گذشته دنوں فضیلة الشیخ القاری صهیب احمد میرمحمدي حفظه الله جامعه میں تشریف لائے انهوں نے بعد از نماز ظهر طلباء كرام سے عربی زبان میں خطاب كیا اس كا خلاصه قارئین كرام كی خدمت میں پیش كیاجارها هے۔
حمد وثناء كے بعد :
محترم سامعین ! نور اسلام سے پهلے لوگ شرك وضلالت‘ اخلاقی گراوٹ كی اتھاه گهرائیوں میں ڈوبے هوئے تھے اس صورت حال پر قرآن نے یوں روشنی ڈالی هے ۔
وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ
حالانکہ اس سے پہلے وہ کھُلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔(الجمعہ:2)
سسكتی انسانیت كے لیے رسول معظم صلی اللہ علیہ و سلم كو قرآن عظیم دے كر مبعوث كیا ۔
لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ(ابراهیم:۱)
’’(تاكه) آپ لوگوں كو (گمراهی كے)اندھیروں سے نكال كر روشنی میں لے كر آئیں۔‘‘
رسول مكرم صلی اللہ علیہ و سلم نےانسانیت كو اخلاق كریمانه كے اوج كمال تك پهنچایا ۔آج كی اس مجلس میں هم اپنے قلوب و اذهان كو اخلاقی برائیوں مثلاً حسد وبغض ، كینه وغیره سے پاكیزه كرنے كی كوشش كریں گے۔
رسول مكرم صلی اللہ علیہ و سلم كا ارشاد گرامی هے :
لَا تَبَاغَضُوا وَلَا تَدَابَرُوا وَلَا تَنَافَسُوا وَكُونُوا عِبَادَ اللهِ إِخْوَانًا(متفق علیه)
اے لوگو! بغض نهیں كرو ، ایك دوسرے كے خلاف (گندی سوچ) مت ركھو۔ اور نه هی (اخلاق رذیله میں) ایك دوسرے سے مقابله كرو بلكه اے الله كے بندوں آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ۔‘‘
اسی طرح رسول اكرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا :
لا تدخلوا الجنة حتى تؤمنوا ، و لا تؤمنوا حتى تحابوا ، ألا أدلكم على ما تحابون به ؟ قالوا : بلى ، يا رسول الله قال : أفشوا السلام بينكم ( صحیح مسلم)
اے مسلمانو! تم اس وقت تك جنت میں داخل نهیں هوسكتے جب تك مومن نه بن جاؤ اور جب تك تم آپس میںمحبت نهیں كرو گے مومن نهیں بن سكتے كیا میں تمهیںوه چیز نه بتاؤں جس پر عمل پیرا هوكر تم محبت كرنے لگو گے آپس میں سلام كو عام كرو۔‘‘
رسول اكرم صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا گیا كه كونسے لوگ افضل هیں تو آپ نے جواب ارشاد فرمایا ۔
هُوَ التَّقِيُّ النَّقِيُّ ، لَآ إِثْمَ فِيهِ ، وَلاَ بَغْيَ ، وَلاَ غِلَّ ، وَلاَ حَسَدَ
سنن ابن ماجہ:جلد سوم:حدیث نمبر 1096
پرہیز گار پاک صاف وہ ہے کہ جس کے دل میں نہ گناہ ہو نہ بغاوت نہ بغض نہ حسد۔
جنت میں اهل ایمان كے دلوں سے كدورت كو ختم كردیاجائے گا ارشادباری تعالیٰ هے:
وَنَزَعْنَا مَا فِيْ صُدُوْرِهِمْ مِّنْ غِلٍّ اِخْوَانًا عَلٰي سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِيْنَ (الحجر : ۴۷)
اُن کے دلوں میں جو تھوڑا بہت بغض ہوگا اسے ہم نکال دیں گے ، وہ آپس میں بھائی بھائی بن کر آمنے سامنے تختوں پر بیٹھیں گے۔
سامعين! اپنے قلوب كو بغض سے پاك كریں ۔ كسی مسلمان كے بارے میں برا گمان نه ركھیں تو باری تعالیٰ جنت میں داخل فرمائے گا جیسا كه مشهور حدیث هے كه ایك صحابی رسول الله صلی اللہ علیہ و سلم جب سونے لگتے تھے تو اپنے دل سے بغض كو ختم كردیتے تھے اور هر مسلمان كو معاف كركے سوتے تھے رسول اكرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس صحابی جلیل كو اسی عمل كی بناء پر جنتی قرار دیا تھا۔
باهمی منافرت اور حقد وحسد كے اسباب:
اس بیماری كے بنیادی اور اساسی اسباب درج ذیل هیں۔
۱۔ شیطان كی اطاعت :
باری تعالیٰ كا ارشاد هے :
اِنَّ الشَّيْطٰنَ يَنْزَغُ بَيْنَهُمْ ۭ اِنَّ الشَّيْطٰنَ كَانَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوًّا مُّبِيْنًا بنی اسرائیل:53
دراصل یہ شیطان ہے جوانسانوں کے درمیان فساد ڈلوانے (وسوسہ اندازی کرنے ) کی کوشش کرتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔
۲۔ غضب :
غضب اور غصه كرنے سے بھی آپس میں عناد پیدا هوتاهے اسی لیے رسول الله صلی اللہ علیہ و سلم نے نصیحت طلب كرنے والے صحابی كو بار بار غصه نه كرنے كی تلقین كی ۔
۳۔چغل خوری :
چغل خوری معاشرے كو دیمك كی طرح چاٹ لیتی هے۔ باهمی تنازعا ت سے بچنے كے لیے چغل خوری سے محفوظ رهنا بهت ضروری هے ۔
باری تعالیٰ نے رسول اكرم صلی اللہ علیہ و سلم كو حكم دے امت مسلمه كو سمجھایاهے كه چغل خور كی اتباع نه كیا كریں۔
هَمَّازٍ مَشَّاءٍ بِنَمِيمٍ (القلم:۱۱)
طعنے دیتا ہے ، چغلیاں کھاتا پھرتا ہے۔
رسول اكرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا كه :
لا یدخل الجنة المنان
چغل خور جنت میں داخل نهیں هوگا ۔‘‘(نسائی)
۴۔ حسد :
رسول اكرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا كه تم حسد سے بچو یه نیكیاں كو اسی طرح ختم كر دیتا هے جس طرح آگ لكڑیوں كو ختم كردیتی هے۔كَمَا تَأْكُلُ النَّارُ الْحَطَبَ(سنن ابن ماجه)
۵۔ مقابله بازی :
دنیا كی جاه وحشمت اور شان وشوكت حاصل كرنے كے لئے ایك انسان دوسرے انسانوں سے مقابله كرتاهے اس سے بھی دلوں میں كدورت پیدا هونے كا خطره هے۔
۶۔ كثرت مذاق :
مذاق كی مثال نمك كی طرح هے اگر كھانے میں نمك كی مقدار كم هوتو اس كو مزیدار بنا دیتاهے جبكه یهی نمك اگر زیاده هوجائے تو كھانے كو خراب بھی كردیتاهے اسی طرح اخلاقیات كی حدود میں رهتے هوئے جو مذاق كیا جائے وه انسان كی شخصیت كو مقبول عام بناتا مگر بعض اوقات مذاق كی كثرت انسان كی شخصیت كو قابل نفرت بنادیتی هے۔
بچاؤ :
قلوب واذهان كی روحانی بیماریوں سے بچنا اسی وقت ممكن هے جب هم درج هدایات پر عمل پیرا هونگے۔
cتقدیر الٰهی پر راضی رهنے سے بندے كیلئے فلاح وبهبود كے دروازے كھول دیے جاتے هیں ۔
c قرآن كریم كی تدبر كے ساتھ تلاوت كرنا۔
cجو آدمی قرآن كے ذریعے شفاء حاصل نهیں كرتااور اس كے ذریعے روحانی امراض كا علاج نهیں كرتا در حقیقت یهی آدمی نقصان اور دھوكے میں هے ۔
باری تعالیٰ نے تو قرآن كے باره میں ارشاد فرمایا : رحمة للعالمینــ’’ ان کے لیے رہنمائی اور رحمت ہے ۔‘‘
دوسری جگه فرمایا : شفاء لما فی الصدور
ــ’’ یہ وہ چیز ہے جو دلوں کے امراض کی شفا ہے۔‘‘
c دعا كرنا
c صدقه كرنا ۔ رسول اكرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا :
’’اپنی بیماریوں كا علاج صدقه كے ذریعے كرو۔‘‘
cقرآن كریم نے فرضیت زكوٰ ةكی حكمت بیان كرتے هوئے فرمایا :
خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا
’’اے نبی ، تم ان کے اموال میں سے صدقہ لے کر انہیں پاک کرو اور ان كا تزكیه نفس كرو۔‘‘(التوبة :103)
مفسرین نے لكھا هے كه تطهرهم سے مراد دلوں كی پاكیزگی سے اور تزكیهم تزكیه نفس كی طرف اشاره هے۔
cیادركھئے! جس آدمی كے باره میں آپ اپنے دل میں بغض ركھتے هیں وه آپ كا اسلامی بھائی هے كا فر عیسائی یا یهودی نهیں كوئی عقل مند اپنے بھائی كے باره میں بری سوچ ركھ سكتاهے۔
cكثرت سے السلام علیكم كهنا ۔
دوسرے كے حالات كے باره میں غیر ضروری سوالات كی بھر مار سے بھی دلوں میں نفرت پیدا هوتی هے همیشه رسول مكرم كا یه فرمان ذهن نشین ركھیں۔
مِنْ حُسْنِ إِسْلاَمِ الْمَرْءِ تَرْكُهُ مَا لاَ يَعْنِيهِ
’’انسان كے بهترین اسلام كی دلیل یه هے كه وه غیر ضروری معاملات كو چھوڑ دیتاهے۔‘‘
cچغلی ، غیبت كو سننا چھوڑ دیں دلوں كی تما م بیماریاں آهسته آهسته ختم هوجائیں گی۔
همیشه اصلاح قلوب كی فكر كریں، رسول مكرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا :
وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ أَلَا وَهِيَ الْقَلْبُ(متفق علیه)
ــ’’جسد خاكی میں ایك خون كا لوتھڑا هے اگر وه درست هوجائے تو پورا جسم درست هوجاتا ہے اور اگر وهی ٹكڑا خراب هوجائے تو پورا جسم خراب هوجاتا هے (آگاه رهو كه)وه (ٹكڑا) دل هے۔‘‘
آخر میں شیخ صاحب نے اردو زبان میں نئے سال كے موقع پر سامعین كو نصیحت كرتے هوئے كها كه آج یه عزم كرلیں كه هم نے اس سال نیكی اور بھلائی كے وه كام كرنے كی كوشش كریںگے جو كه گزشته سال نهیں كرسكے۔
اپنے آنے والے سال كو گزرے هوئے سال سے بهتر بنائیں ۔ وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمین
مدیر الجامعہ کی نصیحت:
مؤرخه ۳ صفر ۱۴۳۳ ھبمطابق ۲۹ دسمبر ۲۰۱۱ء جامعه ابی بكر الاسلامیه كے مدیر محترم جناب حضرت الامیرڈاكٹر محمد راشد رندھاوا حفظهلله نے صبح كی اسمبلی میں طلباء اور اساتذه كرام كو ناصحانه خطاب فرمایا۔
انهوں نے طلباء كرام كو قرآن كریم اور احادیث نبویه كو حفظ كرنے كی تلقین كی اور بتلایا كه جماعت مجاهدین كے سرخیل شاه محمد اسماعیل شهید رحمه الله نے ۸ سال كی عمر میں قرآن پاك حفظ كیا اور ۱۵ سال كی عمر میں انهوں نے مروجه كتابیں پڑھ لی تھیں ۔اور اسی طرح انهیں ۳۰ هزار احادیث مباركه زبانی یاد تھیں۔ میں نے لاهور كے ایك دار العلوم كا وزٹ كیا تھا جس میں تمام طلبه حافظ قرآن تھے اس لیے هم بھی چاهتے هیں كه همارا هر طالب علم فارغ هوتے وقت قرآن پاك كاحافظ هواور اسے كثرت كے ساتھ احادیث نبویه بھی یادهوں۔
انهوں نے طلباء كرام كو نماز اشراق نفلی روزے اور دین اسلام كے جمله احكامات پررغبت سے عمل كرنے كی تلقین كی۔
فضیلة الشیخ الحافظ مسعود عالم حفظه الله
ماه محرم میں جماعت اهلحدیث كے جید عالم دین استاذ الحدیث والتفسیر حافظ مسعود عالم صاحب جامعه میں تشریف لائے انهوں نے مختصر سے وقت میں طلباء كرام كو قیمتی پند ونصائح سے نوازا اس كا اردو میں ترجمه پیش خدمت هے ۔
محترم سامعین كرام ! آپ الله تعالیٰ كے پسندیده افراد هیں كیونكه آپ كو الله نے اپنے دین كے علم كے لیے منتخب فرمایا هے ۔ ارشاد باری تعالیٰ هے :
ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا
(فاطر:۳۲)
’’پھر ہم نے اس کتاب کا وارث بنا دیا ان لوگوں کو جنہیں ہم نے (اس وراثت کے لیے ) اپنے بندوں میں سے چن لیا۔ ‘‘
علم كی حقیقت كیا هے یادر كھئے علم حقیقی سے دلوں میں یقین پیدا هوتاهے اور معرفت الٰهی حاصل هوتی هے معلومات كا حصول علم كی حقیقت نهیں هے ۔ عصر حاضر میںحقیقی علم كی كمی هے اسی وقت كے بارے میں رسول اللهصلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا تھا :
إِنَّ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ أَنْ يُرْفَعَ الْعِلْمُ وَيَكْثُرَ الْجَهْلُ وَيَكْثُرَ الزِّنَا وَيَكْثُرَ شُرْبُ الْخَمْرِ وَيَقِلَّ الرِّجَالُ وَيَكْثُرَ النِّسَاءُ (متفق علیه)
قیامت كی علامتوں میں سے یه كه ایك وقت آئے گا كه علم اٹھا لیا جائے گا جهالت كی كثرت هوگی ، زناكاری عام اور شراب خوری كثرت سے هوگئی عورتوں كی تعداد مردوں سے زیاده هوجائے گی۔‘‘اور ایك روایت میں هے كه عمل برائے نام ره جائے گا۔‘‘زیاده پڑھنا ، رٹا لگانا علم كی معراج نهیں بلكه علم حقیقی سے انسان كو باری تعالیٰ كی ذات كے باره میںیقین كامل ملتاهے۔
رسول اكرم صلی اللہ علیہ و سلم كاا رشاد هے :أَكْثَرُ مُنَافِقِي أُمَّتِي قُرَّاؤُهَا
میری امت كے اكثر منافق كثرت سے پڑھنے والے هونگے كیا۔(مسند احمد،حدیث حسن لغیر ہ) (یعنی وه عمل میں سست هونگے) امام اهل السنه امام احمد رحمه الله فرماتے هیں كه میں نے جو حدیث بھی پڑھی اس پر عمل ضرورکیا
اپنے آپ كو زیور علم سے آراسته كریں تاكه آپ معاشرے كی اصلاح كرسكیں۔اپنے استاذ كی عزت كرنا ان سے ادب سے پیش آنا حصول علم كا اہم ذریعه هے ۔
رسول رحمت صلی اللہ علیہ و سلم كے اس فرمان كو اپنا حرز عمل بنالیں ۔
إن الهدي الصالح والسمت الصالح والاقتصاد جز من النبوة
عمدہ چال چلن، عمدہ اخلاق اور میانہ روی، نبوت کے اجزاء میں سے ایک جزء ہے۔(ابوداوٗد:4776)