ہندو اور اللہ کا تصور 

یہ کہنا غلط ہے کہ ہندو اللہ کے منکر ہیں۔ ہندو صرف ایک اللہ کو مانتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اللہ کو کسی دوسرے نام سے یاد کرتے ہیں۔ مثلاََ ان کی مشہور مذہبی کتاب ’’بھگوَت گیتا‘‘میں اللہ تعالیٰ کو ’’وِشنو ‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس کو تمام عیوب سے پاک ، ہر شے کا خالق، نگران اور فنا کرنے والا قرار دیا گیا ہے۔ اسی کو مظلوموں کی پناہ گاہ اور حق کے متلاشیوں کی منزلِ مقصود قرار دیا گیا ہے۔ ان کا یہ عقیدہ ہے کہ وشنو، او تاروں کی صورت میں زمین پر ظاہر ہوتا ہے۔ بقول ان کے، نرسنگھ اس کے چوتھے، رام چندر جی ساتویں اور کرشن جی مہاراج آٹھویں اوتار ہیں۔ بقول ان کے، وشنو مختلف وقتوں پر مختلف صورتوں میں زمین پر ظاہر ہوتا ہے۔ عین اسی طرح جس طرح آج مسلمان بھی کہنے لگے ہیں!

وہی جو مستویٔ عرش تھا خدا ہو کر

اتر پڑا مدینے میں مصطفی ہو کر

ہندو عقائد کے مطابق ان بزرگوں کی عبادت فی الحقیقت ’’وشنو‘‘ کی ہی عبادت ہے۔ اس تک رسائی حاصل کرنے کے لیے ان دیوتاؤں کو خوش کرنا لازم اور ضروری ہے۔ ورنہ کہاں اللہ اور کہاں یہ آدم ِخاکی۔ غور فرمائیں کہ آج کے مسلمانوں کا عقیدہ اس سے کسی مقام پر مختلف ہے۔ یا یہی ہے؟

 جنگِ عظیم دوم کے شعلوں نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ مجھے بھی فوجی ملازمت کے سلسلہ میں مشرقِ بعید (برما وغیرہ) میں گھومنے کا اتفاق ہوا۔ وہاں عوامُ النّاس کا مذہب بُدھ َمت ہے۔ ان کے گھروں اور عبادت خانوں میں جانے کا اکثر اتفاق ہوا۔ گوتم بدھ کے بت دیکھے۔ ان کا عقیدہ بھی ہندو سے ملتا جلتا ہے، صرف ناموں کا فرق ہے۔

بتوں کا پجاری دنیا میں کوئی نہیں:

یہ کہنا غلط ہے کہ بُت پرست لوگ بتوں کی پوجا کرتے ہیں۔ وہ لوگ بھی پتھر کو پتھر ہی جانتے ہیں۔ اگر پتھروں کی پوجا مقصود ہوتی تو وہ پہاڑوں کی پوجا کرتے۔ جہاں بڑے بڑے پتھر ہوتے ہیں اور وہ سڑکوں پر پتھر استعمال کر کے پتھر کی بے حرمتی کبھی نہ کرتے۔ مگر پتھر کو جب کسی قابل احترام بزرگ شخصیت سے منسوب کر کے لایا جاتا ہے تو پھر اس پتھر کا احترام کرنا اور اس کی پوجا کرنا وہ فرض جانتے ہیں۔ وہ دراصل اُ ن بزرگوں کی پوجا کرتے ہیں جن سے وہ پتھر یا لکڑی کا بت منسوب ہوتا ہے۔ مقصود بُت نہیں بلکہ بزرگ کی ذات ہوتی ہے۔ بت کا پجاری دنیا میں کوئی نہیں ہے۔ پوجا بزرگ کی مقصود ہوتی ہے۔

ایک انقلاب:

جاپان کے شہر ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر دو ایٹم بم (بڑا لڑکا اور چھوٹا لڑکا) نامی گرائے گئے۔ جاپان ختم ہو گیا۔ جاپان کی شکست کے ساتھ ہی جرمن فوجیں بھی منتشر ہو گئیں اور جنگ ِعظیم دوم ختم ہو گئی۔ پھر پاکستان بن گیا۔ الحمدللہ۔ ہندو دوست بھارت چلے گئے، مسلمان دوست میسر آئے۔ وہ وقت بھی عجیب تھا کہ جذبۂ اسلام سب میں شدت سے پایا جاتا تھا۔ سب کے سب صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے۔ صبح اور دوپہر کو تلاوتِ قرآن باقاعدگی سے کرتے تھے۔ میرے کانوں نے قرآن کی تلاوت نہایت ہی میٹھی پرکشش آواز میں پہلی بار14اگست 1947کو رات بارہ بجے ریڈیو پر سنی۔ ’’صحبت صالح ترا، صالح کند‘‘ کے مصداق مجھے بھی زندگی میں پہلی بار قرآن پاک پڑھنے کا شوق ہوا۔ میرے باپ کی دعاؤں نے اپنا اثر دکھایا اور میں عملاً مسلمان ہو گیا۔ مندر کے بجائے مسجد جانے لگا۔ میں بھی آہستہ آہستہ قرآن پاک پڑھتا تھا۔ مگر میرے دل میں ایک بات راسخ ہو چکی تھی کہ بغیر ترجمہ کے قرآن پڑھنا دوسری زندگی میں تو مفید ہو گا مگر اس زندگی میں ہر گز مفید نہیں ہے۔ اس لیے میں قرآن کے عربی الفاظ کے ساتھ اردو ترجمہ پر زیادہ غور کرتا تھا۔ میں نے ایک چھوٹا سا قرآن پاک خریدا۔ جو تاج کمپنی کا شائع کردہ تھا اور نیچے لفظی ترجمہ لکھا ہوا تھا۔ وہ آج بھی میرے پاس موجود ہے۔ میں ایک روز میں چند ہی آیات پڑھتا تھا اور ان کا ترجمہ ذہن میں رکھتا۔ آیات کو ملا کر نتائج اخذ کرتا رہتا تھا۔ اس طرزِ عمل پر میرا اختلاف بھی کچھ دوستوں سے ہوا۔

 میں نے قرآن پاک میں پڑھا تھا:

كِتٰبٌ اَ نْزَلْنٰهُ اِلَيْكَ مُبٰرَ كٌ لِّيَدَّبَّرُوْٓا اٰيٰتِهٖ وَلِيَتَذَكَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ      ؀

 ’’یہ بابرکت کتاب ہم نے تمہاری طرف اس لیے نازل فرمائی ہے تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں غور کریںاور تاکہ اہلِ فہم نصیحت حاصل کریں  ۔‘ ‘(صٓ ۲۹:)

{ اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُھَا o }  (محمد24🙂

’’توکیا یہ لوگ قرآن میںغور نہیں کرتے؟ یا ان کے دلوں پر تالے لگے ہوئے ہیں؟‘‘

میں نے سوچا کہ   ؎                                                                                             

کیوں زیاں کار بنوں ،سُود فراموش رہوں؟

فکرِ فردا نہ کروں، محوِ غم دوش رہوں!

(شکوۂ اقبال)             

مسلمانوں سے اختلاف:

مسلمانوں کی ہم نشینی کی وجہ سے کچھ علماء کرام کو سننے کا بھی اتفاق ہوا۔ میں نے مندر میں تعلیم پائی تھی اور بت پرستوں میں زندگی کا ایک حصہ گذار چکا تھا۔ اس لیے میں نے اُن علماء کرام کی یہ بات ماننے سے انکار کر دیاکہ مکہ کے کافر و مشرک اللہ کے منکر تھے اور پتھر کے بتوں کو خدا مان کر پوجا کرتے تھے۔یہ سوال ذہن میں رکھتے ہوئے میں نے قرآن کریم سے اس کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی۔میں نے قرآن سے پڑھ لیا کہ کُفّارِمکہ بھی صرف ایک اللہ کو ہی اللہ ، خالقِ کُل، مالکِ کُل، حاجت رَوااور مشکل کُشا مانتے تھے۔ آپ کو اس بات سے حیرت ضرور ہو گی مگر قرآن پاک سے میرے اس دعوے کی تصدیق  ہوتی ہے۔

کفارِ مکہ اور اللہ کا تصور:

نبی اکرم کے بتائے ہوئے طریقے پر کفارِ مکہ نے چلنے سے انکار کر دیا۔ اللہ نے حکم فرمایا کہ ان سے اللہ کے بارے میں چند سوال پوچھو۔ جو جواب ان سے متوقع تھا وہ بھی نقل فرما دیا۔ فرمایا:

{ وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَيَقُولُنَّ اللهُ فَأَنَّى يُؤْفَكُونَ () اللهُ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَيَقْدِرُ لَهُ إِنَّ اللهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ () وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ نَزَّلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ مِنْ بَعْدِ مَوْتِهَا لَيَقُولُنَّ اللهُ قُلِ الْحَمْدُ لِلهِ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ } (العنکبوت:63-61)

’’اور اگر آپ اُن سے پوچھیںکہ کون ہے جس نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا اور جس نے سورج اور چاند کو کام میں لگا رکھا ہے۔ تو وہ لوگ یہی کہیں گے کہ وہ اللہ ہی ہے۔ پھر(یہ لوگ) کدھر اُلٹے چلے جا رہے ہیں؟ اللہ ہی اپنے بندوں میں سے جس کیلئے چاہے روزی فراخ کر دیتا ہے۔ اور جس کیلئے چاہے تنگ کر دیتا ہے۔ بیشک اللہ ہی سب چیزوں کے احوال سے واقف ہے۔ اور اگر آپ ان سے پوچھیں کہ کون ہے جو آسمان سے پانی برساتاہے اور اُس سے مُردہ زمین کو زندگی بخشتاہے۔  تو وہ لوگ یہی کہیں گے کہ وہ بھی اللہ ہی ہے۔ آپ کہیے کہ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں مگر ان میں سے اکثر سمجھتے بھی نہیں۔‘‘

غور فرمائیں!  میں بھی اکثر سوچتا تھا کہ اللہ کو سب کچھ مانتے بھی ہیں۔ جس کی گواہی خود اللہ پاک دے رہے ہیں تو پھر وہ بے عقل اور گُم کردہ راہ (بھٹکے ہوئے)کیوں قرار پائے تھے؟  پھر میں نے اور بھی پڑھا:

{ قُلْ مَنْ یَّرْزُقُکُمْ مِّنَ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ اَمَّنْ یَّمْلِکُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَمَنْ یُّخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَیُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ وَمَنْ یُّدَبِّرُ الْاَمْرَ فَسَیَقُوْلُوْنَ اللہُ فَقُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ o }             

’’آپ کہیے کہ تم کو آسمان اور زمین سے رزق کون بہم پہنچاتا ہے؟ قوتِ سماعت و بصارت کا مالک کون ہے؟ اور جاندار کو بے جان اور بے جان کو جاندارسے کون نکالتا ہے؟اورکون ہے جو(تمام) کاموں کی تدبیر کرتا ہے؟ پس یہ فورًا کہیں گے کہ اللہ ہی ہے۔‘‘(یونس:31)          

میں حیران اس بات پر تھا کہ اس طرح اللہ کو ماننے میں کیا نقص ہے۔!! ہم بھی تو اسی طرح مانتے ہیں مگر اس طرح ماننے والوں کو ’’نہ ڈرنے والے‘‘ فرمایا گیاہے۔ آخر کیوں؟

پھر ارشاد ہوا:

{ وَلَئِنْ سَاَلْتَھُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ لَیَقُوْلُنَّ اللہُ قُلِ الْحَمْدُلِلٰہِ  بَلْ اَکْثَرُھُمْ لَایَعْلَمُوْنَ}

’’اور اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے تو کہیں گے کہ اللہ نے۔ آپ کہیے کہ تمام تعریفوں کے لائق تو اللہ ہی کی ذات ہے۔ مگر ان میں سے اکثر نہیں جانتے ۔ ‘‘ (لقمان:25)

میں ان آیات کو دل میں جذبۂ جستجو دبائے ہوئے یکجا کرتا چلا گیا۔ حیران تھا کہ آخر نقص کیا ہے کہ ہماری طرح اللہ کو ماننے کے باوجود اِن لوگوںکو ’’نہ جاننے والے‘‘ قرار دیا گیا۔ پھر میں نے ارشادِ  ربّا نی پڑھا۔

{ قُلْ لِمَنِ الْأَرْضُ وَمَنْ فِيهَا إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ  o  سَيَقُولُونَ لِلهِ قُلْ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ  o قُلْ مَنْ رَبُّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ  o  سَيَقُولُونَ لِلَهِ قُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ  o قُلْ مَنْ بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ يُجِيرُ وَلَا يُجَارُ عَلَيْهِ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ o  سَيَقُولُونَ لِلهِ قُلْ فَأَنَّى تُسْحَرُونَ }     (المؤمنون:89-84)

’’ان کو فرمائیں کہ اگر تم کو کچھ علم ہے تو بتاؤ کہ زمین اور جو کچھ اس میں ہے کس کے لیے ہیں تو یہ فورًاکہیں گے کہ اللہ ہی کے لیے۔ ان کو فرمائیں کیا تم کچھ نصیحت نہیں لیتے ہو؟ ان کو فرمائیں کہ سات آسمانوں اور عرشِ عظیم کا پروردگار کون ہے؟ تو فورًاکہیں گے کہ اللہ۔ ان کو فرمائیں کہ کیا تم ڈرتے نہیں ہو؟ ان سے پوچھیے کہ اگر تم کو کچھ علم ہے تو بتاؤ کہ کس کے دست قدرت میں ہر چیز کی بادشاہی ہے؟ وہ پناہ دیتا ہے مگر اس کے مقابل کوئی پناہ نہیں دے سکتا۔ یہ فورًاکہیں گے کہ اللہ ہی ہے۔ ان کو فرمائیں کہ تم پر جادو کہاں سے چل گیا ہے ؟ ‘‘

جب میں نے یہ آیات پڑھیں تو دوسری باتوں کے علاوہ مجھے اس شعر کی صحت پر بھی سخت اختلاف ہوا  :

خدا  کا پکڑا  چھڑا لے  محمد()

محمد() کا پکڑا چھڑا کوئی نہیں سکتا

آخر کیوں اور کس طرح؟ جب کہ اللہ کے مقابل کوئی کسی کو پناہ نہیں دے سکتا۔ اگر آپ غور فرمائیں تو مندرجہ بالا آیات کو پڑھنے سے یہ بات صاف صاف سمجھ میں آتی ہے کہ کُفّارِ مکہ آسمان و زمین کا خالق، شمس و قمر کا پابندِ ضابطہ کرنے والا، رزق دینے کے علاوہ اس میں کمی و بیشی کرنے والا، ہر چیز کا کامل اور مکمل علم رکھنے والا، آسمانوں سے پانی نازل فرمانے والا، اس سے مردہ زمین کو جِلا بخشنے والا، مالکِ قوتِ سماعت و بصارت، مردہ چیز سے زندہ اور زندہ سے مردہ کا خالق، اس نا پیدا کنار کائنات کی منصوبہ بندی کرنے والا، زمین اور اس کے اندر کی ہر چیز کا مالک، سات آسمانوں اور عرشِ عظیم کا پروردگار جس کے دست قدرت میں ہر چیز ہے۔ ہر کسی کو پناہ دینے والا اور وہ جس سے کوئی بھی کسی کو پناہ نہیں دے سکتا۔ اللہ ہی کو مانتے تھے۔ اسی طرح جس طرح آج میں اور آپ مانتے ہیں۔ بلکہ میں قرآن میں یہ دیکھ کر حیران ہو گیا تھا کہ کفارِ مکہ دعائیں بھی اسی ایک اللہ سے مانگتے تھے۔ جس سے میں اور آپ مانگتے ہیں۔ لیجیے آپ بھی پڑھیے۔

{ وَاِذْقَالُوا اللّٰھُمَّ اِنْ کَانَ ھٰذَا ھُوَالْحَقُّ مِنْ عِنْدِکَ فَاَمْطِرْعَلَیْنَا حِجَارَۃً مِّنَ السَّمَآئِ اَوِئْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ o }       (الأنفال: 32)

’’اور جب انہوں نے کہا کہ اے ہمارے اللہ اگر یہ تیری طرف سے حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا ،یا کوئی درد ناک عذاب ہم پر لے آ ۔ ‘‘

یہ اس وقت کی بات ہے جب کفارِ مکہ ہمارے نبی اکرم کی تبلیغ کے بڑھتے ہوئے اثر کو روک نہ سکے تو تھک ہار کر ابوجہل نے خانۂ کعبہ کا طواف کرتے ہوئے اس کے غلاف کو پکڑ کر یہ دعا مانگی تھی۔ مگر آپ اس بحث میں نہ پڑیں کہ یہ کون تھا اور اس نے کس وقت کس حالت میں دعا مانگی تھی۔ آیت صاف بتا رہی ہے کہ کوئی منکرِ قرآن ہی تھا۔ پھر میں نے پڑھا  :

{ وَقَالُوْا رَبَّنَا عَجِّلْ لَّنَا قِطَّنَا قَبْلَ یَوْمِ الْحِسَابِo}   

’’اور(یہ لوگ )کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! ہمارا حصہ یومِ حساب سے قبل ہم کو دے ڈال ۔ ‘‘(صٰٓ:16)

میں جوں جوں یہ آیات پڑھتا گیا۔ میری حیرت بڑھتی گئی۔ یہ بات بھی عجب ہے کہ ایک قوم ہر چیز کا مالک و خالق بھی ہماری طرح اللہ ہی کو مانے اور ہر مشکل وقت پر دست ِ دعا بھی اسی کے سامنے دراز کرے۔ جس کے سامنے ہم کرتے ہیں۔ پھر بھی ہمیں تو اتنا دعوائے مسلمانی ہو، اور وہ کافر قرار پائے۔ اسے بات بات پر فرمایا جائے: ’’تم کہاں گھوم رہے ہو ؟ ‘‘… ’’ان میں سے اکثر بے عقل ہیں‘‘ … ’’کیا تم ڈرتے نہیں ہو ؟‘‘ … ’’ان میں سے اکثر بے علم ہیں‘‘ … ’’کیا تم نصیحت نہیں لیتے ہو ؟ ‘‘ … ’’تم کہاں سے سحرزدہ ہو گئے ہو ؟ ‘‘… وغیرہ وغیرہ۔ اس الجھن کو بھی قرآن کریم نے دور فرما دیا۔

کافر کیوں؟

میں کفارِ مکہ اور نبی اکرم کے درمیان جھگڑے کی اصل وجہ دریافت کرنے کے لیے بے قرار ہو گیا۔ یہ کتابِ مقدس جو کہ:

{ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرْقَانِ } 

’’یہ لوگوں کے لیے ہدایت ہے ،اور ہدایت کو بیان فرما کر حق و باطل میں فرق کو نمایاں کرنے والی کتاب ہے۔‘‘(البقرۃ:185)

اس میں، میں نے ایک آیت پڑھی۔ لیجئے ،آپ بھی پڑھیں اور اپنی پریشانی میری طرح دور کر لیں۔

{ وَیَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اﷲِ مَالَایَضُرُّھُمْ وَ لَایَنْفَعُھُمْ وَیَقُوْلُوْنَ ھٰٓؤُلَآئِ شُفَعَآؤُنَا عِنْدَ ﷲِ قُلْ اَتُنَبِّئُوْنَ ﷲَ بِمَا لَا یَعْلَمُ فِی السَّمٰوٰتِ وَلَا فِی الْاَرْضِ سُبْحٰنَہٗ وَتَعٰلٰی عَمَّا یُشْرِکُوْنَ o }   

’’اوریہ اللہ کے سوا ان لوگوں کی عبادت کرتے ہیں۔ جو،اِن کونہ نقصا ن  پہنچا سکتے ہیںاور نہ ہی فائدہ دے سکتے ہیں۔ اور یہ کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے حضور ہماری سفارش کرتے ہیں۔ ان کو فرما دیں کہ کیا تم اللہ کو آسمان اور زمین کی ان چیزوں کی خبر دے رہے ہو جن کا اس کو علم نہیںہے؟تمہارے شرک سے اللہ پاک اور بلند و بالا ہے ۔ ‘‘(یونس:18)

غور فرمائیں!کہ اس آیت میں ان لوگوں کا اصل قصور بتایا گیا ہے۔ اور اللہ پاک کے ہاں کسی فوت شدہ بزرگ کی روح کو پکارنا کہ وہ سفارش کرے، اسی کو اللہ پاک نے شرک قرار دیا ہے۔ پھر اسی قرآن ہی میں لکھا ہوا میں نے پڑھا۔ لیجیے آپ بھی پڑھیں:

{  وَالَّذِ یْنَ ا تَّخَذُ وْمِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِیَآئَ مَا نَعْبُدُ ھُمْ اِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَـآ اِلَی  ﷲِ زُلْفٰی }            (الزُّمر:3)          

’’جن لوگوں نے اللہ کے علاوہ دوسروں کو ولی بنا رکھا ہے(ان کی بابت وہ کہتے ہیں کہ) ہم ان کی بندگی اس غرض کے لیے ہی کرتے ہیں کہ یہ ہم کو اللہ کے قریب کردیں ۔ ‘‘

خلاصۂ کلام:

قرآن پاک کے پڑھنے سے یہ بات ظاہر ہوئی کہ کفارِ مکہ بھی ہندو کی طرح ایک اللہ کے منکر نہ تھے۔ جبکہ وہ اسی سے دعائیں مانگتے تھے مگر اس کے ساتھ بزرگوں کی عبادت بھی کرتے تھے۔ یعنی ان اولیاء کی نذر و نیاز اور چڑھاوے بھی دیتے تھے۔ ان کے نام کے وظیفے بھی کرتے تھے کہ ان کی روحوں کو خوش کر لیا جائے تو یہ ہماری سفارش کرتے ہیں اور قربِ الٰہی کا ذریعہ ہیں۔ ورنہ کہاں اللہ اور کہاں یہ آدمِ خاکی۔ بس یہ تھا فرق اور یہ تھا جھگڑا۔ ذرا غور کرنے پر میری روح لرز گئی کہ ہمارے مسلمان بھی تو یہی کچھ کر رہے ہیں۔ اگر آپ بھی ایسا کرتے ہیں تو آج ہی توبہ کر لیں۔

اللھم اغفر خطایانا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے