کسے خبر تھی کہ اس پر فتن اور مادی دور میں پروفیسر ظفراللہ سے حق تعالی اپنے محبوب کے لائے ہوئے دین کا ایسا کام اس شان و شوکت سے لے گا کہ باشندگان عرب و عجم آپ کے لگائے ہوئے شجرہ طیبہ (جامعہ ابی بکر الاسلامیہ) سے مستفید ہوں گے دعا ہے کہ رب العزت اسے عالم اسلام کی رہنمائی کا شرف بخشے آمین ثم آمین۔ وما ذلک علی اللہ بعزیز۔ وما النصر الا من عنداللہ العزیز الحکیم

اگرچہ اس تعلیم و تربیت ، غلبہ اسلام کا کام اور مسلمانوں کی بیداری کی لہر شہیدین شروع کر چکے تھے۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا امتدادِ زمانہ کے ساتھ ساتھ لوگ خواب غفلت سے بیدار ہوتے گئے اور آفتاب ہدایت کی شعائیں اور فکر غلامی سے آزادی کا جذبہ بلند سے بلند تر ہوتا گیا۔ لوگوں میں دینی تعلیم کا ولولہ بڑھتا گیا۔

بلاشبہ کراچی میں اہل حدیثوں کے مدارس موجود تھے مگر ان کی حیثیت نمایاں نہ تھی۔ ورثۃ الانبیاء اپنی اپنی طاقت اور بساط کے مطابق کام کر رہے تھے۔ جن کے اخلاص و عمل میں کوئی ریب نہ تھا۔ پروفیسر صاحب نے اس دینی درسگاہ کو بڑے موثر انداز میں عالم اسلام کے سامنے پیش کیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے جامعہ ابی بکر مرجع خلائق بن گئی۔ جس میں کائنات کے اطراف و اکناف کے مشتاقان علم اپنی علمی پیاس بجھانے کیلئے جوق در جوق آنے لگے۔ جلد ہی جامعہ نے اپنے تعلیمی معیار اور اللہ کے فضل و کرم کے ساتھ دنیا میں نام منوالیا۔ ذرا دیکھے! دنیا کے ہر کونے میں کوئی نہ کوئی طالب علم بیٹھا قال اللہ وقال الرسول کا مطالعہ کر رہا ہے اور دنیا میں اٹھنے والے تمام فتنوں سے علما اور طلبا جامعہ ابی بکر پوری طرح آگاہ ہیں۔

میرے شفیق رحیم اور کریم استاد کا عزم تھا کہ جامعہ ابی بکر دنیا کی معروف اسلامی جامعات میں اہم اور خاص مقام حاصل کرے۔ لیکن زندگی نے وفا نہ کی۔ قدرت نے ان کے ذمے دین کا جس قدر کام لگایا تھا۔ آپ اس کی تکمیل کر کے چلے گئے۔ باقی ذمہ داری ان کے فرزند ارجمند ضیا الرحمن مدنی صاحب کی ہے۔

امید لائق پر فاضل نوجوان کریم ابن کریم اپنے عظیم باپ کے عظیم منصوبوں کو ان کی خواہشات کے مطابق ضرور پایہ تکمیل کو پہنچائے گا۔ جس کی وجہ سے ان کے والد صاحب پروفیسر مرحوم کے درجات جنت میں بلند ہوں گے۔ مجھے قوی امید ہے کہ یہ باصلاحیت نوجوان ظفر اللہ کے مخلص دوستوں سے اللہ کی رضا کے لیے اور جامعہ کی بہتری کے لیے اور یہ کہ تعلیمی معیار بلند کرنے کیے مشاورت کا عمل جاری رکھے گا۔ اور اسے کامل جامعہ عالمیہ بنا دے گا۔

مدنی صاحب کو ادراک ہے کہ ان کے والد عظیم تھے اور عظیم لوگوں کے قدر دان تھے۔ عصر حاضر میں شہید ایک تحریک تھے انہوں نے نہ جانے کتنی علمی تحریکوں کو جنم دیا۔ آپ اگرچہ کم گو مگر عالم باعمل تھے۔ وہ ورع اور تقوی کے بہت ہی اونچے مقام پر فائز نظر آتے ہیں۔ آپ بڑے رقیق القلب اور اللہ اور اس کے رسولﷺ سے بے پناہ محبت کرنے والے تھے۔ صرف یہی نہیں آپ منکسر المزاج، مہمان نواز اور حاتم وقت تھے۔آپ کے وسیع دسترخوان پر بڑے بڑے جید علماء اور اللہ والے لوگ پائے جاتے تھے۔ پروفیسر صاحب اچانک ہی دار فانی سے چلے گئے اور اپنے شاگردوں اور علماء کواداس چھوڑ کر چلے گئے۔

آخر میں اس بات کا ذکر ضروری ہو گا کہ ہماری اماں کا استاد محترم کو جید عالم بنانے میں ایک بنیادی کردار ہے۔ وہ بھی اپنے عظیم شوہر کی جدائی میں مخزون و مغموم رہتی ہوں گی۔ خدائے بزرگ و برتر انہیں صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے