حمد و ثناء کے بعد !

اللہ کے بندو ! میں اپنے آپ کو اور آپ سب کو اللہ تعالی کا تقوی اختیار کرنے کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ اسکا تقوی ہی وہ مضبوط آہنی سہارا ہے جو کبھی ٹوٹ نہیں سکتا اور وہ منبع نور ہے جو دلوں اور فہم و نظر کو منور کرنے والا ہے۔

اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے :وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ

اور اللہ تعالی سے ڈرو ( اسکا تقوی اختیار کرو ) جس کے نام کو تم اپنی حاجت براری کا ذریعہ بناتے ہو اور قطع رحمی سے بچو ۔ ( النساء :1)

مسلمانو ! معاشرہ کی سعادت و خوشحالی اور اس میں امن و استقرار کی ضمانت کیلئے سب سے بڑا قاعدہ اور امت کی تہذیب و ترقی اور اسکی عظمتوں کا بنیادی سبب امت کے اپنے رب پر ایمان و عقیدہ کے بعد اسکے اپنے باہمی معاشرتی ربط و تعلق اور اخلاقی قدروں میں پوشیدہ ہے جو کہ باہمی محبت و مودت ، صاف دلی اور دائمی صلہ و تعلقات کو منظم کرتے ہیں ، لوگوں کے دلوں سے باہم دوریاں ، بغض و عداوت ، قطع تعلقی ، جور و جفا ، اور حقد و عناد جیسی بیماریوں کو زائل کرتے ہیں ۔

علمی ترقی اور گلوبلائزیشن کا بھوت

مسلمانو ! اسلامی معاشروں کے اجتماعی و معاشرتی حالات پر گہری نظر رکھنے والا ہر شخص بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ وہ اس وقت زبردست معاشرتی تغیرات اور تہذیبی نقل و حرکت سے دوچار ہیں ۔ وہ مادی زندگی کے گرداب میں پھنس چکے ہیں اور دنیوی مشاغل میں کچھ اس انداز سے غر ق ہوچکے ہیں کہ جس کے نتیجہ میں بعض کردار کی بیماریاں اور ایسی شکلیں سامنے آ گئی ہیں کہ جن سے خدشہ ہورہا ہے کہ کہیں یہ ساری امت کے معاشرتی و اجتماعی نظام کو ہی نہ ہلا کر رکھ دیں ، اوپر سے علمی ترقی زوروں پر ہے اور گلوبلائزیشن ( دنیا کو ایک گاؤں بنانے ) کا ایک بھوت سوار ہوگیا ہے ۔ یہ دونوں چیزیں بھی اخلاق و کردار کو بگاڑنے اور سلبی صفات کو جنم دینے میں پیش پیش ہیں۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے امت اسلامیہ کے اپنے عقیدہ ، تہذیبی قدروں اور اصلی اجتماعی و معاشرتی اخلاق سے تمسک کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے ۔

خطرناک مسئلہ

موجودہ تغیرات زمانہ جو مسائل و مشکلات سامنے لایا ہے ان میں سے شاید سب سے خطرناک مسئلہ معاشرتی تعلقات کا ہے ۔ اس پر بہت برے اثرات رونما ہورہے ہیں ۔ قریب ہے کہ یہ مسئلہ خاندانی ڈھانچے کو توڑ پھوڑ کر رکھ دے اور معاشرے کے باہمی تعلقات اور ربط کو ہی زائل کر دے ۔ والدین کی نافرمانی کا مرض بڑھ رہا ہے ۔ والدین کی طرف سے بچوں کی نسبت تساہل و لاپرواہی روز افزوں ہے۔

خاندانی ذمہ داریوں سے دست کشی ہورہی ہے ، نوجوان نسل بگڑتی جا رہی ہے ۔معاشرتی مسائل و مشکلات اور شرح طلاق میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ، جرائم کے اسباب بڑھ رہے ہیں ، انحراف کے مظاہر روزافزوں ہیں ، خودکشی عام ہورہی ہے ، خاندانی تشدد اور میاں بیوی کے مابین ازدواجی تعلقات میں سخت خلل آ رہا ہے اور پیار و محبت میں ضعف اور قرابت داروں ، رشتہ داروں میں ربط و تعلق میں کمزوری آ رہی ہے ۔ قطع رحمی و لا تعلقی جیسی جفاء کی فضاء عام ہورہی ہے اور صدق و صفا کی جگہ کذب و جفا اور صلہ رحمی کی جگہ قطع رحمی نے لے لی ہے ۔ رشتۂ اخوت اور تعلق مودت ضعف پذیر ہیں،ایثار و قربانی اور اجتماعی کردار کی جگہ خود پسندی اور حب انفرادیت آ گئی ہے ۔ یہ چیزیں اس بات کی ایک وارننگ ہیں کہ ایک خطرناک معاشرتی بحران کی آگ بھڑکنے والی ہے ، جسے جلد از جلد بجھانا اور اسکا فورا خاتمہ کرنا واجب ہے اور اس کے لئے ہمیں اپنے معاشرتی مسائل کو حل کرنے کیلئے خصوصی اہتمام و توجہ کرنی ہوگی ۔

لمحۂ فکریہ

برادران عقیدہ ! ہم لمحہ بھر کیلئے ایک ایسے مسئلہ پر گفتگو کرنے جا رہے ہیں جو خاندانی مسائل و مشکلات میں سے ایک خطرناک ترین مسئلہ ہے اور ایک خطرناک اجتماعی و معاشرتی رجحان بھی ہے ، جسکے برے اثرات نہ صرف افراد و خاندان پر پڑ رہے ہیں بلکہ معاشرہ اور پوری امت بھی اسکے خطرات سے دوچار ہورہی ہے اور وہ خطرناک مسئلہ خاندانی شکست و ریخت اوراجتماعی و معاشرتی خلل یا توڑ پھوڑ ہے ۔ جو کہ آج بکثرت معاشروں میں پائی جاتی ہیں ۔ یہ ایک خطرے کا الارم اور ایک شر کی وارننگ ہیں جو کہ معاشروں کے ڈھانچے اور اسکے ستونوں کو ہلا رہے ہیں ، اسکی عمارت کو زنگ آلود کر رہے ہیں اور معاشروں کی تہذیبی عمارت اور اسکے اجتماعی و معاشرتی نظام میں دراڑیں ڈال رہے ہیں جس سے اسکی پوری عمارت کو خطرہ ہے کہ کہیں اس پوری کی پوری عمارت کو ہی یہ ہلاک و فناء نہ کر دیں اور اسے جڑوں سے اکھیڑ کر نہ رکھ دیں ۔

طوفان مغربیت

برادران ایمان ! خاندانی ربط و تعلق اور اجتماعی و معاشرتی نظام ہماری روشن شریعت کی صفات و امتیازات میں سے ہے اور یہ ہمارے مسلم معاشرہ کےعظیم خصائص میں سے ایک اہم خصوصیت ہے ۔ اور جب سے یہ ماڈرن یا عصری بگولے آئے ہیں اور اسلامی معاشرے ایک انتقالی مرحلہ سے گزر رہے ہیں تب سے ہی وہ مسلم معاشرے اس خاندانی امن و سلامتی اور اس معاشرتی و اجتماعی پیار و محبت کو کھوتے جا رہے ہیں جنکا پھریرا ہمیشہ سے ان کے سروں پر لہراتا آ رہا تھا اور ان امتیازات کے فقدان کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اس وقت مسلمانوں کی وہ نسل سامنے آ رہی ہے جو بیرونی ( مغربی ) طرز زندگی کی دلدادہ ہے اور وباء زدہ دلدل میں گرتی جا رہی ہے ۔ اور عصر حاضر کی تہذیبی بیماریوں کے کیچڑ سے لتھڑی جاتی ہے اور انکی یہ بیماری ان سے بعض ان مسلم معاشروں کی طرف بھی سرایت کرتی جا رہی ہے جو اس سے بچے ہوئے تھے اور وہ ان سے بھی اعلی اخلاقی صفات اور عمدہ اجتماعی و معاشرتی قدروں کے خاتمہ کا باعث بن رہی ہے اور یہ چیز پوری امت کی اخلاقی قدروں کو تباہ کرنے والے ایک طوفان کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے ۔

مغربی زندگی کی ایک مثال

اے امت اسلامیہ ! آج مغربی معاشرے جس طرز کی زندگی گزار رہے ہیں ان پر گہری نظر ڈالی جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ وہ سب سے زیادہ جس چیز سے نقصان اٹھا رہے ہیں وہ بیماری ہے انفرادی و خاندانی نظام میں شکست و ریخت یا توڑ پھوڑکی ، جس نے پہلے ان کے دلوں کو تنگ کیا تھا اور اب انکے گھر بھی ان پر تنگ کر دیئے ہیں ۔ اب وہاں نوبت یہاں تک آ گئی ہے کہ یہ کوئی باعث تعجب چیز نہیں رہ گئی کہ کسی محلہ کےلوگ پولیس کو کمپلین ( شکایت ) لکھوائیں کہ وہاں کسی گھر میں کوئی عمر رسیدہ شخص اکیلے پڑا ہی مر گیا ہے اور اسکی بدبو سے لوگوں کا سانس لینا دو بھر ہوگیا ہے اور بدبو پھیلنے تک اسکے مرنے کی کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی ۔ سبحان اللہ ۔

مادہ پرستی کا انجام :

اللہ کے بندو ! یہ ہے مادہ پرستی کا انجام ۔ جب یہ اخلاقی قدروں بلکہ اخلاق و کردار پر غالب آ جائے تو پھر یہی انجام ہوتا ہے ۔ اور اس سے بھی زیادہ تعجب و استغراب بلکہ ہلاکت خیز و تلخ بات تو یہ ہے کہ یہ بیماری بعض مسلم معاشروں میں بھی سرایت کرتی جا رہی ہے جبکہ وہ خود اپنی آنکھوں سے مغربی ممالک میں نظام خاندان کی تباہی کا نظارہ کر رہے ہیں ۔

(1)ہم بعض معاشروں میں شکست و ریخت کے مظاہر ، خلل و فساد اور بگاڑ کی صورتیں اور والدین کی نافرمانی کی شکلیں دیکھتے اور سنتے رہتے ہیں ۔ باپ کی عمر بڑی ہوگئی، ہڈیاں کمزور پڑ گئیں اور اسے اولاد کی ضرورت پیش آگئی جو اس کے ساتھ تعاون کرے لیکن وہ ان میں سے کسی کو نہیں پاتا سوائے اسکے کہ ان میں سے کوئی آتا ہے اور اس بوڑھے سے جان چھڑانے اسے بوڑھوں اور بے آسرا لوگوں کیلئے قائم کردہ کسی ادارے ( دارالامان ) کے سپرد کر آتا ہے اور اس وقت اس بوڑھے باپ کی زبان حال یہ کہہ رہی ہوتی ہے :

تو پیدا ہوا تو تجھے بڑے ناز و نعم سے پال پوس کر جوان کیا اور تیرے لئے کیا کیا جو کھم نہ اٹھائے ، جس رات تو بیمار ہوجاتا، میں وہ ساری ساری رات جاگ کر تیرے سرہانے بیٹھا گزار دیتا اور تیری تکلیف سے میں تڑپتا رہتا تھا ۔ اورجب تو جوانی کی عمر کو پہنچا ہے جس سے میں نے ہزاروں امیدیں وابستہ کر رکھی تھیںتو تو نے جوان ہوکر میرے ساتھ سختی و بدسلوکی کا رویہ اختیار کر لیا ہے اور تیرے اس رویہ سے لگتا ہے کہ میں نہیں بلکہ تو میرا محسن ہے، کاش ! تو اگر میرے پدری حقوق ( حقوق الوالدین) کا خیال نہ بھی کرتا تو کم از کم اتنا تو کرتا جتنا کوئی پڑوسی اپنے ساتھ والے گھرکے پڑوسی کا خیال کرتا ہے ۔ ایک زخمی دل باپ سے اپنے بیٹے کے خلاف یہ شکایت جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے سنی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم رونے لگے اور لڑکے کا گریبان پکڑ کر فرمایا : { تم اور تیرا سارا مال و اسباب تمہارےباپ کی ملکیت ہیں ۔ }

(2) ایک دوسرا عمر رسیدہ شخص ہسپتال میں داخل کیا گیا اور وہ صاحب فراش و بیمار ہے اور مرض و بیماری سے زیادہ وہ اپنوں کی بے رخی اور اولاد کی نافرمانی سے دکھی ہے اور انتہائی محرومیوں سے دوچار ہے اور وہ کہتا ہے : مجھے یہاں ہسپتال میں داخل ہوئے ایک ماہ سے زیادہ کا عرصہ ہوگیا ہے اور اللہ کی قسم ہے کہ آج تک میرا کوئی بیٹی بیٹا یا عزیز رشتہ دار ایک مرتبہ بھی عیادت و مزاج پرسی کیلئے نہیں آیا ۔

(3) معاملہ اس سے بھی آگے بڑھ چکا ہے اور ذلت کی حد تک پہنچ گیا ہے ایک بدبخت شخص کی ماں بوڑھی ہوگئی اور بیٹا اسکے ہاتھوں تنگ آ گیا اور اپنی نوکرانی کو حکم دیا کہ اسے گھر سے باہر نکال دو ، وہ بوڑھی مسکین عورت [جس نے اسے نو ماہ اپنے پیٹ میں رکھا ، تکلیفیں اٹھا کر جنم دیا اور مشقتوں سے پالا ) ساری رات اپنے گھر کی دہلیز پر گزارنے پر مجبور ہوگئی ، دن چڑھا تو پڑوسیوں نے اٹھایا اور اپنے یہاں لے جا کر اسکی خدمت و خاطر داری کی ۔

(4) ایک بد نصیب تو وہ بھی ہے جس کی اپنے باپ سے تلخ کلامی و منہ ماری ہوگئی تو اس نے گولی مار کر اپنے باپ کو ہمیشہ کیلئے ٹھنڈا و خاموش کر دیا ۔

یا اللہ ! یا الہی ! رحم فرما ۔ ان نافرمان و سرکش لوگوں نے اپنے محترم و عزیز ترین اور قریبی رشتہ داروں کے ساتھ کیا کیا جرائم نہیں کئے ۔ لعنت ہے ان پر اور انکے کرتوتوں پر ۔ ان کے دل تو پتھروں کی چٹانوں سے بھی زیادہ سخت ہوچکے ہیں ۔   واللہ المستعان ۔

عجائب قدرت اور غرائب فطرت کے اس زمانہ میں قطع رحمی اور والدین کی نافرمانی کے واقعات بیشمار ہیں ۔ ان لوگوں سے دینداری اور رحم و کرم کی صفات کیا ہوئیں۔؟

بلکہ مروت و انسانیت کہاں گئیں ؟ جب والدین کے ساتھ ان لوگوں کے سلوک کا یہ حال ہے تو دوسرے اقارب و رشتہ داروں سے یہ کیا کیا بد سلوکیاں روا نہ رکھتے ہونگے ؟

ارشاد الہی ہے :

فَهَلْ عَسَيْتُمْ اِنْ تَوَلَّيْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ وَتُـقَطِّعُوْٓا اَرْحَامَكُمْ ؀اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فَاَصَمَّهُمْ وَاَعْمٰٓى اَبْصَارَهُمْ     ؀

{ تم سے عجب نہی کہ اگر حاکم ہوجاؤ تو ملک و زمین میں خرابی کرنے لگو اور اپنے دشتوں کو توڑ ڈالو ۔ یہی لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی ہے اور ان (کے کانوں کو) بہرا اور ان ( کی آنکھوں کو ) اندھا کر دیا ہے}(محمد: 22 -23)

آتش فشاں:

بعض لوگوں کا حال تو یہ ہے کہ ان کا دل اپنے ہی رشتہ و قرابت داروں پر حسد و بغض اور غیظ و غضب سے بھر جاتا ہے اور وہ ان سے قطع تعلقی کر لیتے ہیں اور اسی پر بس نہیں کرتے بلکہ ان سے عداوت و دشمنی پیدا کر لیتے ہیں اور معمولی معمولی بات پر انکے لئے بربادی و موت کی تمنا کرنے لگتے ہیں ۔ معمولی سی چيز نزاع کا باعث ہوگئی کسی کی زبان سے کوئی معمولی سی چوک ہوگئی یا بچوں میں جھگڑا ہوگیا تو مہینوں کے مہینے بلکہ سالوں کے سال گزر جاتے ہیں اور ان کے دل آتش فشاں پہاڑوں کی آگ کی طرح اندر اندر سلگتے رہتے ہیں اور انکے خلاف عداوت و دشمنی کو پالتے رہتے ہیں اور اس وقت تک آرام سے نہیں بیٹھتے جب تک کہ انھیں اذیت و تکلیف نہ پہنچا دیں ، انکا کچھ نہ کچھ بگاڑ نہ لیں انکے عیوب و کوتاہیوں کو فاش نہ کر لیں اور جو بھی قبائح و فضائح ممکن ہوں انھیں پھیلا نہ دیں ۔ اور قسم ہے الہ الحق کی کہ یہ سب کمینگی ، طبعی ذلت اور قلت مروت کی علامتیں ہیں اور یہ ان لوگوں میں پائی جاتی ہیں جو دوسروں کو تکلیف میں دیکھ کر لذت محسوس کرتے ہیں اور انھیں پریشاں حال دیکھیں تو انھیں راحت میسر آتی ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیّہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

’’مومن مطالبے نہیں کرتا ، نہ غصہ جھاڑتا ہے اور نہ ہی ہاتھا پائی کرتا ہے ۔‘‘

مہلک بیماریاں:

معاشرے میں اور خصوصا ایک خاندان کے لوگوں کے قرابت داروں اور تعلق و رشتہ داروں میں قطع رحمی کی ہنڈیا کا ابلنا اور شخصی مصالح و ذاتی مفادات کا سر اٹھانا بڑی مہلک بیماریاں ہیں ۔ اگر امت کے جسم کو لگ جائیں تو اسے زمین بوس کر دیتی ہیں ۔یہ ہر بلا و مصیبت کا سرچشمہ ،ہر عداوت و دشمنی کا سبب اور ہر شقاوت و بدبختی کا منبع ہیں بلکہ وہ تیز دھار اسلحہ ہے جسے شیطان دلوں کے خلاف اٹھاتا ہے اور ان میں تفریق و اختلاف پیدا کر دیتا ہے اور تعلقات کے خلاف اس اسلحہ کو استعمال کرتا ہے تو انھیں اپنے شیطانی ابال اور ابلیسی ہیجان کے ذریعے توڑ پھوڑ کر رکھ دیتا ہے ، اگر وہ اپنے اس اسلحہ کی لگام چھوڑ دے تو وہ امت کے حال اور مستقبل کو تباہ کرکے رکھ دے ۔ جب دلوں سے محبت جاتی رہے تو تعلقات کے آبگینے ٹوٹ جاتے ہیں ۔

اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

وَالَّذِيْنَ يَنْقُضُوْنَ عَهْدَ اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مِيْثَاقِهٖ وَيَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖٓ اَنْ يُّوْصَلَ وَيُفْسِدُوْنَ فِي الْاَرْضِ ۙ اُولٰۗىِٕكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوْۗءُ الدَّارِ ؁

{اور جو لوگ اللہ سے عہد واثق کرکے اسے توڑ دیتے ہیں اور جن(رشتوں ) کو جوڑے رکھنے کا اللہ تعالی نے حکم فرمایا ہے انھیں توڑ دیتے ہیں اور ملک و ارض میں فساد و بگاڑ پیدا کرتے ہیں ، ایسے لوگوں پر لعنت ہے اور انکے لئے گھر بھی برا ہے ۔} ( الرعد : 25)

صلہ رحمی کے فضائل:

اے امت اسلامیہ ! جب بکثرت لوگوں کے دلوں میں دینداری کمزور پڑ گئی ، شریعت کے بارے میں جہالت عام ہوگئی اور مادہ پرستی نے بغاوت کر دی تو تعلقات و رشتے کمزور پڑ گئے اور قطع تعلقی کے مظاہر عام ہوگئے ورنہ صلہ رحمی کے فضائل و برکات کسی اہل عقل و خرد سے پوشیدہ نہیں ۔

(1) یہ صلہ رحمی اہل ایمان کی صفت ہے ۔ چنانچہ ارشاد الہی ہے :

وَالَّذِيْنَ يَصِلُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖٓ اَنْ يُّوْصَلَ وَيَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ وَيَخَافُوْنَ سُوْۗءَ الْحِسَابِ   ۝

{ اور جن رشتوں کے جوڑے رکھنے کا اللہ تعالی نے حکم دیا ہے ، انھیں جوڑے رکھتے اور اپنے رب سے ڈرتے رہتے اور برے حساب سے خوف کھاتے ہیں ۔ } (الرعد : 21)

(2) یہ اللہ تعالی اور روزآخرت پر ایمان کا ایک ثمرہ ہے ۔ صحیح بخاری و مسلم میں سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ارشاد نبوی ہے :

{ جو شخص اللہ تعالی اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیئےکہ صلہ رحمی کرے ۔ } ( بخاری و مسلم )

(3) یہ رزق اور عمر میں برکت کا ذریعہ ہے ۔ چنانچہ ارشاد نبوی ہے :

{ جسے یہ پسند ہوکہ اسکا رزق بڑھے اور عمر طویل ہو، اسے صلہ رحمی کرنی چاہیئے ) ( صحیحین عن انس رضی اللہ عنہ )

(4) سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

{ اللہ تعالی نے مخلوقات کو پیدا فرمایا اور جب انکی تخلیق سے فارغ ہوا ، تو رحم نے کھڑے ہوکر عرض کیا :یہ قطع رحمی سے تیری پناہ مانگنے والے کا مقام ہے ، تو اللہ تعالی نے فرمایا : ہاں !کیا تو اس بات سے راضی نہیں کہ جو تجھے ملائے گا ، میں بھی اسے ملاؤں گا ، اور جو تجھے توڑے گا ۔ اسی سے میں بھی رشتہ منقطع کروں گا؟ اس نے عرض کیا : کیوں نہیں ( میں اس سے خوش ہوں ) تو اللہ تعالی نے فرمایا : یہ تمہارےلئے ( میرا وعدہ ) ہے ۔ }

(5) سیدنا جبیر بن مطعم فرماتے ہیں : کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : { قطع رحمی کرنے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا }

سفیان رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ قاطع سے مراد قطع رحمی اور رشتوں کو توڑنے والا ہے ۔ } ( بخاری و مسلم )

صلہ رحمی کیا ہے ؟

ہر قطع رحمی کرنے والے پر واجب ہے کہ وہ فورا اپنی اس روش کو چھوڑ کر صلہ رحمی کی عادت کو اپنائے اور یہ وعید انکے کانوں سے ٹکرا رہی ہے اور آج کے نظام مواصلات و روابط میں تو صلہ رحمی کسی کے لئے بھی مشکل نہیں رہی ، اللہ تعالی اس شخص پر رحم کرے جو قطع رحمی کرنے والے عزیزوں سے بھی صلہ رحمی کرتا ہے ، انھیں جاجا کر ملے ، ہدیہ تحفہ دے اگر چہ وہ جفا ہی کیوں نہ کریں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے :

{ برابر کا بدلہ اتارنے والا صلہ رحمی کرنے والا نہیں بلکہ صلہ رحمی کرنے والا تو وہ ہے کہ دوسرے اس سے تعلق توڑیں اور یہ ان سے رشتہ جوڑے} ( صحیح بخاری )

صحیح مسلم میں سیدنا ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ مروی ہے کہ ایک آدمی نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم ! میرے رشتہ دار ہیں جن سے میں رشتہ جوڑتا ہوں مگر وہ مجھ سے رشتہ توڑتے ہیں ، میں ان سے اچھا سلوک کرتا ہوں مگر وہ مجھ پر زیادتی کرتے ہیں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

{ اور اگر تم واقعی ایسے ہوتو تم ان کے منہ پر راکھ چھڑکتے ہوجب تک تم اسی حالت پر قائم رہو گے ، تب تک اللہ تعالی کی طرف سے تمہارا ایک مدد گار مقرر رہے گا ۔ } (صحیح مسلم )

مبارک و خوشخبری ہے !

اس کے لئے جس نے صلہ رحمی کے سلسلہ میں دوسروں کا عذر قبول کیا، درگزر کیا ، معافی تلافی کی ۔ دوسروں کی تلخ و ترش باتوں سے تغافل کرتا رہا ۔ اگر کسی پر احسان کیا تو جتلایا نہیں اور اگر کسی کو دیا تو اسے نشر نہیں کیا ، جو نہ گالی گلوچ جانتا اور نہ ہی گرمی سردی کرتا ہے ۔ محبت و عتاب سدا نہیں رہتے ۔ وہ مناظرہ بازی اور جھگڑوں سے اجتناب کرتا ہے ، اچھی باتیں کرتا ہے اور اچھے کردار کا مظاہرہ کرتا ہے ۔ اپنے رشتہ داروں کے غم و خوشی میں شریک ہوتا ہے ، انکے دکھ درد میں حصہ لیتا ہے ۔ وہ ہر بھلائی کی چابی اور ہر شر کی راہ روکنے والا ہے ، وہ خیر خواہی و نصیحت تو کرتا ہے مگر لوگوں کے سامنے ذلیل نہیں کرتا ، اور نہ ہی عار دلاتا ہے ، اور اس میں عبرت حاصل کرنے والوں کیلئے عبرت اور نصیحت چاہنے والوں کیلئے نصیحت ہے ۔ اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ وہ ہمارے حالات کی اصلاح فرمائے اور ہمارا انجام سعادت و خوشی والا ہو۔ وہ بہت ہی عطاؤں اور نوازشوں والا ہے ۔

مرض کا علاج:

برادران اسلام ! قطع تعلقی اور خاندانی نظام میں آنے والی شکست و ریخت کی بیماری کی تشخیص کر لینے کے بعد اس مرض کیلئے دوا کی تجویز کی باری آتی ہے اور ان احتیاطی تدابیر کے تذکرے کا موقع آتا ہے جنہیں اپنانے سے اس خطرناک معاشرتی مسئلہ سے بچاجاسکتا ہے۔

اس کے علاج کے سلسلہ میں شایدسب سے پہلا اور مناسب ترین عمل یہ ہے کہ اللہ کے خوف ، اسکے ہر وقت ہمارے ہر عمل و فعل کو دیکھنے ، اسکے ہر وقت ہمارے ساتھ ( اپنے علم و قدرت سے ) ہونے ، اسکے احکام و اوامر کی تعظیم و تعمیل کرنے اور اس کے منع کردہ امور سے بچنے کے ذریعے اپنے نفوس کی اصلاح و تربیت کی جائے۔ حسن سلوک و حسن اخلاق ، تحفظ زبان ، افواہوں کے عام ہوجانے کی شکل میں تحقیق و جستجو کرنے کی عادت ڈالنے ، غیظ و غضب سے بچنے ، غصہ پی جانے اور اس پر کنڑول کرنے کی عادات اپنا کر اپنے نفس کی تہذیب کی جائے ، اور صلاح نفس و تزکیہ نفس کی کوشش کے ساتھ ساتھ صبر و تحمل ، عفو وکرم اور یقین و اعتماد کی عادات کو بھی اختیار کیا جائے اور اس بات پر یقین کیا جائے کہ امت کی قوت اسکے تمام افراد کے مل جل کر رہنے اور ان میں ایک مضبوط ربط و تعلق ہونے میں پنہاں ہے ۔

 

 

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے