کسی عورت کا کسی شخص کے نکاح میں آنا کوئی معمولی امر نہیں گو کہ یہ مرحلہ ہر لڑکی کی زندگی میں آتا ہے لیکن یہ بات بھی معروف ہے کہ اس کے بعد جو ذمہ داریا ں سامنے آتی ہیں ہر لڑکی اسے نبھانے میں کامیاب نہیں ہو پاتی جس کا سب سے بڑا نتیجہ ہمارے معاشرے میں کثرت طلاق کی صورت میں سامنے آتا ہے سچی بات تو یہ ہے کہ عورت کے چار ہی روپ ہیں جس پر شریعت کی نصوص بھی موجود ہیں میری مراد بیوی ، ماں، بیٹی ، اور بہن سے ہے۔ اس کے علاوہ کسی بھی عورت کا رشتہ غیر معروف اور غیر شرعی ہے۔

ایک اچھی بیوی کی کیا ذمہ داریاں ہو سکتی ہیں اور وہ کس طرح اپنے گھر کو جنت بنا سکتی ہے درج ذیل تحریر معاشرے کی انہی خواتین کو مخاطب کرکے لکھی گئی ہے جو اپنے ماحول ،گھر،شوہر یا سسرال سے شاکی ہیں اور علیحدگی چاہتی ہیں۔ایک بات یاد رکھیے کہ ہمیشہ زندگی میں درپیش آنے والے مسائل کے دوران آپ کے سامنے دو راستے نمودار ہوں گے ایک آسان اور سہل جسے ہم شارٹ کٹ کے نام سے جانتے ہیں اور دوسرا راستہ صراط مستقیم جو نسبتا طویل ہوتا ہے اور کچھ مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن بہرحال ہدف کا حصول اس میں یقینی ہوتا ہے۔

گو کہ ہدف بسا اوقات پہلے راستے پر چلنے کے نتیجے میں بھی حاصل ہو جاتا ہے لیکن اس کے ساتھ بہت کچھ سے محرومی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے اور بعض اوقات نہیں بلکہ اکثر اوقات پچھتاوازندگی کا ساتھی بن جاتا ہے۔

ایک عورت کو بیوی کے مرتبہ پر فائز ہونے کے بعد سب سے بڑی مشکل جس کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ شوہر کا اپنی ماں اور بہنوں کے ساتھ حسن سلوک جو بعض اوقات حد اعتدال سے بڑھ جاتا ہےجس سے وه یه نتیجه اخذ كرتی هے كه شوهر اس پر توجه نهیں دے رها پس وہ اپنے نظر انداز کیے جانے کو بھولتی نہیں اور وقت آنے پر اس کا بدلہ لینے سے بھی چوکتی نہیں اور خرابی وہاں پیدا ہوتی ہے جہاں بیوی اپنی ماں یا میکہ میں جس کے نزدیک ہوتی ہے اسے سب کچھ بتاتی ہے اور قیامت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب اسے وہاں سے اپنے شوہر پرقبضہ اور تسلط حاصل کرنے کے منفی حربے سکھائے جاتے ہیں اور پھر جائز ناجائزحربوں کے استعمال کا نتیجہ یه نكلتا هے كه ساس اور نند بھی خم ٹھونک کر میدان میں اتر آتی ہیں اور پھرگھر ایک میدان جنگ بن جاتا ہے جس کے بعد گھر نے جنت کیا بننا ہوتا ہے ایک جہنم بن جاتا ہے اور شوہر شادی کے بعدمنقسم ہو جاتا ہے ایک طرف ماں ہوتی ہے جو دودھ نہ بخشنے کا اعلان کر دیتی ہے اور دوسری طرف بہنیں ہوتی ہیں جو زن مرید ہونے کے طعنے دے دے کر سونے پر سہاگہ کر دیتی ہیں اور بیوی بیچاری شروع میں دفاعی حالت میں ہو تی ہے اور جب وہ مسلسل یہی رویے دیکھتی ہے تو پھر وہ بھی جوابی رویے کے طور پر منفی سوچ کو اختیار کرنے کو ہی حل سمجھتی ہے۔

میری عزیز بہن !اللہ تمہیں اپنی امان اور عافیت میں رکھے اور اس امر کی توفیق دے کہ تم ایسی تمام منفی کیفیات سے بچ سکو اور یقین کرو کہ تمہارے پاس اس کی طاقت ہے کہ تم اس تمام کیفیت سے بخوبی کامیاب ہو کر نکل سکتی ہو بشرط یہ کہ تم خود چاہو کیونکہ تم خود نہیں جانتی کہ اللہ تعالی نے تمہیں کتنی عظیم طاقت عطا کی ہے۔

یہ وہ مقام ہے جہاں میں اپنی بہنوں سے مخاطب ہونا چاہتا ہوں کہ میری بہن یہی وہ مقام ہے جب آپ کے سامنے شارٹ کٹ آئے گا خدارا اسے چھوڑ دیجئے گا اور سیدھے راستے کو اختیار کریں جس میں آپ کا زاد راہ صرف اور صرف صبر اورتحمل ہونا چاہیےاور اس کے بعد احترام۔میری اس تحریر کے دو حصے ہیں پہلا حصہ آپ کا اپنے شوہر سے کس طرح کا تعلق ہونا چاہیے اس کے آداب اور کیفیات کا بیان ہے اور دوسری حصہ جو بعد میں بیان کیا جائے گا اس میں آپ کا اپنی ساس اور نندوں کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کے بیان پر مشتمل ہو گا۔ ان شاء اللہالعزیز

بيوى بننا كوئي معمولى اور آسان كام نہيں اس كے لئے سمجھدارى ، ذوق و سليقہ اور دانشمندى كى ضرورت ہوتى ہے۔ جو عورت بھی اپنے شوہر كے دل پر حكومت كرنا چاہتى ہے اسے چاہئے كہ اس كى خوشى و مرضى كے اسباب فراہم كرنے کو اہمیت دے ۔ اس كى صحت و سلامتى اور اس كے كھانے پينے كا خيال ركھے اور اسے ايك باعزت، محبوب اور مہربان شوہر بنانے كى كوشش كرے تاكہ وہ اس كے خاندان كا بہترين سرپرست اور اس كے بچوّں كا بہترين باپ اور مربى ثابت ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالی نے عورت كو غيرمعمولى صلاحيتوں سے نوازا ہے۔ اگر کسی خاندان كى خوش بختى اس كے ہاتھ ميں ہوتى ہے تو خاندان كى بدبختى میں بھی اس کا اہم کردار ہوتا ہے خواہ وہ بیوی ہو یا ساس یا نندیا بہو۔

سادہ سی بات ہے عورت چاہے تو اپنے گھر كو جنت كا نمونہ بنا سكتى ہے اور چاہے تو اسے جہنّم ميں تبديل كرسكتی ہے اپنے شوہر کی ترقى اور تنزلى اس کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ میں اگر کہوں کہ عورت اگرخاوندیت كے فن سے آگاہ ہو اور اسے اللہ کی طرف سے عائد کردہ فرائض کو پورا کرنے والی ہو تو ايك عام مرد بلكہ نہايت معمولى اور نااہل مرد كوبھی ايك لائق اور باصلاحيت شوہر ميں تبديل كر سكتى ہے۔

لیکن کیسے یہی اصل سوال ہے جس کے جواب میں میری ہر بہن کی ازدواجی زندگی کا حسن او ر خوبصورتی مضمر ہے اگر وہ اس راستے پر چل سکے تو ورنہ۔۔۔۔۔

درحقیقت عورت ايك عجيب و غريب طاقت كى مالك ہوتى ہے وہ جو چاہے وہى بن سكتى ہے۔ اگر كسى بے مايہ شخص كے گھر ميں خوش اخلاق اور نيك عورت موجود ہو تو وہ اس گھر كو خوش نصيبى كى جگہ بناسکتی ہے۔ورنہ گھر گھر نہیں رہتا بلکہ قبرستان كى مانند ہو جاتا ہے جہاں سب کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔

بعض روایات کے مطابق بشرط صحت عورت کے فرائض کی نوعیت جہاد کے مترادف ہے۔اس بات كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ اسلام كى عظمت و ترقى ، ممالك كا دفاع كرنے اور معاشرہ میں اصلاح و عدل و انصاف قائم كرنے كے لئے جہاد بہت بڑى عبادت شمار كيا جاتا ہے اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ عورت كے لئے اپنےشوہر كى ديكھ بھال اور فرائض کی انجام دہی كتنی اہمیت کا حامل ہے ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہيں : جس عورت كو ايسى حالت ميں موت آ جائے كہ اس كا شوہر اس سے راضى و خوش ہو ، اسے بہشت نصيب ہوگى۔

اور يہ بھى ارشاد ہے كہ: عورت ، اللہ تعالیٰ كے حق كو ادا نہيں كرسكتى جب كہ وہ بحيثيت شريك زندگى اپنے فرائض كو بخوبى ادا نہ كرے۔

لہٰذا سب سے اولین قرینہ یہ ہے کہ آپ اپنے شوهر سے محبت كا اظہار كيجئے

ہر انسان كى خواہش ہوتى ہے كہ اس سے محبت کی جائے۔ کیونکہ اس کا دل محبت كى طاقت سے زندہ رہتا ہے اور اگر كسى انسان کو یہ احساس ہو جائے کہ کوئی اس سے محبت نہیں کرتا تو وہ ہزاروں کے درمیان بھی خود کو اکیلا ہی محسوس کرے گا یہ ذہنی تنہائی اس کو بہت جلد تباہ کر دیتی ہے اور وہ توجہ اور محبت کے حصول کے لیے حلال و حرام کی تخصیص ختم کر دیتا ہے۔

میری عزیز بہن !

آپ كے شوہر كا دل بھى چاہے جانے کی خواہش سے خالى نہيں محبت کی اسے بھی ضرورت ہے ۔ پہلے وہ اپنے ماں باپ كى محبت سےمستفیض ہوتا تھا اور شادی کے بعد بھی وه محبت کا طلب گار ہے کیونکہ آپ سے رشتہ پيمان وفا اسی صورت میں ہو سکتا ہے آپ اس مہر و محبت کی تلافی کریں اور اسے دل کی گہرائیوں سے محبت کریں کہ اس نے اپنے آپ كو آپ كے اختيار ميں ديديا ہے۔ اس نے تمام تعلقات كو منقطع كركے آپ سے رشتہ محبت و دوستى استوار كيا ہے اب وہ چاہتا ہے كہ آپ اپنا بھرپور پيار و محبت اس پرنچھاوركريں اس کے شب وروز آپ كے آرام و آسائش كے لئے گزرتے ہیں اور اپنے ماحصل كو اخلاص كے ساتھ آپ كے اوپر نچھاور كر ديتا ہے۔ آپ ہى تواس كى شريك زندگى ہيں حتى كہ اب آپ كے ماں باپ سے زيادہ اسے آپ كى خوشى كا خيال رہتا ہے ۔لہٰذا اس كى قدر پہچانئے اوردل سے محبت كيجئے یہ تو لازمی بات ہے کہ اگر آپ اس كو عزيز ركھيں گى تو وہ بھى آپ پر اپنى محبت نچھاور كرے گا كيونكہ محبت ہمیشہ دو طرفہ ہوتى ہے اور اس سے ازدواجى زندگى كى بنياديں مضبوط ہوجاتى ہيں اور علیحدگی كاخدشہ باقى نہيں رہتا۔

اور ہاں یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ کبھی اس گمان میں نہ رہیے گا کہ ميرے شوہرکی محبت اور عشق میرے ساتھ ہميشہ قائم رہے گا لیکن اگر آپ چاہتى ہيں كہ اس كا عشق ومحبت ہميشہ قائم رہے تو مہر و محبت كے رشتہ كى حفاظت كيجئے۔اور وہ اسی طرح ممکن ہے کہ آپ اپنے شوہر سے محبت كريں اس كا دل ہميشہ خوش و خرم رہے گا اپنے روزمرہ امور کی مشغولیات کے ساتھ زندگى ميں بھر پور دلچسپى لے گا اور ہر كام ميں كاميابى حاصل كرے گا۔ اور وہ اپنے گھر كى فلاح و خوشى كے لئے اپنى کوششوں میں آخری حد تک مصروف عمل رہے گا لیکن شرط وہی ہے کہ آپ کے شریک حیات کو آپ کی محبت کا یقین حاصل ہو اور اس کا ایک اور فائدہ اوربھی ہے وہ یہ کہ جس مرد كو محبت كى كمى محسوس نہيں ہوتى وہ بہت كم دماغى امراض اور اعصابى كمزوريوں كا شكار ہوتے ہيں۔

میری عزیز بہن اللہ بے شمار خوشیاں آپ کے مقدر کرے آمین۔ لیکن اگر زندگی کے کسی بھی مرحلے پر آپ كے شوہر کو یہ احساس ہو جائے كہ آپ اس سے محبت نہيں كرتيں تو وہ آپ سے سرد مہرى سے كام لے گا۔ زندگى اور اس کے معمولات سے اس كى دلچسپى كم ہوتی جائے گى۔نتیجہ پريشانیاں اور دماغى امراض کی صورت میں سامنے آئے گا۔ زندگى اور گھر سے فرار اور ممکن ہے کہ اللہ نہ کرے اسے غلط صحبت مل جائے تو مجبور ہوكر شراب خانوں ، قمار خانوں اور تباہى و بربادى كے مراكز ميں محبت تلاش كرے۔

تو سوچیں کہ اصل نقصان کس کا ہوا آپ کا یا آپ کے شوہر کا۔میں ہی نہیں سب یہی کہیں گے اصل نقصان آپ کا ہوا ہے کہ آپ کی ذرا سی غفلت اور نادانی نے آپ کو اپنی حقیقی محبت سے محروم كردیا۔ سوچیے گا ضرور!

لہٰذا میری محترم بہن :

اپنے شوہر کو صرف محبت سے ہی قابو کر سکتی ہیں اور محبت کے ذریعے اس كى توجہ كو اپنے گھر كى طرف مركوز و مبذول كرايئے۔میں یہ نہیں کہہ رہا کہ آپ اپنےشوہر سے محبت نہیں کرتی آپ دل سے اپنے شوہر كو بہت چاہتى ہوں مگر اظہار نہ كرتى ہوں ليكن صرف دل سے ہی چاہنا ہی كافى نہيں بلكہ اس كا اظہار بھى ضرورى ہے اور یہ صرف اپنی زبان سے ہی نہیں بلکہ اپنى گفتار اور حركات كے ذريعہ سے بھی اپنی محبت و عشق کا اظہار کرتی رہا کریں۔ آخر اس ميں كيا حرج ہے اگر كبھى كبھى آپ اپنے شوہر سے كہيں كہ ميں واقعى آپ كو بہت چاہتى ہوں۔

اگر وہ کسی سفر سے واپس آيا ہے توپھول جو محبت کی علامت ہوتے ہیں اس كى نذر كريں اور كہيں اچھا ہو آپ آ گئے مجھے آپ كى جدائي گوارہ نہيں۔ جب وہ باہر گيا ہو تو اسے خط لكھيں یا اس کے موبائل پر میسج کریں اور اس كے فراق و جدائي كا اظہار كريں۔ شوہر جہاں كام كرتا ہووہاں كبھى كبھى فو ن كركے اس كى خيريت پوچھ ليجئے (ليكن زيادہ نہيں ) اوراگر خلاف معمول دير سے گھر پہنچے تو اپنى پريشانى كا اظہار كيجئے۔

اس كى غير موجودگى ميں اپنے بہن بھائیوں اور رشتہ داروں میں اس كى تعريف كيجئے یہ كہئے واقعى ميں نے كيا شوہر پايا ہے۔ ميں اس سے محبت كرتى ہوں۔اگر كوئي اس كى برائي كرے تو اس كا دفاع کریں ۔

یقین کریں آپ جتنا زيادہ اپنے عشق و محبت كا اظہار كريں گى وہ اتنى ہى زيادہ آپ سے محبت كرے گا۔ اور اس طرح آپ كى ازدواجى زندگى اتنى ہى خوشگوار اور خوبصورت ہوتى چلی جائے گى اور آپ كا گھرانہ خوش نصيب ہوگا۔

میں یہاں اپنا ذاتی تجربہ کی روشنی میں اگر کہوں کہ میری اہلیہ كى جس چيز نے ميرے دل كو مسخر كيا وہ اس كى محبت ہے نہ كہ اس كے چہرے كى خوبصورتى۔یہی وجہ ہے کہ میرے نزدیک وہ عورت زيادہ پسندیدہ ہے جو زيادہ مہربان ہو تو یہ مبالغہ نہیں ہو گا۔

یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے بھی اس محبت كو اپنى قدرت كى نشانيوں ميں سے ايك نشانى قرارديتے ہوئے فرمایا، اللہ كى نشانيوں ميں سے ايك نشانى يہ ہے كہ اس نے تمہارے لئے شريك زندگى پيدا كئے تاكہ تم ان سے چين حاصل كرواور تمہارے درميان دوستى و محبت پيدا كى۔

اور ایسی بیویاں ہی اپنے شوہروں كے لئے اللہ تعالی کی طرف سے بہترين انعام ہیں يعنى ايسى عورتيں جو اپنے شوہر سے محبت و عشق كا اظہار كريں۔

اپنے شوہر کا احترام کریں

یہ ایک فطری امر ہےکہ ہر انسان اپنی شخصيت سے پيار کرتا ہے اور اس کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ دوسرے اس كى شخصيت كا احترام كريں اور سامنے کی بات ہے کہ جو اس كى شخصيت كا احترام كرتا ہے وہ اس سے پیار کرتا ہے اوراس کے برخلاف توہين كرنے والوں سے اس كا دل متنفرہوجاتا ہے۔

تو میری عزیز بہن !

گو کہ اپنی ذات سے محبت اور اس کا احترام ايك فطرى جذبہ ہے ليكن یہ ضروری نہیں کہ معاشرے میں موجود ہرفرد آپ كے شوہر کا احترام كرے اور اس کی عزت کرے ۔ آپ کا شوہر جب گھر سے باہر ہوتا ہے تو سينكڑوںطرح طرح كے بدتميز لوگوں سے اس كا سابقہ پڑتا ہے جو اكثر اوقات اس كى توہين بھی كر ديتے ہوں گے جس سے اس کا شخصیت مجروح ہو جاتی ہو گی ۔ چونكہ آپ اس كى شريك حیات ہیں اس لئے اگر وہ آپ سے اس بات كى توقع رکھے كہ گھر ميں آپ اس كا احترام كريں اور اس كى مجروح شخصيت كو سہارا ديں۔

تو یقین کریں اس کو مطلوبہ احترام دے کر ایک نیو طاقت و توانائي اور حوصلہ عطا كريں گى۔ آپ كے صرف چند حوصلہ افزا جملے اس ميں ايك نئي روح پھونك ديں گے۔

میں اپنی بہن کو بتاتا ہوں کہ آپ کیا طریقہ اختیار کریں کہ آپ اپنے شوہر کو احترام سے بھرپور فضا دے سکیں

1:ہميشہ اس كو آپ کہہ کر مخاطب كيجئے۔

2 : گفتگو كے دوران اس كے كلام كو منقطع نہ كيجئے۔

3 :ہمیشہ اس سے ادب سے بات کریں یعنی چیخنے اور چلانے والا رویہ اختیار نہ کریں ۔

4: اگر كسى محفل ميں ساتھ جا رہى ہيں تو اسے آگے ركھئے۔

5:کبھی بھی اپنے شوہرکو اس کے نام سے نہ پکاریں بلكہ فيملى نام يا لقب یا ایسے نام سے مخاطب کریں جو اسے پسند ہوں ۔

6: دوسروں كے سامنے اس كى تعريف و تحسين كيجئے۔

7: مہمانوں كے سامنے بھى اس كا احترام كيجئے۔ اور ان کے سامنے مہمانوں جیسی عزت اور احترام دیں اور خاطر تواضع کریں۔ایسا ہرگز نہ ہو کہ مہمانوں كى عزت و خاطر تواضع میں اپنے شوہر كے وجود كو نظر انداز كرديں اورآپ كى تمام تر توجہ مہمانوں پر مركوز رہے۔

8جب وہ دروازہ كھٹكھٹائے تو كوشش کریں كہ آپ خود دروازہ كھوليں اور كشادہ پيشانى اور مسكراہٹ كے ساتھ اس كا استقبال كيجئے۔ كيا آپ جانتى ہيں كہ آپ كا يہ چھوٹا سا کام ، آپ كے شوہر كے دل پر كتنا اچھا اثر ڈالے گا ؟ شايد گھر كے باہر اسے ان گنت مشكلات كا سامنا كرنا پڑا ہو اور وہ پريشان گھر آيا ہو۔آپ كا مسكراتے لبوں سے استقبال كرنا ، اس كے تھكے ماندے جسم ميں ايك تازہ روح پھونك دے گا اور اس كے دل كو سكون و اطمينان عطا كر دے گا۔ممکن ہے میری بہنیں تعجب کریں کہ یہ کیسی عجیب وغریب تجویز ہے کہ بيوى شوہر كے خير مقدم كے لئے جائے اور اسے خوش آمديد كہے وہ كوئي غير اور اجنبى تو ہے نہيں كہ اسے اس بات كى ضرورت ہو كہ اس كا خير مقدم كيا جائے اور اس طرح خوش آمديد كہا جائے۔

میں ایک بات آپ کو پورے یقین سے کہتا ہوں يہ بالكل صحيح ہے مہمان كا احترام كرنا چاہئے ليكن ذرا انصاف کریں کہ ايك شخص جو صبح سے شام تك آپ كے آرام اور ضروريات زندگى مہيا كرنے كى فكر ميں لگا ہوا ہے اورسينكڑوں پريشانيوں اور دشواريوں كا سامنا كرتا ہے تو وہ اس امر کا زیادہ مستحق ہے کہ آپ گھر كے دروازے تك آنے كى زحمت گوارا كريں اور لبوں پر مسكراہٹ لا كر ايك خيرمقدمى جملے سے اس كا دل شاد كرديں۔ يہ نہ كہئے كہ ہم آپس ميں ايك دوسرے سے مانوس ہيں اس لئے وہ احترام كى توقع نہيں ركھتا بلكہ دوسروں سے زيادہ وہ آپ سے احترام كا خواہاں ہے۔ اگر آپ اس كا احترام نہيں كرتيں اور وہ خاموش رہتا ہے تو يہ اس بات كى دليل نہيں كہ وہ آپ سے احترام كى توقع نہيں ركھتا بلكہ آپ كا لحاظ كركے اپنى دلى خواہش كو دبا ديتا ہے۔ بلکہ میں تو یہ بھی کہوں گا کہ روزانہ صبح جاتے وقت اسے الوداع بھی مسکراہٹ کے ساتھ کریں۔

9اگر گرمی کا موسم ہے تو وسائل کے مطابق ٹھنڈا پانی یا کوئی مشروب پیش کریں

0جب اس کے آنے کا وقت ہو تو زیادہ نہیں تو کچھ اہتمام ضرور کریں جس سے اسے یہ احساس ہو کہ اس کا وجود اور ذات آپ کے لیے کتنا اہم ہے میری مراد ظاہری خوبصورتی کے لوازمات اختیار کرنے سے ہے۔

تلک عشرة کاملة

میری عزیز بہن اگر آپ اپنے شوہر كى عزت كريں گى تو وہ بھى آپ كا احترام كرے گا۔ آپ كے درميان رشتہ الفت و محبت مزید زیادہ بہتر اور پائیدار ہو جائے گا ۔ گھر ، زندگى اور اپنے كام ميں اس كى دلچسپى بڑھ جائے گى۔ اور يقينا يہ چيز آپ كے مفاد ميں ہوگى۔

رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم فرماتے ہيں :

بيوى كا فرض يہ ہے كہ اپنے شوہر كا استقبال كے لئے گھركے دروازے تك جائے اور اس كو خوش آمديد كہے۔(بشرط صحت روایت)

وہ عورت جو اپنے شوہر كا احترام كرے اور اس كو تكليف نہ پہنچائے ، وہ خوش نصيب اور سعادت مند ہوگى ۔

اور اگر اوپر بیان کیے ہوئے امور میں سے کسی ایک کو بھی آپ ترک کر دیں یا اس کے مخالف رویہ اختیار کریں تو یقین کریں زندگی کی خوشیاں آپ سے لمحہ بہ لمحہ دور ہوتی جائیں گی لہٰذا میں پھر کہوں گا کہ اس بات كا بہت زیادہ خیال ركھئے كہ آپ کسی بھی طرح اپنے شوہر كى توہين اور بے عزتى نہ كريں یعنی اسے بر ابھلا نہ كہيں گالى نہ ديں ، اس كى طرف سے بے اعتنائي نہ برتيں اس پر چيخيں چلائيں نہيں دوسروں كے سامنے اس كى بے عزتى نہ كريں ،اس كو برے ناموں سے نہ پكاريں۔ اگر آپ اس كو توہين كريں گى تو وہ بھى آپ كى توہين كرے گا۔ وہ رنجيدہ ہوجائے گا آپ كى طرف سے اس كے دل ميں كينہ بيٹھ جائے گا۔ اور اس کا ایک ہی نتیجہ نکلے گا کہ آپ كے اور اس کے درمیان محبت كا خاتمہ ہوجائے گا اور اللہ نہ کرے اس کے بعد اگر علیحدگی نہ بھی ہو تو باقی زندگی صرف کسی نہ کسی مجبوری کی صورت میں گزرتی ہے۔ اس حالت میں اگر ساتھ زندگى گزاریں گی تو یہ امر طے شدہ ہے کہ آپ كى زندگى خوشگوار نہيں ہوگى۔ ذہنى تناؤ، كينہ ، اور نفسياتى الجنھيں صرف آپ کے شوہر کو ہی لاحق نہیں ہوں گی بلکہ عین ممكن ہے کہ آپ بھی ان سے دوچار ہوں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایسے رویے آپ كے لئے خطرہ پيدا كرديں اور ظلم و ستم كا باعث بنيں۔

میری عزیز بہن میں آپ کے لیے دعاگو ہوں کہ اللہ تعالی آپ کو صبر اور حوصلہ دے تاکہ آپ ایسے نامساعد حالات سے کامیابی کے ساتھ گزر سکیں کیوں کہ كوئي انسان بھی ايسا نہيں جسے پريشانيوں، الجھنوں اور دشواريوں كا سامنا نہ كرنا پڑتا ہو۔اور یہ بھی ایک فطری امر ہے کہ ہر شخص كى يہ خواہش ہوتى ہے كہ اس كا كوئي غمخوار اور محرم راز ہوجس سے وہ اپنى پريشانيوں كو بيان كرے۔ اور وہ اس سے اظہار ہمدردى كرے اور اس كا غم غلط كرے۔ ليكن ہر بات كا ايك موقعہ و محل ہوتا ہے۔

لہٰذا اپنے شوہر سے موقع مناسب دیکھ کر بات کریں

اگر آپ کو کوئی شکایت ہے بھی تو اس کا یہ طریقہ کار قطعی درست نہیں کہ وہ جیسے آئے اور آپ اپنا دکھڑا اس کے سامنے فوارا ہی بیان کرنا شروع کر دیں اسے ضرور بتائیں لیکن موقع مناسب دیکھ کر کہ درد دل بيان كرنے كيلئے بھى مناسب موقع كا لحاظ ركھنا چاہئے۔ ہر جگہ ، ہر وقت اور ہر حالت ميں شكوہ سے بات شروع نہيں كردينى چاہئے۔

اور میں تو یہ کہوں گا کہ وہ عورتيں نادان اور خود غرض ہوتى ہيں اورجنہیں شوہر دارى كے آداب اور معاشرت كے رموز نہیں آتے اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہوتی ہے کہ ان ميں اتنا بھى صبر و ضبط نہيں ہوتاكہ وہ اپنى پريشانيوں كو برداشت كريں اور درددل كو مناسب وقت كيلئے اٹھا ركھيں جيسے ہي بيچارہ شوہر تھكا ماندہ گھر ميں داخل ہوتا ہے ، ابھی اس نے سانس بھی نہیں لی كہ اسى وقت اس كى نادان بيوى شكايتوں كے دفتر كھول ديتى ہے جو گھر سے بيزار بنانے کے لئے كافى ہے۔ خود تو چلے جاتے ہو اور مجھے ان كم بخت بچوں ميں سركھپانے كے لئے چھوڑ جاتے ہو۔ احمد نے كمرے كے دروازہ كا شيشہ توڑديا۔ منيزہ اور پروين ميں خوب لڑائي ہوئي۔ ان بچوں كى اودہم نے مجھے پاگل بنا دیا ہے۔ ميں بيكار ہى ان سب كے لئے زحمت اٹھاتى ہوں۔ صبح سے اب تك اس قدر كام كئے ہيں كہ حالت خراب ہوگئي كسى كو ميرى پرواہ نہيں۔ يہ بچے ذرا بھى كسى كام ميں ہاتھ نہيں لگاتے۔ كاش بے اولاد ہوتى۔ ہاں آج تمہارى بہن بھی آئي تھى معلوم نہيں اسے مجھ سے کیا دشمنی ہے جیسے اس کے مسائل کی ذمہ دار میں ہی تو ہوں اسے سمجھایا کرو۔ اور اوپر سے تمہارى ماں کے رویے۔ اللہ كى پناہ۔ پورے محلے میں میری برائیاں۔

ميں تو ان سب سے تنگ آ گئي ہوں لعنت ہو مجھ پر كہ كہ ايسے خاندان سے پالاپڑا ہے۔ ميرے ہاتھ ديكھو كھانا پكا رہى تھى چھرى سے ميرا ہاتھ كٹ گيا۔

اور پھر یہاں سے اس پر طعنےشروع ہو جاتے ہیں کہ دیکھولوگ اپنى بيويوں كا كس قدر خيال ركھتے ہيں۔ كيسے اچھے اچھے لباس ان كے لئے خريد تے ہيں۔ اس كو كہتے ہيں شوہر۔ آخر تم ایسے کیوں نہیں ہو اور ميں اس سے كس بات ميں كم ہوں كہ اس كى اتنى شان ہے۔ ہاں قسمت والى ہے۔ اس كا شوہر اس كا خيال ركھتا ہے تمہارى طرح نہيں ہے اب ميں اس منحوس گھر ميں تمہارے اور تمہارے بچوں كے لئے جان نہيں كھپا سكتى۔ جو چاہے كرو۔ وغيرہ وغيرہ۔

میری قابل احترام بہن :

میری بات کا اگر برا نہ منائیں تو میں یہ کہوں گا کہ شوہر دارى كا يہ طريقہ بالکل بھی ٹھیک نہيں ہے۔ كيا آپ كا شوہر تفريح اور سير سپاٹے كرنے كے لئے گھر سے باہر جاتا ہے۔نہیں بلکہ وہ تو آپ کے لیے اور اپنے بچوں کے لیے روز ى كمانے ، ضروريات زندگى مہيا كرنے اور پيسے كمانے كى غرض سے باہر جاتا ہے۔ صبح سے اب تك اس كو نہ جانے كن كن پريشانيوں كا سامنا كرنا پڑا كہ جن ميں سے ايك كى بھى آپ متحمل نہ ہو سكيں گي۔ آفس يا بازار كى مشكلات كى آپ كو خبر نہيں ہے۔ كيسے لوگوں سے پالا پڑتا ہے اور كيسى كيسى ذہنى پريشانياں آ جاتى ہيں۔ آپ كو اپنے شوہر کے تھكے ماندے اعصاب كى كوئي فكر نہيں۔ اب جب كہ وہ باہر كى پريشانيوں سے جان چھڑا كر گھر ميں پناہ لينے آيا ہے كہ ذرا دير آرام كرلے تو بجائے اس كے كہ آپ اس كا غم غلط كريں، شكايتوں كے دفتر اس كے سامنے كھول كے بيٹھ جاتى ہيں۔ آخر اس بے چارے نے مرد ہوكر كيا گناہ ہے كہ گھر سے باہر طرح طرح كى پريشانيوں ميں گرفتار رہتا ہے اور گھر آتے ہى اسے آپ كے شكوے شكايات كا سامنا كرنا پڑتا ہے۔ ذرا انصاف سے كام ليجئے۔ تھوڑا سا اس كے بارے ميں بھى سوچئے۔ اس كے پاس بھى سوائے اس كے اور كوئي چارہ نہيں كہ چيخے چلائے تا كہ آپ كى بے جا شكايتوں اور بد زبانيوں سے نجات حاصل كرے يا اس گھر سے فرار اختيار كركے كسى ہوٹل ، سينما يا كسى دوسرى جگہ جا كر پناہ لے يا سڑكوں پر آوارہ گھومتا ہے۔

بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ اپنے شوہر سے کسی بھی قسم کے شکوہ شکایت نہ کریں اور ہمیشہ اللہ تعالی سے مدد مانگیں میں جانتا ہوں کہ آپ یہ بھی کہہ سکتیں ہیں کہ جس کے ساتھ ہوتا ہے وہی جانتا ہے باقی سب تو باتیں بنانا ہی جانتے ہیں نہیں میری بہن یہ صرف میرا تجربہ یا مشاہدہ ہی نہیں بلکہ اللہ رب کائنات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوبصورت تعلیمات کا نچوڑ بھی ہے۔

لہٰذا اللہ كى رضا حصول اور اپنے اور خاندان كى خاطر اس قسم كى بے جا شكايتوں اور ہنگاموں سے اجتناب کریں۔

عقل مندى اور ہوشيارى تقاضا تو یہی ہے کہ موقع شناس بنئے۔ اور اگر آپ كو واقعى كوئي پريشانى لاحق ہے اور آپ سمجھتی ہیں کہ شوہر کو لازمی بتانا چاہیے وگرنہ مزید مسائل بڑھ سکتے ہیں تو صبر كيجئے تا كہ آپ كا شوہر آرام كرلے۔ اس كى تھكن دور ہوجائے اس كے بعد موقع كى مناسبت سے ضرورى باتيں اس سے بيان كيجئے۔ ليكن اعتراض كى شكل ميں نہيں بلكہ اس طرح گويا آپ اس سے مشورہ لے رہى ہيں اور اس كو حل كرنے كى فكر كيجئے۔ اگر آپ كے شوہر كو اپنے خاندان سے شديد لگاؤ ہے تو چھوٹى چھوٹى باتوں اور غير ضرورى واقعات كو اس سے بيان نہ كريں اور ہر وقت كى چپقلش سے اپنے شوہر كے اعصاب كو خستہ نہ كيجئے۔ اس كو اس كے حال پر چھوڑ ديجئے اس كو اور بھى بہت سى پريشانياں لاحق رہتى ہيں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہيں : جو عورت اپنى زبان سے اپنے شوہر كو تكليف پہنچاتى ہے ، اس كى نمازيں اور دوسرے اعمال قبول نہيں ہوتے خواہ ہر روز روزہ ركھے اور راتوں كو عبادت اور تہجد كے لئے اٹھے۔ غلاموں كو آزاد كرے اپنى دولت فی سبیل الله خرچ كرے ايسى عورت جو بدزبان ہو اور اپنى بد زبانى سے اپنے شوہر كو رنج پہنچائے وہ پہلى ہستی ہوگى جو دوزخ ميں داخل ہوگى۔

ميرى سمجھ ميں نہيں آتا كہ ان فضول باتوں سے خواتين كا مقصد كيا ہے۔ اگر چاہتى ہيں كہ اس طرح سے شوہر كى توجہ كو اپنى طرف مبذول كرا ليں اوراپنے آپ كو اس كے سامنے محبوب ،محنتى اور خير خواہ ظاہر كريں ، تو اطمينان ركھيں كہ اس كا نتيجہ برعكس ہوگا۔ نہ صرف يہ كہ اس طريقے سے آپ اس كى محبت حاصل نہ كر سكيں گى بلكہ شوہر كے غيظ و غضب كا شكار ہوجائيں گى۔ اور اگر اس طرز عمل سے آپ كا مقصد اپنے شوہر كے اعصاب كو خستہ كرنا ہے تاكہ كام اور زندگى سے اس كا دل بھر جائے اور اعصابى امراض ميں مبتلا ہوجائے اگر گھر سے فرار اختيار كرے اور اعصاب كو بے حس بنا دينے كے لئے خطرناك نشہ آور چيزوں كى عادت ڈال لے اور فتنہ و فساد كے مراكزكا رخ كرے اور آخر كار دق كا شكار ہو جائے تو اس صورت ميں آپ كا كاميابى يقينى ہے۔

لہٰذا میری عزیز بہن !

اگر آپ كو اپنے شوہر اور اپنی اور اس کی زندگى سے محبت ہے تو اس غير عاقلانہ اور غلط روش كو چھوڑيئے كيا اس بات كا احتمال نہيں كہ آپ كى بے جا شكايتيں ، قتل و غارت گرى كا باعث بن جائيں يا آپ كى خاندانى زندگى كا شيرازہ بكھر جائے۔ اگر آپ چاہتى ہيں كہ آپ اور آپ كے شوہر اور بچوں كى زندگى اچھى طرح گزرے تو اپنے اخلاق كى اصلاح كيجئے۔ ہميشہ خوش و خرم اور مسكراتى رہئے۔ تلخى اور جھگڑے سے پرہيز كيجئے۔ خوش گفتار اور شيريں بيان بنئے۔ آپ اپنى خوش اخلاقى كے ذريعہ اپنے گھر كو بہشت بنا سكتى ہيں۔ كيا يہ افسوس كى بات نہيں كہ بداخلاقى سے آپ اپنے گھر كو جہنّم ميں تبديل كرديں اور خود كو اور اپنے شوہر اور بچوں كو اس عذاب ميں مبتلا كرديں۔ آپ چاہيں تو فرشتہ رحمت بن سكتى ہيں گھر كے ماحول كو خوشگوار اور پرسكون بنا سكتى ہيں۔ متبسم چہرے اور خندہ پيشانى اور شيريں بيانى سے آپ اپنے شوہر اور بچوں كے دلوں كو مسرّت و شادمانى عطا كرسكتى ہيں ان كے دل سے رنج و غم مٹا سكتى ہيں۔ كيا آپ جانتى ہيں۔؟

صبح جب آپ كے بچے اسكول يا كام پر جا رہے ہوں اور اگر آپ گرمجوشى اور مسكراہٹ كے ساتھ ان كو رخصت كريں تو ان كى روح اوراعصاب پر كيسا اچھا اثر پڑے گا۔ اور اپنے كاموں كو انجام دينے كے لئے ان ميں كيسى تازہ لہردوڑجائے گى۔

آئیے ! میں اب آپ سے آخری بات کروں گا اور پھر اگلے ماہ تک آپ سے اجازت لوں گا اور وہ یہ ہے کہ :

ہمیشہ اپنے شوہر کے ماں باپ اور اس کی بہنوں کو اپنے ماں باپ اور بہنوں جیسا سمجھیں گو کہ یہ بہت مشکل ہے کہ لیکن ناممکن نہیں خواہ شوہر کے والدین اور بہن بھائی آپ کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک ہی کیوں نہ رکھیں کیوں کہ اگر آپ نے بھی ان کے ساتھ جوابی طور پر منفی رویہ ہی رکھنا ہے تو پھر آپ میں اور ان میں کیا فرق رہا

یہ مت بھولیے گا کہ برائی کو اچھائی سے مٹانے کی طاقت اللہ تعالی نے ہر مسلمان کو عطا کی ہے یہ الگ بات ہے کہ اس طاقت کو استعمال کوئی کوئی کرتا ہے اور اس یقین کے ساتھ کہ آپ کا رب زندہ ہے اور وہ سب کچھ دیکھ رہا ہے آپ کےاس خوبصورت رویے کا صلہ آپ کو وہ ملے گا جو آپ نے سوچا بھی نہ ہوگا۔

اور آخری بات عورت تو قربانی اور ایثار کا دوسرا نام ہے اگر کامیاب مرد کے پیچھے کسی عورت کا ہاتھ ہوتا ہے تو ناکام مرد کی ناکامی میں بھی کسی عورت کا ہی ہاتھ ہوتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے