کسی بھی شخصیت کے بارے میں لکھنا انتہائی مشکل اور ذمہ داری کا کام ہے۔ شخصیت نگاری میں احتیاط سے کام لینا پڑتا ہے۔ تاکہ قلم کسی شخصیت کے محاسن و خوبیوں میں حد اعتدال سے گزرنے نہ پائے۔ یہ مشکل اس وقت پیچیدہ صورتِ حال اختیار کرلیتی ہے جب اس شخصیت کا مضمون نگار سے نسبی تعلق ہو۔

میرے لئے بھی ان سطور کو لکھنا بے حد مشکل ہورہا ہے کہ کہیں باپ کی محبت میں حقائق نظر انداز نہ ہوجائیں۔ نسل نو کو اسلاف کی جدو جہد اور ان کی سوچ و فکر سے روشناس کروانے کے لئے یہ مختصر سا مضمون حاضر خدمت ہے۔

میری پیدائش ۲۹ اپریل ۱۹۷۷ کو ماڈل کالونی کراچی میں ہوئی۔ بچپن کے حسین ایام اسی عمل میں گزرے ناظرہ کی تعلیم میں نے قاری ثناء اللہ حفظہ اللہ سے حاصل کی ۔ گورنمنٹ فریال ہائی سکول میں داخلہ لیا اور اسی اسکول میں تقریباً ۳ سال تک زیرِ تعلیم رہا اس کے بعد والد صاحب نے ماڈل کالونی میں ہی شاہ اسماعیل شہید اسکول بنایا تھا۔ پرائمری کا امتحان میں نے ممتاز نمبروں کے ساتھ اسی اسکول سے پاس کیا۔ بچپن میں تقریباً ۸ ماہ سعودیہ میں قیام رہا ۔ 1983میں حج کے موقع پر والد صاحب نے پاکستان کے ممتاز علماء کے لئے حج کے انتظامات کئے اس میں علامہ محبّ اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ اور پروفیسر حافظ محمد سعید صاحب قابلِ ذکر ہیں۔

پروفیسر ظفر اللہ رحمہ اللہ نے شروع میں سعود آباد کے گورنمنٹ میں مدرس کی ذمہ داری میں نبھائی۔ اعلیٰ تعلیم کا شروع ذوق و شوق تھا کراچی یونیورسٹی میں M.A میں ان کی دوسری پوزیشن تھی، جس کی بناء پر انہیں جامعہ کراچی میں ہی پڑھانے کی پیش کش کی گئی۔اس دوران آپ کے سعودی علماء سے روابط میں مزید پختگی آتی گئی جامعہ الامام محمد بن سعودکے وائس چانسلر فضیلۃ الشیخ عبد المحسن الترکی نے خود انہیں جامعہ الملک میں Ph.Dمے لئے راضی کیا جب آپ سعودیہ تشریف لے گئے تو کسی وجہ سے ان کا Ph.Dمیں داخلہ نہ ہوسکا مگر آپ کو براہِ راست ایم اے میں داخلہ دیا گیا۔ جو کہ پاکستان میں واحد مثال ہے۔ ایم اے کے بعد آپ کی جامعہ الملک سعود میں امام نسائی کی شہرہ آفاق کتاب السنن الکبریٰ کے منتخب ابواب کی تحقیق کے لئے Ph.Dمیں رجسٹریشن بھی ہوگئی۔ آپ نے Ph.Dپر کام مکمل بھی کرلیا تھا مگر مصروفیت کی بناء پر ترتیب نہ دے سکے۔

تربیت:

بچوں کی تربیت کے لئے ہمیشہ فکر مند رہتے تھے۔ بچیوں کے ساتھ ان کی بے تکلفی زیادہ تھی، تعلیم بنات کے لئے مدرسہ عائشہ صدیقہ کا آغاز ہمارے گھر کی بیٹھک سے ہوا،  اس کی سب سے پہلی طالبہ امّ سعد تھیں جو کہ بفضل اللہ آج اسی ادارہ کی مدیرہ ہیں۔ الشیخ ظفر اللہ رحمہ اللہ نہ صرف اپنے بچوں کی اسلامی خطوط پر تعلیم و تربیت کے لئے جدوجہد کرتے بلکہ اپنے خاندان کے کئی بچوں، بچیوں کو جامعہ ابی بکر اور مدرسہ عائشہ صدیقہ لے کر آئے۔ بچوں کی صلاحیتوں کو نکھارنے کے لئے ان کو اہم نصابی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لینے کی نصیحت کرتے بلکہ بعض مرتبہ بچوں کے درمیان کشتی اور دوڑ کے مقابلے بھی کرواتے۔

میٹرک کے بعد مجھے خود انہوں نے کامرس کے شعبہ کو اختیار کرنے کو کہا کیونکہ وہ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ دین معاملات کا نام ہے۔ اس میں انسان ٹھوکر کھاتا ہے اس وجہ سے میں نے کامرس کی تعلیم حاصل کی۔

جامعہ کی املاک کے بارے میں انتہائی محتاط تھے۔ بچوں کو کبھی بھی یہ کہنے کی اجازت نہ تھی کہ یہ ہماری گاڑی ہے، بلکہ ہمیں ہمیشہ یہ کہتے کہ یہ جامعہ کی گاڑی ہے۔ یہ چیز جامعہ کی ہے۔ دورانِ تعلیم کبھی بھی جامعہ کاکھانا کھانے کی اجازت نہ تھی، ہم لوگ گھر سے اپنا کھانا ٹِفن میں ساتھ لاتے تھے۔ گھر یا باہر کے معمولی کاموں میں بھی بڑھ کر حصہ لیتے تھے، کبھی بھی کسی کام میں عار محسوس نہیں کی۔

خاندان بھر کی ہر دلعزیز شخصیت تھی، عمر میں اپنے دیگر بھائیوں میں چھوٹا ہونے کے باوجود صرف علمِ دین کی بنا پر خاندان میں ان کےفیصلے کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔

مہمان نوازی:

والدمحترم اپنے قول و عمل کے ذریعے حدیث نبوی پر عمل پیرا ہونے کی مکمل کوشش کرتے۔ رسول مکرم نے مہمان کی تکریم کو جزوِ ایمان ٹھہرایا ہے۔ ایمانی تکمیل کے لئے والد مہمان نوازی میں اپنی مثال آپ تھے۔ مہمان کی ضیافت کے لئے قسم قسم کے لذیذ کھانے تیار کرواتے تاکہ جامعہ کے متعلق مہمانوں کا اچھا تاثر قائم ہو۔ خاندان کا کوئی بھی فرد ملنے کے لئے آتا تو وہ رات صرف ہمارے گھر میں ہی بسر کرتا تھا۔

سادگی و قناعت:

ہم لوگ شروع میں کافی عرصہ تک اپنے تایا کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہے، پھر والد صاحب نے ماڈل کالونی میں ہی علیحدہ گھر تعمیر کیا اور ہمیں وہاں شفٹ کردیا گیا۔ ہم ابتداء میں تقریباً ۷ ماہ تک چارپائیاں نہ ہونے کی وجہ سے نیچے فرش پر ہی سوتے تھے۔ اس عرصے میں ہمارے ہاں سوئی گیس کا کنکشن بھی نہیں تھا۔ جب مالی آسودگی ملی تو پھر گھر کی ضروری چیزیں خریدی گئیں۔

خود داری:

میرے دادا محترم عطا ء اللہ صاحب رحمہ اللہ اصول پسند انسان تھے۔وہ ہمیشہ سے یہ بات کہا کرتے تھے کہ میں نے پوری زندگی میں کبھی بھی غلط بات تو کجا مشکوک بات بھی نہیں کی۔ میرے دادا علماء کرام کے دلدادہ اور ان کے خدمت گزار تھے۔ اپنے بیٹوں کو دین اسلام کی تعلیمات سے بہرہ مند دیکھنا چاہتے تھے چنانچہ وہ میرے والد محترم ظفر اللہ شہید رحمہ اللہ کو لیکر اوڈاں والا میں حضرت صوفی محمد عبد اللہ صاحب امیر جماعت مجاہدین رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور صوفی صاحب سے فرمایا کہ میرے بیٹے کو آپ اپنے مدرسہ میں داخلہ دیدیں ۔ یہ اب آپ کی نگرانی میں رہے گا۔ والد صاحب نے مدرسہ میں رہنے سے یکسر انکار کردیا کہ مجھے مدرسہ میں نہیں پڑھنا۔ حضرت صوفی صاحب نے انہیں اپنےپاس بلایا اور شفقت سے پوچھا بیٹا ! آپ یہاں کیوں نہیں پڑھنا چاہتے؟ والد صاحب نے جواباً فرمایا کہ یہاں طلبا گھروں سے کھانا مانگ کر کھاتے ہیں میں کسی سے مانگ کر کوئی چیز نہیں کھا سکتا، صوفی صاحب نے تعجب سے فرمایا یہ پہلا بچہ ہے جو صرف اس وجہ سے مدرسہ میں پڑھنا نہیں چاہتا۔ اب یہ بچہ اسی جامعہ میں ہی پڑھے گا، اس کے کھانے کا بندوبست میں خود کرونگا۔ ہمارے خاندان کے کچھ لوگ اوڈاں والا میں رہائش پذیر تھے، چنانچہ والد صاحب کا کھانا ان کے گھر سے آتا اسی طرح والد صاحب نے اپنی دینی تعلیم کا آغاز خود داری سے کیا۔

اصلاح کا طریقہـ:

 والد صاحب ایک عظیم مربی ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی مدبر مصلح تھے۔ وہ لاشعوری طور پر اصلاح کیا کرتے تھے۔ میں جامعہ ابی بکر میں زیرِ تعلیم تھا، دورانِ امتحان میں جامعہ میں ہی ٹھہرجاتا تھا تاکہ یکسوئی سے امتحان کی تیاری ہوسکے۔ ایک بار امتحانات کے دنوں میں اچانک ذہن میں خیال آیا کہ کیوں نہ آج ناریل کھائے جائیں۔ میں نے کچھ ساتھیوں کے ساتھ مل کر جامعہ سے خوب سیر ہوکر ناریل توڑے۔ سوئے حظی والد صاحب کو کسی ذریعہ سے ہماری اس حرکت کا علم ہوگیا، والد صاحب کی سزا بہت سخت ہوا کرتی تھی، اس لئے میںبہت زیادہ پریشان ہوگیا۔

انہوں نے مجھے اپنے ساتھ گاڑی میں بٹھایا اور ماڈل کالونی سے آگے لےجاکر گاڑی روکی، اور مجھ سے پوچھا کہ ضیاء الرحمن ! ایک ناریل کتنے کا ہے؟ میںنے مروجہ قیمت بتلائی، تو کہنے لگے تم صرف اتنی معمولی سی قیمت کے عوض اپنے باپ کی عزت نیلام کرنا چاہتے ہو؟ ان کے یہ پُردرد بھرے کلمات آج بھی مجھے غلط کام سے روک لیتے ہیں۔ جزاہ اللہ خیراً

راقم الحروف کو میٹرک پاس کرنے کے بعد والد صاحب نے جامعہ ابی بکر الاسلامیہ میں داخلہ دلوایا، تاکہ میری تربیت اسلامی خطوط پر ہوسکے انہوں نے کبھی بھی جامعہ میں باپ بیٹے کے رشتے کو ظاہر نہیں کیا۔ حقیقی بات تو یہ ہے کہ مجھے تقریبا دو سال کے بعد علم ہوا کہ میرے والد اس جامعہ کے مدیر ہیں۔ دورانِ تعلیم معہد رابع کے ضمنی امتحانات میں مجھے اصولِ تفسیر اورانشاء کے مضامین میں کم نمبر ملے۔ حالانکہ میں نےد ونوں مضامین میں تقریباً ۹۵، ۹۶ نمبر حاصل کئے تھے، مگر چونکہ ضمنی امتحان میں کسی طالب علم کو 64 سے زیادہ نمبر دینے کا قانون نہیں ہے۔

مجھے اس قاعدے اور ضابطے کا علم نہیں تھا۔ میں نے فوراً مدیر معہد کے نام شکایتی درخواست لکھی اور والد صاحب کو بھی اس واقعہ کے بارے میں بتلایا۔ جب مدیرصاحب کو اس معاملہ کے بارے میں علم ہوا تو انہوں نے فوراً میری طرف اشارہ کرکے یہ بات کہی کہ ان لوگوںکا کام ہی شکایتیں کرنا ہے۔ میں سمجھ رہا تھا کہ میرے والد صاحب میرے ساتھ تعاون کریں گے، مگر انہوں نے بری طرح ڈانٹا اور نمبروں میں اضافہ کی درخواست کو رد کردیا۔ اس وجہ سے میری معہد ثانوی کی سند جید جداہے۔ اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے ہمیشہ جامعہ کے قوانین پر عمل کرنے کی تلقین قولاً و فعلاًکی۔

مَن ضیاء الرحمن ؟

دورانِ تعلیم طالب علم استاد کی قدر و منزلت سے صحیح طور پر آگاہ نہیں ہوتا جس کی وجہ سے وہ استاد کے خلاف نازیبا پروگرام بناتا ہے۔ بعض اوقات ہم مکتب ساتھیوں کے کہنے پر سنجیدہ طالب علم بھی استاذ کے خلاف ایسی حرکتیں کر جاتے ہیں جن کا تصور تک محال ہوتا ہے۔ ایسی ہی صورتِ حال سے مجھے بھی دو چار ہونا پڑا۔ ہمیں غالباً معہد ثانوی کے چوتھے سال ایک سوڈانی استاذ پڑھایا کرتا تھا ان کی سختی طلبا کے درمیان مشہور تھی اور وہ نمبرز دینے میں بھی انتہائی احتیاط برتا کرتے تھے۔ تمام کلاس والوں نے اتفاق کیا کہ ہم ان کے پیپر میںکامیاب نہیں ہونگے تاکہ یہ استاذ ادارہ کی نگاہوں میں گرجائے، چنانچہ دوران امتحان میں نے ابتدائی سطریں بالکل صحیح لکھیں جبکہ اس کے بعد تمام سوالات کو جوں کا توں نقل کردیا آخر میں : لا اتمنی لکم بالنجاح (میں آپ کے لئے کامیابی کی تمنا نہیں رکھتا) کے گستاخانہ الفاظ تحریر کر دیئے، پیپرز کی تصحیح کے دوران جب استاذ محترم نے یہ صورتِ حال دیکھی تو فوراً والد صاحب کو خبر دی، دوسرے دن والد صاحب نے کلاس میں داخل ہوتے ہی بلند آواز میں کہا مَن ضیاء الرحمن؟ (ضیاء الرحمن کون ہے؟)حالانکہ والد محترم بخوبی جانتے تھے کہ میں ان کا بیٹا ہوں مگر اس کے باوجود انہوں نے خصوصی الفاظ استعمال نہیں کئے تاکہ کسی کو یہ احساس تک نہ ہو کہ یہ باپ بیٹا گفتگو کر رہے ہیں۔ انہوں نے پیپر میرے سامنے رکھ کر لا اتمنی لکم بالنجاح والی عبارت سے متعلق دریافت کیا، میں شرمندگی سے سر جھکائے کھڑا رہا ، انہوں نے ڈانٹے ہوئے کہا کہ تم کیا سمجھتے ہو؟ یہ تمہارے باپ کی جامعہ ہے؟ اپنے استاد سے فوراً معافی مانگو اس پوری کاروائی کےد وران استاذِ محترم نے لا اتمنی لکم بالنجاح  والی عبارت پر اعتراض نہیں کیا بلکہ وہ بار بار یہی اصرار کرتے رہے کہ یہ عبارت کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ انہوں نے ابتدائی سطریں بالکل صحیح لکھی ہیں اس کے بعد انہیں چانک کیا ہوا؟ یہ مسئلہ سمجھنا ہے۔

الغرض اس پورے قصے سے ہمیں والد صاحب کی عظمت کے ساتھ ساتھ استاذ محترم کے حوصلے اور بڑے پن کا علم بھی ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے ذاتی مسئلہ کو موضوعِ بحث نہیں بنایا بلکہ طلباء سے متعلق مشکل کو حل کرنے کی کوشش کیان مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی جن کا تعلق تربیت سے ہوسکتاہے کیونکہ ان کے لیے سب سے اہم ترین أمر تربیت کا ہے۔ جزاہ اللہ الخیر

قارئین کرام ! والد صاحب کی یادیں تو بہت سی ہیںلیکن اس وقت میں صرف انہی چند سطور پر اکتفا کر رہا ہوں، آپ سب سے گذارش ہے کہ آپ اپنی مناجات میں میرے والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی مغفرت اور اعلیٰ درجات کے لئے ضرور دعا کیا کریں۔

جزاکم اللہ احسن الجزاء

 

رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا
رَبَّنَا اغْفِرْ لِيْ وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِيْنَ  يَوْمَ يَقُوْمُ الْحِسَابُ    

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے