نہایت ادب واحترام کے ساتھ السلام علیکم

گذارش ہے کہ سائل عبد الرحمن کو ایک مسئلہ درکار ہے، قرآن وسنت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔ بڑی نوازش ہوگی۔ شکریہ

سائل عبد الرحمن کی عمر ابھی ایک سال سے کم تھی کہ جب ایک دن اس کی والدہ اسے اس کی خالہ کے پاس چھوڑ کر بازار کسی کام سے گئیں اور کہا کہ وہ اسے سیر کراچکی ہیں اب یہ سو رہا ہے اور ایک گھنٹے تک بھی نہیں جاگے گا میں جلدی لوٹ آؤں گی۔ طارق کی والدہ کو ابھی گئے ہوئے 10 سے 15 منٹ ہی ہوئے تھے کہ وہ جاگ گیا اور بری طرح سے رونے لگا تب اس کی خالہ نے اسے دودھ پلادیا اس کی خالہ کا کہنا ہے کہ اس نے ابھی تھوڑا سا یا چند گھونٹ ہی پیا تھا کہ اس نے میری شکل کی طرف دیکھا اور فوراً ہی دودھ پینا چھوڑ دیا اب عبد الرحمن اس کی خالہ کی چھوٹی بیٹی جو کہ عمر میں اس سے 2 سال چھوٹی ہے سے شادی کرنا چاہتا ہے کیا اس کا رشتہ خالہ کی بیٹی سے ہوسکتا ہے یا نہیں۔قرآن و سنت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔ عین نوازش ہوگی

السائل: عبد الرحمن

الجواب بعون الوہاب

الحمد للہ وحدہ، والصلاۃ والسلام علی من لا نبی بعدہ، اما بعد

شریعت اسلامیہ نے رضاعت یعنی دوھ کے رشتہ کو بھی وہی احترام اور حرمت دی ہے جو نسب کو حاصل ہے ، ارشاد باری تعالی ہے:

وَاُمَّھٰتُكُمُ الّٰتِيْٓ اَرْضَعْنَكُمْ وَاَخَوٰتُكُمْ مِّنَ الرَّضَاعَةِ (النساء 22 )

اور تم پر تمہاری وہ مائیں بھی حرام ہیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا اور تمہاری رضاعی بہنیں بھی ۔

اس آیت کریمہ نے دودھ کے رشتہ کی حرمت کی تصریح فرمائی، تاہم رضاعت سے مجموعی طور پر کونسے رشتے حرام ہیں ، رضاعت کس عمر میں مؤثر ہے اور اس کی کتنی مقدار موجب حرمت ہے ، یہ سب امور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائے اور معلوم ہے کہ آپ کا بیان بھی وحی إلہی پر مبنی ہے ۔

چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا:یحرم من الرضاع مایحرم من النسب

رضاعت سے بھی وہ تمام رشتے حرام ہوجاتے ہیں جو نسب سے حرام ہوتے ہیں ۔(مسلم:کتاب الرضاعۃ،بخاری5111)

رضاعت کی عمر کے بارے میں فرمایا :

“إنما الرضاعۃ من المجاعۃ
(مسلم: کتاب الرضاع، بخاری:5102)

یعنی “رضاعت وہی معتبر ہے جو بچے کی بھوک مٹائے ” یعنی وہ دودھ جو بچہ دودھ پینے کی عمر پیتاہے ۔

جہاں تک اس امر کا تعلق ہے کہ کتنی مقدار سے حرمت ثابت ہوتی ہے ، تو ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

لا تحرم المصۃ ولا المصتان (صحیح مسلم )

ایک یا دو دفعہ کا دودھ پینا حرمت کا موجب نہیں بنتا ۔

اسی طرح سیدہ امّ الفضل رضی اللہ عنہا (عبد اللہ بن عباس کی والدہ ماجدۃ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر تشریف رکھتے تھے کہ ایک اعرابی آیا اور عرض کی اے اللہ کے نبی میری ایک بیوی تھی پھر میں نے اس پر دوسری عورت سے نکاح کرلیا تو میری پہلی بیوی کہنے لگی میں نے تمہاری نئی بیوی کو ایک بار دودھ پلایا ہوا ہے ، اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

لا تحرم الإملاجۃ ولا الإملاجتان (مسلم )

ایک یا دو دفعہ کا دودھ پینا موجب حرمت نہیں ہے ۔

اس مضمون کی تائید میں بہت سی صحیح اور صریح احادیث وارد ہیں تاہم سیدنا ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ کی بیوی سہلہ بنت سہیل رضی اللہ عنہا کے قصے میں ایسی وضاحت ہے جو بہت سے شکوک وشبہات کا شافی جواب ہے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ہم سالم کو اپنا بیٹا ہی سمجھتے تھے اور وہ ہمارے گھر میں آزادانہ آتا جاتاتھا لیکن اب جبکہ ُمنہ بولے بیٹوں کے بارے میں نیا حکم آیاہے تو میں اپنے شوہر کے چہرے پر ناگواری کے اثرات دیکھتی ہوں ، یہ روایت صحیح مسلم سمیت بہت سی کتابوں میں واردہے ، موطامالک اور مسند احمد کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے پانچ مرتبہ دودھ پلادو ، اس طرح وہ تم پر حرام ہوجائے گا۔

اگر پانچ سے کم رضعات سے حرمت ثابت ہوتی تو اس نادر صورت میں انہیں پانچ رضعات کا حکم نہ دیا جاتا بلکہ ایک پر ہی اکتفا کردیا جاتا ۔

سوال میں ذکر کی گئی صورت میں بشرطِ صحتِ بیان حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوئی اس لیئے کہ رسول اللہ e کا فرمان ہے :

ایک یا دو دفعہ کا دودھ پینا باعثِ حرمت نہیں ہوتا اور نہ ایک یا دو دفعہ چھاتی کو منہ میں لینا حرمت کا باعث ہوتاہے ۔(صحیح مسلم کتاب الرضاعۃ حدیث نمبر 2631 )

محترم عبد الرحمن صاحب! بشرطِ صحت سوال مسؤلہ کا جواب یہ ہے کہ ایک دفعہ دودھ پینے سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی ہے کیونکہ راجح قول کے مطابق حرمتِ رضاعت ثابت ہونے کے لئے کم از کم پانچ مرتبہ دودھ پینا ضروری ہے۔ جیسا کہ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ

کان فیما انزل القرآن عشر رضعات معلومات یحرمن ثم نسخ بخمس رضعات فوفي رسول اللہﷺ۔ و ھن فیما یقرأ من القرآن۔

یعنی اوائل احکامِ قرآن میں دس دفعہ دودھ پینے پر حرمت رضاعت ثابت ہوتی تھی بعد میں پانچ دفعہ رضاعت کے حکم سے پہلا حکم منسوخ کردیا گیا اور وفاتِ نبی ﷺ تک یہی پانچ رضاعت والی آیت کی تلاوت کی جاتی تھی۔ (یعنی تلاوت کے منسوخ ہونے کا علم نہ ہونے کی وجہ سے)(دیکھئے: صحیح مسلم حدیث نمبر1452، سنن ابی داؤد:2062، ترمذی:1150، ابن ماجہ:1942)

مذکورہ بالااحادیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ حرمت رضاعت ثابت ہونے کے لئے کم از کم پانچ مرتبہ دودھ پینا بھی لازمی ہے لہٰذا اگر آپ اپنی خالہ کی بیٹی سے شادی کرنا چاہیں تو جائز ہے۔

واللہ اعلم بالصواب، وصلی اللہ علی نبینا محمد وعلی اٰلہ و صحبہٖ اجمعین۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے