صبر وبردباری

جہاں داعی کے لئے علم کا ہونا شرط ہے اور راست بازی کا سبب ہے، وہاں صبر اس کے لئے اسلحہ اور ہتھیار کاکام دیتاہے۔ اسی طرح اگر بصیرت داعی کے لئے ضروری اور اس کی دعوت کا نور ہے تو حلم وبردباری اس کا ایندھن اور زادِ راہ ہے۔ ایندھن کے بغیر سفر نہیں ہوتا اور زادِ راہ کے بغیروہ چوکس نہیں ہوتا،ہتھیار کے بغیرجنگ کرنے والا ناکام ہوتاہے اور ایندھن کے بغیر سفر جاری نہیں رکھ سکتا۔ ابتدائی وحی میں رسول اللہ iکو دعوتِ دین کے ساتھ ساتھ صبر کرنے کا بھی حکم ہوا اور فرمایا گیا :

يٰٓاَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ   ۝ قُمْ فَاَنْذِرْ ۝ وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ   ۝ وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ ۝وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ ۝ وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ ۝ وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرْ ۝المدثر : ۱۔۷ ]

’’ اے چادر لپیٹے رکھنے والے ! اٹھ اور(لوگوںکو) ڈرا، اور اپنے ربّ ہی کی کبریائی کی منادی کر، اور اپنے دامن کو پاک رکھ، اور ناپاکی کو چھوڑ اور اپنی محنت کو زیادہ خیال کرکے اسے منقطع نہ کر اور اپنے ربّ کی راہ میں ثابت قدم رہ ‘‘۔

رسو ل اللہ eکا فرمان ہے :

’’وَمَا أُعْطِیَ أَحَدٌ عَطَائً خَیْراً وَأَوْسَعَ مِنَ الْصَّبْرِ‘‘

’’کسی شخص کو صبر سے بہتر اور بڑا کوئی انعام عطا نہیں ہوا‘‘۔(بخاری : ۱۴۶۹،۶۴۷۰ /مسلم : ۱۰۵۳)

میدانِ دعوت میں صبر سے مراد یہ ہے کہ حالات جیسے بھی ہوں راہِ دعوت پر گامزن رہا جائے اور مدعوّین کے ساتھ زبانی یا عملی کسی بھی طرح برا سلوک نہ کیا جائے۔

صبر کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں سے اذیّت رسانی کا انتقام نہ لیا جائے ، تنگ آکر اسے چھوڑا نہ جائے اور ناکامی دیکھ کر نااُمید نہ ہوا جائے۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہہ لیں کہ دل کے ردِّ عمل کو تسلیم نہ کیا جائے اور مختلف مواقع پر جلد بازی سے اجتناب کیا جائے۔ قرآنِ مجید اور سنّت ِمطہّرہ صبر کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے بھرے پڑے ہیں کیونکہ داعی کے کام کو جاری رکھنے ، لوگوں کو نفرت کا موقع نہ دینے اور دعوت إلی اللہ کی مقبولیت میں اس کا بڑا دخل ہے۔

اسی بنا پر اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے صبر وتقویٰ کو عظیم الشان کاموںمیں شمار کیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے   :

{وَإِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا فَإِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ}

’’اوراگرتم ثابت قدم رہے اور تم نے تقویٰ کو ملحوظ رکھاتو بے شک یہ چیز عظیم الشان کاموں میں سے ہے‘‘۔[ آل عمران : ۱۸۶ ]

اس سے بڑھ کر یہ کہ لوگوں کی تکلیف پر صبر کرنے کو اللہ تعالی نے انبیاء oکا طریقِ کار بتایا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے   : {وَلَنَصْبِرَنَّ عَلَی مَا آذَیْتُمُوْنَا }

’’اور تم ہمیں جو ایذا بھی پہنچاؤ گے ہم اس پر صبر کریں گے‘‘۔[إبراہیم : ۱۲ ]

ہم جانتے ہیں کہ صبر کا متضاد ہٹ دھرمی اور قطع تعلّقی ہے۔جو شخص ہٹ دھرمی اختیار کرتاہے لوگ اس سے متنفّر ہوجاتے ہیں اور وہ لوگوں کو دعوت دینا ختم کربیٹھتاہے اس لئے وہ خودبھی خسارے میں رہتاہے اور لوگ بھی۔

کاش بات یہیں پر رک جاتی اور وہ بے صبری کی بناپر معاملات میں جلد بازی سے کام نہ لیتا جبکہ بسا اوقات اس چیز سے دعوت وتبلیغ کے عمل کو برے نتائج اور پسپائی کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ جو شخص صبر سے کام نہیں لے گا، بردباری کا مظاہرہ نہیں کرے گا وہ ذاتی انتقام پر اتر آئے گا اور جو شخص ذاتی انتقام لیتاہے وہ خودکو بھی اور دعوتِ دین کو بھی نقصان پہنچاتاہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں ثواب سے محروم بھی ہوجاتاہے یہی وجہ ہے کہ اللہ ربّ العزت نے صبر ، حلم اور عفو ودرگزر تینوں کو ایک ساتھ بیان فرمایا ہے اور اسے عظیم کاموں میں شمار کیا ہے۔

ارشادِ باری تعالی ہے :

{وَلَمَنْ صَبَرَ وَغَفَرَ إِنَّ ذَلِکَ لَمِنْ عَزْمِ الْاُمُوْر} [

’’اور جس نے صبر کیا اور معاف کیا تو بیشک یہ عزیمت کے اوصاف میں سے ہے‘‘۔[الشوریٰ:۴۳ ]

سیدنا ابراہیم uکے بارہ میں ارشاد ہوتاہے :

فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہُ أَنَّہُ عَدُوٌّ لِّلَّہِ تَبَرَّأَ مِنْہُ إِنَّ إِبْرَاھِیْمَ لَاَوَّاہٌ حَلِیْمٌ ( التوبۃ:۱۱۴)

’’پھر جب اس پر واضح ہوگیا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو اس نے اس سے اِعلان بیزاری کردیا بے شک ابراہیم بڑا ہی رقیق القلب اور بردبار تھا‘‘۔

بردباری صبر کی شاخوں میں سے ایک بنیادی شاخ ہے۔

اہل لغت کے ہاں ’’حِلم‘‘ سے مراد بردباری اور سمجھ بوجھ ہے۔ قوت وطاقت ہونے کے باوجود غصّے کے وقت یا ناپسندیدہ چیز کو دیکھ کر تحمّل اور سکون سے رہنے کو ’’حِلم ‘‘ کہتے ہیں۔

’’حلیم‘‘ وہ ہے جسے اذیّت ناک کام آپے سے باہر نہ کرے اور غصّہ دلانے سے طیش نہ دلائے۔

اہلِ علم کہتے ہیں کہ علم اور سمجھ بوجھ دونوں کا دعوتِ دین سے پہلے ہونا ضروری ہے تاکہ داعی میدانِ دعوت میں قدم رکھنے سے پہلے صاحبِ بصیرت ہو اور پھسلنے سے محفوظ رہے۔صبر وتحمل ، دعوت وتبلیغ کے دوران ہوتاہے تاکہ داعی مخاطبین کی اذیّت رسانی اور الزام تراشی کے ردّ ِعمل کو برداشت کرے ، عمل دعوت کو جاری رکھے، لوگوں کی وجہ سے گھٹن محسوس نہ کرے اور نہ ہی ان سے قطعِ تعلّق کرے، جبکہ حلم اور بردباری عملِ دعوت کے بعد ہوتاہے تاکہ داعی مذاق اڑانے والوں اور تحقیر کرنے والوں سے کینہ پروری نہ کرے ، ان کی اذیّت کا انتقام نہ لے۔ ایک داعی کو اذیّت کا سامنا کرنے کی توقّع کرنی چاہیے اور اس پرصبر وتحمل کے لئے تیار رہنا چاہیے۔

یہی چیز عظیم کاموں میں سے ہے جبکہ گھٹن، کینہ ، دست درازی اور انتقام یہ تو ناکامی کا باعث ہوتے ہیں۔ اس لئے اللہ ربّ العزت نے داعی حضرات کو پیش آمدہ اذیّت پر صبر کرنے کی تلقین کی ہے۔

سیدنا لقمانu کی اپنے بیٹے کو نصیحت ان الفاظ میں بیان کی ہے :

{وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ وَانْہَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَاصْبِرْ عَلَی مَا أَصَابَکَ إِنَّ ذَلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ} [ لقمان:۱۷ ]

’’نیکی کا حکم دو اور برائی سے روکو اور جو مصیبت تمہیں پہنچے اس پر صبر کرو، بے شک یہ باتیں عزیمت کے کاموں میں سے ہیں‘‘۔

اللہ تعالی نے آنحضرت eکو بھی دعوتِ دین کا حکم دیا تو یہی فرمایا کہ اس میں صبر وتحمل سے کام لینا ہوگا۔

{وَاصْبِرْ عَلَی مَا یَقُوْلُوْنَ وَاھْجُرْھُمْ ھَجْرًا جَمِیْلًا }

’’اور یہ لوگ جو کچھ کہتے ہیں اس پر صبر کر اور ان کوبہتر طور سے نظر انداز کر‘‘۔[ المزمل : ۱۰ ]

اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول سیدنا محمدe اور آپ کے بعد آنے والے داعی حضرات کو سیدنا یونسu کے واقعہ سے آگاہ فرمایا ہے جس میں عدمِ صبر کی بنا پر پیچیدہ صورت حال پیش آئی۔ ارشاد ہوتاہے :

{فَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ وَلَا تَکُنْ کَصَاحِبِ الْحُوْتِ}

’’تو اپنے ربّ کے فیصلے تک صبر کر اور مچھلی والے کی طرح نہ بن‘‘۔[ القلم : ۴۸ ]

کیونکہ وہ دعوتِ دین اور انوارِ تجلّیات سے نکل کر مچھلی کے پیٹ کی تنگی اور تاریکیوں میں چلے گئے تھے۔ جوشخص بھی دعوتِ دین میں صبر وتحمل کی بجائے سختی، ہٹ دھرمی اور مقابلہ بازی کی کوشش کرتاہے اس کی یہی صورتِ حال ہوتی ہے۔ عجلت میں مقابلہ بازی پر اترنے والے میدانِ دعوت میں ناکامی کی وجہ سے ہی ایسے کرتے ہیں چونکہ وہ صبرنہیں کرتے اس لئے مقابلہ بازی پر اتر آتے ہیں۔نتیجہ یہ ہوتاہے کہ ناکامی اورزیادہ بھیانک نتائج کا سامنا کرنا پڑتاہے۔

اللہ ربّ العزت نے نہ صرف میدانِ دعوت میں صبر وتحمل کا حکم دیا ہے بلکہ یہ بھی فرمایا ہے کہ اس کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے مدعوّین کی طرف سے اذیت رسانی کا ردّ ِعمل نہ دکھایا جائے۔ارشادِباری تعالیٰ ہے :

{وَلَا تُطِعِ الْکَافِرِیْنَ وَالْمُنَافِقِیْنَ وَدَعْ أَذَاھُمْ وَتَوَکَّلْ عَلَی اللَّہِ وَکَفَی بِاللَّہِ وَکِیْلًا } [ الأحزاب:۴۸ ]

’’اور کافروں اور منافقوں کی بات کا دھیان نہ کرو اور ان کی ایذا رسانیوں کو نظر انداز کرو اور اللہ پر بھروسہ رکھو اور اللہ اعتماد کے لئے کافی ہے‘‘۔

اپنے خالق پر توکّل رکھتے ہوئے کارِ دعوت کو جاری رکھیں اور تبلیغ پر کارفرمارہیں۔ ہٹ دھرم کافروں کی ضدبازی اور منافقوں کی فریب دہی کو خاطر میں نہ لائیں۔ ان کی ایذاء رسانی کی پروا نہ کریں اور نہ ہی ان کے مکر وفریب کی بنا پر دعوت دینا ترک کریں۔

سابقہ انبیاء کرامoکا یہی طریقہ کار رہاہے وہ تو راہِ دعوت میں تشدّد اور انتقام سے بالکل ناواقف تھے ، وہ تو مجسّمِ صبر و معافی تھے۔ میدانِ دعوت میں کوئی ایسا نبی نہیں ملے گا جس نے اپنی قوم کو دعوت دیتے ہوئے مادّی طاقت کا مظاہرہ کیا ہو۔

باری تعالیٰ نے نبی کریمe اور آپ کے مشن پر چلنے والوں کو اس بات سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایاہے:

{فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ أُولُوْ الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ }

’’تم ثابت قدم رہو ، جس طرح صاحبِ عزم رسول ثابت

قدم رہے ‘‘۔[ الأحقاف:۳۵]

سیدنا نوحu نے نوسوپچاس سال کی طویل مدّت دعوت دی، قوم کی اذیّت رسانی اور تضحیک کے باوجود انہوں نے نہ تو کسی کو مارا نہ ہی کسی سے انتقام لیا۔ اسی طرح سیدنا ابراہیمuپھر موسیٰ اور عیسیٰe سب انبیاءo لوگوں کی اذیّت کے باوجودان کے ساتھ بردباری اور صبر ہی کا مظاہرہ کرتے رہے۔ آنحضرتeاور صحابہ کرامy تو میدانِ دعوت میں لوگوں کی اذیّت کے باوجود صبر وبردباری میں ضرب المثل اور مثالی نمونہ بن کر رہے حالانکہ وہ اپـنا حق لے سکتے تھے۔سیدہ عائشہr بیان فرماتی ہیں: ’’کہ رسول اللہeنے کسی کو اپنے ہاتھ سے کبھی نہیں مارا ، نہ بیوی کو ، نہ خادم کو، ہاں جہاد کے دوران الگ بات ہے۔ جب آپ کو تکلیف پہنچائی جاتی تو آپ کبھی بھی تکلیف دینے والے سے انتقام نہ لیتے تاہم اگر اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں کی بے حرمتی ہورہی ہو تو اللہ تعالیٰ کی خاطر انتقام لیتے‘‘۔

فتح مکہ اور دیگر مواقع پر نبی مکرمeنے نہ صرف درگزر فرمایابلکہ دشمنوں کو عزت وتکریم دے کر کتنے بلند اخلاق اور عظیم رویّہ کا اظہار فرمایا جبکہ مکہ والوں نے نبی کریم eکے ساتھ اور آپ کے صحابہy کے ساتھ کیا کچھ نہیں کیا تھا۔ جلد بازی چونکہ صبر کے خلاف ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کی تمام تر انواع سے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے :

{فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُولُو الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِلْ لَّھُمْ }

’’تم ثابت قدم رہو ، جس طرح صاحبِ عزم رسول ثابت قدم رہے اور ان کے لئے عجلت نہ کرو‘‘۔[ الأحقاف:۳۵ ]

سابقہ انبیاء کرامo کارِ دعوت میں صبر کرنے اور جلد بازی نہ کرنے میں آپ کے لئے نمونہ ہیں۔ امام قرطبیh فرماتے ہیں کہ ’’ ان کے بارہ میں عجلت نہ کریں‘‘ کی تفسیرامام مقاتل نے یہ کی ہے کہ ان کے حق میں بددعا نہ کریں۔( تفسیر قرطبی: ج۱۶ ص ۲۲۱،۲۲۲)

اس کی یہ بھی تفسیر کی گئی ہے کہ ان پر عذاب اتر وانے میں جلدی نہ کریں۔

امام ابن کثیرhنے بھی اس فرمان کی ایسے ہی تفسیر کی ہے۔( تفسیر القرآن العظیم ؛ ابن کثیر : ج۴ ص ۱۸۵)

امام بقاعیh نظم الدرر میں فرماتے ہیں : باری تعالیٰ نے آپeکو صبرجیساعلیٰ ترین خوبی اختیار کرنے کو فرمایا تو عجلت جیسی گھٹیا عادت سے بھی منع فرمایاتاکہ آپ صبر کی خوبی کو جو نصرت الٰہی اور کامیابی کی ضامن ہے، اختیارکئے رکھیں۔ ارشادِباری تعالی ہے : {وَلاَ تَسْتَعْجِلْ لَّھُمْ} ’’اورجلد بازی اختیار نہ کریں‘‘ یعنی جلد بازی کرنے والے لوگوں کے ساتھ نامناسب سلوک نہ کریں۔ (نظم الدرر فی تناسب الآیات والسور ، امام برھان الدین ابو الحسن ابراھیم بن عمر البقاعی: ج۷: ص۱۴۶)

سید قطب شہیدhنے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’دعوت وتبلیغ کا راستہ انتہائی مشکل اور تکلیف دہ ہے یہ اتنا کٹھن ہے کہ سیدنا محمدﷺ جیسی شخصیّت جو دعوت ہی کے لئے خاص، اس پر ثابت قدم اور پختہ کار تھے ، صاف شفاف کردار کے مالک تھے ، اس کے باوجود انہیں بھی باری تعالیٰ کی طرف سے صبر کرنے اور اس کام میں ہٹ دھرم لوگوں کے معاملے میں جلد بازی نہ کرنے کی تعلیمات کی ضرورت تھی۔ اس راستے کی مشقّت میں غمگساری کی ضرورت ہے۔ اس کی مشکلات میں صبر وتحمل اور اس کی تلخ نوائی میں باری تعالیٰ کی رحمت وشفقت کی رس بھر ی رحیق مختوم کو اپنا مشروب بنا نا پڑتاہے‘‘۔(فی ظلال القرآن ،لسید قطب :ج۶:ص۳۲۷۶)

اسلام کی نگاہ تو اس سے کہیں دور رس ہے اس نے ان کے لئے بددعا کرنے سے منع کرتے ہوئے اسے عجلت بازی کی ایک صورت قرار دیاہے۔

امام بخاریh نے خبّاب بن اَرَتّ کے حوالے سے ایک واقعہ اس طرح بیان کیا ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہe کعبہ کے سائے میں اپنی چادر کو سرکے نیچے تکیہ بنا کر تشریف فرماتھے کہ ہم نے عرض کیا یا رسول اللہe! آپ اللہ تعالی سے ہمارے لئے مدد کی دُعا کیوں نہیں فرماتے ، آپ نے فرمایا :’’تم سے پہلے لوگوں کی یہ صورتِ حال تھی کہ ایک شخص کو گڑھے میں کھڑا کردیا جاتا اور اس کے سر پر آرہ چلا کر دو ٹکڑے کردیا جاتا، اس کے باوجود وہ دین سے منحرف نہ ہوتا ، اور کبھی یہ ہوتا کہ لوہے کی کنگھیاں اس کے جسم پر چلائی جاتیں جو گوشت کو چیر کر اس کی ہڈیوں تک جاپہنچتیں لیکن وہ پھر بھی دین کو نہ چھوڑتا ، اللہ کی قسم اٹھا کر کہتاہوں ایک وقت آئے گا جب ایک مسافر صنعا سے حضر موت تک سواری پر سفرکرے گا اسے اللہ کے علاوہ کسی کا خوف نہیںہوگا ، تم جلد بازی سے کام لے رہے ہو‘‘۔(بخاری : ۳۶۱۲،۶۹۴۳)

اس حدیث میں جلد بازی سے کافروں کے لئے بددُعا کرنے سے منع کردیا گیا ہے، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ایسا کرنا مسلمانوں کے بے جا پریشان ہونے اور کارِدعوت کی تکلیفوں کو برداشت نہ کرنے کی علامت ہے۔ اس لئے نبی مکرمe نے ان کی بات کو نہیں مانا بلکہ انہیں جلد باز قرار دیتے ہوئے فرمایا ’’تم جلد بازی سے کام لے رہے ہو‘‘۔

اس موقع پر نبی مکرمe کی سیرت طیّبہ کا ایک اور خوبصورت واقعہ بھی پیشِ خدمت ہے۔

قبیلۂ دَوس کے کچھ لوگ اسلام لے آئے انہوں نے اپنے قبیلے کے باقی افراد کو اسلام کی دعوت دی لیکن وہ نہ مانے۔یہ لوگ رسول اللہeکے پاس آئے اور کہنے لگے’’ قبیلہ دوس کے لوگ نافرمان ہیں، وہ نہیں مانتے ‘‘آپ ان کے لئے بددُعا کریں یہ سن کر لوگوں نے کہا اب دوس کا کچھ نہیں رہے گا۔ رسول اللہeنے فرمایا : ’’اے اللہ ! دوس قبیلے کو ہدایت دے دے انہیں میرے پاس پہنچا دے ‘‘۔(بخاری : ۲۹۳۷/ مسلم : ۲۵۲۴ )

’’نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بہت جلد اسلام لے آئے ‘‘(دار قطنی فی جزء أبی طاھر :۹۶)

دیکھئے !وہ اپنی قوم کے لئے بددُعا کروانے آئے تھے آپe نے ان کے لئے دعا فرمائی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں ہدایت دے دی۔ ہم داعی حضرات کو اس جیسے عظیم اخلاق کی کتنی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے داعی حضرا ت کو ردّ ِعمل دکھانے،سختی ودرشتی کا راستہ اختیار کرنے ،مدعوّین کی بدسلوکیوں کی بناء پر طیش میں آنے سے منع فرمایا ہے کیونکہ یہ صبر کے منافی ہے۔ ارشادِ ربانی ہے :

{فَاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ اللَّہِ حَقٌّ وَلَا یَسْتَخِفَّنَّکَ الَّذِیْنَ لَا یُوْقِنُوْنَ} [ الروم : ۶۰ ]

’’تو تم صبر کرو بیشک اللہ کا وعدہ برحق ہے اور یہ یقین نہ رکھنے والے تمہیں بے وزن نہ بنانے پائیں‘‘۔

اس فرمان میں صبر سے آغاز کے ذریعے اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اسے معمولی سمجھنے سے بچنا چاہیے۔

امام بقاعیh تفسیر قرآن میں فرماتے ہیں ’’وَلاَ یَسْتَخِفَّنَّکَ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ ’’وہ آپ کو بے صبری پر نہ اُکسائیں کہ آپ سے مدد کے جلدی آنے کا مطالبہ کرکے اور آپ کو اس کی تاخیر کے انجام سے ڈراکر بے صبر بنا دیں یا آپ کو کارِدعوت میں کاہل وسست بنادیں۔‘‘ نظم الدرر : ج۵ : ص۶۴۷۔

باقی مفسرین نے بھی اس کے قریب قریب تفسیر کی ہے۔

سید قطب شہیدhنے اس کی تفسیر میں لکھا ہے :’’طویل اور کانٹے دار راستے میں جو بسا اوقات لامتناہی دکھائی دیتاہے صبر ہی اہلِ ایمان کا وسیلہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے وعدے پر یقین اور ایسی ثابت قدمی جس میں کوئی بے چینی، اضطراب ،کسی قسم کی حیرت اور شکوک وشبہات نہ ہوں۔ یہ سب چیزیں اس راستے کے مسافر کا سامان ہیں۔ مدِّمقابل کے پیچ و خم کے باوصف ان کی طرف سے حق کو جھٹلانے اور اللہ تعالیٰ کے وعدہ میں شکوک وشبہات پیدا کرنے کے باوجود صبر، یقین اور ثابت قدمی ہی ان کا اصل سرمایہ ہے۔وہ لوگ تو علم سے کورے ہیں، اسبابِ یقین سے محروم ہیں جبکہ اہل ایمان اللہ تعالیٰ کی رسّی کو تھامے ہوئے ہیں۔ لہذا ان کا راستہ تو صبر واستقامت اور یقینِ محکم ہی ہے خواہ یہ کتنا طویل ہوتاجائے اس کی منزل درپردہ دھند اور بادلوںکی تہوںمیںہوتی ہے‘‘۔(فی ظلال القرآن : ج۵ :ص۲۷۷۸)

عدمِ صبر کی جن خرابیوں سے داعی کو بچنا چاہیے ان میں سے ایک ہے غصہ کرنا۔ اس سے داعی کو ہر ممکن بچنا چاہیے یہ آدمی کے افکار وخیالات،اس کے الفاظ وبیان اوراس کے عادات واطوار پر چھا جاتاہے۔ اس سے ایسے کام کروالیتاہے جو دعوت وتبلیغ کے لئے باعث فساد ہوتے ہیں اورمدعوّین کو نفرت دلاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قاضی کو غصّہ کی حالت میں فیصلہ سنانے سے منع فرمایا گیا ہے۔

آ پe کا فرمان ہے :’’لَا یَقْضِیْ حَکَمٌ بَیْنَ اثْنَیْنِ وَھُوَ غَضْبَانٌ ‘‘

’’کوئی بھی شخص غصّے کی حالت میں فریقین کا فیصلہ نہ کرے‘‘۔( بخاری :۷۱۵۸/مسلم:۱۷۱۷)

ایک صحابی نے رسول اللہeسے خصوصی نصیحت کرنے کی درخواست کی تو آپe نے فرمایا: ’’غصّہ نہ کیا کرو‘‘۔اس کے بار بار سوال کرنے پر آپeنے یہی فرمایا: ’’غصّہ نہ کیا کرو‘‘۔(بخاری : ۶۱۱۶)

رسول اللہeکی طرف سے غصّہ نہ کرنے کی یہ نصیحت ہر مسلمان کے لئے ہے، ایک داعی کے لئے تو یہ اور بھی زیادہ مفید اور ضروری ہے۔

اس بات کے اختتام پر دو باتوں کی طرف توجہ دلانا مناسب ہوگا:

۱۔ ایک داعی اور ایک قاضی میں فرق ملحوظ رکھنا چاہیے ، داعی کا کام یہ ہے کہ وہ اذیّت پر صبر کرے اور بردباری کے ذریعے دعوت پیش کرے اور قاضی کاکام یہ ہے کہ وہ فیصلہ اور سزاسنائے۔یہ دونوں مختلف میدان ہیں اکثر لوگ ان دونوں میں خلط ِمبحث کردیتے ہیں، وہ میدانِ دعوت میں صبروتحمل کے ضروری ہونے ،مدعوّین کے ساتھ بردباری سے پیش آنے اور جج اورحکمرانوں کے ظلم وستم میں کوئی فرق نہیں کرتے ان دونوں میں فرق نہ کرنے سے بہت سے داعی حضرات کو بے موقع ومحل کام کرنے، معاملات میں مضطرب ہونے اور منہجِ دعوت میںغلط راستہ اختیار کرنے تک پہنچا دیا ہے۔

۲۔ دوسری بات یہ ہے کہ صبراوربردباری یہ دونوںکام کتابیں پڑھنے لیکچر اور دروس سننے سے نہیں آتے۔ ان کے لئے بہت زیادہ مشق کی ضرورت ہے ،اور یہ تربیت کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتے۔ بہت سے لوگوں کا صبر نہ کرنا، ڈانٹ پلانا ، انتقام لینا اور غلط طریقِ کار اختیار کرنا اسی تربیت کے فقدان ہی کا نتیجہ ہے، بلکہ اس سے بہت سے مشائخ بھی محروم ہیںعربی کا مشہور مقولہ ہے ’’جو خود محروم ہے وہ دوسرے کو کیا دے گا ‘‘اس لئے عملی منہج دعوت میں تربیت کی از حد ضرورت ہے۔

صبر وبردباری کے ثمرات

صبر وبردباری کے بہت سے فوائد وثمرات ہیںبلکہ دنیا وآخرت دونوں لحاظ سے اس کے قابل تعریف اثرات ہیں۔

1 اس کا پہلا دنیوی فائدہ یہ ہے کہ اس سے دعوت پہنچانے کی توفیق اور مخالفین کے خلاف مدد ملتی ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے   :

{اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصَّابِرِیْنَ}   [ الانفال : ۴۶ ]

’’بیشک اللہ ثابت قدموں کے ساتھ ہے‘‘۔ساتھ ہونے سے مراد ’’مدد کرنا‘‘ہے۔

رسول ا للہeنے فرمایا :

وَأَنَّ النَّصْرَ مَعَ الصَّبْر‘‘(أحمد ج:۱ ص:۳۰۷ / معجم کبیر طبرانی ج:۱۱ ص:۱۲۳/مسند عبد بن حمید : ۶۳۶)

’’صبر کرنے سے اللہ کی مدد حاصل ہوتی ہے‘‘۔

جولوگ صبر کریںگے وہ کامیاب ہوں گے اور جو طیش اور غُصہ میں آئیں گے وہ شرمندہ ہوںگے۔ اگر اللہ تعالیٰ دیگر انبیاء oپر بالعموم اور ہمارے نبی مکرمe پر بالخصوص ان کے صبر کرنے کی وجہ سے فضل وعنایت نہ کرتا تو نہ ہی دعوت کو پذپرائی ملتی اور نہ ہی ہم تک دین پہنچتا۔

2صبر وبردباری کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو صبر کرنے والوں سے محبت ہے اور جس سے اللہ تعالیٰ محبت فرمائے وہ دنیا میں بھی اس کی مدد کرتا ہے اور آخرت میں بھی انہیں اونچا مرتبہ عطا کرے گا۔

ارشاد ربّ العزت ہے   :

{وَاللّٰہُ یُحِبُّ الصَّابِرِیْنَ} [آل عمران : ۱۴۶]

’’اور اللہ ثابت قدم رہنے والوں سے محبت کرتاہے‘‘۔

یہ تو ہے دنیاکا ثمرہ، جبکہ آخرت میں اس کا صِلہ کہیں زیادہ اور کہیں بہتر ہوگا۔ ارشا د باری تعالی ہے :

{إِنَّمَا یُوَفَّی الصَّابِرُوْنَ أَجْرَھُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ}

’’جو ثابت قدم رہنے والے ہوںگے انہیں ان کا صلہ بے حساب دیاجائے گا‘‘۔[الزمر : ۱۰]   نیز فرمایا :

{أُوْلَئِکَ یُؤْتَوْنَ أَجْرَھُم مَّرَّتَیْنِ بِمَا صَبَرُوْا }

’’یہ لوگ ہیں جنہیں دوہرا اجر ملے گا کیونکہ وہ ثابت قدم رہے‘‘۔[القصص:۵۴]

3 صبر واستقامت کا تیسرا فائدہ یہ ہے کہ یہ داعی کی دل بستگی کے ساتھ ساتھ اس کے لئے راستہ واضح کرتاہے۔

اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کے بارہ میں ارشاد فرمایا ہے :

{قَالُواْ رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِیْنَ}     [ البقرۃ : ۲۵۰ ]

’’انہوں نے دُعا کی، اے ہمارے پروردگار!ہمیںبے بہا صبر دے ہمارے قدم جمائے رکھ اور کافر قوم پر ہمیں غلبہ عطا فرما‘‘۔

رسول اکرمeکا بھی فرمان ہے :

وَالصَّبْرُ ضِیَاءٌ ’’صبر روشنی ہے‘‘
(مسلم : ۲۲۳/احمد : ج:۵ص: ۳۴۲،۳۴۳)

دنیا وآخرت دونوں جہاں میں صبر اور بردباری کے اور بھی بہت سے فوائد ہیں طوالت سے بچنے کے لئے وہ تمام فوائد اور ان کے دلائل ذکر نہیں کئے جارہے۔

حلم وبردباری کا ایک عظیم ترین فائدہ یہ ہے کہ مدعوّین داعی سے محبت کرنے لگ جاتے ہیںاور جب ردِّعمل نہیں ہوتا تو دعوت پھیلتی جاتی ہے۔ ایک صابر وبردبار، لوگوں کی نظروں میں پسندیدہ ومقبول داعی میں اور کم ظرف، کمینہ خصلت، انتقام پسند اور لوگوں کو ناخوش گواری سے ملنے والے داعی میں زمین وآسمان کافرق ہے۔

۴۔ عفو ودرگزر:

صبر،عفو ودرگزر کا لازمی حصّہ ہے اور حِلم وبردباری چشم پوشی کا بنیادی تقاضا ہے، لیکن ان دو خوبیوں کوالگ الگ اس لئے ذکر کیا گیا ہے کہ ان دونوں کا دعوت کے مقبول ہونے یا نامقبول ہونے میں بڑا دخل ہے۔ دعوتِ دین کاکام اور لوگوں کی طرف سے اذیّت رسانی شروع سے ہی ایک ساتھ چلی آرہی ہیں۔ اذیّت دینے والے سے دور رہنا یا اس سے انتقام لینا انسانوں کی فطرت میں شامل ہے اسی طرح انتقام پسند داعی کی دعوت کو مسترد کرنا اور اس سے نفرت کرنا بھی انسانی مزاج کا حصّہ ہے۔ جب یہ صورتِ حال ہوتی ہے تو داعی کو نقصان ہوتاہے ، مدعوّین دورہوجاتے ہیں اور عملِ دعوت رُک جاتا ہے،اور لوگوں کو راہِ ہدایت نہیں ملتی۔ اسی لئے اللہ نے داعی کو مدعوّین سے چشم پوشی اور عفوودرگزر کرنے کو کہا ہے تاکہ لوگوں کے دل ودماغ ہر قسم کی کدورت سے صاف وشفاف ہوں اور وہ دعوت کی طرف پوری طرح متوجہ ہوںاور اسے قبول کریں۔ اس کامقابلہ یا اس سے نفرت نہ کریں۔

ارشاد ربّ العزت ہے :

{وَلَمَن صَبَرَ وَغَفَرَ إِنَّ ذَلِکَ لَمِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ}

’’اورجس نے صبر کیا اور معاف کیا تو بے شک یہ عزیمت کے اوصاف میں سے ہے‘‘۔[الشوری : ۴۳ ]

اللہ تعالیٰ نے عام مسلمانوں کو عموماً اوراہلِ دعوت کو خصوصاً مخاطب ہوکر فرمایا ہے

{فَاعْفُواْ وَاصْفَحُواْ حَتَّی یَاْتِیَ اللّہُ بِاَمْرِہ}

’’درگزر کرو اور نظر انداز کرو یہاںتک کہ اللہ اپنا فیصلہ صادر فرمائے‘‘۔[ البقرۃ : ۱۰۹ ]

اس لئے داعی کے لئے ضروری ہے کہ وہ عفوودرگزر اور چشم پوشی سے مزیّن ہو۔ اس میں نکتے کی بات یہ ہے کہ کچھ لوگ جاہل اور خود غرض ہوتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ دعوتِ دین ان کے کاموں میں مداخلت اور آزادی سلب کرنے کا دوسرا نام ہے لہذا اس لئے وہ قول وفعل کے ذریعے جوابی کاروائی پر اترآتے ہیں اور وہ دشنام طرازی، مارپٹائی،استہزاء اور کینہ پروری کرنے لگ جاتے ہیں۔

میدانِ دعوت میں معاف کرنے اور چشم پوشی کرنے سے مراد یہ ہے کہ اذیّت رسانی کی بناء پر ہونے والے اثرات کو دل ودماغ سے ختم کردیا جائے اور جذبہ انتقام دھودیا جائے۔ مدعوّین کے ساتھ خندہ پیشانی اورخوش دلی کے ساتھ ایسے پیش آیا جائے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ داعی کے دل میں اذیّت دینے والے کے بارہ میں کوئی کینہ نہ ہو، اس کی نقصان دہی کی بناء پر کوئی انتقامی جذبہ نہ ہو بلکہ جب بھی تکلیف پہنچے وہ اسے معاف کردے اور جب بھی کوئی نقصان ہو چشم پوشی کرے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے :

{وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ وَاللّہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ}

’’غصّہ کو ضبط کرنے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں اور اللہ تعالی احسن انداز اپنانے والوں کو دوست رکھتاہے‘‘۔(آل عمران : ۱۳۴)

نبی مکرمe کا فرمان ہے :

وَمَا زَادَ اللّٰہُ عَبْداً بِعَفْوٍ اِلَّا عِزّاً (مسلم : ۲۵۸۸)

اللہ تعالیٰ معاف کرنے سے آدمی کی عزّت میں اضافہ کرتاہے۔

آ پeسے پوچھا گیا کہ ایمان کا اعلیٰ درجہ کیا ہے؟ تو آپe نے فرمایا: ’’صبر کرنا اور چشم پوشی کرنا‘‘۔   (مصنف ابن أبی شیبۃ :ج:۶ ص:۱۶۷)

یہ دونوںخوبیاں ہر مسلمان کی عظیم الشان خوبیوں میں سے شمار ہوتی ہیں۔ ایک داعی کو تو انہیں بدرجہ اولیٰ اپنانا چاہیے۔

انبیاء ورسلo اور ان کی اقوام کا رویّہ بالخصوص ہمارے پیارے پیغمبر اور آپ کی قوم کا رویّہ اس کی بہت بڑی دلیل ہے۔کفار مکہ کی طرف سے آپeکو اور آپ کے صحابہyکو طرح طرح کی تکلیفیں پہنچنے کے باوجود آپeکے مزاج میں چشم پوشی اور آپ کا شعار عفو ودرگزر ہی رہا۔ طائف کے رہنے والے، جنہوں نے آپe کی دعوت کو مسترد کردیا تھا، اذیّت پہنچاتے ہوئے آپe کو خون آلود کردیا تھا، آپeپر بھبتیاں کَسی تھیں ان کا واقعہ مشہور ومعروف ہے۔    سیرت ابن ھشام : ج:۲ ص: ۶۷۔

اس کے باوجود آپeثابت قدم رہے اور ان سے درگزر اور حُسنِ سلوک کرتے رہے اس قسم کے مواقع پر آپe یہ مشہور الفاظ زبان مبارک پر لایا کرتے تھے۔

’’ اللّٰھُمَّ اھْدِ قَوْمِیْ فَاِنَّھُمْ لاَ یَعْلَمُوْنَ‘‘

’’ اللہ میری قوم کو ہدایت دے وہ جانتے نہیں ہیں‘‘۔

(ابو نعیم فی تاریخ أصبھان ج:۲ ص:۱۱۵،۱۳۰/ ابن عساکر فی تاریخ دمشق ج:۶۲ ص:۲۴۷۔   )

فتحِ مکّہ کے وقت اہلِ مکّہ سے نبی مکرمe کا درگزر فرمانا محتاجِ بیان نہیںہے حالانکہ انہوں نے آپe کو اور آپ کے صحابہ کرامy کو شدید اذیتوں سے دوچار کیا تھا، یہ بات تاریخ کے اوراق میں مستقل طور پر محفوظ ہے۔ (سنن کبریٰ بیہقی: ج:۹ص: ۱۱۸)

رسول اللہe نے اس دیہاتی کو معاف کردیا تھا جس نے اتنے زور سے آپ کی گردن میں کپڑا باندھ کر کھینچا کہ اس سے گردن پر نشان پڑگئے۔(بخاری: ۳۱۴۹ )

اسی طرح جب آپe درخت کے نیچے آرام فرما رہے تھے اور ایک مشرک قتل کرنے کے ارادے سے آپeکے پاس آیا۔ آپeکی تلوار درخت سے لٹک رہی تھی اس نے آپ کی تلوار پکڑ کر کہا: تمہیں مجھ سے کون بچائے گا؟ آپeنے فرمایا:’’اللہ‘‘۔ اس کے ہاتھ سے تلوار گِر گئی پھر آپe نے اسے پکڑا اور پوچھا تمہیں مجھ سے کون بچائے گا؟ وہ کہنے لگا :آپ بہتررویّہ اختیار کریں۔ آپ نے پوچھا :کیا تم لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہ پڑھتے ہو ؟اس نے کہا یہ تو نہیں پڑھتا تاہم یہ معاہدہ کرتاہوں کہ قتال نہیں کروں گا ، پھر آپe نے اسے چھوڑ دیا، وہ اپنے دوستوں کے پاس جاکر کہنے لگا’’ میں ایک ایسے شخص کے پاس سے آیا ہوں جو سب انسانوں سے نیک ہے‘‘۔( بخاری : ۲۹۱۰/ مسلم : ۸۴۳ /احمد: ج:۳ ص ۳۶۵)

آپ ذرا غورکریں کہ وہ شخص آپeکو قتل کرنے کو تیار تھا اور کفر پر بھی مصرّ رہا لیکن آپeنے اسے پھر بھی معاف فرمادیا۔

اے اللہ! ہمیں بھی فہم وفراست عطا فرما اور درگزر کرنے کی توفیق دے۔ آنحضرتeر تاقیامت صلاۃ وسلام ہو، ان کی ساری زندگی عفو ودرگزر سے ہی لبریز ہے۔

عفوودرگزر کے عظیم ثمرات ہیں ، مثلاً:

z اس سے داعی کا دِل خوش رہتاہے ،اسے شرحِ صدر حاصل رہتی ہے ، عفوودرگزر اور چشم پوشی ایسے کام ہیں جن سے دِل کو خوشی ہوتی ہے، لوگوں پر مزید توجہ دینے اور انہیں دین سے بہرہ ور کرنے کا شوق بڑھتا ہے خواہ وہ اذیّت ہی کیوں نہ پہنچاتے ہوں۔ جبکہ درگزر نہ کرنے سے دِل میں کینہ جنم لیتاہے اور جذبہ انتقام پیدا ہوتاہے لوگوں سے دل دور ہوجاتاہے اور داعی ان سے رُخ موڑ لیتاہے اور پھر دعوت چھوڑدیتاہے، ایک عقل مند کے لئے اس سے بڑھ کر اور کیا خسارہ ہوگا؟۔

z   عفوودر گزرکی بنا پر لوگ داعی سے محبت کرتے ہیں، اسے مقبولیت سے نوازتے ہیں بلکہ اس کا دفاع کرتے ہیں۔

z    اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کا بہت زیادہ ثواب ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے