انسان کی زندگی میں بعض لمحات بڑے خوش قسمت ہوتے ہیں ،ایسے ہی خوبصورت لمحات میں ایک دن امام کعبہ ڈاکٹر عبدالرحمٰن السدیس حفظہ اللہ کے سیکرٹری خاص استاذ عبدالعزیز انصاری کا فون آیا کہ فضیلۃ الشیخ آپ کو سلام کہہ رہے ہیں اور اس خواہش کا اظہار کررہے ہیں کہ دارالسلام ان کی کتاب خطبات حرم کا اردو میں ترجمہ شائع کرے۔

ڈاکٹر عبدالرحمٰن السدیس  حفظہ اللہ کا نام سنتے ہی دل خوشی سے بھر آتا ہے۔ میں نے پوچھا کہ کیا واقعی یہ ان کی خواہش ہے کہ دارالسلام ان کی کتاب شائع کرے۔مجھے اپنی خوش قسمتی پر یقین نہیں آرہا تھا۔ ہر چند کہ ان سے متعدد بار ملاقاتوں کا شرف حاصل کرچکا ہوں مگر مجھے یہ اندازہ نہ تھا کہ وہ دارالسلام کو اپنی کتاب کی اشاعت کا اعزاز بخشیں گے۔

اس دنیا میں بہت ساری نامور اور مقبول شخصیات موجود ہیں اور اپنے اپنے حلقوں میں نہایت قدر ومنزلت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں مگر میں پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ عصرحاضر میں ڈاکٹر عبدالرحمٰن السدیس  حفظہ اللہ کا شمار مسلمانوں کی مقبول ترین اور عظیم ترین شخصیات میں ہوتا ہے۔ یہ ہر خطے،طبقے اور مسلک کے لوگوں میں یکساں مقبول ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے ڈاکٹر عبدالرحمٰن  حفظہ اللہ کو فن خطابت کا وافر حصہ عطافرمایا ہے۔ وہ کمال حافظہ کے مالک ہیں۔ قرآن کریم توان کو اتناازبر ہے کہ سالہا سال سے پڑھتے ہوئے کبھی نہیں اٹکے ،مگر اس کے ساتھ ہی عربی ادب، اشعار، فصاحت و بلاغت ان کے اند ر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔جب وہ خطبہ جمعہ پڑھاتے ہیں تو الفاظ ان کے سامنے باندیوں کی طرح ہاتھ باندھے کھڑے نظر آتے ہیں۔

شیخ السدیس حفظہ اللہ ان نمایاں شخصیات میں سے ہیں جو جمعہ کا خطبہ دینے سے پہلے اس کی خوب تیاری کرتے ہیں۔ کویت کے مشہور عالم دین ڈاکٹر محمد العوضی  حفظہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ شیخ عبدالرحمٰن السدیس  حفظہ اللہ کویت کے دورے پر تھے۔ میری ان سے ملاقات ہوئی ، میں نے ان کی شخصیت میں تواضع،حکمت ودانش اورعلم وعمل کا ایک عمدہ نمونہ دیکھا۔اس سفر میں انھوں  نے مجھے اپنی کتاب کوکبۃ الکوکبیتہ کا ایک نسخہ ہدیہ کیا اور فرمایا کہ جب میں حرم میں جمعہ پڑھانے کے لیے تیاری شروع کرتا ہوں تو ہر خطبے کو ایک عظیم مشن سمجھ کر اس کی تیاری کرتا ہوں۔جو جمعہ پڑھانا ہوتا ہے اس سے ایک دوروز پہلے لوگوں سے ملاقاتیں بند کردیتا ہوں تاکہ پوری توجہ اور انہماک سے اپنے موضوع کا حق ادا کرسکوںاور اس کے لیے درست معلومات جمع کرسکوں۔میں جانتاہوں کہ یہ وہ عظیم مقام ہے جس سے بڑھ کر دنیا میں کوئی مقام نہیں۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں اللہ کے رسولe نے کھڑے ہوکر پوری دنیا کے مسلمانوں سے خطاب فرمایا تھا۔

ڈاکٹر محمد العوضی  حفظہ اللہ نے اپنے مضمون میں فرمایا ہے کہ شیخ السدیس کا گہرا مطالعہ کرنا اور خطبہ جمعہ کی خوب تیاری کرنا ان خطیب حضرات کے لیے سبق اور نصیحت ہے جنھیں جمعہ کے روز صبح دس بجے تک خطبے کے موضوع اور تیاری کا کچھ پتہ نہیں ہوتا۔

 شیخ عبدالرحمٰن السدیس حفظہ اللہ  جس ملک میں جاتے ہیں، وہاں ان کا اس قدر استقبال ہوتا ہے کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے کہ لوگوں کو ان کے ساتھ کس قدر محبت ہے۔کئی سال قبل جب وہ پاکستان تشریف لے گئے تو ان کا جس طرح استقبال کیاگیا وہ تاریخی واقعہ ہے۔ ان کا استقبال کرنے والے صرف مرد حضرات ہی نہیں تھے بلکہ بچوں اور حکومتی عہداروں کی ایک بڑی تعداداستقبال کے لیے موجود تھی۔ لاکھوں مرد وخواتین نے امام کعبہ کی امامت میں نماز کی ادائیگی کی۔

گزشتہ سال جب ڈاکٹر عبدالرحمٰن السدیس  حفظہ اللہ بھارت تشریف لے گئے تو دہلی اور دیوبند میں ان کا جس طرح استقبال کیا گیا اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔بعض عینی شاہدین نے بتایا کہ لوگوں نے شیخ کی گاڑی کو اپنے ہاتھو ں میں اٹھالیا ۔ وہ ان کی گاڑی کو چوم رہے تھے۔ میرے نزدیک یہ لوگوں کی اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور اس کے عزت والے، حرمت والے گھر کے ساتھ محبت کی دلیل ہے۔ چونکہ شیخ السدیس حفظہ اللہ  اس حرم کے امام ہیں جو مسلمانوں کا قبلہ اور کعبہ ہے اور تمام دنیا کے مسلمان اس گھر کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے ہیں،اس لیے جس شخص کی نسبت بھی اس گھر کے ساتھ ہویا وہ اس کا امام اور خطیب ہوگا لوگ اس سے محبت اور احترام کر یں گے۔

شیخ عبدالرحمٰن السدیس حفظہ اللہ کی کتا ب خطباتِ حرم کا ترجمہ برمنگھم میں ہمارے دوست مولانا عبدالہادی العمری نے شیخ صاحب کی فرمائش پر کیا تھا۔ مولانا عبدالہادی العمری کا اصل وطن بھارت ہے مگر گزشتہ تین دہائیوں سے وہ برطانیہ میں مقیم ہیں۔وہ نامور خطیب ہیں، شریعہ کونسل کے رکن ہیں ،ماہنامہ صراط مستقیم کی مجلس ادارت میں شامل ہیں۔ ریڈیو اور ٹی وی پر ان کے متعدد پروگرام نشر ہوتے رہتے ہیں۔ہماری خواہش یہی تھی کہ جتنی بڑی شخصیت شیخ السدیس حفظہ اللہ کی ہے اتنی ہی شان وشوکت کے ساتھ ان کی کتاب بھی شائع ہو، چنانچہ طے پایا کہ اسے چار رنگوں میں بہترین کاغذ پر شائع کیا جائے گا۔وزارۃ اطلاعات (سعودی عرب) نے بھی خاصاوقت لیا ا ن کا کہنا تھا کہ اتنی بڑی شخصیت کی کتاب کو ہم بھی لفظ بہ لفظ پڑھنا چاہتے ہیں۔اور پھر وہ دن بھی آگیا کہ یہ خوبصورت کتاب چھپ کر مارکیٹ میں آ گئی ہے۔ اب یہی کتاب ہم امام حرم کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کرنا چاہ رہے ہیں۔

اب اپنے مضمون کے اصل موضوع شیخ عبدالرحمٰن السدیس سے ملاقات کی جانب آتے ہیں۔

یکم اکتوبر2011 کی صبح سویرے میں اہلیہ اور بیٹی کے ہمراہ مکہ مکرمہ پہنچ گیا تھا۔ عمرے کی سعادت حاصل کی۔ شیخ صاحب کے سیکرٹری نے مجھے ایک دن پہلے فون پر مطلع کردیا تھا کہ آپ کی شیخ صاحب کے گھرپر شام پانچ بجے ملاقات ہوگی۔ہم نے عصر کی نماز حرم شریف میں ادا کی ، اس وقت بڑی زبردست آندھی چل رہی تھی اور طوفان آیا ہواتھا۔دارالسلام کی جدہ برانچ کے منیجر محمد اشرف کے ہمراہ ہم جلدی سے گاڑی میں بیٹھے اور شیخ السدیس کی رہائشگاہ کی جانب روانہ ہوگئے۔ شیخ عبدالرحمٰن السدیس کا گھر عوالی کے علاقے میں ہے جو مکہ سے 10کلومیٹرکے فاصلے پر ام القریٰ یونیورسٹی روڈ پر ایک پوش علا قہ میںہے۔راستے میں تیز بارش شروع ہوگئی۔ ذہن میں خدشہ گزرا کہ کہیں بارش کی وجہ سے شیخ سے ملاقات ملتوی نہ ہوجائے۔جب ہم ان کے گھر پہنچے تو بارش زور سے ہورہی تھی۔ برادرم عبدالعزیز انصاری نے ہمارا استقبال کیا۔شیخ عبدالعزیز انصاری کے آباؤ اجداد مدینہ کے رہنے والے تھے ،ان کاتعلق الخزرج قبیلے سے ہے۔ حوادث زمانہ میں وہ اندلس چلے گئے اور پھر کئی صدیوں کے بعد ان کے ورثا افریقہ کے ایک ملک’’ مالی‘‘ میں بس گئے۔ شیخ انصاری بڑے ہی اعلیٰ اخلاق کے مالک ہیں۔ شکل و صورت سے عرب نظر آتے ہیں۔میں نے اہلیہ اور بیٹی کو گاڑی میں چھوڑا اور ہم شیخ کے گھر میں داخل ہوگئے۔ ماشاء اللہ ان کا گھر بہت بڑا پیلس ہے۔جس میں مہمانوں کا دروازہ مجمع امام الدعوۃ کی طرف کھلتا ہے۔ دراصل یہ بہت بڑا علمی مرکز ہے جس میں جامع مسجد ،مغسلہ الاموات،بہت بڑی پبلک لائبریری اور دیگردفاتر ہیںجن کا ذکر ہم آگے چل کر کریں گے۔شیخ السدیس حفظہ اللہ کی اپنی بھی بہت بڑی لائبریری ہے جو ایک بڑے ہال میں ہے۔ یہ نہایت خوبصورت لائبریری ہے۔لائبریری میں مطالعہ کرنے والوں کے لیے کم و بیش سو کے قریب نشستیں ہیں۔ ہال کے چاروں اطراف میں نہایت خوبصورت الماریاں ہیں جن میں ہزاروں کتابیں سجی ہوئی ہیں۔ ہال کے دوسری طرف ملحق ہال میں شیخ کا مکتب خاص اور ان کے سیکرٹری کا دفتر ہے۔شیخ السدیس  حفظہ اللہ صاحب میرے انتظار میں تھے ۔

روایتی معانقہ ہوا،پھر ملاقات کا آغاز ہوا اور ان کوان کی کتاب’’ خطبات حرم‘‘کا اُردو میں ترجمے کا نسخہ پیش کیا ۔ شیخ السدیس نے ’’خطبات حرم‘‘ کی طباعت ، خوبصورت ڈیزائننگ اور جلد بندی کی بے حد تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ مکہ مکرمہ مہبط الوحی اور اللہ کے رسولe کا مولد ہے۔ یہ اسلام کا مرکز ہے۔ یہاں پوری دنیا سے لوگ علم کی تلاش میں آتے ہیں۔ ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم ان کو اسلام کا صحیح پیغام سلف صالحین کے طریقے کے مطابق پہنچائیں اور اس کے لیے جدوجہد کریں۔ فضیلۃ الشیخ کے پند و نصائح کے بعد راقم الحروف نے ان کو دارالسلام کی طرف سے شائع شدہ الکتب الستۃ کا نسخہ بھی پیش کیا جسے انھوں نے بے حد سراہا۔حدیث کی چھ مشہور کتابوں (صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ابی داود، جامع ترمذی، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ) پر مشتمل ایک جلد میں یہ کتاب منفرد اور بے مثال ہے۔اس کتاب میں سند اور متن کے ساتھ پوری صحاح ستہ کو جمع کرکے اٹلی سے شائع کیا گیا ہے جس کے لیے دنیا کے سب سے اعلیٰ 40گرام کے کاغذ کا استعمال کیاگیا ہے۔اس کتاب میں 2772صفحات ہیں ،ا س کا سائز A4 ہے ۔ یہ نسخہ دنیا کا صحیح ترین نسخہ ہے۔متن حدیث پر مکمل اعراب لگے ہوئے ہیں۔اور یہ نسخہ سعودی عرب کے مذہبی امور کے وزیرشیخ صالح بن عبدالعزیز آل شیخ کی نگرانی اور اشراف میں شائع ہوا ہے۔

باہر گاڑی میں میری اہلیہ اور بیٹی بیٹھی ہوئی تھیں۔ میں جب اندر آنے لگا تو کہنے لگیں کہ شیخ صاحب سے ہمارے لیے دعا کروایئے گا۔ ان کی دلی تمنا تھی کہ وہ بھی شیخ صاحب کو سلام عرض کرسکیں۔ میں نے موقع کی مناسبت سے عرض کیا کہ میری اہلیہ اور بیٹی بھی آپ کو سلام کرنے کی خواہشمند ہیں۔انھوں نے کہا کہ انھیں فوراً بلوالیں۔ فرمانے لگے: ان کو اپنے گھر والوں سے ملوانا چاہیے تھا۔ بہرحال وہ دونوں بھی اندر آئیں ، شیخ صاحب  حفظہ اللہ نے ان کو مرحبا فرمایا ،ان کے لیے  دعا کی اور ترجیحی کلمات سے نوازا۔سبحان اللہ! ان کی شخصیت اتنی عظیم ہے کہ ہمارے گھر میں مدتوں سے کم و بیش ہر روز ان کا تذکرہ ہوتا ہے۔مجھے ان کی ذاتی زندگی کے حوالے سے ایک واقعہ یاد آگیا واقعہ یوں ہے کہ لندن کی توحید مسجد میں  شیخ السدیس  حفظہ اللہ کا لیکچر تھا ،مسجد نمازیوں سے بھری ہوئی تھی۔ خطاب کے اختتام پر انھو ں نے اپنے لیکچر کے حوالے سے لوگوں سے سوال شروع کر دیے۔ ایک صومالی نوجوان نے ان کو صحیح جوابات بتائے تو فرمانے لگے کہ تمہارے لئے ایک سرپرائز ہے۔  لوگ بھی شیخ کی طرف دیکھنے لگے کہ اسے کیا انعام ملتا ہے ،انھوں نے فرمایا کہ تم میرے خرچے پر عمرہ کروگے۔

قارئین کرام شیخ السدیس  حفظہ اللہ دنیا بھر میں نہ صرف بڑوں میں بلکہ بچوں میں بھی بڑے مقبول ہیں۔میرے گھر کے قریب والی مسجد کے ایک سعودی نمازی نے مجھے ایک واقعہ سنایا اور اگلے دن مجھے دارالسلام کے ایک اسٹورپر ماہنامہ ’’ن‘‘ میں یہی واقعہ قدرے تفصیل سے مل گیا۔

الجزائر کی رہنے والی آٹھ سالہ بچی صفا  چھوٹی عمر سے شیخ السدیس  حفظہ اللہ کی آواز کو پسند کرتی ہے ،اور اسی طرز پر قرآن پڑھتی تھی۔ اس نے پورے الجزائر میں بچوں میں تلاوت کے مقابلے میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ یہ بچی اکثر اوقات شیخ السدیس حفظہ اللہ  کا ذکر خیر کرتی اور ان سے ملاقات کی خواہش رکھتی تھی۔شیخ سے اس کی محبت کا یہ عالم تھا کہ جب اس سے نام پوچھا جاتا تو کہتی میرا نام صفا السدیسیہ ہے۔ اپنی والدہ سے اکثر پوچھتی کہ میں شیخ سے کب ملوں گی؟ میری سب سے بڑی خواہش ہے کہ ان سے ملاقات کروں۔ اس کی والدہ نے اسے بتایا کہ ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں کہ میں تمھیں شیخ سے ملاقات کے لیے مکہ لے جاؤں ،اگر ہمارا اپنا گھر ہوتا تو میں اسے بیچ کر بھی مکہ لے جاتی۔بچی کا اصرار جاری رہا ،ایک دن وہ پھٹ پڑی اور کہنے لگی: اماں ،تم لوگ جھوٹ بولتے ہو،تم مجھے شیخ کے پاس کیوں لے کر نہیں جاتے؟ آہستہ آہستہ وہ قرآن کریم پڑھنے سے بھی انکار کرنے لگی،اس کی والدہ نے اسے ڈانٹا  اور مار ا بھی کہ تم دین اور قرآن سے کیوں دور ہورہی ہو اور پھر وہ نفسیاتی مریضہ بننے لگی۔ ایک دن کویت کے ایک چینل سے سوال و جواب کی نشست چل رہی تھی۔  وہاں کے ایک معروف ڈاکٹر سوالات کے جواب دے رہے تھے کہ صفاکی والدہ نے اپنی مشکل ان کے سامنے رکھتے ہوئے اس کا حل پوچھا ،اسے جواب دیا گیا کہ تم بچی کے ساتھ جھوٹ نہ بولو اور اسے مارنا پیٹنا بند کردو،اور پھر اچانک ہی انھوں نے شیخ السدیس حفظہ اللہ سے مخاطب ہوکر کہا کہ اگر آپ میری آواز سن رہے ہیں تو مہربانی فرما کر اس بچی کو فون کریں اور اسے اطمینان د لائیں اور اس سے بات کریں وہ آپ سے شدید محبت کرتی ہے۔

قارئین کرام! اور پھر واقعی ایسا ہوگیا۔ جیسے ہی شیخ صاحب کو اس بچی اور اس کی خواہش کا علم ہوا تو انھوں نے اس کے والدین سے رابطہ کیا اور اپنے ذاتی خرچ پر اس بچی کو والدین کے ساتھ عمرے پر بلوالیا۔ وہ مکہ مکرمہ گئے ،عمرہ کیا اور پھر شیخ نے ان کو اپنے گھر میں دعوت پر بلوایا۔صفا اور اس کے والدین کا بھر پو ر استقبا ل کیا ،بچی کو حوصلہ دیا اور قرآن کریم حفظ کرنے کی تلقین کی۔بچی سے اس کی تعلیم کے بار ے میں پوچھا اور پھر فرمایا کہ تم میری بیٹی ہو اور تمہارے تمام تعلیمی اخراجات میں خود اداکروں گا۔اور پھر بچی نے شیخ صاحب کو ان کی طرز پر جب قرآن کریم کی تلاوت اور ختم قرآن کی دعائیں سنائیں توشیخ صاحب سمیت تمام حاضرین کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ شیخ نے اپنے چہرے کو اپنے ہاتھوں سے چھپایا ہوا تھا اور وہ زاروقطار رو رہے تھے۔ یہ قرآن کے ساتھ ایک بچی کی محبت تھی کہ وہ اتنی چھوٹی عمر میں شیخ السدیس سے ملاقات کی خواہاں تھی،اس کی تمنا اللہ تعالیٰ نے پوری کردی تھی۔ شیخ نے اسے انعامات اور تحائف سے نوازا۔

ہماری ملاقات شیخ صاحب کے ساتھ بڑ ی یادگار تھی۔ میری بیٹی عفرا ء سے انھو ں نے کہا کہ تم میری بہن ہو۔ اب میری بیٹی بڑے فخر سے سب کو بتاتی پھرتی ہے کہ میں شیخ السدیس  حفظہ اللہ کی بہن ہوں۔ انھوں نے اپنے سیکرٹری کو حکم دیا کہ مہمانوں کو تحفے دینا نہ بھولنا۔اور پھر مجھے، اہلیہ ،بیٹی اور اشرف صاحب کو انھوں نے خصوصی تحائف عطاکیے۔

انھوں نے استاذ عبدالعزیز سے کہا کہ عبدالمالک حفظہ اللہ  کو مجمع امام الدعوۃ کی لائبریری کا وزٹ کراؤ۔ شیخ صاحب کی ڈھیروں دعاؤں کے ساتھ یہ ملاقات اختتام کو پہنچی،اور میں نے لائبریری کا وزٹ کیا۔

قارئین کرام! ہم میںسے یقینا بہت سارے لوگ اس عظیم شخصیت کے حالات زندگی جاننا پسند کرتے ہوں گے۔ تو آئیے! ہم آپ کو مختصراً ان کے حالات زندگی سے آگاہ کرتے ہیں۔

شیخ عبدالرحمٰن السدیس حفظہ اللہ کی کنیت ابو عبدالعزیز ہے۔فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبدالرحمٰن السدیس  حفظہ اللہ سعودی عرب میں صوبہ قصیم کے علاقہ بکریہ میں 1962 میں پیدا ہوئے۔

انہوں نے ریاض میں جمعیۃ تحفیظ القرآن الکریم کے حلقات قرآنیہ میں بارہ سال کی عمر میں قرآن کریم حفظ کرنے کی سعادت حاصل کی ۔اس دور میں فضیلۃ الشیخ عبدالرحمٰن آل فریان اس ادارے کے سربراہ تھے۔

شیخ عبدالرحمٰن السدیس حفظہ اللہ بچپن ہی سے نہایت ذہین اور فطین تھے۔حافظہ بلاکا تھا۔ والدین نے بھی اپنے ہونہار بچے کی تعلیم وتربیت پر خصوصی توجہ دی۔ متعدد نامور علماء اور قراء نے ان پر خوب محنت کی۔ان میں شیخ قاری محمد عبدالماجد ذاکر او ر شیخ محمد علی حسان سرفہرست تھے۔ان کی ابتدائی تعلیم ریاض کے مدرسہ مثنیٰ بن حارثہ میں ہوئی،پھر ان کا داخلہ ریاض کے المعہد العلمی میں ہوگیا۔ یہاں انھوں نے اسلام کے بنیادی علوم حاصل کیے۔ اس دور میں یہاں بڑی بڑی شخصیات پڑھاتی تھیں۔ ان کے نمایاں اساتذہ میں شیخ عبداللہ المنیف اور شیخ عبداللہ بن عبدالرحمٰن تویجری شامل تھے۔المعہدالعلمی ایک ایسا ادارہ ہے جہاں سے کتاب وسنت کے علوم کے چشمے پھوٹتے ہیں۔انھوں نے 1979ء میں اس ادارے سے فرسٹ ڈویژن میں نمایاں طالب علم کی حیثیت سے فراغت حاصل کی،پھر کلیتہ الشریعہ میں داخل ہوئے۔ یہاں ان کے نمایاں اساتذہ میں مفتی اعظم سعودی عرب شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ آل شیخ اور ڈاکٹرعبداللہ بن جبرین جیسی نامور شخصیات شامل تھیں۔کلیتہ الشریعہ سے آپ کی فراغت 1983ء میں ہوئی۔جن دیگر اساتذہ سے انھوں نے فیض حاصل کیا ،ان میں علامہ عبدالرزاق عفیفی، ڈاکٹر صالح الفوزان، شیخ عبدالرحمٰن البراک اور شیخ عبدالعزیز الراجحی جیسی عظیم شخصیات شامل ہیں۔

انھوں نے ریاض کی بڑی بڑی مساجد میں خطبہ جمعہ دینا شروع کیا اور پھر وہ ریاض کی بڑی معروف و مشہور مسجدمیں ،جو ان کے استاد شیخ عبدالرزاق عفیفی کے نام سے موسوم تھی ، بطور خطیب متعین ہوگئے۔ساتھ ساتھ وہ کلیۃالشریعہ میں تدریس کے فرائض سرانجام دینے لگے۔ان اعزازات کے ساتھ قدرت ان کو ایک اعلیٰ، ارفع اور بڑا مقام دینا چاہتی تھی۔

شیخ عبدالرحمٰن السدیس حفظہ اللہ کو 1984ء میں بیت اللہ الحرام کا امام اور خطیب مقرر کیاگیا،اس وقت سے اب تک اس عہدۂ جلیلہ پر فائز ہیں۔انھوں نے 22شعبان 1404ھ کو عصر کی نماز سے اپنی امامت کا آغاز کیا اور تین ہفتوں کے بعد 15رمضان 1404ھ کو حرم شریف میں پہلا خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا۔انھوں نے ریاض کی امام سعودیونیورسٹی سے 1408ھ میں فقہ اسلامی میں ماسٹرزکی ڈگری حاصل کی ۔اس کے بعد انھوں نے جامعہ ام القریٰ مکہ مکرمہ کے قسم القضا (لاء کالج)میں طلبہ کو پڑھانا شروع کردیا۔پڑھانے کے دوران پی ایچ ڈی کا مقالہ بھی لکھتے رہے اور  1996ء میں امتیازی حیثیت سے فقہ اسلامی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری جامعہ ام القریٰ مکہ مکرمہ سے حاصل کی۔

قدرت نے انھیںایک اور اعزاز یہ بخشا کہ 1416ھ  میں بیت اللہ شریف کے صحن میں مغرب کے بعد درس وتدریس کے لیے انھیں  بطور مدرس مقر ر کیا گیا۔ وہ دنیا بھر سے آئے ہوئے حجاج کے سامنے عقیدہ، فقہ، تفسیراور حدیث کے موضوعات پر درس ارشاد فرماتے اور لوگوں کو ان کے سوالات کے شافی جوابات بھی دیتے تھے۔

شیخ عبدالرحمٰن السدیس حفظہ اللہ کے چار بیٹے ہیں اور وہ نہایت شفیق باپ کی حیثیت سے ان کی بھرپور پرورش کررہے ہیں۔

2005ء میں دبئی کی ایک تنظیم کی طرف سے انھیں سال رواں کی اسلامی شخصیت کے طور پر انعام کے لیے منتخب کیا گیا اور انھیں اسلام اور قرآن مجید کے تعلق کے حوالے سے نمایاں ترین شخصیت قرار دیاگیا۔ 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے