محترم فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر خلیل الرحمن لکھوی مدیر معہد القرآن الکریم معروف سلفی عالم دین ہیں ، انہوں نے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سےفراغت کے بعد سب سے پہلے جامعہ میں تدریس کا عمل شروع کیا ۔ زیر نظر مضمون دراصل پینل انٹرویو کے ذریعے حاصل کردہ معلومات پر مشتمل ہے۔انٹرویو پینل ڈاکٹر مقبول احمد مکی، فیض الابرارصدیقی اور محمد طیب معاذ صاحب پر مشتمل تھا۔

محترم فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر خلیل الرحمن لکھوی حفظہ اللہ اپنی یاداشتوں کو تازہ کرتے ہوئے بتانے لگے کہ پروفیسر محمد ظفر اللہ شہید رحمہ اللہ کا اولین تذکرہ میں نے اس وقت سنا جب میں جامعہ اسلامیہ کے کلیۃ الحدیث سے فارغ ہو رہا تھا اور یہ 1980ء کی بات ہے ۔مجھے استاذ محترم الشیخ عبد القادر حبیب اللہ السندی کے توسط سے معلوم ہوا کہ کراچی میں جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کے لیے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورۃ کی طرف سے مبعوث کرنے کے لیے انٹرویوز ہورہے ہیں انٹرویو میں شرکت کرنے والوں میں الشیخ عبد الغفار اعوان ، الشیخ عطاء اللہ ساجد کے نام شامل تھے لہٰذا میں نے بھی اپنی درخواست جمع کروا دی ۔ انٹرو یو ماہ رجب سال 1400 ھ ہوئے تھے جس میں میںاور دیگر علماء کرام کامیاب ہوئے تھے لیکن خوش قسمتی سے جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کے حوالے سے انٹرویوز کے نتائج کے مطابق سب سے پہلا نام میرا تھا لہٰذا جامعہ ابی بکر الاسلامیہ ابتدائی اساتذہ میں میرا نام بھی تھا بلکہ جب ماہ شوال 1400 میں جامعہ میں اولین مبعوث میں تھا۔

جامعہ کی تأسیس چونکہ حال میں ہی ہوئی تھی اور باقاعدہ تدریس شروع نہیں ہوئی تھی لہٰذا میں جب جامعہ ابی بکر پہنچا تو تمام شعبہ جات کے داخلوں کامکمل انتظام میں نے کیا جس کے مطابق کلیۃ الحدیث الشریف میں 35 داخلے ہوئے اور المعہد العلمی الثانوی میں بھی کم وبیش اتنے ہی طلباء نے داخلہ لیا اور اس میں داخلے کی شرط کسی بھی مدرسہ سے فارغ ہونا تھا اور معہد میں داخلہ کی شرط میٹرک پاس ہونا تھی۔

ڈاکٹر خلیل الرحمن لکھوی نے اولین سال میں داخلوں کے حوالے سے مزید بتایا کہ اولین داخلوں کے حوالے سے پروفیسر محمد ظفر اللہ شہید رحمہ اللہ کی وسعت ظرفی سامنے آتی ہے کہ کلیۃ الحدیث الشریف میں 35 طلباء میں صرف ایک طالب علم اہلحدیث تھا اور باقی 34 طلباء دیگر مکاتب فکر سے تعلق رکھتے تھے۔

بہر حال الحمد للہ جامعہ کے اساتذہ ، الشیخ عبد الغفار اعوان ، الشیخ عبد اللہ ناصر ، الشیخ عطاء اللہ ساجد اور الشیخ عطا اللہ الجدانی اور ڈاکٹر جمیل احمد صدر شعبہ عربی جامعہ کراچی جیسے ماہر اساتذہ کرام کی وجہ سے وہ اپنے عزائم میں کامیاب نہ ہوسکے اور فقہ السنہ(نیل الاوطار) مضمون میرے پاس تھا اور میں نے بھی اللہ تعالیٰ کی توفیق سے خوب محنت کرکے ان کو فقہ پڑھائی ، تو طلباء کے فارغ ہوتے ہوئے تاثرات تھے کہ فقہ تو ہم نے اپنے مدارس میں بھی پڑھی تھی مگر فقہ ہوتی کیا ہے اس کا ہمیں یہاں آکر پتہ چلا ہے۔

الشیخ ظفر اللہ رحمہ اللہ چونکہ جامعہ الملک سعود الریاض میں ایم۔اے کررہے تھے کراچی میں کم ہی آتے تھے مگر ان کے نائب مدیر الشیخ رضی اللہ رحمہ اللہ ماموں کانجن والے تھے مگر وہ بڑی عمر کے بزرگ شخصیت کے مالک تھے اس لیے جامعہ کے تمام داخلی اور خارجی امور مجھے ہی دیکھنے پڑتے تھے ، جن دنوں میں جامعہ اسلامیہ سے کراچی آیا تھا اس وقت جامعہ کی صرف ایک منزل تیار ہوئی تھی باقی جامعہ کی تین منزلیں شیخ ثانی بن عبد اللہ جن کا تعلق امارات سے تھا، کے تعاون سے بعد میں تقریباً 1984ء تک تیار ہوئیں تھیں۔

جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کا ذریعہ تعلیم چونکہ عربی تھا اس لیے شیخ صاحب رحمہ اللہ نے عرب ممالک کے اساتذہ کرام کی خدمات بھی حاصل کیں جس میں شیخ عبد الجواد مصری شامل تھے بلکہ انہیں عمید الکلیہ بنایا گیا ۔جامعہ میں تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ شہر کراچی میں تبلیغی ، دعوتی اور اصلاحی سرگرمیوں کے لیے باقاعدہ دعوت وتبلیغ کا شعبہ قائم کیا جس کے ابتدائی ناظم الشیخ محمد شریف حصاروی تھے جوکہ پورے کراچی بلکہ اندرون سندھ بھی تبلیغی پروگراموں کو ترتیب دیتے تھے۔ اس سے جامعات کے درمیان اور گلی محلہ کی مساجد کے درمیان روابط استوار ہوئے۔

الشیخ لکھوی فرماتے ہیں کہ میں نے ذاتی طور پر الشیخ ظفر اللہ کو مشورہ دیا تھا کہ جامعہ ہر استاذ محترم کو کراچی کے مختلف علاقوں میں مساجد کا ذمہ دار بنائیں تاکہ آگے چل کر ہر مسجد ایک ایک ادارہ بن سکے۔الشیخ ظفر اللہ رحمہ اللہ ابتدائی دور میں طلباء کی دینی تعلیم کے ساتھ عصری علوم کے کوئی خاص قائل نہیں تھے مگر ہم اساتذہ خاص طورپہ میں نے خود کئی بار الشیخ رحمہ اللہ سے اس سلسلہ میں بات کی اور انہیں مائل کیا ، تو اور طلباء جامعہ کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ایف۔ اے ، بی ۔اے اور ایم ۔اے کے امتحانات کا اہتمام کرنے لگے۔جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے معادلہ کروایا۔

ڈاکٹر لکھوی حفظہ اللہ نے بتایا میں نے جامعہ کے لیے انتھک محنت کی ہے طلباء اساتذہ اور عملے کے معاملات کو ایک ساتھ لیکر چلایا تھا ، 1980ء سے لیکر 2000ء تک اللہ تعالیٰ نےجتنی مجھے صلاحیت دی میں نے بھر پور طریقے سے دینی خدمات سرانجام دی ہیں ، جامعہ میں 16 سے لیکر 18 گھنٹے تک کام کیا ، اور میں جامعہ ابی بکر سے الگ ہونے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا مگر شیخ صاحب رحمہ اللہ کے بعض مشیروں کی وجہ سے مجھے جامعہ سے تبادلہ کرونا پڑا جس کا مجھے افسوس ہے اور رہے گا۔ شیخ صاحب رحمہ اللہ ذاتی طور پر علماء اور طلباء کے بہت ہی زیادہ قدر دان تھے۔ علماء وطلباء کو بہت عزت واحترام دیتے تھے ، ڈاکٹر حفظہ اللہ نےبھی بتایا کہ شیخ صاحب رحمہ اللہ بذات خود جامعہ کے لیے انتہا درجہ کی محنت کرتے تھے اور چاہتے تھے کہ میرے رفقاء اساتذہ کرام بھی ایسے ہی محنت کریں۔ شیخ صاحب رحمہ اللہ کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ اقرباء پردری کے بالکل قائل اور فاعل نہیں تھے ، ہر کام میرٹ پر کرنے کے عادی تھے۔ حد درجہ کے مہمان نواز تھے ، سال میں ایک دفعہ تو ضرور اپنے گھر میں دعوت کا اہتمام کیا کرتے تھے۔

مدارس کے اساتذہ کے لیے خصوصی نصیحت

میری جامعہ میں موجودگی کے دوران جتنے مدرسین بھی فرائض تدریس انجام دیتے رہے آپس میں حقیقی بھائیوں کی طرح رہا کرتے تھے ، اکٹھےکھانا کھاتے، خوب علمی مجالس برپا ہوتیں ایک دوسرے کے غم وخوشی میں سبھی مدرسین کی شراکت ضروری ہوتی۔ خوشی کے موقع پربھی مل بیٹھنے کا پروگرام بنایا جاتا مگر افسوس کہ اساتذہ کا باہمی تعلق اور جذبہ ہمدردی آہستہ آہستہ کمزور پڑتا جارہا ہے ۔ وإلی اللہ المشتکی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے