کہا جاتا ہے کہ بادشاہ کی نیت اگر بگڑ جائے تو رعایا کا حال بگڑ جاتا ہے اس باب میں کئی ایک حکایات بیان کی جاتی ہیں ایک حکایت سند ھ کے کسی حکمران کی بیان کی جاتی ہے کہ نام اس کا جو بھی رہا ہو حکایت گو نے اس کا نام نبہان بتایا ہے ایک روز وہ رعایا کے احوال سے آگاہی کے لئے اپنے ساتھ دو تین محافظوں کو لیکر عام لوگوں کے بھیس میں نکلا رعایا کو خوش پایا ایک باغبان کے پاس پہنچا پیاس لگی تھی، باغبان نے دیکھا مسافر ہیں، پیاسے ہیں، جلدی سے گیا اور انار توڑ کر لایا، پھر نچوڑ کر ایک ہی انار سے گلاس بھر ا اور پیش کیا، بہترین ذائقہ تھا، جس کی وجہ سے بادشاہ کومزید طلب ہوئی، جس کا اظہار اس نے میزبان سے کیا ، باغبان اظہارِ پسندیدگی پاکر بہت خوش ہوا اور خوشی بخوشی دوبارہ انار توڑنے چلا، اسی اثنا میں بادشاہ نے سوچا ایسا اچھا باغ اور اس بستانی کے پاس اس پر میں قابض ہوجاؤں گا،(بعض حکایات میں لگان اور ٹیکس میں اضافے کی سوچ کا ذکرہے) بہر کیف نیت بادشاہ کی بگڑی تھی کہ اثر بھی فوراً ظاہر ہوا، بستانی انار توڑ کر لایا مگر یہ کیا نہ وہ ذائقہ نہ وہ رس جو کام ایک انار سے ہوا تھا اس کی جگہ چار انار کام آئے، بادشاہ نے بستانی سے پوچھا بھئی یہ کیا ماجرا ہے تو باغبان جو بادشاہ کی اصلیت سے ناواقف تھا، سادگی سے کہنے لگا : ہمارے بادشاہ کی نیت میں کچھ فرق آگیا ہے، یہ سن کر اس بادشاہ کے محافظ غضبناک ہوئے مگر بادشاہ نےا ٓنکھوں کے اشارے سے خاموش رہنے کا کہا اور دوبارہ انار لانے کی خواہش ظاہر کی جب باغبان انار لانے گیا تو بادشاہ نے اپنی نیت درست کرلی اور انار لائے گئے تو پھر وہی ذائقہ اور وہی رس تھا بادشاہ نے پھر پوچھا کہ اب کیا ہوا باغبان نے خوشی سے نہال ہوکر بولا’’ لگتا ہے بادشاہ کی نیت درست ہوگئی ہے۔‘‘
یہ حکایت پڑھ کر ذرا دیس کے حالات کو دیکھیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہر طرف نحوست ہی نحوست چھائی ہوئی ہے، ویسے تو سیاچن دنیا کا سرد ترین اور مہنگا ترین محاذ جنگ جہاں ہندوستان کے جنگی جنون کی وجہ سے تقریبا بتیس سال ہونے کو آئے ہیں کہ سالانہ سو سے زائد پاک فوج کے جوان جامِ شہادت نوش کرتے ہیں اور اس سے دوگنے ہندوستان کے فوجی مرتے ہیں مگر ۱۹۸۴  سے اب تک کبھی اتنا بڑا حادثہ نہیں ہوا کہ پورا ہیڈ کوارٹر یک لخت برف کے نیچے دب جائے، اس میں شک نہیں کہ قوموں کو اپنی بقا کے لئے ایسے محاذوں پر ڈٹنا پڑتا ہے اور خود اس کا سبق ہندوستان کارگل کے محاذ پر پاکستان کو دے چکا ہے، یقینا اس محاذ پر کام آنے والے پاک فوج کے جوان شہید ہیں اعلیٰ جنتیں ان کی منزل ہیں۔  تاحال ان کے جسموں تک رسائی ممکن نہیں ہوئی اور قوم افسردہ ہے اسی اثناء میں ایک اور حادثہ ہوگیا، بھوجا ائیر کی افتتاحی پرواز لے جانے والا طیارہ حکمرانوں کے ایوانوں کے قریب خوفناک حادثے کا شکار ہوگیا 127 افراد بیچارے چند سیکنڈوں میں لقمہ اجل بن گئے اللہ جانے اس میں بھی کوئی حکمرانوں کی نیت کا وبال ہی نہ ہو، کہ کچھ عرصہ سے حکمرانوں کی زمین سے فضا تک کمائی کی سوچ کے چرچے ہورہے تھے، نتیجہ کے طور پر انڈس ائیر کے وجود میں آنے کی خبریں عام تھیں۔اور یہ حادثہ ہوگیا،اللہ تعالیٰ ان آخرت کے سفر پر روانہ ہونے والوں کی بخشش فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے، بارشیں ربِ تعالیٰ کی بندوں پر رحمت کا مظہر ہے، مگر کبھی کبھی بارانِ رحمت وبالِ جان بھی بن جاتی ہے، پنجاب جو ملک کی غذائی ضرورت پورا کرنے کے لئے تقریبا دو تہائی حصہ فراہم کرتا ہے عین گندم کی کٹائی کے موقع پر وہاں طوفانی بارشوں کے ساتھ ژالہ باری ہوئی ہے جو فصلوں کے لئے انتہائی نقصان دہ ہے، غریب کا شتکار تو پہلے ہی اپنی محنت کا اکثرثمر سرمایہ کا ر اور ساہو کار کی جھولی میں ڈال دیتا ہے مگر شاید حکمرانوں کو اس کی پرواہ نہیں وہ تو عدلیہ فتح کرنے کے چکر میں ایسے چکراتے ہیں کہ یہ سوچنے کے لئے بھی تیار نہیں کہ گزرے ہوئے کل کو تو پیر عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ کے ساتھ جوڑتے ہیں مگر آنے والے کل میں وہ کیا جواب دیں گے؟ جب کہے گا کہ:
تھے تو وہ آباء و تمہارے مگر تم کیا ہو؟
ملک کے وزیرِ اعظم صاحب کو جب صوابدیدی فنڈ ملا ہے اس کے حساب سے گذشتہ چار سالوںسے یومیہ ساڑھے سات کروڑ روپے وزیرِ اعظم خرچ کردیتے ہیں اور باقی وزراء کی فوج ظفر موج اس کے سوا ہے مگر یہ پیسہ کہاں خرچ ہورہا ہے اللہ ہی جانتا ہے کیونکہ یہاں تو:
دن بدلے ہیں فقط وزیروں کے            پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے
وزیرِ اعظم صاحب سید زادے بھی کہلاتے ہیں اور عدالت و قانون کا مذاق بھی اڑاتے ہیں، ایک بیٹا حج کے معاملات میں کرپشن کا موردِ الزام ٹھہرا، دوسرا کیمیکل میں اورخود صاحب عدالت کی توہین میں سزا پاچکے ہیں، یہ کوئی ایک معاملہ نہیں ہے صرف خط نہ لکھنے کا بلکہ یہاں تو تیس تک عدالت کے حکم تعمیل و تنفیذ کے منتظر ہیں ، وہ کوا سفید ہونے کا اصول لیکر پارلیمنٹ کوسپریم مانتے ہیں اور عدالت کی بات تو سنتے چلے آتے ہیں مگر ماننے سے انکاری ہیں، یہاں کون ہے جو قانون سے بالا ہو جس نبی کی طرف صاحب بہادر نسبت کرتے ہیں اسی نبی محترم ﷺ نے کہا تھا کہ اگر میری بیٹی فاطمہ (رضی اللہ عنہا)بھی چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا واقعہ مشہور ہے کہ قاضی شریح کے پاس اپنی زرہ کا معاملہ لیکر گئے گواہ انکا غلام قنبر تھا قاضی گواہ قبول نہیں کیا، آپ نے حسن و حسین رضی اللہ عنہما کو پیش کیا، بیٹے ہونے کے ناطے بطورِ گواہ وہ قبول نہ ہوئے اور فیصلہ یہودیوں کے حق میں ہوگیا مگر یہودی میں کچھ غیرت تھی لہٰذا فوراً خود معترف ہوا اور مسلمان ہوگیا یہ باتیںاس حوالے سے نوکِ قلم پر آگئیں آپ اپنی نسبت سادات سے کرتے ہیں اگر یہ باتیں قابلِ قبول نہیں تو پھر چرچل کا یہ قول ہی مان لیں جس کا حوالہ آپ کے وکیل صفائی اعتزاز حسین چیف صاحب کی بحالی کی تحریک میں کئی بار دھرا چکے ہیں:
’’اگر میرے ملک کی عدالتیں صحیح کام کر رہی ہیں تو برطانیہ کو کوئی شکست نہیں دے سکتا‘‘
جنگ بدر میں جب رسول اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم لشکر اسلام کے مجاہدین کی صفیں سیدھی فرما رہے تھے تو آپ کے دست پاک میں ایک چھڑی تھی۔ سیدنا سواد بن عزیہ انصاری رضی اللہ عنہ ، صف سے نکل کر آگے کھڑے ہوگئے۔ حضور نے اس چھڑی (پتلی لکڑی) سے ان کے سینہ پر مار کر فرمایا:اِسْتَوِیَاسَوَادُیعنی اے سواد!  صف میں ٹھیک کھڑے رہو۔ سیدنا سوادرضی اللہ عنہ نے عرض کیا :اے اللہ کے رسول ! آپ نے تکلیف دینے والی مار مجھ پر لگائی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا اور عدل وانصاف آپ کے ہاتھ میں ہے، میرا قصاص (بدلہ) دیجئے۔ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا لباس مبارک اپنے سینہ اقدس سے دور کرکے فرمایا کہ:اے سواد! اسی وقت اپنا قصاص لے لو،چنانچہ سیدنا سواد رضی اللہ عنہ نے فی الفور اپنا چہرہ منصفِ اعلیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے سینہ پاک پر رکھ کر اس کا بوسہ لے لیا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے وہ الفاظ مشعلِ راہ ہیں کہ جب آپ اور اُبی بن کعب رضی اللہ عنہما سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی عدالت میں فیصلے کے لئے پیش ہوئے اور سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ساتھ کچھ احترام اور لحاظ کا معاملہ کیا تو خلیفہ خوش نہیں ہوئے بلکہ فرمایا زید ! اس وقت تک منصبِ قضاء کے لائق نہیں ہوسکتے جب تک ان کے نزدیک امیر المومنین عمر اور عام مسلمان برابر نہ ہو۔
مگر یہاں تو انصاف کی پاداش میں جج بدل دئیے جاتے ہیں ان کے پتلے جلائے جاتے ہیں۔
نجات کی حقیقی راہ پیارے پیغمبر علیہ السلام کی تعلیمات میں ہے مدینہ منوہ کی فلاحی ریاست ہمارے لئے رول ماڈل ہے ورنہ تو پھر ہم طرفہ تماشہ دیکھتے رہیں گے کہ جسے عدالت سزا دے وہ لڈیاں ڈالے مبارکباد وصول کرے امریکہ بہادر کوئی قدغن نہ لگائے اور جسےعدالت الزام ثابت نہ ہونے کی وجہ سے باعزت بری قرار دے اس کے سر کی قیمت لگے قوم کی بیٹی جرم بیگناہی میں مشق ستم بنے ہوئے ۹ سال گزار دے کوئی کوئی پرسانِ حال نہ ہو۔
الحفیظ والامان ۔۔ اللہ ہی پاکستان کا نگہبان

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے