قوم کی اکثریت بد عملی و بے عملی کے کیچڑ میں لتھڑی ہوئی کوئی اوارہ شاید ہی بد عنوانی سے پاک ہو ہر طرف الناس علی دین ملوکہم (لوگ اپنے حکمرانوں کے دین پر ہوتے ہیں) کا عملی مظاہرہ پیش کرتے ہوئے عوام کالانعام کہ جن کے حاکم بد عنوانیوں کے ریکارڈ قائم کرچکے ہوں، وہاں پر زور آور مال مفت دلِ بے رحم کے مصداق کمزوروں کا مال شیر مادر سمجھ کر ڈکار جانا چاہتا ہے جہاں بھٹیوں میں مزدوروں کو جلایا جاتا ہو جہاں سوختہ لاشے رزق حلال کی طلب کا انجام بنے ہوں ماں بیٹی کے ہاتھ پیلے کرنے کے لئے کارخانے میں نوکری کرتی ہے کہ معاشرے میں پیٹ بھرے خالی آنکھوں والوں کے گھر میں اپنی لخت جگر کے ساتھ جہیز کا ٹرک بھی بھیج سکے، شیر خواربچے مجبور مزدور ماں کے ساتھ کارخانے میں موجود کچھ بوڑھے ہاتھ کچھ نوجوان سہارے جو اپنے گھروں کے واحد کفیل تھے مگر آگ نے سب کو جلا کر راکھ کردیا، اتنا بڑا سانحہ ہر فرد کی الگ کہانی ہر گھر کا الگ درد کچھ مائیں اپنے بیٹوں کا کھانا بنائے انتظار کرتی رہ گئیں، کچھ معصوم بچے اپنے باپ کی شفقت بھری آغوش میں لئے جانے کی حسرت لئے رہ گئے کچھ اپنے پیاروں کی بچاؤ، بچاؤ کی صدائیں یاد کرتے ہیں اور ہوش و حواس سے بیگانہ ہوجاتے ہیں مگر یہ آگ بھی بلند ایوانوں اور پست ذھنوں کی یخ بستگی کو کم نہ کرسکی ظلم بہر حال ظلم ہے ظلم کی رات طویل ضرور ہے ظالم کی رسی دراز ضرور ہے مگر ایک انتہا بھی تو ہے دیر ہے اندھیر نہیں۔

قریب ہے یارو روز محشر چھپے گا کشتوں کا خون کیونکر

جو چپ رہے گی زبان خنجر، لہو پکارے گا آستیں کا

ابھی شہر والے اپنے پیاروں کو دفناکر پلٹے ہی تھے کہ ایک اور خبرجانکاہ ایک حادثہ مفاجأۃ ان کا منتظر تھا کچھ عاقبت نااندیشوں نے ناموسِ رسالت پر حملہ کیا تھا چمکتے چاند پر تھوکنے کی کوشش میں اپنے ہی خون آلود چہروں کو مزید بگاڑا تھا چاند تو ازل سے چمک رہا ہے ابد تک چمکے گا۔ سرور گرامی قدر سرکارِ دو عالم کا ہم پلہ تو کوئی آیا ہے نہ آئے گا جن کے اعلیٰ اخلاق کی گواہی تو خود ربِ ارض و سما نے دی وَاِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ ۝اور آپ یقینا اخلاق کے بڑے بلند مرتبہ پر ہیں۔

جن کی حسن سیرت کی پیشین گویاں اس کی پیدائش سے بھی ہزاروں سال پہلے ہندوں کی ویدوں میں موجود ہے(ملاحظہ ہو ابن اکبر الاعظمی کی تالیف محمد ﷺہندو کتابوں میں) اور ہندو شاعر لالہ چندی پرشاد دہلوی نے کہا

وہ لطف رنگ سحاب بھی ہے،نسیم رحمت ماب بھی ہے

رسولوں میں انتخاب بھی ہے،زمین پر گردوں کاب بھی ہے

مسلمان سب کچھ گوارا کرسکتے ہیں مگر اپنی تمام تر بد عملیوں کے باوجود وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ناموسِ رسالت ﷺ پر قربان ہوجائیں تو یہی ان کے لئے سب سے بڑی سعادت ہے، گستاخانہ فلم کی بات لوگوں تک پہنچی تو وہ اپنی سب پریشانیاں بھول کر سراپا احتجاج بن گئے ۔ یہ درست ہے کہ سفیر قتل نہیں کئے جاتے، ان کی حفاظت بھی درست مگر ان کی میزبانی سے تو معذرت کی جاسکتی ہے۔یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ان کی حفاظت کا بہانہ بناکر اپنے ہی مسلمان بھائیوں پر گولیاں برسائی جائیں۔

جو ہمارے نبی کی توہین کے مرتکب ہوں وہ تو واجب القتل ہیں اس خباثت کے پیچھے بھی کعب بن اشرف یہودی کے پیروکار ہیں جس کے قتل کا حکم خود نبی مکرم ﷺ نے صادر فرمایا اور اس کا قصہ پاک ہونے پر آپ ﷺ نے نعرہ تکبیر اللہ اکبر بلند فرمایا، شانِ رسالت میں گستاخی اتنا بڑا جرم ہے کہ جہاں رحمۃ للعالمین نے سب کو معاف فرمایا وہاں منصبِ رسالت کے گستاخوں کے لئے قتل کی سزا تجویز فرمائی اور فرمایا:اقتلوھم وان وجدتموھم تحت استار الکعبۃ۔ ان کو قتل کر ڈالو، چاہے یہ غلافِ کعبہ کے نیچے ہی کیوں نہ ہوں۔ چنانچہ ابن خطل کی گردن حجر اسود اور مقامِ ابراہیم کے درمیان اڑائی گئی، بیت اللہ کا سایہ بھی اس گستاخ کی جان بخشی نہ کرواسکا۔

نتھو رام، راج پال جیسے لوگ بھی شمعِ رسالت کے پروانوں کے ہاتھوں اپنے بدترین انجام کو پہنچے جبکہ غازی علم الدین شہید ناموس رسالت پر قربان ہوکر زندہ و جاوید ہوا۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے یہ ایک خاص نفسیاتی مسئلہ ہے۔ جو شکست خوردہ ذہنیت کا عکاس ہے۔ اسلام کا ابتدائی دور مسلمانوں کی شان و شوکت کا دور ہے جب پیرس کے گلی کوچے کیچڑ سے اٹے رہتے تھے اسوقت مسلمانوں کے زیرِ تسلط اندلس کی گلیاں سنگی فرش سے آرستہ تھیں میدانوں میں مسلسل شکست خوردگی کے بعد مسلمانوں کے خلاف اپنا غصہ نکالنے کے لئے اہل یورپ انہیں بد نما القابات سے یاد کرتے رہے ہیں مستشرقین کی جماعت کبھی محمد علیہ السلام کی تلوار کا وایلا مچاتی اور کبھی تعدد ازواج پر کیچڑ اچھالتی نظر آتی ہے۔

جہاں یہ لوگ تھے وہیں کچھ انصاف پسند بھی ہیں جنہوں نے رسول اکرم ﷺ کی صداقت کی گواہی دی،جیسے برطانوی ادیب تھامس کارلائل، جرمن شاعر گوئٹے، مشہورفلاسفر ٹالسٹائی، ہندو لیڈر مہاتما گاندھی اور دیگر بہت سے لوگ موجودہ صدی میں خود امریکہ سے تعلق رکھنے والا ادیب و مصنف مائیکل ہارٹ جب سو عہد ساز شخصیات پر کتاب لکھتا ہے تو صفحہ اول پر محمد عربیﷺکا تذکرہ کرتا ہے خود عیسائی بادشاہوں نے نبی کریم ﷺ کی قدر دانی کی نجاشی مسلمان ہوا اور قیصر روم ہرقل کے پاس جب نامہ مبارک پہنچا تو کہنے لگا کاش! میں آپ ﷺ کے پاس ہوتا اور آپ کے پاؤں دھونے کا شرف حاصل کرتا۔ پھر اس نے یہ خط سونے کی ڈبیہ میں سنبھال کر رکھا جو حریر و ریشم سےمغلف تھی اور متبرک ورثہ کے طور پر ایک سے دوسرے بادشاہ کو منتقل ہوتی رہی۔ جو لوگ نبی علیہ السلام کی توہین کے مرتکب ہوئے ہیں شرف انسانیت تو کجا؟

اُولٰۗىِٕكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْغٰفِلُوْنَ   ؁(الاعراف179)

ایسے لوگ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرےاور یہی لوگ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔ جانوروں سے بھی بد تر ہیں، کیونکہ جانوروں نے بھی نبی علیہ السلام کے حق کو پہچانا اور پھر آپ کے سامنے سر تسلیم خم کیا، ان سے تو وہ بے جان کینکریاں لاکھ درجے اچھی تھیں جنہوں نے ابوجہل کی مٹھی میں توحید رسالت کی شہادت دی نبی کریم کا تمسخر اڑانے والوں سے خود رب ذوالجلال انتقام لینے والا ہے۔

اِنَّا كَفَيْنٰكَ الْمُسْتَهْزِءِيْنَ

؀ ان ٹھٹھا کرنے والوں کو ہم کافی ہیں۔

اِنَّ الَّذِيْنَ يُؤْذُوْنَ اللهَ وَرَسُوْلَهٗ لَعَنَهُمُ اللهُ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ وَاَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِيْنًا

؀ترجمہ:جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو دکھ پہنچاتے ہیں۔ اللہ نے ان پر دنیا میں بھی لعنت فرمائی اور آخرت میں بھی اور ان کے لئے رسوا کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے۔(الاحزاب57)

امریکہ اپنی ظالمانہ پالیسیوں کی وجہ سے پوری دنیا میں نفرت کی علامت بنتا جارہا ہے۔ کتے، بلیوں کے تحفظ کی تنظیمیں یورپ میں موجود ہیں مگر عراق کےاسپتالوں میں 5 لاکھ بچے دواؤں پر پابندی کی وجہ سے بلک بلک کر مرجائیں تو ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی، 17 لاکھ افغان امن کے نام پر شہید کردیئے کوئی پرواہ نہیں مگر یقینی طور پر اس دراز رسی کے کھنچنے کا وقت آگیا ہے، امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہین کہ عادل و ثقہ لوگوں نے بتایا کہ جہاد میں جب دشمن کا کوئی شہر یا قلعہ فتح نہ ہو پاتا اور ہم فتح سے مایوس ہونے کے قریب ہوتے کہ دشمن کوئی ایسی حرکت کر بیٹھتا جس میں پیغمبر علیہ السلام کی شان میں گستاخی کا اظہار ہوتا پھر ہمیں فتح کا یقین ہوجاتا اور واقعۃً ایک دو دن میں دشمن مغلوب ہوجاتا۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب سے وعدہ فرمایا ہے اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ۝ بے شک تیرا دشمن ہی لاوارث اور بے نام ہونے والا ہے۔ (الکوثر)

ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بے شک اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب سے دشمن کے ہر خیرکو کاٹ دیا ہے۔ اہل و عیال، مال و دولت سب بھلائی سے دور زندگی خیر سے خالی، دل بھلائی کو سمجھنے سے قاصر۔ مسلمانوں کو عملی طور پر اپنے نبی علیہ السلام کا مذاق اڑانے والوں سے برأت کا اظہار کرنا چاہئے۔ ان کی تہذیب ان کی معاشرت ان کی مصنوعات سب سے بائیکاٹ، اپنا رنگ ڈھنگ، تہذیب و معاشرت ، شکل و صورت، لباس و گفتار، اپنے پیارے نبی ﷺ کے اطوار میں ڈھالیں، عالمی سطح پر جب ہولو کاسٹ،یہودیوں کے قتل کی داستان کو افسانہ کہنا جرم ہے ملکہ برطانیہ کو گالی نہیں دی جاسکتی تو جمہوریت کے علم برداروں کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت تقریباً ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے جذبات کا خیال رکھنا ہوگا۔ حکمران ایمانی غیرت کا مظاہرہ کریں اور عالمی پلیٹ فارم پر عصمت انبیاء کا مسئلہ اٹھائیں نہ صرف محسن انسانیت رسول مقبول فداہ أبی و امی بلکہ تمام انبیائے کرام کی ناموس کے لئے قانون سازی کروائی جائے۔ اب اس وقت تک چین سے نہ بیٹھیں جب تک عملی طور پر کوئی راست کاروائی ہو نہیںجاتی۔یقین کریں کہ پیغمبر علیہ السلام کی شان میں گستاخی کرنےو الے ربِ تعالیٰ کے غضب سے بچ نہیں پائیں گے یہ تباہی کی سیڑھی پر قدم رکھ چکے ہیں اور تباہ ہوکر رہیں گے ان شاء اللہ۔ کفار کی یہ جسارت حقیقت میں ہماری اپنی بداعمالیوں کا شاخسانہ بھی ہے کہ مسلم امہ افتراق و انتشار کی وجہ سے اپنا رعب کھوئے بیٹھی ہے اب جبکہ حرمت کے مہینے شروع ہوچکے ہیں، جن میں بطورِ خاص ظلم سے منع فرمایاگیا ہے پھر یہ حجاج کرام کی بیت اللہ کی طرف روانگی کا وقت بھی ہے جہاں وہ اسلام کے پانچویں رکن حج کی ادائیگی کرتے ہوئے مسلمانوں کی وحدت کا بے نظیر نظارہ پیش کریں گےجہاں مختلف رنگ و نسل اور مختلف ملک و زبان کے لوگ یک لباس ہوکر توحید کا ایک ہی نعرہ لبوں پرسجائے ربّ کریم سے مغفرت کے طالب ہونگے اس مبارک سفر پر روانہ ہونے والے ملک و قوم اور عالم اسلام کےلئے دعا کریں اور پیچھے رہ جانے والوں کے لئے بھی حرمت کا مہینہ عمل صالح کی پکار ہے۔ خاص طور پر ذی الحج کے ابتدائی دس دن سال کے تمام دنوں سے افضل دن ہیں۔ جیسا کہ سیدناعبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا عمل صالح کے لئے یہ ایام یعنی ماہِ ذی الحجہ کے ابتدائی دس دن اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا یا رسول اللہ کے راستے میں جہاد کرنے سے بھی فرمایا۔ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا بھی اتنا محبوب نہیں سوائے اس شخص کے کہ اپنی جان و مال کے ساتھ نکلے اور پھر کسی بھی چیز کے ساتھ واپس نہ لوٹے۔(بخاری)

آیئے! ایک عہد کریں اپنے آپ کو، گھر کو، معاشرہ کو سدھارنے کا ایسا نہ ہو کہ مہلت عمل ختم ہوجائے اور رب کے حضور پیارے حبیب ﷺ کی موجودگی میں شرمندگی اٹھانی پڑے۔

يَوْمَ لَا يَنْفَعُ مَالٌ وَّلَا بَنُوْنَ     ؀اِلَّا مَنْ اَتَى اللّٰهَ بِقَلْبٍ سَلِيْمٍ     ؀(الشعراء89-90)

جس دن نہ مال کوئی فائدہ دے گا اور نہ اولاد۔بجز اس کے کہ کوئی اطاعت گزار دل لے کر اللہ کے حضور حاضرنہ ہو۔

ایک طرف بلوچستان اور اس کے قرب و جوار میں سیلاب نے تباہی مچادی ہے تو دوسری طرف کراچی انسانوں کی شکار گاہ بنا ہوا ہے خدارا حرمت کے مہینوں کا پاس کیجئے! اپنے بھائیوں کی مدد کیلئے بڑھئیے نیز رب کی بارگاہ میں امن و سلامتی کے لئے دامن پھیلا دیجئے کیونکہ اِنَّہٗ سَمِیْعٌ مُّجِیْبٌ وہ سننے والا اور قبول کرنے والا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے