Monthly Magazine of jamia Abi Bakar Al Islamia Karachi Pakistan جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی کا ماھنامہ مجلہ اسوہ حسنہ

چیف ایڈیٹر: ڈاکٹر مقبول احمد مکی حفظہ اللہ

  • صفحہ اول
  • شمارہ جات 2021
  • شمارہ جات 2020
  • شمارہ جات 2019
  • سابقہ شمارے
    • 2009
    • 2010
    • 2011
    • 2012
    • 2013
    • 2014
    • 2015
    • 2016
    • 2017
    • 2018
  • فہمِ قرآن کورس

کامیاب مدرس کی خصوصیات

Written by فاروق احمد حسن زئی 15 Jun,2012
  • font size decrease font size decrease font size increase font size increase font size
  • Print
  • Email

آپ کا تقرّر پڑھا نے ہی کے لئے ہوا ہے، سزا دینے کے لیے نہیں

ہمیشہ اس بات کا دھیان رکھیں کہ آپ مدرسے / جامعہ میں پڑھانے کے لیے تشریف لائے ہیں۔ اس لیے نہیں آئے کہ نہ پڑھنے والوں کو سزا دیں۔ یہ بات بھی یاد رکھیں کہ طالب علم کی ہر کمزوری کی ضمیر صرف اس کی طرف نہیں لوٹتی، اس کے دیگر اسباب بھی ہوسکتے ہیں، لہذا نرمی اختیار کریں۔

آپ خود بھی طالب علم رہ چکے ہیں، آپ کے ذہن میں آپ کے سخت استاذ کی کیا تصویر ہے؟ آپ کو اس استاذ سے زمانہ طالب علمی میں کتنی ذہنی و جسمانی اذیتیں پہنچتی رہیں اور آپ برداشت کرتے رہے۔ یہ طالب علم آپ کے متعلق بھی یہی سوچے گا، اس کے ذہن میں بھی آپ کی یہی خوفناک تصویر ہوگی،کتنے ہی ایسے طلبہ ہیں کہ بعض اساتذہ کی سختی اور نامناسب رویہ کی وجہ سے مدرسے کو خیر باد کہہ کر علم سے محروم ہو چکے ہیں۔

{کذا لک کنتم من قبل فمنّ اللّٰہ علیکم }

تم اس سے پہلے ایسے ہی تھے پس اللہ تعالیٰ نے تم پر احسان کیا ۔

عن عا ئشۃ رضی اللّٰہ عنھا ،قا لت: ما ضرب رسول اللّٰہﷺ شیئا ً قط بیدہ، ولا أمرأۃ ولا خا دماً

رسول معظم ﷺ نے کسی بھی خادم یا عورت پر کبھی بھی ہاتھ نہیں اٹھایا۔

طلبہ سے نیک شگن رکھیں اُن سے پُر امید رہیں

اساتذہ کی نگاہ بڑی مؤثر ہوتی ہے۔ وہ جس نظر سے اور جس گمان سے طلبہ کو دیکھے گا، طلبہ ویسے ہی بنیں گے۔ آپ طلبہ کو اس نظر سے دیکھیں کہ یہ بڑے ذہین، لائق و فائق اورباأدب ہیں۔ مستقبل میں دین کے خدام اور ہماری نجات کا سبب بنیں گے۔ ان شاء اﷲ وہ ایسے ہی ہوجائیں گے۔ بعض معلمین طلبہ کو بری طرح کوستے ہیں۔ انہیں طعنے دیتے ہیں ’’تم نالائق ہو! جاہل ہو، سست ہو‘‘۔ ان باتوں کو وہ ایک کمال سمجھتا ہے،حا لا نکہ اس کا طلبہ پر برا اثر پڑتا ہے۔

بچے کی نظر میں دو شخصیتیں بڑی عظیم ہو تی ہیں( اگرچہ فی الواقع وہ عظیم نہ ہو) ایک اس کا والد ،دوسرا اس کا استاذ۔ اگر بچے کو کوئی ما رتا ہے تو وہ جواب میں کسی طاقتور حاکم کا نام لے کر دھمکی نہیں دیتا ،بلکہ وہ یو ں کہتا ہے: ’’ میں اپنے ابّو کو بتا ؤں گا، میں اپنے استاذ کو بتا ؤں گا ‘‘۔ جو طلبہ امتحان میں اول آتے ہیں اس کی وجہ یہ ہو تی ہے کہ استاذ ان کو اپنے قریب رکھتا ہے، تعریفی کلما ت کہہ کر اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔

ٹھیک اسی طرح استاذ کے طعن وتشنیع ،مذمت و ملامت کا بھی برا اثر ہو تا ہے ، حا لانکہ استاذ کو اس کا احساس بھی نہیں ہوتا ہے۔

اپنی علمی ترقی کی بھی فکر کریں

صرف منہجی دروس سے رسمی فراغت اوررسمی تدریس پر اکتفا نہ کریں۔ بہت سے معلمین کا یہ خیال ہوتا ہے کہ ان کا رسمی طور سے فارغ ہونا اور پیشہ ورانہ انداز میں تدریس کرنا ان کے لیے کافی ہے۔ حالانکہ ابھی تو اس کی ذاتی علمی ترقی کا دور شروع ہوا ہے۔ پہلے ایک خاص نظم کا پابند تھا۔ اب صحیح معنوں میں طالب علم بنا ہے۔ انسان جتنا کم علم ہوتا ہے وہ اتنا ہی اپنے آپ کو بڑا عالم سمجھتا ہے۔ لہٰذا مطالعہ کتب اور شیوخِ علم سے ہمیشہ استفادہ کرتے رہنا چاہیے۔جو شخص اپنے بارے میں یہ خیال کرے کہ اب وہ سیکھنے سے مستغنی ہو چکا ہے ایسے شخص کو اپنی ذات پر رونا چا ہیے۔

آج بہت سے جدید فضلاء کرام رسمی فراغت کے بعد اپنی ایک مخصوص ومزعوم شان بنا لیتے ہیں اور بز عم خویش اپنے آپ کو مزید تعلیم حاصل کرنے سے مستغنی سمجھ کر ہمیشہ کے لئے مبتلائے جہل رہتے ہیں۔سیدنا سعیدبن جبیر رحمہ اللہ فرما تے ہیں:  

(لا یزال الرجل عا لماًما دام متعلّماً)

جب تک آدمی سیکھنے میں لگا رہتا ہے وہ عالم ہے۔

سیدنا عبد اللہ بن عبا س رضی اللہ عنہما فرما تے ہیں:

(وذلّلتُ طا لباًفعزّزتُ مطلوبًا)

میں نے طلب علم میں اپنے آپ کو ذلیل کیا تو اب میں مرجع بن کر عزت بنا رہا ہوں۔

علماء نے فرما یا : (من استویٰ یوماہ فھو مبغون) وہ شخص خسارے میں ہے جس کے دو (2 ) دن معلوما ت میں برابر ہوں، یعنی جو کچھ کل نہیں جا نتا تھا۔ آج بھی ویسا ہی ہے۔

اس با رے میں علا مہ ابن الجوزی رحمہ اللہ کتنی بڑی ہمت اور کتنی عظیم فکری بلندی کی دعوت دیتے ہیں اور پست ہمتی اور مر عو بیت کے بت کیسے پا ش پاش کر جاتے ہیں ، فرماتے ہیں :

من أعمل فکرہ الصا فی دلّہ علی طلب أشرف المقامات ونھا ہ عن الرضی با لنقص فی کل حال فینبغی للعا قل أن ینتھی الی غایۃ ما یمکنہ فلو کان یتصور للآدمی صعود السموات لرأیت من أقبح النقا ئص رضاہ با لأرض۔۔۔۔ ولو أمکنک عبو ر کل أحد من العلما ء والزھاد فافعل فانھم کانوا رجالا وأنت رجل ۔

’’ جوشخص فکر سلیم کو استعمال کرتاہے تو یہ فکر اسے عظیم مقامات کے حصول پر اکساتی ہے اور اسے تھوڑی معلومات پر اکتفاء کرنے سے منع کرتی ہے عقل مند آدمی کو حسب امکان بلند مراتب حاصل کرنے کے لیے انتھک محنت کی ضرورت ہے اگر انسان آسمان کی بلندیوں کو چھونے کی استطاعت رکھنے کے باوجود زمین کی پستیوں میں رہنے پر اکتفاء کرتا ہے تو اس سے بڑھ کر کوئی بےوقوف نہیں ہے ، اگر آپ دنیا جہاں کے علماء وزہاد سے آگے بڑھنے کی ہمت رکھتے ہیں تو پھر دیر کس بات کی کمر باندھئے وہ بھی آدمی ہے اور آپ بھی آدمی ہی ہیں۔‘‘

علا مہ عینی رحمہ اللہ عمدۃ القا ری میں لکھتے ہیں :

وللعلم آفات : أعظمھا الاستنکاف ، وثمرتہ الجھل والذلۃ فی الدنیا والاخرۃ وسئل أبوحنیفۃ بم حصّلت العلم العظیم ؟ فقا ل: ما بخلت با لا فادۃ ، ولا استنکفت عن الاستفادۃ

علم کی آفات ہیں جن میں سے سب سے بڑی آفت تکبر ہے اس کا نتیجہ جہالت اور دنیا وآخرت کی ذلت میں ظاہر ہوتاہے جب امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے ان کے عظیم علم کی بابت پوچھا گیا تو آپ نے جواباً ارشادفرمایا: میں نے کبھی بھی نفع پہنچانے میں بخل سے کام نہیں لیا اور نہ ہی کبھی استفادہ سے تکبر کی وجہ سے پیچھے رہا ۔‘‘

اپنے اندر بلند ہمتی ، ۱مانت داری پیدا کریں

آپ جدّو جہدجا ری رکھیں اور اس حوالے سے طلبہ کے لیے قابل اتباع نمونہ بنیں! آپ طلبہ سے بہترین اخلاق اور اچھی صفات کی جتنی بھی باتیں کریں ؛انہیں وعظ و نصیحت کریں، جب تک طلبہ یہ چیزیں آپ کے عمل میں نہیں دیکھیں گے، ان پر وعظ کا کوئی اثر نہ ہوگا۔ فعل، قول سے زیادہ مؤثر ہوتا ہے۔ قول و فعل میں مطابقت ہونی چاہیے۔ ماضی کے نیک اساتذہ کی نیکی اسی وجہ سے طلبہ میں خودبخود منتقل ہوجاتی تھی۔

اس کو قدوۃ حسنہ ، أسوۃ حسنہ کہا جا تا ہے۔

{یا أیھا الذین أمنوا لم تقولون ما لا تفعلون} کبر مقتا عنداللّٰہ أن تقولوا ما لا تفعلون}

اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں۔(الصف3)

أتا مرون الناس بالبر وتنسون أنفسکم}

تم دوسروں کو تو نیکی کا راستہ اختیار کرنے کے لیے کہتے ہو ، مگر اپنے آپ کو بھول جاتے ہو ؟ (البقرہ44)

تدریس کے ما بین السطورسے بھی آگا ہ رہیں

یہ مسلّمات میں سے ہے کہ تربیت محض طلبہ کے ذہنوں میں معلومات بھرنے کا نام نہیں ہے، بلکہ تربیت ان کی صحیح رہنمائی، اخلاق، عادات و اطوار کی تہذیب اور مطلوبہ مہارتوں کو پیدا کرنے کا نام ہے، طلبہ سبق کے علاوہ معلم کی شخصیت، سیرت، اخلاق، برتاؤ اور اس کے افکار اور معلومات فراہم کرنے کے انداز سے غیر شعوری طور پربھی بہت کچھ حاصل کر لیتے ہیں جو ان کے لئے سبق سے زیادہ اہم اور نفع بخش ہوتا ہے۔

یہ چیزیں کبھی طلبہ میں کچھ صفات پیدا کرنے کا باعث ہوتی ہیں اور کبھی ان سے بری عادات چھڑانے کا سبب بھی بنتی ہیں۔ مثلاً طلبہ؛ محنتی، بہترین اخلاق کے حامل، احساس ذمہ داری رکھنے والے استاذ سے (خواہ وہ کوئی بھی فن پڑھاتا ہو) علم کی محبت، مدرسے کی محبت اور لوگوں سے حسن معاملہ، عمل صالح، سیکھ لیتے ہیں، معلم کو اس کا پتہ بھی نہیں ہوتا۔  

اگر معاملہ برعکس ہو تو طلبہ کے اندر معلّم کی تمام بری صفات بھی منتقل ہو جاتی ہیں۔ کبھی طالب علم استاذکے علم کی بجائے ان کی شخصیت سے زیادہ متاثر ہو جاتا ہے (خربوزہ خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑتا ہے)۔

اما م احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے درس میں حدیث لکھنے والے طلبہ چار پا نچ سو ہو تے تھے جبکہ ان کی سیرت واخلاق اور زہد واخلاص سیکھنے والوں کی تعدا د ہز اروں میں ہو تی تھی۔

لا أعلم کہنے میں کبھی بھی عا ر محسوس نہ کریں

بعض معلمین کی عادت ہوتی ہے کہ جب ان سے کسی ایسی چیز کے متعلق سوال کیا جائے جو ان کے علم میں نہ ہو، تو وہ ’’لا أعلم‘‘ (لا أدری)کہنے میں حرج محسوس کرتے ہیں، اوراس کو اپنے منصب کے خلاف سمجھتے ہیں جبکہ اس میں کوئی عار محسوس نہیں کرنی چاہیے۔

ایک تو اس لیے کہ ہم پر علم اور طلبہ کی صلاحیتوں اور ان کے عقل و شعور کا احترام واجب ہے۔ اگر ایک چیز ہمارے علم میں نہ ہو تو ہمیں جواب دینے میں تکلف برتنے اور ٹالنے کے بجائے کھلے دل سے لاعلمی کا اعتراف کرنا چاہیے۔

دوسرا یہ کہ معلم پر واجب ہے کہ وہ اپنے اور طلبہ کے ذہن میں یہ بات اچھی طرح بٹھالیں کہ معلم اور طالب دونوں سے نہ یہ مطلوب ہے اور نہ ہی یہ ان کے بس میں ہے کہ وہ سب کچھ جانتے ہوں۔

بلکہ ایک مدرس کے لیے یہ جاننا لازمی ہے کہ وہ اپنے عمل کی حدود اور اقدار کو پہچان لے اور جس شے سے ناواقف ہے اس میں نہ بولے۔

لا أعلم کہنے سے معلم کی شان کم نہیں ہوتی۔یہ جا ہلا نہ خیا ل ہے بلکہ طلبہ کی نگاہوں میں اس کی قدر و منزلت اور بڑھ جاتی ہے کیو نکہ یہ اس کی تقویٰ ،طہا رت قلب، کمال معرفت اور حسن نیت کی دلیل ہے ،جو شخص ہر بات کا جواب دے فقہاء نے اسے مجنون قرار دیا ہے۔بسا اوقات انسان حاضرین کی نگا ہوں میںگرنے کے خوف سے لا علمی کا اظہار نہ کرکے غلط جواب دیتا ہے چنا نچہ اس کی یہ غلطی لوگوں میں مشہور ہو جا تی ہے،؛جس کی وجہ سے وہ لوگوں کی نگاہوں میں گر ہی جا تا ہے۔ جس چیز سے بچنے کے لئے لاعلمی کا اظہا ر نہیں کیا، اسی میں مبتلاء ہو گیا۔

اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا {أنبؤنی بأ سما ء ھٰؤلائ}

مجھے ان چیزوں کے نام بتلا ؤ؛ فرشتوں نے ان الفاظ میں اپنے لا علمی کا اظہار کیا:

{سبحٰنک لا علم لنا الّا ما علّمتنا }

اُنہوں نے عرض کیا ’’ نقص سے پاک تو آپ ہی کی ذات ہے ہم تو بس اُتنا ہی علم رکھتے ہیں ، جتنا آپ نے ہم کو دے دیا ہے ۔ (البقرہ36)

ہم تو صرف وہی جا نتے ہیں جو آپ نے ہمیں سکھا یا

سیدنا عبداللہ بن عبا س رضی اللہ عنہما فرما تے ہیں :

{اذا أخطأ العالم لا أدری أصیبت مقاتلتہ}

جب عالم لا أدری نہ کہنے کی غلطی کرتاہے تو وہ ہلاک ہوجاتا ہے۔

قرآن کریم میں سیدنا موسیٰ اور خضر علیہما السلام کے واقعہ سے اللہ تعا لیٰ نے علما ء کو یہی ادب سکھا یا ہے۔ جب سیدنا موسیٰ علیہ السلا م سے پوچھا گیا:

’’کیا روئے زمین پر آپ سے بڑھ کر کوئی عالم ہے؟’’ تو انہوں نے جواب میں واللہ أعلم نہیں کہا تھا۔

معلم کو چا ہیے کہ وہ اس با رے میں قرآن ؛وسنت فرشتوں اور اسلاف کی تابعدا ری کریں، مصنوعی شان کی بقاء کے لئے اس کو نہ چھوڑیں۔ آج اس انصاف کی بڑی کمی مشاہدے میں آرہی ہے۔

{قل ما أسئلکم علیہ من أجر وما أنا من المتکلفین }

تعلیمی وسا ئل وآلات کو مؤثر اندا ز میں استعما ل کریں :

رسول اﷲ ﷺ نے جب صحابہ کرام کو اﷲ تعالیٰ کا ارشاد:

{ وأن ھذا صراطي مستقیماً فاتبعوہ۔ ولاتتبعوا السّبل فتفرّق بکم عن سبیلہ}

’’یہ میرا راستہ جو کہ سیدھا ہے اسی کی اتباع کرو اور دیگر مختلف راستوں پر نہ چلو‘‘ (سورۃ الانعام: ۱۵۳)

سمجھانے کا ارادہ کیا تو آپ نے ایک سیدھی لمبی لکیر کھینچی! آپ نے صحابہ کرام کو سمجھایا جس کا مفہوم یہ ہے کہ ’’یہ اﷲ کا راستہ ہے، صراط مستقیم ہے۔ اس کے دائیں اور بائیں جانب میں بہت سی چھوٹی چھوٹی لکیریں کھینچی، فرمایا یہ سبل ہیں (یعنی کفر و شرک اور بدعت کے بہت سے مختلف راستے ہیں) اس سے معلم کو یہ تعلیم ملتی ہے کہ وہ طلبہ کو مشکل مبا حث اور سبق کو آسا نی سے ذہن نشین کرا نے کے لئے بورڈ پر اس کے نقشے ،جدا ول بنائیں مشکل سبق کو مختصر اور آسا ن انداز میں اس طرح پڑھا ئیں کہ طلبہ کو اس کا ثقل محسوس نہ ہو۔

تعلیمی آلات کو بروئے کار لانے سے کئی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔نظری بدیہی بن جاتا ہے، معقول محسوس بن جاتا ہے، معلم تشریح وتقریرکی دماغ سوزی سے بچ جاتا ہے، معلومات ذہن میں راسخ ہو جاتی ہیں، طلبہ کو درس کی طرف متوجہ کر دیتا ہے، بات کی وضاحت محض بولنے، تقریر کرنے کی نسبت اچھی طرح ہو جاتی ہے … لہٰذا معلم اسے فضول سمجھ کر نظر انداز نہ کریں۔

بورڈ (تختہ سیا ہ یا سفید) آپ کا دا ئمی معاون ہے، اسے نظر انداز نہ کریں :

بورڈ کا استعمال قدیم وسائل تعلیم میں سے اور تفہیم کا ایک مؤثر ذریعہ ہے جس کے استعمال سے معلّم کوکوئی زحمت نہیں ہوتی اور کوئی معلم اس سے مستغنی بھی نہیں ہوسکتا، البتہ اس کا صحیح استعمال جاننا لازمی ہے۔اگر معلّم ابتدا ئی درجوں کے طلبہ کے لئے سبق کا اجما لی خلا صہ اور اس کا نقشہ بورڈ پر لکھے اور پھر اس کی تشریح کرکے سمجھانے کی کوشش کریں تو یہ طریقہ بہت مفید ثا بت ہوتا ہے۔ اسی طرح استاذ درس گاہ میں داخل ہوتے ہی پہلے بورڈ پر اپنے فن کا نام لکھے اور اس کے نیچے جو کچھ پڑھا نا ہے وہ مو ضوع لکھیں پھر اس کو مثا لوں سے سمجھا کر کتا ب سے منطبق کردے،بورڈ استعمال کرنے سے معلومات ذہن میں راسخ ہو جاتی ہیں ، طلبہ درس کی طرف متوجہ رہتے ہیں بات کی وضا حت محض بو لنے تقریر کرنے کی نسبت اچھی طرح ہو جا تی ہے لہٰذا معلم اسے فضول سمجھ کر نظر انداز نہ کرے۔

غصے سے اجتنا ب کریں

درسگاہ میں معلم کا اپنے شاگردوں پر غصے ہونا ان عوا مل میں سے ہے جو اس کے اعصاب کو مفلوج کرکے درسگاہ پر سے اس کا کنٹرول ختم کردیتا ہے اور درسگاہ، تعلیم گاہ ہو نے کے بجائے خوف و ہراس کی آماجگاہ بن جاتی ہے، بلکہ بسا اوقات معلم غصے میں آکر ایسے کاموں کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے جس کے نتائج انتہائی ناخوشگوار بلکہ بسا اوقات بھیانک ہوتے ہیں … غصہ کرنا معلم کی شکست کی علامت ہوتی ہے یا احساس کمتری کی … ’’ أوّل الغضب جنون و آخرہ ندامۃ‘‘۔ غصے کی ابتدا پاگل پنی اور اس کی انتہا پشیمانی پر ہو تی ہے ، طا لب علم کے کسی نا مناسب عمل پرغصہ آناایک فطری بات ہے البتہ اس کا اظہار اور اس کے مقتضیٰ پر عمل کرنا کسی مسئلے کا حل نہیں، اس سے صرف دلی حرارت کی تسکین ہو جاتی ہے۔

ایسی حالت میں معلّم

اَعُوْ ذُ بِا للہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ

پڑھے اور قرآن کریم کی ان آیتوں میں غو ر وفکر کریں۔

{وَالْکَا ظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّا سِ}(ال عمران ۱۳۴)

غصہ پینے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے۔

{ وَ اِذَا مَا غَضِبُوْا ھُمْ یَغْفِرُوْنَ}(الشوریٰ ۳۷)

اور غصے کے وقت (بھی) معاف کر دیتے ہیں۔

{وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ ۠ فَاعْفُ عَنْھُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَھُمْ وَشَاوِرْھُمْ فِي الْاَمْرِ }

اور اگر آپ بدزبان اور سخت دل ہوتے تو یہ سب آپ کے پاس سے چھٹ جاتے سو آپ ان سے درگزر کریں ،ان کے لئے استغفار کریں اور کام کا مشورہ ان سے کیا کریں ۔(اٰل عمران ۱۵۹)

رسو ل اللہ ﷺ نے اپنے ایک صحا بی کو(جس نے آپ ﷺ سے مختصر نصیحت کی درخواست کی)ا ن الفاظ میں وصیت فرما ئی:

(لا تغضب، لا تغضب، لا تغضب )

غصہ مت کریں، غصہ مت کریں، غصہ مت کریں۔

درسگا ہ میں مشکلا ت پیدا کر نے والےطلبہ کے ساتھ بھی اچھا معا ملہ کریں :

ہمیں مثالی بننے کی ضرورت نہیں، مصلح بننے کی ضرورت ہے، بگڑے ہوئے طلبہ کی اصلاح کرنی چاہیے۔

ہر درسگاہ میں دو تین طلبہ ایسے ہوتے ہیں جو معلم کے لیے درد سر ہوتے ہیں، لیکن یہ لاعلاج بھی نہیں ہوتے۔

معلم اس کا علاج ذیل طرق سے کر سکتا ہے۔

٭ درسگاہ میں نشاط و چستی کا ماحول پیدا کیا جائے، تنگی و ملال نہ آنے دیا جائے۔

٭آپ ایسے طلبہ کی بیماری کا اصل سبب معلوم کریں کبھی اس کا سبب شرارتی طالب علم کے قریب بیٹھنا ہوتا ہے، تو اس کی جگہ تبدیل کریں۔ اپنے قریب بٹھالیں؛ اگرسبب عدم دلچسپی ہے تو اس میں احساس پیدا کردیں۔ پٹائی کا راستہ اختیار نہ کریں اس سے آپ کے دل و جذبات کی تسکین تو ہوسکتی ہے لیکن طالب علم کی اصلاح نہیں ہوسکتی۔

بعض مدا رس وجا معات میں معمولی نوعیت کی شرا رت پر بھی طلبہ کو خا رج کردیا جا تا ہے، حا لانکہ اخراج تو آخری حل ہے اس پر اس وقت عمل کیا جا ئے کہ جب اصلا ح کے دوسرے تما م طریقے نا کام ہو جائیں۔

{وَمَا كَانَ رَبُّكَ لِـيُهْلِكَ الْقُرٰي بِظُلْمٍ وَّاَهْلُهَا مُصْلِحُوْنَ   ؁} (ھود ۱۱۷)

آپ کا رب ایسا نہیں کہ کسی بستی کو ظلم سے ہلاک کر دے اور وہاں کے لوگ نیکوکار ہوں۔

آپ سبق کے لئے ایک منصوبہ بنا ئیں، اس پر عملدر آمد کریں اور اس منصوبہ بندی میںایک حد تک طلبہ کو بھی شریک کریں :

منصوبہ بندی ہر کام میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے، لیکن کوئی منصوبہ اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کو باریک بینی سے نافذ نہ کیا جائے۔ اس منصوبہ میں طلبہ کو ضرور شریک کریں۔

اس سے شرعی مشاورتی نظام اور اظہار رائے کی تربیت ہوگی، اور طلبہ مقصودو مطلوب عمل میں دلچسپی بھی لیں گے کہ استشار کے عمل میں ان کو اہمیت دی جا رہی ہے۔

رسول اﷲ ﷺ کو حق تعالیٰ نے یہی حکم دیا: {وشاور ھم فی الأمر}(ان سے مشاورت کیا کریں)

مو منوں کی صفت میں ارشا د فرما یا :

{وأمرھم شوریٰ بینھم }(اور ان کا معاملہ آپس میں مشاورت سے طے ہوتا ہے)

قرآن کریم میں ایک سورۃ کا نام بھی سورۃ الشوریٰ ہے

معلم محض پڑھا نے والا نہیں ، مربی بھی ہے :

استاذ کی صرف یہ ذمہ داری نہیں کہ وہ طلبہ کے ذہنوں کو کتابی معلومات سے بھردے بلکہ آپ معلم ہو نے کے سا تھ ساتھ مربی بھی ہیں، آپ کو چاہیے کہ آپ طالب علم کو فنی معلومات بہم پہنچانے کے ساتھ ساتھ اس کی عقلی، روحانی، جسمانی اور اصلاحی پہلوؤں پر بھی نظر رکھیں اور اس کی شخصیت سازی کریں، شریعت کا پابند بنادیں، ان کی کمزوریوں کی نشاندہی کریںاور اس کے اصلا ح کے طریقے بھی بتائیں۔

{وَلٰكِنْ كُوْنُوْا رَبّٰـنِيّٖنَ بِمَا كُنْتُمْ تُعَلِّمُوْنَ الْكِتٰبَ وَبِمَا كُنْتُمْ تَدْرُسُوْنَ   ؀}

بلکہ وہ تو کہے گا کہ تم سب رب کے ہو جاؤ ، تمہارے کتاب سکھانے کے باعث اور تمہارے کتاب پڑھنے کے سبب۔(اٰل عمران۷۹)

طلبہ کی صلا حیتوں کو پہچان کر اس کی استخرا جی صلاحیت بڑھا نے کی کو شش کریں،صرف روٹین کے اسبا ق پر منجمد نہ رکھیں:

جیسے کہ ابھی ہم نے عرض کیا کہ استاذ مربی بھی ہے۔ لہٰذا وہ ہر پہلو پر نظر رکھے گا، آپ اس پہلو پر بھی نظر رکھیں کہ طلبہ میں بڑی بڑی صلاحیتیں موجود ہوتی ہیں، اور ان میں بہت سے شیر خفتہ ہوتے ہیں، ان صلاحیتوں کو باہر لاکر نقص کو دور کریں، ان میں نکّھا ر پیدا کریں اوران کو اپنی صلا حیتیں اہم کا موں میں استعما ل کرنے کے طریقے بتا ئیں۔

{ وَسَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا مِّنْهُ }

اور آسمان و زمین کی ہر ہرچیز کو بھی اس نے اپنی طرف سے تمہارے لئے تابع کر دیا ہے۔(الجاثیہ۱۳)

{كُلًّا نُّمِدُّ هٰٓؤُلَاۗءِ وَهٰٓؤُلَاۗءِ مِنْ عَطَاۗءِ رَبِّكَ ۭ وَمَا كَانَ عَطَاۗءُ رَبِّكَ مَحْظُوْرًا   ؀}

ہر ایک کو ہم بہم پہنچائے جاتے ہیں انہیں بھی اور انہیں بھی تیرے پروردگار کے انعامات میں سے۔ تیرے پروردگار کی بخشش رکی ہوئی نہیں ہے ۔(بنی اسرائیل۲۰)

امتحا نات بھی بڑی اچھی شکل میں با ضا بطہ ، منصفانہ ہو نے چا ہئیں:

تحریری امتحان تو کسی حد تک باضابطہ ہی ہوتا ہے، البتہ اگر امتحان تقریری (شفوی) ہو توممتحن کو چا ہیے کہ امتحان آسان سوالوں سے شروع کرے تاکہ طالب علم کے دل سے امتحان کا اور ممتحن کا رعب و خوف ختم ہو جائے۔اور وہ آسا نی سے اپنے ما فی الضمیر کا اظہار کر سکے۔

تقریری امتحان میں طالب علم سے علیک سلیک کے بعد طالب علم سے نرمی کا برتاؤ کریں، امتحان کی ابتدا ء آسان سوا لوں سے کریں اور کچھ تشجیعی اور حوصلہ افزاء کلمات بھی استعمال کریں، خاص طور پراس وقت اس کا اہتما م کریں جب اس پر امتحان کا خوف طا ری ہو۔

تقریری امتحان میں ایک طالب علم کا امتحان اس کے دوسرے ساتھیوں کے سامنے نہ لیں، اگر وہ مزاجاً شرمانے والا ہو تو اس سے اور بھی زیادہ اجتناب کرنا چاہیے۔

تقریری امتحان کے دوران طا لب علم کو ڈانٹنے ؛ ما رنے اور اسے مرعوب و خوف زدہ کرنے سے با لکل اجتنا ب کریں ؛خوشگوار ما حول میں آزادانہ انداز سے انصاف کے ساتھ امتحان لیں۔ پہلے سے کبھی بھی دل میںیہ طے نہ کریں کہ بس مجھے تو ان سب کو فیل ہی کرنا ہے،کیونکہ اس قسم کی نیت اور ارادہ کے ہوتے ہوئے انصاف پر عمل نہیں ہو سکتا۔ (انما الأ عما ل با لنیات یعنی اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے)

{واللّٰہ خبیر بما تعملون }

اور اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔

آسا نی برتیں، سختی نہ کریں :

فن تدریس سے نا آشنا معلم کا یہ خیال ہوتا ہے کہ اس کی تعلیمی کامیابی صرف اور صرف طلبہ پر سختی کرنے میں ہی مضمر ہے، چنانچہ وہ پڑھانے میں بھی سختی برتتا ہے، طلبہ کو طاقت سے بڑھ کر کام دیتا ہے۔ امتحان بھی سخت لیتا ہے، دھمکیاں بھی دیتا ہے، اور اسے کمال سمجھتا ہے، حالانکہ کامیاب مدرس وہ ہوتا ہے جو اپنے طلبہ کا ہاتھ پکڑ کراور ان کو بتدریج علمی مراحل سے گزارے۔ آسانی کی طرف میلان انسانی فطرت و طبیعت ہے۔

غور فرمائیں! حق تعالیٰ نے روزہ رکھنے کا حکم فرمایا، روزہ میں کچھ مشقت تھی تو حق تعالیٰ نے اسے نفوس پر آسان بنانے کے لیے فرمایا: {أیا ماً معدودات} یہ شمار کے چند دن ہی تو ہیں۔

قرآن کریم میں حق تعالیٰ جہاں بھی کوئی مشکل حکم فرماتے ہیں تو وہاں تخفیفات اور آسانیاں بھی بیان کرتے ہیں۔ ترغیب اور فوائد بیان کرتے ہیں؛حالانکہ اﷲ تعالیٰ کو آسانیاں بیان کرنے کی کوئی ضرورت نہیںوہ حا کم وخالق ہیں، بندوں کو اس نے پیدا ہی اسی لیے کیاہے۔

يُرِيْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ

اللہ تعالی کا ارادہ تمہارے ساتھ آسانی کا ہے سختی وہ نہیںچاہتا ۔(البقرہ۱۸۵)

{ما جعل علیکم فی الدین من حرج }

دین میں تم پر کوئی بوجھ نہیں رکھا گیا۔

(وقا ل ﷺ: اللّٰھم من ولی أمر أمتی شیئا ً فشقّ علیھم فاشقق علیہ ومن ولِی من أمر أمتی فرفق بھم فارفق بہٖ)

اے اللہ! جو میری امت پر حاکم بن کر سختی سے کام لے تو تو بھی اس پر سخت ہوجا اور اگر کوئی حاکم بننے کے بعد نرمی برتے تو تو بھی اس کے ساتھ نرمی برتنا۔

(یسّرو ا، ولا تعسّروا )

آسانیاں پیدا کرو مشکلات کا باعث نہ بنو۔

پڑھا تے وقت ایک عا لم مدرس کی کیا شان ہو نی چا ہیے ؟

مو لا نا أبو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ (پرا نے چراغ ) میں ماضی قریب کی ایک عظیم شخصیت مو لا نا احسن گیلا نی رحمہ اللہ کے با رے میں لکھتے ہیں :

اس دورا ن قیا م میں جو علمی مذا کرے ہو تے ان کی تو اس وقت کچھ زیا دہ سمجھ نہ تھی اور نہ وہ محفوظ ہیں۔بس اتنا یاد ہے کہ ان کی با توں سے یہ احسا س نہیں ہونے پا تا تھا کہ کوئی شخص علم کے فلک چہا رم سے اہل زمین کو خطا ب کر رہا ہے ، یا کوئی عالم نشست گا ہ کو درس گا ہ تصور کر کے سا معین کو درس دے رہا ہے۔ان سے مل کر ہم کو وہ دوری اور پستی نہ محسوس ہو تی جو مبتدی طا لب علموں کو بڑے علما ء واسا تذہ سے مل کر محسوس ہوا کرتی ہے۔دیکھنے میں یہ بات معمو لی ہے مگر بڑی غیر معمولی ہے، جس طرح بعض نو دولت حکام کو یہ مرض لا حق ہو جاتا ہے کہ وہ ہر جگہ یہاں تک کہ اپنے گھر میں اور اپنے بے تکلف احباب کے حلقہ میں بھی اپنے کو حاکم سمجھتے رہتے ہیں، اسی طرح بعض علما ء اور ادباء اس کمزور ی کا شکار ہو جاتے ہیں کہ وہ ہروقت اپنے کو معلم ومصلح یا ادیب ونقاد سمجھنے لگتے ہیں ، اور درسگاہ اور مسند درس کا تصور ان سے کبھی جدا نہیں ہو تا۔ مو لا نا کی مجلس میں بڑا انبسا ط تھا اور علمی ودرسی اصطلاح میں تنزل بھی تھا، لطائف بھی تھے ، وا قعا ت بھی تھے ،اور چیدہ منتخب اشعار بھی اور وہ بھی ترنم کے سا تھ ، دل نوازی اور شفقت بھی تھی ، اور علمی وتحقیقی شا ن بھی ،اور یہ سب اسی لطا فت روح اور سبک جانی کا نتیجہ تھا ،جو ان کو عطا ہو ئی تھی اور اس بات کا ثبوت کہ علم ان کا ایسا جزوبدن ہو گیا تھا کہ ان کو اس کا احساس با قی نہیں رہا تھا اس لئے اس کے موقع بے مو قع اظہار کی ضرورت نہ تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ تعا لیٰ نے مولا نا کو اس لطا فت سے خوب نوازا تھا اور اسی وجہ سے وہ اپنے حلقہ احباب میں بڑے محبوب اور اپنے حلقہ تلا مذہ ومستفیدین میں بڑے مقبول تھے اور جوان کی صحبت میں ایک مرتبہ بیٹھ جا تاوہ یہ کہتا ہو اٹھتا : ’’بہت لگتا ہے جی صحبت میں ان کی ‘‘

طلبہ کے انفرا دی فرق کی بھی رعا یت کیجیے

یہ بات مسلمات میں سے ہے کہ سب طلبہ ایک جیسے نہیں ہوتے، بعض ذہین، قابل اور ممتاز ہوتے ہیں۔ جن کے لیے مزید علمی رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ بعض طلبہ پڑھنے میں کمزور ہوتے ہیں، ان کو پڑھانے میں نرمی کی ضرورت ہوتی ہے۔ بعض طلبہ شرمیلے مزاج کے ہوتے ہیں، ان کے لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ دیگر ساتھیوں کے سامنے ان کی بے عزتی نہ کی جائے، جس کی وجہ سے وہ پڑھائی چھوڑ دیں۔

ان مختلف اقسام کے طلبہ کو ایک لکڑی سے ہانکنا کوئی دانش مندی نہیں، ہر طالب علم سے اس کے حال، مزاج و قابلیت کی رعایت رکھ کر برتاؤ کیا جائے، مزاج شناسی، مردم شناسی اور موقع شناسی دعوت وتعلیم کے بنیا دی اصولوں میں سے ہیں۔

اللہ تعا لیٰ نے تما م مخلوق کو ایک جیسا نہیں بنایا۔

وَمِنْ اٰيٰتِهٖ خَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافُ اَلْسِنَتِكُمْ وَاَلْوَانِكُمْ ۭ

اس (کی قدرت) کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور تمہاری زبانوں اور رنگوں کا اختلاف (بھی) ہے ۔(الروم ۲۲)

{وَفَوْقَ کُلِّ ذِیْ عِلْمٍ عَلِیْمٍ } (یوسف ۷۶)

ہر ذی علم پر فوقیت رکھنے والا دوسرا ذی علم موجود ہے

{تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰي بَعْضٍ }(البقرہ ۲۵۳)

یہ رسول ہیں جن میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔

{وَفِي الْاَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجٰوِرٰتٌ}

اور زمین میں مختلف ٹکڑے ایک دوسرے سے لگتے لگاتے ہیں۔(الرعد۴)

وقال ﷺ : ’’ أنزلوا النا س منا زلھم؛؛

’’لوگوں کو ان کے مقام ومرتبہ کے مطابق عزت دو ۔‘‘

طلبہ کے ساتھ برتا ؤ میںعدل وانصاف سے کام لیں

معلمین کی اکثریت (غیر شعوری طور پر) کلاس میں چند ممتاز اور قابل طلبہ کی طرف زیادہ توجہ دیتی ہے، اکثر کمزور طلبہ کو خاطر میں نہیں لاتے،قا بل ومستعد طلبہ کی طرف معلم کا میلان ایک فطری بات بھی ہے لیکن اس طرز عمل سے کمزور طلبہ یہ خیال کرتے ہیں کہ استاذ ان قابل طلبہ ہی کو پڑھاتا ہے،ہماری کوئی حیثیت ہی نہیں، اس طرز عمل سے یہ طلبہ استاذ سے بدگمانی اورخود احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتے ہیں، لہٰذا بلا تفریق امیر و غریب قابل، ناقابل سب پریکساں توجہ دیں۔

جرم کرنے پر سب کو یکساں سر زنش کریںاور پڑھا تے وقت سب کو یکساں مخاطب بنائیں۔

اعدلو اھو أقرب للتقویٰ

عدل کیا کرو یہ تقوی کے بہت قریب تر ہے۔‘‘

Read 3437 times Last modified on 15 Jan,2013
Rate this item
  • 1
  • 2
  • 3
  • 4
  • 5
(1 Vote)
Tweet
  • Social sharing:
  • Add to Facebook
  • Add to Delicious
  • Digg this
  • Add to StumbleUpon
  • Add to Technorati
  • Add to Reddit
  • Add to MySpace
  • Like this? Tweet it to your followers!
Published in جون

Related items

  • مدارسِ اسلاـمیہ کی ضرورت واہمیت اور ان کے احسانات
    in مارچ 2021
  • صرف دینی مدارس کے طلبہ ہی کیوں؟؟
    in فروری 2021
  • معاشرتی مسائل اور قر آن و سنت کی تعلیمات
    in دسمبر 2019
  • اسلام کی بنیادی تعلیمات
    in ستمبر 2019
  • علم کی فضیلت اہمیت اور فوائد
    in 2019جون /جولائی
More in this category: « علم تاریخ کے لیے اصول وضوابط کی اہمیت وضرورت داعی کے اوصاف »
back to top

مضمون نگار

  • ڈاکٹر مقبول احمد مکی ڈاکٹر مقبول احمد مکی
  • الشیخ  محمد طاہر آصف الشیخ محمد طاہر آصف
  • عبدالرشید عراقی عبدالرشید عراقی
  • بنت محمد رضوان بنت محمد رضوان
  • الشیخ ابو نعمان بشیر احمد الشیخ ابو نعمان بشیر احمد
  • الشیخ شاہ فیض الابرار صدیقی الشیخ شاہ فیض الابرار صدیقی
  • حبیب الرحمٰن یزدانی حبیب الرحمٰن یزدانی
  • خالد ظہیر خالد ظہیر
  • راحیل گوہر ایم اے راحیل گوہر ایم اے
  • عطاء محمد جنجوعہ عطاء محمد جنجوعہ
  • ڈاکٹر عبدالحی المدنی ڈاکٹر عبدالحی المدنی
  • مدثر بن ارشد لودھی مدثر بن ارشد لودھی
  • محمد شعیب مغل محمد شعیب مغل
  • الشیخ محمد شریف بن علی الشیخ محمد شریف بن علی
  • حافظ محمد یونس اثری حافظ محمد یونس اثری
  • الشیخ محمد یونس ربانی الشیخ محمد یونس ربانی

About Usvah e Hasanah

اسوہ حسنہ، جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کا ماہنامہ تحقیقی، اصلاحی و دعوتی ماھنامہ مجلہ جس میں حالاتِ حاضرہ، کی مناسبت سے قرآن سنت کی روشنی میں مضامین اور تحقیقی مقالات شائع کئے جاتے ہیں

Contact us

ماھنامہ اسوہ حسنہ، جامعہ ابی بکر الاسلامیہ، گلشن اقبال بلاک 5،پوسٹ بکس نمبر11106، پوسٹ کوڈ نمبر75300 کراچی پاکستان

Phone: +92 0213 480 0471
Fax: +92 0213 4980877
Email: This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

facebook

good hits

 

  • sitemap
Copyright © جملہ حقوق بحق ماھنامہ اسوہ حسنہ محفوظ ہیں 2022 All rights reserved. Custom Design by Youjoomla.com
2012