سوال:یورپین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جو توہین کی وہ ہم سب نےسنی، چنانچہ اس سلسلہ میں ہمارا موقف کیا ہونا چاہیے؟ اور ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کس طرح کرنا ہو گا ؟

جواب:

الحمد للہ:

اول: پہلی بات تو یہ ہے کہ ان بےوقوفوں اور مجرموں نے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جو توہین کی ہے، وہ ہمارے لیے بلکہ ہر دینی غیرت رکھنے والے غیور مسلمان کے لیے تکلیف دہ ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسی شخصیت ہیں جو اس دنیا پر قدم رکھنے والوں میں سب سے افضل و بہتر ہیں، اور وہ سب پہلے اور بعد والوں کے سردار ہیں، اللہ تعالی کی ان پر رحمتیں اور سلامتی ہو۔

اس جیسی بےشرمی اور بے حیائی اور قبیح فعل کا ان سے سرزد ہونا کوئی اچھنبے اور بعد کی بات نہیں، یہ اس کے اہل ہیں اور اس کے حقدار ہیں۔

پھر یہ برا اور شنیع فعل ـباوجود اس کے کہ اس سے ہمارے دل پھٹ رہے ہیں، اور ہمارے دل غیض و غضب سے بھر رہے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی جانیں قربان کر دیں ـ مگر ہم ان کے اس قبیح اور شنیع فعل سے خوش ہیں کیونکہ یہ ان کی ہلاکت اور ان کی حکومت کے زوال کے قرب کی نشانی ہے۔

اللہ سبحانہ و تعالی کا فرمان ہے:

’’ آپ سےجو لوگ مسخرا پن کرتے ہیں ان کی سزا کے لیے ہم کافی ہیں ‘‘ ( الحجر :95 )۔

اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین اور ان کا مذاق اڑانے والے مجرموں کو سزا دینے کے لیے اللہ تعالی کافی ہے، اور پھر اللہ سبحانہ و تعالی کا یہ بھی فرمان ہے:

’’ بلا شبہ آپ کا دشمن اور آپ سے غضب رکھنے والا شخص ہی لاوارث اور بے نام و نشان ہے ‘‘ (الکوثر :۳ )۔

یعنی وہ حقیر و ذلیل اور ہر خیر و بھلائی سے محروم ہے۔

اور سیرت و تاریخ میں یہ واقعہ موجود ہے کہ جب مسلمان کسی قلعہ والوں کا محاصرہ کرتے، اور ان پر فتح مشکل اور دشوار ہوتی، اور پھر وہ ان کفار اور قلع والوں کو سنتے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو برا کہتے اور ان کی توہین کرتے ہیں، تو وہ مسلمان فتح قریب ہونے کی علامت و بشارت سمجھتے، اور پھر کچھ وقت ہی گزرتا کہ اللہ سبحانہ و تعالی اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کا انتقام لیتے ہوئے اپنی جانب سے مسلمانوں کو فتح و کامرانی نصیب فرما دیتا۔ دیکھیں: (الصارم المسلول (116 / 117)

تاریخ اس پر شاہد ہے کہ جس نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی اور گستاخی کا مرتکب ہوا اس کو ذلیل و رسوا کر کے ہلاک کر دیا گیا۔

پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ لوگ سید البشر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کس چیز کا انتقام لینا چاہتے ہیں ؟!

یہ لوگ اس بات کا انتقام لیتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی کی توحید اور وحدانیت کی دعوت دی، اور یہ لوگ اللہ تعالی کی وحدانیت پر ایمان نہیں رکھتے۔

وہ اس کا انتقام لیتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پروردگار کی تعظیم کی، اور ان افتراپردازوں کے اقوال سے اللہ تعالی کو پاک کیا، کیونکہ یہ کفار اللہ تعالی کی طرف بیوی اور اولاد منسوب کرتے ہیں، اللہ تعالی اس سے پاک ہے۔

یہ لوگ اس بات کا اتنقام لیتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اخلاق فاضلہ اور بلنداخلاق کی دعوت و تعلیم دی، اور برے اخلاق کو اختیار نہیں کیا، اور فضیلت و شرف کی دعوت دی، اور ہر اس دروازے کو بند کیا جو غلط اور فحاشی کی طرف جاتا ہے، اور یہ لوگ اخلاقی بگاڑ اور فحاشی چاہتے ہیں۔

یہ لوگ فحاشی اور غلط کاموں میں غرق ہونا چاہتے ہیں، اور جو انہوں نے چاہا وہی کر دکھایا!

یہ لوگ اس کا اتنقام لے رہے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کے رسول ہیں!! حالانکہ اللہ سبحانہ و تعالی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سب لوگوں میں سے اپنی رسالت و وحی کے لیے چنا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی نشانیاں اتنی زیادہ ہیں کہ شمار ہی نہیں کی جا سکتیں۔

کیا ان لوگوں نے چاند دو ٹکڑے ہونے کا واقعہ نہیں سنا ؟

کیا ان لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں سے کئی بار پانی کے چشمے جاری ہونے کے متعلق کچھ نہیں سنا ؟

کیا انہوں نے اس کی سب سے بڑی نشانی کے متعلق نہیں سنا کہ یہ قرآن کریم جو رب العالمین کا کلام ہے، جسے اللہ سبحانہ و تعالی نے کئی صدیاں بیت جانے کے باوجود اسے تحریف سے محفوظ رکھا ہے، لیکن ان کے انبیاء پر نازل کردہ کتابیں تحریف کا شکار ہو چکی ہیں اور ان لوگوں نے خود اس میں تحریف و تبدل کر رکھا ہے۔

اللہ سبحانہ و تعالی کا فرمان ہے:

’’ان لوگوں کے لیے ویل و ہلاکت ہے جو اپنے ہاتھوں سے لکھی ہوئی کتاب کو اللہ تعالی کی جانب سے قرار دیتے ہیں، اور اس طرح دنیا کماتے ہیں، ان کےہاتھوں کی لکھائی کواور ان کی کمائی کو ہلاکت اور افسوس ہے ‘‘(البقرۃ: 79 )

بلکہ ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صدق و سچائی کی سب سے بڑی دلیل کئی صدیاں بیت جانے کے باوجود دین اسلام کا ظاہر و منصور رہنا ہے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی میں بھی یہ دین ہمیشہ بلندو ظاہراور دشمنوں پر غالب رہا، اور اللہ سبحانہ و تعالی کی حکمت کے خلاف ہے کہ اس پر اور اس کے دین کے بارہ میں جھوٹ بولنے والا اتنی مدت اس زمین میں غالب و ظاہر رہے۔

بلکہ ان کی کتابوں میں یہ بات موجود ہے جو ان کے علماء نے چھپا کر رکھی اور اس میں تحریف کر دی کہ کذاب ( جھوٹا نبی ) کے لیے تیس برس سے زائد باقی رہنا ممکن ہی نہیں پھر اس کا معاملہ ختم ہو جائیگا۔

جیسا کہ ان کے ایک بادشاہ کے بارےمیں بیان کیا جاتا ہے کہ اس کے پاس اس کے دین کو ماننے والا ایک ( نصرانی ) شخص لایا گیا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرتا تھا، اور انہیں جھوٹا قرار دیتا تھا، تو اس بادشاہ نے اپنے دین کے علماء کو جمع کیا اور ان سے دریافت کیا: جھوٹا اور کذاب کتنی مدت تک باقی رہتا ہے ؟

تو انہوں نے جواب دیا: اتنی اتنی مدت یعنی تیس برس کی مدت تک، تو بادشاہ کہنے لگا: اور یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دین تو پانچ یا چھ سو برس سے بھی زائد تک باقی ہے، ( یعنی اس بادشاہ کے وقت تک ) اور یہ دین ظاہر ہے اور اس کے پیروکار اس کی پیروی کر رہے ہیں، تو پھر یہ جھوٹا اور کذاب کیسے ہو سکتا ہے ؟ پھر اس بادشاہ نے اس شخص کی گردن اتار دی۔ (شرح العقیدۃ الاصفھانیۃ ،تالیف شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ )

کیا انہیں یہ معلوم نہیں کہ ان کے اکثر دانش مند ، بادشاہ اور علماء تک جب اس دین اسلام کی صاف اور شفاف دعوت پہنچی تو وہ اس دین کے صحیح ہونے کا اقرار کیے بغیر نہ رہ سکے، اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کی، اور بہت ساروں نے تو اسلام قبول کرنے کا اعلان کر دیا۔

حبشہ کے بادشاہ نجاشی نے اس کا اقرار کرتے ہوئے اسلام قبول کرنے کا اعلان کر دیا۔

اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روم کے بادشاہ ہرقل کو اسلام کی دعوت دیتے ہوئے خط لکھا تو ہرقل نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت صحیح ہونے کا اقرار کیا، اور اس نے اسلام قبول کرنے کا ارادہ ظاہر کیا اور خواہش کی کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خادم اور نوکر بن جائے لیکن اس نے اپنی جان اور اہل ملت کے ڈر سے اسلام قبول نہ کیا اور کفر کی حالت میں ہی مر گیا۔

معاصرین عیسائیوں اور یہودیوں میں سے بھی آج تک بہت سارے افراد اس کا اعلان بھی کر رہے ہیں:

۱ـ مائیکل ہارٹ اپنی کتاب ” سو ہمیشہ رہنے والے ” کے صفحہ 13 پر لکھتا ہے، اس میں اس نے سب سے پہلے نمبر پر ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ذکر کیا ہے:

’’میں نے اس فہرست میں سب سے پہلے نمبر پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اس لیے چنا ہے کہ …… کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی انسانی تاریخ کےوہ واحد شخص ہیں جو دینی اور دنیاوی طور پر مکمل کامیاب رہے‘‘۔

۲۔اور انگریز مفکرجارج برنارڈشاہ جسے برطانوی حکومت نے جلا کر ہلاک کر دیا تھا وہ اپنی کتاب ” محمد صلی اللہ علیہ وسلم ” میں لکھتا ہے:

’’ پوری دنیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسے مرد کی سوچ کی محتاج ہے، قرون وسطی کے دینی افراد نے جہالت یا تعصب کی بنا پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کا غلط تصور پیش کیا ہے، اور وہ اسے عیسائیت کا دشمن تصور کرتے رہے ہیں، لیکن میں نے تو اسے ایسا شخص پایا ہے جو بڑا صابر اور بہت عجیب ہے، جس سے میں اس فیصلہ پر پہنچا ہوں کہ یہ شخص عیسائیت کا دشمن نہیں تھا، بلکہ اسے بشریت کا نجات دہندہ کہنا ضروری ہے، اور میری رائے تو یہ ہے کہ اگر وہ آج دنیا کا حکمران بن جاتا تو ہماری ساری مشکلات حل کر دیتا، جس سے امن و امان ا۔ور سعادت حاصل ہوتی جسے بشریت ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی ہے‘‘۔

۳۔اور آئن پیزٹ کہتا ہے:

’’جو شخص عرب کے عظیم نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی سیرت کا مطالعہ کرتا ہے، اور اسے اس نبی کی طرز زندگی اور معیشت کا علم ہو اور یہ جانتا ہو کہ اس نے لوگوں کو کیسے تعلیم دی تو ایسے شخص کے لیے مستحیل ہے کہ وہ اس جلیل القدر نبی کی عظمت اور اسے عظیم رسولوں میں سے ایک عظیم رسول محسوس نہ کرے ‘‘۔

۴۔ شبرک نمساوی کہتا ہے:

’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسے شخص کی طرف منسوب ہونے پر بشریت کو فخر ہونی چاہئے، کہ ان پڑھ ہونے کے باوجود وہ شخص چودہ صدیاں قبل ایسی شریعت لایا کہ جسکی بلندی تک اگرہم یوروپی پہنچ سکیں تو ہمارے لیے بہت ہی سعادت مندی ہوگی‘‘۔

۵۔ کینڈین متشرق ڈاکٹر زویمر لکھتا ہے:

’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم بہت بڑا ، قدر والا ،مصلح ،فصیح و بلیغ، بڑا بہادر کمانڈو اور عظیم مفکر تھا، ان صفات کے منافی کوئی بھی بات اس کی جانب مسنوب کرنی جائز نہیں۔

اور یہ قرآن مجید جسے وہ لایا اور تاریخ دونوں اس کے دعوی کے صحیح ہونے کے شاہد ہیں ‘‘۔

۶۔ انگریز فلسفی ٹامس کارلیل جو نوبل انعام یافتہ ہے اپنی کتاب ” ہیروز ” میں لکھتا ہے:

’’اس زمانے میں کسی بھی بات چیت کرنے والے شخص کے لیے یہ بہت بڑی عار بن چکی ہے کہ کہا جائے: دین اسلام جھوٹا دین ہے، اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) دھوکہ باز اور جعل ساز تھا ،ہم نے دیکھا ہے کہ وہ اپنی ساری زندگی ابتدائی رسوخ اور صدق عزم اور بہت نیک و سخی ، اور رحم دل متقی، فاضل آزاد مرد ،بہت کد و کاوش کرنے والا اور مخلص شخص تھا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ بہت نرم خو اور آسان پہلو کا مالک، بشریت کو اکٹھا کرنے والا ،بہت اچھی زندگی بسر کرنے والا، الفت و محبت کا منبع تھا، بلکہ بعض اوقات تو وہ ہنسی و مزاح اور کھیل کود بھی کرتا تھا۔ وہ بہت عدل و انصاف والا، سچی نیت کا مالک اور بہت ذہین اور فہم و فراست کا مالک، ذکی، اور نرم طبیعت کا تھا، گویا کہ اس کے سامنے چراغ روشن ہے ساری رات روشن ہے، نور سے پر ہے، وہ عظیم الفطرت مرد تھا، نہ تو اس نے کسی مدرسہ اور سکول میں پڑھا، اور نہ ہی کسی استاد و معلم نے اسے تعلیم دی ؛کیونکہ وہ اس سے بےنیازتھا‘‘۔

۷۔جرمن ادیب جوٹا کہتا ہے:

’’ہم سب یورپین لوگوں اپنی فہم و فراست کے باوجود ابھی وہاں تک نہیں پہنچ سکے جہاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم پہنچ چکا تھا، اور ان سے آگے کوئی بڑھ بھی نہیں سکتا، میں نے تاریخ کا مطالعہ کیا اور کسی اعلی انسان کی مثال تلاش کی تو وہ مجھے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں نظر آئی، اور اسی طرح حق کا ظاہر اور بلند ہونا ضروری و واجب ہے، جس طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم کامیاب ہوئے جنہوں نے ساری دنیا کو کلمہ توحید کےذریعہ اپنامطیع کر لیا ، اگر تو یہ ایسے ہی تھا تو پھر ساری دنیا کے لیے ـ اور اس کے بغیر ان کے لیے کوئی چھٹکارا بھی نہیں ـ واجب اور ضروری ہے کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم وتقدیرساری مخلوق سے زیادہ کریں اور اس کی عزت و احترام ہر کسی کی عزت و تکریم سے زیادہ ہونی چاہیے، اور ساری دنیا کے لیے ضروری ہے کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لائیں اور یہ کہ وہ اللہ تعالی کے آخری نبی ہیں۔

اور ہم اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے ان لوگوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دیتے ہیں، کیونکہ ان لوگوں کے ہاتھوں سے جو جرم سرزد ہوا ہے وہ اسلام قبول کرنے سے ہی مٹ سکتا ، لیکن اگر یہ لوگ تکبر اور دشمنی کرتے ہوئے اپنے کیے پر اصرار کرتے اور توہین رسالت پر مصر رہتے ہیں تو پھر انہیں آگ کے عذاب کی نوید سن لینی چاہیے کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ جہنم کے عذاب میں جلتے رہیں گے:

اللہ سبحانہ و تعالی کا فرمان ہے:

’’ یقین جانو کہ جو شخص اللہ کے ساتھ شریک کرتا ہے اللہ تعالی نے اس کے لیے جنت حرام کر دی ہے، اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے، اور گنہگاروں کی مدد کرنے والا کوئی بھی نہیں ہو گا‘‘ (المآئدۃ :72)

اور ایک مقام پر ارشاد باری تعالی اس طرح ہے:

’’اور جو کوئی بھی دین اسلام کے علاوہ کوئی دوسرا دین تلاش کریگا، اس کا دین قبول نہیں کیا جائیگا، اور وہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں سے ہو گا‘‘(آل عمران : 85 )

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) کی جان ہے اس امت میں سے کوئی بھی یہودی اور عیسائی میرےبارے میں سنے اور میری رسالت اور دین پرایمان لائے بغیر مر جائے تو وہ جہنمی ہے‘‘ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 153)

دوم:

اللہ سبحانہ و تعالی حکیم وقدیر ہے، وہ ایسی چیز مقدر نہیں کرتا جو صرف خالصتاً شر ہو، بلکہ اس میں مومن بندوں کے لیے کوئی نہ کوئی ضرور خیر و بھلائی ہوتی ہے، چاہے لوگوں کے لیے وہ جتنی بھی بری ظاہر ہوتی ہو، اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا ہے:

مومن کا معاملہ بڑا ہی عجیب ہے اس کا سارا معاملہ ہی خیر و بھلائی پر مشتمل ہے، اور یہ مومن کے علاوہ کسی دوسرے کے لیے نہیں، اگر اسے اچھائی اور بہتری حاصل ہوتی ہے اوروہ اس پر شکر کرتا ہے تو یہ اس کے حق میں بہتر ہے، اور اگر اسے کوئی تکلیف واذیت پہنچتی ہےاور وہ اس پر صبر کرتا ہے تو یہ اس کے حق میں بہتر ی کا سبب ہے صحیح مسلم حدیث نمبر ( 2999 )

دیکھیے حادثہ اِفک یعنی سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا پر بہتان والا واقعہ معروف ہے جس کے متعلق اللہ سبحانہ و تعالی کا فرمان ہے:

’’ تم اسے اپنے لیے برا اور شر نہ سمجھو، بلکہ یہ تو تمہارے حق میں بہتر ہے، ہاں ان میں سے ہر ایک شخص کو اتنا گناہ ہے جتنا اس نے کمایا ہے، اور ان میں سے جس نے اس کے بہت بڑے حصے کو سرانجام دیا ہے اس کے لئےعذاب بھی بہت بڑا ہے‘‘(النور :۱۱ )

اس جرم (استہزاء )کے نتیجہ میں مرتب ہونے والی مصلحتیں درج ذیل ہیں:

۱۔ ان مجرموں کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف حسد و بغض اور کینے کا اظہار، اگرچہ انہوں نے بہت سارے حالات میں یہ ظاہر بھی کیا تھا کہ وہ صلح کر چکے ہیں اور معاہد میں شامل ہیں:

فرمان باری تعالی ہے:

’’ ان کی عداوت و دشمنی تو ان کی زبانوں سے ظاہر ہو چکی ہے، اور جو سینوں میں پوشیدہ ہے وہ اس سے بھی بہت زیادہ ہے‘‘(آل عمران : 118 )

۲۔ اہل یورپ کے معیار میں فراڈ کا انکشاف ہونا ، ایک طرف تو وہ حریت رائے کی دلیل دیتے ہیں، ہر عقلمند شخص کو علم ہے کہ یہ مزعوم حریت رائے دوسروں کی حرمت اور ان پر زیادتی کے وقت موقوف ہو جاتی ہے، اس وقت کوئی حریت رائے نہیں، بلکہ دوسروں کی عزت ضروری ہے، اور وہ اپنے اس حریت رائے کے دعوی میں بھی جھوٹے ثابت ہوئے ہیں۔

ابھی چند برس قبل ہم نے دیکھا اور ہر کسی کو یاد ہے کہ جب ایک حکومت نے اپنے ہاں موجود بت اور مجسمے توڑے تو کیا ہوا، ان لوگوں نے پوری دنیا سر پر اٹھا لی اور اسے چین سے بیٹھنے ہی نہیں دیا بلکہ اس حکومت کو ختم کر کے دم لیا!!

تو پھر یہ مزعوم آزادیٔ اظہارِ رائے کہاں گئی ؟ ! تو انہوں نے اسے بھی حریت رائے میں شمار کیوں نہ کیا؟!

۳۔ہمارے اپنے وہ مسلمان افراد جو یورپی بنتے پھرتے ہیں ان کا یہ دعوی بھی باطل ہو جاتا ہے کہ: تم غیر مسلموں کو کافر مت کہو بلکہ کوئی اور کہو تا کہ ہمارے اور ان کے درمیان فتنہ کی آگ نہ بھڑک اٹھے۔

سب کو علم ہونا چاہیے کہ کون ہے جو دوسروں کو برا کہتا اور ناپسند کرتا ہے، اور اس کی عزت و ناموس کا پاس نہیں کرتا، بلکہ جب بھی کوئی موقع ہاتھ آئے تو وہ اس کے خلاف اعلان جنگ کر دیتا ہے۔

۴۔ان کے اس دعوی کی بھی تکذیب ہوتی ہے جس کا انہوں نے پوری دنیا میں ڈھنڈورا پیٹ رکھا ہے کہ: ترقی یافتہ بات چیت اور مذاکرات جو دوسروں کے احترام اور کسی دوسرے پر زیادتی نہ کرنے پر قائم ہے!! تو وہ کونسی بات چیت اور کونسے مذاکرات چاہتے ہیں؟ اور کونسے احترام کا گمان کرتے ہیں؟

وہ یہ چاہتے ہیں کہ ہم مسلمان ان کا ادب و احترام کریں، اور ان کی تعظیم بجا لائیں، بلکہ ان کے سامنے جھکیں، اور سجدہ کریں، لیکن اس کے مقابلہ میں وہ کفار ہمارا اور زیادہ مذاق اڑائیں، ہماری اور زیادہ توہین کریں، اور ہم پر ظلم و ستم ہی کریں؟!!!

۵۔ مسلمانوں کے دل میں ایمانی شرارہ کا احیاء، ہم نے اس کا رد عمل دیکھا جو مسلمانوں کے دل میں ایمان راسخ ہونے کی دلیل ہے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کی محبت کی انتہاء ہے، حتی کہ ایسے لوگ جو دینی طور پر کمزور ہیں اور ان میں کوتاہیاں بھی پائی جاتی ہیں وہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کرنے اور توہین رسالت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے، بلکہ وہ سب سے آگے تھے۔

۶۔مسلمانوں کی صفوں میں اتحاد پیدا ہوا ہے۔

الحمد للہ ہم نے دیکھا کہ مسلمان آپس میں متحد ہوئے، اور وہ اسی ایک موقف پر قائم ہوئے چاہے ان کے ملک اور زبانیں مختلف تھیں۔

۷۔اسلام کے خلاف یورپ کا اتحاد۔

جیسے ہی اس ملک نے مدد طلب کی تو یہ سب کفار ممالک متحد ہو کر اس کے ساتھ مل کھڑے ہوئے، اور مجرموں نے ایک دوسرے کو اپنے اخبارات و میگزین میں یہ خاکے شائع کرنے کو کہا، تا کہ مسلمانوں کو علم ہو جائے کہ یہ کفار سب ایک ہی کنویں کے مینڈک ہیں، اور ہم مسلمان لوگ ان سب کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔

۸۔ بعض سلمانوں کی جانب سے ان کفار کو اسلام کی دعوت دینے کی حرص رکھنا، اور اس دین حنیف کی حقیقی اور روشن صورت کوبیان کرنا۔

ہم نے دیکھا کہ مسلمان ان کی زبان میں اسلامی کتابیں طبع کرانے میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں، تا کہ ان کفار کی آنکھوں سے پردہ ہٹ جائے تو ہو سکتا ہے یہ لوگ بصیرت اختیار کرتے ہوئے حق دیکھنے لگیں۔

۹۔ مسلمانوں کی طرف سے توہین کرنے والوں کی اشیاء کے بائیکاٹ کا فائدہ ونتیجہ:

انکے ملک کی حکومت نہ تو سرکاری یا سیاسی احتجاج سے ہلی ،چاہے یہ احتجاج کتنے بھی بڑے پیمانے پر ہوتے، لیکن اس بائیکاٹ کا نتیجہ یہ نکلا کہ ابھی بائیکاٹ کو چند روز ہی ہوئے تھے کہ اس اخبار کے ایڈیٹر نے معذرت کرنا شروع کر دی، اور اپنے کلام کا اسلوب تک بدل لیا، اور مسلمانوں کے ساتھ اس کا رویہ کچھ نہ کچھ نرم ہو گیا۔

تو اس طرح مسلمانوں کے پاس ایک نیا ہتھیار اوراسلحہ لگا جس کے استعمال سے وہ اپنے دشمن پر اثرانداز ہو سکتے ہیں، اور انہیں اس طرح معاشی و اقتصادی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

۱۰۔ یورپ کو واضح پیغام دینا کہ ـ ہم مسلمان ـ کبھی بھی راضی نہیں کہ ہمارے دین کو چھیڑا جائے، یا پھر اس کے خلاف بات کی جائے اور توہین کا مرتکب ہوا جائے، یا ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی جائے اور ان کے خلاف زبان کھولی جائے، ہم سب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا ہیں، ہمارے ماں باپ بھی آپ پر قربان ہوں؛کیونکہ ہمارے والدین اورہماری عزتیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت پر فداء و قربان ہیں۔

سوم: استہزاء کے بارے میں ہمارا موقف:

۱۔ ہم سب کے لیے ضروری ہے کہ وہ حسب استطاعت جتنی بھی طاقت رکھتا ہے اور جس طرح بھی طاقت رکھتا ہے وہ اس برائی کے خلاف اٹھ کھڑا ہو، چاہے وہ ان کی حکومت اور وزارت خارجہ اور ان کے اخبارات اور میگزین کو خط لکھ کر یا پھر کوئی کالم وغیرہ لکھ کر بھیجے یا پھر ٹیلی فون کرے۔

۲۔ان لوگوں سے واضح اور سچی معذرت کرنے کا مطالبہ کیا جائے، نہ کہ دھوکہ اور جرم کوجائز ٹھہرانے والی بات جسے وہ معذرت کا نام دیتے ہیں ، ہم ان کفار سے مسلمانوں کی توہین کے لیے معذرت نہیں چاہتے، بلکہ ہم یہ چاہتے ہیں وہ اپنی اس غلطی کا اقرار کریں اور اس پر معذرت کریں۔

۳۔ان سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ ان مجرموں کو ان کے جرم کی سزا دیں۔

۴۔ان سے یہ بھی مطالبہ کیا جائے کہ ان کی حکومتیں اسلام اور مسلمانوں کی دشمنی کرنا ترک کر دیں۔

۵۔ ان کفار کی زبان میں اسلام کی دعوت پر مبنی کتابوں کاترجمہ کیا جائے، اور ان کتابوں کی جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ اور اسلام کا تعارف ہے ، اورآپ ﷺ کی پاکیزہ سیرت کو بیان کیا جائے۔

۶۔ٹیلی ویژن اور ریڈیو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع کے لیے پروگرام نشر کیے جائیں اور اس کے لئے اگر اجرت بھی دینا پڑے تو گریز نہ کیا جائے، اور ان پروگراموں میں خاص کر ان لوگوں کو دعوت دی جائے جو علمی رسوخ رکھتے ہوں، اور یورپیوں کو عقلی طور پر مطمئن کر سکتے ہوں، اورالحمد للہ ایسے افراد بہت ہیں۔

۷۔اخبارات ، مجلات اور ویب سائٹس پر مختلف زبانوں میں بہترین علمی مضامین لکھے جائیں۔

۸۔اور اگر ان ملکوں کی اشیاء کے بائیکاٹ میں اثر ہو ـ اور واقعتاً اس میں اثر موجود ہے ـ تو پھر ہم ان کی اشیاء کا بائیکاٹ کیوں نہ کریں، اور اس کے مقابلے میں دوسری کمپنیوں کی اشیاء تلاش کریں جو مسلمانوں کی ملکیت میں ہوں ؟

۹۔دین اسلام اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اس حملہ کو روکنے کے لیے پورا زور صرف کیا جائے، اور اسلام کی اچھائیاں بیان کی جائیں، اور بتایا جائے کہ اسلام صریح عقل کے موافق ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ مجرموں کے شبہات کا رد بھی کیا جائے۔

۱۰۔سنت نبویہ کا التزام کیا جائے، اور ہر معاملہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ پر چلا جائے، اور اس پر صبر کیا جائے۔

اللہ سبحانہ و تعالی کا فرمان ہے: ‘‘ اور اگر تم صبر کروگے اور تقوی اختیار کرو گے تو تمہیں ان کی چالیں اور مکر کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتیں ‘‘(آل عمران :۱۲۰)

۱۱۔ان کفار کےسلسلے میں دعوت دین کی حرص رکھیں۔

اگرچہ ہم انہیں غیض و غضب اور ناراضگی کی آنکھ سے دیکھتے ہیں، لیکن ہمیں ان کو شفقت کی نظر سے بھی دیکھنا چاہیے کہ کہیں وہ اس کفر کی حالت میں ہی نہ مر جائیں، اور جہنم میں داخل ہو جائیں، ہمیں چاہیے کہ ہم انہیں اسلام کی دعوت دیں، اور ان پر رحم اور شفقت کرتے ہوئے انہیں کامیابی و نجات کی طرف بلائیں۔

اللہ سبحانہ و تعالی سے دعا ہے کہ وہ اپنے دین کو سربلند فرمائے، اور اپنے دوستوں کی مدد و نصرت فرمائے، اور اپنے دشمنوں کو ذلیل و رسوا کرے۔

اللہ سبحانہ و تعالی اپنے معاملہ پر غالب ہے، لیکن اکثر لوگ علم نہیں رکھتے۔

اللہ تعالی ہمارے پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی بے شمار رحمتیں نازل فرمائے۔ آمین یا ربّ العالمین۔

واللہ تعالی اعلم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے