((   قسط نمبر30   ))

تفسیر و تشریح:

وَيَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَبِالرَّسُوْلِ وَاَطَعْنَا ثُمَّ يَتَوَلّٰى فَرِيْقٌ مِّنْهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ ۭ وَمَآ اُولٰۗىِٕكَ بِالْمُؤْمِنِيْنَ   ؀

یہ (منافق) کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لائے ہیں اور ہم نے اطاعت قبول کی۔ پھر اس کے بعد ان میں سے ایک فریق (اطاعت سے) منہ پھیر لیتا ہے حقیقتاً یہ لوگ ایماندار نہیں۔

اسلام کے اظہار میں یہ لوگ جن کو منافقین کہا جاتا ہے مسلمانوں کے ساتھ ہوتے تھے کہ ہم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے لیکن اس چیز کا ثبوت ان کی زندگی سے یا انکے اعمال و افعال سے نہ ملتا تھا اسی لئے ان لوگوں کواہل ایمان کہ فہرست سے باہر نکال دیا گیا ہے کہ

وَمَآ اُولٰۗىِٕكَ بِالْمُؤْمِنِيْنَ

کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مومنین نہیں ہیں۔

اس سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ ایمان کے تقاضے صرف کلمہ پڑھ دینے سے پورے نہیں ہوتے بلکہ اس کے لیے لازم ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی جائے اور اگر کوئی یہ شرط پوری کرنے میں ناکام رہتا ہے تو ایسا شخص اپنے دعوے میں جھوٹا اور منافقین کے زمرے میں آتا ہے۔ یعنی ایمان ایک ایسی کیفیت کا نام ہے جس میں اعمال و اقوال میں اتفاق ہو اختلاف نہ ہو قول و فعل میں تضاد مسلمان کا شیوہ نہیں بلکہ مسلمان کا ایمان ایسا ہوتا ہے جس کا فعل اس کے قول کی تصدیق کرے۔

وَاِذَا دُعُوْٓا اِلَى اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ اِذَا فَرِيْقٌ مِّنْهُمْ مُّعْرِضُوْنَ ؀وَاِنْ يَّكُنْ لَّهُمُ الْحَقُّ يَاْتُوْٓا اِلَيْهِ مُذْعِنِيْنَ ؀

اور جب انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ رسول ان کے درمیان فیصلہ کرے تو کچھ لوگ اعراض کرنے لگتے ہیںاور حق ان کی موافقت میں ہو تو بڑے مطیع و منقاء ہو کر چلے آتے ہیں۔

پچھلی آیت میں ان کے دعویٔ ایمان کی حقیقت بیان کی گئی تھی اور بتایا گیا کہ یہ لوگ ایمان والے نہیں ہیں اب اس حقیقت پر ایک دلیل بیان کی جارہی ہے کہ جب ان کے درمیان کوئی مسئلہ پیدا ہوتا ہے اور اس پر ان کو یہ دعوت دی جاتی ہے اس مسئلہ کو رسول اللہ ﷺ کی عدالت میں پیش کریں وہ فیصلہ کریں گے تو ان ہی میں ایک فریق اعراض کا رویہ اختیار کرلیتا ہے۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ منافقین کی یہ عادت بد تھی کہ وہ اپنے فیصلے یہود کی عدالتوں میں لے جاتے جہاں کے قاضی و حکام کو رشوت کے ذریعے من مانے فیصلے کروانے میں ان کو آسانی ہوتی چونکہ یہود تحریف و تبدیل کے بعد ان کا دین خواہشاتِ نفسانی پر تعبیر تھا لہٰذا اپنی مرضی کے فیصلےکروانے میں ان کو آسانی رہتی تھی اور اگر منافقین کو اس بات کی توقع ہوتی کہ رسول اللہ ﷺ کی عدالت میں فیصلہ ان کے حسبِ منشا ہوگا توپھر بطورِ ریاکاری وہ اپنے مقدمے رسول اللہ ﷺ کی عدالت میں لے آتےاگر ایسی توقع نہ ہوتی تو اپنے مقدمات یہود کی عدالتوں میں لے جاتے۔ لہٰذا ان کا بعض اوقات رسول اللہ ﷺ کی عدالت میں مقدمہ پیش کرنے کا مطلب عدل و انصاف سے محبت یا اطاعت رسول ﷺ مقصود نہ ہوتی تھی بلکہ اپنی غرض اور فائدہ مقصود ہوتا تھا۔ قرآن مجید نے اس روش کوشرک کرنے کے زمرے میں گردانا ہے۔

اَفِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ اَمِ ارْتَابُوْٓا اَمْ يَخَافُوْنَ اَنْ يَّحِيْفَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ وَرَسُوْلُهٗ ۭ بَلْ اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ ؀

کیا ان کے دلوں میں (نفاق کا) روگ ہے یا وہ شک میں پڑے ہوئے ہیں یا وہ اس بات سے ڈرتے ہیں کہ اللہ اور اس کا رسول ان کی حق تلفی کر جائیں گے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ خود ہی ظالم ہیں۔

لفظ مرض قرآن مجید نے شرک، حسد، نفاق وغیرہ کے لئے استعمال کیا ہے۔ منافقین کے لئے دلوں کی بیماری ایک بطورِ استعارہ کے استعمال ہوئی ہے مراد ان کے ایمان کے دعویٰ کی حقیقت بیان کرنا ہے کہ ایمان کا محل ہوتا ہے اور ان کا قلب چونکہ صالح نہیں ہے اور ایمان کا مستقر صرف قلبِ صالح ہے نہ کوئی ایسی جگہ جہاں شکوک و شبہات کی فضا ہو ریا کاری اور مکروفریب کے مظاہر ہوں خود غرض اور مفاد پرستی کے جذبات عام ہوں۔

اس آیت میں ربّ العالمین نے سوالوں کے ذریعے اس بات کو دھرایا ہے کہ ایمان اور نفاق ایک جگہ پر اکٹھے نہیں ہوسکتے جیسے کفر اور ایمان کا ایک جگہ جمع ہونا ممکن نہیں ایسے ہی ایمان اور نفاق ایک جگہ نہیں جمع ہوسکتے اور ان کی یہ جرأت اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ یہ اپنی ذات کے فوائد کے سامنے اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر بھی الزام تراشی سے باز نہیں آتے۔ یہ لوگ واقعی ظالم ہیں ایک طرف تو اللہ اور رسول پر ایمان کے دعوے اور دوسری جانب یہ بے یقینی اور بے اعتباری کے مظاہرے۔۔۔ استغفر اللہ

اِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذَا دُعُوْٓا اِلَى اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ اَنْ يَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ   ؀وَمَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَيَخْشَ اللّٰهَ وَيَتَّقْهِ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْفَاۗىِٕزُوْنَ ؀

مومنوں کی تو بات ہی یہ ہوتی ہے کہ جب انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جائے تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے تو وہ کہتے ہیں کہ ’’ہم نے سن لیا اور اطاعت کی ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے، اللہ سے ڈرے، اور اس کی نافرمانی سے بچتا رہے تو ایسے ہی لوگ بامراد ہیں۔(النور51-52)

اہل نفاق کا تذکرہ کرنے کے دوران اہل ایمان کی مثال بطورِ تہدید بیان فرمائی یہ مثال بھی منافقین کے دعویٰ کے بطلان پر ایک دلیل ہے کہ اگر وہ لوگ ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں تو ان کا رویہ پھر اہل ایمان جیسا ہونا چاہئے۔

بلا تردد و تذبذب اور بلا انحراف سمع و اطاعت

اہل ایمان کی شان تو یہ ہوتی ہے کہ انہیں جب اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جائے تو وہ فوراً بلا جھجھک لبیک کہتے ہوئے آجاتے ہیں اور نہ صرف آتے ہیں بلکہ اس کو دل سے قبول بھی کرتے ہیں۔

اس سے ایک اور بھی فائدہ ملتا ہے وہ یہ ہے کہ مسلمان اپنی زندگی میں پابند ہے کہ اپنے مسائل کا حل کتاب و سنت میں تلاش کرے خواہ وہ مسائل معاشرتی ہوں، دینی ہوں، عائلی، سماجی ہوں غرضیکہ ان کا تعلق کسی بھی شعبہ حیات سے ہو، اسی بات پر اللہ تعالیٰ نے نجات کا دارومدار بتایا ہے کہ

وَمَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَيَخْشَ اللّٰهَ وَيَتَّقْهِ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْفَاۗىِٕزُوْنَ ؀52

اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے، اللہ سے ڈرے، اور اس کی نافرمانی سے بچتا رہے تو ایسے ہی لوگ بامراد ہیں۔

یعنی ایمان بغیر عمل مفید نہیں ہے اور ایسے ہی اطاعت الہٰیہ بغیر خشیت الٰہی و تقویٰ کے ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ یہ خشیت اور تقویٰ مسلمان کو اطاعت کے حقیقی مفہوم سے روشناس کروانے کے بعد ان کو مقرر کردہ حدود تک محدود رکھتا ہے۔

وَاَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ لَىِٕنْ اَمَرْتَهُمْ لَيَخْرُجُنَّ ۭ قُلْ لَّا تُقْسِمُوْا ۚ طَاعَةٌ مَّعْرُوْفَةٌ ۭ اِنَّ اللّٰهَ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ   ؀ قُلْ اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ ۚ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَيْهِ مَا حُمِّلَ وَعَلَيْكُمْ مَّا حُمِّلْتُمْ ۭ وَاِنْ تُطِيْعُوْهُ تَهْتَدُوْا ۭ وَمَا عَلَي الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِيْنُ ؀54-53

(منافقین ) اللہ کی پختہ قسمیں کھا کر (رسول سے) کہتے ہیں کہ اگر آپ انہیں حکم دیں تو وہ ضرور (جہاد پر) نکلیں گے آپ ان سے کہئے کہ قسمیں نہ کھاؤ۔ مطلوب (قسمیں نہیں بلکہ) دستور کے مطابق اطاعت ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔آپ ان سے کہئے کہ اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو پھر اگر تم اطاعت نہیں کرو گے تو رسول کے ذمہ تو وہی کچھ ہے جس کا وہ مکلف ہے (یعنی تبلیغ کا) اور تمہارے ذمہ وہ کچھ ہے جس کے تم مکلف ہو (یعنی اطاعت کے) اور اگر تم رسول کی اطاعت کرو گے تو ہدایت پا جاؤ گے اور رسول کی ذمہ داری صرف یہ ہے کہ صاف صاف پیغام پہنچا دے۔

اہل ایمان کے کردار کی ایک مثال ترغیباً و ترھیباً بیان کرنے کے بعد پھر موضوع منافقین کے منفی کردار کی طرف مڑگیا ہے کہ منافقین کی زندگی چونکہ دنیاوی اغراض و متاع کے لئے گزرتی ہے لہٰذا ان کی زندگی کا مقصد بھی تعیش پرستی ہوتا ہے اوراس لئے وہ موت سے بھی ڈرتے ہیں اور واضح رہے کہ موت سے ڈرنے میں منافقین اور یہود مشترک ہیں۔ چونکہ آخرت پر یقین نہیں ہوتا اور دنیاوی زندگی میں ان کے نزدیک سب کچھ ہوتی ہے لہٰذا ان کی جدو جہد کا مرکز دنیاوی اغراض ہوتا ہے۔ اور اس کے حصول کے دوران کبھی کبھار ایسے مواقع بھی آجاتے ہیں کہ دین اسلام سے محبت پربڑی بڑی قسمیں کھاتے ہیں اور جب وقت آتا ہے تو سب ادھر ادھر ہوجاتے ہیں ان کے اس طرزِ عمل پر اللہ ربّ العزت نے اپنے محبوب سے فرمایا ہے کہ قسمیں زیادہ نہ کھاؤ کہ زیادہ قسمیں کھانا عمل کا بدل نہیں بن سکتی، اصل چیز اللہ اور اس کے رسول کی غیر مشروط اطاعت ہے اگر وہ موجود نہیں تو کسی بھی قِسم کی قَسم مفید نہیں بلکہ الٹا نقصان ہے۔

اس میں مسلمانوں کے لئے بھی ایک درس ہے کہ اپنی روز مرہ زندگی کے دوران اپنی باتوں کی سچائی کے لئے قسمیں نہ کھایا کریں کہ اگر قسم نہ پوری ہوئی تو پھر کفارہ قسم وغیرہ دینا پڑے گا۔

اور منافقین کو ان قسموں سے منع کرنے کا مقصد یہ ہے کہ تم ان قسموں سے سب کو دھوکا دے سکتے ہو لیکن اللہ ربّ العزت تو دلوں کا حال جانتا ہے وہ تمہارے ہر قول و فعل سے بخوبی واقف ہے اسے دھوکا دینا ممکن نہیں ہے۔ زیادہ قسمیں کھانے کی اصل وجہ یہ ہوتی ہے کہ جہاں کردار کی سچائی موجود نہ ہو تو وہاں اپنی بات کو معتبر کرنے کے لئے قسم کھاتا بھی ہے تو صرف اللہ تعالیٰ کی کبریائی بیان کرنے کے لئے

اور آیت کے آخر میں ایک اہم بات کہ اللہ کے رسول کا فریضہ اس دعوت کو پہنچادینا ہے اس سے آگے ان کی ذمہ داری نہیں ہے۔ لہٰذا اگر تم اپنے آپ کو سچا ثابت کرنا چاہتے ہو تو اس کے سامنے پیش کرو جس سے کوئی بات چھپی ہوئی نہیں ہے جو ابتداء سے ہے ، آخر تک ہوگا۔

فوائد:

1 منافقین اسلام کا اقرار صرف زبان سے کرتے ہیں اور بباطن کفر سے محبت رکھتے ہیں۔

2 منافقین کے مدنظر صرف اپنا فائدہ ہوتا ہے۔

3 ایمان صرف کلمہ پڑھنے کا نام نہیں عمل صالح بھی اس کے ساتھ لازم ہے۔

4 منافقین کا شمار مشرکین میں بھی کیا جاتا ہے کہ شرک فی الحکم کے مرتکب بھی ہوتے ہیں ۔

5 منافقین کے قول و فعل میں تضاد ہوتا ہے۔

6 منافق کی زندگی کا آغاز ’’میں ‘‘ سے شروع ہوکر انجام ’’میرے لئے‘‘ پر ہوتا ہے۔

7 منافقین کے اعمال میں ہی اخلاص نہیں ہوتا۔

8 اہل ایمان کی اطاعت بلا تردد و تذبذب اور بلا انحراف ہوتی ہے۔

9 ایمان بغیر عمل کے اور اطاعت الٰہیہ و رسالت بغیر خشیت الہی و تقویٰ کے ناممکن ہے۔

10 جہاد سے منہ پھیرنا منافقین کا شیوہ ہے۔

11 جہاد سے منہ پھیرنے سے مراد اس کی فرضیت، محل کے بارے میں صرف باتیں کرنا ہے۔

12 جہاد سے تخلّف نفاق کی علامت ہے۔

13 کتاب و سنت کو حاکم بنانا واجب ہے۔

14 جس کو کتاب و سنت کی طرف بلایا جاتا اگر وہ منہ پھیرے تو یہ نفاق کی علامت ہے۔

15 کتاب و سنت کے قوانین کے علاوہ قوانین وضعیہ کی اتباع کفر و شرک ہے۔

16 اطاعتِ الہٰیہ اور تقویٰ و خشیت کی فضیلت صرف اس کے حاملین ہی نجات پانے والے ہونگے

۔۔۔۔۔ جاری ہے۔۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے