قسط نمبر4

تعلیم دینے سے معلم کےمقا صد کیا ہو نے چا ہئیں ؟

طلبہ کی تعلیم و تربیت سے معلم کا مقصد، حصول رضائے الٰہی، احیاء شریعت اسلامی اور علم کی نشر و اشاعت ہو۔ کیوں کہ اس امت کی دائمی خیر و برکت علماء کے وجود اور ان کی کثرت میں مضمر ہے۔ نیز طلبہ معلم کے لیے صدقہ جاریہ اور اس کے علم کے پھیلانے کا بڑا اہم ذریعہ ہیں اور اس سے بڑھ کر معلم کے لیے بڑے اعزاز کی بات یہ ہے کہ وہ مبلغین وحی میں شامل ہو کر دین کے اہم امور میں سند بن جاتا ہے جس کے لیے بڑے بڑے بادشاہوں نے بھی آرزوئیں کی ہیں۔ درس وتد ریس کو ئی پیشہ نہیں ، بلکہ ایک ذ مہ دا ری ہے ۔ حضرت بنو ری رحمہ اللہ فر ما تے ہیں : ’’العلما ء ورثۃ الأ نبیائ‘‘ حدیث کے پیش نظر علما ء امت کا کام وہی ہے جو انبیاء کا کام ہے

اگر انہی علوم انبیا ء کو حصول دنیا اور جلب خواہشا ت و اغراض نفسا نی کا وسیلہ بنا لیا جا ئے ، تو صرف یہ کہ پو را دین ، دنیا بن جا تا ہے بلکہ خا لق کا ئنا ت کی اما نت میں خیا نت اور بہت بڑا جرم ہو جا تا ہے اس لئے کہ اگر دنیا کا حصول دنیا کے وسا ئل کے ذریعہ ہو تو عین مصلحت اور عقل کا تقا ضا ہے ، اس میں کو ئی قبا حت نہیں ، لیکن اگر دین کو صرف حصول دنیا کا وسیلہ بنا لیا جا ئے تو یہ (وضع الشي ء فی غیر محلہ) چیز کا بے محل استعمال ہے اور بہت بڑا ظلم اور انتہائی قبیح جرم ہے(الوسائل لھا أحکا م المقاصد)

بعض علوم سے طلبہ کو متنفر نہ کریں:

بعض مدرسین کی عادت ہوتی ہے کہ وہ اپنے فن کے علاوہ جسے وہ پڑھا تا ہو دیگر فنون سے جو دوسرے اساتذہ پڑھاتے ہیں طلبہ کو متنفر کرتے ہیں۔ بلکہ بعض تو اپنی ذات کے علاوہ دیگر مدرسین سے بھی طلبہ کو متنفر کرکے ان کی خیر سے طلبہ کو محروم کردیتے ہیں۔ یہ دونوں باتیں خطرناک ہیں۔

أدب و لغت پڑھا نے والے استاذ کو یہ نہیں کہنا چاہیے کہ جی! فقہ میں کیا رکھا ہے؟ اس میں تو صرف طہارت وغیرہ کے مسائل ہیں اور بس… نحو بڑھا نے والے بلاغت سے متنفر نہ کریں۔ بلاغت والے تفسیر سے متنفر نہ کریں۔

وقس علیٰ ذٰلک

دنیا میں صرف آپ ہی افق عا لم پر چمکنے وا لا روشن ستا رہ نہیں ، وحدہ لاشریک صرف خدا کی ذات ہے ۔

طا لب علم کو تدبّر قرآن کی ترغیب دیں

اس بات سے کسی انکار کی گنجائش نہیں کہ تمام علوم و فنون کا سرچشمہ اور مأخذ قرآن کریم ہے۔ علوم آلیہ سب قرآن فہمی ہی کے لیے پڑھائے جاتے ہیں اور یہ سب علوم، نحو، صرف، لغت، بلاغت وغیرہ خدام القرآن ہیں، لیکن افسوس کہ بہت سے مدارس میں خدام ہی کی خدمت پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ انہی کو ترجیح دی جا تی ہے۔ ان کے پڑھانے کے لئے اچھے اور ماہر اسا تذہ کی خدما ت حا صل کی جا تی جب کہ اس کے مقابلے میں اس عظیم مخدوم کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ اس طرح کا اہتمام اللہ کی اس عظیم کتاب کے لئے نہیں ہوتا ۔ جب پوری زندگی وسائل کے سیکھنے میں لگادی گئی، تو مقاصد کا حصول کب ہوگا؟ قرآن کریم اور حدیث میں مہارت حاصل کرنے کا نمبر کب آئے گا؟

لہٰذا اساتذہ کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ طلبہ کو یہ مقصد یاد دلائیں اور ان کو قرآن کریم میں پڑھے ہوئے علوم کی روشنی میں غور و فکر کرنے پر آمادہ کریں۔حق تعالیٰ نے اس کا حکم دیا ہے۔

كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَيْكَ مُبٰرَكٌ لِّيَدَّبَّرُوْٓا اٰيٰتِهٖ وَلِيَتَذَكَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ   ؀ ص 29

جو کتاب ہم نے آپ کی طرف نازل کی ہے بڑی برکت والی ہے تاکہ لوگ اس کی آیات میں غوروفکر کریں اور اہل عقل و دانش اس سے سبق حاصل کریں۔

اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰي قُلُوْبٍ اَقْفَالُهَا     ؀

کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے یا ان لوگوں کے دلوں پرقفل چڑھے ہوئے ہیں۔(محمد24)

اس طرز عمل سے طالب علم کی خوابیدہ صلاحیتیں جاگ اٹھیں گی اور اس میں تازگی پیدا ہوگی۔ طالب علم کو اس کی عادت ڈالیں کہ وہ ہر مسئلے اور ہر فن، ہر قاعدے، اوراس کی تغلیط یا تصویب اورہر مشکل کا حل سب سے پہلے قرآن کریم میں تلاش کرے۔ استدلال کرنے کے لیے سب سے پہلے اس کا ذہن قرآن کریم کی طرف جائے۔

ایک فرانسیسی مستشرق ڈاکٹر موریس قرآن کریم کے متعلق لکھتے ہیں:

إنہ ندوۃ علمیّۃ للعلماء ومعجم لغۃ للغویین، ومعلِّم نجولمن أراد تقویم لسانہ، ودائرۃ معارف للشرائع والقوانین، وکل کتاب سماوی جآء قبلہ لایساوی أدنیٰ سورۃ من سُورہٖ فی حسن المعانی وانسجام الألفاظ، ومن أجل ذالک نری رجال الطبقۃ الراقیّۃ فی الأمّۃ الإسلامیۃ یزدا دون تمسکاً بھٰذا الکتاب واقتباساً لأٰیاتہ، یزینّون کلامہم۔ ویبنون علیھا أراء ھم، کلما ازدادوا رِفعۃ القدر ونباھۃ فی الفکر

’’قرآن کریم علماء کے لیے ایک علمی مجلس، لغویین کے لیے لغت کی ڈکشنری اور عربی میں اپنی زبان کی درستگی چاہنے والے کے لیے معلم نحو، شرائع اور قوانین کے لیے دائرۃ المعارف (انسائیکلو پیڈیا) ہے۔ اس سے پہلی جتنی بھی آسمانی کتابیں آئیں ان میں سے کوئی کتاب بھی فصاحت، بلاغت، حسن ترتیب میں اس کی ادنیٰ سورت کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کا ترقی یافتہ طبقہ اس کتاب سے زیادہ استدلال کرتا ہے۔ اہل علم اس کی آیتوں کے اقتباسات سے اپنے کلام کو مزین کرتے ہیں اور فکری ارتقاء کے حامل مسلمان اسی پر اپنی آرا کی بنیاد رکھتے ہیں ۔

الفضل ماشہدت بہ الأعداء

غور فرمایئے کہ یہ مستشرق قرآن کریم سے زیادہ استدلال کرنے والے مسلمانوں کو ترقی یافتہ قرار دے رہا ہے اور جو اس طرح نہیں کرتے، اس کی نظر میں وہ غیر ترقی یافتہ ہیں۔

وَلٰكِنْ كُوْنُوْا رَبّٰـنِيّٖنَ بِمَا كُنْتُمْ تُعَلِّمُوْنَ الْكِتٰبَ وَبِمَا كُنْتُمْ تَدْرُسُوْنَ   ؀

بلکہ (وہ تو یہ کہے گا کہ) تم اللہ والے بن جاؤ کیونکہ جو کتاب تم لوگوں کو سکھلاتے ہو اور خود بھی پڑھتے ہو (اس کی تعلیم کا یہی تقاضا ہے)

وَكَيْفَ تَكْفُرُوْنَ وَاَنْتُمْ تُتْلٰى عَلَيْكُمْ اٰيٰتُ اللّٰهِ وَفِيْكُمْ رَسُوْلُهٗ ۭ وَمَنْ يَّعْتَصِمْ بِاللّٰهِ فَقَدْ ھُدِيَ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَـقِيْمٍ   ؁

اور تم کفر کر بھی کیسے سکتے ہو جبکہ تم پر اللہ کی آیات پڑھی جاتی ہیں اور اللہ کا رسول تمہارے درمیان موجود ہے۔ اور جو شخص اللہ کا دامن مضبوطی سے تھام لے گا وہ ضرور راہ راست تک پہنچ جائے گا۔(اٰل عمران101)

طلبہ کو اکا بر اور ہم عصر علماء حق کے علمی وفروعی اختلا فات میں نہ الجھا ئیں

تاریخ اسلامی اس بات پر شاہد ہے کہ ہمیشہ سے ہم عصر علماء حق میں رائے، ذوق، یا دلیل کا اختلاف رہا ہے اور ہوتا رہے گا۔

وَلَوْ شَاۗءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّلَا يَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِيْنَ ؀ اِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّكَ ۭ وَلِذٰلِكَ خَلَقَهُمْ ۭ وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لَاَمْلَــــَٔنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِيْنَ ؁

اور اگر آپ کا پروردگار چاہتا تو سب لوگوں کو ایک ہی امت بنائے رکھتا مگر وہ اختلاف ہی کرتے رہیں گے۔بجز ان لوگوں کے جن پر آپ کا پروردگار رحم کردے۔ اللہ نے تو انہیں پیدا ہی اسی لیے کیا ہے (کہ وہ اختلاف کرتے رہیں) اور آپ کے پروردگار کی یہ بات پوری ہوگئی کہ:میں دوزخ کو جنوں اور انسانوں سب سے بھر دوں گا۔(ہود118-119)

وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُوْنَ ؀

اور آپ کی طرف یہ ذکر (قرآن) اس لئے نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کو واضح طور پر بتا دیں کہ ان کی طرف کیا چیز نازل کی گئی ہے۔ اس لئے کہ وہ اس میں غوروفکر کریں۔(النحل44)

تاہم اس اختلاف کے کچھ حدود و آداب ہیں جس سے طالب علم ابھی ناواقف ہے۔ مدرس کبھی ایک فریق کی رائے، ذوق یا قوت دلیل سے یا کسی عبقری شخصیت سے کچھ زیادہ ہی متاثر ہوتا ہے تو وہ اپنے اس تأثر کو طلبہ پر بھی (جن کا علم ابھی پختہ نہیں ہوتا) مسلط کرنا چاہتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ طلبہ فریق ثانی سے بدظن ہو جاتے ہیں اور ہمیشہ کے لیئے ان کی خیر اور استفا دے سے محروم ہو جاتے ہیں، بلکہ بسا اوقات تو تعصب میں آکر گستاخی اور توہین پر بھی آمادہ ہو جاتے ہیں، کیونکہ وہ ابھی اس علمی اختلاف کی نوعیت سمجھنے سے قاصر اور علمی شخصیات کی عظمت سے ناواقف ہوتے ہیںجس کی بنا پروہ اس اختلاف کو کفر واسلام کا معرکہ سمجھ لیتے ہیں لہٰذا مدرس کو چاہیے کہ وہ اکابر کے اختلاف کو درس گاہوں میں نہ چھیڑیں اور طلبہ کو بھی اس میں الجھانے سے گریز کریں۔

وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْهَبَ رِيْحُكُمْ

آپس میں جھگڑا نہ کرو ورنہ بزدل ہوجاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔(الانفال46)

مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ فرما تے ہیں :

یہا ں یہ عرض کرنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ ہم دین کی خدمت کرنے والے چند ایسی الجھنوں میں پھنسے ہو ئے ہیں جو ہما رے دینی مسا عی کے ثمرآور ہو نے میںما نع ہیں، بلکہ بے دینی کے اس سیلاب کو ہما رے ان مشاغل سے مدد بہم پہنچ رہی ہیں ۔

موانعات کے اس سلسلہ کی پہلی کڑی یہ ہے کہ دین کے نام پر کا م کرنے والے بہت سے اہل علم خود فروعی مسائل پر منا ظروں، مباحثوں اور اس کے نتیجے میں جنگ وجدال کے اندر ایسے گرفتا ر ہیں کہ اولاً تو یہ جھگڑے انہیں یہ سوچنے کی فرصت ہی نہیں دیتے کہ اسلام اور قرآن ان کو کس محاذ پر اپنی طاقت صرف کرنے کے لئے پکا ررہا ہے اور وہ کہا ں اپنی توا نائی ضا ئع کررہے ہیں ؟

ثا نیاً : الحاد ، وبے دینی اور تجدد پسندی اور بد اعما لی وبد اخلا قی کا جو طوفان پو رے عالم اسلام کو اپنے لپیٹ میں لیے ہوئے ہے ،یہ تگ ودو جو باہمی منا قشا ت کی صورت میں کررہے ہیں اس طوفان سے صرف نظر کا سبب بن رہی ہے اور ہم اس کی ہلا کت وبربا دی کے صحیح شعور سے ہی محروم ہوتے چلے جا رہے ہیں ۔‘‘

سور ۃ البقرۃ میں حق تعا لیٰ سبحا نہ ،یہو د ونصاریٰ پر رد کرتے ہو ئے فرماتے ہیں:

وَقَالَتِ الْيَهُوْدُ لَيْسَتِ النَّصٰرٰى عَلٰي شَيْءٍ ۠ وَّقَالَتِ النَّصٰرٰى لَيْسَتِ الْيَهُوْدُ عَلٰي شَيْءٍ ۙ

یہود یہ کہتے ہیں کہ عیسائیوں کے پاس کچھ نہیں اور عیسائی یہ کہتے ہیں کہ یہودیوں کے پاس کچھ نہیں۔

ان کا ایک دوسرے کے بارے میں لیس علیٰ شيء کہنا غلط ہے ، اس لئے کہ { وھم یتلون الکتاب} دونوں کے پاس کتا ب (تورا ت ، وانجیل) مو جود ہیں اور یہ اسے پڑھتے ہیں ہر ایک کی کتاب میں دو سری کی تصدیق وتائید مو جود ہے ،اس کے باوجود ایک کا دوسرے کے با رے میں {لیس علی شيئ} کہنا خود اپنی کتا ب سے انحراف ہے۔ علا مہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اپنی کتا ب (اقتضا ء الصراط المستقیم) میں اس وصف میں شریک امت محمدیہ میں یہود ونصاریٰ کے نمونے بتا تے ہو ئے فر ما تے ہیں :

فأ خبر أن کل وا حدۃ من الأ متین تجحد کل ما علیہ الأخریٰ وأنت تجد کثیراً من المتفقھۃ ،اذ رأی المتصو فۃ والمتعبدۃ لا یرا ھم شیئا ،ولا یعدھم الا جہّا لا وضلا لا ولا یعتقد فی طریقھم من العلم والھدی شیئا وتری کثیرا من المتصو فۃ والمتفقرۃ لا یری الشریعۃ والعلم شیئا ،بل یری أن المتمسک بھما منقطع عن اللّٰہ وأنہ لیس عند أھلھا شيء مما ینفع عندا للہ

مخا لف کی صحیح دلیل کے باوجود محض عنا د کی وجہ سے اسے سو فیصد غلط قرار دینا بڑی خطرناک بات ہے۔

طا لب علم کو حقیر نہ سمجھیں

سید المعلّمین رسول اللہ ﷺ کو حکم خداوندی ہے:

واخفض جناحک للمؤمنین

مسلمانوں پر شفقت رکھیے!

جب یہ حکم عام مؤمنوں کے بارے میں ہے تو طلبہ جن کو معلم کی شرفِ صحبت اور محبت بھی حاصل ہے وہ بطریقِ اولیٰ اس اعزاز و تکریم کے مستحق ہیں۔ سیدنا عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنھما فرماتے ہیں: ’’میرے ہاں سب سے معزز شخص وہ ہے جو لوگوں کی گردنیں عبور کرکے (یعنی سفر کرکے) مجھ تک پہنچتا ہے۔ مجھے یہ بھی گوارا نہیں کہ اس پر ایک مکھی بھی بیٹھ جائے‘‘۔

لہٰذا معلّم کو چاہیے کہ طالب علم کے ساتھ اپنے پیارے اور لاڈلے بچے جیسا برتاؤ کرے، اگر اس سے کوئی بے ادبی یا غلطی سرزد ہو جائے تو اس پر صبر کرے، تھوڑی بہت غلطی سے تو کوئی انسان بھی پاک نہیں ہوتا۔

{خلق الانسان ضعیفا }

انسان کو ناتواں پیدا کیا گیا ہے

(کل ابن آدم خطا ئ)

ہر ابن آدم غلطی کرسکتا ہے

{ يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰٓى اَنْ يَّكُوْنُوْا خَيْرًا مِّنْهُمْ }

اے ایمان والو! (تمہارا) کوئی گروہ دوسرے گروہ کا مذاق نہ اڑائے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ مذاق اڑانے والوں سے بہتر ہوں۔

علم کی تعظیم کیجئے

معلّم کو چا ہیے کہ اچھا لباس زیب تن کرے اور خوشبو استعمال کرکے درس دے، اس میں علم اور شریعت کی تعظیم ہے۔

امام مالک رحمہ اﷲ جب طلبہ کو حدیث پڑھانے کا ارادہ فرماتے تو پہلے غسل فرماتے، بہترین لباس زیب تن فرماتے، خوشبو لگاتے، عمامہ پہنتے اور پھر مسند تدریس پر جلوہ افروزہوتے اور فرماتے مجھے یہ بہت پسند ہے کہ میں احادیث رسول اﷲ ﷺ کی اس طرح تعظیم کروں۔

بعض مدرسین میلے کپڑوں میں درس دیتے ہیں اور اسے توا ضع سمجھتے ہیں، اس قسم کے متواضعین کی اصلا ح کے لئے یہ آیات کافی ہیں:

قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِيْنَةَ اللهِ الَّتِيْٓ اَخْرَجَ لِعِبَادِهٖ وَالطَّيِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِ

آپ ان سے پوچھئے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے جو زینت اور کھانے کی پاکیزہ چیزیں پیدا کی ہیں انہیں کس نے حرام کردیا؟

يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُّوَارِيْ سَوْاٰتِكُمْ وَرِيْشًا

اے بنی آدم! ہم نے تم پر لباس نازل کیا جو تمہاری شرمگاہوں کو ڈھانپتا ہے اور زینت بھی ہے۔

معلم پڑھا نے سے قبل اس دعا کا اہتمام کریں

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ أَعُوْ ذُبِکَ مِنْ أَنْ أَضِلَّ اَوْ أُضَلَّ اَوَْأَزِلَّ اَوْ أُزَلَّ اَوْ أَظْلَمَ اَوْ أُظْلَمَ اَوْ أَجْھَلَ اَوْ یُجْھَلَ عَلَیَّ، عَزَّ جَارُکَ وَجَلَّ ثَنَائُکَ وَلَا إِلٰہَ غَیْرُکَ، بَسْمِ اللہ ِ وَبِاللہ ِ حَسْبِیَ اللہ ُ، تَوَکَّلْتُ عَلَی اللہ ِ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمَ، اَللّٰھُمَّ اثْبُتْ جِنَانِیْ، وَأَدْرِ الْحَقَّ عَلٰی لِسَانِیْ۔

اس دعا کے اہتمام سے رجوع الی اﷲ پیدا ہو گا اور اﷲ تعالیٰ کی خصوصی مدد شامل حال ہوگی۔

اس کے سا تھ یہ دعائیں بھی مانگیں :

{ربّ زدنی علماً} ربّ اشرح لی صدری oویسّرلی أمریo واحلل عقدۃ ً من لسانیo یفقھوا قولیo} سبحٰنک لا علم لنا الّا ما علّمتنا ط انّک أنت العلیم الحکیمo(

طا لب علم کو انصا ف پسند ، متّبع حق، محقّق بنا ئیں، متعصب اور منجمد نہ بنا ئیں

اسلام عدل و انصاف کا مذہب ہے، جو اپنے ماننے والوں کو ہمیشہ ہر وقت اور ہر حالت میں دوست و دشمن سب کے لئے انصاف اور حق گوئی کا حکم دیتا ہے۔ عدل و انصاف کی راہ میں جتنی رکاوٹیں پیش آسکتی تھیں، کسی سے محبت و قرابت، دوستی یا کسی سے عداوت و دشمنی وغیرہ ان سب رکاوٹوں کو ایک ایک کرکے کتاب اللہ نے دور فرمایا۔

اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں:

؎يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاۗءَ لِلّٰهِ وَلَوْ عَلٰٓي اَنْفُسِكُمْ اَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْاَقْرَبِيْنَ ۚ اِنْ يَّكُنْ غَنِيًّا اَوْ فَقِيْرًا فَاللّٰهُ اَوْلٰى بِهِمَا   ۣ فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوٰٓى اَنْ تَعْدِلُوْا ۚ وَاِنْ تَلْوٗٓا اَوْ تُعْرِضُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرًا ؁ النساء 135

اے ایمان والو! اللہ کی خاطر انصاف پر قائم رہتے ہوئے گواہی دیا کرو خواہ وہ گواہی تمہارے اپنے یا تمہارے والدین یا قریبی رشتہ داروں کے خلاف ہی پڑے۔ اگر کوئی فریق دولت مند ہے یا فقیر ہے، بہرصورت اللہ ہی ان دونوں کا تم سے زیادہ خیر خواہ ہے۔ لہذا اپنی خواہش نفس کے پیچھے پڑ کر عدل کی بات کو چھوڑو نہیں۔ اور اگر گول مول سی بات کرو یا سچی بات کہنے سے کترا جاؤ تو (جان لو کہ) جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے واقف ہے۔

اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں:

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ لِلّٰهِ شُهَدَاۗءَ بِالْقِسْطِ ۡ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓي اَلَّا تَعْدِلُوْا ۭاِعْدِلُوْا   ۣ هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى ۡ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭاِنَّ اللّٰهَ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ   ۝

’’اے ایمان والو! اﷲ کے واسطے انصاف کی گواہی دینے کیلئے کھڑے ہو جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی کے باعث انصاف کو ہرگز نہ چھوڑو، انصاف کرو، یہی بات تقویٰ کے زیادہ نزدیک ہے، اور اﷲ سے ڈرتے رہو جو کچھ تم کرتے ہو بے شک اﷲ اس سے خبردار ہے‘‘۔ (سورٰ المائدۃ آیت: 8)

امام رازی ؒ اپنی تفسیر (تفسیر کبیر) میں اس آیت کی تشریح میں فرماتے ہیں:

’’وفیہ تنبیہ عظیم علیٰ وجوب العدل مع الکفار الذین ھم أعداء ﷲ تعالیٰ فما الظن بوجوبہ مع المؤمنین الذین ھم أولیاء ہ وأحبّائہ؟‘‘

’’اس میں اللہ تعا لیٰ کی طرف سے وجوب عدل پر بہت بڑی تنبیہ ہے ان کفار کے ساتھ بھی جو اﷲ کے دشمن ہیں تو کیا خیال ہے مومنوں کے ساتھ، جو اﷲ کے دوست اور محبوب ہیں، عدل واجب نہ ہوگا؟‘‘

آج بعض اہل علم اور دینی جماعتوں اور دینی درسگاہوں میں ان قرآنی اصولوں کو نظر انداز کیا جارہا ہے،اس کے نظر انداز کرنے کی وجہ سے تنگ نظری اور تعصب بہت زیادہ پایا جا رہا ہے۔ ہر شخص نے یہ طے کیا ہے کہ ( أنا مع فلان) اس وجہ سے وہ اپنے مخالف کی کسی خوبی کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتے اور نہ ہی دلیل کو خاطر میں لاتے ہیں۔

حالانکہ یہود جوکہ اَمکر الأمم اور اﷲ تعالیٰ کے دشمن ہیں ان کے بارے میں اسلام کا عدل و انصاف دیکھیں۔ سورۃ اٰل عمران میں اﷲ تعالیٰ جب ان کے قبائح و خبائث ذکر فرماتے ہیں تو ان کی جملہ خباثتوں میں سے ان کی ایک خباثت، خیانت بھی ذکر کرتے ہیں، لیکن وہاں امانت دار یہودیوں کو بھی نظر انداز نہیں فرماتے بلکہ ان کی امانت و دیانت کا ذکر بھی بڑے شاندار انداز سے فرماتے ہیں۔

چنانچہ ارشاد ہے:

وَمِنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ مَنْ اِنْ تَاْمَنْهُ بِقِنْطَارٍ يُّؤَدِّهٖٓ اِلَيْكَ ۚ وَمِنْھُمْ مَّنْ اِنْ تَاْمَنْهُ بِدِيْنَارٍ لَّا يُؤَدِّهٖٓ اِلَيْكَ اِلَّا مَا دُمْتَ عَلَيْهِ قَاۗىِٕمًا

’’اور اہل کتاب میں بعض ایسے ہیں کہ اگر آپ ان کے پاس ایک ڈھیر مال کا امانت رکھیں وہ آپ کو ادا کردیںگے اور ان میں سے وہ ہیں کہ اگر آپ ان کے پاس ایک اشرفی امانت رکھے تو بھی آپ کو واپس نہیں کریں گے۔ ہاں جب تک کہ آپ اس کے سرپر کھڑے رہیں۔‘‘ (آل عمران آیت: ۷۵)

مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اﷲ اپنی تفسیر معارف القرآن میں اس آیت کی تشریح میں فرماتے ہیں:

’’اس بیان سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام تعصب اور تنگ نظری سے کام نہیں لیتا، بلکہ وہ کھلے دل سے اپنے مخالف کے ہنر کی بھی اس کے مرتبہ کے مطابق داد دیتا ہے۔‘‘

رسول اﷲ ﷺ کی دعاؤں میں اس جملے کی بھی کوئی اہمیت ہے ’’وکلمۃ الحق فی الرضیٰ والغضب‘‘ اے اﷲ مجھے رضا و غضب دونوں حالتوں میں حق کہنے کی توفیق عطافرما۔

لہٰذا اہل علم، و معلّمین کو چاہیے کہ وہ اسلام کایہ خصوصی امتیاز طلبہ کو سکھائیں اور خود بھی اس پر عمل کرکے طلبہ کے لیے عملی نمونہ بنیں۔

اور ( أنا مع فلان ) کے بجا ئے (أنا مع الحق والدّلیل ) کا درس دیں۔

حضرت بنوری رحمہ اللہ فر ما تے ہیں:

’’ اپنی پا رٹی کی ہر بات خوا ہ وہ کیسی ہی غلط ہو ، اس کی حما یت وتا ئید کی جاتی اور مخا لف کی ہر بات پر تنقید کرنا سب سے اہم فرض سمجھا جاتا ہے ۔ مدّعی اسلام جما عتوں کے اخبا ر ورسا ئل تصویریں ، کارٹون ،سینما کے اشتہار، سود اور قما ر کے اشتہار اور گندے مضا مین شا ئع کرتے ہیں ۔مگر چو نکہ اپنی جماعت کے حا می ہیں ،اس لئے جا ہلی تعصّب کی بنا ء پر ان سب کو بنظر استحسا ن دیکھا جاتا ہے ، الغرض جو اپنا حا می ہو وہ تما م بد کردا ریوں کے با وجود پکا مسلما ن ہے اور جو اپنا مخالف ہو اس کی نماز روزہ کا بھی مذاق اڑا یا جا تا ہے، تعصب اور تحقیق دو نوں جمع نہیں ہو سکتے‘‘ ۔ سبق کے اختتام پر یہ پڑھیں

سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ اَشْھَدُ أنْ لَّآ إِلٰہَ اِلَّا أَنْتَ أَسْتَغْفِرُکَ وَأَتُوْبُ إِلَیْک

اس سے مجلس کا کفارہ ہو جائے گا۔

طہا رت قلب کا اہتما م کریں

علم ایک نور ہے جسے حق تعالیٰ انسان کے دل میں ڈالتے ہیں، اس کے لیے طہارت باطن لازمی، ورنہ علم کا نور قلب میں داخل نہ ہوگا اور نہ ہی علم کے ثمرات اور برکات ظاہر ہوں گے۔

یہ صلاۃ السر ہے، چنانچہ اپنے قلب کو تمام صفات ذمیمہ، بغض و عداوت، حسد، کینہ، بد اخلاقی، ریاکاری، مداہنت، مخلوق پرستی، مفادات پرستی، حب مال، حب جاہ،تکبر و تعصب لغیر اﷲ،تزیّن للناس، ہٹ دھرمی، غلطی پر اصرار سے اور ہر قسم کے برے ارادے سے اپنے قلب کو پاک رکھیں! صحابہ کرام رضی اﷲ عنہ اجمعین کی امتیازی صفات میں سے ایک صفت ’’أبرّھم قلوباً‘‘ دل کی نیکی تھی۔ حدیث میں ارشاد ہے، رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

بے شک جسم میں ایک گوشت کا لوتھڑا ہے اگر وہ درست ہو جائے تو پورا جسم درست ہوگا، اگر وہ بگڑ جائے تو پورا جسم فاسد ہو جاتا ہے۔ خبردار وہ دل ہے۔

طہارت باطن سے علم کے دقائق و غوامض، اسرار و حقائق کھلتے ہیں۔

(لا تدخل الملا ئکۃ بیتاً فیہ کلب‘ُ أو تصاویر)

جس گھر میں کتا یا تصاویر ہوں وہاں رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے۔

تو جس دل میں شہوات اور شبہات کے کتے مو جود ہو ں وہا ں سکینہ اور علم کا نورکیسے داخل ہو سکتا ہے ۔ {واتقوا اللّٰہ ویعلمکم اللّٰہ } تقویٰ اختیار کرو ،اللہ تعالیٰ علم دے گا۔

(ذا ق طعم الایمان من رضی با للہ ربّاً وبا الا سلا م دیناً وبمحمّدٍ رسو لاً )

جو شخص اللہ تعالیٰ کو رب، اسلام کو دین اور محمد کو رسول ماننے پر راضی ہوجاتا ہے وہ ایمان کا ذائقہ چکھ لیتا ہے۔

معلّم خود بھی اس کا اہتمام کرے اور طلبہ کو بھی اس کی تاکید کرے۔

شکو ت الٰی وکیعٍ سوء حفظی
فأرشدنی الٰی ترک المعاصی
وذٰلک أن حفظ العلم فضلٌ
وفضل اللّٰہ لا یؤ تی لعا صی

ترجمہ:

میں نے امام وکیع کے پاس اپنے کمزور حافظے کی شکایت کی تو انہوں نے مجھے گناہوں کو ترک کرنے کا مشورہ دیا کیونکہ علم یاد کرنا فضل و رحمت ہے اور اللہ تعالیٰ کا فضل کسی گناہ گار کو نہیں ملتا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے