تفسیر سورۃ النور قسط نمبر ۲۴

مفہوم و تشریح:

سابقہ آیات میں احکام اور اخلاقی تعلیمات کے بعد موضوع اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کی طرف موڑ دیاگیا ، کیونکہ تنبیہ و تلقین کافی ہوچکی تھی، اب وہ اپنے رب کے بارے میں سوچیں کہ جو آسمان و زمین کا نور ہیں۔

یعنی اگر اللہ نہ ہوتا تو آسمان میں نور ہوتانہ زمین میں اور نہ ہی آسمان و زمین میں کسی کو ہدایت نصیب ہوتی۔

آیت کے اس ابتدائی ٹکڑے میں اسی بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ اس آسمان و زمین کا نور اللہ تعالیٰ ہے۔ جس کے پاس یہ نور ہے وہ روشنی میں صراطِ مستقیم پر ہے اور جو اس نور سے محروم ہے۔ وہ عالم ظلمات میں بھٹک رہا ہے اور کوئی دوسرا اس کو روشنی نہیں دے سکتا۔ کہ وہی اللہ تعالیٰ ہی آسمان و زمین کو روشن کرنے والا ہے۔ اس کی کتاب بھی نور ہے اس کے رسول کی تعلیمات منور کرنے والی ہیں۔ اور در حقیقت ان دونوں کے ذریعے سے زندگی کی تاریکیوں میں رہنمائی اور روشنی حاصل کی جاتی ہے جس طرح چراغ اور بلب سے انسان روشنی حاصل کرتا ہے۔ حدیث سے بھی اللہ تعالیٰ کا نور ہونا ثابت ہے جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اپنی دعاؤں میں کثرت سے پڑھا کرتے تھے:

وَلَکَ الْحَمْدُ، اَنْتَ نُوْرُ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ وَمَنْ فِیْھِنَّ

پس اللہ اس کی ذات نور ہے، اس کا حجاب نور ہے اور یہ ظاہری اور معنوی نور کا خالق اس کا عطا کرنےوالا اور اس کی طرف ہدایت کرنے والا اللہ ہے۔(ایسر التفاسیر)

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

کہ نور اللہ کی ہدایت ہے۔

سیدنا اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کے نور کی مثال یعنی اس کے نور رکھنے والے مومن کی مثال جس کے سینے میں ایمان و قرآن ہے اس کی مثال اللہ تعالیٰ نے خود بیان فرمائی ہے اولاً اپنے نور کی، ثانیاً مومن کی نورانیت کی۔

سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

تمہارے رب کے یہاں رات اور دن نہیں، اس کے چہرے کے نور سے اس کے عرش کا نور ہے، مختصراً نور سے مراد وہ چیز ہے، جس کی بدولت اشیاء کا ظہور ہوتا ہے۔ یعنی جو آپ سے آپ ظاہر ہو اور دیگر چیزوں کو ظہور میں لائے، کچھ نہ سوجھنے کی کیفیت کا نام انسان نے اندھیرا، ظلمت اور تاریکی رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے لئے لفظ نور کا استعمال ہی بنیادی مفہوم کے لحاظ سے کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ علم، فضیلت، بزرگی اور دیگر صفات کا نور ہے۔

مَثَلُ نُوْرِهٖ كَمِشْكٰوةٍ فِيْهَا مِصْبَاحٌ ۭ اَلْمِصْبَاحُ فِيْ زُجَاجَةٍ ۭ اَلزُّجَاجَةُ كَاَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ یُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُّبٰرَكَةٍ زَيْتُوْنَةٍ لَّا شَرْقِيَّةٍ وَّلَا غَرْبِيَّةٍ ۙ یّكَادُ زَيْتُهَا يُضِيْۗءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ   ۭ نُوْرٌ عَلٰي نُوْرٍ ۭ

ترجمہ:اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق ہو جس میں ایک چراغ ہو، یہ چراغ فانوس میں رکھا ہوا ہو، وہ فانوس ایسا صاف شفاف ہو جیسے ایک چمکتا ہوا ستارہ۔ اور وہ چراغ زیتون کے مبارک درخت (کے تیل) سے روشن کیا جاتا ہو جو نہ مشرق میں ہوتا ہے اور نہ مغرب میں۔ اس کے تیل کو اگر آگ نہ بھی چھوئے تو بھی وہ از خود بھڑک اٹھنے کے قریب ہوتا ہے (اسی طرح) روشنی پر روشنی (بڑھنے کے تمام اسباب جمع ہوگئے ہوں)۔

یہ تمثیل بیان ہورہی ہے اس بات کی کہ جس کے اندر ایمان کی روشنی داخل ہوجاتی ہے، وہ اس کی فطرت کے نورکےاوپر ایک اور نور کا اضافہ کردیتی ہے، جس سے اس کا باطن مطلع انوار بن جاتا ہے۔

اور کائنات میں اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے کسی طاق میں رکھا ہوا چراغ ہو اور چراغ ایک فانوس یعنی شیشے کی قندیل میں۔

مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حبشہ کی لغت میں اسے طاقۃ کہتے ہیں جس میں قندیل رکھی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ اور قندیل کو موتی سے یعنی چمکتے ستارہ سے جو خوب روشن ہو ظاہر ہو اور بڑا ہو سے تشبیہ دی ہے۔

کہا گیا کہ مشکوٰۃ سے مراد انسان کا دل ہے، جیسے چراغ اونچی اور بلند جگہ پر رکھا جاتا ہے کہ اس کی روشنی ہر طرف پہنچے ایسے ہی انسان کا دل ہے کہ ہر طرف اس کی روشنی پہنچتی ہے۔

اور یہ چراغ ایک شیشہ کی قندیل یعنی فانوس میں بند ہے اور شیشے کی قندیل کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ چراغ کی لو ہوا کے جھونکوں سے منتشرنہیں ہوتی، بلکہ ایک ہی جگہ پر اور ایک مرکز پر مرتکز رہتی ہے جس سے اس کی چمک اور دمک میں اضافہ ہوجاتا ہے اور یہ چراغ جس شیشے کے فانوس میں رکھا ہوا ہے وہ فانوس جس شیشے سے بنا ہوا ہے وہ چمکتے ستارے کی مانند ہے۔

اور یہ چراغ ایک بابرکت درخت یعنی زیتون کے تیل سے جلایا گیا ہے جو کہ ایک مبارک درخت ہےجیسا کہ قرآن مجید نے سرسبز و شاداب زمین کو مبارک کہا ہے ایسے ہی زیتون کے درخت کو مبارک کہا ہے، چونکہ یہ درخت شاداب اور ثمر آور ہوتا ہے ۔

لَّا شَرْقِيَّةٍ وَّلَا غَرْبِيَّةٍ

سے مراد یہ ہے کہ درخت باغ کے بالکل وسط میں واقع ہے اور اس میں سارا دن سورج کی روشنی پڑتی ہے ایسا نہیں کہ سورج طلوع یا غروب ہونے پر روشنی پڑے لہٰذا اس درخت کا پھل بہت عمدہ ہوتا ہے اور کہا گیا ہے کہ یہ درخت باغ کے بالکل وسط میں واقع ہوتا ہے نہ تو مشرق اور نہ ہی مغرب میں اور وسط میں ہونے کی وجہ سے سورج کی روشنی اور ہوا مسلسل نہیں پڑتی، برخلاف وہ درخت جو مشرق یا مغرب کی سمت واقع ہو، مسلسل دھوپ اور ہوا کی زد میں رہتے ہیں، لہٰذا اتنے اچھے پھل نہیں دیتے۔اسی لئے فرمایا گیا:

لَّا شَرْقِيَّةٍ وَّلَا غَرْبِيَّةٍ

اور چونکہ یہ درخت باغ کے وسط کا ہے اور اس کا روغن اتنا صاف اور شفاف ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ آگ کے چھوئے بغیر ہی بھڑک اٹھے گا۔

اس کے بعد فرمایا کہ:

نُوْرٌ عَلٰي نُوْرٍ

اس کا مطلب یہ ہے کہ نور پر نور، اس سے مراد ایمان کے نور کے ساتھ نیک اعمال کا نور ہے ایسے مومن کو پانچ نور حاصل ہوتے ہیں۔

اس کا کلام نور ہے، اس کا عمل نور ہے، اس کی آمد نور ہے، اس کی روانگی(فوت) نور ہے اور اس کا آخری ٹھکانہ قبر بھی نور ہے اور کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات آسمانوں اور زمین کا نور ہے، اس پر فطرت میں موجود دلائل و براہین اس پر نور کی حیثیت رکھتے ہیں، یعنی روشنی پر روشنی۔یہ ایک تمثیل ہے اس میں انسان کے دل کو مشکوٰۃ سے تشبیہ دی گئی ہے اور اس میں موجود چراغ کو ایمان سے تشبیہ دی گئی ہے کہ یہی حال ایمان کے فیض سے قلب کا ہوتا ہے وہ بھی ڈانواڈول ہونے سے بالکل محفوظ ہوجاتا ہے۔

خواہ کیسے ہی حالات ہوں، لیکن وہ ہر حال میں راضی و مطمئن رہتا ہے، ایسے ہی دل کو قرآن نے نفسِ مطمئنہ سے تعبیر فرمایاہے۔

اور ایمان کی روشنی ہر قسم کی کثافت سے دل کو پاک و صاف کرکے آئینہ کی طرح اس کو مجلّی کردیتی ہے۔

’’شجرۃ مبارکۃ ‘‘سے مراد:

یہ ایمان ان لوگوں کے سینوں کو اپنا نشیمن بناتا ہے، جن کی فطرت ہر قسم کے فساد و بگاڑ سے محفوظ ہو، جن کی فطرت کا روغن غیر فطری ملاوٹوں سے پاک ہوتا ہے، وہ خود دعوتِ ایمان کی ذرا سی رگڑ سے بھڑک اٹھتا ہے اوراس طرح فطرت کے نو رپر ایمان کے نور سے سینہ نور علی نور بن جاتا ہے۔

یَہْدِی اللہُ لِنُوْرِہٖ مَنْ یَّشَآءُ:

ایمان وہدایت کے معاملہ میں اللہ تعالیٰ اپنے اس نور ایمان سے انہی لوگوں کے دلوں کو منور کرتا ہے جو اپنی فطرت کے روغن کو محفوظ رکھتے ہوں۔

جو اس روغن کو ضائع کر بیٹھتے ہیں یا اس کے اصل مزاج کو انحراف سے بگاڑ دیتے ہیں ان کے دل ایمان کی روشنی کو نہیں پکڑتے یعنی اللہ کی ہدایت ان لوگوں کے لئے ہے جو اس کے قدردان ہیں اور جو اس کی قدر نہیں کرتے ان سے وہ ہدایت واپس لے لی جاتی ہے جو فطرت کے ذریعے ان کو عطا کی گئی تھی۔

وَیَضْرِبُ اللہُ الْاَمْثَالُ لِلنَّاسِ:

جس طرح اللہ نے یہ مثال بیان فرمائی، جس میں اس نے ایمان کو اپنے مومن بندے کے دل میں اس کے راسخ ہونے اور بندوں کے احوالِ قلب کا علم رکھنے کو واضح فرمایا کہ کون ہدایت کا اہل ہے اور کون نہیں۔

لہٰذا قرآن مجید میں ان امثال کو بیان کرنے کا مقصد لوگوں کو اپنی توحید اور وحدانیت کی طرف راغب کرنا تھا اور ان کو حقیقت کی طرف متوجہ کرنا ہے کہ وہ کس مقصد کے لئے دنیا میں بھیجے گئے ہیں اور ان کی فطرت کس چیز کا مطالبہ کرتی ہے جو لوگ اس پکار پر لبیک سے جواب دیتے ہیں ان پر کچھ تقاضے فرض ہوجاتے ہیں اور انہی لوگوں کو اللہ تعالیٰ توفیق اور صلاحیت بخشتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے پاس تمام انسانوں کے بارے میں علم ہے کہ وہ دلوں کا حال جاننے والا ہے اور اس بارے میں بھی کہ کون اس راہ کا مسافر صادق ہے۔

آدابِ مسجد:

فِيْ بُيُوْتٍ اَذِنَ اللّٰهُ اَنْ تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيْهَا اسْمُهٗ ۙ يُسَبِّحُ لَهٗ فِيْهَا بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِo

ترجمہ: ان گھروں میں جن کے بلند کرنے اور جن میں اپنے نام کی یاد کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے وہاں صبح و شام اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے ہیں۔

معانی الکلمات:

بُیُوْتٍ:                گھر ، مسجد

تُرْفَعَ:      بلند کیا جائے۔

اِسْمَہٗ:      اللہ کا نام اور صفات یا اللہ کا ذکر

یُسَبِّحُ لَہٗ:

سبح کا معنیٰ تیرنا یا وہ گھوڑے، اونٹ جو تیز رفتار ہوں ان کو بھی سباح کہتے ہیں۔ تاج العروس میں تسبیح کا معنیٰ یہ بیان کیا گیا ہے:

اللہ تعالیٰ کی طرف تیز رفتاری سے جانا اور اس کی اطاعت میں مستعد رہنا، عرف عام میں تسبیح اللہ کی اطاعت میں تیزی کرنے کو کہتے ہیں۔

امام راغب اصفہانی نے’’ مفردات‘‘ میں اس کا مطلب’’ پانی یا ہوا میں سے تیزی سے گزرنا‘‘ کیا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی حمد، ثناء اور صفات کا بیان تسبیح کہلاتا ہے۔

کائنات کی ہر شئی اللہ تعالیٰ کے لئے حمد خواں ہے اور اس کی تسبیح بیان کررہی ہے، خواہ جاندار ہو یا بے جان۔ الحمد للہ رب العالمین۔

اَلْغُدُوِّ:

صبح کا وقت، دن کا ابتدائی حصہ، کل کے لئے مستعمل ہے۔(راغب)

اَلْاٰصَالِ:

وہ وقت جب دو وقت ملتے ہیں، یعنی شام کا وقت

(جاری ہے)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے