یہ دنیا ایک عارضی قیام گاہ ہے جہاں ہر شخص اپنی مقررہ مدت گزار کر اگلی منزل کی طرف روانہ ہو جاتا ہے لیکن کچھ افراد ایسے ہوتے ہیں جن کے دنیا سے چلے جانے کے بعد ان کے نیک کام ان کی یادوں کو تادیر زندہ رکھتے ہیں۔جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کے بانی مولانا پروفیسر محمد ظفر اللہ رحمۃ اللہ علیہ بھی اسی قسم کی ایک نادر شخصیت تھے جن کی زندگی اسی دُھن میں گزری کہ دین اسلام اور بالخصوص مسلکِ اہل حدیث کی خدمت و ترویج کے لئے ہر ممکن سعی کی جائے ۔وہ چاہتے تھے کہ کام کے لئے ایسا میدان منتخب کیا جائے جس میں کام کرنے کی ضرورت بھی ہے اور اس کی اہمیت بھی ہے چنانچہ مولانا رحمۃ اللہ علیہ نے محسوس کیا کہ سندھ میں اور خاص طور پر کراچی میں دینی تعلیمی ادارہ قائم کرنے کی ضرورت ہے۔

مولانا رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد ایک عام مدرسہ قائم کرنانہ تھا جس طرح کے بہت سے مدارس ملک میں پہلے بھی کام کر رہے تھے اور حتی المقدور دین کی خدمت کر رہے تھے ۔ بلکہ آپ کے پیش نظر اس سے بہت بلند ہدف تھا۔آپ کا مقصود ایک ایسا ادارہ قائم کرنا تھا جو نہ صرف معیاری تعلیم مہیا کرے بلکہ جہاں سے فارغ ہونے والے جس میدان میں بھی جائیں وہیں اپنی کار کردگی کے لحاظ سے نمایاں اور ممتاز رہیں۔

بہترین معیار کی اس لگن کا نتیجہ تھا کہ آپ نے جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کا نصاب مدینہ یونیورسٹی کے مطابق مرتب فرمایابلکہ پاکستان میں یہ پہلا ادارہ ہے جس میں عربی زبان کو ذریعہ تعلیم کے طور پر اختیار کیا گیا ۔لہٰذا اساتذہ بھی عرب ممالک سے تشریف لائے یا عرب ممالک کی جامعات سے تعلیم پا کر آنے والوں کو تدریسی ذمہ داریاں سونپی گئیں۔یہ ایک ایسی خوبی تھی جس میں آج بھی پاکستان کا کوئی ادارہ اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔کیونکہ ہمارے مدارس میں تعلیم عموماً مقامی زبانوںپنجابی،پشتو وغیرہ میں دی جاتی ہے یا زیادہ سے زیادہ اردو کو ذریعہ تعلیم کے طور پر منتخب کر لیا جاتا ہے۔

اس ادارے سے تعلیم و تربیت کے میدان میں نہ صرف پاکستان کے ہر علاقے کے تشنگانِ علم کو فیض یاب کیا ہے بلکہ اس میں دنیا کے بہت سے ممالک میں طلبہ حصول علم کے لئےآئے اور واپسی اپنے اپنے ملک میں تبلیغ دین اور ترویجِ علم میں مشغول ہوئے۔چنانچہ ممالک میں جامعہ کے فیض یافتہ علماء مستقبل علمی چشموں کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔

جامعہ ابی بکر الاسلامیہ اگر چہ ایک اہل حدیث تعلیمی ادارہ ہے لیکن اس میں نہ صرف دوسرے مسالک کے طلبہ کو کھلے دل سے داخلہ دیا جاتا ہے بلکہ اسٹاف میں بھی غیراہل حدیث حضرات شامل ہیں ۔اس طرح یہ ادارہ مختلف مسالک کے علماء اور طلبہ کے درمیان ذہنی ہم آہنگی پیدا کرنے کا اہم فریضہ بھی انجام دے رہا ہے۔

مولانا رحمۃ اللہ علیہ ہر معاملے میں بلند معیار کے قائل تھے۔جامعہ کی عمارت اس کا منہ بولتا ثبوت ہے،کلاس روم ہوں یا ہوسٹل کے کمرے،انتظامی دفاتر ہوں یا مہمان خانہ،باورچی خانہ ہو یا طلبہ کے لئے کھانا کھانے کا ہال، ہر جگہ آپ کا حسن ذوق جھلکتا ہے ۔ہمارے اکثر مدارس میں زبانی امتحانات کافی سمجھے جاتے ہیں حتی کہ سندِفراغت بھی زبانی امتحانی کی بنا پر دے دی جاتی ہے۔جامعہ ابی بکر الاسلامیہ میں شروع سے ہی تحریری امتحان کا نظام رکھا گیاجس میں پرچہ سوالات ترتیب دینا، چھپوانا، امتحانی رول نمبر جاری کرنا،حل شدہ پرچہ جات کو چیک کرنا ،نتائج کا ریکارڈ محفوظ رکھنا، اسناد جاری کرنا،یہ سب معاملات اس اعلیٰ معیار پر رو بعمل لائے جاتے ہیںجو اس سے پہلے کسی دینی تعلیمی ادارے نے شاید ہی سوچے ہوں گے۔

ہمارے مدارس میں لائبریری کی اہمیت کو کماحقہ محفوظ نہیں کیا گیااکثر مدارس میں لائبریری موجود ہی نہیں۔جبکہ لائبریری اساتذہ و طلبہ دونوں کےلئے یکساں اہمیت رکھتی ہے۔مولانا رحمۃ اللہ علیہ لائبریری کی اہمیت سے بخوبی واقف تھے۔ چنانچہ آپ نے جامعہ ابی بکر الاسلامیہ میں ایک بہترین لائبریری قائم فرمائی۔اس لائبریری کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس کےلئے باقاعدہ ایک لائبریری کا تقرر کیا گیا ہے۔ تدریسی اوقات میں لائبریری کھلی رہتی ہے ۔چنانچہ کسی استاد کے سبق کے دوران طلبہ کے سامنے کوئی مسئلہ بہتر طور پر واضح کرنے کے لئے کسی کتاب کی ضرورت ہو تو فوراً دستیاب ہو سکتی ہے۔تدریسی اوقات کے علاوہ بھی لائبریرن اپنے مقررہ اوقات میں کھلی رہتی ہے جس کی وجہ سے طلبہ کو استفادہ کا زیادہ موقع ملتا ہے اس سے ان کی ذہنی اور علمی سطح بلند ہوتی ہے۔

مولانا رحمۃ اللہ علیہ کی پوری کوشش ہوتی تھی کہ دینی علوم کے طلبہ میں احساس کمتری پیدا نہ ہو بلکہ وہ اپنے مقام کو پہچانیں۔آپ رحمۃ اللہ علیہ اساتذہ اکرام کو بھی پورا احترام دیتے تھےاور ان کی ضروریات کا خیال رکھتے تھے۔کراچی یونیورسٹی کے پروفیسر ہونے کی وجہ سے آپ کو ایک بلند مقام حاصل تھا اس کے باوجود آپ افسرانہ احساس برتری اور ماتحتوں کی تحقیر جیسی خامیوں سے پاک تھے۔آپ جامعہ کے اساتذہ کرام کو اعلیٰ ڈگریوں کے حصول کی ترغیب دیتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ آج جامعہ ابی بکر الاسلامیہ میں پی ایچ ڈی (Ph.D) اساتذہ موجود ہیںاور میری ناقص معلومات کی حد تک پاکستان کے کسی دوسرے دینی تعلیمی ادارے کو یہ امتیاز حاصل نہیں۔

آپ رحمۃ اللہ علیہ اتحاد بین المسلمین کے داعی تھے۔ چنانچہ ہر مسلک کے علماء آپ رحمۃ اللہ علیہ کا احترام کرتے تھے بالخصوص مسلک اہل حدیث کی مختلف جماعتوںاور تنظیموں کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں اور

تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى

کی اساس پر جمع کرنے میں آپ کا کردار بے مثال اور قابل رشک ہے۔

آپ رحمۃ اللہ علیہ کی ایک اور خوبی جو بہت کم لوگوں میں پائی جاتی ہے وہ یہ کہ آپ گو نا گو ں مصروفیات کے باوجود تلاوت قرآن مجید،ذکرِالٰہی اور نفلی عبادات سے غافل نہ تھے۔ان کی نظر میں تعلق باللہ بھی اتنا ہی اہم تھا جس قدر یہ دوسرے معاملات۔شایدیہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے کاموں میں برکت عطا فرمائی اور ان کے رحلت فرمانے کے بعد جامعہ ابی بکر الاسلامیہ ترقی کے منازل طے کر رہا ہے اور اس کی متعدد شاخیں اپنے اپنے مقام پر دین کی خدمت و تبلیغ میں مصروف ہیں۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان کے اس صدقہ جاریہ کو ہمیشہ قائم و دائم رکھے اور اس میں کام کرنے والوں کی مخلصانہ جدوجہد کو قبول فرمائے اور موجودہ انتظامیہ کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی اور ان کے مشن کو آگے بڑھانے کی توفیق بخشے۔آمین

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے