کیا ڈاکٹر حافظ عبد الرشید اظہر کی شہادت کو بھی مصلحت کی دبیز تہوں کے نیچے دبا دیا جائے گا اور کیا ان کے سفاک اور درندہ صفت قاتل بھی قانون کا مذاق اڑاتے ہوئے دندناتے پھرتے رہیں گے اور کسی دوسرے عالم دین، کسی راہنما اور کسی قائد کو شکار کرنے کی حکمتِ عملی اور منصوبہ سازی کرتے رہیں گے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو محب وطن حلقوں کو دن رات بے چین کئے ہوئے ہیں۔ علامہ ڈاکٹر حافظ عبد الرشید اظہر عالمِ اسلام کا ایک قیمتی اثاثہ تھے، جنہیں سترہ مارچ کو وفاقی دارالحکومت میں، ان کی ذاتی رہائش گاہ میں مہمان کا روپ دھارے ظالم قاتلوں نے انتہائی نمک حرامی کا ثبوت دیتے ہوئے دن دھاڑے سفاکانہ انداز میں شہید کر دیا اور سفاک قاتل ان کی گاڑی، موبائل فون اور دیگر قیمتی اشیاء لیکر فرار ہوگئے۔

ڈاکٹر صاحب کی شہادت کی یہ خبر آناً فاناً نہ صرف پورے ملک بلکہ پوری دنیا میں پھیل گئی اور چند ہی لمحوں بعد ہزاروں افراد ان کی رہائش گاہ پہنچ گئے، ہر آنکھ اشکبار تھی، سسکیاں اور آہیں تھیں۔

اور ڈاکٹر صاحب کی شہادت کو کئی روز گذرگئے ہیں مگر ابھی تک قانون نافذ کرنے والے ادارے ان کے قاتلوں کے متعلق صحیح طور پر وضاحت نہیں کرسکے کہ یہ قاتل کون تھے؟ کیا مقاصد تھے اور ان کا اصل محرک کون تھا؟

ڈاکٹر صاحب ایک بہت بڑے مذہبی اسکالر، ایک جید عالم دین، بہترین خطیب، صاحب طرز ادیب اور محقق تھے، اللہ تعالیٰ نے انہیں بے پناہ صلاحتیوں سے نواز رکھا تھا، وہ کسی بھی موضوع پر گھنٹوں فی البدیہہ بول سکتے تھے اور ان کا ایک ایک جملہ معانی و مطالب سے بھرپور ہوا کرتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب گذشتہ تقریبا تین عشروں سے سعودی سفارتخانے کے ایک ذیلی ادارے مکتب الدعوۃ کے ساتھ وابستہ تھے  اور ریسرچ اسکالرکے طور پر ایک اعلیٰ منصب پر فائز تھے، وہ ساری زندگی مرکزی جمعیت اہل حدیث کے ساتھ وابستہ رہے، تاہم پاکستان کے تمام مکاتب فکر اور دینی و علمی حلقوں میں انتہائی عزت و احترا م کی نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا کیونکہ وہ ہمیشہ اتحاد بین المسلمین کے داعی رہے۔  یہی وجہ تھی کہ ان کے مداحوں کا اور چاہنے والوں کا حلقہ تمام مکاتب فکر اور پوری دنیا میں پھیلا ہوا تھا۔

ڈاکٹر حافظ صاحب نے ایک غریب گھرانے میں آنکھ کھولی، والد صاحب کے پاس چار ایکڑ زرعی زمین تھی، اسی پر خاندان کی گزر بسر تھی،ڈاکٹر صاحب نے ابتدائی تعلیم جامعہ سلفیہ فیصل آباد سے حاصل کی اور پھر جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے جب آپ زیورِ تعلیم سے آراستہ ہوکر واپس لوٹے تو حافظ عبد الرشید اظہر کے نام سے ان کانام پورے ملک میں گونجنے لگا اور جب انہوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تو وہ ڈاکٹر عبد الرشید اظہر بنے۔ ڈاکٹر صاحب دنیا کے متعدد ملکوں میں سینکڑوں اجتماعات سے اپنے پر اثر خطابات کے ذریعے اپنے دلنشین انداز سے لاکھوں دلوں میں گھر کرچکے تھے۔

یہی وجہ ہے کہ ان کی نمازِ جنازہ نہ صرف پاکستان کے بڑے بڑے شہروں میں ادا کی گئی بلکہ مسجدِ نبوی ﷺ مدینہ منورہ، کویت، قطر، امریکہ، برطانیہ اور جنوبی افریقہ سمیت متعدد ممالک میں ان کی غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کی گئی۔

اٹھارہ مارچ کو صبح ساڑھے نو بجے جامعہ سلفیہ اسلام آباد میں ان کی نمازِ جنازہ میں ہزاروں افراد نے شرکت کی اور ان کا جسد خالی ان کے آبائی شہرخانیوال کی طرف روانہ ہوا، دوپہر تقریبا دو بجے جامعہ سلفیہ فیصل آباد میں ان کی نمازِ جنازہ اداکی گئی تو فیصل آباد اور گردونواح سے ہزاروں افراد امڈ آئے اور ان کی نمازِ جنازہ فیصل آباد کی تاریخ کے چند بڑے جنازو ں میں شمار ہونے لگی۔

ڈاکٹر صاحب کی نمازِ جنازہ کا سب سے بڑا اجتماع خانیوال میں ہوا جہاں عشاء کی نماز کے بعد نمازِ جنازہ ادا کی گئی اور آزاد ذرائع ابلاغ کے مطابق تقریبا چالیس ہزار کے لگ بھگ افراد نمازِ جنازہ میں شریک ہوئے۔ اسلام آباد، فیصل آباد اور خانیوال میں ڈاکٹر صاحب کے چہرے کا دیدار کرنے والے دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے، اور سفاک قاتلوں کے خلاف بد دعائیں کر رہے تھے۔لاکھوں مسلمانوں ، ہزاروں علمائے کرام اور اولیاء کی یہ دعائیں قاتلوں کو اللہ کی زمین پر سکون سے کیسے چلنے دیں گئ وہ دن دور نہیں کہ اللہ کی زمین ان پر تنگ ہوتی جائےگی اور وہ اسی زندگی میں ذلیل و رسوا ہوکر عبرتناک انجام سے دوچار ہونگے۔ ان شاء اللہ۔

ڈاکٹر صاحب کو کیوں شہید کیا گیا؟ ان کا کیا جرم تھا؟ قاتلوں کے پیچھے خفیہ ہاتھ کس کا ہے؟ وہ کس کو کیا پیغام دینا چاہتے تھے؟ یہ سب کچھ ابھی پردہ راز میں ہے۔ ڈاکٹر حافظ عبد الرشید اظہر رحمہ اللہ کا کسی کے ساتھ کوئی جھگڑا نہ تھا، وہ جھگڑوں اور تنازعوں میں پڑنے والے شخص تھے ہی نہیں۔

البتہ ایک بات ان کے حاسدین کو بہت کھٹکتی تھی اور وہ تھا کہ مکتب دعوۃ میں ایک بڑے عہدے پر ان کا فائز ہونا اور سعودی عرب کے علماء و زعماء کی نظروں میں ان کی عزت و احترام۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو شہید کرکے ان کی شہادت کے پیچھے خفیہ ہاتھ سعودی عرب کو کچھ پیغام دینا چاہتے ہیں یہ حلقے ڈاکٹر صاحب کی شہادت کو بھی کراچی اور ڈھاکہ میں سعودی عرب کے سفارتی عملہ پر حملے کی ایک کڑی قرار دے رہے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے