نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم  بحیثیت ایك مثالی تاجر

باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:

لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ

’’تاكه آپ لوگوں كو اندھیروں سے نكال كر روشنی میں لائیں۔‘‘(ابراهیم:۱)

بعثتِ محمدی کا بنیادی مقصد انسانیت کو انسانوں کی بندگی سے نکال کر اللہ کی غلامی میں دینا اور جہالت کی تاریکیوں سے بچاان کو واضح منہجِ ربانی پر چھوڑنا تھا۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی تعلیمات کے ذریعے جہاں زندگی کے باقی شعبوں میں انقلابی ہدایات دی ہیں، وہاںامت كو تجارت کے شعبہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے قولی اور فعلی طریقے سے واضح اور مکمل ہدایات سے نوازا ہے۔ جس کا مختصر تذکرہ درج ذیل سطور میں کیا جاتا ہے۔

باری تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے :

وَابْتَغِ فِيْمَآ اٰتٰىكَ اللّٰهُ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ وَلَا تَنْسَ
نَصِيْبَكَ مِنَ الدُّنْيَا وَاَحْسِنْ كَمَآ اَحْسَنَ اللّٰهُ اِلَيْكَ وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الْاَرْضِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِيْنَ(القصص:۷۷)

’’جو مال و دولت اللہ نے تجھے دے رکھا ہے اس سے آخرت کا گھر بنانے کی فکر کرو اور دنیا میں بھی اپنا حصہ فراموش نہ کرو اور لوگوں سے ایسے ہی احسان کرو جیسے اللہ نے تمہارے ساتھ بھلائی کی ہے۔ اور ملک میں فساد پیدا کرنے کی کوشش نہ کرو کیونکہ اللہ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘

اس فرمان میں اللہ تعالیٰ نے حدود و قیود میں رہتے ہوئے کاروباری معاملات میں مشغولیت کی اجازت دی ہے۔بلكه دین اسلام نے كسب حلال كو واجب قرار دیا هے رسول مكرم صلی اللہ علیہ و سلم كا ارشاد هے:

طلب كسب الحلال فريضة بعد الفريضة ‘‘

(سنن البیهقی اسناده ضعیف)

’’الله كے مقرر كرده فرائض (نماز روزه،حج، زكاة وغیره) كی بجاآوری كے بعد (سب سے مقدم چیز) كسب حلال هے۔‘‘

اگرچه یه روایت سنداً ضعیف هے مگر دیگر نصوص صحیحه اس كی تائید كرتی هیں۔

حج دینِ اسلام کا عظیم ترین اركان میں سے ایک ہے۔ اس میں بھی تجارت کو مباح قرار دیا ہے جیسا کہ ارشادِ ربانی ہے۔

لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ(البقرة:۱۹۸)

’’ اگر تم حج کے دوران اپنے پروردگار کا فضل (رزق وغیرہ) بھی تلاش کرو تو کوئی مضائقہ نہیں۔ ‘‘

ہاتھ کی کمائی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے افضل ترین کمائی قرار دیا ہے جیسا کہ مسند احمد کی روایت ہے :

سُئل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عن افضل الکسب، فقال بیع مبرور وعمل الرجل بیدہ۔(رواہ احمد)

سیدنا رافع بن خدیج t كهتے هیں ، كسی نے پوچھا اے الله كے رسول كمائی كے ذرائع میں سے كون سا ذریعه سب سے زیاده عمده اور پاكیزه هے ۔ آپ نے فرمایا: ’’آدمی كا اپنے هاتھ سے كام كرنا اور دیانت دارانه تجارت۔‘‘

دوسری حدیث میں ارشاد رحمة للعالمین هے :

مَا أَكَلَ أَحَدٌ طَعَامًا قَطُّ خَيْرًا مِنْ أَنْ يَأْكُلَ مِنْ عَمَلِ يَدِهِ وَإِنَّ نَبِيَّ اللهِ دَاوُدَ – عَلَيْهِ السَّلاَمُ – كَانَ يَأْكُلُ مِنْ عَمَلِ يَدِهِ.(صحیح البخاری ، كتاب البیوع)

’’انسان كا بهترین كھانا جو وه كھاتا هے وه هے جو اس نے اپنے هاتھ سے كمایا هو بے شك الله كے نبی داؤد علیه السلام اپنے هاتھ كی كمائی كھاتے تھے۔‘‘

لیکن یاد ركھیئے !طلب رزق میں اعتدال کی راہ کو نہیں کھونا چاہئے، مشہور اسلامی اسکالر ڈاكٹر محمود احمد غازی رحمه الله رقمطراز ہیں:

’’قرآن کریم میں ایک جگہ آیا ہے کہ

وَفِي السَّمَاءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوعَدُونَ (الذاریات:۲۲)

’’اور آسمان میں تمہارا رزق ہے اور وہ کچھ بھی جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے آسمانوں میں تمہارا رزق پیدا کردیا ہے، اور جن جن چیزوں کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے، ان سب کا بندوبست اور سامان موجود ہے۔ ایک جگہ حدیث میں ارشاد ہوا ہے، جس کو طبرانی اور ابن حبان نے روایت کیا ہے،رسول معظم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ جس طرح انسان کی موت اس کا پیچھا کرتی ہے اور مقررہ وقت پر اس کو آلیتی ہے، جس سے بچنا انسان کے بس میں نہیں ہے، اسی طرح سے انسان کا رزق بھی انسان کا پیچھا کرتا ہے۔ جو رزق اللہ نے انسان کے لئے لکھ دیا ہے۔ وہ اس کو ہر صورت ملے گا۔ سنن ابن ماجہ کی ایک روایت ہے:

أَيُّهَا النَّاسُ , اتَّقُوا اللَّهَ وَأَجْمِلُوا فِي الطَّلَبِ ، فَإِنَّ نَفْسًا لَنْ تَمُوتَ حَتَّى تَسْتَوْفِيَ رِزْقَهَا , وَإِنْ أَبْطَأَ عَنْهَا ، فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَجْمِلُوا فِي الطَّلَبِ ، خُذُوا مَا حَلَّ ، وَدَعُوا مَا حَرُمَ(صحیح ابن ماجه ، كتاب التجارات)

’’اے لوگو! الله سے ڈرو اور روزی كی فكر میں اختصار كرو (یعنی زیاده تر دونه كرو) اس لئے كه كوئی شخص نهیں مرے گا جب تك اپنی روزی پوری نه لے گا اگرچه اس كی فكر نه كرے تو الله سے ڈرو اور اچھے طریق سے روزی طلب كرو(محنت مزدوری سے نه كه بے حیائی اور بے شرمی كے ذریعوں سے) اور جو حلال هے اس كو لو اور حرام كو چھوڑدو۔‘‘

کسی ذی روح کو موت نہیں آئےگی، جب تک وہ اپنا لکھا ہوا رزق پورا حاصل نہ کرے چونکہ رزق اور وسائل رزق سب كچھ الله نے پیدا كیا هے ، اور هر انسان كا حصه الله نے اپنے علم سے مقرر كردیا هے ، اس لیے انسان كو طلب رزق میں اعتدال اور اجمال سے كام لینا چاهیے۔ ’’دنیا كی طلب میں ، مال ودولت كے حصول میں ، روزی كی تلاش میں ، اجمال یعنی اعتدال سے كام لیں، آپے سے باهر نه هوں، اپنی تمام دینی مصروفیات كو نظر انداز نه كرو، اپنے اخلاقی اور روحانی تقاضوں كو نه بھولو۔ زندگی كی اعلیٰ تر ، اهم تر اور برتر ذمه داریوں كو انجام دینے كے ساتھ ساتھ حصول رزق كے لیے اعتدال اور اجمال كے ساتھ كوشش كی جائے تو یه الله كے حكم كی تعمیل هے۔ لیكن تمام جسمانی تقاضوں كو هی سب كچھ سمجھ لیاجائے۔ مادی وسائل هی پر سارا دارومدار هو اور انسان رزق كی تلاش میں اپنے روحانی منصب كو بھول جائے، دینی ذمه داریوں كو فراموش كردے، اخلاقیات كو پس پشت ڈال دے تو یه رویه معیاری اور مثالی اسلامی رویه نهیںهے۔(محاضرات معیشت وتجارت ص:24، بتصرف)

اب ہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی تجارتی زندگی پر روشنی ڈالتے ہیں۔

رسول مكرم صلی اللہ علیہ و سلم كی معاشی جدوجهد:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے والد ماجد آپ کی پیدائش سے قبل ہی وفات پاچکے تھے، جد امجد کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی کفالت آپ کے چچا ابو طالب کے ذمہ تھی، ابوطالب چونکہ مالی لحاظ سے کمزور تھے، اس لئے رسولِ معظم صلی اللہ علیہ و سلم نے کم سنی کے باوجود اپنے چچا کا ہاتھ بٹانے کا فیصلہ کیا، عرب کے ہاں بکریاں چرانا کوئی معیوب پیشہ نہ تھا، بڑے بڑےشرفاء اور امراء کی اولادیں بکریاں چرایا کرتی تھیں۔ رسول مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی دس سال کی عمر میں بکریاں چرانی شروع کی۔(بخاری)

قارئین كرام ! ا س واقعہ سے ہمیں محنت کا سبق ملتا ہے کہ انسان کو معاش کے لئے محنت کرنی چاہئے۔

صدقِ مقال:

رسول مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیشہ ہر معاملے میں صداقت و راست گوئی کو اختیار کیا جیسا کہ رسول مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے شام کے تجارتی سفر سے ہمیں علم ہوتا ہے:

رسول مکرم صلی اللہ علیہ و سلم سیدہ خدیجہ رضی الله عنها کا سامان تجارت لیکر شام کی طرف روانہ ہوئے، اس سفر میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ سیدہ خدیجہ رضی الله عنها کا میسرہ نامی غلام بھی تھا، اس کامیاب ترین سفر سے واپس آکر اس نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی سچائی اور صاف گوئی کے بارے میں بتلایا، سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی صداقت سے اتنی متاثر ہوئیں کہ انہوں نے خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے شادی کی خواہش کا اظہار کیا۔

امانت داری:

ایک کامیاب تاجر کے لئے صادق اور امین ہونا لازمی امر ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو تو مشرکین مکہ شدید ترین مخالفت کے باوجود صادق و امین کہنے پر مجبور تھے، مکہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے مخالف بھی اپنی قیمتی چیزیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس امانتاًرکھواتے تھے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے مدینہ منوہ کی طرف ہجرت کرتے وقت اپنے دشمنوں کی امانتوں کو بعینہٖ واپس کرنے کے لئے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو خصوصی ہدایات جاری کیں اور فرمایا کہ اے علی رضی اللہ عنہ ! مجھے ہجرت کا حکم ہوچکا ہے، میں آج رات مدینہ روانہ ہوجاؤنگا تم میرے بستر پر میری چادر اوڑھ کر سو ر ہو، صبح سب کی امانتیں واپس دے دینا۔(الرحیق المختوم)

اس واقعہ سے علم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم امانتوں کی کس قدر حفاظت فرمایا کرتے تھے، اس نازک وقت میں جب کہ جان کا خطرہ ہے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی فکر صرف ادائے امانت کی جانب ہے۔

اسلام میں ادائے امانت کی پُرزور تاکید کی گئی ہے۔ امانت کسی کافر و فاجر کی ہی کیوں نہ ہو اس کی حفاظت کرنا اور اسے واپس کرنا انتہائی ضروری ہے۔ فرمان الہی هے :

إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا

’’(مسلمانو!) اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ جو لوگ امانتوں کے حقدار ہیں انہیں یہ امانتیں ادا کردو۔ ‘‘(النساء:۵۸)

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمایا :

أَدِّ الأَمَانَةَ إِلَى مَنِ ائْتَمَنَكَ وَلاَ تَخُنْ مَنْ خَانَكَ

’’جو تجھے امین بنائے تو اس كی امانت اسے ادا كردے اور جو تیری خیانت كرے تو اس كی خیانت نه كر۔‘‘(ابوداؤد ۳۵۳۵)

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ قبل از نبوت کاروباری معاملات طے کرنے والے افراد نے خود آپ کے امین ہونے کی گواہی دی ہے جیسا کہ سیدنا سائب رضی الله عنه ارشاد فرماتے ہیں کہ جب میں مسلمان ہوکر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تعریف کی، سیدنا سائب رضی الله عنه نے جواباً ان سے کہا کہ میں تم سے زیادہ ان کو جانتا ہوں کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم میرے شریکِ تجارت تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیشہ معاملے کو صاف هی ر کھا۔(ابوداؤد)

قرض کی ادائیگی میں سہولت:

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم كو بتقاضائے بشریت معاشرے میں رہتے ہوئے بعض اوقات قرض لینے اور دینے کی ضرورت بھی پڑجاتی تھی۔ قرض پر لین دین کا ثبوت قرآنی آیات مثلاً

إِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى فَاكْتُبُوهُ

یعنی جب تم قرض کا لین دین کرو تو اس کو تحریر کرو) سے ثابت هے۔اس معاملے میں بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے انسانیت کے لئے روشن مثالیں چھوڑی ہیں ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے وعدہ کے مطابق قرض کی ادائیگی کے بارے میں عملی مظاہرہ کرکے دکھایا۔

چند ایک واقعات حاضر خدمت ہیں:

سیدنا ابوہریرہ رضی الله عنه روایت کرتے ہیں کہ ایک خاص عمر کا اونٹ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کسی کا قرض تھا، وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس تقاضا کرنے کے لئے آیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ كرام رضی الله عنهم سے فرمایا اسے اونٹ دیدو۔ لوگوں نے اس عمر کا اونٹ تلاش کیا، اس عمر کا اونٹ تو نہ ملا لیکن اس سے بهتر عمر کا اونٹ ملا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس کو دیدو، اس آدمی نے کہا آپ نے میرا حق پورا دیدیا، اللہ آپ کو بھی پورا دے۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو قرض کو اچھے طور پر ادا کرے۔(بخاری2393)

غزوہ حنین کے موقع پر مسلمانوں کو اسلحہ کی شدید ضرورت تھی،سیدنا صفوان رضی اللہ عنہ اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے، ان کے پاس بہت سی زرہیں تھیں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدناصفوان رضی الله عنه سے فرمایا کہ اے صفوان رضی الله عنه کیا تمہارے پاس کچھ اسلحہ ہے؟ انہوں نے پوچھا کہ عاریة چاہیے یا غصباً وصول کر رہے ہو، نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ نہیں بلکہ عاریة۔ انہوں نے رسول معظم صلی اللہ علیہ و سلم کو تیس سے چالیس کے درمیان زرہیں دیں،غزوہ حنین میںجب مشرکین کو ہزیمت ہوئی توسیدنا صفوان رضی الله عنه کی زرہوں کو جمع کیا گیا تو ان میں کچھ زرہیں گم ہو گئیں،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدناصفوان رضی الله عنه سے فرمایا کہ ہم سے بیشک تمہاری زرہوں میں سے چند زرہیں گم هوگئی ہیں تو کیا ہم تمہیں اس کی ضمان ادا کر دیں؟ وہ کہنے لگے کہ نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس لیے کہ آج میرے دل میں وہ بات نہیں ہے جو اس روز تھی(یعنی اب میں مسلمان پرچكا هوں) ۔(ابوداؤد)

اس واقعه میں همیں ادائیگی قرض میں رسول معظم صلی اللہ علیہ و سلم كے طرز عمل كا علم هوتا هے۔

اسی طرح سید المرسلین نے ایک بار کسی سے ایک پیالہ مستعار لیا، سوئے اتفاق وہ پیالہ گم ہوگیا، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس پیالے کا تاوان ادا فرمایا۔(ترمذی، ابواب الکلام)

اسی طرح قرض کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ حکمت سے لبریز حکم بھی ذہن نشین رکھنا چاہئے جس میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

من اسلف فی شیء ففی کیل معلوم، و وزن معلوم والی أجل معلوم(صحیح بخاری ۲۰۸۶)

جو شخص کسی چیز کا ادھار پر لین دین کرے تو اس میں پیمانہ، وزن، اور مدت معلوم ہونی چاہئے۔(یعنی یہ تینوں چیزیں واضح ہوں اور متعین ہوں تاکہ بعد میں فریقین کے درمیان کسی قسم کی بدمزگی پیدا نہ ہو۔)

اسی طرح زمانہ جاہلیت میں قرض کی ادائیگی نہ ہونے کی صورت میں سود، در سود اصل رقم میں اضافہ ہی ہوتا رہتا تھا۔ جس سے تھوڑی سی رقم پہاڑ بن جاتی اور مقروض كی رات كی نیند اور دن كا چین برباد كردیتی تھی۔ عصر حاضر میں بینكاری نظام بھی اسی ظالمانه اصول پر قائم هے۔

اس ظالمانه نظام كے برعكس محسن انسانیت نے حكم دیا كه اگر مقروض تنگ دست هے تو سود لینا تو دركنار اصل مال لینے میں بھی اسے مهلت دو اور اگر قرض معاف كرنے كی استطاعت هے تو یه بهت زیاده بهتر هے۔

تاجروں كیلئے انمول هدایات:

رسول معظم صلی اللہ علیہ و سلم نے مختلف مواقع پر تجار كیلئے اهم هدایات جاری كیں جن سے شناسائی حاصل كرنا انتهائی ضروری هے۔

۱۔تاجر کو صبح اولین ساعتوںمیں اپنا کام شروع کرنا چاہئے ، رسول معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کے وقت میں برکت کی دعافرمائی ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دن کے ابتدائی حصہ میں تجارت شروع کیا کرتے تھے۔

سید نا صخرغامدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعافرمائی اے اللہ میری امت کیلئے صبح کے وقت میں برکت عطافرما، سیدنا صخررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب چھوٹادستہ یا بڑالشکر روانہ فرماتے تودن کے ابتدائی وقت روانہ فرماتے راوی کہتے سیدنا صخر رضی اللہ عنہ تاجرتھے جب وہ اپنے آدمیوں کو تجارت کیلئے روانہ کرتے تو دن کے ابتدائی حصہ میں روانہ کرتے تھے جس کی وجہ وہ صاحبِ ثروت ہوئے اور انکے پاس مال کی کثرت وفراوانی ہوگئی ۔(جامع الترمذی ج:۱، ص:۳۲)

مذکورہ بالاحدیث شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ دن کے ابتدائی وقت تجارت کا آغاز کرنے سے تجارت میں برکت ہوتی ہے ۔

۲۔تاجر کو تجارت میں بطور خاص دھوکہ دہی سے پرہیزکرناچاہئیے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ من غش فلیس منا‘‘(جامع الترمذی)

ترجمہ :جس نے دھوکہ دیا وہ ہم میں سے نہیں ۔دھوکہ کے کاروبارسے تاجر کو اگرچه فائد ہ ہوبھی جائے تواس میں کوئی خیروبرکت نہیں رہتی اس سے متعلق لوگوں میں یہ رائے قائم ہوجاتی ہے کہ فلاں تاجردھوکہ دہی کرتا ہے اس طرح بتدریج لوگ اس سے معاملہ کرنے سے گریز کرنے لگتے ہیں نتیجۃً اس کو نقصان وخسارہ ہوتا ہے ۔

۳۔ ناپ تول برابر برابر رکھنا چاہئیے، ارشاد خداوندی ہے:

وَاَقِيْمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِيْزَانَ (رحمن :9)

اورانصاف کے ساتھ وزن ٹھیک رکھواور تول میں کمی نہ کرو، ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لئے قرآن کریم میں سخت وعیدآئی ہے ۔وَيْلٌ لِّـلْمُطَفِّفِيْنَ

ہلاکت وبربادی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کیلئے(سورۃمطففین :۱)

بلکہ جھکتا تولنے کو مستحب قراردیاگیا ہے ،جامع ترمذی میںنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مقدس موجود ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تولنے والے صاحب سے ارشاد فرمایا ’’ زن وارجح‘‘ ترجمہ :جھکتا تولا کرو۔

۴۔تجارت لین دین میں همیشه راست گوئی كو معمول بنائیں اور جھوٹی قسمیں اٹھانے سے پرهیز كریں۔

سیدنا ابو سعید الخدری رضی الله عنه سے روایت هے كه رسول الله صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

’’سچے اور امانت دار تاجر كو نبیوں، صدیقوں اور شهداء كی معیت ورفاقت نصیب هوگی۔ ( ترمذی)

رسول الله صلی اللہ علیہ و سلم نے تاجروں سے خطاب كرتے هوئے فرمایا:’’تجارت میں بهت زیاده قسم كھانے سے بچو یه چیز وقتی طور پر تو تجارت كو فروغ دیتی هے لیكن تجارت سے بركت ختم كر دیتی هے۔ ( مسلم ، ابو قتاده)

سیدنا قیس ابو عرزه فرماتے هیں كه نبی اكرم صلی اللہ علیہ و سلم كے زمانے میں هم تاجروں كو ’’سماسره‘‘ كهاجاتاتھا۔ ایك دن آپ  صلی اللہ علیہ و سلم همارے پاس سے گزرے تو آپ نے همیں اس سے بهتر نام دیا۔

آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

’’اے تاجرو! مال كے بیچنے میں بهت سی لا یعنی باتیں كهنے اور جھوٹی قسم كھانے كا امكان هوتاهے لهذا تم لوگ صدقه كرو تاكه لغزشوں كا كفاره هوسكے۔ (ابوداؤد)

۵۔خراب مال كا عیب نه چھپانا۔

سیدنا واثله رضی الله عنه سے روایت هے كه رسول الله صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: كسی تاجر كے لیے جائز نهیں هے كه وه كوئی چیز بیچے اور اس كے اندر جو عیب هے اسے بیان نه كرے۔ (المنتقی)

رسول اكرم صلی اللہ علیہ و سلم ایك غله كے تاجر كے پاس پهنچے اور غله كے اندر هاتھ ڈالا تو معلوم هوا كه اندر كے حصے میں كچھ نمی موجود هے۔ آپ  صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا : یه كیا هے ‘‘ اس نے جواب دیا ۔ ’’ بارش سے بھیگ گیاهے۔ آپ  صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: پھر اوپر كیوں نه ركھا اس كے بعد فرمایا: جو لوگ هم كو دھوكادیں وه هم میں سے نهیں۔ (ترمذی)

مندرجه بالا احادیث مباركه سے كامیاب تجارت كے زریں اصول سامنے آتے هیں۔ دیانت داری اور كسب حلال كا چولی دامن كا ساتھ هے لیكن افسوس كے ساتھ كهنا پڑتا هے كه مسلمانوں كی اس عظمت رفته كے آثار اب غیروں كے پاس دیكھنے كو ملتے هیں اور خود مسلمان ان سے تهی دامن هیں۔ ضرورت اس بات كی هے كه آج بھی ان اصولوں پر عمل پیرا هوكر مسلمان دنیا كی تجارت میں اپنا كھویا هوا مقام حاصل كریں۔

تجارت میں منع كرده امور :

جس طرح رسول مكرم صلی اللہ علیہ و سلم نے تاجروں كواهم هدایات دی هیں اس طرح تجارت كرنے والوں كو كچھ معاملات سے روكا بھی هے۔ اوراگر یه چیزیں كسی معامله میں در آئیں تو وه بیع فاسد اور ناقابل اعتبار هوجاتی هے۔

۱۔ ربا :

هر قسم كا سودی لین ودین سخت منع هے شریعت نے اسے الله رب العالمین اور رحمت للعالمین كے خلاف كھلی جنگ قرار دیا هے۔

۲۔ غرر:

غرر سے مراد وه لین ودین هے جس میں كسی ایك فریق كا حق غیر متعین، غیر معلوم اور غیر واضح هو۔ فریقین میں سے ایك فریق كا حق تو متعین طور پر طے هو جبكه فریق ثانی كا حق غیر طے شده هو یه شریعت كی رو سے جائز نهیں هے۔

۳۔ قمار:

قمار وه هے كه جس میں فریقین كا حق غیر واضح اور غیر متعین هو ۔اور ایك فریق كا نفع دوسرے كے نقصان پر لازمی طور پر منتج هوتاهو۔ مثلا : تین آدمیوں نے مل كر پیسے برابر لگائے اور كسی بخت واتفاق كے نتیجے میں وه پوری رقم كسی ایك شخص كو مل گئی یه قمار كهلاتاهے۔ اس لیے كه دو افراد كا نقصان هوگا تو تیسرے كو پیسے ملیں گے۔ كس كو رقم ملے گی، كس كو نهیں ملے گی۔ یه بھی غیر متعین هے۔ كون نقصان اٹھائے گا كون نفع اٹھائے گا یه بھی غیر متعین هے۔ یه چیزقمار كهلاتی هے۔

۴۔ میسر :

میسر ایسا كاروبار یا ایسی تجارت جس میں ایك سے زائد افراد حصه دار هوں اور اس میں كسی ایك كو محض اتفاق كے نتیجے میں فائده هوجائے ۔

۵۔ جهالت اور لاعلمی :

كسی ایسی تجارت میں حصه لینا جس كی شرائط نا معلوم هوں بیچی جارهی چیز نه معلوم هو اور قیمت بھی نامعلوم هو یه سب اسباب چونكه تجارت میں غرر پیدا كرتے هیں اسی لئے فقهاء اسلام نے ان كو جهل سے تعبیر كیاهے۔

۶۔ضرر :

چھٹی چیز جس سےایك تاجر كو بچنا چاهیے وه ضرر هے اور اس سے مراد ایسا نقصان جو كسی فریق كو بلا وجه هورها هو یه چیزبھی درست نهیں۔

۷۔ غبن :

ایسی منافع خوری جو بازار میں عام طور پر رائج نه هو یه شریعت میں غبن كهلاتا هے۔ قدیم اهل لغت نے غبن كی یهی تعریف كی هے جبكه اردو میں اس سے مراد لیا جانا والا مفهوم محدود هے۔

۸۔ خلابه:

كسی شخص كی سادگی كی وجه سےاس كو دھوكه دینا یا كسی شخص كے سامنے چكنی چپڑی باتیں بنا كر اس كو ایسا فیصله كرنے پر مجبور كردینا جو اس كے تجارتی مفاد میں نه هو خلابه كهلاتاهے۔

۹۔تدلیس:

تدلیس كے معنی یه هیں كه اپنی تجارت یا سامان تجارت كے ایسے اوصاف بیان كرنا جو اس میں نه پائے جائیں۔ مثلاً : آپ نے كوئی پروڈكٹ تیار كیا اس پروڈكٹ كے ایسے ایسے اوصاف بیان كریں جو اس میں نهیں پائے جاتے اور لوگوں نے اس پروپیگنڈے سے متاثر هوكر اس كو خرید لیا یه عمل شریعت میں درست نهیں هے۔

۱۰۔بیع معدوم:

دسویں چیز جو محرمات میں سے هے بیع معدوم هے۔ یعنی ایسی چیز كی فروخت جو اس وقت نه موجود هے اور نه بیچنے والے كے اختیار میں هے كه وه فراهم كرسكے اگر كوئی چیز موجود نهیں هے لیكن بیچنے والا اس كو فراهم كرسكتاهے ۔ اس كو معلوم هوتا هے كهاں بكتی هے ، كیسے بنتی هے ، كیسے حاصل هوتی هے۔ وهاں سے حاصل كركے آپ كو فراهم كردے گا جیسے اكثر سپلائی كا كام كرنے والے كرتے هیں یا جو چیزیں تیار كرنے كا كام كرتے هیں۔ ان كے پاس آج چیزیں تیار نهیں هیں لیكن آپ ان كی پیشگی قیمت ادا كردیتے هیں وه چیزیں خود بنا كر یا بنوا كر یا بازار سے خرید كر آپ كو فراهم كردیتے هیں یه جائزهے۔ معدوم سے مراد یهاں وه چیز هے جو نه موجود هو اور نه بیچنے والے كے بس میں هوكه وه خرید كر آپ كو دے سكے۔ ایسی چیز كی خرید وفروخت جائز نهیںهے۔

احتكار (ذخیره اندوزی) كی ممانعت:

احتكار كے معنی هیں ضرورت كی اشیا كو روك لینا، بازار میں نه لانا اور قیمتوں كے بڑھنے كا انتظار كرنا اور جب قیمتیں زیاده هوجائیں تب مال كو باهر نكالنا اور خوب نفع كمانا۔ نبی اكرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس ذهنیت پر ضرب لگائی هے یه ذهنیت انسان كو سنگدل اور بے رحم بنا دیتی هے اور یه چیز اسلام كے منافی هے كیونكه اسلام تو بنی نوع انسان كے ساتھ رحمت وشفقت كی تعلیم دیتاهے۔

رسول اكرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ذخیره اندوزی كی ممانعت كرتے هوئے فرمایا:’’جس تاجر نے ذخیره اندوزی كی وه گنهگارهے۔‘‘ (مسلم)

رسول الله صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:’’ جو تاجر اشیائے ضرورت كو نهیں روكتا بلكه وقت پر بازار میں لاتاهے وه الله كی رحمت كا مستحق هے۔ اسے الله رزق دے گا اور اشیائے ضرورت كو روكنے والا ملعون هے (وه الله كی رحمت سے محروم هے كیونكه اس نے برا فعل كیا)۔ (ابن ماجه )

سیدنا معاذ رضی الله عنه فرماتے هیں : میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ و سلم كو یه ارشاد فرماتے سنا’’ كتنا برا هے اشیائے ضرورت كو روك ركھنے والا آدمی اگر چیزوں كا بھاؤ گرتا هے تو اسے غم هوتاهے اور گرانی آتی هے تو خوش هوتا هے۔(بیهقی فی شعب الایمان)

سیدنا عمر رضی الله عنه نے ارشاد فرمایا : كه همارے بازار میں كوئی شخص ذخیره اندوزی نه كرے۔‘‘ ( مؤطا امام مالك)

نوٹ :

احادیث میں ممنوع تجارت كی بهت سی قسمیں هیں ۔ احادیث رسول صلی اللہ علیہ و سلم میں تجارت كی تقریباً 56 كے قریب صورتوں كو ربا یا غرر یا كسی دیگر عارضه كی بناء پر ناجائز قرار دیا هے۔ جس كی تفصیل اس مختصر مضمون میںبیان کرنا ممکن نہیں ہے۔

اس سے اندازه لگایا جاسكتاهے كه اگر جاهلیت كے ساده ماحول میں قبل از اسلام كی تجارت میں غرر وربا كی چھپن كے قریب صورتیں پائی جاتی تھیں تو آج كی پیچیده معیشت میں اس كی كتنی صورتیں پائی جاتی هوںگی۔ (ملخصًابتصریف از محاضرات معیشت و تجارت)

آخر ی بات :

باری تعالیٰ سے دعا هے كه وه همیں اعتدال كے ساتھ كسب حلال كی جدوجهد كرنے ، مثالی تاجر كی صفات اپنانے اور ناجائز كاروباری صورتوں سے كلیةً اجتناب كرنے كی توفیق عنایت فرمائے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے