ابتدائے افرینش سے ہی حق وباطل کے درمیان کشمکش رہی ہے شیطان لعین اور اس کے گماشتے ارض الٰہی پر باطل پھیلانے اور فساد ریزی برپا کرنے میں پیش پیش رہے ہیں۔ اس طائفہ باطلہ کے خلاف اہل حق وصداقت نے ہمیشہ صدائے حق بلند کی جیشِ رحمانی سدائے باطل کو دبانے اور حق کو اجاگر کرنے میں پیش قدمی کرتا رہا ہے ۔

علامہ  اقبال نے اس حقیقت کو یوں طشتِ ازبام کیا ہے

ستیزئہ کار رہا ہے ازل سے امروز

چراغِ مصطفوی سے شرارِ بولہبی

سیدنا نوح علیہ السلام سے لے کر سید الاولین والآخرین خاتم النبیین پیغمبر امن وآشتی محمد رسول اللہ ﷺ تک تمام انبیاء ورسل علیہم السلام نے اس خطہ ارضی پر توحید الٰہی کا پرچار کیا ۔ کفر وشرک کے غلیظ ڈھیروں کو خاکستر کرکے وہاں علم توحید بلند فرمایا ۔ تاریخ اسلام شاہد ہے کہ پیغمبر حق وصداقت محمد عربی ﷺ نے شمشیر بکف ہوکر ۳۶۰ بتوں کو پاش پاش کرکے جَاءَ الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ کا غلغلہ بپا کیا۔

پیغمبر اسلام نے چہار سو عالم درس توحید کا بول بالا فرمایا  یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جب بھی حق کا غلبہ ہوا تو باطل نے اسے آخری شکست تسلیم نہیں کیا بلکہ وہ وقتی طور پر دب گیا یا منافقانہ طور پر حق کا لبادہ اوڑھ کر خفیہ سازشوں اور ریشہ دوانیوں میں مصروف عمل رہا۔

کوئی عہد ایسا نہیں گزرا کہ جس میں اہل باطل نے اربابش حق کے خلاف علم بغاوت بلند نہ کیا ہو ۔ مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ باطل پر پوزے نکالنے میں اقدام کرتا رہا ہے۔

عصر حاضر میں بھی ارباب رفض وزیغ تلبیسات ، تحریفات، تدلیسات اور تشکیکات میں مصروف ہیں۔

اہل باطل والحاد دین اسلام پر گامزن اہل حق کے قلوب واذہان کو شرک وبدعات اور یاس وقنوطیت کی بھول بھلیوں میں دھکیلنے کی حتی الوسع کوشش کررہے ہیں۔

باطل پرست بخوبی جانتے ہیں کہ میدانِ کار زار میں اہل اسلام کو شکست دینا اور شمع اسلام کوگھل کرنا ناممکن ہے لیکن اپنی دسیسہ کاریوں کے ذریعہ شرانگیزی کرنا آسان ہے۔

چونکہ اسلام نے یہودیت، عیسائیت اور مجوسیت پر کاری ضربیں لگائیں ہیں اس لیے یہ تینوں باطل پرست مذاہب نے اسلام اور اہل اسلام کے خلاف گٹھ جوڑ کرکے ہر محاذ پر ہرزہ سرائی کی ہے ۔ اس پر فتن دور میں ان ملحدین نے حضرات انبیاء ورسل علیہم السلام اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر فرضی فلمیں اور تصاویر بنا کر اپنے ٹی وی چینلوں اور نیٹ پر شائع کرکے خبث باطن کا اظہار کیاہے ان بد باطن، بدکردار ، بداعمال ، بد افعال اور بدنہاد گروہوںنے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ہمارے رسول محمد ﷺ اور بعض اصحاب رسول رضی اللہ عنہم کی تصاویر منظر عام پر لانے کی جسارت کی ہے۔ یہ شرانگیز اور شعبدہ باز، پیغمبر اسلام محمد ﷺ اور اصحاب محمد رضی اللہ عنہم کی سیرت وشخصیت اہل دنیا کے سامنے مسخ کرنا چاہتے ہیں حالانکہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام اور صحابہ رسول رضی اللہ عنہم کی تماثیل وتصاویر شائع کرنا یا فلم کی شکل میں منظر عام پر پیش کرنا مطلقاً حرام ہے۔

سعودی عرب میں ’’ ھیئہ کبار علماء‘‘ سعودی لجنہ دائمہ ، رابطہ عالم اسلامی کے ذیلی ادارے ’’مجمع فقہ اسلامی‘‘ اور مصر قاھرہ میں ’’ مجمع بحوث اسلامیہ‘‘ نے حضرات انبیاء کرام علیہم السلام اور صحابہ رضی اللہ عنہم کی تصاویر کشی اور فلم سازی کی حرمت کے فتاوے جاری کیے ہیں۔

اس اہم مسئلہ کی طرف راقم سے قبل مدیر ماہنامہ ’’الاحیاء‘‘ سید محمد علی صاحب نے توجہ مبذول کروائی تھی۔ عالم اسلام کے علماء کرام ومفتیانِ عظام کو اہل اقتدار اور عوام الناس کے سامنے اس اہم مسئلہ کو اجاگر کرنا چاہیے یہ نہایت ہی سنگین مسئلہ ہے اس میں تغافل شعاری اور طوطا چشمی اختیار کرنا بھیانک نتائج کا پیش خیمہ ہوسکتاہے۔ یہ بات ہر اہل ایمان جانتاہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام وہ نفوس قدسیہ ہیں جن کو اللہ وحدہ لاشریک لہ نے تمام نسل انسانیت پر فضیلت ومنقبت اور فوقیت عطا فرمائی ہے اس خطہ ارض پر حضرات انبیاء ورسل علیہم السلام سے کوئی بھی افضل و اشرف نہیں ہے۔

مولائے کریم نے اٹھارہ جلیل القدر انبیاء کرام علیہم السلام ( سیدنا ابراہیم علیہ السلام، سیدنا اسحاق علیہ السلام، یعقوب علیہ السلام، نوح علیہ السلام،داؤدعلیہ السلام، سلیمان علیہ السلام، ایوب علیہ السلام، یوسف علیہ السلام، موسی علیہ السلام، ہارون علیہ السلام، زکریا علیہ السلام، یحی علیہ السلام، عیسیٰ علیہ السلام، الیاسعلیہ السلام، اسماعیل علیہ السلام، یسع علیہ السلام، یونس  علیہ السلاماور لوط علیہ السلام ) کا ذکر خیر فرماکر یوں ارشاد فرمایا :

وَکُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعَالَمِينَ(الانعام:۸۶)

ہم نے ہر ایک کو تمام جہاں والوں پر فضیلت دی ہے۔‘‘

اس آیت کریمہ سے ظاہر ہوا کہ مالک الملک نے عالی قدر انبیاء کرام کو اس وقت کے تمام عالم پر فضیلت دی ہے۔ تمام انبیاء ورسل علیہم السلام سے افضل ختم الرسل پیغمبر محمد رسول اللہ ﷺ ہیں جیسا کہ قرآن وحدیث کی بہت ساری نصوص صحیحہ وصریحہ آپ علیہ السلام کی افضلیت پر دلالت کرتی ہیں اور یہی اہل حدیث ( اہل السنہ والجماعت) کا مسلمہ ومتفقہ عقیدہ ہے۔

اب فضیلت الٰہی کا تقاضا ہے کہ ان اولو المرتبت انبیاء ورسل علیہم السلام کا حد درجہ ادب واحترام اور عزت وتوقیر کی جائے اور ان کی تنقیص واہانت سے اجتناب کیا جائے۔

اللہ مالک ارض وسماء نے خاتم النبیین پیغمبر سیدنا محمد بن عبد اللہ القرشی کے بارے اہلِ اسلام کو ہدایت کی ہے کہ

لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَتُعَزِّرُوْہُ وَتُوَقِّرُوْہُ ۭ وَتُسَـبِّحُوْہُ بُکْرَۃً وَّاَصِيْلًا (الفتح:۹)

تاکہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائو اور اس کا (یعنی رسول کا) ساتھ دو، (مدد کرو) اس کی تعظیم و توقیر کرو اور صبح و شام اللہ کی تسبیح کرتے رہو۔

اس آیت قرآنی کا تقاضا ہے کہ محمد عربی ﷺ پر ایمان لانے کے ساتھ ساتھ ان کی نصرت وتائیداور عزت وتوقیر کی جائے اب جو بدبخت محمد رسول اللہ ﷺ کی تصویر شائع کرکے اپنے خبثِ باطن کا اظہار کرتاہے ایسا شخص بہت ہی بدکردار اور گستاخ ہے ۔

قارئین کرام! اہل رفض واربابِ کفر کے اس عمل باطل سے بہت سی قباحتیں ومفاسد لازم آتے ہیں۔ حضرات انبیاء کرام کی تصاویر اور فلمیں بنانے کے پس پردہ یہود ونصاریٰ اور ان کے کارندوں کے بہت سارے مقاصد پنہاں ہیں۔

راقم ناچیز اختصار کو ملحوظ رکھتے ہوئے چند مقاصد ومفاسد کا تذکرہ یہاں کررہا ہے تاکہ قارئین کرام اس مسئلہ کی سنگینی ملاحظہ فرمالیں اور اس کے ساتھ ساتھ اس عمل کی شرعی حیثیت سے بھی آشنا ہوجائیں۔

۱۔ شرک کا پہلو:

اہل علم حضرات بخوبی جانتے ہیں کہ قوم نوح علیہ السلام میں شرک کس طرح ظاہر ہوا۔

جب قوم نوح کے نیک طینت وصالحین افراد ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر فوت ہوگئے تو شیطان لعین نے ان کے عقیدت مندوں کو کہا کہ ان کی تصاویر وتماثیل بناکر تم اپنے گھروں میں رکھ لو تاکہ تم ان کو دیکھ کر یاد تازہ کرلیا کروگے ۔ عقیدت مندوں نے ایسا ہی کیا انہوں نے ان صالح بزرگوں کی مورتیں بنا کر اپنے گھروں میں سجا لیں۔ جب یہ تصاویر بنانے والے اس فانی دنیا سے چل بسے تو عظیم شر انگیز شیطان رجیم دوبارہ ان کی نسلوں کے پاس لبادئہ شرافت میں حاضر ہوتاہے اور آکر انہیں وعظ ونصیحت کرتاہے کہ تمہارے آباء واجداد ان بزرگوں کی پوجا پاٹ کرتےتھے تم ان کو بھول گئے ہو ۔ نئی نسل شیطان کے دام تزویر میں پھنس جاتی ہے اور ان تصاویر وتماثیل کی پوجا شروع کر دیتی ہے تو یہیں سے قوم نوح میں شرک کی ابتداء ہوجاتی ہے ۔ ( مفہوم از صحیح بخاری ، کتاب التفسیر ‘ رقم الحدیث : ۴۹۲۰)

یہود ونصاریٰ بھی اسی طرح شرک میں مبتلا ہوئے جب ان کے انبیاء کرام علیہم السلام فوت ہوئے تو انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو شرک کا اڈہ بنالیا اسی لیے پیغمبر اسلام ﷺ نے ان پر لعنت کی ہے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

 لَعَنَ اللَّہُ الْيَہُودَ وَالنَّصَارَى اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِہِمْ مَسْجِدًا(صحیح بخاری، الجنائز، رقم: ۱۳۳۰، وصحیح مسلم ، المساجد رقم : ۵۲۹)

ـــ’’ اللہ تعالیٰ نے یہود ونصاریٰ پر اس لیے لعنت کی ہے کہ انہوں نے اپنے ابنیاء کی قبروں کو عبادت گاہ بنالیا تھا۔‘‘

قوم جد الانبیاء ابراہیم علیہ السلام بھی یہی مورتیاں بنا کر ان کے سامنے سجدہ ریز تھی تو بت شکن پیغمبر جناب ابراہیم علیہ السلام نے ان سے پوچھا تھا کہ :

اِذْ قَالَ لِاَبِيْہِ وَقَوْمِہٖ مَا ہٰذِہِ التَّـمَاثِيْلُ الَّتِيْٓ اَنْتُمْ لَہَا عٰکِفُوْنَ قَالُوْا وَجَدْنَآ اٰبَاۗءَنَا لَہَا عٰبِدِيْنَ  (الانبیاء :۵۲۔۵۳)

’’ جب انہوں نے اپنے باپ اور اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ یہ کیا مورتیں ہیں جن (کی پرستش) پر تم معتکف (وقائم ہو)؟ وہ کہنے لگے کہ ہم اپنے باپ دادا کو ان کی پرستش کرتے دیکھا ہے۔‘‘

عہد دوراں کے مفسر قرآن حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:

’’تماثیل، تمثال کی جمع ہے یہ اصل میں کسی چیز کی ہوبہو نقل کو کہتے ہیں ، جیسے پتھر کا مجسمہ یا کاغذ اور دیوار وغیرہ پر کسی کی تصویر، یہاں سے مراد وہ مورتیاں ہیں جو قوم ابراہیم علیہ السلام نے اپنے معبودوں کی بنا رکھی تھیں اور جن کی وہ عبادت کرتے تھے۔ عَاکِفٌ ، عُکُوفٌ سے اسم فاعل کا صیغہ ہے جس کے معنی کسی چیز کو لازم پکڑنے اور اس پر جاگ کر جسم کو بیٹھا رہنے کے ہیں اسی سے اعتکاف ہے، جس میں انسان اللہ کی عبادت کے لئے جسم کو بٹھاتااور یکسوئی اور انہماک سے اس کی طرف لولگاتاہے یہاں (آیت) سے مراد بتوں کی تعظیم و عبادت اور ان کے تھانوں پر مجاور بن کر بیٹھنا ہے یہ تمثالیں اور مورتیاں اور تصویریں) قبر پرستوں اور پیر پرستوں میں بھی آج کل عام ہیں اور ان کو بڑے اہتمام سے گھروں اور دکانوں میں بطور تبرک آویزاں کیا جاتاہے۔ اللہ انہیں سمجھ عطا فرمائے۔ (تفسیر احسن البیان ، ص۸۹۵۔۸۹۶)

یہ تو حقیقت ہے کہ آج کل کے جاہل گور پرست اپنے مزعومہ بزرگوں کی تصاویر اپنے گھروں ، دکانوں کی دیواروں پر آویزاں کرتے ہیں اور مشکل کے وقت ان کے سامنے ہاتھ جوڑ کر فریادیں کرتے ہیں۔ ایسے شرک کے شرمناک مناظر ہمارے معاشرے میں عام ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے تو اپنے داماد سیدناعلی مرتضی رضی اللہ عنہ کو تماثیل وتصاویر کو مسمار کرنے کا مشن سونپا تھا۔ اسی مشن کو حیدر کرار نے جاری رکھا جیسا کہ ابو الھیاج اسدی رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ مجھے سیدنا علی مرتضی رضی اللہ عنہ نے ایک مشن سونپا اور فرمایا :

أَلَّا أَبْعَثُکَ عَلٰى مَا بَعَثَنِى عَلَيْہِ رَسُولُ اللہ -صلى اللہ عليہ وسلم- أَنْ لاَ تَدَعَ تِمْثَالاً إِلاَّ طَمَسْتَہُ وَلاَ قَبْرًا مُشْرِفًا إِلاَّ سَوَّيْتَہُ (صحیح مسلم ، الجنائز، رقم الحدیث : ۹۶۹)

’’ کیا میں آپ کو اس مہم پہ نہ بھیجوں جس پر مجھے رسول اللہ ﷺ نے بھیجا تھا آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ جس مورتی (تصویر) کو دیکھوں اسے مٹا دوں اور جس بلند قبر کو دیکھوں اسے زمین کے برابر کردوں۔‘‘

آج ابن سبا کے گروہ نے خلیفہ رابع سیدنا علی رضی اللہ عنہ پر فلم بنائی ہے اور اسے اپنے چینل ’’الکوثر‘‘ پر جاری کیاہے۔ یہ ملحد گروہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو الوہیت کے درجہ پر فائز کرتاہے۔ وہ سیدناعلی رضی اللہ عنہ جو بت شکن بن کر اہل کفر کے بتوں کو پاش پاش کرنے والا، وہ سیدناعلی رضی اللہ عنہ جو مشرکین کی مورتیاں وتصاویر مسمار کرنے والا، وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ جو کفر کے ایوانوں میں علم توحید بلند کرنے والا، وہ علی رضی اللہ عنہ جو درس توحید کا بول بالا کرنے والا اور کفر وشرک کا استیصال کرنے والا۔

قارئین کرام کو معلوم ہونا چاہیے کہ عبد اللہ بن سبا یہودی النسل کی اولاد اپنے قائد ورہبر کی پیروی کرتی ہے کیونکہ ابن سبا یہودی وہ بدبخت شخص تھا کہ جس نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی ربوبیت کا دعویٰ کیا تھا جیسا کہ فریق مخالف کی معتبر کتاب میںمذکور ہے۔ ’’امام ابو عبد اللہ (جعفر بن محمد الصادق) رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا : عبد اللہ بن سبا پر اللہ لعنت کرے کہ اس نے امیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ کے بارے ربوبیت(رب ہونے) کا دعویٰ کیا ہے۔اللہ کی قسم! امیر المؤمنین رضی اللہ عنہ تو اللہ کے اطاعت شعار بندے تھے ، تباہی ہے اس کے لیے جو ہم پر جھوٹ بولتاہے بے شک ایک قوم ہمارے بارے میں ایسی باتیں کرے گی جو ہم اپنے بارے میں نہیں کرتے ، ہم ان سے بری ہیں ہم ان سے بری ہیں۔ (ملاحظہ فرمائیں: رجال کشی ص:۱۰۷ ، روایت نمبر :۱۷۲ )

تو آج ابن سبا کا ٹولہ ابن سبا کی پیروی کرتے ہوئے مشرکانہ نظریات وکفر یہ عقائد کا کھلے عام پر چار کرتا ہوا نظر آتاہے۔

یہود ونصاریٰ پہلے ہی شرک میں مبتلا تھے۔ ابن سبا جب اسلام کا لبادہ اوڑھ کر الوہیت علی رضی اللہ عنہ کا پرچار کرنے لگا تو اس سے ایک نئے فرقے نے جنم لیا جس کے پیروکار آج بھی ’’ یا علی مدد‘‘ کے نعرے بلند کرتے ہوئے نہیں تھکتے۔ آج یہ فرق باطلہ

ہم تو ڈوبے ہیںصنم تمہیں بھی لے ڈوبیں گے

کے مصداق اہل بدعت وخرافات اور ضعیف الاعتقاد مسلمانوں میں ایک نیا شرک کا محاذ کھولنے جارہے ہیں۔

نام نہاد مسلمان پہلے ہی اپنے صوفیاء کی تصاویر گھروں میں سجا کر ان کی تعظیم وتکریم کرتے ہیں ان تصاویر کو اپنے اور اللہ وحدہ لاشریک کے درمیان شفاعت کنندہ خیال کرتے ہیں۔

اب اگر ان کے پاس سیدنا محمد ﷺ کی فرضی تصاویر آگئی تو یہ اس کی پوجا شروع کر دیں گے جن کا عقیدہ یہ ہے کہ محمد ﷺ اللہ تعالیٰ کی شکل میں آسمان سے اترے ہیں۔ العیاذ باللہ

اس تصویر سے قوی اندیشہ ہے کہ خرافی وبدعتی حضرات شرک اکبر میں ملوث ہوجائیں گے جو پہلے ہی شرک میں ڈبوئے ہوئے ہیں تو اس لیے ارباب حق وصداقت پر واجب ہے کہ اس طرف توجہ کریں اور تحریر وتقریر کے ذریعہ اس فساد کا سد باب سوچیں۔

۲۔تنقیص واہانت کا پہلو:

انبیاء کرام علیہم السلام وصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تصاویر وفلموں سے تنقیص واہانت کا پہلو بھی اجاگر ہوتاہے وہ اس طرح جب ادا کار اپنے فرضی نام ان پاک باز نفوس کے ناموں پر رکھیں گے اور مد مقابل ان ناموں کو پکار کر استہزاء کا ارتکاب کرے گا تو اس سے انبیاء کرام علیہم السلام کی توہین وتنقیص لازم آئے گی جوکہ قطعی طور پر حرام ہے۔ ان فرض وجعلی فلموں میں ایسا ہی ہورہا ہے۔ ہمارے پیغمبر محمد رسول اللہ ﷺ کی تصویر شائع کرکے ان باطل پرستوں نے نبی کریم ﷺ کی شان میں گستاخی کا ارتکاب کیا ہے ایسے بد باطن جنہوں نے محمد مصطفی ﷺ کی تصویر بناکر تنقیص واہانت کا ارتکاب کیا ہے ان کے لیے رسوا کن عذاب ہے اور دنیا وآخرت میں لعنت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : 

اِنَّ الَّذِيْنَ يُؤْذُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ لَعَنَہُمُ اللّٰہُ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃِ وَاَعَدَّ لَہُمْ عَذَابًا مُّہِيْنًا

جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو اذیّت دیتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ نے لعنت فرمائی ہے اور ان کے لیے رُسوا کن عذاب مہیا کر دیا ہے۔(الاحزاب:۵۷)

اسی طرح یہ عمل باطل عصمت انبیاءورسل علیہم السلام کے بھی خلاف ہے کیونکہ جب کسی غیر نبی ورسول کو تاج نبوت پہنایا جائے گا چاہے حقیقی طورپر ہو یا فلمی وڈرامائی صورت میں ہر دو صورتوں میں حرام ہے۔ اللہ تعالیٰ حکیم ہے وہ جسے چاہتاہے تاج نبوت سے نوازتاہے ارشاد گرامی ہے : 

اَللّٰہُ اَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ (الانعام:۱۲۴)

اللہ تعالیٰ ہی خوب جانتاہے کہ کہاں وہ اپنی رسالت رکھے۔‘‘

اللہ احکم الحاکمین نے گذشتہ انبیاء کرام علیہم السلام کو رسالت ونبوت ایسی خلعت فاخرہ سے نوازا اور سب سے آخر میں ہمارے نبی محمد بن عبد اللہ ﷺ کو مبعوث فرماکر سلسلہ نبوت منقطع کردیا اب جو حقیقی طور پریا ڈرامائی انداز میں نبوت ورسالت ایسے منصب جلیل کا دعوی کرتاہے ایسا شخص کذاب ودجال ہے اور انبیاء ورسل علیہم السلام کی توہین واہانت کا مظاہرہ کررہا ہے ۔

۳۔ خلاف شرع امور کا ارتکاب :

ان فلموں میں یہ بھی انتہائی روح فرسا اور جگر سوز پہلو نظر آتاہے کہ فرضی وجعلی نبی پردئہ سکرین پر خلاف شرع امور کرتے ہوئے دکھائی دیتاہے جن کو صفحات قرطاس پر رقم کرنے سے شرم وحیا مانع ہے ایسے امور کا تصور ایک نبی مرسل سے کرنا بہت بعید ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے تمام انبیاء ورسل معصوم تھے ان سے خلاف شرع امور کا صدور نا ممکن تھا۔ اب جو فرضی نبی ورسول کو پردئہ سکرین پہ ناظرین ومشاہدین ملاحظہ کریں گے تو وہ حقیقی نبی ورسول کے بارے غلط نظریہ قائم کرلیں گے۔ استغفر اللہ

یہ بھی حقیقت ہے کہ اداکاروں وفنکاروں کے احوال وتصرفات حضرات انبیاء ورسل علیہم السلام کے احوال وواقعات سے بالکل مختلف ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے انبیاء ورسل علیہم السلام کردار وگفتار ، اخلاق وعادات، سیرت وصورت، امانت ودیانت، حق وصداقت، حلم وکرم ایسی بے مثل خوبیوں سے متصف تھے جس کی شہادت پر صحف آسمانی شاہد ہیں ۔ خود قرآن مقدس نے پیغمبر امن وسلامتی محمد رسول اللہ ﷺ کے بارے کہا ہے :

وَاِنَّکَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ (القلم:۴)

’’اور تمہارے اخلاق بہت (عالی) ہیں۔‘‘

باقی انبیاء کرام علیہم السلام بھی صدق لسان وحسنِ مثال کے اعلیٰ مرتبہ پر فائز تھے۔

یہ رتبہ بلند ملا جسے مل گیا

جبکہ اس فرض وجعلی نبی کا ماضی وحال داغدار ہوتاہے۔ مسلم معاشرے میں ان اداکاروں کو فحاشی وعریانی اور بے حیائی وبدکاری کی علامت سمجھا جاتاہے۔ یہ حضرات بے ہودگی ، لغویات اور شراب وشباب کے رسیا ہوتے ہیں ان کے ماہ وسال اور لیل ونہار خلاف شرع امور میں گزرتے ہیں جب اس قماش کے مرد وخواتین، عالی قدر انبیاء وازواجات ِ انبیاء اور عزت مآب صحابہ کرام وعفت مآب صحابیات رضی اللہ عنہن کاروپ دھارکر ناظرین کے سامنے آئیں گے تو اس سے معاشرے میں غلط تأثر پھیلے گا۔ العیاذ باللہ

۴۔ تشکیکات وتلبیسات کا پہلو :

ان فلموں کے مفاسد ونقصان دہ پہلوؤں میں سے ایک پہلو یہ بھی ہے کہ انبیاء ورسل کی تماثیل وتصاویر سے شکوک وشبہات کا دروازہ کھلتاہوا نظر آتاہے۔ ان فلموں میں ایسے ایسے واقعات وحوادث انبیاء کرام ورسل کی طرف منسوب کر دیئے گئے ہیں جن کا دور سے بھی ان سے تعلق نہیں ہے اس سے ناظرین حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے بارے شکوک وشبہات میں مبتلا ہوجائیں گے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن مقدس میں سابقہ رسولوں کے حوالہ سے فرمایا ہے :

وَرُسُلًا قَدْ قَصَصْنٰہُمْ عَلَيْکَ مِنْ قَبْلُ وَرُسُلًا لَّمْ نَقْصُصْہُمْ عَلَيْکَ  (النساء : ۱۶۴)

ہم نے ان رسولوں پر بھی وحی نازل کی جن کا ذکر ہم اس سے پہلے تم سے کر چکے ہیں اور ان رسولوں پر بھی جن کا ذکر تم سے نہیں کیا ۔

اللہ تعالیٰ نے جن انبیاء کرام کے واقعات واحوال زیست قرآن مقدس میں اختصار کے ساتھ بیان کیے ہیں ان کی تعداد ۲۵ ہے ۔ ان انبیاء ورسل علیہم السلام کے احوال بیان کرنے کے مقاصد میں ایک مقصد تو نبی محترم ﷺ کو تسلی دینا اور دوسرا ان کا مقصد ارباب عقل ودانش کے لیے عبرت ونصیحت کا سماں ہے جیسا کہ فرمان ربانی ہے :

لَقَدْ کَانَ فِيْ قَصَصِہِمْ عِبْرَۃٌ لِّاُولِي الْاَلْبَابِ 

اگلے لوگوں کے ان قصوں میں عقل و ہوش رکھنے والوں کے لیے عبرت ہے۔ (یوسف:۱۱۱)

اب ان انبیاء ورسل علیہم السلام کے واقعات کا مقصد اصلاح احوال تھا تاکہ مخاطبین اپنی اصلاح وتربیت کرلیں۔ محمد رسول اللہ ﷺ کی سیرت کے سوا باقی انبیاء  کرام علیہم السلام کی سیرت وواقعات مکمل طور پر محفوظ نہیں ۔ قرآن مقدس نے جتنا ان انبیاء کرام کے بارے میں ہمیں آگاہ کیا ہے یا احادیث نبویہ میں ان کے احوال نبی کریم ﷺ نے ہمیں بتائے ہیں ان پر ہمارا مکمل یقین ہے ۔ باقی تاریخی کتب یا اسرائیلی روایات ہیں جن انبیاء ورسل کے تذکر ے موجود ہیں ان کے بارے میں ہم بالجزم صحت کا حکم نہیں لگا سکتے ، اس حقیقت کے باوجود حضرات انبیاء ورسل علیہم السلام پر جو فلمیں منظر عام پر پیش کی جارہی ہیں ان میں اکثرواغلب واقعات خودساختہ ہیں ۔ یہ واقعات واحوال حضرات انبیاء کرام کی اصل زندگی کے بارے شکوک وشبہات پیدا کرنے والے ہیں لہذا ایسے رطب ویابس اور غث وسمین سے لبریز واقعات واحوال کو انبیاء ورسل علیہم السلام کی طرف منسوب کرنا حرام ہے۔ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے :

مَنْ کَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّداً فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ ( صحیح البخاری ، کتاب الجنائز ، رقم الحدیث : ۱۲۹۱)

’’جس نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ باندھا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنالے۔‘‘

لہذا ایسی فلمیں بنانے والے بہت بڑے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں انہیں اپنی آخرت کی فکر کرنی چاہیے۔

۵۔ مسلمہ عقائد میں دسیسہ کاری :

ایسی فلمیں جو یہود ونصاریٰ اور ان کے گماشتوں نے بنائی ہیں ان میں انہوں نے ایسے عقائد باطلہ داخل کر دیئے ہیں جن کی قرآن وسنت نے تردید کی ہے ۔

مثلاً سیدنا عیسیٰ علیہ السلام پر جو فلم بنائی گئی ہے اس میں سولی پر چڑھنے کا اثبات سراسر قرآن وسنت کے مخالف ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :

وَمَا قَتَلُوْہُ وَمَا صَلَبُوْہُ وَلٰکِنْ شُبِّہَ لَہُمْ ۭ (النسائ:۱۵۷)

حالانکہ فی الواقع انہوں نے نہ اس کو قتل کیا نہ صلیب پر چڑھایا بلکہ معاملہ ان کے لیے مشتبہ کر دیا گیا ۔

اس آیت کریمہ سے صاف ظاہر ہے کہ یہودی سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے یا سولی پہ چڑھانے میں کامیاب نہیں ہوسکے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے آسمان کی طرف اٹھا لیا تھا قرب قیامت سیدنا عیسی علیہ السلام کا نزول ہوگا ۔ جیسا کہ نصوص صحیحہ سے ثابت ہے اس عقیدہ کے برعکس ان فلموں میں ان حضرات نے اپنے باطل عقیدے کا اظہار کیا ہے ۔ اسی طرح جو فلمیں سیدنا علی مرتضی اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہما پر سبائی گروہ نے بنائی ہیں ان فلموں میں ان ملحدین نے اپنے کفریہ عقائد وباطل نظریات کی بھر مار کی ہے انہوں نے واقعہ کربلا افسانوی شکل میں پیش کرکے اس میں مبالغہ آرائی اور رنگ آمیزی سے کام لیا ہے اور اصل حقائق طاقِ نسیاں بنا دیا ہے اپنی فلموں کو دیکھ کر جاہل حضرات ان کے ہمدرد بن رہے ہیں۔

ان کفریہ عقائد کی نشر واشاعت کے خلاف ارباب حق وصداقت خاموش کیوں ہیں

اسی طرح اصحاب محمد ﷺ پر فلمیں تیار کی گئی ہیں ان میں ایسے ایسے وقائع وحوادث کا بیان ہے جن کا حقیقت سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔ ان سے حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی توہین وتنقیص ظاہر ہوتی ہے اس قدسی جماعت کے خلاف یہ کس قدر اہل الحاد کی جسارت ہے جو میڈیا پر دکھائی جارہی ہے۔ یہاں ارباب علم وفضل واہل حق ووفا کی اقلام ساکن اور زبانیں ساکت کیوں ہیں ?

ان مفاسد ونقائص کے علاوہ اعداء اسلام کی یہ بھی سازش ہے کہ مسلمان قرآن وسنت سے دور ہو جائیں ۔ ان کا قرآن سے دلی تعلق ختم ہوجائے یہ حقیقت ہے کہ جب ایک شخص قرآن چھوڑ کر ٹیلی ویزن ، سی ڈیز، سینما اور نیٹ کا رخ کرے گا تو وہ لا محالہ قرآن سے دور ہوجائے گا وہ صرف فلموں کو دیکھنا ہی ثواب سمجھ لے گا اس طرح مسلم معاشرے میں بد عملی پیدا ہو جائے گی ان مفاسد کے علاوہ اور بھی مفاسد ہیں جو فلموں میں نمایاں ہیں یہ یہود ونصاریٰ اور مجوسی النسل قوم کی کارستانی ہے جس کا واحد مقصد سیرت وشخصیتِ انبیاء ورسل علیہم السلام وصحابہ کرام رضی اللہ عنہم مسخ کرنا ہے۔

ان مذکورہ بالا مفاسد سے ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ شرعی طور پر انبیاء کرام علیہم السلام اور صحابہ رسول رضی اللہ عنہم کی فلمیں وتصاویر بنانا حرام ہیں ۔ جو اس عمل میں ملوث ہیں وہ سخت مجرم ہیں۔

فلموں کے اثبات میں بعض مبطلین کے دلائل اور ا ن کا جائزہ :

بعض اہل باطل والحاد اور ارباب رفض وکفر ان فلموں کے حق میں یہ دعویٰ پیش کرتے ہیں کہ جناب انبیاء ورسل علیہم السلام وصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی فلموں وتصاویر سے ان کا تعارف کروانا مقصود ہے تاکہ عام آدمی آسانی سے پیغمبروں کے بارے میںمعلومات حاصل کرلے ۔

یہ دعویٰ سراسر باطل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرات انبیاء ورسل علیہم السلام کے واقعات وقصص بیان فرماکر ان کا تعارف کروا دیا ہے جو کافی وشافی ہے کسی ملحد ومبطل کے تعارف کروانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ فرمان الٰہی ہے :

نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْکَ اَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَآ اَوْحَيْنَآ اِلَيْکَ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ  ( یوسف:۳)

 (اے پیغمبر ﷺ) ہم اس قرآن کے ذریعے سے جو ہم نے تمہاری طرف بھیجا ہے تمہیں ایک نہایت اچھا قصہ سناتے ہیں۔

جب اللہ تعالیٰ نے حضرات رسل علیہم السلام کے واقعات بیان کردیئے ہیں تو کیا اللہ تعالیٰ کا بیان کرنا کافی نہیں ہے کیا اس سے تعارف انبیاء ممکن نہیں ہے ۔ یہ بھی یاد رہے کہ قرآن مقدس میں اللہ تعالیٰ نے انبیاء ورسل علیہم السلام کے قصص بطور عبرت ونصیحت کے بیان کیے ہیں جیسا کہ سورۃ یوسف میں واضح ہے ۔ (دیکھیں سورۃ یوسف : ۱۱۱)

اس کے برعکس فلمیں بنانے کا مقصد گذشتہ صفحات میں واضح کیا گیاہے کہ اس سے معاشرے میں برے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور فلمیں دیکھنے والے نفس کی تسکین اور وقت پاس کرنے کے لیے فلمیں دیکھتے ہیں ان کا مقصد اصلاح نفس وتزکیہ قلوب ہرگز نہیں ہوتا محض وقت گزاری مطلوب ہوتی ہے لہذا دعویٰ بلا دلیل باطل ومردود ہے۔

اسی طرح اہل زیغ وارباب ھویٰ ان فلموں کے بارے میں یہ دلیل بھی پیش کرتے ہیں کہ انبیاء کرام اور صحابہ عظام کی فلموں میں دعوتی وتبلیغی مصلحت پنہاں ہے۔ ان فلموں کو دیکھنے سے ناظرین میں مکارم اخلاق اور اچھی اچھی صفات پیدا ہوتی ہیں۔

یہ نہایت بودی دلیل ہے ’’ کمثل العنکبوت‘‘ ہونے کے باعث مردود ومطرود ہے صورت حال یکساں برعکس ہے اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ جو حضرات اس قسم کی فلمیں دیکھتے ہیں وہ تغافل شعاری کا شکار ہیں۔ دین اسلام سے کوسوں دور ہیں نماز اور دیگر ارکان اسلام کے قریب تک نہیں جاتے ان کے شب وروز اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں گزرتے ہیں ۔

بفرض محال اگر ان فلموں میں مصلحت ہے تو یہ مصلحت غیر معتبر ہے کیونکہ جن مفاسد کا گذشتہ صفحات میں ذکر ہوا ہے ان کی موجودگی میں ان فلموں کی وقتی اورتھوڑی بہت مصلحت کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ کیونکہ ایک مسلمہ فقہی قاعدہ ہے ۔

أن درء المفاسد مقدم علی جلب المصالح

’’یقینا مصالح وفوائد کے حصول کے مقابلے مفاسد کو دور کرنا زیادہ ضروری ہے ‘‘

جب یہ بات مقرر ہوچکی ہے کہ ان فلموں کے مزعومہ فوائد ومصالح کے مقابلہ میں ان کے منفی پہلو زیادہ خطرناک اور ہلاکت خیز ہیں تو پھر ان کے حرام ہونے میں کوئی شک باقی نہیں ہے لہذا اہل زیغ کے قیل وقال کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

یہ بھی یا د رہے کہ دین اسلام کی نشر واشاعت غیر مشروع ذرائع ووسائل پر متوقف نہیں ہے ۔ ذرائع ابلاغ انبیاء کرام وصحابہ رسول کی سیرت وکردار بغیر تماثیل وتصاویر کے بھی نشر کرسکتے ہیں۔

قرآن مقدس اور احادیث صحیحہ میں اللہ عزوجل کے پیغمبروں علیہم السلام اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے وارد شدہ احوال زیست میڈیا کے ذریعہ بغیر فرضی تماثیل وتصاویر بیان کیے جاسکتے ہیں۔ اس میں کوئی قباحت نہیں ہے اگر کوئی مخلص ہوکر حضرات انبیاء ورسل علیہم السلام اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سیرت وشخصیت اور ان کی دعوتی وتبلیغی مساعی جمیلہ قرآن وسنت کے دائرہ میں رہ کر اجاگر کرنا چاہے تو اس کے لیے میدان کھلا ہے۔ سعودی عرب اور دیگر اسلامی ممالک میں صحیح العقیدہ علماء کرام قرآن وحدیث کی دعوت حقہ میڈیا کے ذریعہ اطراف عالم میں الحمد للہ پہنچا رہے  ہیں ۔ انڈیا میں پیس ( Peace) ٹی وی کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اس کے ذریعہ دنیا کے چپہ چپہ پر دعوت قرآن وحدیث پھیل رہی ہے۔ الحمد للہ پاکستان میں ہماری جماعت مرکزی جمعیت اہل حدیث نے ’’ پیغام ‘‘ چینل کا آغاز کیاہے ۔ جس میں پاکستان بھر کے سلفی علماء کرام دعوتِ توحید وسنت کا پرچار کررہے ہیں۔ عصر حاضر میں میڈیا کے ذریعہ اہل بدعت اور ارباب الحاد نے بدعات وخرافات اور الحاد وبے روی کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ اصحاب فکر ونظر اور دانشور حضرات جانتے ہیں کہ مبتدعین، مبطلین اور ملحدین ٹی وی چینلوں کے ذریعہ عوام کالانعام کو کس طرح گمراہ کر رہے ہیں ، تو وقت کا اہم تقاضا تھا کہ ان کے کفر یہ وشرکیہ اعمال ونظریات کی تردید کی جائے اور قرآن وحدیث کی سچی تعلیمات اور سلف صالحین کے صحیح منہج کو اجاگر کرنے کے لیے ایک اسلامی چینل بنایا جائے۔ الحمد للہ ’’پیغام‘‘ نے وہ ضرورت پوری کر دی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ اصحاب حق وصداقت کو معاشرے میں منتشر کفریہ عقائد وملحدانہ نظریات کی تردید اور قرآن وحدیث کی سچی تعلیمات عام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

آخر میں ناچیز اہل حق علماء کرام کی خدمت میں عرض کرنا چاہے گا کہ وہ تقریر وتحریر کے ذریعہ انبیاء کرام علیہم السلام اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر بنی فلموں اور تصاویر کی تردید کریں تاکہ احقاق حق اور ابطال باطل کا فریضہ ادا ہوسکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے