اولیاء اللہ کے دو طبقات

اولیاء اللہ کے دو طبقات ہیں ، سبقت لے جانے والے اللہ کے مقرب بندے ( السابقون المقربون) اور دائیں ہاتھ والے میانہ رو لوگ (أصحاب الیمین

اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں متعدد مقامات پر ان طبقات کا ذکر کیا ہے ۔ مثلا سورئہ واقعہ کے ابتدائی اور آخری حصے میں ،سورئہ نساء ، سورئہ مطففین اور سورئہ فاطر میں ان کا تذکرہ موجود ہے۔

یہ دونوں طبقات روزِ قیامت ظاہر ہوں گے

اللہ تعالیٰ نے سورئہ واقعہ کے ابتدائی حصے میں قیامت کبریٰ کا ذکر فرمایا ہے اور سورت کے آخر میں قیامت صغریٰ کا ۔ سورئہ واقعہ کی ابتداء میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

 اِذَا وَقَعَتِ الْوَاقِعَۃُ۝۱ۙ لَيْسَ لِوَقْعَتِہَا کَاذِبَۃٌ۝۲ۘ خَافِضَۃٌ رَّافِعَۃٌ۝۳ۙ اِذَا رُجَّتِ الْاَرْضُ رَجًّا۝۴ۙ وَّبُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّا۝۵ۙ فَکَانَتْ ہَبَاۗءً مُّنْۢبَثًّا۝۶ۙ وَّکُنْتُمْ اَزْوَاجًا ثَلٰثَۃً۝۷ۭ فَاَصْحٰبُ الْمَيْمَنَۃِ۝۰ۥۙ مَآ اَصْحٰبُ الْمَيْمَنَۃِ۝۸ۭ وَاَصْحٰبُ الْمَشْـَٔــمَۃِ۝۰ۥۙ مَآ اَصْحٰبُ الْمَشْــَٔــمَۃِ۝۹ۭ وَالسّٰبِقُوْنَ السّٰبِقُوْنَ۝۱۰ۚۙ اُولٰۗىِٕکَ الْمُقَرَّبُوْنَ۝۱۱ۚ فِيْ جَنّٰتِ النَّعِيْمِ۝۱۲ ثُـلَّۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ۝۱۳ۙ وَقَلِيْلٌ مِّنَ الْاٰخِرِيْنَ۝۱۴ۭ(الواقعۃ:۱۔۱۴)

’’جب وہ ہونے والا واقعہ پیش آجائے گاتو کوئی اس کے وقوع کو جھٹلانے والا نہ ہوگا وہ تہہ و بالا کر دینے والی آفت ہوگی،زمین اس وقت یکبارگی ہلا ڈالی جائے گی اور پہاڑ اس طرح ریزہ ریزہ کر دیے جائیں گے کہ پراگندہ غبار بن کر رہ جائیں گے۔تم لوگ اس وقت تین گروہوں میں تقسیم ہو جائو گے دائیں بازو والے ، سو دائیں بازو والوں (کی خوش نصیبی ) کا کیا کہنا۔اور بائیں بازو والے ، تو بائیں بازو والوں (کی بدنصیبی ) کا کیا ٹھکانا۔ اور آگے والے تو پھر آگے والے ہی ہیں وہی تو مقرب لوگ ہیں نعمت بھری جنتوں میں رہیں گے۔اگلوں میں سے بہت ہوں گے اور پچھلوں میں سے کم۔‘‘

لہذا یہ وہ تقسیم ہے جو قیامت کبریٰ قائم ہونے پر ظاہر ہوگی ، جب اللہ تعالیٰ اول وآخر تمام انسانیت کو اکھٹا فرمائیں گے۔ اللہ نے قرآن میں متعدد مقامات پر یہ منظر کشی کی ہے۔

اولیاء اللہ کے لئے آخر ت میں انعامات

سورئہ واقعہ کے آخر میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:

فَلَوْلَآ اِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُوْمَ۝۸۳ۙ وَاَنْتُمْ حِيْـنَىِٕذٍ تَنْظُرُوْنَ۝۸۴ۙ وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَيْہِ مِنْکُمْ وَلٰکِنْ لَّا تُبْصِرُوْنَ۝۸۵ فَلَوْلَآ اِنْ کُنْتُمْ غَيْرَ مَدِيْـنِيْنَ۝۸۶ۙ تَرْجِعُوْنَہَآ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۝۸۷ فَاَمَّآ اِنْ کَانَ مِنَ الْمُقَرَّبِيْنَ۝۸۸ۙ فَرَوْحٌ وَّرَيْحَانٌ۝۰ۥۙ وَّجَنَّتُ نَعِيْمٍ۝۸۹ وَاَمَّآ اِنْ کَانَ مِنْ اَصْحٰبِ الْيَمِيْنِ۝۹۰ۙ فَسَلٰمٌ لَّکَ مِنْ اَصْحٰبِ الْيَمِيْنِ۝۹۱ۭ (الواقعۃ : ۸۳۔۹۱)

اب اگر تم کسی کے محکوم نہیں ہو اور اپنے اس خیال میں سچے ہو، تو جب مرنے والے کی جان حلق تک پہنچ چکی ہوتی ہے اور تم آنکھوں سے دیکھ رہے ہوتے ہو کہ وہ مر رہا ہے  اس وقت اس کی نکلتی ہوئی جان کو واپس کیوں نہیں لے آتے؟ اس وقت تمہاری بہ نسبت ہم اس کے زیادہ قریب ہوتے ہیں۔ مگر تم کو نظر نہیں آتے۔پھر وہ مرنے والا اگر مقربین میں سے ہو۔تو اس کے لیے راحت اور عمدہ رزق اور نعمت بھری جنت ہے۔اور اگر وہ اصحاب الیمین میں سے ہو تو اس کا استقبال یوں ہوتا ہے۔کہ سلام ہے تجھے ، تو اصحاب الیمین میں سے ہے۔‘‘

سورئہ دہر میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :

اِنَّ الْاَبْرَارَ يَشْرَبُوْنَ مِنْ کَاْسٍ کَانَ مِزَاجُہَا کَافُوْرًا۝۵ۚ عَيْنًا يَّشْرَبُ بِہَا عِبَادُ اللہِ يُفَجِّرُوْنَہَا تَفْجِيْرًا۝۶ يُوْفُوْنَ بِالنَّذْرِ وَيَخَافُوْنَ يَوْمًا کَانَ شَرُّہٗ مُسْـتَطِيْرًا۝۷ وَيُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰي حُبِّہٖ مِسْکِيْنًا وَّيَـتِـيْمًا وَّاَسِيْرًا۝۸ اِنَّمَا نُـطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللہِ لَا نُرِيْدُ مِنْکُمْ جَزَاۗءً وَّلَا شُکُوْرًا۝۹ اِنَّا نَخَافُ مِنْ رَّبِّنَا يَوْمًا عَبُوْسًا قَمْطَرِيْرًا۝۱۰  فَوَقٰىہُمُ اللہُ شَرَّ ذٰلِکَ الْيَوْمِ وَلَقّٰىہُمْ نَضْرَۃً وَّسُرُوْرًا۝۱۱ۚ وَجَزٰىہُمْ بِمَا صَبَرُوْا جَنَّۃً وَّحَرِيْرًا۝۱۲ۙ (الدہر : ۵۔۱۲)

نیک لوگ (جنت میں) شراب کے ایسے ساغر پئیں گے جن میں آبِ کافور کی آمیزش ہوگی، (چشمۂ کافور کی آمیزش ہوگی) یہ ایک بہتا ہُوا چشمہ ہوگا جس کے پانی کے ساتھ اللہ کے بندے شراب پئیں گے اور جہاں چاہیں گے بسہولت اس کی شاخیں نکال لیں گے۔یہ وہ لوگ ہوں گے جو (دنیا میں) نذر پوری کرتے ہیں ، اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی آفت ہر طرف پھیلی ہوئی ہوگی، اور اللہ کی محبّت میں مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں (اور ان سے کہتے ہیں کہ ) ’’ہم تمہیں صرف اللہ کی خاطر کھلا رہے ہیں ، ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ شکریہ۔ ہمیں تو اپنے رب سے اس دن کے عذاب کا خوف لاحق ہے جو سخت مصیبت کا انتہائی طویل دن ہوگا۔ ‘‘پس اللہ تعالیٰ انہیں اس دن کے شر سے بچا لے گا اور انہیں تازگی اور سرور بخشے گا۔اور ان کے صبر کے بدلے میں انہیں جنت اور ریشمی لباس عطا کرے گا۔ ‘‘

اسی طرح سورئہ مطففین میں اللہ تعالیٰ نے ان دو طبقات کا ذکر کچھ یوں فرمایا ہے :

کَلَّآ اِنَّ کِتٰبَ الْاَبْرَارِ لَفِيْ عِلِّيِّيْنَ۝۱۸ۭ وَمَآ اَدْرٰىکَ مَا عِلِّيُّوْنَ۝۱۹ۭ کِتٰبٌ مَّرْقُوْمٌ۝۲۰ۙ يَّشْہَدُہُ الْمُقَرَّبُوْنَ۝۲۱ۭ اِنَّ الْاَبْرَارَ لَفِيْ نَعِيْمٍ۝۲۲ۙ عَلَي الْاَرَاۗىِٕکِ يَنْظُرُوْنَ۝۲۳ۙ تَعْرِفُ فِيْ وُجُوْہِہِمْ نَضْرَۃَ النَّعِيْمِ۝۲۴ۚ يُسْقَوْنَ مِنْ رَّحِيْقٍ مَّخْتُوْمٍ۝۲۵ۙ خِتٰمُہٗ مِسْکٌ۝۰ۭ وَفِيْ ذٰلِکَ فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُوْنَ۝۲۶ۭ وَمِزَاجُہٗ مِنْ تَسْنِيْمٍ ۝۲۷ۙ عَيْنًا يَّشْرَبُ بِہَا الْمُقَرَّبُوْنَ۝۲۸ۭ (المطففین : ۱۸۔۲۸)

ہر گز نہیں ! بے شک نیک آدمیوں کا نامہ اعمال بلند پایہ لوگوں کے دفتر میں ہے۔اور تمہیں کیا خبر ! کہ کیا ہے وہ (عِلِّیّن) بلند پایہ لوگوں کا دفتر؟ ایک لکھی ہوئی کتاب،جس کی نگہداشت ، مقرب (فرشتے ) کرتے ہیں۔نیک بندے (اَبرار) اللہ کی نعمتوں میں گھرے ہوں گے، (عیش میں ہوں گے)تختوں (اونچی مسندوں) پر بیٹھے نظّارہ کر رہے ہوں گے، اَبرار کے چہروں پر خوشحالی کی رونق محسوس ہو گی۔ اَبرارکو نفیس سر بند شراب (رحیقِ مختوم) پلائی جائے گی۔جس پر مشک کی مہر لگی ہو گی۔ بازی لے جانے والے رَحیقِ مختوم کو حاصل کرنے کے لیے بازی لے جانے کی کوشش کریں۔ اِس شراب میں تسنیم کی آمیزش ہو گی، یہ (تسنیم) ایک چشمہ ہے جس کے ساتھ مقرب لوگ شراب پئیں گے۔ ‘‘

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور سلف میں دیگر مفسرین سے مروی ہے کہ یہ سر بمہر شراب (رحیق مختوم) دائیں ہاتھ والوں کو تسنیم( جنت کا ایک چشمہ) کی آمیزش کے ساتھ پلائی جائے گی۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کے مقرب بندے ( السابقون المقربون ) تسنیم کا خالص پانی پئیں گے ، اور سیر ہونے تک پئیں گے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے یَشرَبُ بِہَا یعنی وہ اسی سے پئیں گے ، یہ نہیں کہا کہ ’’ یَشرَبُ مِنہَا ‘‘ یعنی اس میں سے کچھ پئیں گے ۔ لہذا یہاں یشرب سے مراد سیر ہوکر پینا ہے ۔ بسا اوقات پینے والا ایک چیز پیتا ہے مگر اس سے سیر نہیں ہوتا‘ سو اگر یہ کہاجاتاکہ اس میں سے کچھ پئیں گے تو یہ سیر ہونے تک پینے پر دلالت نہ کرتا لہذا یہ جو کہاگیا کہ ’’ یَشرَبُ مِنہَا ‘‘تو مراد یہ ہے کہ اللہ کے مقرب بندے اس چشمے سے سیر ہوکر پئیں گے اور انہیں اس کے ساتھ کسی اور چیز کی حاجت نہ ہوگی۔ پس ’’مقرب بندے‘‘ تسنیم کا پانی خالص ہی پئیں گے اور ’’دائیں ہاتھ والوں‘‘ کو تسنیم کی آمیزش پلائی جائے گی۔ اسی بات کو سورئہ دہر میں اللہ تعالیٰ نے یوں بیان فرمایا :

اِنَّ الْاَبْرَارَ يَشْرَبُوْنَ مِنْ کَاْسٍ کَانَ مِزَاجُہَا کَافُوْرًا۝۵ۚ عَيْنًا يَّشْرَبُ بِہَا عِبَادُ اللہِ يُفَجِّرُوْنَہَا تَفْجِيْرًا۝۶(الدہر : ۵۔۶)

نیک لوگ (جنت میں) شراب کے ایسے ساغر پئیں گے جن میں آبِ کافور کی آمیزش ہوگی،یہ ایک بہتا ہُوا چشمہ ہوگا جس کے پانی کے ساتھ اللہ کے بندے شراب پئیں گے اور جہاں چاہیں گے بسہولت اس کی شاخیں نکال لیں گے۔

یہاں ’’عباد اللہ‘ ‘ سے مراد اللہ کے وہ مقرب بندے ہیں جن کا سورئہ واقعہ میں ذکر ہوا۔

’’دائیں ہاتھ والوں‘‘ اور مقرب بندوں‘‘ کی جزاء میں یہ فرق اس لئے ہے کہ ہر عمل کا بدلہ چاہے اچھاہو یا برا …. عمل کے جنس ہی سے ہوتاہے یعنی اگر عمل بالکل خالص ہوتو جزا بھی خالص ہی ملتی ہے اور اگر ایسا نہ ہوتو جزا میں بھی اسی قدر کمی آتی ہے ۔ آئندہ سطور میں اس بات کی تشریح مزید واضح کر دی جائے گی۔

ان دو طبقات کی صفات : 

ان دونوں طبقات کے اعمال کا تذکرہ اللہ کے پیارے نبی ﷺ نے اس حدیث میں کیا ہے کہ :

 إِنَّ اللَّہَ قَالَ مَنْ عَادَى لِي وَلِيًّا فَقَدْ آذَنْتُہُ بِالْحَرْبِ وَمَا تَقَرَّبَ إِلَيَّ عَبْدِي بِشَيْءٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَيْہِ وَمَا يَزَالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّہُ فَإِذَا أَحْبَبْتُہُ کُنْتُ سَمْعَہُ الَّذِي يَسْمَعُ بِہِ وَبَصَرَہُ الَّذِي يُبْصِرُ بِہِ وَيَدَہُ الَّتِي يَبْطُشُ بِہَا وَرِجْلَہُ الَّتِي يَمْشِي بِہَا (صحیح البخاری، کتاب الرقاق ، باب التواضع)

ــ’’اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : جس نے میرے ولی (دوست) سے دشمنی اختیار کی ، تو گویا اس نے مجھے جنگ کی دعوت دی اور کوئی بندہ میرا قرب اس طرح نہیں پاسکتا جس طرح وہ میرے عائد کردہ فرائض کی ادائیگی سے میرا قرب پاتاہے اور میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرے قریب ہوتارہتاہے یہاں تک کہ مجھے اس سے محبت ہوجاتی ہے ، اور جب مجھے اپنے بندے سے (فرائض کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ نوافل کا اہتمام بھی کرنے کے سبب) محبت ہوجاتی ہے تو میں اس کا کان ہو جاتا ہوں جس سے وہ سنتاہے اور اس کی آنکھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ پکڑتاہے اور اس کا پیر ہوجاتا ہوں جس سے وہ چلتاہے۔‘‘

دائیں ہاتھ والے (اصحاب یمین)

پس دائیں ہاتھ والے نیکو کار لوگ وہ ہوتے ہیں جو فرائض کی ادائیگی کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرتے ہیں ، ہر وہ کام کرتے ہیں جسے اللہ نے ان پر فرض کیا ہے اور ہر اس چیز کو ترک کردیتے ہیں جسے اللہ نے ان پر حرام کیا ہے البتہ اپنے آپ کو مستحب اعمال کا مکلف نہیں ٹھہراتے اور نہ ہی بے فائدہ مباح امور سے اپنا ہاتھ کھینچتے ہیں۔

سبقت لے جانے والے (السابقون المقربون)

جبکہ سبقت لے جانے والے اللہ کے مقرب بندے فرائض کے ساتھ ساتھ نوافل کے ذریعے بھی اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرتے ہیں۔ وہ واجبات ومستحبات دونوں ادا کرتے ہیں ، اور حرام ومکروہ دونوں قسم کے امور کو ترک کرتے ہیں پھر جب وہ اللہ کے محبوب اعمال میں سے اپنی کامل استطاعت کے مطابق عمل کرکے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرتے ہیں تو رب تعالیٰ بھی ان سے مکمل محبت کرنے لگتاہے۔ جیسا کہ سابقہ حدیث میں مذکور ہے کہ جب بندہ نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتاہے تو مجھے اس سے محبت ہوجاتی ہے۔ یہاں محبت سے مراد مطلق محبت ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ۝۵ۙ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْہِمْ ۥۙ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْہِمْ وَلَاالضَّالِّيْنَ۝۷

ـــ’’ ہمیں سیدھے راستے پر چلا ۔ ان لوگوں کے راستے پر چلا جن پر تو نے انعام کیا ، نہ ان کے راستے جن پر تو نے غضب کیا اور نہ گمراہوں کے (راستے پر چلا)۔‘‘

یعنی ان لوگوں پر اللہ تعالیٰ نے اپنا مطلق انعام فرمایا جس کا ذکر اس آیت میں ہے کہ :

وَمَنْ يُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰۗىِٕکَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَيْہِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّہَدَاۗءِ وَالصّٰلِحِيْنَ ۚ وَحَسُنَ اُولٰۗىِٕکَ رَفِيْقًا(الأنعام:۶۹)

جو لوگ اللہ اور رسول کی اطاعت کریں گے وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے یعنی انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صالحین ۔کیسے اچھے ہیں یہ رفیق جو کسی کو میسر آئیں۔

پس یہ مقرب بندے مباحات میں بھی قرب الٰہی پانے کے راستے ڈھونڈتے ہیں اور یوں مباح امور بھی ان کے حق میں اطاعت ربانی کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ ان کا ہر عمل اللہ تعالیٰ کے لئے خالص ہوتاہے لہذا جس طرح انہوں نے عمل خالص کیا ، اسی طرح وہ جنت کی شراب بھی (بغیر کسی آمیزش کے ) خالص پئیں گے۔

ان کے برعکس نیکیوں کے معاملے میں میانہ رو یعنی دائیں ہاتھ والوں کے نامہ اعمال میں ایسے کام بھی شامل تھے جو ان کی اپنی ذات کے لئے تھے ، اس پر انہیں نہ سزا ہوگی ، نہ ہی جزا۔ لہذا انہیں خالص مشروب نہیں پلائی جائے گی بلکہ اس میں مقربین کی مشروب سے اسی قدر آمیزش ہوگی جس قدر ان کے اعمال میں مقربین کے اعمال کی آمیزش تھی۔

پیغمبر بادشاہ اور رسول عبد کی مثال :

اس کی ایک مثال انبیاء کی تقسیم بھی ہے جس میں کچھ رسول وہ ہیں جو محض اللہ کے بندے ہیں ، بادشاہ نہیں ( عبد رسول) .. جبکہ کچھ دیگر وہ ہیں جو بادشاہ بھی ہیں اور نبی بھی ( نبی ملک) ہمارے نبی ﷺ کو اختیار دیا گیا تھا کہ وہ دونوں میں سے ایک کو اپنے لئے پسند کریں تو آپ نے اللہ کا بندہ ورسول بننا پسند فرمایا ۔ (مسند احمد)

وہ انبیاء جنہیں رسالت کے ساتھ بادشاہت بھی عطا کی گئی ان میں سیدنا داؤد اور سیدنا سلیمان علیہما السلام شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سیدنا سلیمان علیہ السلام کے متعلق فرمایا :

قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِيْ وَہَبْ لِيْ مُلْکًا لَّا يَنْۢبَغِيْ لِاَحَدٍ مِّنْۢ بَعْدِيْ۝۰ۚ اِنَّکَ اَنْتَ الْوَہَّابُ۝۳۵ فَسَخَّرْنَا لَہُ الرِّيْحَ تَجْرِيْ بِاَمْرِہٖ رُخَاۗءً حَيْثُ اَصَابَ۝۳۶ۙ  وَالشَّيٰطِيْنَ کُلَّ بَنَّاۗءٍ وَّغَوَّاصٍ۝۳۷ۙ وَّاٰخَرِيْنَ مُقَرَّنِيْنَ فِي الْاَصْفَادِ۝۳۸ ھٰذَا عَطَاۗؤُنَا فَامْنُنْ اَوْ اَمْسِکْ بِغَيْرِ حِسَابٍ۝۳۹ (ص : ۳۵۔۳۹)

اور کہا کہ ’’ اے میرے رب ، مجھے معاف کر دے اور مجھے وہ بادشاہی دے جو میرے بعد کسی کے لیے سزا وار نہ ہو، بے شک تو ہی اصل داتا ہے۔ ‘‘’’ تب ہم نے اس کے لیے ہوا کہ مسخر کر دیا جو اس کے حکم سے نرمی کے ساتھ چلتی تھی جدھر وہ چاہتا تھا ۔اور شیاطین کو مسخرَّ کر دیا ہر طرح کے معمار اور غوطہ خور ۔اور دوسرے جو پابندِ سلاسل تھے ۔(ہم نے اس سے کہا) ’’ یہ ہماری بخشش ہے ، تجھے اختیار ہے جسے چاہے دے اور جس سے چاہے روک لے ، کوئی حساب نہیں۔ ‘‘

یعنی جسے عطا کرنا ہے کریں اور جسے محروم رکھنا ہے رکھیں ، آپ پر کوئی حساب کتاب نہیں۔

سو وہ نبی جسے بادشاہت عطا کی گئی ہو، وہ اللہ کے فرض کردہ کاموں کو ادا کرتے ہیں اور محرمات کو ترک کر دیتے ہیں اور اس کے بعد ( مباحات کے دائرے میں) اختیارات واموال میں اپنی پسند اور مرضی کے مطابق تصرف کرتے ہیں اور اس پر انہیں کوئی گناہ نہیں ملتا۔

جبکہ وہ رسول جو محض اللہ کے بندے ہوتے ہیں( نہ کہ بادشاہ تبھی) ، وہ اللہ کے حکم کے سوا کسی کو عطا نہیں کرتے، نہ کسی کو اپنی مرضی سے دیتے  ہیں اور نہ کسی کو اپنی مرضی سے محروم کرتے ہیں، بلکہ جسے اللہ عطا کرنے کا حکم دیتے ہیں اسے عطا کرتے ہیں اور جسے اللہ دوست بنانے کا حکم دیتے ہیں اسی کو دوست بناتے ہیں چنانچہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:

مَا أُعْطِيکُمْ ، وَلاَ أَمْنَعُکُمْ أَنَا قَاسِمٌ أَضَعُ حَيْثُ أُمِرْتُ. (صحیح البخاری ، کتاب فرض الخمس ، باب قول اللہ تعالیٰ فإن للہ خمسہ ولرسولہ )

ــ’’میں اپنی مرضی سے تمہیں دے سکتاہوں اور نہ ہی تمہیں منع کرسکتاہوں میں تو محض تقسیم کرنے والا ہوں چیز کو وہیں رکھتا ہوں جہاں اسے رکھنے کا حکم دیا گیاہو۔‘‘

سبقت لے جانے والوں کی دائیں ہاتھ والوں پر فضیلت

پس مقصود یہ بیان کرنا ہے کہ اللہ کا وہ رسول جو محض اللہ کا بندہ ہو ، اس نبی سے افضل ہے جو بادشاہ بھی ہو جیسا کہ سیدنا ابراہیم ، موسی ، عیسیٰ اور محمد علیہم السلام سیدنا یوسف، داؤداور سلیمان علیہم السلام پر فوقیت رکھتے ہیں۔ بالکل اسی طرح اللہ کے مقرب بندے ( السابقون المقربون)  دائیں ہاتھ والوں (أصحاب الیمین) سے افضل ہیں۔

لہٰذا جس نے واجبات پابندی سے ادا کئے لیکن مباح امور میں اپنی پسند کے مطابق معاملہ کیا تو وہ دائیں ہاتھ والوں میں شمار ہوگا۔ اس کے مقابل جس شخص نے صرف وہی اعمال کئے جو اللہ کو پسند ہیں اور جن سے وہ راضی ہوتاہے اور مباح امور میں بھی اس کی نیت یہی رہی کہ وہ اللہ کے حکم ہی کی پیروی کرے تو بلاشبہ وہ سبق لے جانے والوں میں سے ہے ۔

اللھم اجعلنا منھم .
 آمین یا رب العالمین

By admin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے