار ہونا شروع ہو گئے۔ مسلمانوں کے پاس دو ہزار اونٹ، پانچ ہزار بھیڑیں مال غنیمت کے طور پر آئیں اور لاتعداد قیدی بھی ہوئے جن میں عورتیں اور بچے شامل تھے۔ مدینہ پہنچنے کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس قبیلہ کے سردار حارث بن ابی ضرار کی بیٹی جویریہ سے فدیہ دینے کے بعد نکاح کر لیا۔ سیدہ جویریہ رضی اللہ عنہا جس شخص کی قیدی بنی تھیں ان سے انہوں نے کہا کہ میں تمہیں فدیہ دے کر آزاد ہونا چاہتی ہوں مگر ان کے پاس پیسے نہیں تھے۔ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آئیں، اپنا تعارف کروایا اور ان سے فدیہ دینے کے سلسلے میں مدد طلب کی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ کیا تمہیں پسند ہے کہ میں تمہارے لیے اس سے بہتر کام انجام دوں؟ جن پیسوں کی تم قرضدار ہو اس کو میں ادا کر دوں اور تم سے شادی کر لوں۔ سیدہ جویریہ رضی اللہ عنہا اس بات سے نہایت مسرور ہوئیں چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ جب ایسا ہوا تو مسلمانوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس نئی قرابت داری کی وجہ سے اپنے قیدیوں کو فدیہ لیے بغیر ہی رہا کر دیا۔ اس حسنِ سلوک کی وجہ سے تمام افراد مسلمان ہو گئے اور اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔

۱۸۔ غزوة الخندق/ الاحزاب

تاریخ:شوال۔ ذی القعدہ 5ھ (مارچ 627ء)

مقام:مدینہ اور اس کے آس پاس

نتیجہ:مسلمانوں کی فتح

متحارب:   مسلمانانِ مدینه   و   مشركین مکہ

قوت:      مسلمان تقریباً 3000

            اور كفار تقریباً 10,000

نقصانات:  6 شہادتیں

            8 ہلاکتیں اور کثیر مالی نقصان

شوال۔ ذی القعدہ 5ھ (مارچ 627ء) میں مشرکینِ مکہ نے مسلمانوں سے جنگ کی ٹھانی، ابوسفیان نے قریش اور دیگر قبائل حتیٰ کہ یہودیوں سے بھی لوگوں کو جنگ پر اكسایا اور اس سلسلے میں کئی معاہدے کیے اور ایک بہت بڑی فوج اکٹھی کر لی مگر مسلمانوں نے سیدنا سلمان فارسی کے مشورہ سے مدینہ کے ارد گرد ایک خندق کھود لی۔ مشرکینِ مکہ ان کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ خندق کھودنے کی عرب میں یہ پہلی مثال تھی کیونکہ اصل میں یہ ایرانیوں کا طریقہ تھا۔ ایک ماہ کے محاصرے اور اپنے بے شمار افراد کے قتل کے بعد مشرکین مایوس ہو کر واپس چلے گئے۔ اسے غزوہ خندق یا جنگِ احزاب کہا جاتا ہے۔ احزاب کا نام اس لیے دیا جاتا ہے کہ اصل میں یہ کئی قبائل کا مجموعہ تھی۔ جیسے آج کل امریکہ، برطانیہ وغیرہ کی اتحادی افواج کہلاتی ہیں۔ اس جنگ کا ذکر قرآن میں سورۃ الاحزاب میں ہے۔

۱۹۔ غزوة بنی قریظه:

مدینہ کے اندر ایک یهود قبیلہ بنی قریظہ رہتا تھا جس کے ساتھ مسلمانوں نے امن کا معاہدہ کر رکھا تھا۔ غزوہ خندق میں انہوں نے مسلمانوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کی کوشش کی جو اللہ کے فضل سے ناکام ہو گئی۔ اسی وجہ سے مسلمانوں نے ان سے جنگ کی اور عہد شکنوں کو ہلاک کر دیا۔

۲۰۔غزوة بنی لحیان

۲۰غزوہ بنو لحیان (ربیع الاول۶ھ)

بنو لحیان قبیلہ ہذیل کی ایک شاخ تھی جو مدینہ کے جنوب مشرق میں آباد تھی، غزوہ بنو قریظہ کے بعد دو مہینے ہی گزرے تھے کہ بنو لحیان نے دھوکے سے دس صحابہ کو تعلیم اسلام کے لئے بلوایا اور انہیں شہید کر دیا، اس غداری کی سزاء دینے کے لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم  سیدنا عبداللہ بن اُم مکتوم رضی اللہ عنہ کو اپنا نائب مقرر کرکے دو سو صحابہ اور بیس گھوڑوں کے ساتھ ماہ ربیع الاول میں مدینہ سے نکلے، امج اور عسفان کے درمیان جہاں ان صحابہ کو شہید کیا گیا تھا بطن غران کی وادی میں پہنچ کر ان شہداء کے لئے دعائے مغفرت فرمائی،بنو لحیان کو پتہ چلا تو پہاڑیوں میں چھپ گئے، دو دن تک تلاش جاری رہی مگر کوئی ہاتھ نہ آیا،   اس دوران سرئیے بھی بھیجے مگر بنو لحیان نہ مل سکے ، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم قریش کو مرعوب کرنے کی غرض سے چند روز عسفان کے نواح میں فرو کش رہے اور وہاں سے دس شہہ سوار کراغ الغمیم بھیجے تاکہ قریش کو بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی آمد کی خبر ہوجائے، کل چودہ دن مدینہ سے باہر رہ کر ۱۴ ربیع الاول کو واپس تشریف لائے۔

۲۱۔غزوہ ذی قرد یا غابہ

غزوۂ ذی قرد کو غزوۂ غابہ بھی کہتے ہیں، غابہ ایک چراگاہ کا نام ہے جو انداز اً مدینہ سے بارہ میل کے فاصلہ پر واقع تھی اور جس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی اونٹنیاں چرتی تھیں، سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے سیدنا ذر رضی اللہ عنہ اس کے نگران تھے، ایک رات بنو غطفان کی ایک شاخ فزارہ کے سردار عینیہ بن حصین فزاری نے چالیس سواروں کے ساتھ غابہ پر حملہ کیا اور بیس اونٹنیاں ہانک کر لے گیا، ساتھ ہی سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کے فرزند سیدنا ذررضی اللہ عنہ کوبھی قتل کردیااور سیدناذررضی اللہ عنہ کی بیوی کو اٹھالے گیا، اتفاق سے سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ اور ایک غلام رباح نے اسے دیکھ لیا ، سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے سلع پہاڑی پر کھڑے ہوکر ” واصبا حا ” کا نعرہ تین بار لگایاجو خطرہ کی گھنٹی تھی، رباح کے ذریعہ مدینہ اطلاع بھیجی اور خود ان کا پیچھا کرکے تیر برسانے شروع کردئیے جس سے دشمن کے آدمی زخمی ہوئے، آخر کار دشمن نے تمام اونٹ چھوڑ دئیے جنھیں اکوع نے مدینہ کی طرف بھیج دیا، اور خود دشمن کا تعاقب کیا اور سیدنا ذر رضی اللہ عنہ کی بیوی کو آزاد کرالیا، ان کو تیس نیزے اور تیس چادریں حاصل ہوئیں ،

۲۲۔ غزوة الحدیبیة / صلح الحدیبیة

صلح حدیبیہ سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو خواب میں مسلمانوں کے ساتھ بیت اللہ میں داخل ہو کر طواف و عمرہ کرتے ہوئے دکھایا گیا۔نبی کا خواب بھی وحی کے مرتبہ میں ہوتا ہے۔ اس خواب میں یہ متعین نہیں تھا کہ ایسا کس سال ہوگا؟ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام مسلمان اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت عظیمہ سمجھتے ہوئے، عمرہ کے لئے فوراً ہی تیار ہو کرایک قافلہ کی صورت میں چل پڑے، آخر کار حدیبیہ کے مقام پر وہ صلح ہوئی جو مسلمانوں کے لئے مستقبل میں بہت مفید ثابت ہوئی۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ کے فیصلہ کے مطابق اس خواب کی تعبیر آئندہ سال پوری ہونی تھی جیساکہ آئندہ سال مسلمانوںنے نہایت امن وامان کے ساتھ عمرہ کیا اور اللہ ربّ العزّت نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے خواب کو سچا کر دکھایا یعنی اگر حدیبیہ کے مقام پر صلح نہ ہوتی تو جنگ کرنے سے مسلمانوں کو نقصان پہنچتا۔ اس صلح کے بعدبہ کثرت لوگ مسلمان ہوئے ۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر مسلمان پندرہ سو تھے اور فتح مکہ کے موقع پر جب مسلمان مکہّ میں فاتحانہ طور پر داخل ہوئے تو ان کی تعداد دس ہزار تھی۔ بے شک صلح کے ان فوائد کو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا تھا۔صلح حدیبیہ کا واقعہ یکم ذوالقعدہ 6 ؁ھ کو پیش آیا۔

پندرہ سو کی تعداد میں صحابہ رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ و سلم  کے ساتھ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مدینہ سے ہی احرام باندھنے کا حکم دیا تاکہ کفار قریش یہ سمجھیں کہ مسلمان صرف حج و عمرہ کرنے کے لئے آئے ہیں نہ کہ لڑائی جھگڑا کے لئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یکم ذوالقعدہ 6 ؁ ھ کو مدینہ سے روانہ ہوئے۔ ذوالحلیفہ كے مقام پر پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے قربانی کے جانوروں کو قلادے (ہار) پہنائے تاکہ مشرکین مکہ کو اطمینان ہوجائے کہ مسلمان صرف حج و عمرہ کرنے کے لئے آرہے ہیں۔ جب قریش کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ سے مکہ روانگی کا علم ہوا تو انہوں نے ایک میٹنگ بلائی جس میں یہ طے پایا کہ ہر صورت مسلمانوں کو بیت اللہ سے دور رکھا جائے۔ انہوں نے خالد بن ولید کو ایک لشکر دے کر مقام کراع الغمیم (جو مکہ جانے والی شاہراہ پر واقع ہے) متعین کیا۔

پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم راستہ تبدیل کرتے ہوئے مکہ کے دائیں جانب ’’ثنیۃ المرار‘‘ پہنچے تو قصواء (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی) بیٹھ گئی۔ لوگوں نے بہت اٹھانے کی کوشش کی لیکن نہ اٹھی تو لوگ کہنے لگے ’’قصواء‘‘ اڑگئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔ ’’قصواء اڑی نہیں اور نہ ہی اس کی یہ عادت ہے بلکہ اس کو اس ہستی نے روک رکھا ہے جس نے (ابرا کے) ہاتھیوں کو روک دیا تھا۔‘‘ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اونٹنی کو ڈانٹا تو اس نے چلنا شروع کردیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آگے جاکر حدیبیہ کے مقام پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو قیام فرمانے کا حکم فرمایا۔ (بخاری)

بُدَ یْلُ بن ورقہ اور عامربن لوئی کے ذریعے قریش كو مکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے آنے کا اصل مقصد واضح کیا تاہم پھر بھی کفارِ قریش نے اپنی طرف سے قبائلی سردار حُلیس بن علقمہ کویہ معلوم کرنے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہاں کس مقصد سے آئے ہیں۔؟ جب اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خد مت میں آکر اپنا مقصد بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بھی وہی جواب دیاجوپہلے دے چکے تھے۔ وہ اپنی قوم کی طرف جا کر کہنے لگا ’’مجھے یقین ہے کہ ’’محمد( صلی اللہ علیہ و سلم ) ایک سچے انسان ہیں اور تم لوگ اُن کی باتوں کا یقین نہیں کر رہے کہ وہ صرف بیت اللہ کی زیارت کے لئے تشریف لائے ہیں اور تم لوگ آپ ( صلی اللہ علیہ و سلم )کو حج وعمرہ کرنے سے روک رہے ہو اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ اب تم لوگ ہی دغاباز اور مکاّر ہو۔ یاد رکھو آج سے میں اور میری تمام قوم تم لوگوں سے الگ ہے ، لہٰذا تم اپنے فیصلے خود ہی کرلیا کرو۔ اب ہمارا تم سے کوئی تعلق نہیں ۔‘‘ا س کے بعد کفارِ قریش نے پھر عروہ بن مسعود کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف روانہ کیا ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو بھی اپنی آمد کا اصل مقصد بتا کر کفارِ قریش کو واضح کردیا۔اس نے جاکر کفارِ قریش پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بات اور جو کچھ صحابہ کرام اور کا آپ سے والہانہ عقیدت دیکھی اسے ذکر کیا۔ جب کفار قریش کے ایک گروہ نے اپنے سرداروں کو صلح کی طرف جاتے ہوئے دیکھا تو انہوں نے مسلمانوںکے کیمپ میں رات کی تاریکی میں گھس کر ہنگامہ آرائی کا منصوبہ بنایا تا کہ جنگ کی آگ بھڑک اٹھے۔ جب انہوں نے جبل تنعیم سے اتر کر کیمپ میں گھسنے کی کوشش کی تو پہرہ دار صحابہ کر ام رضی اللہ عنہم نے ان سب کو گرفتار کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح کی خاطردرگزر کرتے ہوئے ان سب کوآزاد کردیا۔

سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی سفارت اور بیعت رضوان:

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام کی باہمی مشاورت سے سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو مکہ میں اپنا سفیر بناکر بھیجا، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو قریش مکہ نے حرم میں قید کردیا اور مسلمانوںمیں یہ افواہ پھیلا دی کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کردیاگیاہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے خون کا بدلہ لینے کے لئے تمام صحابہ رضی اللہ عنہم سے ایک درخت کے نیچے موت اور میدان جنگ سے نہ بھاگنے پر بیعت لی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنا ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ سے پکڑ کر فرمایا ’’یہ عثمان رضی اللہ عنہ کا ہاتھ ہے‘‘ (بخاری)

لیکن جب یہ بیعت مکمل ہوگئی تو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ بھی آگئے۔ اس بیعت کو بیعت رضوان کہا جاتا ہے۔ اللہ کو یہ بیعت اتنی پسند آئی کہ قرآن میں بھی اس کا ذکر کیا گیا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم سہیل بن عمرو سے کافی لمبی گفتگوکے بعدصلح کی تمام شرائط پر عمل کرنے کے لئے تیار ہوگئے ،با لآخر چند شرائط پر کفارِ مکہ سے صلح ہوئی۔۱۰ سال تک باہمی صلح، اگلے سال مسلمانوں کو عمرہ کی اجازت، قریش میں سے کوئی شخص مسلمان ہوجائے تو وہ واپس کیا جائے لیکن کوئی اسلا م چھوڑ کر قریش میں جاملے تو واپس نہیں کریں گے۔

صلح نامہ جب مکمل ہوا تو حسبِ معاہدہ سیدنا ابو جندل رضی اللہ عنہ کو بھی واپس بھیجنا پڑا۔

ذوالقعدہ 6 ؁ھ میں صلح نامہ تحریر ہو نے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے قربانی کی اور مقام حدیبیہ پر حج وعمرہ کے لئے جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بال منڈوائے تھے ان کے لئے دعا فرمائی۔ جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے صرف بال کٹوائے تھے انہوں نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہمارے لئے بھی دعا فرمائیے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلسل تین مرتبہ بال منڈوانے والوں کے لئے دعا فرمائی اور چوتھی مرتبہ بال کٹوانے والوں کے لئے دعا فرمائی۔ (مسلم)

اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو خواب دکھایاگیا تھاکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے ساتھیوں کے ہمراہ فاتحانہ اندازمیں مکہ مکرمہ میں داخل ہورہے ہیں، اس خواب کی تعبیر صلح حدیبیہ کے صرف دوسال بعد فتح مکہ کی صورت میں پوری ہوئی۔

صلح حدیبیہ کے فوائد :

صلح کی وجہ سے کفار کی مدینہ اور مسلمانوں کی مکہ آمدورفت شروع ہوئی۔ ہر مسلمان مومنانہ صفات کی مثال تھا اس لئے کفار کے دل خود بخود اسلام کی طرف کھنچتے چلے آئے لہٰذا اس صلح سے فتح مکہ تک بکثرت لوگ مسلمان ہوئے۔ خالد بن ولید اور عمرو بن العاص اسی دور میں اسلام لائے۔

عتبہ بن امیہ (ابوبصیر) بھاگ کر مدینہ آئے لیکن نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں واپس کردیا تو انہوں نے سمندر کے کنارے بسیرہ کرلیا۔ مکہ کے دیگر ستم رسیدہ بھی یہاں آن بسے اور قریش کے قافلے لوٹنے لگے حتیٰ کہ قریش نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو لکھا کہ ہم اس شرط سے باز آئے۔ آپ ساحلی مسلمانوں کو اپنے پاس بلالیں اور جو مسلمان چاہے مدینہ جاکر آباد ہوجائے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سارے مسلمانوں کو مدینہ بلالیا۔ اس طرح جو شرط مسلمانوں کے سخت خلاف تھی مسلمانوں کی سب سے بڑی جیت ثابت ہوئی۔

۲۳۔ غزوة خیبر

تاریخ:محرم 7ھ (مئی 628ء)

مقام:خیبر

نتیجہ:مسلمانوں کی فتح

متحارب:   مسلمانانِ مدینہ ویہودیانِ خیبر

قوت:      مسلمان 1600

            یهودی دس ہزار سے زائد

نقصانات:مسلمانوں کی18 شہادتیں

93        یہودیوں کی ہلاکتیں اور کثیر مالی نقصان

محرم 7ھ (مئی 628ء) میں مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان یہ جنگ ہوئی جس میں مسلمان فتح یاب ہوئے۔ خیبر یہودیوں کا مرکز تھا جو مدینہ سے 150 کلومیٹر عرب کے شمال مغرب میں تھا جہاں سے وہ دوسرے یہودی قبائل کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے رہتے تھے۔ چنانچہ مسلمانوں نے اس مسئلہ کو ختم کرنے کے لیے یہ جنگ شروع کی۔

۲۴۔ غزوة عمرة القضاء

صلح حدیبیہ کےبعد جب ذی قعد کا چاند نظر آیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صلح حدیبیہ میں حاضر تمام صحابہ کرام کو حکم دیا کہ اپنے عمرہ کی قضاء کے طور پر عمرہ کریں، اس حکم کے بعد بچوں اور عورتوں سمیت دوہزار افراد اس عمرہ کی ادائیگی کے لئے نکل پڑے۔ مدینہ میں ابورھم غفاری رضی اللہ عنہ کو اپنا جانشین مقرر کرکے عمرہ کی تیاری کرکے نکل پڑے ، چونکہ قریش کی جانب سے بد عہدی کا خطرہ تھا اس لئے ہتھیار اور جنگجو افراد بھی ہمراہ لئے۔وادی یاَجِج میں پہنچ کر ہتھیار یعنی ڈھال، تیر اور نیزے سب رکھ دیے اور اس کی حفاظت کے لئے دو سو کے قریب افراد کو اوس بن خولی انصاری رضی اللہ عنہ کی ماتحتی میں وہاں مامور کیا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم باقی مسلمانوں کے ہمرا میان میں رکھی ہوئی تلواروں کے ہمراہ مکہ میں داخل ہوئے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم مکہ میں داخل ہوتے وقت اپنی قصواء نامی اونٹنی پر سوار تھے، اور مسلمانوں نے تلواریں حمایل کر رکھی تھیں اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو گھیرے میںلئے ہوئے لبیک پکار رہے تھے۔

مشرکین مسلمانوں کویہ کہہ کر گھروں سے نکل پڑے کہ یثرب کے بخار زدہ جماعت عمرہ کرنے آرہی ہے لہٰذا ان کا تماشہ دیکھنے چلو۔

چنانچہ اسی مصلحت کے تحت آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ طواف دوڑ کر اور اضطباع کی کیفیت میں کریں۔اس حکم کا مقصد مشرکین مکہ کو مسلمانوں کی ہمت و طاقت کا مظاہرہ کرانا تھا۔عمرہ کے دیگر ارکان سے فراغت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کچھ مسلمانوں کو یَاجِج بھیج دیا تاکہ وہ ہتھیاروں کی حفاظت کریں اور پہلے سے مامور افراد عمرہ کریں۔حسبِ معاہدہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تین روز مکہ میں قیام کیا پھر مکہ سے نکل کر مقامِ سرف میں قیام فرمایا۔

گوکہ اس غزوہ میں لڑائی نہیں ہوئی مگر مسلمان کفار سے بد عہدی کے پیش نظر جنگ کی تیاری کے ساتھ نکلے تھے، اس لئے مورخین نے اسے غزوات میں شمار کیا ہے اور اس غزوہ کا نام ’’ عمرۂ قضا‘‘ کی وجہ یہ تھی کہ یہ عمرہ ٔ حدیبیہ کی قضا کے طور پر تھا اور حدیبیہ میں صلح کے مطابق یہ عمرہ طے پاگیا تھا اور عربی میں اس طرح کی مصالحت کو قضاء کہتے ہیں اس لئے اس کا نام عمرۂ قضا پڑ گیا۔

۲۵۔غزوة فتح مكه:

تاریخ:رمضان 8ھ (جنوری 630ء)

مقام:مکہ

نتیجہ:مسلمانوں کی فتح

متحارب:   مسلمانانِ مدینہ و مشرکینِ مکہ

قوت:      مسلمان مجاہدین10,000

            کفار: تمام مشرکینِ مکہ

نقصانات:

مسلمان 2 شهادتیں اور كفار 12 هلاكتیں

رمضان 8ھ (جنوری 630ء) میں مسلمانوں نے مکہ فتح کیا۔ جنگ تقریباً نہ ہونے کے برابر تھی کیونکہ مسلمانوں کی ہیبت سے مشرکینِ مکہ ڈر گئے تھے۔ اس کے بعد مکہ کی اکثریت مسلمان ہو گئی تھی۔

صلح حدیبیہ دس سال کے لیے ہوئی تھی مگر 630ء کے بالکل شروع میں مشرکینِ مکہ کے اتحادی قبیلہ بنو بکر نے مسلمانوں کے اتحادی قبیلہ بنو خزاعہ پر حملہ کیا اور کئی آدمی قتل کر دیے۔ اس دوران مکہ کے مشرک قریش نے چہرے پر نقاب ڈال کر بنو بکر کی مدد بھی کی مگر یہ بات راز نہ رہ سکی۔ یہ صلح حدیبیہ کا اختتام تھا۔ مسلمان اس وقت تک بہت طاقتور ہو چکے تھے۔ ابوسفیان نے بھانپ لیا تھا کہ اب مسلمان اس بات کا بدلہ لیں گے اس لیے اس نے صلح کو جاری رکھنے کی کوشش کے طور پر مدینہ کا دورہ کیا۔ ابوسفیان رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی بیٹی امِ حبیبہ رضی اللہ عنہا کے گھر پہنچا جو اسلام لے آئی تھیں اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زوجہ محترمه تھیں۔ جب اس نے بستر پر بیٹھنا چاہا تو سیدہ امِ حبیبہ رضی اللہ عنہا نے بستر اور چادر لپیٹ دی اور ابوسفیان کو بیٹھنے نہ دیا۔ اس نے حیران ہو کر پوچھا کہ بستر کیوں لپیٹا گیا ہے تو سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ آپ مشرک ہیں اور نجس ہیں اس لیے میں نے مناسب نہ سمجھا کہ آپ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جگہ پر بیٹھیں۔ جب ابوسفیان نے صلح کی تجدید کے لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے رجوع کیا تو آپ  صلی اللہ علیہ و سلم نے کوئی جواب نہیں دیا پھر اس نے کئی بزرگوں کی وساطت سے کوشش کی مگر کامیاب نہیں ہوا۔ سخت غصے اور مایوسی میں اس نے تجدیدِ صلح کا یکطرفہ اعلان کیا اور مکہ واپس چلا گیا۔

فتحِ مکہ ایک شاندار فتح تھی جس میں چند کے علاوہ کوئی قتل نہ ہوا۔ فتح کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سب کو عام معافی دے دی۔ کافی لوگ مسلمان ہوئے۔ ان سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے شرک نہ کرنے، زنا نہ کرنے اور چوری نہ کرنے کی تاکید پر بیعت لی۔ اور انہیں اپنے اپنے بتوں کو توڑنے کا حکم دیا۔ مکہ کی فتح عرب سے مشرکین کے مکمل خاتمے کی ابتداء ثابت ہوئی۔

مکہ کی فتح کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سابقہ مشرکین کو مکہ کے اطراف میں بتوں کو توڑنے کے لیے بھیجا۔ مکہ کی فتح کے بعد ارد گرد کے مشرکین پریشان ہو گئے اور ایک اتحاد قائم کیا جس وجہ سے فتحِ مکہ کے اگلے ہی ماہ غزوہ حنین پیش آیا۔

۲۶۔ غزوة حنین:

مکہ اور طائف کی درمیان وادی میں بنو ہوازن اور بنوثقیف دو قبیلے آباد تھے۔ یہ بڑے بہادر اور جنگجو سمجھے جاتے تھے۔ فتح مکہ کے بعد بھی انہوں نے اسلام قبول نہ کیا بلکہ مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے کے لیے مکہ پر حملہ کرنے چڑھ دوڑے ۔ نبی کریم بارہ ہزار مجاہدین کے ساتھ ان کے مقابلے کو نکلے۔ ان میں دو ہزار سے زائد نو مسلم بھی شامل تھے۔ دشمنوں نے اسلامی لشکر کے قریب پہنچنے کی خبر سنی تو وادی حنین کے دونوں جانب کمین گاہوں سے اس زور کی تیر اندازی کی کہ مسلمان حیران و پریشان ہوگئے ۔ مکہ کے نو مسلم افراد سب سے پہلے ہراساں ہو کر بھاگے۔ ان کو دیکھ کر مسلمان بھی منتشر ہونا شروع ہوگئے۔رسول الله صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ چند جاں نثار صحابہ میدان میں رہ گئے اور بہادری سے لڑتے رہے۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تلوار ہاتھ میں لے کریه اشعار پڑھے۔ ’’انا النبی لاکذب انا ابن عبدالمطلب‘‘   آپ کی ثابت قدمی اور شجاعت نے مسلمانوں کے حوصلے بلند کیے اور یہ مٹھی بھر آدمی دشمن کے سامنے ڈٹے رہے۔ رسول الله صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم سے سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے نام لے کے مہاجر و انصار کو بلایا۔ اس آواز پر مسلمان رسول الله صلی اللہ علیہ و سلم کے گرد اکھٹے ہوگئے اور اس شدت سے جنگ شروع ہوئی کہ لڑائی کا رنگ بدل گیا۔ کفار مقابلے کی تاب نہ لاسکے اور بھاگ نکلے۔ بنو ثقیف نے طائف کا رخ کیا۔ بنو ہوازن اوطاس میں جمع ہوئے لیکن مسلمانوں نے اوطاس میں انھیں شکست دی۔ مسلمانوں کو شاندار کامیابی ہوئی اور دشمن کے ہزاروں آدمی گرفتار ہوئے۔

۲۷۔ غزوة الطائف:

یہ غزوہ درحقیقت غزوہ حنین کا پھیلاؤ ہے چونکہ ہوازن و ثقیف کے بیشتر شکست خوردہ افراد اپنے جنرل کمانڈر مالک بن عوف نصری کے ساتھ بھاگ کر طائف ہی آئے تھے اور یہیں قلعہ بند ہو گئے تھے۔ لہٰذا رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے حنین سے فارغ ہو کر اور جعرانہ میں مال غنیمت جمع فرما کر اسی ماہ شوال 8ھ میں طائف کا قصد فرمایا۔

اس مقصد کے لیے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں ایک ہزار فوج کا ہَراوَلْ دستہ روانہ کیا گیا؛ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے خود طائف کا رُخ فرمایا۔ راستہ میں نخلۂ یمانیہ پھر قرن منازل پھر لیہ سے گزر ہوا۔ لیہ میں مالک بن عوف کا ایک قلعہ تھا۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے منہدم کروا دیا۔ پھر سفر جاری رکھتے ہوئے طائف پہنچے اور قلعہ طائف کے قریب خیمہ زن ہو کر اس کا محاصرہ کر لیا۔ محاصرہ نے قدرے طول پکڑا۔ چنانچہ صحیح مسلم میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ یہ چالیس دن تک جاری رہا۔ اہل سیر میں سے بعض نے اس کی مدت بیس دن بتائی ہے، بعض نے دس دن سے زیادہ بعض نے اٹھارہ دن اور بعض نے پندرہ دن۔(فتح الباری 45/8)

دورانِ محاصرہ دونوں طرف سے تیر اندازی اور پتھر بازی کے واقعات بھی پیش آتے رہے، بلکہ پہلے پہل جب مسلمانوں نے محاصرہ کیا تو قلعہ کے اندر سے ان پر اس شدت سے تیر اندازی کی گئی کہ معلوم ہوتا تھا بہت بڑا لشکر چھایا ہوا ہے۔ اس سے متعدد مسلمان زخمی ہوئے، بارہ شہید ہوئے اور انہیں اپنے کیمپ اٹھا کر موجودہ مسجد طائف کے پاس لے جانا پڑا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے اہل طائف پر منجنیق نصب کی اور متعدد گولے پھینکے جس سے قلعہ کی دیوار میں شگاف پڑ گیا اور مسلمانوں کی ایک جماعت دبابہ کے اندر گھس کر آگ لگانے کے لیے دیوار تک پہنچ گئی۔ لیکن دشمن نے ان پر لوہے کے جلتے ٹکڑے پھینکے جس سے مجبور ہو کر مسلمان دبابہ کے نیچے سے باہر نکل آئے۔ مگر نکلے تو دشمن نے ان پر تیروں کی بارش کر دی جس سے بعض مسلمان شہید ہو گئے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے دشمن کو زیر کرنے کے لیے ایک اور جنگی حکمتِ عملی کے طور پر حکم دیا کہ انگور کے درخت کاٹ کر جلا دیئے جائیں۔ مسلمانوں نےذرا بڑھ چڑھ کر ہی کٹائی کر دی۔ اس پر ثقیف نے اللہ اور قرابت کا واسطہ دے کر گزارش کی کہ درختوں کا کاٹنا بند کر دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ کے واسطے اور قرابت کی خاطر ہاتھ روک لیا۔

دوران محاصرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے منادی كبروائی جو غلام قلعہ سے اُتر کر ہمارے پاس آ جائے وہ آزاد ہے۔ اس اعلان پر تیئس آدمی قلعہ سے نکل کر مسلمانوں میں آ شامل ہوئے۔ (صحیح بخاری 260/2) انہیں میں سیدنا ابو بکرہ رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ وہ قلعہ کی دیوار چڑھ کر ایک چرخی یا گراری کی مدد سے (جس کے ذریعہ رہٹ سے پانی کھینچا جاتا ہے) لٹک کر نیچے آئے تھے۔ (چونکہ گراری کو عربی میں بکرہ کہتے ہیں) اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی کنیت ابو بکرہ رکھ دی۔ ان سب غلاموں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے آزاد کر دیا اور ہر ایک کو ایک ایک مسلمان کے حوالے کر دیا کہ اسے سامان بہم پہنچائے۔ یہ حادثہ قلعہ والوں کے لیے بڑا جانکاہ تھا۔

جب محاصرہ طول پکڑ گیا اور قلعہ قابو میں آتا نظر نہ آیا اور مسلمانوں پر تیروں کی بارش اور گرم لوہوں کی زد پڑی اور ادھر اہل قلعہ نے سال بھر کا سامانِ خوردو نوش بھی جمع کر لیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے نوفل بن معاویہ ویلی سے مشورہ طلب کیا۔ اس نے کہا، لومڑی اپنے بھٹ میں گھس گئی ہے۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس پر ڈٹے رہے تو پکڑ لیں گے اور اگر چھوڑ کر چلے گئے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا کچھ بگاڑ نہیں سکتی۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے محاصرہ ختم کرنے کا فیصلہ فرما لیا اور سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ذریعہ لوگوں میں اعلان کروا دیا کہ ہم ان شاءاللہ کل واپس ہوں گے۔ لیکن یہ اعلان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر گراں گزرا۔ وہ کہنے لگے ہونہہ طائف فتح کیے بغیر واپس نه ہوں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اچھا تو کل صبح لڑائی پر چلنا ہے۔ چنانچہ دوسرے دن لوگ لڑائی پر گئے لیکن چوٹ کھانے کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا تو اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پھر فرمایا کہ ہم ان شاءاللہ کل واپس ہوں گے۔ اس پر لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور انہوں نے بے چون و چرا رختِ سفر باندھنا شروع کردیا۔ یہ کیفیت دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مسکراتے رہے۔

اس کے بعد جب لوگوں نے اپنا سامان وغیرہ اٹھاکر کوچ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ یوں کہو:

اٰئِبُوٌنَ، تَائِبُوْنَ، عَابِدُوْنَ لِرَبِّنَا حَامِدُوْنَ

“ہم پلٹنے والے، توبہ کرنے والے، عبادت گزار ہیں اور اپنے رب کی حمد کرتے ہیں۔

کہا گیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم آپ صلی اللہ علیہ و سلم ثقیف پر بدعا کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اے اللہ ثقیف کو ہدایت دے اور انہیں لے آ۔

۲۸۔ غزوة تبوك

تاریخ:     رجب 9ھ (اکتوبر 630ء)

مقام:      تبوک

نتیجہ:      مسلمانوں کی فتح

متحارب:   مسلمانانِ مدینہ          شام کے عیسائی

قوت:      مسلمان:   30,000

            عیسائی:     40,000

رجب 9 ھ مطابق 630ء میں مسلمانوں کو اطلاع ملی کہ شام کے عیسائی ہرقل کی مدد سے مدینے پر حملہ کرنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ یہ افواہ پھیل گئی کہ ہرقل قیصر روم نے چالیس ہزار ہتھیار بند فوج بھیج دی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تیاری کا حکم دیا۔ ان دنوں عرب میں سخت قحط تھا اور گرمی بھی شدید تھی ۔ منافقوں نے اسے بہانہ بنا کر انکار کر دیا۔ وہ مسلمانوں کو بھی بہکانے لگے مگر مسلمانوں نے کمال وفاداری کا ثبوت دیا۔ اور جو کچھ ہو سکا حضور کی خدمت میں پیش کر دیا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم تیس ہزار جان نثار غلاموں کے ساتھ مدینے سے روانہ ہوئے۔ تبوک کے مقام پر پہنچ کر معلوم ہوا کہ حملے کی خبر غلط تھی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے وہاں چند دن قیام فرمایا اور اردگرد کے عیسائی حکمرانوں کو مطیع بنا کر واپس تشریف لے آئے۔ یہ غزوہ تبوک کے نام سے مشہور ہے۔

غزوات میں شهادتوں اور هلاكتوں كے اعداد وشمار كا اجمالی خاكه :

غزوه كا نام         مسلمانوں كا نقصان           كفاركا نقصان       قیدی

غزوئه بدر           14                                70                    70

السویق               2                                  —                      —

اُحد                    75                                27                    —

حمر الاسد           2                                  1                      —

نبی المصطلق       —                                  10                    لا تعداد

الاحزاب 6          8                                  —

بنو لحیان           10                                —                      —

ذی قرد               1                                  —                      —

خیبر                  18                                93                    —

فتح مكه               2                                  12                    —

حنین                  6                                 61                    6000

طائف                 12                                —                      —

مجموعی             148                              293                  6070

عهد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم كی مهذب اقوام كا ظلم:

عهد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم كی مهذب اقوام ، قیصر وكسریٰ كا حال یه تھا كه 613ء میں ایرانی بادشاه خسر وپرویز نے قیصر روم هرقل كو شكست دی تو مفتوحه علاقے میں تمام مسیحی عبادت خانے مسمار كردیئے اور 60 هزار غیر مقاتلین (عورتوں،بچوں ، بوڑھوں) كو تهه تیغ كیا جن میں سے 30 هزار مقتولوں كے سروں سے شهنشاه ایران كا محل سجایا گیا۔

قیصر روم كی بربریت:

قیصر روم باسل (963ء تا 1025ء) نے بلغاریه پر فتح حاصل كی توپندره هزار اسیران جنگ كی آنكھیں نكلوا دیں هر سو قیدی كے بعد ایك قیدی كی آنكھ باقی رهنے دی تاكه وه ان اندھوں كو گھروں تك پهنچا سكیں۔

ایك جنگ میں رومی عیسائیوں نے مسلمانوں كو شكست دی تو تمام مسلم اسیران جنگ كو سمندر كے كنارے لٹاكر ان كے پیٹ میں لوهے كے بڑے بڑے كیل ٹھونك دیئے تاكه بچے كھچے مسلمان جب جهازوں پر واپس جائیں تو اس منظر كو دیكھ سكیں۔

سپین میں تباهی :

۱۴۹۲ء میں سپین سے مسلمانوں كی حكومت ختم هوئی تو صرف آٹھ برس كی قلیل مدت میں وهاں كی عیسائی حكومت نے مسلمانوں سے اسلام چھڑانے كی مهم شروع كی دی۔ سپین كے ساڑھے تین لاكھ مسلمانوں كو ایك مذهبی عدالت كے سامنے پیش كیاگیا۔ عدالت نے ۲۸ هزار ، ۵ سو ۴۰ مسلمانوں كو موت كی سزا سنائی اور باره هزار مسلمانوں كو زنده جلانے كا حكم دیا۔ مسلمانوں كی سینكڑوں لائبریریاں جن میں لاكھوں كتابیں نذر آتش كردیں۔ بالآخر ۱۶۱۰ء میں تمام مسلمانوں كو ترك وطن كا حكم دے دیا گیا۔ ڈیڑھ لاكھ عربوں كا ایك قافله بندرگاه كی طرف جارها تھا كه بلیڈ انامی ایك پادری نے غنڈوں كو ساتھ ملا كر قافله پر حمله كردیا اور ایك لاكھ مسلمان قتل كر ڈالے اس كے بعد مسلمانوں كے گھروں ، گلیوں اور بازاروں میں قاتلانه حملے شروع هوگئے حتی كه ۱۶۸۰ء تك ایك بھی مسلمان سپین میں باقی نه رها۔

1799ء میں مهذب یورپ كے سب سے بڑے جنرل نپولین بوناپارٹ نے یافا كے چار هزار ترك اسیران جنگ كو محض اس عذر كی بناء پر قتل كر دیا كه وه انهیں كھلانے كے لئے خوراك مهیا نهیں كرسكتا اور نه مصر بھیجنے كا انتظام كرسكتاهے۔

قیامت خیزی :

۱۸۵۷ء كی جنگ آزادی هند میں انگریزوں نے جس بے دردی اور سنگدلی سے بچوں اور عورتوں كو قتل كیا اس كا اندازه درج ذیل اقتباس سے لگایا جاسكتاهے۔ ’’جنگ آزادی میں ۲۷ هزار اهل اسلام نے پھانسی پائی ، سات دن برابر قتل عام هوتارها جس كا كوئی حساب نهیں بچوں كو مار ڈالا گیا، عورتوں سے جو سلوك كیاگیا وه بیان سے باهر هے اس كے تصور سے هی دل دهل جاتاهے ۔

جنگ عظیم دوم میں فلپائن كے محاذ پر قتل عام:

جنگ عظیم دوم ( 1939ء تا1945ء) میں فلپائن كے ایك محاذ پر امریكه اور فلپائن كی مشتركه فوج كے ۷۵ هزار فوجیوں نے جاپانی فوج كے سامنے هتھیار ڈال دئیے فاتح فوج نے ۷۵ هزار اسیران جنگ كو شدید گرمی، بھوك اور پیاس كی حالت میں ۶۵ میل پیدل چل كر نظر بندی كیمپوں تك پهنچنے كا حكم دیا بیشتر اسیران جنگ طویل سفر كی ناقابل برداشت صعوبتوں كی وجه سے راستے میں هی هلاك هوگئے۔ تاریخ میں اس سنگ دلانه اور بے رحمانه سفر كو ’’Death March‘‘ كا نام دیاگیا هے۔

جنگ عظیم اول ودوم میں مهذب یورپی جرنیوں كی سنگدلی:

جنگ عظیم اول اور دوم میں مهذب یورپ جرنیلوں نے جس سنگدلی كے ساتھ شهری آبادیوں پر بم باری كی اس نے مقاتلین اور غیر مقاتلین كا تصور هی ختم كر دیا۔ جنگ عظیم دوم میں جدید تهذیب وتمدن كے تین بڑے علمبرداروں (امریكه كے ٹرومین، برطانیه كے چرچل اور روس كے سٹالن) نے جاپان كا سلسله فتوحات روكنے كے لئے ایك اجلاس میں متفقه طور پر جاپان كی شهری آبادی كو ایٹم بم كا نشانه بنانے كا فیصله كیا چنانچه ۶ اگست ۱۹۴۵ء كو هیروشیما اور ۹ اگست كو ناگاسا كی پر ایٹم بم گرا كر ڈیڑھ لاكھ غیر مقاتلین كی شهری آبادی كو آن واحد میں صفحه هستی سے مٹا دیا گیا۔

یوگو سلا ویه میں كیمونسٹ كا خونی انقلاب :

1946ء میں یوگو سلا ویه میں كیمونسٹ انقلاب آیا تو كمیونسٹوں نے چوبیس هزار سے زائد مسلمانوں كو ته تیغ كیا، ستره هزار سے زائد مساجد اور مدارس مسمار كئے اور بیشتر مساجد كی جگه هوٹل اور سینما جات تعمیر كر دیئے۔ آج جس جگه سربیا كے دار الحكومت بلغراد كا اسمبلی هاؤس واقع هے وهاں بلغراد كی سب سے زیاده خوبصورت وسیع وعریض مسجد واقع تھی۔ جو 1521ء میں تعمیر كی گئی تھی۔

جنگ عظیم میں تباهی وبربادی كی بھیانك شكل:

جنگ عظیم اول (1914ء تا 1918ء) میں مجموعی طور پر 75 لاكھ افراد هلاك هوئے اور ایك كھرب 86 ارب ڈالر كے وسائل كو نذر آتش كیاگیا۔ جنگ عظیم دو (1939ء تا 1945ء) میں مجموعی طور پر ساڑھے چار كروڑ انسان هلاك هوئے صرف ایك شهر سٹالن گراڈ میں دس لاكھ افراد لقمه اجل بنے جرمنی میں ساٹھ لاكھ انسان گیس چیمبروں كے ذریعے هلاك هوئے جاپان كے دو شهر مكمل طور پر صفحه هستی سے مٹادئیے گئے بیك وقت چار براعظموں … یورپ ،امریكه، ایشیاء اور افریقه … پر مسلسل 6 برس تك اس منحوس جنگ كے مهیب سائے چھائے رهے چار براعظموں كے انسٹھ لاكھ ممالك (پچاس اتحادی اور نومحوری) آپس میں دست وگریبان هوئے جن میں سے صرف ایك ملك امریكه كا اس جنگ میں تین كھرب ساٹھ ارب ڈالر كا خرچ اٹھا۔

ویت نام جنگ میں انسانی تہذیب کی تباہی :

ویت نام جنگ میں انسانی تہذیب کی تباہی 1965ء سے 1973ءتک کل 8 سال پر محیط ویت نام جنگ میں جدید دور کے مہذب انسانوں کے ہاتھوں انسانی تہذیب کی جو تباہی ہوئی اس کی تفصیل کچھ یوںہی: تعلیمی ادارے تباہ ہوئے2923 اسپتال تباہ ہوئے1850 گرجے اور کلیسا تباہ ہوئے465 مندر، مساجد اور دیگر عبادت خانے

تاریخ اسلام اس بات كی شاهد هے كه كفار كے مقابلے میں مسلمانوں كو تعداد اور سامان جنگ كی برتری كبھی حاصل نهیں هوسكی۔ مسلمانوں نے همیشه اپنے جذبه ایمان كی بنیاد پر میدان جنگ میں ایسے ایسے محیر العقول كارنامے سرانجام دئیے كه دشمنوں كی كثرت تعداد اور كثیر سامان جنگ دھرے كا دھرا ره گیا۔

غزوه حنین میں چھ هزار اسیران جنگ كو محسن انسانیت صلی اللہ علیہ و سلم نے نه صرف بطور احسان بلا فدیه رها فرمایا بلكه رهائی كے وقت تمام قیدیوں كو ایك ایك چادر بطور هدیه عنایت فرمائی ۔

1071ء میں سلجوتی سلطان الپ ارسلان نے قیصر روم دیو جانس رومانوس كی شكست دی قیصر گرفتار هوكر ارسلان كے سامنے پیش هوا تو اس كے پوچھا ’’اگر میں گرفتار هوكر تمهارے سامنے پیش هوتا تو تم مجھ سے كیا سلوك كرتے‘‘ قیصر نے جواب دیا ’’ میں كوڑوں سے تمهاری كھال كھینچ لیتا‘‘۔ سلطان نے كها ’’ مسلمان فاتح اور غیر مسلم فاتح میں یهی فرق هے ’’ اس كے بعد قیصر كے ساتھ جزیه كی انتهائی معقول شرائط طے كركے اسے بے بها تحائف عطا كئے اس كی سلطنت اسے واپس كر دی اور بڑے شان واحترام سے رخصت كیا۔

711ء میں مجاهد اسلام محمد بن قاسم رحمه الله نے سندھ فتح كیا اور صرف تین سال وهاں قیام كیا ان تین برسوں میں محمد بن قاسم رحمه الله نے اپنے حسن سلوك اور حسن تدبر سے سندھیوں كو اس حد تك اپنا گرویده بنالیا كه وه اس كی ماتحتی میں اپنے هی فوجی سرداروں سے لڑنا باعث فخر سمجھتے تھے، تین سال بعد جب محمد بن قاسم رحمه الله عراق واپس جانے لگا تو لوگوں كی اشكبار آنكھیں ان كے اندرونی غموں كی غمازی كررهی تھیں لوگ عرصه دراز سے اس كی جرأت ، نیك سلوك اور پروقار شخصیت كی باتیں كرتے رهے۔

711ء میں مسلمانوں نے اندلس كو فتح كیا تو فاتح قوم كے حسن سلوك كی گواهی ایك انگریز مؤرخ ول ڈیوران نے ان الفاظ میں دی ’’ اندلس پر عربوں كی حكومت اس قدر عادلانه، عاقلانه اور مشفقانه تھی كه اس كی مثال اندلس كی تاریخ میں نهیں ملتی ۔

1187ء میں سلطان صلاح الدین الایوبی رحمه الله نے بیت المقدس فتح كیا تو كسی عیسائی كو كوئی تكلیف نه دی اور هلكا ساٹیكس (جزیه) لگانے كے بعد سب كو مذهبی آزادی دے دی دوران جنگ عیسائیوں كا سپه سالار رچرڈاول بیمار هوا تو صلاح الدین ایوبی رحمه الله اسے كھانا، پھل اور دیگر مفرحات بھجواتا رها۔

1193ء میں والی قرطبه ابو یوسف یعقوب بن منصور نے طلیطله كا محاصره كیا جس پر ایك عیسائی شهزادی حكومت كر رهی تھی ، شهزادی نے ابو یوسف كو پیغام بھجوایا كه عورتوں پر حمله كرنا بهادروں كا شیوه نهیں ابو یوسف نے شهزادی كو سلام بھجوایا اور محاصره فوراً اٹھالیا۔

1918ء میں سویت یونین نے قازقستان پر قبضه كیا تو وهاں كی تمام مساجد اور دینی مدارس منهدم كر دیئے، علماء اور اساتذه كو فائرنگ اسكواڈ كے سامنے بھون دیا گیا۔ ان ظالمانه كاروائیوں میں دس لاكھ قازاق مسلمان شهید كئے گئے۔

حواله جات:

۱۔ القرآن الكریم

۲۔ الصحاح الستة

۳۔ مصباح اللغات از ابو الفضل عبد الحفیظ بلیادی

۴۔المعجم الوسیط از دكتور ابراهیم انیس وزملاءه

۵۔المغازی از الواقدي

۶۔ السیرۃ النبویۃ از ابن ھشام

۷۔ تاریخِ طبری

۸۔ تاریخ طبری

۹۔ زاد المعاد في هَدْي خير العباد

۱۰۔رحمة للعالمین صلی اللہ علیہ و سلم از قاضی محمد سلیمان سلمان منصورپوری

۱۱۔ الرحیق المختوم از صفی الرحمن مباركپوری

۱۲۔ كتاب الشفاء از قاضی عیاض اندلسی

۱۳۔ تاریخ ندوة العلماء ، از مولوی جلیس

۱۴۔ماهنامه قومی ڈائجسٹ ، لاهور ، جولائی 1995ء

۱۵۔ماهنامه مجله الدعوة ، لاهور ، فروری 1993ء

۱۶۔سیرت احمد مجتبیٰ ، شاہ مصباح الدین شکیل

۱۷۔ یورپ پر اسلام كے احسان، از ڈاكٹر غلام جیلانی برقی

۱۸۔ماهنامه اردو ڈائجسٹ ، جولائی 1995ء

۱۹۔ انسائیكلو پیڈیا برٹانیكا

۲۰۔ غزوات مقدس از محمد عنایت اللہ وارثی

۲۱۔ الجهاد فی الاسلام   از سید ابو الاعلی مودودی

۲۲۔ اسلامی تاریخ پاك وهند از هدایت الله خان چوهدری

۲۳۔ جهانگیر انسائیكلو پیڈیا آف جنرل نالج از زاهد حسین انجم

۲۴۔ تاریخ اسلام از معین الدین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے