متحدہ ہندوستان کے ضلع انبالہ اور اس کے گرد و نواح میں بہت سے مسلمان خاندان آباد تھے۔ اور اس علاقے سے بڑی بڑی مذہبی و سیاسی، علمی و ادبی اور نامور شخصیات نے جنم لیا۔ انبالہ کے ایک گائوں ’’ملک پور‘‘ میں چودھری عطاء اللہ سکونت پذیر تھے، وہ نہایت نیک اور دیندار انسان تھے، جماعت اہل حدیث سے ان کا تعلق تھا، مسلک اہل حدیث پر عمل پیرا تھے، ان کا شمار معروف اہل حدیث بزرگ حضرت صوفی محمد عبداللہ کے ارادت مندوں میں ہوتا تھا۔ اگست 1947 میں جب ملک تقسیم ہوا اور پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو جہاں دیگر بہت سے مسلمان خاندان مشرقی پنجاب کو چھوڑ کر پاکستان آئے ان میں چودھری عطاء اللہ بھی تھے۔ وہ پاکستان آکر سندھ کے ضلع نواب شاہ کے نواحی قصبے ’’قاضی احمد‘‘ میں قیام پذیر ہوئے۔ ان کے ایک صاحبزادے کا نام ظفراللہ تھا جو 20 مئی 1943کو موضع ملک پور تحصیل روہڑ ضلع انبالہ میں پیدا ہوئے۔ اس وقت ان کی عمر صرف چار سال تھی اور وہ عمر عزیز کی ابتدائی منزلوں سے گزر رہے تھے۔ چودھری عطاء اللہ اپنے اس لخت جگر کو دین اسلام کی تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا چاہتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے ظفر اللہ کو ابتدائی سکول کی تعلیم دلوانے کے بعد دینی تعلیم کے حصول کے لئے مکتب کی راہ دکھائی اور اپنے اس فرزند ارجمند کو لے کر حضرت صوفی عبداللہ ؒ کی خدمت میں اوڈانوالہ ماموں کانجن (ضلع فیصل آباد) حاضر ہوئے۔ صوفی عبداللہ نے 1932 میں اوڈانوالہ میں جامعہ تقویۃ الاسلام کے نام سے دینی تعلیم کا ادارہ قائم کر رکھا تھا اور اس زمانے میں اس کی اچھی شہرت تھی۔ حضرت صوفی صاحب نہایت تقوی شعار، نیک اور مستجاب الدعوات بزرگ تھے۔ وہ طلبہ پر بڑی شفقت فرماتے اور ہر طرح سے ان کا خیال رکھتے تھے۔ انہوں نے چودھری عطاء اللہ کے بیٹے کو بھی اپنے دارالعلوم میں داخل کر لیا۔ اب ظفر اللہ صاحب نے صوفی عبداللہ کے دارالعلوم میں رہ کر اساتذہ کرام سے حدیث و تفاسیر اور دیگر فنون کی کتب پڑھنا شروع کیں۔ پڑھائی میں بڑے تیز تھے، ذہن ایسا پایا تھا جو پڑھتے ازبر ہوجاتا۔ صوفی عبداللہ صاحب ان کا شوق، دینی تعلیم میں انہماک اور کامل توجہ دیکھ کر ان پر دست شفقت رکھتے اور سر پرستی فرماتے۔ جن دنوں ماموں کانجن میں جامعہ تعلیم الاسلام کی تعمیر شروع ہوئی، اس وقت چودھری ظفراللہ دارالعلوم اوڈاں والا میں تعلیم حاصل کرتے تھے۔ پڑھائی کے اوقات سے فارغ ہو کر وہ دیگر طالب علموں کے ہمراہ مامو کانجن آجاتے اور مزدوروں کے ساتھ مل کر سر پر گارا اٹھاتے، اینٹیں ڈھوتے اور جامعہ تعلیم الاسلام کی تعمیر میں اس طرح عملی طور پر حصہ لیتے۔ اس وقت ان کا شوق دیدنی تھا اور جذبہ بام عروج پر۔

چودھری ظفر اللہ کے دینی جذبہ، تعلیمی شوق، خلوص، للھیت اور جامعہ تعلیم الاسلام کی تعمیر و ترقی کے لئے کارکردگی کو دیکھ کر ایک بار فرمایا تھا: ظفر اللہ! ’’کیا میں تیرے لئے ایسی دعا نہ کروں کہ اللہ تعالی دست غیب سے تیری ضرورت تجھے عطا فرماتا رہے۔‘‘

صوفی صاحب کا فرمان سن کر ظفر اللہ نے عرض کیا۔ حضرت! اس دعا کی بجائے میرے لئے ایسی دعا فرمائیں کہ اللہ تعالی مجھے دین کی خدمت کا کوئی بہت بڑا موقع عطافرمائے۔

چنانچہ صوفی صاحب نے عجز و عاجزی کے ساتھ اللہ سے دعا کی اور اللہ تعالی نے دعا اس طرح قبول فرمائی کہ انہوں نے ماموں کانجن سے دینیات کے علوم متداولہ سے فراغت کے بعد بی اے کیا اورپھر کراچی یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات کا امتحان پاس کیا اور پھر اسی یونیورسٹی میں لیکچرار مقرر کر لئے گئے، یہاں تک کہ اسی یونیورسٹی کے صدر شعبہ اسلامیات ہو گئے۔ (صوفی محمد عبداللہ از مولانا محمد اسحاق بھٹی 292)

پروفیسر ظفر اللہ چودھری نے دوران تعلیم حضرت صوفی عبداللہ صاحب سے جس بڑی دینی خدمت کے لئے دعا کا کہا تھا اب اسے انہوں نے عملی جامہ پہنانے کی ابتداء کی حالات بھی ان کے حق میں ساز گار ثابت ہوئے۔ لہذا انہوں نے 1978 میں کراچی کے علاقے گلشن اقبال میں جامعہ ابی بکر اسلامیہ کے لئے جگہ خریدی اور پھر اس کی تعمیر و ترقی میں دن رات مشغول رہے۔ جامعہ ابی بکر میں تعلیم و تدریس کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد پروفیسر ظفر اللہ چودھری سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض کی جامعہ امام محمد بن سعود میں داخل ہو گئے۔ وہاں آپ تقریباً تک پانچ سال زیر تعلیم رہے اور عربی ادبیات میں تعلیم حاصل کی۔ جامعہ امام محمد بن سعود میں رہ کر آپ نے وہاں کے نظام تعلیم کا بغور جائزہ لیا۔ اورپھر ریاض اور سعودی عرب کے بہت سے ماہرین تعلیم سے مشاورت کے بعد جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی کو مثالی جامعہ بنانے کے لئے نہایت عمدہ نصاب تعلیم مرتب کیا۔ تاکہ جامعہ ابی بکرالاسلامیہ کی انفرادیت قائم ہو۔ اس ضمن میں جامعہ ابی بکر میں ذریعہ تعلیم عربی قرار دیا گیا۔

تعلیم و تدریس کے لئے جامعہ ام القری مکہ مکرمہ، جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ، جامعہ امام محمد بن سعود ریاض، جامعہ ازہر مصر، جامعہ خرطوم سوڈان، جامعہ بغداد عراق اور جامعہ ابو بکر الاسلامیہ کراچی سے نہایت اعلی پائے کے استاد لئے گئے۔

جامعہ ابو بکر الاسلامیہ میں داخلے کے لئے ایک معیار مقرر کرکے نہایت ذکی و فطین طلبہ کو داخلہ دیا گیا۔ جامعہ ابی بکر میں ملکی اور غیر ملکی طلبہ نے تعلیم حاصل کی اور وہ دعوت دینے کے لئے اس وقت دنیا کے مختلف ممالک میں خدمت دین کا فریضہ ادا کر رہے ہیں۔

بلاشبہ جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی جماعت اہل حدیث پاکستان کے جامعات میں انفرادیت کا پہلو لئے ہوئے ہیں۔ پروفیسر ظفر اللہ چودھری نے خون جگر سے اس کی آبیاری کی اور آج ان کا لگایا ہوا یہ پودا تناور درخت بن چکا ہے۔ اس میں قرآن و حدیث کی تدریس کا اہتمام ہے۔ توحید و سنت کی تعلیم دی جاتی ہے، عقیدہ سلف صالحین کا دفاع کیا جاتا ہے، محدثین عظام کے کارناموں کو اجاگر کیا جاتا ہے اور اسلامی اصولوں پر طلبہ کی تعلیم و تربیت کی جاتی ہے۔

میں بارہا جماعت غرباء اہل حدیث کی سالانہ قرآن و حدیث کانفرنس میں شرکت کے لئے کراچی گیا ہوں۔ جامعہ ستاریہ میں بھی قیام پزیر رہا لیکن حرماں نصیبی ہے کہ ابھی تک جامعہ ابی بکر الاسلامیہ نہیں دیکھ سکا۔ میرے بہت سے دوستوں نے جامعہ ابی بکر کے نصاب تعلیم اور وہاں کے طریقہ تعلیم کی بہت تعریف کی ہے۔ پروفیسر ظفر اللہ مرحوم کا قائم کردہ یہ ادارہ بہت سی خصوصیات کا حامل ہے۔ پروفیسر ظفراللہ کی زندگی وفا کرتی تو وہ اپنے اس گلشن کو دیکھ کر بہت خوش ہوتے۔ اللہ تعالی نے چودھری ظفر اللہ مرحوم کو بہت سے اعزازات اور خو بیوں سے نوازا تھا۔ اور بڑے نیک متقی، تقوی شعار، طلبہ کے ہمدرد، غمگسار اور دینی تڑپ رکھنے والے انسان تھے۔ ان کی زندگی اسلام کی اشاعت، دینی تعلیم کے فروغ اور درس و تدریس میں بسر ہوئی۔ 30جون 1997 کو پروفیسر ظفراللہ چودھری اپنی گاڑی سے براستہ روڈ لاہور سے کراچی جارہے تھے۔ ان کے ہمراہ ان کے دو بیٹے ایک بھانجا اور خالہ تھیں۔ رحیم یار خان کے قریب ان کی کار کو حادثہ پیش آیا اور وہ پورے زور سے درخت سے جا ٹکرائی۔ حادثہ اس قدر شدید تھا کہ کار میں سوار پانچوں افراد موقع پر ہی دم توڑ گئے۔ انا للہ ونا الیہ راجعون

پروفیسر ظفراللہ چودھری نے ماہر تعلیم کی حیثیت سے جماعت اور دین کی بڑی خدمت کی۔ ان کی حسنات کی فہرست بڑی طویل ہے ہم اللہ کے حضور دعا گو ہیں کہ وہ اپنے اس بندے کی حسنات کو اپنی بارگاہ میں قبول فرما کر انہیں جنت الفردوس میں بلند مقام عطا فرمائے۔ آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے