صحافت عربی زبان کالفظ ہے اور صحت سےماخوز ہے۔ زمانہ قدیم میں صحت۔ صحیفہ اور صحائف ایسی اصلاحات تھیں جو محض مقدس تحریروں کے لیے مخصوص تھیں، مقدس کتب یا آسمانی صحائف کے نسخے تیار کرنے والے خوش نویس صحافی کہلاتے تھے۔

صحافت کا لفظ صحیفہ سے نکلا ہے اور صحیفے کا تعلق زمین سے زیادہ آسمانوں کے ساتھ ہےصحافت کا تعلق الہام کی روایت سے ہے اس روایت میں خبر کا مقام اتنا بلند ہے کہ اس کے اعلی ترین سطح کے حوالے سے رسول اللہﷺ کو مخبر صادق کہا گیا ہیں۔اس لیے علماء ہی حقیقی دین حنیف کے وارث ہیں اور حقیقی صحافت بھی علماء کا ہی کام ہے کہ وہ اس کے ذریعہ لوگوں کو پیغام الہی سے روشناش کرواسکتے ہیں۔

میڈیا اور ہماری ذمہ داری

میڈیا کی حیران کن ترقی نے دنیا بھر کی طرح پاکستان کو بھی شدید متاثر کیا ہے۔ اس نے ہر معاشرے کی طرح ہمارے ہاں بھی گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ میڈیا کے طاقتور اثرات کے باعث معاشرتی رویے تبدیل ہوئے ہیں جبکہ اس نے بعض روایات کو بدلنے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ میڈیا کے معاشرے پر بے پناہ اثرات کی وجہ سے ہی آج کے دور کو ذرائع ابلاغ کا دور قرار دیا جاتا ہے۔ ذرائع ابلاغ کی مختلف صورتیں ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا ( ٹی وی چینلز۔ سی ڈی وغیرہ ) ، براڈ کاسٹ یعنی ریڈیو، سائبر میڈیا ( انٹرنیٹ ) ، پرنٹ میڈیا ( اخبار، رسائل وغیرہ ) اسی طرح موبائل فونز اور دیگر ذرائع کے ذریعے پیغام رسانی بھی ذرائع ابلاغ کا حصہ ہیں۔ تعلقات عامہ جدید دور کا اہم ترین موضوع ہے اور اسی طرح میڈیا کے دیگر میدانوں کے حوالے سے بھی معلومات اور پیشہ ورانہ تربیت کا خاطر خواہ مواد موجود ہے حکومتیں، ادارے، تنظیمیں اور مختلف افراد میڈیا کو اپنے پیغامات کی اشاعت ، نظریات کے فروغ ، سماجی اور ثقافتی تبدیلیوں حتی کہ بعض اوقات جنگی مقاصد کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔ترقی یافتہ دنیا میں میڈیا کو باقاعدہ منصوبہ بندی سے استعمال کرنے کا آغاز کئی دہائیاں پہلے ہو چکا تاہم ہمارے ہاں الیکٹرانک میڈیا اور انٹرنیٹ کی آمد کو ابھی چند سال ہی ہوئے ہیں۔ یہ ایک نیا چیلنج ہے کہ جس نے ہمارے معاشرے کے دیگر طبقات کی طرح دینی حلقوں کو بھی متاثر کیا ہے۔ میڈیا کی روایتی پریکٹس اور تفریحی مواد کی زیادتی کے باعث اسے اسلام اور سماج مخالف سمجھ لیا گیا ہے اور بہت سے حلقے تو تمام تر برائیوں کی جڑ اسے ہی قرار دینے پر مصر ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ دینی حلقوں میں یہ بات سرایت کر چکی ہے کہ میڈیا ہمارے معاشرے میں الحاد ، فحاشی، غیر اسلامی روایات اور ایسی ہی منفی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے تیار کردہ ایک سازش کا حصہ ہے اور اس سے صرف اور صرف وہی کام لیا جا سکتا ہے جو کہ آجکل پاکستانی، بھارتی اور مغربی میڈیا پر نظر آ رہا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ دینی حلقے اس سے دور نظر آتے ہیں۔ میڈیا کے خلاف تقاریر ، تحریروں کی بھرمار ہے حتی کہ فتوے بھی سامنے آئے ہیں لیکن اس کے اثرات کم ہونے کی بجائے مزید بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ تاہم کچھ مخلص مذہبی حلقوں نے میڈیا کے میدان میں دینی حوالے سے سرگرمی دکھائی ہے اور شاید اسی لیے اب کہیں کہیں میڈیا کو سمجھنے اور اس کے درست استعمال کی کوششیں بھی نظر آتی ہیں۔ حالات کی ٹھوکروں نے میڈیا کی اہمیت تو باور کرا دی ہے لیکن دینی طبقہ ابھی تک میڈیا کے بنائے ہوئے ماحول کو سمجھنے اور اس کی موجودہ پریکٹس میں اپنے لیے راہ تلاش کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اس تحریر کا مقصد میڈیا سے متعلق پائی جانیوالی غلط فہمیوں کی وضاحت اور دینی طبقے کو ایک دعوت فکر دینا ہے۔ یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اگر میڈیا ٹیکنالوجی کو دینی علوم رکھنے والے افراد مکمل پیشہ ورانہ اصولوں کے ساتھ استعمال کریں تو اسے تبلیغ دین کے لیے باآسانی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ چلئیے ہم اس معاملے کو ایک مثال کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے بات واضح ہو جائے گی۔ ایک ہوائی جہاز آپ کو یورپ کے عشرت کدوں یا عیاشی کے اڈوں میں لے جا سکتا ہے اور وہی مکہ مکرمہ میں حج کے لیے بھی۔ فرق صرف یہ ہے کہ آپ نے کونسی سمت منتخب کی ہے اور پائیلٹ کو کیا ہدایات دی ہیں۔ معزز علمائے کرام اور قارئین کرام ! میڈیا ٹیکنالوجی بھی ہوائی جہاز ، موٹر کاروں اور دیگر سہولیات کی طرح ایک ایجاد ہی ہے۔ چند آلات بنائے گئے ہیں کہ جن کو پیغام رسانی ، اپنے نظریات کے فروغ اور ان کو پھیلانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اگر آپ اس کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کریں گے تو یہ آپ کا نظریہ اور پیغام ہر سو پھیلا دے گا اور اگر اس سے دور رہ کر محض تنقید سے کام چلانے کی کوشش کی تو یہ اتنا طاقتور ہے کہ آپ کی آواز کو گمنام بنا دے گا یا آپ خود ہی اس کے اثرات کے سامنے خاموش ہو جائیں گے۔ ایک اور مثال سمجھتے ہیں کہ کیا آج کے دور میں آپ نے کوئی ایسا نیک شخص دیکھا ہے جو مکمل خلوص اور صرف اور صرف ثواب کے جذبے کے تحت پیدل حج پر جانا چاہتا ہو۔ شاید نہیں ! کیونکہ علمائے کرام سمیت ہر کوئی اسے جہاز یا اور کوئی تیز ترین ذریعہ استعمال کرنے کی تلقین کرے گا۔ آج ہم گاڑیوں ، کمپیوٹرز اور ایسی ہی دیگر چیزوں سے صرف اس لیے دور ہونا پسند نہیں کریں گے کہ ان کا غلط استعمال بھی ہوتا ہے۔ یہی حال میڈیا ٹیکنالوجی کا ہے۔ یہ تو دعوت کو تیز ترین طریقے سے بڑے پیمانے پر پھیلا دینے کا ہتھیار ہے۔ اگر ملحدین اپنا پیغام پھیلانے کے لیے ایسا مواد تیار کر سکتے ہیں کہ جو معاشرے میں بگاڑ کا باعث بنے تو اسلامی اصولوں کے اندر رہتے ہوئے بھی ایسا مواد تیار کیا جا سکتا ہے کہ جس سے عقائد پر بھی فرق نہ آئے اور دعوت کا کام بھی ہو سکے۔ شرط یہ ہے کہ اس کا استعمال سیکھ کر آلات کو مرضی کے مطابق چلانا سیکھا جائے۔ سوچ و بچار کے بعد اور بھرپور تیاری سے مواد کی تیاری کے لیے کام کیا جائے۔

اس مضمون کے ذریعے دینی طبقوں کو مخاطب کرنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ خوش نصیب لوگ ہی اشاعت اسلام کا بھرپور جذبہ رکھتے ہیں اور اس کے لیے اپنا وقت اور توانائیاں صرف کرتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں دین کی جو رہی سہی جھلک نظر آتی ہے وہ مسجد و محراب کے ان وارثوں کی ہی وجہ سے ہے۔ مدارس کے پڑھے ہوئے علماءکرام ہی ہمارے معاشرے میں دین کے بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اس تحریر کا مقصد صرف ان کو اس بات پر راضی کرنا ہے کہ میڈیا کو بے جاتنقید کا نشانہ بنانے کی بجائے اس کو اپنے حق میں استعمال کرنے کی طرف توجہ دی جائے۔ دعوت کے جذبے سے ان آلات کو اپنی آواز کفر کے ایوانوں میں پہنچانے کے لیے تصرف میں لایا جائے۔یقین کریں کہ میڈیا کا استعمال آپ کے لیے انتہائی مفید ثابت ہو گا اور یہ آپکی دعوت کو چہار سو پھیلانے کا باعث بن سکتا ہے۔میڈیا کے درست استعمال کے حوالے سے درپیش مسئلہ کو سمجھنے اور اس کو حل کرنے کے لیے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ یہ واضح ہے کہ اسلام گوشہ نشینوں اور تارک دنیا افراد کا دین نہیں ہے اس کے ماننے والے معاشرے کے فعال رکن بن کر جیتے ہیں۔تو پھر کیونکر دینی طبقہ کی جانب سے میڈیا کے میدان کو کھلا چھوڑ دیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ابلاغ کا شعبہ معاشرے کی تشکیل میں شامل نہیں ہوتا ؟ دینی دعوت کا کام سرانجام دینے والے لوگ اور تنظیمیں کیونکر اس کے بارے میں غور نہیں کرتے۔ کیا یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ یونیورسٹیز میں ماس کمیونیکشن کرنیوالے طلبہ جو کہ ملکی نظام تعلیم کی خرابیوں کے باعث دین کا کچھ زیادہ نظریاتی علم ہی نہیں رکھتے وہ ہی میڈیا کے میدان میں سب کی رہنمائی کریں گے۔ دینی طبقہ کیا ان سے معجزوں کی امید لگائے بیٹھا ہے ؟ کیا یہ انتظار ہے کہ یہ لوگ میڈیا کو ایسا بنا دیں گے جو کہ دین کی دعوت کے لیے اچھا ہو اور اس سے اسلام کی اشاعت ہو سکے ؟ اگر ایسا ہے تو واقعی پریشان کن ہے کیونکہ یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ بغیر نظریاتی علم اور ٹھوس علمی بنیاد کے صرف پیشہ ورانہ علم ہی کافی نہیں ہوتا۔ اور میڈیا کی درست سمت کے تعین کے لیے دینی علم رکھنے والوں کو خود میدان میں آنا پڑے گا۔

اس تحریر کا مقصد کسی دل آزاری نہیں ہے بلکہ کوشش صرف یہ ہے کہ دینی علوم رکھنے والے افراد میڈیا کی جانب متوجہ ہوں۔ یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ میڈیا کا خود اپنا کوئی نظریہ نہیں ہوتا بلکہ اس کو چلانے والے اپنے خیالات عام کرتے ہیں۔ اگر دینی لوگ اس کی باگ دوڑ سنبھالیں گے تو یقینا اسے ہدایت کا سرچشمہ بنایا جا سکتا ہے اور اگر کم دینی علم رکھنے والے یا بالکل ہی نابلد لوگوں کے ہاتھ میں میڈیا کی طاقت دے دی جائے تو پھر یقینا یہی کچھ ہو گا کہ جو آج ہم دیکھ رہے ہیں۔ یونیورسٹیز کے طلبہ کے پاس اچھی دینی معلومات تو ہو سکتی ہیں لیکن نظریاتی حدود کا خیال اور معاشرتی تبدیلیوں کی دینی لحاظ سے درست سمت کا تعین وہی لوگ کر سکتے ہیں کہ جنہوں نے باقاعدہ دینی علوم حاصل کر رکھے ہوں۔ میری مراد مدارس کے پڑھے افراد ہیں اور وہ علما جو اصل دینی مصادر سے استفادہ کرتے ہیں۔ احادیث کے علوم سے واقف ہیں جبکہ غلط عقائد اور خالص اسلامی حکم کے درمیان فرق کر سکتے ہیں۔ میڈیا کو تو اچھے بولنے والے چاہئیں۔ یہ واقعی المیہ ہے کہ اس وقت جو دینی پروگرام پیش کیے جا رہے ہیں ان میں ٹھوس دینی علم رکھنے والوں کی بجائے نیم دینی علم رکھنے والے لوگ غالب ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ مستند دینی حلقے اچھے اینکر اور ٹی وی پر اچھے بولنے والے افراد فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں جس کی وجہ سے یہ میدان جاوید غامدی جیسے لوگوں کے لیے کھلا چھوڑ دیا گیا ہے اور وہ اب دینی پروگراموں کو اپنے طریقے سے چلا رہے ہیں اور یہی حال ویب سائٹس ، ایف ایم ریڈیوز وغیرہ کا بھی ہے۔ اسی طرح دینی طبقات میں اچھی کتابیں لکھنے کا رواج تو عام ہے لیکن میڈیا کے لیے مضامین نہیں لکھے جاتے۔ ہمارے ہاں حالات حاضرہ کو دینی نقطہ نظر سے زیر بحث لانے کا انتظام نہیں۔ آپ کو ایک ایک سو یا اس سے بھی زیادہ کتابیں لکھنے والے علمائے کرام تو مل جائیں گے لیکن کالم نگار ، فیچر نگار علماءکی تعداد انتہائی کم ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ علماءکی کتابیں انہی کے حلقے کے لوگ تو ضرور پڑھتے ہیں یا پھر اچھا ادبی ذوق رکھنے والے طبقے بلکہ اس میں مسلک اور جماعت کی تفریق بھی حائل ہو جاتی ہے۔ جبکہ اگر یہی علماءاچھے انداز سے میڈیا میں اظہار خیال کریں۔ کالم لکھیں ، معاشرتی مسائل پر فیچر لکھیں تو نہ صرف زیادہ بڑا طبقہ مستفید ہوگا بلکہ لوگ دین کی طرف مائل بھی ہوںگے۔ حالات حاضرہ کو دینی نقطہ نظر سے زیر بحث لانے سے یہ بھی فائدہ ہوگا کہ علمائے کرام کے بارے میں عام تاثر بھی دور ہو گا کہ یہ وقت کے تقاضوں کو نہیں سمجھتے۔

ایک بہت بڑی غلط فہمی یہ بھی ہے کہ الیکٹرانک میڈیا یعنی ٹی وی۔ فلم اور دیگر ویڈیوز کو ہی سب کچھ سمجھ لیا گیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ الیکٹرانک میڈیا ذرائع ابلاغ کا ایک طاقتور حصہ ضرور ہے لیکن ایسا بھی نہیں کہ اس کے بغیر پیغام رسانی اور نظریات کا فروغ ہی ممکن نہیں۔ ویسے تو بہت سے دینی حلقے کچھ حدود و قیود کے ساتھ الیکٹرانک میڈیا کے قائل ہو چکے ہیں لیکن اگر کوئی جماعت اس کے بغیر ہی چلنا چاہے تو بھی کچھ زیادہ مشکل نہیں ہے۔ الیکٹرانک میڈیا کے میدان میں آنے کے لیے بھرپور تیاری کی ضرورت ہے کیونکہ دینی تبلیغ کے لیے موجودہ رائج الوقت طریقے کار آمد نہیں ہوں گے۔ دینی جماعتوں کو چاہیے کہ الیکٹرانک میڈیا میں زور آزمائی سے پہلے پہلے دیگر شعبہ جات یعنی پرنٹ میڈیا ( اخبارات و رسائل ) ، سائبر میڈیا یعنی انٹرنیٹ وغیرہ میں زیادہ کام کریں۔ کچھ عرصہ کی مکمل پیشہ ورانہ تربیت کے بعد الیکٹرانک میڈیا کی طرف آیا جائے۔ کیونکہ یہ ایک مہنگا کام ہے اس لیے بغیر پیشہ ورانہ تربیت کے فنڈز ضائع ہونے کا بھی خدشہ ہے۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ انٹرنیٹ ، پرنٹ میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ بھی کچھ کم اہمیت کے حامل نہیں ہیں اور اگر ان کو مکمل پیشہ ورانہ اصولوں سے استعمال کیا جائے تو ان سے انتہائی مفید نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ شرط صرف اور صرف یہ ہے کہ روایتی اور ڈنگ ٹپاؤ طریقوں سے ہٹ کر اس شعبے کی باریکیوں کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ پروپیگنڈا کرنا ایک مکمل سائنس کا درجہ حاصل کر چکا ہے اور اس کو اپنے حق میں استعمال کرنے کے لیے بھرپور تیاری کی ضرورت ہے۔ ایک وضاحت یہ بھی ضروری ہے کہ ” پروپیگنڈا“ کے لفظ کو بھی میڈیا کی طرح صرف منفی معنوں میں ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ حالانکہ اس سے مراد پیغام کو زیادہ سے زیادہ پھیلا دینا ہے۔ یعنی دعوت کو عام کرنا۔ یہ منفی اور مثبت دونوں معنوں میں استعمال ہو تا ہے۔

دعوتی سرگرمیوں سے منسلک علماءکرام کو ان سے متعلق جاننے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنا پیغام زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچا سکیں۔ انتہائی سستے طریقے موجود ہیں کہ جن کے ذریعے آپ اپنی بات سینکڑوں بلکہ ہزاروں لوگوں تک با آسانی پہنچا سکتے ہیں۔ سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس ، ای میلز ، ڈیلی نیوز لیٹر ، بلاگس اور ایسی بہت سے چیزوں کے استعمال سے دعوتی سرگرمیوںکو ملکی بلکہ عالمی سطح پر پھیلایا جا سکتا ہے۔ اخبارات میں اچھے لکھنے والوں کے لیے ابھی بہت گنجائش موجود ہے جبکہ الیکٹرانک میڈیا میں اچھے بولنے والوں کی ضرورت ہر وقت رہتی ہے۔ صرف اچھے رابطے کے ذریعے میڈیا گروپس سے فوائد حاصل کیے جاتے ہیں دینی طبقہ کے میڈیا کے میدان میں زیادہ اثر و رسوخ نہ ہونے کی ایک وجہ ہے بھی ہے کہ مذہبی جماعتوں ، ذیلی تنظیموں ، بڑے دینی اداروں وغیرہ کے شعبہ اطلاعات سے منسلک افراد بھی میڈیا کی ورکنگ سے پوری طرح آگاہ نہیں اور شاید بہت سے مواقع پر تو اس عہدے کو صرف خانہ پری ہی سمجھا جاتا ہے۔ آج کے دور میں یہ انتہائی اہم عہدہ ہوتا ہے۔ دینی جماعتیں کسی اہم اور نامور عہدیدار کو ہی ترجمان اور اطلاعات کے شعبے کا انچارج مقرر کرنا پسند کرتی ہیں۔ اگر کسی بڑے نام کو ہی ترجمان مقرر کرنا مقصود ہو تو بھی کم از کم اس کی مدد کے لیے ہی کسی پروفیشنل کو مقرر کر دیں۔ ہم زندگی کے دیگر شعبوں میں ٹیکنیکل کاموں کے لیے ہنرمند افراد کی مدد لینا پسند کرتے ہیں۔ لیکن شاید میڈیا کے لیے اس اصول کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔کیا ہم اپنی گاڑی کا ڈرائیور یا عمارت کا معمار بھی محض تعلق کی بنا پر مقرر کرنا پسند کریں گے ؟۔ہرگز نہیں کیونکہ ہمیں پتہ ہے کہ اگر ایسا کیا تو اناڑی ڈرائیور ضرور حادثہ کرا دے گا اور اگر معمار ہنرمند نہ ہوا تو عمارت کو اس طرح بنائے گا کہ وہ جلد گر جائے گی۔ شعبہ اطلاعات اور تعلقات عامہ کو مضبوط اور ماہر افراد کی زیر نگرانی ہونا چاہیے کیونکہ اس کا درست استعمال آپکی دعوت کو زیادہ تیزی سے عام کرے گا۔ ہر ہر موقعے پر مکمل منصوبہ بندی کی جائے کہ کس مسئلے پر کیا طریقہ کار اختیار کرنا ہے۔ کسی کے اخلاص پر شک نہیں کیا جا سکتا۔ دینی جماعتوں کے شعبہ اطلاعات سے منسلک افراد یقینا مخلص ہوتے ہیں اور اپنے طور پر بھرپور کوشش بھی کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود مطلوبہ نتائج صرف اس لیے حاصل نہیں ہو پاتے کہ منصوبہ بندی اور پیشہ ورانہ مہارت کی کمی ہوتی ہے۔

اس کے علاوہ بہت سی دینی جماعتوں اور رہنماؤں کو یہ اعتراض بھی ہے کہ میڈیا انہیں کچھ زیادہ اہمیت نہیں دیتا اور اس کا زیادہ فوکس سیاست اور دیگر تفریحی مواد کی طرف ہوتا ہے۔ اس اعتراض سے پہلے یہ بھی غور کرنا چاہیے کہ کیا کسی دینی جماعت نے میڈیا کی تربیت کے حوالے سے کوئی ادارہ قائم کیا ہے ؟ کیا میڈیا میں موجود افراد سے تعلقات بڑھانے اور ان تک اپنا پیغام پہنچانے کے لیے کوششیں کی گئی ہیں ؟ کیا دینی جماعتوں نے باقاعدہ ایسے افراد تیار کیے ہیں جو کہ میڈیا پر مخالفانہ پروپیگنڈے کا جواب دے سکیں ؟ کیا میڈیا کے لیے مواد کی فراہمی اور موجودہ پیش کیے جانیوالے مواد کا اسلامی تعلیمات کی روشنی میں متبادل فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے ؟ اگر ایسا نہیں ہو سکا تو پھر اعتراض کیسا ؟ جب کچھ بویا ہی نہیں گیا تو کیا کاٹنے کی امید کی جا رہی ہے۔ اگر آج میڈیا پر لادینیت اور سیکولرازم غالب نظر آتا ہے اور ایسی چیزوں کی بہتات ہے جو کہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہیں تو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ عالمی سطح پر اسلام مخالف اداروں نے اس کے لیے بھرپور کوششیں کی ہیں۔ ایسے ادارے موجود ہیں کہ جو مکمل منصوبہ بندی کے ذریعے میڈیا پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ ریسرچ سینٹرز قائم کیے گئے ہیں ، سروے رپورٹس اور انکشافات کے ذریعے میڈیا کو ایک خاص لائن فراہم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اسلام مخالف ادارے میڈیا سے منسلک ہنرمند اور تجربہ کار افراد کی خدمات حاصل کرتے ہیں اور ان کی رہنمائی میں ایسا مواد تیار کیا جاتا ہے جو کہ بظاہر تفریح ، کھیل یا کسی بھی اور مقصد کے لیے ہوتا ہے لیکن اس کا پوشیدہ مقصد معاشرے میں لادینیت پھیلانا ہے۔ میڈیا پر اس مواد کی اشاعت کے لیے سپانسرز ڈھونڈے جاتے ہیں اور ایک نیٹ ورک کے ذریعے اس کو عام کر دیا جاتا ہے۔ ہیری پوٹر سیریز اور انڈین چینلز کے ڈرامے اس کی مثال ہیں۔ ہیری پوٹر سیریز میں جادو وغیرہ کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اس کی کتاب مارکیٹ میں آتی ہے۔ چینلز اس کی کوریج کرتے ہیں۔ پھر فلم بنائی جاتی ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں اس کے اشتہارات بناتی ہیں۔ اس نام کے کھلونے اور دیگر سرگرمیاں سامنے آتی ہیں۔ غرض ایک مکمل منصوبہ بندی کے ذریعے اسے پوری دنیا میں زبان زدعام بنا دیا جاتا ہے۔ یہی حال انڈین ڈراموں کا ہے۔ ان میں ہندو مذہب کی بھرپور تبلیغ کی جاتی ہے۔ خواتین کے لباس کے ایسے ڈیزائن متعارف کرائے جاتے ہیں کہ جو بےحیائی کا باعث ہوں۔ تاجر فور ی طور پر اس قسم کے ڈیزائن کردہ لباس بازار میں لے آتے ہیں اور اس طرح ایک منصوبہ بندی کے ذریعے مقصد حاصل کیا جاتا ہے۔ اگر ہمیں میڈیا کو دینی تبلیغ اور اسلامی روایات کے فروغ کے لیے استعمال کرنا ہے تو اس کے لیے اسی قسم کی منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔ دینی جماعتوں کو میڈیا کے میدان میں کچھ بونے کی ضرورت ہے تاکہ اس کی فصل معاشرے میں پھیلنے والے اثرات کی صورت میں کاٹ سکیں۔

مسئلے کو صرف محفلوں میں زیر بحث لاکر کڑی تنقید کا نشانہ بنانا اور میڈیا میں کام کرنیوالوں کو بے دین اور اسلام مخالف قرار دینا بھی مناسب نہیں۔ کیونکہ اس سے پریشانی حل نہیں ہو گی بلکہ خلیج بڑھتی جائے گی۔ اس حقیقت کا اعتراف کرنا چاہیے کہ میڈیا میں کام کرنیوالے بہرحال مسلمان گھرانوں میں پیدا ہوئے اور ہمارے اسی مسلم معاشرے میں ہی پروان چڑھے ہیں۔ یقین کریں کہ ان میں سے کسی کا بھی تعلق بھارت یا ہندوازم سے نہیں ہے اور نہ ہی ان کی تربیت امریکہ ، یہودی تنظیموں یا اسلام مخالف گروہوں میں سے کسی نے کی ہے۔ یہ اسی معاشرے کے ایسے فرد ہیں کہ جنہیں نظام تعلیم کی خرابی، دینی طبقے سے رابطے کے فقدان ، مخصوص معاشرتی ماحول اور دیگر عوامل نے موجودہ مقام تک پہنچا دیا ہے۔ بات تو تلخ ہے لیکن تسلیم کرنا چاہیے کہ انہیں دینی طبقہ میڈیا کے میدان میں کوئی خاص رہنمائی فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے اور اب یہ لوگ مغربی اور بھارتی ثقافت میں رنگے نظر آتے ہیں۔ دینی جماعتیں اور حلقے یہ ہی کیوں چاہتے ہیں کہ سب لوگ خود بخود ہی چل کر ان کے پاس آئیں اور آکر رہنمائی کی درخواست کریں۔ اس بات پر کیونکر غور نہیں کیا جاتا کہ دعوت کا فریضہ تو بہرحال آپ کو ہی سرانجام دینا ہے۔ اگر آپ اپنی دعوتی سرگرمیوں کو اچھے طریقے سے سرانجام دیں گے اور مضبوط نیٹ ورک بنائیں گے تو معاشرے کا بڑا طبقہ بشمول میڈیا آپ کے ساتھ چلے گا اور اگر ایسا نہ ہو سکا تو یقینا مخالفین حاوی نظر آئیں گے اور محض مساجد میں دئیے گئے وعظ اور خطبات کام نہ آسکیں گے۔ دینی تعلیمات سے ہٹ کر زندگی گزارنے والوں کو بھی بہرحال کسی صورت بری الزمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس بحث کا مقصد تو صرف یہ ہے کہ نظریات کے اس تصادم میں اسلام کی دعوت کے امین اور صاحب علم دینی حلقوں کو کچھ زیادہ محنت کرنے کی ضرورت ہے اور خاص کر میڈیا کے میدان میں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جب بھی کوئی سنجیدہ کوشش ہوئی تو یہی نوجوان نسل کہ جسے دین بیزار سمجھ لیا گیا تھا وہ ہی ہراول دستہ ثابت ہوئی۔ کشمیر اور فلسطین کی تحریک آزادی میں یونیورسٹیز کے طلبہ کا ایک بڑا کردار ہے۔ انٹرنیٹ پر تبلیغ میں بھی بڑا حصہ ایسے افراد کا ہے جو کہ شاید کبھی کسی مدرسے نہ گئے ہوں۔ یہ علماءکرام کی کتابوں کی تشہیر کرتے ہیں اور مطالعہ کرکے دلائل ڈھونڈتے ہیں۔ دینی طبقے کو میڈیا سے منسلک افراد سے رابطے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ دینی اور نظریاتی افراد کو بھی پیشہ ورانہ مہارت حاصل کرکے میڈیا کے اداروں میں داخل کرایا جا سکتا ہے۔۔

اس مضمون کا مقصد دعوت فکر ہےکہ ہمیں ذرائع ابلاغ کے میدان میں ذرا تیز رفتاری سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ بالکل کام ہی نہیں ہو رہا۔ بہت سے حلقے کوششیں کر رہے ہیں اور ان کے کچھ مفید نتائج بھی نکلے ہیں۔ صرف یہ ہے کہ کام منظم نہیں ہے۔ ایسا سمجھ لینا کہ لوگ میڈیا کے ذریعے دین کی دعوت کو سننا ہی نہیں چاہتے بالکل ٹھیک نہیں ہے۔ یہ میڈیا ہی ہے کہ جس کے باعث آج ڈاکٹر ذاکر نائیک کو پوری دنیا جانتی ہے۔ سید توصیف الرحمٰن شاہ کی دعوت عام ہو رہی ہے۔ ڈاکٹر فرحت ہاشمی عالمی سطح پراپنی پہچان رکھتی ہیں۔ بہت سی اسلامی تنظیموں نے ایسا مواد تیار کیا ہے جو کہ واقعی پرکشش ہے اور اس کی وجہ سے ہی بہت سے لوگ مسلمان بھی ہوئے۔ انٹرنیٹ تبلیغ کا بہت بڑا ذریعہ بن چکا ہے اور یورپ و امریکہ میں اتنے لوگ اس کے ذریعے مسلمان ہوئے ہیں جن تک پہنچنا شاید ویسے ممکن ہی نہ ہوتا۔ ایک رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کی موبائل ایس ایم ایس سروس سے کئی ہزار لوگ مسلمان ہو چکے ہیں۔ یہ لوگ انتہائی مہارت سے میڈیا کو اپنے حق کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ایران میں بھی میڈیا کی روایتی پریکٹس سے ہٹ کر متبادل فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ اگر یہ سب منظم طریقے سے ہونے لگے تو کافی زیادہ اچھے نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ وقتی طور پر کسی گروپ کا غلبہ دیکھ کر پریشان نہ ہوا جائے۔۔ ایسا تو انبیاءکے دور میں بھی نہیں ہوا کہ سب لوگ ہی ہدایت یافتہ ہو گئے ہوں۔۔ یہ مقابلے کی دنیا ہے۔۔ ہر گروہ کو اپنا اپنا کام کرنا ہوتا ہے۔ میڈیا معاشرتی تبدیلی کا طاقتور ترین ہتھیار ہے اور دعوت کے میدان میں اس کی ضرورت بڑھتی جا رہی ہے۔ اس لیے دینی طبقے کے لیے ضروری ہے کہ میڈیا سے دور رہنے کی پالیسی کو دور کرتے ہوئے اسے اپنے حق میں استعمال کرنے کی کوششوں کا آغاز کرے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے