الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سیّد الانبیائ والمرسلین ، امّا بعد، قال اللہ تعالیٰ و ما اٰتاکم الرسول فخذوہ و ما نھاکم عنہ فانتھوا (الحشر آیت ۷)

اللہ تعالیٰ کا انسان پر بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے انسان کو پیدا کرنے کے بعد اس کی ہدایت و راہنمائی کے لئے وقتاً فوقتاً اپنے پیغمبر اور رسل بھیجے تاکہ وہ صراطِ مستقیم کی طرف اس کی راہنمائی کر سکیں۔

جو شخص بھی انبیاء کرام ورسل عظام کی اتباع کرے گا تو وہ جنت کا وارث بنے گا ، بصورتِ دیگر قیامت والے دن اس کا محاسبہ ہوگا۔ قرآنِ مقدس میں اللہ تعالیٰ نے رسولوں کی بعثت کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ :

وما ارسلنا من رسول الا لیطاع باذن اللہ (النسائ آیت ۶۴)

ترجمہ: ہم نے رسولوں کو اسی لئے بھیجا کہ اللہ کے حکم کے مطابق ان کی اطاعت کی جائے، لیکن ہر رسول کی رسالت اور ہر نبی کی نبوت ایک خاص اور محدود وقت تک کے لئے تھی، جبکہ ہمارے نبی کی نبوت و رسالت دائمی ہے،کیونکہ ان پر انبیائے کرام کی بعثت کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے، اب تمام انسانوں کی دنیاوی اور اخروی کامیابی کا دار و مدارسیدنا محمد کی اتباع پر ہے جبکہ ان کی مخالفت کرنا سراسر گھاٹے اور خسارے کا سودا ہے۔

سیدنا محمد کی اتباع قرآن و حدیث کی روشنی میں :

فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ يَرْجُوا اللّٰہَ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَکَرَ اللّٰہَ کَثِيْرًا   (الاحزاب:۲۱)

(مسلمانو!) تمہارے لیے اللہ کے رسول (کی ذات) میں بہترین نمونہ ہے، جو بھی اللہ اور یوم آخرت کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بکثرت یاد کرتا ہو۔

نمونہ اس چیز کو کہا جاتا ہے جس کو اپنے سامنے رکھ کر اس کے سانچے میں دوسری چیز کو ڈھالا جائے، تو رسول اللہ کے نمونہ ہونے کا مطلب یہ ہوا کہ رسول اللہ کی حیات مبارکہ کو اپنے سامنے رکھ کر اس کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالا جائے اور ہر معاملے میں ان کی فرمانبرداری کی جائے۔

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰہَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْکُمْ ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْہُ اِلَى اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ ذٰلِکَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا    ؀( النساء۵۹)

’’اے ایمان والو! اللہ کی اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور ان حاکموں کی بھی جو تم میں سے ہوں۔ پھر اگر کسی بات پر تمہارے درمیان جھگڑا پیدا ہوجائے تو اگر تم اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو تو اس معاملہ کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف پھیر دو۔یہی طریق کار بہتر اور انجام کے لحاظ سے اچھا ہے۔‘‘

اطاعتِ رسول کی اہمیت اور اس کی فضیلت کا اندازہ اسی بات سے ہی ہوجاتا ہے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کی اطاعت کو در حقیقت اپنی اطاعت قرار دیا ہے۔

من یطع الرسول فقد اطاع اللہ، (النسائ۸۰)

’’جس نے رسول کی اطاعت کی، تو در حقیقت اس نے اللہ کی اطاعت کی۔‘‘

ایک مقام پر اللہ تعالیٰ نے اپنی اور اپنے پیغمبر کی اطاعت کرنے والوں کی جزا کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ

وَمَنْ يُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰۗىِٕکَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَيْہِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّہَدَاۗءِ وَالصّٰلِحِيْنَ ۚ وَحَسُنَ اُولٰۗىِٕکَ رَفِيْقًا    (النسائ:۶۹)

اور جو شخص اللہ اور رسول کی اطاعت کرتا ہے تو ایسے لوگ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا ہے یعنی انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ اور رفیق ہونے کے لحاظ سے یہ لوگ کتنے اچھے ہیں۔‘‘

رسول اللہ کی اطاعت اللہ کی محبت اور جنت حاصل کرنے کا نسخہ:

باری تعالیٰ نے قرآن مقدس میں اپنی محبت کو اپنے رسول محمد کی اتباع و فرمانبرداری کے ساتھ مشروط کردیا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَيَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ ۭوَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ  

آپ کہہ دیجئے: کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو۔ اللہ خود تم سے محبت کرنے لگے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔‘‘(اٰل عمران:۳۱)

لہٰذا جو شخص بھی اللہ کے نبی کی اطاعت کرے گا تو اس کو اللہ کی محبت تو حاصل ہو ہی جائے گی، اس کے ساتھ ساتھ دوسرا انعام بھی مل جائے گا اور وہ ہے گناہوں سے بخشش، جیسا کہ مذکورہ آیت میں ہے۔

 اور رسول اللہ کا فرمان ہے کہ :

کل امتی یدخلون الجنۃ، الا من ابیٰ، فقیل ومن یابیٰ یا رسول اللہ؟ قال من اطاعنی دخل الجنۃ ومن عصانی فقد ابیٰ(صحیح البخاری)

’’میری پوری امت جنت میں ہوگی سوائے جس شخص نے انکار کیا ، پس کہا گیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ بلا کون شخص جنت میں جانے سے انکار کرسکتاہے ۔ فرمایا : جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوگیا اور جس نے میری نافرمانی کی گویا اس نے (جنت میں جانے سے ) انکار کردیا۔‘‘

اس حدیث میں نبی کریم نے جنت جانے والوں کی پہچان بتلائی ہے کہ جنت میں صرف وہی شخص داخل ہوسکے گا جو رسول اللہ  کا تابع اور فرمانبردار ہوا، رسول اللہ کی اطاعت کئے بغیر جنت کی امید رکھنا بالکل ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص اپنے سامنے پانی کا گلاس رکھے اور پھر خواہش کرے کہ یہ گلاس خود بخود ہی اس کے منہ تک آجائے، جس طرح یہ کام محال اور ناممکن ہے بالکل اسی طرح نبی کریم کی اتباع کئے بغیر جنت کا حصول ناممکن ہے۔

سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ نیند کی حالت میں تھے، کہ آپ کے پاس چند فرشتے حاضر ہوئے، اور آکر کہنے لگے کہ محمد کیلئے کوئی مثال بیان کرو، (یعنی مثال کے ذریعے ان کی اہمیت اور حقیقت کو بیان کرو) ایک فرشتے نے کہا یہ تو سوئے ہوئے ہیں۔ تو ایک فرشتے نے جواب دیا کہ ان کی آنکھیں  اگرچہ بند ہیں لیکن دل بیدار ہے۔ پھر انہوں نے مثال بیان کی کہ ان کی مثال ایسے ہے جیسے ایک شخص نے ایک گھر بنایا اور اس میں انواع و اقسام کے کھانوں کا دسترخوان چُن دیا گیا۔ پھر اس نے ایک آدمی کو بھیجا کہ وہ لوگوں کو اس گھر کی طرف دعوت دے، اب جو شخص بھی اس دعوت دینے والے کی پکار پر لبیک کہے گا، تو وہ اس گھر میں داخل ہوگا اور دسترخوان سے کھا بھی سکے گا۔ لیکن جو اس کی بات نہ مانے گا وہ نہ ہی اس گھر میں داخل ہوگا اور نہ ہی دسترخوان سے کچھ کھاپی سکے گا۔ پھر ان فرشتوں نے اس مثال کی تعبیر یوں بیان کی کہ اس گھر سے مراد جنت ہے اور اس گھر کی طرف دعوت دینے والے محمد ہیں۔ لہٰذا جس نے ان کی طاعت کی، تو گویا اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے  ان کی نافرمانی کی تو در حقیقت اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔(صحیح بخاری)

رسول اکرم کے طریقے کے برعکس کوئی عمل قبول نہیں:

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰہَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَلَا تُبْطِلُوْٓا اَعْمَالَکُمْ   (محمد :۳۳)

اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو ضائع نہ کر لو۔‘‘

درج بالا آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے جہاں اپنی اطاعت کا حکم دیا ہے وہاں اپنے پیغمبر کی اتباع اور فرمانبرداری کا حکم بھی دیا اور ساتھ ہی فرمایا کہ اپنے اعمال کو باطل نہ کرو، اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ  اور اس کے رسول کی اطاعت نہ کرنا ، اپنے اعمال کو باطل کرلینا ہے۔

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں تین آدمی آپ کی عبادت کا حال پوچھنے آئے، جب ان سے بیان کیا گیا تو انہوں نے اپنی عبادت بہت کم خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کی برابری کس طرح کرسکتے ہیں، آپ کے تو اگلے پچھلے گناہ سب معاف ہوگئے ہیں، ایک نے کہا میں رات بھر نماز پڑھا کروں گا، دوسرے نے کہا میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا، تیسرے نے کہا میں نکاح نہیں کروں گا اور عورت سے ہمیشہ الگ رہوں گا، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کیا تم لوگوں نے یوں یوں کہا ہے؟ اللہ کی قسم! میں اللہ تعالیٰ سے تمہاری بہ نسبت بہت زیادہ ڈرنے والا اور خوف کھانے والا ہوں، میں روزہ رکھتا ہوں، اور افطار بھی کرتا ہوں، نماز پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں، اور ساتھ ساتھ عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں، یاد رکھو

فمن رغب عن سنتي فليس مني

جو میری سنت سے روگردانی کرے گا، وہ میرے طریقے پر نہیں۔(بخاری، کتاب النکاح)

یہ حدیث واضح دلیل ہے کہ نیک عمل بھی وہی مقبول ہوگا جو نبی کرم کے طریقے کے مطابق اور آپ سے ثابت شدہ ہو، اپنی طرف سے کوئی بھی عمل مشروع کرکے اسے ثواب کا باعث قرار دینا، فی الحقیقت سنت رسول سے اعراض کے زمرے میں آتا ہے جیسا کہ ربیع الاول کے مہینے میں میلاد کی محفلیں قائم کی جاتی ہیں اور کہاجاتا ہے کہ یہ ثواب کا کام اور رسول اللہ سے محبت کا ثبوت ہے۔

جس طرح نبی کریم نے مذکورہ حدیث میں تین آدمیوں کے عمل کو رد کردیا تھا کیونکہ ان کا یہ عمل رسول اکرم  کے طریقہ سے مطابقت نہیں رکھتا تھا، حالانکہ نماز پڑھنا، روزہ رکھنا اور عبادت میں ہی مگن رہنا بظاہر خود نیک عمل ہے لیکن نبی کریم کے طریقہ کار کے موافق نہ ہونے کی وجہ سے اس نیک کام کو بھی آپ نے سنت سے متصادم قرار دیا اور انہیں سخت تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ میری سنت سے بے رغبتی ہے لہٰذا جو میری سنت سے اعراض کرے گا اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں، بالکل اسی طرح کوئی بھی ایسی عبادت یا ثواب کا کام جس کی کوئی نظیر آپ کی زندگی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرزِ حیات اور تابعینِ عظام رحمہم اللہ کے دور میں کوئی نمونہ تک نہ ہو اسے عبادت یا ثواب کا کام سمجھ کر کیا جائے تو اس کا حکم بھی ایک طرح سے سنتِ رسول سے بے رغبتی کے زمرے میں آتا ہے اگرچہ وہ اپنے گمان میں ایک نہایت مقدس عبادت سمجھتا رہے، لیکن اس شخص کےا عمال ضائع ہوجائیں گے۔

فرمان باری تعالیٰ ہے :

قُلْ ہَلْ نُنَبِّئُکُمْ بِالْاَخْسَرِيْنَ اَعْمَالًا  ؁ اَلَّذِيْنَ ضَلَّ سَعْيُہُمْ فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا وَہُمْ يَحْسَبُوْنَ اَنَّہُمْ يُحْسِنُوْنَ صُنْعًا ؁

کہہ دیجئے کہ اگر (تم کہو تو) میں تمہیں بتادوں کہ با اعتبار اعمال سب سے زیادہ خسارے میں کون ہیں؟وہ ہیں کہ جن کی دنیاوی زندگی کی تمام تر کوششیں بےکار ہو گئیں اور وہ اسی گمان میں رہے کہ وہ بہت اچھے کام کر رہے ہیں۔ (الکہف102-103)

مخالفینِ رسول کا انجام:

سیدنا ابوموسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے اس دین کی مثال جو اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا فرما کر مبعوث فرمایا ہے اس آدمی کی طرح ہے کہ جو اپنی قوم سے آکر کہے اے قوم میں نے اپنی آنکھوں سے دشمن کا ایک لشکر دیکھا ہے اور میں تم کو واضح طور پر ڈراتا ہوں تو تم اپنے آپ کو دشمن سے بچاؤ اور اس کی قوم میں سے ایک جماعت نے اس کی اطاعت کرلی اور شام ہوتے ہی اس مہلت کی بناء پر بھاگ گئی اور ایک گروہ نے اس کو جھٹلایا اور وہ صبح تک اسی جگہ پر رہے تو صبح ہوتے ہی دشمن کے لشکر نے ان پر حملہ کردیا اور وہ ہلاک ہو گئے اور ان کو جڑ سے اکھیڑ دیا یہی مثال ہے جو میری اطاعت کرتا ہے اور میں جو دین حق لے کر آیا ہوں اس کی اتباع کرتا ہے اور مثال ان لوگوں کی جو میری نافرمانی کرتے ہیں اور جو دین حق لے کر آیا ہوں اسے جھٹلاتے ہیں۔(صحیح مسلم، کتاب الفضائل)

قیامت والے دن اطاعتِ رسول کی خلاف ورزی کرنے والوں کی آہ و فغاں کو قرآن کریم نے اس انداز میں بیان کیا :

 يَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوْہُہُمْ فِي النَّارِ يَقُوْلُوْنَ يٰلَيْتَنَآ اَطَعْنَا اللّٰہَ وَاَطَعْنَا الرَّسُوْلَا  ؀ وَقَالُوْا رَبَّنَآ اِنَّآ اَطَعْنَا سَادَتَنَا وَکُبَرَاۗءَنَا فَاَضَلُّوْنَا السَّبِيْلَا  ؀ رَبَّنَآ اٰتِہِمْ ضِعْفَيْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَالْعَنْہُمْ لَعْنًا کَبِيْرًا  ؀

اس دن ان کے چہرے آگ میں الٹ پلٹ کئے جائیں گے (حسرت اور افسوس سے) کہیں گے کاش ہم اللہ تعالٰی اور رسول کی اطاعت کرتے۔ اور کہیں گے کہ اے ہمارے رب! ہم نے اپنے سرداروں اور اپنے بڑوں کی مانی جنہوں نے ہمیں راہ راست سے بھٹکا دیا ۔پروردگار تو انہیں دگنا عذاب دے اور ان پر بہت بڑی لعنت نازل فرما۔(الاحزاب66-68)

ایک اور مقام پر فرمایا:

 يَوْمَىِٕذٍ يَّوَدُّ الَّذِيْنَ کَفَرُوْا وَعَصَوُا الرَّسُوْلَ لَوْ تُـسَوّٰى بِہِمُ الْاَرْضُ ۭ وَلَا يَکْتُمُوْنَ اللّٰہَ حَدِيْثًا     ؀

جس روز کافر اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے نافرمان آرزو کریں گے کہ کاش! انہیں زمین کے ساتھ ہموار کر دیا جاتا اور اللہ تعالٰی سے کوئی بات نہ چھپا سکیں گے۔(النساء:42)

مزید فرمایا:

وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰي يَدَيْہِ يَقُوْلُ يٰلَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِيْلًا       ؀يٰوَيْلَتٰى لَيْتَنِيْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيْلًا      ؀لَقَدْ اَضَلَّنِيْ عَنِ الذِّکْرِ بَعْدَ اِذْ جَاۗءَنِيْ  ۭ وَکَانَ الشَّيْطٰنُ لِلْاِنْسَانِ خَذُوْلًا  ؀ (الفرقان27-29)

اور اس دن ظالم شخص اپنے ہاتھوں کو چبا چبا کر کہے گا ہائے کاش کہ میں نے رسول اللہ کی راہ اختیار کی ہوتی۔ہائے افسوس کاش کہ میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا اس نے تو مجھے اس کے بعد گمراہ کر دیا کہ نصیحت میرے پاس آپہنچی تھی اور شیطان تو انسان کو (وقت پر) دغا دینے والا ہے۔

اطاعتِ رسول بجا لانے والوں کی صفات:

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

اِنَّمَا کَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذَا دُعُوْٓا اِلَى اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ لِيَحْکُمَ بَيْنَہُمْ اَنْ يَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا  ۭ  وَاُولٰۗىِٕکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ   ؀وَمَنْ يُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَيَخْشَ اللّٰہَ وَيَتَّقْہِ فَاُولٰۗىِٕکَ ہُمُ الْفَاۗىِٕزُوْنَ ؀

ایمان والوں کا قول تو یہ ہے کہ جب انہیں اس لئے بلایا جاتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ان میں فیصلہ کر دے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور مان لیا ،یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔(النور51-52)

اللہ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح معنوں میں متبعِ رسول ﷺ بنائے اور حوضِ کوثر پر آپ ﷺ کے ہاتھوں جامِ کوثر پینے والوں میں شامل فرمائے، کیونکہ اس مقام پر کچھ لوگوں کو دھتکار دیا جائے گا جس کی واحد وجہ یہ ہوگی کہ انہوں نے دینِ محمدی ﷺ میں بگاڑ پیدا کی ہوگی اور خود ساختہ طریقے رائج کئے ہونگے، اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے محفوظ رکھے اور شفاعت محمدی اور جنت کا حصول ہمارے لئے آسان فرمائے ۔آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے