استبداد اور دولت:

ہر وہ چیز دولت ہے جس سے انسان فائدہ حاصل کرسکتاہے خواہ وہ مادی ہو یا معنوی لیکن ان اقسام کی دولت اور ان کے نتائج وثمرات پر استبداد کی یلغار رہتی ہے اور وہ تخریب کاری کے لیے تیار رہتاہے۔

اسلام نے دولت کی تعریف وضاحت کے ساتھ بیان کردی ہے اور اپنی ضروریات کے لیے اس کے حصول کیلئے تین شرائط لازمی قرار دی ہیں جوکہ درج ذیل ہیں :

۱۔ جائز وحلال ذرائع سے حاصل ہوا ہو ( یعنی محنت سے کمایا گیا ہو یا کسی چیز کا معاوضہ ہو)۔

۲۔ اس کے حصول میں یا جمع کرنے میں دوسروں کی ضروریات کو ضرر یا نقصان نہ پہنچتا ہو۔

۳۔ اپنی ضرورت سے زائد نہ ہو۔

چونکہ استبدادی حکومت کے نزدیک آئین اور قوانین سب بازیچہ اطفال ہوتے ہیں وہ اپنے ممنوع اور ناجائز وغیر قانونی آئینی اقدامات کے آئینی جواز گھڑنے کے لیے یا ان قبیح وشنیع افعال کو جائز بنانے کے لیے چند عقلمند اور دیانت دار لوگ بھی بھرتی کئے ہوتے ہیں لہذا اسی طرح مستبد حکومت ہر وہ طریقہ استعمال کرتی ہے جس سے اسے تقویت مل سکے اور ان لوگوں کو جوابی طور پر یا صلہ کے طور پر مالی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔

اس نظام حکومت میں دین اسلام کی حرام کردہ مالی صورت سود اور اس پر مبنی سودی نظام کو ان کا مکمل تعاون حاصل ہوتاہے باوجود اس کے کہ سودی نظام شخصی سرمایہ داری کی حوصلہ افزائی کرتاہےاور یہ شخصی سرمایہ داری استبداد کے لیے بھی راہ آسان کرتی ہے ، یعنی طاقتور کے لیے موقع فراہم کرتی ہے تاکہ وہ کمزور اورغریب لوگوں کے حقوق غصب کرسکیں۔

حرص وطمع کے اس میدان میں مستبد حکمران کے لیے دولت اکٹھا کرنا قطعا مشکل نہیں ہوتا جس کی معروف صورتیں۔ قومی خزانہ سے چوری ، عوام پر ناجائز ٹیکس، قومی اموال کی ناجائز فروخت، اغیار کے سامنے دریوزئہ گری وغیرہ وغیرہ سے دولت کا حصول مستبد حکمران اور اس کے زیرسایہ ہر فرد کو حاصل ہوسکتاہے بشرط کہ دین وایمان ، شرم وحیا، غیرت اور ملی تفکر کو بالائے طاق رکھ دیا جائے۔ اس میں ذخیرہ اندوزی کو بھی اہمیت حاصل ہے۔

المختصر انسان استبداد سےخائف کیوں نہ ہو جبکہ اس کے دور میں سب سے زیادہ بدبخت عقل مند اور دولت مند ہوتاہے اور سب سےزیادہ خوش نصیب جاہل اور فاقہ مست ہوتاہے۔

استبداد اور اخلاق :

استبداد نہ صرف انسان کی فکر وعقل پر اثر انداز ہوتاہے بلکہ اس کی عادات اور اخلاق حسنہ کو بھی ختم کردیتاہے۔ اور مستبد حکمران اعلی اور شریفانہ جذبات واحساسات سے خالی ہوتاہے بلکہ اس کا دماغی اطمینان اور اطمینان قلب بھی سلب ہوجاتاہے کیونکہ اس کے جذبات کی تعمیر بے وفائی پر ہوتی ہے لہذا وہ سب کو اپنے جیسا ہی دیکھنا پسند کرتاہے اس غرض سے وہ عوام کی اخلاقی حالت کوتباہ کرنے کے لیے ہر ممکنہ ذرائع استعمال کرتاہے ، بلکہ عصر حاضر میں تو میڈیا کا بے محابا استعمال جوکہ بے حیائی اور فحاشی پر مبنی ہوتاہے اس کی واضح مثالیں ہیں۔

مستبد حکمران کے خوشہ چیں دن رات عوام کو عالم تخیلات میں مگن رکھتے ہیں اور روشن خیالی کے نام پر اغیار کی ثقافت اُن پر مسلط کرنے کی کوششوں میں مشغول عمل رہتے ہیں۔ جو سراسر بے حیائی اور بے غیرتی کا مجموعہ ہوتی ہے۔

اس ثقافتی ماحول کی تخلیق کے لیے کچھ شعراء اور ادباء بھی ضمیر فروش نکل آتے ہیں جن کی صلاحیتیں مستبد حکمران ان سے مستعار لیتاہے ، رفتہ رفتہ عوام کے اذہان اس کے خوگر ہوجاتے ہیں۔

کیا خوب کسی نے کہاہے کہ :

جس قوم میں تعظیم وتکریم اور عجز وانکسار کے الفاظ زیادہ ہوں سمجھ لینا چاہیے کہ وہ قوم غلامی کی زیادہ خوگر ہے۔ اور جس قوم کا دامن ان سے خالی ہو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ قوم آزادی کی دلدادہ ہے۔

اخلاقی استبداد نے قوم کو غلام اور مستبد حکمران اور اس کی حکومت کو آقا بنا دیا اور پھر بتدریج قوم نے بھی اسے تسلیم کرلیا اور غلامی کو اپنا شیوہ بنالیا۔ اس سے بڑھ کر اخلاق کا نقصان کیا ہوگا کہ استبداد نے غلام اقوام کو یقین دلادیا ہے کہ :

’’ حقوق مانگنے والے ’’مجرم‘‘ اور حقوق چھوڑنے والے ’’وفادار‘‘ ہوتے ہیں مظلوم اگر شکایت کرے تو ’’مفسد‘‘ ہے اور ذہین اور بیدار مغز’’ملحد اور غدار‘ ‘ ہیں سست اور ناکارہ ’’متدین اور وفادار‘‘ ہیں ، نصیحت ’’یا وہ گوئی ‘‘ ہے۔ غیرت’’عداوت‘‘ ہے اور خودداری’’ سرکشی ‘‘ہے حمیت’’دیوانگی‘‘ہےانسانیت’’حماقت‘‘رحم وکرم’بیماری‘ ہے۔ ریا ومنافقت’’تدبر‘‘ ہے ، مکاری ’’دانائی‘‘ ہے ، دناعت’’لطف‘‘ ہے اور خوشامد’’ اخلاق‘‘ ہے۔

الغرض ہر اصطلاح کا عملی مفہوم بدل جاتاہے ، بنیادی حقوق سرعام نیلام ہوتے ہیں یہ اسی کارفرمائی کا نتیجہ ہے کہ مؤرخ سفاک فاتحین کو دنیا کے ہیروتسلیم کرتاہے۔ اور ان کی خوں خواری کو عزت واحترام کی نظر سے دیکھتا ہے حالانکہ وہ دنیا کے بدترین انسان ہیں۔

اخلاق اسی وقت تک اخلاق رہتاہے جب تک وہ اسوئہ حسنہ کے تابع ہو لیکن اسیر استبداد کیوں کر اس کا تابع ہو کیونکہ وہ ارادہ خیر سے محروم ہوتاہے کیونکہ إرادہ خیر ہی وہ اساس ہے جو تمام اصولوں کی جان ہے جس پر عمارت اخلاق کھڑی ہے۔

اور یہ بات سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے کہ ارادہ خیر کے ذریعے ہی انسان انسان بنتاہے اور اس کے ذریعے ہی وہ دیگر مخلوقات سے ممیز مقام پاتاہے۔ پس جس کا ارادہ خیر ہی استبداد نے چھین لیا ہو وہ انسانیت کے درجے پر بھلا کیسے فائز رہ سکتاہے اور اسی لیے اس کی زندگی میں کوئی اصول نہیںہوتا۔

اور اخلاق کی اصلاح وعظ ونصیحت پر مبنی ہوتی ہے جبکہ مستبد اسے ناممکن بنا دیتاہے اوراگر مستبد حکمران کے دور میں پائی بھی جائے تو اخلاص سے خالی ہوتا ہے جیسا کہ گھن لگا بیج جو کتنا ہی سینچا جائے جڑنہیں پکڑ سکتا۔

علماء اخلاق کا قول ہے کہ انسان میں جو برائی یا خوبی ہوتی ہے وہی اسے سب میں نظر آتی ہے مثلاً ریا کار سب کو ریا کار اور امانت دار سب کو امانت دار سمجھتاہے شاید اسی لیے مستبد کو بھی ہر کوئی اپنی طرح غاصب اور مستبد ہی نظر آتاہے۔ قوموں کی اخلاقی تربیت میں صاحب قلم کا کردار بہت اہم ہوتاہے۔ لیکن مستبد حکومت میں اس کے خوشہ چیں أصحاب کا جرم یوں بھی سنگین ہوجاتاہے کہ یہ لوگ قوموں کی قومیں فنا کردیتے ہیں اور آنے والی نسلوں کو غلامی کی لعنت میںدھکیل دیتے ہیں۔

جس کے نتیجے میں اخلاقی حالت کےبگڑتے بگڑتے عوام کی حالت اس قدر پست ہوجاتی ہے کہ نہ تو عقل سلیم رہتی ہے نہ ہمت وحوصلہ اور نہ ہی عزم صمیم جوکہ قوموں کی تقدیر بدلنے میں خشت اول کا مقام رکھتی ہیں۔ اور یہ امر تو واضح ہے کہ جب بھی کسی قوم میں اخلاقی بیماریاں پیدا ہوجاتی ہیں تو سب سےپہلے مستبد حکمران میں رونماہوتیں ہیں پھر اس سے وزراء اور سپہ سالاروں میں منتقل ہوتی ہیں پھر ان سے متعدی وبا بن کر پوری قوم کو ڈس لیتی ہیں کہ بظاہر علاج ناممکن ہوجاتاہے۔

استبداد اور تربیت :

تربیت علم وعمل کا نام ہے جس کا آغاز زبان کو قول خیر کا عادی بنانا، نفس کو پستی سے بلندی کی طرف لے جانا، ضمیر کو باطل پرستی سے بچانا، عزت کی حفاظت بنیادی حقوق کی معرفت الغرض تربیت مثبت صفات کے حصول کی امین ہے۔ جبکہ استبداد دروغ گوئی ،مکر،حیلہ،دھوکہ، نفاق، ریاکاری، عقل سلیم کی عدم موجودگی اور تذلل کی راہ دکھاتاہے۔

اللہ رب العزت نے انسان کو خیر وشر دونوں کی استعداد دی ہے اور حقیقت میں انسانی استعداد وقابلیت کی کوئی حد نہیں ہے وہ اگر خیر کی راہ پر ہوتو فرشتوں سے بھی بڑھ جاتاہے اورشرکا راہی ہو تو شیطان بھی اس کی ہمسری نہیں کرسکتااور اچھی تربیت انسان کے جسم ، روح اور عقل پر وہی اثر کرتی ہے جو سفید کپڑے پر کوئی رنگ کرتاہے۔ اور اس کے برخلاف استبداد جس سے کسی بھلائی کی امید نہیں ہے وہ جسم کو داغدار، روح کو میلااور عقل کو کند کردیتاہے۔

منصف حکومت انسان کی تربیت کا آغاز اس وقت سے کرتی ہے جب وہ بطن مادر میں ہوتاہے اوردیگر مراحل تربیت سے گزر کر جس کا نتیجہ قوم میں اولو العزمی اور حریت فکر جیسے لازوال جذبات کی بیداری اور موجودگی ہوتاہے جبکہ مستبد حکومت کے زیر سایہ انسانی زندگی ہر طرح کی تربیت سے محروم ہوتی ہے اس میں صرف نمو ہوتی ہے جوکہ خود روجنگلی پودوں کی مانند ہوتی ہے۔

اور ایسے حالات میں عوام کا مقام صرف غلامی ہوتاہے اور ناکامی ہوتاہے اور ناکامی کی حقیقی علت سے وہ ناواقف ہوتے ہیں اس لیے ہر چیز کو قسمت،تقدیر، بخت، نصیب کے سپرد کررکھا ہے اور یہ اسیر استبداد چونکہ حقیقی تربیت سے محروم ہوتاہے اس لیے دنیاوی عذاب اور ناکامیوں کے بعد دل بہلانے کے لیے آخرت کی خیالی مسرتوں ، جنتوں اور حوروں کے خیال میں مگن رہتاہے۔

جبکہ حقیقی مربی ایک ’’ماں‘‘ کی تربیت کا مکمل اہتمام کرتاہے جس کے بعد پوری قوم تربیت یافتہ ہوتی ہے۔ مستبد حکمران اپنے عوام میں تربیت کا ماحول ہی نہیں بننے دیتا اور نہ ہی کوئی مناسب نظام تعلیم رائج ہونے دیتااگر کوئی نظام تعلیم وضع کرتاہے تو وہ بھی طبقاتی تقسیم کے تحت ایک سے زائد نظام تعلیم۔

أمراء کے لیے الگ اور غرباء کے لیے الگ نظام تعلیم میں غلام غلام کو ہی جنم دیتاہے اور آقا کے گھر آقا ہی پیدا ہوتاہے۔ اس سے یہ واضح ہوا کہ عہد استبداد میں صحیح تعلیم وتربیت کی نہ طلب ہوتی ہے اور نہ وہ ممکن ہوتی ہے کیونکہ تربیت علم وعمل کا مجموعہ اور خوف سے خالی ہوتی ہے جبکہ مستبد کا ضمیر ہی خوف سے اٹھایا جاتاہے۔

پھر مستبد حکمرانوں میں سب سے بڑی برائی وہ خود بھی خیالی پلاؤ پکاتے ہیں اور عوام کو بھی اسی کا حکم اور تلقین کرتے ہیں اور اس تخیلاتی فریب کاریوں کے ذریعے وہ مسلسل عوام کو دھوکہ دیتے ہیں۔

استبداد اور ترقی :

استبدادنے کس طرح معاشرتی عوامل کو فساد کے گھاٹ اتارا اور کسی بھی شعبہ حیات کو اس کی صحیح حالت میں نہیں چھوڑا بلکہ اسے تباہی وبربادی کے سپرد کردیا انحطاط کے اس عمل نے معاشرہ کے ہر فرد اور ہر شعبہ کو متاثر کیا۔ ترقی معکوس کا اصل ذمہ دار مستبد حکمران جس کی حیات ہی سمیّت زدہ ہوتی ہے جس کے ذریعے وہ قوم کو موت کے گھاٹ اتارتاہے۔

لہٰذا مستبد حکمران کی موجودگی میں ترقی کا دعویٰ محض دیوانے کی بڑ اور پاگل کی خرافات کا مقام رکھتاہے۔ مستبد حکمران صرف ترقی کو نہیں روکتا بلکہ اسے شرم ناک تنزلی سے بدل دیتاہے اور وہ اوپر کے بجائے انسان کو نیچے کھینچتاہے ، بار آور کرنے کے بجائے روندتا اور اپنے جہنمی تنور کا ایندھن بناتاہے اور زہریلی جونک بن کر قوم کو چمٹ جاتاہے اور اس کی رگوں میں اپنا زہرداخل کرتاجاتاہے یہاں تک کہ وہ انسانیت کے شرف سے محروم صرف انسان رہ جاتاہے اور مستبد قوم کو گراتے گراتے قبر تک پہنچا دیتاہے۔

جبکہ ترقی کے لیے لازم ہے کہ ہر فرد کا مقصد حیات واضح ہو اور ایک ہو اور وہ قومی حیات کی ترقی وبقاء کے لیے خود کو کسی نہ کسی ذمہ داری کے لیے تیار کرے پھر فرد سے افراداور افراد سے معاشرہ اور پھر قوم ترقی کی راہ پر گامزن ہوجاتی ہے۔

اور جو فرد ایسی کسی مسئولیت کے لیے تیار نہ ہو تو وہ معاشرے میں بوجھ بن جاتاہے۔ جسے اتار دینا چاہیے۔ جیسا کہ جسم کا میل کچیل اور مردہ ناخن کا مقدر موت ہوتاہے شاید اسی لیے نان بائی کو شاعر سے بہتر قرار دیاگیاہے کہ وہ قوم کے لیے نفع بخش ہوتاہے۔

جبکہ مستبد کامقصد نفس کا عقل پر غلبہ ہوتاہے جس کا نتیجہ گمراہی کی صورت میں سامنے آتاہے۔ اور گمراہی کسی بھی صورت میں قوم کو ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہونے دیتی اور ہر شعبہ حیات تنزلی کا شکار ہوجاتاہے ایسے میں ہر فرد کے سامنے صرف اپنی جسمانی بقا ہوتی ہے اور یہی استبداد کا اصل ہدف ہوتاہے کہ اسی صورت میں اس کا اقتدار قائم ودائم رہتاہے۔ خود غرض اور نفسا نفسی کی راہ کے مسافر۔

کیا استبداد سے نجات ممکن ہے ؟

غلامی بد ترین سزا ہے جو کسی انسان کو دی جاسکتی ہے۔ توہین انسانیت پر مبنی یہ قبیح جرم ہے۔ اللہ رب العزت نے تو انسان کو آزاد پیدا کیا ہے لیکن یہ طالع آزما بدبخت انسان اپنے ہی جیسے انسان پر بدترین جرم کے ارتکاب میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا استبداد سے نجات ممکن ہے ؟

غلامی کی نوعیت اگر جسمانی ہے تو اس سے نجات سو فیصد ممکن ہے اس کی بے شمار مثالیں تاریخ نے پیش کی ہیں وطن عزیز اس کی ایک روشن مثال ہے۔

اور اگر اس کی نوعیت ذہنی ہے تو اس سے نجات بہت ہی زیادہ مشکل ہے لیکن ناممکن نہیں ہے۔ معلوم انسانی تاریخ میں اس کی صرف چند مثالیں ہیں اور اسلام کی آمد اس کی واضح مثال ہے۔

لیکن اگر اس کی نوعیت روحانی ہوتو اس سے نجات تقریباً ناممکن ہے لیکن اس سے نجات کی انفرادی مثالیں تو ملتی ہیں لیکن اجتماعی مثال پیش کرنے سے تاریخ قاصر ہے کیونکہ یہ مذہبی پاپائیت اور برہمنیت اور ربیّت کے بطن سے جنم لیتی ہے۔

اللہ رب العزت نے انسان کے اندر اتنی قوت ودیعت کی ہے جس کی مدد سے بعض اوقات ناممکن کام بھی ممکن ہوجاتاہے۔ عزم صمیم کا حامل ہر مشکل اور صعب مرحلے سے گزر جاتاہے اور اسلام کی آمد کا مقصد ہی انسان کو غلامی سے نجات دلانا ہے۔ بعثت محمدی کا اصل ہدف ہی یہی تھا کہ انسان ایک رب کو اپنا معبود بنائے اور خود ساختہ تمام خداؤوں کی عملاً نفی کرے۔ کیونکہ تمام مخلوقات میں صرف انسان ہی وہ بدبخت مخلوق ہے جو اپنے ہی جیسے انسان کے سامنے کاسئہ گدائی لیکر سر جھکاتاہے۔

استبداد چونکہ ایک منفی قوت ہے لہٰذا اس کا مقابلہ مثبت قوت سے ہی کیا جاسکتاہے نہ کہ محض زبانی جمع خرچ سے۔اگر استبداد سے نجات حاصل کرناہے تو اس کا حل درج ذیل سوالات اور اس کے جوابات میں موجود ہے۔

قوم کیاہے ؟

cکیا قوم خود رو بڑھنے والا جنگلی پودا ہے یا کسی بے رحم آقا کے غلاموں کا گلہ جس کامقدر ہی مستبد کی خوراک بنناہے۔ یا ایسی جماعت جن کے افراد کے مابین ، نسل، زبان،وطن اور مشترک حقوق کا مستحکم رشتہ موجود ہو؟

حکومت کیا ہے؟

cکیا فرد واحد یا چند افراد کا مجموعہ جو یہ حق رکھتے ہیں کہ انسانوں کی جان ومال اور آبرو پر جس طرح چاہیں دست درازی کریں یا ایک ایسی نیابت ہے جو احکام الٰہی کی تنفیذ میں معاون ہو جو ابد ہی کے احساس کے ساتھ عوام کی فلاح وبہبود کاکام کریں۔

قومی املاک کس کی ملکیت ہیں؟

cزمین، کانیں، دریا،ساحل،قلعے، عبادت خانے، کارخانے، بنک ، مختلف صنعتی ادارے وغیرہ یہ سب اشیاء حکومت کی ملکیت ہیں یا وہ ان پر بحیثیت قوی أمین اور محافظ کے مسئول ہیں۔اور ان سے متمتع ہونے کا حق صرف اصحاب حکومت کو ہے یا قوم کے تمام افراد کو اس کا فائدہ پہنچنا چاہیے۔

cکیا حکومت کو حق حاصل ہے کہ مادی ومعنوی حقوق عامہ میں جس طرح چاہے تصرف کرے یا یہ اجتماعی حقوق ہیں جن سے قوم کے تمام افراد یکساں فائدہ حاصل کرسکتے ہیں۔

cکیا حکومت کو افراد کی نجی زندگی میں مداخلت کا حق حاصل ہے یا اس وقت تک جب وہ ملکی آئین یا اجتماعی قوانین کی مخالفت نہیں کرتے۔

cحکومت مطلق العنان شاہی مفید ہے یا مقید شاہی یا پھر انتخابی جوکہ شورائیت کے ساتھ ہوں۔ اور ان کی کیا حدود وقیود ہیں۔ ان کا انتخاب، حکومت کے اختیارات کیا ہوں۔ حکومت اور قوم کے مابین اختلاف کی صورت میں کون سا أمر فیصل ہوگا۔

cکیا حکومت کو یہ حق حاصل ہے کہ رعایا کو بلا قید وشرط اپنی اطاعت پر مجبور رکھے یانصیحت وارشاد اور تعلیم وتربیت سے کام لیناتاکہ یہ کام اخلاص واختیار کے ساتھ ہونہ کہ خوف ونفاق کے ساتھ۔

cمختلف مالیاتی ٹیکس لگانے کے لیے کیا حکومت مکمل خود مختار ہے یا اس کے لیے لازم ہے کہ رعایا سے ان کی آراء بھی معلوم کرے اور اس کا احترام بھی کرے۔

cفوجی قوت کے لیے قوانین اور ضوابط وضع کرنے میں قوم کی مرضی وفیصلہ کو کتنی اہمیت حاصل ہے یا حکومت کا جس طرح چاہے فوجی قوت کو استعمال کرے اور عوام کا گلہ دبائے۔

cکیا حکومت بے مہار چھوڑ دی جائے کہ بے دھڑک جو چاہے کرے یا قوم کو اس کی نگرانی اور احتساب کا حق حاصل ہے۔

cکیا افراد اپنی جان ومال وعزت کی حفاظت کے ذمہ دار خود ہیں یا حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ان کی حفاظت کرے۔

انصاف کے کیا معنی ہیں؟

cانصاف وہ ہے جو حکومت کی نظر میں انصاف ہےیا وہ جو ان ججوں کا فیصلہ ہے جن کا ضمیر قانون اورحق کے سوا ہر دباؤ حتی کہ عام رائے کے دباؤ سے بھی آزاد ہے۔

cکیا فوجی قوت کے لیے حدود وقیود کا تعین ضروری ہے یا وہ جب چاہے حکومتی معاملات میں دخل اندازی کرسکتی ہے۔

cقانون سازی کا حق کسے حاصل ہے۔ اور اس میں عوام کا کیا کردار ہے۔ اور اس میں حتمی فیصلہ کس کا ہوگا۔

cسرکاری عہدے صرف حاکم کے عزیزوں ، دوستوں اور مصاحبوں کے لیے خاص ہیں یا ان میں پوری قوم کا حق ہے کہ قابلیت ولیاقت کے مطابق اسے حاصل کرسکیں۔

cکیا سرکاری عہدے داروں کا احتساب ممکن ہے اور اگر ہاں تو کیسے اور کیا احتساب کا عمل شفاف ہوسکتاہے۔

استبداد کی بیخ کنی :

cجس قوم کے بیشتر افراد استبداد کا بوجھ محسوس نہیں کرتے وہ قوم آزادی کی مستحق نہیں۔

cاستبداد کا مقابلہ قوت وتشدد سے نہیں بلکہ عقل وتدبر کے ساتھ بتدریج ہونا چاہیے۔

cاستبداد کے خاتمے سے پہلے اس حکومت کا خاکہ تیار کرلینا أشد ضروری ہے جسے استبداد کی جگہ قائم کرناہے۔

cمستبد کو چاہیے کہ وہ اپنی طاقت واختیار پر نازاں نہ ہو کیونکہ کتنے ہی سرکش وجبار گزرے ہیں جنہیں مظلوموں نے پچھاڑ کر پھینک دیاہے کیونکہ ہر مستبد اپنے آپ کو ناگزیر سمجھتاہے اس کے لیے فرانس کے آنجھانی صدر ڈیکال نے کسی خوشامدی کا منہ بند کرتے ہوئے کہا تھا :

’’ مجھے ناگزیر نہ کہو۔ قبرستان ناگزیر لوگوں سے بھرےپڑے ہیں۔‘‘

ایک مثالی حکومت :

cایک فرد اپنے جسم وروح کی سلامتی پر مطمئن ہوتاہے کیونکہ حکومت اس کی محافظ ہے اور سفروحضر کسی حال میں بھی اس کی حفاظت سے غافل نہیں۔

cوہ جسمانی وروحانی مسرتوں کے دوام پر مطمئن ہوتا ہے کیونکہ حکومت اس کی جسمانی ،ذہنی وعقلی ضروریات کی کفیل ہوتی ہے بلکہ اس کا احساس یہ ہوجاتاہے کہ یہ صاف ستھری سڑکیں، شہری آرائشیں، تفریح گاہیں،باغ، کلب،غرض کہ جو کچھ ہے خاص اسی کے لیے بنایا گیاہے۔

cوہ اپنی آزادی پر اس طرح مطمئن ہوتاہے گویا زمین پر تنہا وہی پیدا ہوا ہے نہ اس کا کوئی حریف ہے نہ اس کے شخصی معاملات ،خیالات، مذہب میں کوئی دخیل نہیں۔

cوہ اپنی قوت پر مطمئن ہوتاہے گویا ایک زبردست بادشاہ جس کا کوئی مخالف نہیں۔ وہ اپنی قوم میں اپنے مفید مقاصد کی بے روک ٹوک اشاعت کرتاہے۔

cوہ اپنی شخصیت پر مطمئن ہوتاہے گویا ایک ایسی قوم کا فرد ہے جس کے تمام افراد درجہ میں بالکل برابر ہیں نہ اسے کسی پر ترجیح ہے نہ اس پر کسی کو امتیاز ہے ہاں اگر کوئی امتیاز ہے تو صرف اخلاق اور حسن عمل اور قابلیت کا۔

cوہ انصاف کی طرف سے مطمئن ہوتاہے گویا کہ حقوق کا ترازو خود کسی کے ہاتھ میں ہے جس سے سب کو مساوی تولتاہے اسے کسی زیادتی کا ڈر نہیں کسی حق تلف کا اندیشہ نہیں حتی کہ اسے یقین ہوتاہے کہ اگر اس میں امارت کی قابلیت ہے تو وہ حکمران بھی ہوسکتاہے اور ساتھ ہی اگر جرم کا مرتکب ہوگا تو وہ قرار سزا بھی پائے گا۔

cوہ اپنےمال ومتاع کی طرف سے بالکل مطمئن ہوتاہے گویا کہ جو کچھ اس نے جائز طریقہ سے حاصل کیاہے زیادہ ہو یا کم اللہ رب العزت نے صرف اسی لیے اتارا ہے اور کوئی اسے چھین نہیں سکتا نیز وہ یہ بھی جانتاہے کہ اگر دوسرے کے مال کی طرف نظر اٹھائے گا تو اس کی بھی آنکھ نکال لی جائے گی۔

cوہ اپنی آبرو پر بالکل مطمئن ہوتاہے کیونکہ جانتاہے قانون اس کا ضامن ہے۔ قوم کی پشت پناہی اسے حاصل ہے جو اس کی آبروریزی پر بھی خون بہا دے گی اور حکومت بھی اس کے حقوق کا تحفظ کرتی ہے۔

cکیا بحیثیت عام پاکستانی مسلمان میں اس کا تصور کرسکتاہوں۔

ماخذ ومصادر :

۱۔ صفا ت الحکومۃ الاسلامیہ۔ محمد الرحیلی

۲۔ وضع الانظمۃ السیاسیۃ حسب الاسوۃ۔ حسین بن احمد الزاحل

۳۔ اصول سیاست۔ محمد جمیل

۴۔ استبداد۔ عبد الرزاق

۵۔ اسلام کا نظام حکومت۔ پروفیسر احمد علی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے