ڈاکٹر محمد راشد رندھاوا حفظہ اللہ جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کے مدیر جو کہ پروفیسر محمد ظفر اللہ شہید رحمۃ اللہ کے قدیم رفقاء میں سے ہیں۔ (ڈاکٹر صاحب حفظہ اللہ جماعت مجاہدین کے امیر بھی ہیں۔)

محترم ڈاکٹر صاحب حفظہ اللہ نے پروفیسر محمد ظفر اللہ شہید کے حوالے سے اپنی یاد داشتیںبیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ

پروفیسر محمد ظفر اللہ شہید رحمہ اللہ نے میری ابتدائی ملاقاتیں 1970 کی دھائی میں سید ابوبکر غزنوی رحمہ اللہ کے گھر میں ہوئی تھیں اور بعد میں ملاقاتوں کا سلسلہ ماموں کانجن صوفی محمد عبد اللہ رحمہ اللہ کے پاس اور مکۃ المکرمۃ حرم مکی میں جاری رہا۔ ان ملاقاتوں میں میں نے پروفیسر محمد ظفر اللہ شہید رحمہ اللہ کو دینی و دنیاوی تعلیم کے حوالے سے اپنا ہم خیال پایا کہ اس وقت اصلاح معاشرہ کے حوالے سے دینی و دنیاوی تعلیم کے لئے مناسب لائحہ عمل ہونا چاہئے۔

ایسی ہی ملاقاتوںمیں ایک ملاقات میں جناب پروفیسر محمد ظفر اللہ شہید رحمہ اللہ نے اپنی خواہش ظاہر کی کہ میں دین کی خدمت کے حوالے سے ایک جدید تعلیمی ادارہ بنانا چاہتا ہوں جس کے خریج حضرات معاشرہ میں اپنا مفید کردار ادا کرسکیں۔

بعد میں مجھے پتا چلا کہ پروفیسر رحمہ اللہ اس تعلیمی ادارہ کے لئے سوچ بچار کر رہے ہیں کہ کس جگہ قائم کیا جائے اور اس تلاش میں ان کے ساتھ قاری عبد الرشید اور عبدالرحمن مرغی والے بھی ہیں۔ اور کچھ عرصہ کے بعد معلوم ہوا کہ وسط کراچی، گلشن اقبال کے اندر بلاک۵ میں انہوں نے پلاٹ لیا جس میں ابتدائی کام یعنی جھاڑیاں وغیرہ کاٹنے کے کام میں دیگر احباب کے ساتھ خود بھی مصروف عمل ہیں۔ اور اس میں ابتدائی مالی تعاون ان کے والد صاحب اور میں شامل تھا۔

جماعت مجاہدین کے ساتھ وابستگی کس طرح ہوئی؟ اس سوال کے جواب میں حضرت الامیر صاحب نے بتایا کہ اس میں ذریعہ مولانا محمد عائش حفظہ اللہ بنے تھے اس کے بعد جماعتی بنیادوں پر بھی ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا پھر ایک مرتبہ حج کے موقع پر صوفی محمد عبد اللہ رحمہ اللہ، سید ابوبکر غزنوی رحمہ اللہ ان سے ملاقات ہوئی اور میں نے صوفی محمد عبد اللہ رحمہ اللہ سے بیعت کی۔

صوفی محمد عبد اللہ رحمہ اللہ کے بعد ان کے جانشین حضرت سلیمان وزیر آبادی رحمہ اللہ عموماً بغرض علاج میرے پاس لاہور آیا کرتے تھے، اس زمانہ میں میرا ماموں کانجن آنا جانا بہت کم تھا، جس کی وجہ میری کچھ ناگزیر مصروفیات اور وہاں کے حالات کا ناساز ہونا تھا۔

جبکہ جماعت مجاہدین کے ساتھ تعلقات میں مضبوطی محترم حضرت الامیر غازی عبد الکریم رحمہ اللہ کی وجہ سے آئی، فضیلۃ الشیخ ظفر اللہ رحمہ اللہ مشاورت کے لئے کھلے دل کے مالک تھے، وہ جماعتی اور جامعہ کے معاملات میں بذریعہ ٹیلی فون مشاورت کیا کرتے تھے۔ میرے خیال میں کوئی ایسا پروگرام اور کار ایسا نہیں ہے جس میں انہوں نے مجھ سے مشورہ نہ لیا ہو، سفر حج میں بھی مشاورت کا عملِ خیر جاری رہتا ، سعودی عرب کے مقتدر اور علمی شخصیات سے ملاقاتیں بھی کرتے اور پھر میرا تعارف ضرور کرواتے۔الشیخ ظفر اللہ رحمہ اللہ ایک انقلابی اور عالمگیر شخصیت کے مالک تھے علم اور اہل علم کے قدردان اور ان سے قلبی روابط رکھتے تھے۔

اطاعتِ امیر ان کی زندگی اک اوڑھنا بچھونا تھا، متعدد بار انہوں نے حضرت غازی عبد الکریم اور الشیخ سلیمان وزیر آبادی رحمہ اللہ سے صراحتاً یہ فرمایا کہ اگر امیر مجھے حکم دے تومیں کل سے ہی جامعہ آنا چھوڑ دونگا۔

الشیخ ظفر اللہ رحمہ اللہ انتہائی مدبر شخصیت کے مالک تھے ان کے منصوبے بہت گہرے اور دیرپا ہوتے تھے۔ سپر ہائی وے پر ۷۰ ایکڑ زمین خرید لی تاکہ اس میں عالمی سطح کی یونیورسٹی قائم کی جائے، جس میں دین و دنیا کے علوم و فنون کی اعلیٰ سطح پر تعلیم کا بندوبست ہو، اس عظیم یونیورسٹی میں وہ اسلامی رنگ کو نمایاں کرنا چاہتے تھے۔

حرمین شریفین کی محبت ان کے مَن میں رچی ہوئی تھی، حُبّ شعائر مقدسہ ان کی روح تھی، شعائر اسلام بالخصوص حرمین شریفین کے تحفظ کے لئے جان کی بازی لگانے سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے۔

اس وسیع قطعہ اراضی پر سلفیوں کی مثالی کالونی بنانے کے خواہشمند تھے۔

باری تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ الشیخ ظفر اللہ رحمہ اللہ کی حرمین سے وابستگی کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔

الشیخ ظفر اللہ رحمہ اللہ کا نظریہ یہ تھا کہ جامعہ مالی معاملات میں خود کفیل ہوتا کہ کسی کے سامنے مانگنے کی نوبت نہ آئے، مگر میری ذاتی رائے یہ ہے کہ دینی کاموں میں مخیر شخصیات کو بھی حصہ لینے کا موقع دینا چاہئے تاکہ وہ دین و دنیا کی خیرات سمیٹ سکیں۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے